غوث سیوانی، نئی دہلی
email:[email protected]
دلی پولس نے شاہین باغ کی احتجاجی خواتین سے کہا کہ کورونا وائرس کا خطرہ بڑھ گیا ہے لہٰذا وہ احتجاج ختم کردیں۔ اس کے جواب میں عورتوں نے کہا کہ ’کورونا سے بڑا خطرہ سی اے اے ہے لہٰذا پہلے حکومت، شہریت قانون کو ختم کرے۔‘ اس میں شک نہیں کہ کورونا وائرس کے سبب ملک بھر میں چوکسی برتی جارہی ہے اور پچاس سے زیادہ افراد کے اجتماع پر پابندی ہے، عوام میں خوف ودہشت بھی ہے مگر شاہین باغ میں احتجاج کر رہی خواتین پر اس کا کوئی اثر نہیں نظر آتا۔ کچھ بھکت نیوز چینلوں نے ایسی خبریں بھی چلائیں کہ خواتین، احتجاج میں نہیں آرہی ہیں مگر میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ اس قسم کی خبریں سراسر جھوٹی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ احتجاج میں مزید شدت آگئی ہے اور بھیڑ میں اضافہ ہوگیا ہے۔میں نے باربارمحسوس کیا ہے کہ جب جب نیوز چینلوں پر منفی خبریں آتی ہیں اور بحثوں میں احتجاجیوں کو گالیاں دی جاتی ہیں تب تب شاہین باغ کے دھرنا میں بھیڑ بڑھ جاتی ہے۔ شاہین باغ کے احتجاج کاآغاز میرے سامنے ہوا اور آج جب اس مسلسل مظاہرے کو ساڑھے تین مہینے ہونے کو آئے ہیں تب پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ تقریباً ہر روز احتجاج گاہ پر جاتا رہا ہوں اور اس کے ہر روپ کو دیکھتا رہا ہوں۔
آخرکب تک؟
دھرنا دینے والی تمام خواتین اور شاہین باغ میں رہنے والے ہر فرد کی زبان پر یہ سوال ہے کہ آخرکب تک یہ احتجاج چلے گا؟ مگر اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔مظاہرین کا کہنا ہے کہ ہم عدالت کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جب تک عدالت کا فیصلہ نہیں آتا، ہولی ہو یا عید، ہم سب پنڈال میں منائیں گے۔ مظاہرین میں سے ایک مسکان کا کہنا ہے کہ3 مارچ کی رات کو اچانک سپریم کورٹ کے مقرر کردہ مذاکرات کار سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن ہم سے بات کرنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ آپس میں بات کرنے کے بعد انہیں کوئی حل نکالنا چاہئے، انہوں نے سڑک کو خالی کرنے کی درخواست بھی کی، لیکن اس سلسلے میں ابھی تک ہماری آپس میں کوئی میٹنگ نہیں ہو ئی ہے۔ جب تک CAA اور NRC واپس نہیں لیا جاتا ہے ہم اپنی تحریک واپس نہیں لیں گے۔ مذاکرات کاراحتجاجیوں سے مسلسل سڑک خالی کرنے کی اپیل کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے آپ کو ایک اور موقع دیا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں لگتا ہے کہ یہ اپیل اب تک کارگر ثابت ہوئی ہے۔ لوگ سڑک سے ہٹنے یا کسی اور جگہ منتقل ہوکر احتجاج کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ گرمی میں بھی اضافہ ہواہے لیکن احتجاجیوں کے عزائم میں کوئی کمی نہیں دیکھی جارہی ہے۔ اسٹیج سے انقلابی نعرے لگاتار جاری ہیں۔ایسے میں کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ احتجاج ختم کردینا چاہئے تو بعض کا خیال ہے کہ ان کی مانگ اب تک پوری نہیں ہوئی ہے لہٰذا مظاہرہ ختم کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
سڑک کب کھلے گی؟
سروری دادی کہتی ہیں کہ ہم نے اپنا پورا معاملہ مذاکرات کاروں کے سامنے رکھ دیا ہے، جب تک عدالت ہماری شرائط پر راضی نہیں ہوتی، ہم اسی طرح بیٹھے رہیں گے۔ دہلی میں ہونے والے تشدد پر، انہوں نے کہا کہ’فسادیوں کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ ہم تشدد کی مخالفت کرتے ہیں اور یہاں ہم پرُ امن احتجاج جاری رکھیں گے۔‘ واضح ہوکہ سڑک کھلنے کے بارے میں لوگوں میں اتفاق رائے نہیں ہے۔ ایک طبقہ وہاں سے منتقل ہونا چاہتا ہے، جبکہ دوسراطبقہ کہتا ہے کہ اگر ہم یہاں سے دوسری جگہ منتقل ہوجائیں تو ہماری سیکورٹی کو کون یقینی بنائے گا؟اس سے پہلے احتجاجیوں نے مذاکرات کاروں کے سامنے ایک طرف کا راستہ کھولنے کے لئے شرط رکھی تھی کہ سپریم کورٹ پولس کو حکم دے کہ دھرنا کے مقام پر موجود لوگوں کی سیکورٹی کی ذمہ داری پولس لیگی۔ واضح ہوکہ آس پاس کے کئی راستے پولس نے بند کردیئے تھے جنھیں حال ہی میں کھول دیا گیاہے۔ اس طرح دھرنا کے باوجود دلی اور نوئیڈا کو جوڑنے والا پل کھل گیا ہے۔ اب دھرنا کے سبب صرف ایک سڑک ہی نصف کلومیٹر تک بند ہے۔ اسے بھی ایک سائڈ کھولنے کے لئے احتجاجی تیار ہیں مگر جس طرح سے ماضی میں ان پر حملے ہوچکے ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے وہ تشویش میں مبتلا ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
جوش اب بھی کم نہیں ہوا
مجھے یہ جاننے میں دلچسپی تھی کہ آیا مظاہرین میں وہی جوش و جذبہ باقی رہا یا پھر وہ بھی وقت کے ساتھ مدھم ہوگیا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر قدرے حیرت ہوئی کہ بدلتے ماحول میں بھی شاہین باغ کا جوش کم نہیں ہواہے۔احتجاج کی جگہ پرآج بھی لنگر جاری ہے اور کچھ خواتین لوگوں کے کھانے کے انتظام میں مصروف ہیں۔ ان میں کچھ برقعے والی خواتین بھی ہیں۔البتہ یہاں بعض مظاہرین کو ا س بات کی فکر ضرور ہے کہ گرمیاں شروع ہوچکی ہیں اور جس شامیانے میں دھرنا چل رہا ہے، اب وہ مقام تپنے لگا ہے، ایسے میں شدید گرمیوں کے بیچ اس سلسلے کو جاری رکھنا کیسے ممکن ہوگا؟ ایک احتجاجی خاتون فرحانہ نے کہا کہ گرمیوں کے لئے شامیانے کو ازسرنو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح سردیوں میں ہیٹرلگائے گئے تھے، اسی طرح گرمیوں میں کولر، پنکھے اور اے سی کا انتظام ہونا چاہئے۔
شوروم کب تک بند رہیں گے؟
شاہین باغ میں احتجاج کے سبب نصف کلومیٹر تک روڈ کے کنارے واقع تمام بڑے بڑے شوروم بند ہیں جس سے مالکان کا روزانہ کروڑوں روپئے کا نقصان ہورہا ہے۔ ایسے میں شوروم مالکان بھی چاہتے ہیں کہ سڑک کم ازکم ایک طرف کھول دی جائے تاکہ وہ کاروبار شروع کرسکیں۔ ایک شوروم مالک غوث محمد کہتے ہیں کہ اب تک ہمارا بہت نقصان ہوچکا ہے مگر ہم سی اے اے کے خلاف احتجاج کی مخالفت بھی نہیں کرسکتے کیونکہ اگر یہ سیاہ قانون نافذ ہوگیا تو اس سے بھی بڑا نقصان ہوگا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر صرف ایک طرف کی سڑک کھول دی جائے تو بہتر ہے۔ احتجاج بھی جاری رہے اور سڑک بھی چلتی رہے۔
میڈیا سے ناراضگی
شاہین باغ میں میڈیا کے تعلق سے ابتدا سے ایک عجیب طرح کی ناراضگی رہی ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ میڈیا ہمیں مسلسل غلط پروپیگنڈے کا نشانہ بناتا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرنے کے معاملے میں بیشترلوگ حساس ہیں اور اگر کوئی میڈیا والا لوگوں سے بات کرنا چاہے تو بیشتر لوگ منع کردیتے ہیں اور جو بات کرتے ہیں، وہ بھی دس قسم کے سوال پوچھتے ہیں۔ یہاں سے اگرکوئی نیوزچینل لائیوکرتا ہے تو کئی لوگ آکر بیچ میں ہی روک بھی دیتے ہیں۔ انھیں اندیشہ لگا رہتاہے کہ حکومت حامی میڈیا،انھیں بدنام کرنے کی کوشش نہ کرے۔ کئی نیوز چینلوں کے لوگو دیکھتے ہی مقامی لڑکے’گودی میڈیا گو بیک‘ کے نعرے لگانا شروع کردیتے ہیں اور تب تک خاموش نہیں بیٹھتے جب تک اسے بھگا نہ دیں۔ نیوز نیشن اوور زی نیوز کے اینکرس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ میڈیا کی سرخیوں میں رہا ہے۔حالانکہ اس کے برخلاف یہ نظارہ بھی یہاں دیکھا گیا کہ این ڈی ٹی وی کے رویش کمار جب رپورٹنگ کے لئے آئے تو لوگوں نے گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا،ان کے ساتھ تعاون کیا اور سیلفی لینے والوں کی ایسی بھیڑ جمع ہوگئی کہ صحافی کو اپنی گاڑی چھوڑ کر آٹو سے جانے پر مجبور ہونا پڑا۔ عوام کے جوش وخروش کے سبب وہ اپنی گاڑی تک نہ پہنچ سکے تھے۔
پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
ابتدا سے ایک سوال میڈیا اٹھاتا رہا ہے کہ مظاہرے کے اخراجات کے لئے پیسہ کہاں سے آتا ہے؟ کو ن دیتا ہے؟ بریانی اور کھانے پینے کی اشیاء کون دیتاہے؟در حقیقت، مختلف محلوں کے لوگ کچھ آپس میں پیسہ جمع کرکے سامان خریدتے ہیں اور انہیں یہاں دے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں لنگر چل رہا ہے۔یہاں سکھوں کی طرف سے بھی لنگر چلتا رہا ہے۔
صفائی کا مسئلہ
ہر روز ہزاروں افراد احتجاج کی جگہ پر نقل و حرکت کرتے ہیں،جس کی وجہ سے، یہاں کوڑے کا مسئلہ ہے، کچھ لوگ رضاکانہ طور پر یہاں صفائی کرتے نظر آتے ہیں۔علی رضا، شاہین باغ میں رہتے ہیں اور بلبھ گڑھ میں کام کرتے ہیں۔ وہ آفس کے بعد اپنا بیشتر وقت یہاں دیتے ہیں اور اکثر صفائی کراتے دکھ جاتے ہیں۔ وہ ان سامان بیچنے والوں کو بھی یہاں آنے سے روکتے ہیں جو یہاں کچرے پھیلاتے ہیں۔یہاں جن لوگوں کوصفائی کرتے دیکھا جاتا ہے ان میں سماجی کارکن، طالب علم، مقامی لوگ اور مولانابھی شامل ہیں۔
تصویری نمائش
یہاں تصویروں کی ایک نمائش بھی لگائی گئی ہے۔ جس میں وہ تصاویر شامل ہیں جو CAA مخالف مظاہروں کے بیچ لی گئی ہیں۔ ان تصویروں میں پولس اور حکومت کے مظالم کو پیش کیا گیاہے۔ یہاں بس اسٹاپ پرایک چھوٹی سی لائبریری بھی دیکھی جاسکتی ہے حالانکہ سڑک کی دوسری جانب کے بس اسٹاپ کو گھیرکر اسکول بنایا گیا ہے۔ اس میں چھوٹے بچوں کے لئے تعلیم کا انتظام ہے۔لیگل کیمپ اور مفت ہیلتھ کیمپ بھی موجود ہیں۔
کیسے چل رہی ہے تحریک؟
یہ سوال ہر ایک کے ذہن میں ہے کہ شاہین باغ تحریک اتنے دنوں تک کیسے چلی؟ اس کی فطری وجہ یہ ہے کہ اقلیتی طبقے میں سی اے اے کے خلاف شدید ناراضگی ہے اور اسی کے ساتھ یہ احتجاج ایک ایسے مقام پر چل رہا ہے جہاں بڑی تعداد میں خواتین کا پہنچنا ممکن ہے۔یہاں مجھے ایک چھوٹی سی بچی فاطمہ،ہاتھ میں ترنگا لئے نظر آئی جو اپنے دادا کے ساتھ آئی تھی۔دادا روزانہ یہاں آتے ہیں۔یہاں آئے دن پنجاب سے سکھوں کے جتھے آتے ہیں اور جب تک رہتے ہیں ماحول میں فرقہ وارانہ یکجہتی کی مٹھاس گھلتی محسوس ہوتی ہے۔ اسٹیج سے اکثر گروبانی کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ حاضرین میں کرسچن برادر الگزینڈر بھی اکثر پرجوش نظر آتے ہیں۔جب ہم نے الگزینڈر سے وہاں آنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ جب سے تحریک شروع ہوئی ہے وہ یہاں موجود ہیں اور جب تک حکومت سی اے اے کو واپس نہیں لیتی تب تک وہ یہاں موجود رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ بھی ہوجائے، وہ اس تحریک سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ وہ اپنے گلے میں ایک تختی ٹانگے نظر آتے ہیں جب کہ ہاتھ میں بائبل کا ایک نسخہ ہوتا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)