Home تراجم کورونا:معلومات،ابہام،غلط بیانی اور سفید جھوٹ-رچرڈ فلپس

کورونا:معلومات،ابہام،غلط بیانی اور سفید جھوٹ-رچرڈ فلپس

by قندیل

ترجمہ:محمد ابراہیم خان

کورونا وائرس سے متعلق پائی جانے والی باتیں اب بھول بھلیوں کا درجہ حاصل کرچکی ہیں۔ جو بھی اس گم تاڑے میں داخل ہوا پھر اس کا پتا نہ چل سکا۔ معلومات اور غلط بیانی کا فرق مٹ سا گیا ہے۔ بہت کچھ بیان کیا جارہا ہے۔ اِس میں خالص معلومات بھی ہیں، ابہام زدہ باتیں بھی ہیں، شدید غلط بیانی بھی ہے اور صریح جھوٹ بھی۔ کورونا وائرس سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے خواہش مند بہت کوشش کرنے پر بھی درست معلومات تک نہیں پہنچ پاتے۔ دعوؤں اور الزام تراشی کا بازار گرم ہے۔ قیاس آرائیاں ہیں، ابہام ہے اور تضادات ہیں۔ ایک بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے … اور وہ یہ کہ پورے یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔

صریح جھوٹ:

کم ہی لوگ ہیں، جو اس بات کو سمجھتے نہ ہوں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے جھوٹ بولنا ایسا ہی عمل ہے جیسا سانس لینا۔ جس طور لوگ سانس لیے بغیر نہیں جی سکتے اُسی طور ڈونلڈ ٹرمپ جھوٹ بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہی سبب ہے کہ غور کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی صدر کورونا وائرس کے حوالے سے ایک الگ حقیقت کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ چین کا اپنا بیانیہ ہے اور امریکا کا اپنا۔ دونوں میں سے ہر ایک کی کوشش ہے کہ کورونا وائرس کے حوالے سے اُسی کی بات درست تسلیم کی جائے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی قومی سطح کی یومیہ بریفنگ دنیا بھر میں دیکھی جاتی ہیں۔ جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ایک طرف تو کورونا وائرس کے ہاتھوں لاک ڈاؤن نافذ ہے اور سماجی فاصلے پر زور دیا جارہا ہے اور دوسری طرف صدر ٹرمپ اور اُن کے قریبی ساتھی اپنی سیاسی بنیاد والی (یعنی ری پبلکن) ریاستوں میں ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں جن کے نتیجے میں سماجی فاصلہ برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔

امریکی صدر کا ایک پرانا شوق یہ ہے کہ خود کو خوب سراہا جائے اور ہر معاملے میں ہر الزام دوسروں کے سروں پر تھوپ دیا جائے۔ انہوں نے کئی بار چین، عالمی ادارۂ صحت اور سابق امریکی انتظامیہ کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اب اس سے بڑا لطیفہ کیا ہوگا کہ صدر ٹرمپ نے اوباما انتظامیہ پر کورونا وائرس کی موثر ویکسین کا معقول ذخیرہ نہ چھوڑنے کا الزام عائد کیا ہے۔ تب تو کورونا وائرس تھا ہی نہیں پھر ویکسین کہاں سے آتی؟

غلط بیانی:

اعلیٰ ترین سطح پر بیٹھی ہوئی کوئی شخصیت اگر کوئی بات گھما پھراکر کہے اور کچھ بھی واضح نہ ہونے دے تو زیادہ حیرت نہیں ہوتی کیونکہ یہ ایک شخصیت کا معاملہ ہے لیکن اگر بیشتر حکومتی یا ریاستی ادارے الجھے ہوئے انداز سے کام کرنے لگیں تو لوگ محسوس کرتے ہیں کہ معاملات کو کچھ کا کچھ پیش کیا جارہا ہے، جھوٹ بولا جارہا ہے۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ نام نہاد ماہرین کی مدد سے سرکاری اداروں نے یہ بات کس بنیاد پر کہہ دی کہ کورونا وائرس کی روک تھام میں فیس ماسک کا کوئی اہم کردار نہیں۔ اور جبکہ امریکا لاک ڈاؤن ختم کرنے اور تمام سرگرمیاں بحال کرنے کی طرف جارہا ہے، وہی سرکاری ادارے کہہ رہے ہیں کہ کورونا وائرس کی روک تھام میں فیس ماسک کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں!

کوئی بھی شخص بہت آسانی سے اندازہ لگاسکتا ہے کہ جب یہ کہا گیا تھا کہ کورونا وائرس کی روک تھام میں فیس ماسک کا کچھ خاص کردار نہیں تب امریکا میں ماسک کی فراہمی بہت کم تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ مریضوں اور طبی عملے کے لیے بھی پورے ماسک نہیں تھے تو عوام کے لیے کہاں سے لائے جاتے؟ جب ماسک کو قدرے غیر اہم بتایا گیا تھا تب دراصل اس کی ذخیرہ اندوزی کی روک تھام مقصود تھی۔ اب معاملہ یہ ہے کہ حکومت اگر اِس طور بیان بدلے تو اداروں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔

بے سمت کرنے والی معلومات:

مکمل غلط بیانی ایک طرف رہی، امریکا بھر میں کمزور، بے بنیاد اور بے سمت کرنے والی معلومات اِس طور پھیلائی گئی ہیں گویا کھیتوں کو کھاد دی جارہی ہو۔ دائیں بازو کا مین اسٹریم میڈیا ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر کے منصب پر دوسری مدت کے لیے بھی فائز دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ اس نے نام نہاد ماہرین کا سہارا لے کر یکے بعد دیگرے کمزور معلومات عوام کے ذہنوں میں ٹھونسنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ اپریل کے وسط میں جب امریکا میں کورونا وائرس کے ہاتھوں واقع ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ۲۹ ہزار سے زائد ہوچکی تھی تب دائیں بازو کے ایک ماہر نے دعویٰ کیا کہ امریکا میں ہر سال سوئمنگ پولز میں حادثاتی طور پر ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس سے زیادہ ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ سینٹر فور ڈزیز کنٹرول نے امریکا میں بھر میں سوئمنگ پولز میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ۳۷۰۰ بتائی ہے۔ اور کسی نے اس ماہر کو یہ بتانے کی بھی زحمت گوارا نہ کی کہ سوئمنگ پول میں حادثات رونما ہوتے ہیں، متعدی امراض نہیں لگا کرتے۔ ایک اور نام نہاد ماہر نے اسکول کھولنے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا بھر میں اسکول کھولنے سے ’’صرف‘‘ دو یا تین فیصد بچوں سے محروم ہو جانے کا خطرہ برقرار رہے گا! اس جاہلانہ بات پر اس نام نہاد ماہر کو بعد میں معافی مانگنا پڑی۔

عالمگیر وبا نے امریکا میں بھی پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ ایسے میں دائیں بازو کے عناصر کا بدحواس ہونا ذرا بھی حیرت انگیز نہیں۔ سیدھی سی بات ہے، وبا مکمل طور پر قابو میں نہیں آرہی۔ ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے میں انتہائی دائیں بازو والوں کے فرد کا دوبارہ صدر بننا بہت مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ وبائی امراض سے متعلق سی ڈی سی ماہرین ڈاکٹر فوشی اور ڈاکٹر ڈیبورا برکس کو ابتدائی مرحلے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت سراہا تھا۔ اُن دونوں کے بارے میں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا سے بچاؤ کے سلسلے میں جو بھی رائے وہ دیں گے وہ حتمی اور انتہائی کارآمد ہوگی۔ بعد میں جب ڈاکٹر فوشی کی رائے ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب کے حوالے سے کچھ زیادہ کارگر ہوتی دکھائی نہیں دی تب انہیں دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اس حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ خاموش رہے۔ دونوں ماہرین کی صلاحیتوں سے کوئی انکار نہیں کرسکتا مگر کورونا وائرس واقعی اتنا عجیب ثابت ہوا کہ اُس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے میں دونوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

کورونا وائرس کے مریضوں اور ہلاکتوں کی ممکنہ تعداد بتانے کے حوالے سے امریکا میں بیشتر سرکردہ ڈاکٹروں نے جو ماڈل اختیار کیا وہ غلط نکلا۔ پہلے یہ کہا گیا کہ کورونا وائرس کے بارے میں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی شور مچایا گیا ہے۔ پھر جب انہوں نے ممکنہ اموات کے اعداد و شمار بتائے تو لوگ حیران رہ گئے کیونکہ حقیقی اموات سے یہ اعداد و شمار خاصے کم رہے۔ بہت سوں نے قوم کو اس وبا کے بارے میں بتانے کے حوالے سے انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا اور حد سے گزر گئے۔ دونوں ہی معاملات میں لوگ اس قابل نہ رہے کہ کسی پر پوری طرح بھروسا کرسکیں۔

کورونا وائرس سے واقع ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں بھی جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں اُنہوں نے عوام کا اعتماد متزلزل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ری پبلکن پارٹی کی حکومت والی ریاستوں میں کم ہلاکتیں دکھائی گئیں۔ بعد میں ڈاکٹروں کے اس بیان نے بھی معاملات کو مزید الجھا دیا کہ انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ اموات کے اسباب بیان کرتے وقت ریاست کے سیاسی جھکاؤ کا خیال رکھا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تک کوئی بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ صرف کورونا وائرس کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں کی اصل تعداد بتاسکے۔ جو لوگ مختلف امراض میں پہلے ہی سے مبتلا تھے ان کی اموات کے اسباب میں کورونا وائرس کو بھی شامل کرلیا گیا اور پھر یہ تمام اموات کورونا وائرس کے کھاتے میں ڈال دی گئیں۔ اس کے نتیجے میں شدید نوعیت کا ابہام پیدا ہوا ہے۔

کورونا وائرس میں مبتلا ہونے پر جن لوگوں کو اسپتال لایا گیا، ان میں سے بیشتر پہلے ہی سے مختلف امراض میں مبتلا تھے۔ نیو یارک اور اس کے نواح میں موجود اسپتالوں میں کام کرنے والی نارتھ ویل ہیلتھ آرگنائزیشن نے بتایا ہے کہ نیویارک میں کورونا وائرس میں مبتلا مریضوں میں ۵۷ فیصد پہلے ہی سے ہائپر ٹینشن کے، ۳۳ فیصد ذیابیطس کے اور ۴۱ فیصد موٹاپے کے مریض تھے۔ یہ سب کچھ اس بات کا واضح غمّاز ہے کہ ماہرین اب تک کورونا وائرس کے ہاتھوں ہونے والی اموات کے حوالے سے محض قیاس آرائی کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔ کسی کو بالکل درست اندازہ نہیں کہ کورونا وائرس کے ہاتھوں واقعی کتنی ہلاکتیں واقع ہوئیں۔

امریکا میں کورونا ٹیسٹنگ کا معاملہ بھی ابہام سے خالی نہیں۔ نیو یارک میں ٹیسٹنگ کے حوالے سے بہت سی باتیں پھیلائی گئیں۔ عوام کورونا ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آنے پر بھی یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے کہ انہیں یہ وائرس لگ چکا ہے۔ بات ایسی الجھی ہوئی نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ ماہرین خود بھی پوری طرح نہیں جانتے تھے کہ کوئی بھی شخص کس بنیاد پر کورونا وائرس میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ اینٹی باڈیز کے حوالے سے کی جانے والی بحث الجھی ہوئی ہے اور کوئی بھی اس حوالے سے ہر بات کو درست ماننے کے لیے تیار نہیں۔

سماجی فاصلے کے حوالے سے بھی یہی کہا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے اپنائے جانے والے پروٹوکول عجیب رہے ہیں اور ان پر پوری طرح عمل بھی نہیں کرایا جاسکا۔ ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بہت سے لوگ کورونا وائرس کا شکار اس لیے نہیں ہوئے کہ انہوں نے لوگوں سے تعلقات برقرار رکھے تھے۔ اسٹورز میں لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوتے رہے مگر ایسا کرنے سے کچھ خاص نقصان نہیں پہنچا۔

نرسنگ ہومز اور اسپتالوں پر کورونا وائرس کا حملہ خاصا تیز اور ہمہ گیر تھا۔ بعض معاملات میں تو پورے خاندان کورونا وائرس کے شکار پائے گئے۔ نرسنگ اسٹاف کے لیے مشکلات غیرمعمولی رہیں۔ امریکا میں ریاستی حکومتیں قرنطینہ مراکز قائم کرنے میں ناکام رہیں۔ نیو یارک میں جب کورونا وائرس کا عفریت بے لگام ہوکر ناچ رہا تھا تب ریاستی گورنر نے بتایا کہ جن لوگوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے ان میں سے ۶۶ فیصد کو ریاست کے طے کردہ پروٹوکول کے مطابق گھروں میں قرنطینہ کیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ باتیں درست یا حقیقت پر مبنی بھی ہوں مگر کورونا کی وبا کو سیاسی رنگ دیے جانے کے باعث عوام اس حوالے سے اتنے ’’بے حِس‘‘ ہوچکے ہیں کہ اب وہ کسی بھی بات پر پوری طرح یقین کرنے کو تیار نہیں۔

کورونا وائرس کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتیں اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ ’’حقیقت‘‘ کو کورونا وائرس کے ہاتھوں واقع ہونے والی پہلی ہلاکت کا درجہ حاصل ہوچکا ہے۔ اس پورے معاملے میں اتنی تضاد بیانی اور غلط بیانی کی گئی ہے کہ ماہرین کی باتوں پر بھی لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ نہ تو کسی بھی بات میں قطعیت پائی جاتی ہے اور نہ ایسے ماہرین ہی پائے جاتے ہیں جن پر پوری طرح بھروسا کیا جاسکے۔

سائنس دان اب بھی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کورونا وائرس کا اگر کوئی مثبت پہلو ہے تو یہ کہ اب ہم جان چکے ہیں کہ فطری علوم و فنون میں پیش رفت ارتقائی طریق سے ہوتی ہے، انقلابی طریق سے نہیں یعنی سب کچھ بتدریج ہوتا ہے۔ کورونا وائرس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہم فطری علوم و فنون کے ماہرین کو بہت زیادہ وقعت دے بیٹھتے ہیں اور جب بھی کسی موضوع پر کچھ نہیں سُوجھتا تو ماہرین کی کہی ہوئی ہر بات کو درست تسلیم کرلیتے ہیں۔

(بہ شکریہ معارف ریسرچ جرنل)

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment