Home تجزیہ کرونا وائرس: دنیا کے سرپر منڈلاتاعذابِ الٰہی کا سایہ

کرونا وائرس: دنیا کے سرپر منڈلاتاعذابِ الٰہی کا سایہ

by قندیل

 

غوث سیوانی، نئی دہلی

email:[email protected]

 

کرناوائرس دنیا کے سرپر موت کا سایہ بن کر منڈلا رہا ہے۔کسی کو نہیں معلوم کہ اس کا علاج کیاہے اور اس سے کیسے بچاجائے؟ اب تک ہزاروں افراد اس مہلک وائرس سے مرچکے ہیں اور دنیا کے ستر سے زیادہ ملکوں کے لوگ اس کا شکار ہوچکے ہیں۔اربوں ڈالر کا اقتصادی نقصان، دنیا برداشت کر چکی ہے اور پتہ نہیں کہ کب تک یہ وائرس دنیا میں تباہی پھیلاتا رہے گا۔ آج صورت حال غیریقینی ہے اور میڈیکل سائنس کے شعبے میں ترقی یافتہ دنیا بھی سمجھ نہیں پارہی ہے کہ اس بربادی سے بچنے کے لئے کیا قدم اٹھایا جائے۔تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود نہ تو اس خطرناک وائرس کو ختم کیا جاسکا ہے اور نہ اس سے نجات کا راستہ دکھ رہاہے۔ یہی سبب ہے کہ اسے عذابِ الٰہی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔حالانکہ میرا ماننا ہے کہ یہ عذاب نہیں بلکہ عذاب کی تنبیہ ہے۔ ماضی میں نافرمان قوموں کو اللہ تعالیٰ نے کبھی آسمانی آفتوں سے تباہ کیا تو کبھی امراض کے ذریعے نیست ونابود کیا۔ آج بھی ارضِ خدا انسان کی سرکشی اور نافرمانی کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں اگر زمین کے بسنے والوں پرعذابِ الٰہی نازل ہوتا ہے تو تعجب کیا ہے؟

دنیا میں دہشت

چین سے امریکہ تک اور کوریاسے ایران تک کروناوائرس کے سبب ہاہاکار مچا ہوا ہے۔ دہشت اس قدر زیادہ ہے کہ اشیاء کی درآمد اور برآمد کو بھی روک دیا گیا ہے۔علاوہ ازیں بڑی تعداد میں انسانی جانوں کے اتلاف کابھی خطرہ بنا ہوا ہے۔ اس کی زد میں بھارت اور پاکستان کے آنے کا اندیشہ سب سے زیادہ ہے کیونکہ دونوں ہی چین کے پڑوسی ممالک ہیں۔ حالانکہ اچھی بات یہ ہے کہ یہ دونوں ہی ملک اب تک محفوظ ہیں۔ میڈیا کی خبروں کے مطابق اب تک دنیا کے کم از کم ستر ملکوں میں وائرس پہنچ چکا ہے اور ترقی پذیرملکوں میں مہاماری کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔اس کا آغاز چین میں ہوا اور سب سے زیادہ اموات بھی وہیں ہوئیں۔چینی صدرنے کہاتھا کہ ہم اس ’شیطانی چمگادڑ‘سے لڑینگے اور جیت حاصل کریں گے۔‘ چین اب بھی اپنے صدر کے قول پر عمل کی کوشش کر رہاہے۔

ماہرین کے مطابق کرونا وائرس سانپ اور چمگادڑکے گوشت میں پایاجاتا ہے۔ چین میں یہ گوشت لوگوں کی خوراک کا حصہ ہے لہٰذا آسانی کے ساتھ یہ آدمی کے بدن میں پہنچ گیااور اب پوری دنیا اس کے نشانے پر ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ موتیں ’پلیگ‘ سے ہوئی تھیں جو چوہے سے انسان تک پہنچا تھا اور اب اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر کنٹرول میں تاخیر ہوئی تو اس سے بھی زیادہ موتیں کرونا وائرس سے ہوسکتی ہیں۔ یہ خدشہ اس لئے بنا ہوا ہے کہ چین کی تمام ریاستوں میں پھیل چکا ہے، جو دنیا کا سب سے زیادہ آباد ی والاملک ہے، اور یہاں سے جانے والے مسافروں کے ذریعہ دوسرے ممالک میں دستک دے چکا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ ایک متعدی بیماری ہے اور اس سے بچنے کے لئے چین میں درجنوں شہروں کو سیل کردیا گیا ہے اور کروڑوں افراد کوپا بندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پھر بھی سرکاری اعداد کہتے ہیں کہ متاثرین کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اب تک جرمنی، فرانس، جنوبی کوریا، جاپان، نیپال، تھائی لینڈ، تائیوان، آسٹریلیا، امریکہ،اٹلی، سنگاپور اور ویتنام نے اپنے ہاں کرونا وائرس کی تصدیق کردی ہے جب کہ جنوبی کوریا اور ایران میں بہتوں کی موتیں بھی ہوچکی ہیں۔ ایرانی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ دوسو سے زیادہ افراد،ایران میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ دہشت کا یہ عالم ہے کہ لوگ مسجدوں میں اجتماعی طور پر نماز کی ادائیگی سے بھی بچ رہے ہیں۔ ادھر احتیاط کے طور پر سعودی عرب نے عمرہ وزیارت کے لئے ویزا دینا بند کردیا ہے۔

بھارت اور پاکستان میں دہشت

ہندوستان اور پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں کرونا وائرس کے چند معاملے ہی سامنے آئے ہیں۔یہ معاملے بھی ان لوگوں میں پائے گئے تھے جو چین، اٹلی وغیرہ سے آئے ہیں۔حالانکہ ایسے لوگوں کوعلاج کے بعد اسپتالوں سے چھٹی بھی دیدی گئی ہے۔ باوجود اس کے حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ نمٹنے کی تمام تیاریاں کرلی گئی ہیں اور چین ودوسرے ملکوں سے آنے والے مسافروں کی خصوصی نگرانی کی جارہی ہے۔ ادھر پاکستان میں زیادہ خوف ودہشت ہے کیونکہ اس کی سرحد، چین سے ملتی ہے اور دونوں ملکوں کے تعلقات زیادہ بہتر ہیں تو سرحد کی دونوں جانب سے لوگوں کی آمدورفت بھی زیادہ ہے۔ پاکستان میں بڑی تعداد میں چینی موجود ہیں جب کہ خاصی تعداد میں پاکستانی بھی چین میں ہیں۔ اِن دِنوں دونوں ملکوں کے لوگوں میں رشتہ داریاں بھی ہورہی ہیں۔چین میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر،کئی ایئر لائنز نے وائرس کو دوسرے ممالک میں پھیلنے سے روکنے کے لئے ہوائی جہازوں کی پروازیں منسوخ کردی ہیں۔

میڈیکل ایمرجنسی کا اعلان

عالمی ادارہ صحت نے کرونا وائرس کو عالمی سطح پر ایک ہنگامی صورتحال قرار دیا ہے۔ کرونا وائرس کے انفیکشن میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جس کے بعد عالمی ادارہ صحت نے اس کا اعلان کیا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سربراہ ٹیڈروس ایڈنوم گیبریسوس نے کہا کہ اس اعلان کے پیچھے بنیادی وجہ چین کی موجودہ حالت نہیں ہے بلکہ اس کا دوسرے ممالک میں پھیلنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تشویش یہ ہے کہ یہ وائرس ان ممالک میں بھی پھیل سکتا ہے، جہاں صحت کا نظام کمزور ہے۔ صرف چین میں اب تک سینکڑوں افراد، اس وائرس کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

کیا ہے کرونا وائرس؟

کرونا وائرس کی ابتدائی علامات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کی علامات ہیں سانس لینے میں تھوڑی پریشانی، کھانسی یا ناک بہنا۔حالانکہ جب اس کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں تو سانس لینے میں تکلیف بڑھ جاتی ہے اور کھانسی، زکام میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ پھر کھانسی اور زکام کے بعد بخار بھی آجاتا ہے لیکن سنگین معاملات میں، یہ انفیکشن نمونیہ یا سارس ہوجاتا ہے، نیز گردے کی خرابی کی حالت بن جاتی ہے اور مریض کی موت تک ہوسکتی ہے۔ کرونا کے زیادہ تر مریض بزرگ افراد ہیں، خاص طور پر وہ جو پارکنسن یا ذیابیطس جیسی بیماریوں کے شکار ہیں۔ فی الحال اس انفیکشن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کوئی خاص علاج موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر اس وقت اس کی علامات کی بنیاد پر متاثرہ مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے متاثرہ علاقوں کو پہلے سے طے شدہ عام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے تاکہ انفیکشن کے خطرے کو کم کیا جاسکے۔ ان اقدامات میں ہاتھوں کو صاف رکھنا، ماسک پہننا اور کھانے، پینے میں احتیاط شامل ہے۔اسی کے ساتھ لوگوں کو سانس لینے میں انفیکشن ہونے سے بچنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔کرونا وائرس سے متاثرہ افراد چھینکیں تو سامنے کھڑے افراد کوانفیکشن ہوسکتا ہے لہٰذااس بچیں۔

دنیا کی اقتصادیات کی کمرتوڑ سکتا ہے وائرس

کروناسے چین میں بہت سی موتیں ہو چکی ہیں اوردنیا کے بہت سے ممالک میں اس نئے وائرس کے مریضوں کی تشخیص ہو چکی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس وائرس کے خلاف مدافعت پیدا کرنے والی وکسین کی تیاریوں کا سلسلہ بھی چل رہا ہے مگر اس کی روک تھام سے پہلے ہی عالمی اقتصادیات کو بہت نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔ صورت حال پر نگاہ رکھنے والے بین الاقوامی ادارے اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کی سینیئر اہلکار اگاتھا ڈیماریس کا کہنا ہے کہ ’مالیاتی منڈیوں کو سردست جس خطرے کا سامنا ہے، وہ چند روزہ بھی ہو سکتا ہے اور یہ صورت حال اْس وقت شدید ہو جائے گی جب سرمایہ کاروں کو مجموعی حالات کے بے قابو ہونے کا اندیشہ لاحق ہو گا۔‘جب کہ امریکہ میں اب تک دوافراد کروناوائرس سے مرچکے ہیں اور بڑا اقتصادی نقصان ہورہا ہے۔ وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ’امریکی اسٹاک مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے زبردست کمی دیکھی گئی۔ 2008 کے مالی بحران کے بعد عالمی انڈیکس میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ کرونا وائرس کے باعث عالمی سطح پر مختلف پابندیوں کے باعث دنیا بھر کی مارکیٹس کو پانچ کھرب ڈالر سے زائد کے خسارے کا سامنا ہے۔‘ ادھر بھارت جس کی معیشت پہلے ہی کسادبازاری سے گزر رہی ہے، کی وزیرخزانہ نرملا سیتا رمن نے بھی گزشتہ دنوں کرونا وائرس کے سبب ملک کی اکانومی کو نقصان کااندیشہ ظاہر کیا تھا۔وائرس سے متاثرہ ممالک سے تجارت میں حالیہ ایام میں کمی آئی ہے اور ٹیکس کلکشن بھی گھٹا ہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment