Home مقبول ترین ثقافتی یلغار: کشمیر ی زبان کے بعد وازوان نشانے پر ـ افتخار گیلانی

ثقافتی یلغار: کشمیر ی زبان کے بعد وازوان نشانے پر ـ افتخار گیلانی

by قندیل

اپریل 1985کو جموں و کشمیر کے گورنر جگموہن اور ریاستی کانگریسی لیڈروں نے وزیر اعلیٰ غلام محمد شاہ کو گدی سے اتارنے کی پوری تیاری کی تھی۔ شاہ نے ایک سال قبل وزیراعظم اندرا گاندھی کی مددسے نیشنل کانفرنس کے 15 اراکین اسمبلی کو توڑ کر اپنے سالے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو تخت سے اتارا تھا۔ گورنر نے شکایتوں کا ایک پلندہ نئے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو بھیجا تھا اور نئی حکومت بنانے کی سفارش کی تھی۔ مقامی کانگریسی لیڈروں کی رال ٹپک رہی تھی۔ 1975کے بعد پہلی بار وہ اقتدار کے قریب آرہے تھے۔ ان سبھی پیش رفتوں کے درمیان معمر اور جہاندیدہ وزیر اعلیٰ شاہ نے سرینگرکے بہترین باورچیوں اور تین صحافیوں کومنتخب کرکے جہاز میں دہلی کا رخ کیا۔چانکیہ پوری کے جموں و کشمیر گیسٹ ہاوٗس میں انہوں نے نوجوان وزیر اعظم اور ان کے قریبی رفقا کی دعوت کرکے ان کو پر لطف کشمیری پکوان کھلائے۔ کھانے کے فوراً بعد شاہ نے صحافیوں کو اشارہ کیا ۔ انہوں نے وزیر اعظم سے کشمیر میں حکومت کے مستقبل کے بارے میں استفسار کیا۔ چونکہ گاندھی اس وقت کھانے کے بعد ابھی تک انگلیاں ہی چاٹ رہے تھے،سو انہوں نے کہا کہ’’ فی الحال ریاست میں حکومت تبدیل کرنے یا نئے انتخابات منعقد کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان کی کانگریس پارٹی غلام محمد شاہ حکومت کی حمایت جاری رکھے گی۔‘‘ یہ بیان گورنر جگموہن اور مقامی کانگریسی لیڈروں کیلئے دھماکہ سے کم نہیں تھا۔ اس کشمیری پکوان یعنی وازوان کی بدولت شاہ صاحب کی حکومت کو ایک سال کی زندگی ملی۔ اگلے سال 1986 میں راجیو گاندھی نے فاروق عبداللہ کے ساتھ صلح کرکے حکومت ان کے حوالے کردی۔

کہتے ہیں کہ اسی وازوان کی و جہ سے ہی پنڈت جواہر لال نہرو اپنے رائے شماری کے وعدے سے مکر گئے۔ وہ اس پکوان کے گرویدہ تھے اور اکثر سرینگر سے منگواتے تھے۔ اگر کشمیر ہاتھ سے چلا جاتا ، تو وازوان بھی رخصت ہوجاتا۔ دسمبر 1955میں جب روسی رہنما نکیتا خروشچیف سرینگر آئے، تو خاص طور پر ان کی تواضع وازوان کی ایک ڈش گوشتابہ سے کی گئی۔ شیخ عبداللہ کی معزولی اور گرفتاری کے بعد بخشی غلام محمد وزیر اعظم بنے تھے۔ نہرو کے نمائندے کے طور پر اندرا گاندھی اور بخشی کی ایک تصویر جس میں وہ خروشچیف کے منہ میں گوشتابہ ٹھونس رہے ہیں ، خاصی مشہور ہوئی۔ روسی راہنماوٗ ں کا یہ دورہ بقول شیخ محمد عبداللہ مسئلہ کشمیر کی ہی نہیں، بلکہ برصغیر کی سیاسیات میں ایک اہم موڑ کی حثیت رکھتا ہے، جس نے بعد میں چین کے خلاف ایک عالمی اتحاد کی میزان تیار کی ۔
موجودہ دور میں کشمیر اور بھارت۔پاکستان تعلقات پر حرف آخر سمجھے جانے والے دانشور اے ، جی ، نورانی سے جب میں نے ایک دن پوچھا کہ آخر کون سی چیز کشمیر پر ان کی دلچسپی کا محرک بنی، تو ان کا کہنا تھا کہ60ء کی دہائی میں سوشلسٹ لیڈر مردولا سارابائی نے بطور وکیل ان کو شیخ عبداللہ کا مقدمہ لڑنے کیلئے مقرر کیا۔ مگر ان کی مسلسل دلچسپی کی وجہ بعد میں وازوان بنا۔ 1975کے بعد جب شیخ عبداللہ اقتدار میں آئے ، نورانی کے ساتھ اختلافات کے باوجود وہ ان کو سرینگر سے پکا ہوا وازوان بذریعہ طیارہ ممبئی بھیجتے تھے۔ دہلی میں ایک کشمیری شیف احد وازاہ کے صاحبزاے بھی ان کو اکثر کورئیر سے پکا ہوا کھانا ممبئی بھیجتے ہیں۔

ٍ غالباً2011میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپوزیشن میں تھی، اور جموں میں اس کے لیڈران حکومت کے خلاف ایجی ٹیشن کر رہے تھے۔ اس میں شمولیت کیلئے جب ان کے مرکزی رہنماوٗں کی ایک کھیپ بذریعہ طیار ہ جموں پہنچی تو ان کو گرفتار کرکے 100کلومیٹر دور کھٹوعہ ضلع کے کسی گیسٹ ہاوس میں رکھا گیا۔ اس وفد میں شامل کرناٹک کے ایک لیڈر اننت کمار نے فرمائش کی کہ و ہ ڈنر میں کشمیری وازوان کھانا چاہتے تھے۔ شاید وہ پہلی بار جموں و کشمیر وارد ہوئے تھے۔ بی جے پی کے مقامی لیڈروں نے گاڑی دوڑا کے جموں سے کسی کشمیری ریسٹورنٹ سے وازوان کے کئی پکوان منگوائے۔ کھانے کے وقت جب آنجہانی ارون جیٹلی ان کی پلیٹ پر رستہ اور گوشتابہ پروس کر ان ڈشوں کو متعارف کروارہے تھے، تو وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ ان کو وازوان چاہئے ، جس کے بارے میں انہوں نے بہت کچھ سنا ہے، رستہ اور گوشتابہ نہیں۔ بعد میں ان کو بتایا گیا کہ وازوان کسی مخصوص ڈش کا نام نہیں ہے، بلکہ پکوانوں کے ایک تسلسل یا مجموعہ کو کہتے ہیں۔ اہم دعوتوں پر تو ان کی گنتی 36تک پہنچتی ہے۔

خیر 5اگست 2019کے بعد جس طرح کشمیری عوام کی غالب اکثریت کے تشخص ،تہذیب و کلچر پر بھارتی حکومت اور اس کے کارندے کاری ضرب لگا رہے ہیں، اسی طرح فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں وازوان بھی شہتیر کی طرح بری طرح کھڑک رہا ہے۔ جہاں ریاست کی سرکاری اور قومی زبان اردو کا جنازہ نکال دیا گیا، کشمیری کا اسکرپٹ تبدیل کیا گیا، اسی طرح خطے کو وازوان کی انفرادیت سے بھی محروم کرنے کی سازش شروع ہو گئی ہے۔ پچھلے دنوں بالی ووڈ کے ایک پروڈیوسر اور بی جے پی کے حلیف وویک اگنی ہوتری نے کہا کہ انہوں نے کشمیری وازوان کو ہندوستانی رنگ دینے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ سرینگر کے ایک ہوٹل میں دی گئی دعوت کی تصویر سوشل میڈیا پر جاری کرتے ہوئے انہوں نے تحریر کیا کہ وہ کشمیر میں نیا پکوان متعارف کروانے آئے ہیں۔ ـ’’کشمیر میں کسی کو بھی ویجیٹیرین[سبزی] وازوان بنانا نہیں آتا ہے۔ میں یہ تبدیلی لانے کیلئے آیا ہوں۔‘‘ اگنی ہوتری کشمیری پنڈتوں کی ہجرت پر ایک فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں سرینگر میں تھے۔ شاید ان کو معلوم ہی نہیں کہ وازوان کی اساس ہی تازہ بھیڑ کے گوشت پر منحصر ہے۔

جسٹس غلا م نبی گو ہر کے مطابق جب 1974 میں سرینگرکی اس وقت کی حکومت نے گیسٹ کنٹرول آرڈر جاری کرکے وازوان کی ڈشوں کو پانچ تک محدود کردیا تھا۔ بقول مرحوم جسٹس غلام نبی گوہر ، کسی نے اس آرڈر کوعدالت میں چلینج کیا ۔ جب ان کے پاس کیس پہنچا تو انہوں نے لکھا کہ وازوان کا مقصد ہے کہ بھیڑ کے تمام اعضا استعمال ہونے چاہئیں۔ اسی لئے اس کے الگ الگ پکوان بنتے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر حکومت دعوت میں صرف پانچ پکوان پکانے کی اجازت دیتی ہے، تو میزبان باقی گوشت کا کیا کریگا؟ جہاں دیگر علاقوں میں بھیڑ کے اندرونی اعضا یعنی انتڑیاں، معدہ ، گردہ وغیرہ ضائع کئے جاتے ہیں، وازوان میں اس کی بھی ایک ڈش بنتی ہے۔ خیر تب تک شیخ عبداللہ برسر اقتدار آچکے تھے، اور انہوں نے گوہر کو سراہا اور کہا کہ کشمیریوں کے کھانے پر بھی قد غن لگ رہی تھی۔

کشمیری وازوان کے کباب بھی مختلف طریقے سے تیار کئے جاتے ہیں۔ دیگر ڈشوں میں میتھ ماز، روغن جوش، آب گوش، رستہ، یخنی، تبخ ماز، گوشتابہ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ وازوان کھانے کے آداب بھی نرالے ہوتے ہیں۔ ایک پڑی پلیٹ یعنی ترامی میں چار افراد ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں اور ڈشوں کو سرو کرنے کی بھی مخصوص ترتیب ہوتی ہے۔

کہتے ہیں کہ 14ویں صدی میں جب امیر تیمور کے خوف سے وسط ایشیا سے ہنر مند افراد ہجرت کرکے کشمیر وارد ہو رہے تھے، تو انہوں نے وازوان کو متعارف کروایا۔ مگر اس کو پروان چڑھانے اس کو مزید جلا بخشنے کا سہرا مقامی آبادی کے سر جاتا ہے۔ کیونکہ واز قدیم کشمیری اور سنسکرت واجا یعنی پکانے سے ماخذ ہے۔ اس کے پکانے والے کو وازہ کہا جاتا ہے ، جو فارسی لفظ آشپاز سے مستعار لیا گیا ہے۔ آشپاز خصوصی خانساماں یا باورچی کو کہتے ہیں۔ وازوان کا گوشت بلکل تازہ ہونا چاہئے۔ دعوتوں سے قبل اکثر قابل آشپاز پہلے زندہ بھیڑ کا خود تجزیہ اور معاینہ کرتے ہیں اور پھر اپنے سامنے کٹواکر کھانا بنانا شروع کردیتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے کشمیری وازوان کے ریسٹورنٹ مفقود ہیں یا کامیاب نہیں ہوپاتے ہیں۔ کیونکہ وازوان کی ضرورت کیلئے کچے گوشت کی شیلف لائف کم ہے اور پھر اس کو پکانے کیلئے خاصی لیبر بھی درکار ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی قیمت بھی کچھ زیادہ ہو جاتی ہے۔

وازوان صرف پکوانوں کا ہی نام نہیں ہے، بلکہ ایک ہی پلیٹ میں اس کا کھانا لازمی بنانا دراصل 700سال قبل کے کشمیر میں ذات پات اور برادری واد کے خلاف ایک بغاوت تھی۔اسلام کی آمد سے قبل دعوتوںمیں ایک ہی پلیٹ میں امیر اور غریب ، مہتر و شیخ و برہمن کا کھانا ناممکن تھا۔معروف صحافی مزمل جلیل کے مطابق دراصل وازوان کو نئی شکل دینے کی آڑ میں اس کلچر کی نفی کی جار رہی ہے۔ اور پچھلی سات صدیوں کو ایک تاریک دور کے بطور اجاگر کیا جا رہا ہے، تاکہ کشمیر کی مسلم شناخت کو ختم کرکے خانقاہوں ،بزرگان دین، رشیوں کو ان کے ذہن سے نکالا جائے۔

ایک سال قبل کشمیر ی زبان کا رسم الخط تبدیل کیا گیا۔ اس سے قبل کشمیر میں گورنر انتظامیہ نے کشمیری ثقافتی لباس پھیرن پر پابندی لگادی تھی۔ کسی قوم کو ختم کرنے کیلئے صدیوں سے قابض طاقتوں کا وطیرہ رہا ہے کہ اس کو اس کی تاریخ و ثقافت سے دور کردو۔ کشمیریوں کی نسل کشی کیساتھ کشمیر کی ثقافت کو بھی ختم کرنا اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ کشمیر ی زبان اور اس کے ادب کے ساتھ وازوان بھی کشمیر کے باسیوں کی ہنرمندی اور ان کے ذوق کی پہچان ہے ۔ضروری ہے کہ یونیسکو کے ذمہ داروں کو باور کرایا جائے کہ ایک زندہ قوم سے اس کی ثقافت بزور طاقت چھینی جا رہی ہے۔

You may also like

Leave a Comment