Home تجزیہ نئی پارلیمنٹ کا تنازعہ – معصوم مرادآبادی

نئی پارلیمنٹ کا تنازعہ – معصوم مرادآبادی

by قندیل

 

بیس ہزار کروڑ روپے کی خطیر رقم سے تعمیر ہوئی پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح سے پہلے یہ معاملہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان زبردست ٹکراؤ کا سبب بن گیا ہے۔ ملک کی 20 اپوزیشن جماعتوں نے افتتاحی تقریب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔اپوزیشن کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس تقریب میں ملک کی اوّلین شہری یعنی صدر جمہوریہ دروپدی مورمو کو مدعو کیوں نہیں کیا گیا ہے، جو اپنے عہدے کے اعتبار سے پارلیمنٹ کی سربراہ ہیں۔ نئی بلڈنگ کا افتتاح خود وزیراعظم کررہے ہیں، جو حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ صدر ملک کا نمائندہ ہوتا ہے۔دوسری قابل اعتراض بات یہ ہے کہ اس افتتاحی تقریب کے لیے 28 مئی کی تاریخ چنی گئی ہے جو کہ جارحانہ ہندتو کے علمبردار ساورکر کا یوم پیدائش ہے۔اس کے علاوہ پارلیمنٹ کی عمارت میں اسپیکرکی کرسی کے پاس ہندو مذہبی علامت ’سینگول‘آویزاں کیا جارہا ہے۔162 سینٹی میٹر سینگول پر سونے کا پانی چڑھایا گیا ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی نمائندہ پارلیمنٹ کی اس عمارت سے جمہوری ہندوستان کی تاریخ کے کئی ابواب وابستہ ہیں۔ یہ ہمارے سیکولر جمہوری دستور کی پاسبان ہے۔ دستور کی دفعہ79 کے مطابق پارلیمنٹ کی سیاسی تشکیل جن تین اداروں سے مل کر ہوئی ہے، ان میں لوک سبھا، راجیہ سبھا اور صدرجمہوریہ شامل ہیں۔یعنی صدر جمہوریہ ہمارے پارلیمانی نظام کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ ایسے میں انھیں پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح سے دور رکھنا قطعی ناقابل فہم ہے اور اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے ہمارے جمہوری نظام کو جس طرح ’شخصی نظام‘ میں تبدیل کردیا ہے، وہ اب اسے ایک دستوری حیثیت دلانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ وہ خود ہی خود نظر آتے ہیں اور جمہوریت کے باقی ستونوں کو محض زیب داستاں کے لیے حرکت دی جاتی ہے۔
پارلیمنٹ کی نئی عمارت شروع سے ہی تنازعات کا شکار رہی ہے۔ 2020 میں جب اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا تو ملک کورونا کی خوفناک وبا سے جوجھ رہا تھا۔ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔معاشی بحران اوربے روزگاری عروج پرتھی۔اپوزیشن جماعتوں نے اس وقت بھی پارلیمنٹ کی نئی عمارت پر خطیر رقم خرچ کرنے کو فضول خرچی سے تعبیر کیا تھا، مگر وزیراعظم نے کسی کی نہیں سنی اور اپنے اس ڈریم پروجیکٹ کا اکیلے ہی سنگ بنیاد رکھا۔ اس وقت بھی دلت صدر رام ناتھ کووند کو نظرانداز کیا گیا تھا اور اب ایک آدیواسی صدر دروپدی مورمو کو افتتاحی تقریب میں مدعو نہیں کیا گیاہے، جسے آدیواسی سماج کی توہین قرار دیا جارہا ہے۔ سنگ بنیاد کے وقت بھی اسے عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا تھا، مگر سپریم کورٹ نے اس وقت بھی اسی طرح تمام اعتراضات مسترد کردئیے تھے‘جس طرح اب مفاد عام کی عرضی کو خارج کیا گیا ہے۔
پارلیمنٹ کی موجودہ عمارت 1927 میں بنی تھی اور یہ ہر اعتبار سے مکمل اور دیدہ زیب عمارت ہے۔ اس کی تعمیر کو ابھی سو سال کا عرصہ بھی نہیں ہواہے۔ اپنی مضبوطی کے اعتبار سے بھی یہ بے مثال ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ برطانیہ اور فرانس سمیت دنیا کے بیشتر جمہوری ملکوں میں پارلیمنٹ کی عمارتیں ہماری پارلیمنٹ سے زیادہ پرانی ہیں۔ وہاں کے لوگ اور حکومتیں ان عمارتوں کو اپنی وراثت کا حصہ تسلیم کرتے ہیں۔ ان کی جگہ نئی اور مہنگی عمارتیں بنانے کی بجائے ان کی بہتر دیکھ بھال پر توجہ دیتے ہیں، لیکن2014کے بعد ہندوستان میں جو ’انقلاب‘ آیا ہے، اس کے تحت تمام پرانی چیزوں کو بدلنے کا ایک جنونی دور شروع ہوا ہے۔
فارسی کی مشہور کہاوت ہے ’ہر کہ آمد عمارتے نو ساخت‘ یعنی جو کوئی اس دنیا میں آتا ہے، وہ اپنی ایک نئی عمارت کھڑی کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت اس کہاوت کے مصداق ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ مٹی اور گارے سے بنی ہوئی کوئی بھی عمارت اسی وقت مکمل کہلاتی ہے جب اس کے درودیوار میں معنویت ہو اور وہاں جو کام انجام دیا جارہا ہے‘ اس سے سماج کو فیض پہنچ رہا ہو۔ میں ایک اخبارنویس کے طورپر گزشتہ 35 برسوں سے پارلیمنٹ کی کارروائی کی رپورٹنگ کررہا ہوں۔ میں نے اس دوران دونوں ایوانوں میں اہم کارروائیوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ جس زمانے میں پارلیمنٹ کی رپورٹنگ شروع کی تھی اس وقت نیوز چینلوں کا وجود نہیں تھا۔لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں ہونے والی اہم بحثوں کو قریب سے دیکھا اور بہت کچھ سیکھا۔ یہ وہ دور تھاجب ایوان کے اندر اٹل بہاری باجپئی، چندر شیکھر، سومناتھ چٹرجی، گروداس داس گپتااور رام کرشن ہیگڑے جیسے باصلاحیت لیڈروں کے علاوہ مسلم قائدین میں ابراہیم سلیمان سیٹھ، غلام محمود بنات والا، سلطان صلاح الدین اویسی اور سید شہاب الدین جیسے لوگ تھے۔ ان سب ہی کی تقریریں لوگ دل تھام کر سنتے تھے۔ آج کی پارلیمنٹ کو دیکھتا ہوں تو سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ خاص طور پر 2014 کے بعد پارلیمنٹ بڑی حد تک اپنے محور سے دور ہو گئی ہے۔ اب نہ ہاؤس میں سنجیدہ بحثیں ہوتی ہیں اور نہ عوامی بہبود کی فکر کسی کو لاحق ہے۔پارلیمنٹ میں بے چہرہ ممبران کی بھرمار ہے۔ اپوزیشن کے لیڈروں کی یہ شکایت بجا ہے کہ ان کی آواز دبادی جاتی ہے۔ حکومت صرف اپنی پسندیدہ آوازوں کو ہی سننا پسند کرتی ہے۔ ایک مضبوط اور بیدار اپوزیشن جمہوریت کے تسلسل اور بقاء کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے، لیکن جب حاکمان وقت ’اپوزیشن فری‘ ہندوستان کا خواب دیکھتے ہوں تو ایسے میں امید ہی کیا ہوسکتی ہے۔
پارلیمنٹ کی نئی بلڈنگ کا سنگ بنیاد وزیراعظم مودی نے 10/دسمبر 2020کورکھا تھا۔’سینٹرل وسٹا‘ کے نام سے یہ پروجیکٹ 29مہینے میں پایہ تکمیل کو پہنچا ہے۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت جدیدترین ٹکنالوجی کے نقطہ نظر سے ایک انمول عمارت ہے جس میں لوک سبھا کو قومی پرندے ’مور‘ کی شکل میں اور راجیہ سبھا کو’کنول‘ کی صورت میں ڈیزائن کیا گیا ہے۔ نئی عمارت کے ایوان زیریں میں 888 ممبران کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جبکہ ایوان بالا میں 384 ممبران بیٹھ سکیں گے۔مشترکہ اجلاس کے دوران 1272 ممبران کے بیٹھنے کا انتظام ہوگا۔نئی پارلیمنٹ کو’مثلث‘ کی شکل دی گئی۔
سبھی جانتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی موجودہ عمارت برٹش دور کی یادگار ہے۔اس کی تعمیر ایڈون لٹین اور سرہربرٹ بیکر کے بنائے ہوئے نقشہ کے مطابق ہوئی تھی۔ اس کا سنگ بنیاد12/فروری1921 کو شہزادہ ڈیوک آف کناٹ نے رکھا تھااور اس وقت کے وائسرائے لارڈ ارون نے18جنوری 1927کو اس کا افتتا ح کیا تھا۔ اس کی تعمیر 6سال میں 83 لاکھ کی لاگت سے ہوئی تھی۔ جبکہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت پر 20ہزار کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے۔ یہ واقعی ایک ایسے ملک کے لیے شاہ خرچی سے کم نہیں ہے جہاں کروڑوں لوگ بھوک، بے روزگاری اور غربت کا شکار ہیں۔
کانگریس نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت اور موجودہ حکومت کے دوران پارلیمنٹ کی کارکردگی اور جمہوری قدروں کے زوال پر کئی سوال اٹھائے ہیں۔ ایک طرف جہاں پارلیمنٹ سے مخالف پارٹیوں کے ممبران کی رکنیت خارج کرنے کا مسئلہ ہے اٹھایا ہے تو وہیں دوسری طرف افتتاحی تقریب میں صدر جمہوریہ کو نظرانداز کرنے پر بھی شدید نکتہ چینی کی گئی ہے۔کانگریس صدر ملک ارجن کھڑگے نے کہا ہے کہ صدر جمہوریہ کو افتتاح کرنے کے خصوصی دستوری حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ عوام کی طرف سے قایم جمہوریت کا مندر ہے۔ صدر کا عہدہ پارلیمنٹ کا پہلا جز ہے، لیکن حکومت نے پارلیمانی نظام کو تباہ کردیا ہے۔ کھڑگے نے اپنے ٹیوئٹ میں سوال کیا ہے کہ140 کروڑ ہندوستانی جاننا چاہتے ہیں کہ صدرجمہوریہ سے پارلیمنٹ کے افتتاح کا حق چھین کر سرکار کیا باور کرانا چاہتی ہے؟

You may also like

Leave a Comment