کورونا وائرس کی خطرناکی اپنی جگہ لیکن اس کی آڑ میں مسلمانوں کے تئیں نفرت کا جو وائرس لوگوں کے ذہنوں میں ڈالا اور ان کے خلاف جو ایک ماحول بنایا جا رہا ہے وہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے ـ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کو کامیاب بنانے کیلیے نہ صرف یہ کہ موجودہ فاشسٹ حکومت میڈیا کا استعمال کر رہی ہے بلکہ اس میں ڈاکٹروں کا بھی اہم رول ہے اور ان دونوں کی اجتماعی کوششوں سے ہی مسلمانوں، خصوصا جماعتیوں کو بطورِ ویلن پیش کر کے ملک بھر میں کورونا کو پھیلانے کا ٹھیکرا ان کے سر پھوڑا جا رہا ہے؛ تا آں کہ کورونا کے جتنے بھی پوزیٹیو کیسیز سامنے آرہے ہیں ان میں اکثریت مسلمانوں کی دکھائی جارہی ہے جو صرف اور صرف دھوکہ ہے، فریب ہے ـ در اصل ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کا رپورٹ نیگیٹیو ہونے کے باوجود پوزیٹیو بنا کر دے دیا جاتا ہے اور میڈیا ٹرائل کے ذریعہ ان کے نام کو زیادہ سے زیادہ اچھالا جاتا ہے نیز تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں کو پکڑ کر زبردستی قرنطینہ میں رکھ دیا جاتا ہے جہاں کوئی بھی انکا پرسانِ حال نہیں ہوتا ـ یہ محض سنی سنائی خبر نہیں بلکہ ایک واقعہ ہے جو ہمارے متعلقین میں سے بھی ایک صاحب کے ساتھ پیش آیا ہے؛ چناں چہ چیک اپ کرانے پر جب انکا رپورٹ پوزیٹیو آیا تو انہیں تشفی نہیں ہوئی اور انہوں نے دوسری جگہ جانچ کروائی تو نتیجہ نیگیٹیو نکلا نیز اس طرح کے واقعات دوسری جگہوں پر بھی پیش آچکے ہیں ـ ظاہر ہےکہ یہ صرف اتفاق نہیں بلکہ منصوبہ بند سازش ہے جس میں حکومت بہت حد تک کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے اور اسی کامیابی کا نتیجہ ہیکہ ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف ہو رہے پروپیگنڈے کے ایسے درجنوں واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں مسلمانوں کا سماجی بائکاٹ کیا جا رہا ہے، ماب لنچنگ کی جا رہی ہے، انکو دکانوں سے واپس کردیا جا رہا ہے، ہاسپٹل میں ایڈمٹ کرنے سے منع کیا جا رہا ہے، مساجد پر حملے کیے جا رہے ہیں ـ یہ مسلم مخالف وہ واردات ہیں جن کو لاک ڈاؤن کے ایام میں انجام دیا گیا ہے؛ یعنی ایک وبا جو ہم پر عذاب بن کر آئی تھی اس کو بھی ان نفرت کے پجاریوں نے سیاسی محاذ آرائی کیلیے استعمال کرلیا اور کورونا کو ٹوپی پہنا کر اس طور پر پیش کردیا گیا کہ مسلمان ہی اس کے حقیقی ذمہ دار ہیں نیز ان کا یہ حربہ اس وقت مزید کامیاب ہوجاتا ہے جب بھارتیوں کے تئیں اپنی ہمدردی جتانے اور انہیں مورکھ بنانے کیلیے وزیرِ اعظم ایک ہندوانہ رسم لے کر آجاتے ہیں، جس کو بعض عاقبت نا اندیش مسلمان بھی اپنی دیش بھکتی ثابت کرنے کیلیے کر گزرتے ہیں اور اگر ان مشرکانہ افعال کا ارتکاب کرنے سے بچتے ہیں تو لوگوں کی مسلم مخالف ذہنیت کو مزید تقویت پہنچ جاتی ہے اور انہیں پختہ یقین ہوجاتا ہے کہ کورونا کو پھیلانے والے یہی مسلم سماج کے لوگ ہیں نیز دوسری طرف لوگوں کو اپنے حکم کی تعمیل میں سر بہ سجود دیکھ کر حکومت کو اپنی کامیابی کا اندازہ بھی ہوجاتا ہے اور نیا حوصلہ بھی ملتا ہے ـ یہ چو طرفہ گیم ہے جو حیرت انگیز بھی ہے، تاسف آمیز بھی ہے اور سبق آموز بھی؛ کیوں کہ اس سے پہلے بھی گزشتہ چند سالوں میں جس طرح کے حالات رہے اور مسلمانوں کے خلاف جس طرح سے نفرت کی کھتیاں کی گئیں وہ ”الكفر ملة واحدة“ کی دلیل و نظیر ہیں اور ان تمام واقعات و شواہد سے یہ نتیجہ اخذ کرلینا ہوشمندی کے منافی بالکل نہیں ہوگا کہ اس قوم سے اتحاد کی توقع فضول ہے ـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)