Home تجزیہ کورونا وائرس اور میڈیا-ریاض مبارک

کورونا وائرس اور میڈیا-ریاض مبارک

by قندیل

کورونا وائرس نے میڈیا کے منہ پر لگام اچھی طرح کس دیا تھا اور کئی دنوں سے ان کی آواز حلق سے باہر گھٹ گھٹ کر نکل رہی تھی۔ تقریبا دو ہفتے بیت چکے تھے یہاں ذرائع ابلاغ کو اپنی دال بگھارنے کے لئے کوئی خاص تڑکا مل ہی نہیں رہا تھا جس کے ناطے ٹی وی چینلز سست روی کی پگڈنڈی پہ چلتے چلتے بزدلی کا شکار ہو رہے تھے۔ مگر آج ٹی وی اینکروں اور سوشل میڈیا کے بھانڈوں کو مرکز نظام الدین کا ایسا مسالہ مل گیا کہ ان میں بے پناہ پھرتی آگئی اور گلا پھلا پھلا کر بھونکتے بھونکتے ان کی سانسیں پھولنے لگیں۔ ممکن ہے COVID-19 نے انہیں اپنی بانہوں میں جکڑ لیا ہو۔ بڑی بڑی ہیڈلائنز میں مسلم مخالف حکایت بنانے کے لئے آر ایس ایس کو سنہری موقعہ جو مل گیا۔ ادھر کورونا وائرس میں ہورہی سبکی کو چھپانے کے لئے وزارت داخلہ کی قیادت میں بھاجپا کو بلی کا بکرا مل ہی گیا۔
میڈیا کے ساتھ ساتھ عام آدمی پارٹی بھی اس ہندو مسلم گیم میں اپنا رول اپنے انداز میں نبھا رہی ہے۔ کیجریوال کا بھاشن سن کے ایسا لگا کہ ہندوستان میں کورونا کی وبا مرکز کے لوگوں کی دین ہے تبھی تو انہوں نے ایل جی سے اپیل کی ہے کہ وہ مرکز کے خلاف فوری ایف آئی آر درج کرائیں۔ ادھر میڈیا میں مرکز نظام الدین کو بلا وجہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کا انٹرنیشنل اجتماع لاک ڈاؤن سے کافی پہلے ہوا اور لاک ڈاؤن کے فورا بعد 25 مارچ کو مرکز نے وہاں کی پولیس کو اپنے مہمانوں کے بارے میں اطلاع بھی دے دی تھی اور انہیں وہاں سے اپنے ٹھکانوں تک جانے کی اجازت بھی مانگی تھی مگر انتظامیہ نے ان کی ایک نہیں سنی اور آج ان پہ اعلانیہ تہمت لگائی جارہی ہے۔
کتنی بڑی حماقت ہے کہ ویشنو دیوی مندر میں لوگ موجود ہیں تو وہ پھنسے ہوئے ہیں اور مرکز میں لوگ جمع ہیں تو وہ چھپے ہوئے ہیں۔ اس طرح یہ میڈیا لفظوں کی بازیگری دکھا کر نیا افسانہ بنا رہی ہے جبکہ مرکز نے سرکار کو مدد حاصل کرنے کے لئے لیٹر بھی لکھا تھا۔ اس معاملے کی اعلی سطحی جانچ ضرور ہونی چاہئیے تبھی تو سرکار پھنسے گی اور یہ پتہ چلے گا کہ سرکار کتنی ڈھکوسلہ باز ہے۔
لاک ڈاؤن کی مخالفت میں مذہبی رسوم کی ادائیگی کرتے ہوئے جو بھی ملا اسے خاطر خواہ سزا دی جائے گی، اس قانون کی رو سے صرف مرکز نظام الدین ہی کٹگھرے میں کیوں، اجودھیا میں یوگی کے ساتھ پوری پلٹن کیوں نہیں؟ جو لوگ تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں کو قید کرنے کی ڈیمانڈ کر رہے ہیں وہ کانیکا کپور کو جیل بھیجنے کی مانگ کیوں نہیں کر رہے ہیں جو کورونا پوزیٹیو ہونے کے باوجود تفریحی پروگراموں میں تھرکتی رہی اور اس کے ارد گرد کئی VIPs طواف کرتے رہے؟ اسی دوران مدھیہ پردیش کے تمام ایم ایل اے حکومت سازی کے لئے دل بدل کا اجتماعی گیم کھیل رہے تھے ان کی گرفتاری کیوں نہیں ہونی چاہئیے؟ اسی طرح لاک ڈاؤن میں دونوں ہاؤسیز کے سینکڑوں ایم پی جو پارلیمنٹ کا سیشن چلا رہے تھے انہیں کیوں نہیں گرفتار کرنا چاہئیے؟
میڈیا کو چاہئیے کہ اس طرح ایک مذہب کے لوگوں کو ہمیشہ کی طرح ٹارگٹ نہ کرے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میڈیا متعصب ہے وہ جسے کٹگھرے میں کھڑا کرنا چاہتی ہے پہلے ہی طے کرلیتی ہے۔
واقعی کورونا متاثرین کا علاج تو ممکن ہے مگر اسلاموفوبیا کے بیماروں کا مرض لا علاج ہے!

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment