Home قومی خبریں اردو اکادمی، دہلی کے زیر اہتمام سہ روزہ سمینار ’’دکنی زبان و ادب: روایت اور معاصر صورتِ حال ‘‘کا افتتاح

اردو اکادمی، دہلی کے زیر اہتمام سہ روزہ سمینار ’’دکنی زبان و ادب: روایت اور معاصر صورتِ حال ‘‘کا افتتاح

by قندیل

نئی دہلی: اردو اکادمی، دہلی کے قمررئیس سلورجبلی آڈیٹوریم میں ’دکنی زبان و ادب:روایت اورمعاصر صورت حال‘ کے عنوان سے سہ روزہ قومی سمینار کا افتتاحی اجلاس منعقد ہوا،جس کی صدارت پرفیسر عبدالحق پروفیسر ایمریٹس دہلی یونیورسٹی نے کی،مہمان اعزازی کی حیثیت سے پروفیسرصادق، سابق صدرشعبہ اردو دہلی یونیورسٹی،کلیدی خطبہ ڈاکٹراودھیش رانی باوا حیدرآباد ،استقبالیہ کلمات محمد احسن عابد سکریٹری اردواکادمی دہلی اورتعارفی کلمات پروفیسرمعین الدین جینا بڑے کنوینر سمینار نے پیش کیے۔

صدارتی تقریرکرتے ہوئے پروفیسر عبدالحق نے کہاکہ شمالی ہند والے کی ترچھی نظر کی وجہ سے دکنی زبان وادب پر آج تک شمال میں کوئی سمینار نہیں ہواہے،انھوں نے میر کے نکات الشعراکا ذکرکرتے ہوئے کہاکہ میر نے اپنے تذکرے کے پہلے صفحے پرہی لکھاہے کہ دکن میں کوئی قابل ذکر شعرانہیں ہیں، اس لیے وہ اپنے تذکرے میں کسی کا نام شامل نہیں کررہے ہیں،میر کی اس تنگ نظری نے دکن کی جانب سے شمال کے شعراکو پھیردیا،انھوں نے کہاکہ اردو کی ابتداخسروسے نہیں بلکہ مدرسہ ناصریہ سے ہوئی ہے،انھوں نے مزید کہاکہ دکن کی شاعری میں سیاسی تصادم عرب سے بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ دکن میں عربی کے بہت سے الفاظ مستعمل ہیں،انھوں نے ولی کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ ولی کی کلیات میں ساٹھ سے زائد قرآنِ کریم کی تلمیحات کا ذکر ملتاہے،ولی کے علاوہ یہ خصوصیات صرف اقبا ل کے یہاں ہیں۔انھوں نے کہاکہ اردو اکادمی، دہلی نے بہت سے مونوگراف لکھوائے ہیں ،سکریٹری کو مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ اردو اکادمی،دہلی دکن کے شعراوادباپر مونوگراف شائع ہوناچاہیے،انھوں نے حاتم،آبرو،قلی قطب شاہ پر بات کرتے ہوئے کہاکہ انھوں نے بہت سی اچھی نظمیں تحریرکی ہیں،اورہندوستانی تہواروں پر ان کی نظمیں آج بھی بے حد مقبول ہیں۔

ڈاکٹراودھیش باوارانی نے کلید ی خطبہ پیش کیا۔انھوں نے اپنے خطبے کو تین ادوار میں تقسیم کیا،عہد صوفیا،دبستان گولکنڈہ وبیجاپوراورعہدحاضر۔ انھوں نے کہاکہ یہ زبان پہلے ہندوی،گجری،دکنی اورپھر اردو کہلائی، تمام دبستان دکن کے ادبی منظرنامے پرگفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ان علاقوں کے بادشاہوں نے خو د بھی شاعری کی اوران کے زیر اثربہت سے شعرانے عمدہ مثنویاں تحریرکیں جس سے کہ اس زبان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا،انھوں نے دکنی زبان کی لسانی خصوصیات اوراس کے استعمال کے طریقِ کار کو بھی بیان کیا۔نشاطی،ولی دکنی اورسراج اورنگ آبادی پربات کرتے ہوئے کہاکہ ان لوگوں نے دکنی زبان کے فروغ اوراس کے ارتقامیں اہم کردار اداکیااوران شعرا کی وجہ سے ہی یہ زبان عوام کی زبان بن گئی۔

مہمان اعزازی پروفیسر صادق نے اپنے خطاب میں کہاکہ اس زمانے میں زیادہ ترمثنویاں تحریرکی گئیں، اس لیے کہ اس وقت مثنوی لکھنے والے شاعر کو بڑاشاعرتسلیم کیاجاتاتھا۔ماہنامہ شگوفہ پرگفتگوکرتے ہوئے کہاکہ موجودہ وقت میں یہ رسالہ دکنی ادب کی نمائندگی کرتاہے،دکنی زبان کے حوالے سے اس رسالے کا مطالعہ ضرورکرناچاہیے،مزید کہاکہ دکنی زبان آج بھی لکھی جارہی ہے لیکن دیگر زبانوں کی طرح اس کے بھی لکھنے پڑھنے والے کم ہوگئے ہیں۔

پروفیسرمعین الدین جینابڑے کنوینرسمینار نے تعارفی کلمات اورسمینار کے اغراض ومقاصد پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس موضوع پر اردو اکادمی،دہلی پہلی بارسمینار منعقد کررہی ہے، جس میں اس بات کی کوشش کی ہے کہ ان تمام موضوعات کا احاطہ کیاجائے جن کا ابھی تک نہیں کیاگیاہے۔دکنیات کی طرف راغب کرنے کی یہ ایک اہم کوشش ہے۔عام طور پرقدیم دکنی متون کی بازیافت کی روایت رہی ہے اوریہ آجکل کمزورپڑرہی ہے،اسے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے،دکنی لغت پر بھی خاطرخواہ کام نہیں ہوا ہے ،دکنی ادب کی تاریخ پر بھی خاطرخواہ کام نہیں ہواہے،دکن کی تہذیب و تاریخ پر توجہ اہل علم کی کم رہی ہے،دکن کی سیرحاصل اورمبسوط تاریخ ابھی تک نہیں لکھی گئی ہے۔آج دکنی متن کی صحت کیساتھ قرأ ت کرنے والے کم ملتے ہیں،دکنی زبان وادب کی حیثیت حاشیائی مضامین کی ہوگئی ہے،دکنی ادب سے خاص شغف رکھنے والے اساتذہ دکنی ادب کی طرف کم ہی مائل کرپاتے ہیں۔

محمداحسن عابد نے کہاکہ دکنی ادب کی اہمیت و افادیت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ تقریباًسارے کالجز اوریونیورسٹیوں میں دکنی ادب پر کتابیں پڑھائی جاتی ہیں اوردکنی ادب نصاب میں شامل ہے،چونکہ آج کل دکنی ادب پر زیادہ توجہ نہیں ہے، اس لیے یہ سمینار منعقد ہواہے تاکہ لوگ دکنی ادب کی اہمیت کو سمجھیں۔

افتتاحی اجلاس کے بعد طرحی مشاعرہ ہوا جس میں ڈاکٹر جی آرکنول،پروفیسرغضنفر،پروفیسرخالد علوی،جناب اسلم مرزا،ڈاکٹررؤف خیر،پروفیسرشہاب الدین ثاقب،پروفیسرظہیر رحمتی،ڈاکٹر شعیب رضاخاں وارثی،ڈاکٹرمعید رشیدی اوارڈاکٹر واحد نظیر شریک ہوئے۔ مشاعرے کی صدارت ڈاکٹر جی۔آر۔ کنول اور نظامت ڈاکٹر واحد نظیر نے کی۔

افتتاحی پروگرام کی نظامت کے فرائض ڈاکٹرخالد مبشر نے انجام دیا اورکلمات تشکر اردو اکادمی دہلی کے سکریٹری احسن عابد نے ادا کیے،پراگرام میں خصوصی طورپر ظفراقبال،حبیب سیفی،نزاکت امروہوی،اسرار قریشی،محمد انس،ڈاکٹرامیرحمزہ اورداکٹرشاداب شمیم وغیرہ شریک ہوئے۔

You may also like