Home قومی خبریں شعبہ اردو،دہلی یونیورسٹی کے زیراہتمام سالانہ نظام خطبہ بعنوان’ آئینی وژن ‘کاانعقاد

شعبہ اردو،دہلی یونیورسٹی کے زیراہتمام سالانہ نظام خطبہ بعنوان’ آئینی وژن ‘کاانعقاد

by قندیل

نئی دہلی :شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی کے زیر اہتمام اور اردو اکادمی، دہلی کے جزوی مالی تعاون سے سالانہ نظام خطبہ بعنوان ‘آئینی وژن’ کا انعقاد آرٹس فیکلٹی کے کمرہ نمبر 22میں ہوا، اس موقع پر شعبہ اردو کی صدر پروفیسر نجمہ رحمانی نے اپنے استقبالیہ کلمات میں مختصرا شعبے کی تاریخ اورنظام خطبات کی روایت سے روشناس کرایا،انھوں نے کہا کہ شعبہ اردو کا قیام آزادی سے بہت پہلے ہواتھا، آزادی سے پہلے یہ شعبہ دلی کالج میں تھا اور عربی، فارسی کے ساتھ تھا، 1958میں اس شعبہ کو دہلی یونیورسٹی کے آرٹس فیکلٹی میں قائم کیا گیا،پہلا سالانہ نظام خطبہ 1966میں ہوا تھا، اس سلسلے کے تحت بہت سے اہم موضوعات پر خطبات ہوئے ، یہ سالانہ نظام خطبہ حیدرآباد کے نواب مفخم جاہ کے تعاون سے شروع ہواتھا.ہمارے طلبا وطالبات اورریسرچ اسکالرزکے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شعبہ کی تاریخ سے بھی واقف رہیں۔آئینی وژن جیسے موضوعات پرخطبے کے انعقادکامقصدیہ ہے کہ ہمارے طلبا زندگی کے مختلف شعبوں کی ترقیوں سے واقف ہوں۔اس پروگرام میں آپ تمام لوگوں کااستقبال کرتے ہوئے مجھے مسرت ہورہی ہے۔
سالانہ نظام خطبہ پیش کرتے ہوئے ملک کے معروف قانون داں اور نیشنل لاء یونیورسٹی، پٹنہ کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفی نے کہا کہ دستور ہند میں آرٹیکل 29کہتا ہے کہ آپ کو اپنی زبان، اس کا رسم الخط اور تہذیب و تمدن کی حفاظت کی آزادی ہے، نیز لسانی اقلیتوں اور مذہبی اقلیتوں کے اداروں میں اس کے ریزرویشن کے امکانات باقی رہتے ہیں۔وقت کاتقاضا ہے کہ آپ کو اپنے موضوع پر مہارت حاصل ہو یا نہ ہو آپ کے لیے دستور کا علم ناگزیر ہے۔ قانون سے واقفیت کا حصول ہم سب کے لیے ضروری ہے۔ آئینی وژن کیا ہے اس پر بات ہونی چاہیے، بھارت سرکار کی پالیسی ہے کہ دستور ہند کو عوام تک پہنچایا جائے، دستور کے بنیادی اصولوں کو سمجھنے کے لیے تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے، دستور سازی اوردستور کو اپنی زندگیوں میں ڈھالنے کے لیے جن تیاریوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس پرپہلے محنت نہیں کی گئی، جمہوریت صرف یہ نہیں کہ ہم جاکر اپنا ووٹ ڈال دیں، ہماری زندگیوں اور گھروں میں عمومی طور پر جمہوریت نہیں ہے،ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں اورگھروں میں بھی جمہوری اقدارکواپنائیں۔ دستوری قدروں کے نفاذکے لیے اٹھایاجانے والاکوئی بھی قدم سراہے جانے کے لائق ہے، ہمارے تمام مذاہب انسانوں کو حدودمیں رہناسکھاتے ہیں، دستور بنیادی طور پر کنٹرول ہے، جس کے پاس زیادہ طاقت ہو،اسے کنٹرول کرنا، حکومت کے پاس سب سے زیادہ طاقت ہوتی ہے، اس لیے اسے کنٹرول کرنے کے لیے بھی دستور ناگزیر ہے۔
انھوں نے مزیدکہاکہ ہمارے آئین نے طے کیا ہے کہ عوام کا مذہب ہوگا، لیکن ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا، آزادی کے وقت یہ فیصلہ لینا کہ ہم جمہوریت پر یقین رکھیں گے، یہ بڑا فیصلہ تھا، آئین سازاسمبلی نے عظیم فیصلہ کیا۔ مذہب کو حکومت پر اور حکومت کو مذہب پر غالب نہیں ہونا چاہیے، اس زمانے میں یہ بتانا مشکل ہے کہ انصاف ہے کیا، اس لیے ضروری ہے کہ ان مقامات پر نظر رکھی جائے، جہاں ناانصافی ہورہی ہے، نا انصافی کے خاتمے کے ساتھ انصاف کی بحالی یقینی ہوجاتی ہے ۔ یہ سقراط کا فلسفہ ہے کہ ہم قانون ماننے پر مجبور ہیں، لیکن بابائے قوم مہاتما گاندھی کا فلسفہ یہ ہے کہ قانون اگر انصاف پر مبنی ہوتو عوام قانون کو مانیں گے، ہمارے سماج میں اگر ایک فیصد لوگوں کے پاس 67فیصد دولت ہے تو اس کا مطلب نا انصافی ہورہی ہے، غربت اگر ہمارے سماج میں بڑھ رہی ہے تو اس کا مطلب کہ انصاف نہیں ہورہاہے، دستور کا وژن ہے بھائی چارہ، اگر مساوات اور انصاف ہوگا اور آزادی حاصل ہوگی تو آپسی بھائی چارہ باقی رہے گا، جتنی محنت ہمیں مساوات پر کرنی تھی، ہم نے ماضی میں اتنی محنت نہیں کی، نفرتیں اس لیے سامنے آتی ہیں کہ ہم نے مساوات پر محنت کم کی ہے، دستور ہند انسانوں کے لکھے ہوئے دستوروں میں صف اول میں شامل کیا جائے گا، اقلیتوں کو دستور پر کامل یقین رکھنا بہت ضروری ہے، پہلے دستور پر اپنے اعتماد کا عملی اظہار کیجیے پھر آپ کو آپ کا حق مل جائے گا۔
آرٹس فیکلٹی کے ڈین پروفیسرامیتابھ چکرورتی نے کہا کہ بہت سی تقریریں سننی پڑتی ہیں لیکن آج کا لیکچر ایسا تھا کہ ہمیں لگا آج ہمیں کچھ ملا، آج کا لیکچر بہت ہی عمدہ تھا، ہم لوگ کوشش کررہے ہیں کہ آرٹس فیکلٹی کے تمام شعبہ جات کے ساتھ مل کر کام کریں، شعبہ اردو کا شکر گزار ہوں کہ اتنا اچھا پروگرام منعقد کرایا۔
پروگرام کے مہمان خصوصی محمد احسن عابد،سکریٹری اردواکادمی،دہلی نے کہا کہ آج کا خطبہ بہت عمدہ تھا، اتنا عمدہ خطبہ تھا کہ اس پر بہت زیادہ بات نہیں کی جاسکتی ، نظام خطبات کی اشاعت اردو اکادمی کے تعاون سے ہوگی، ہم اس کے لیے عہد بستہ ہیں، مجھے امید ہے کہ شعبہ اردو اس طرح کے بامعنی پروگراموں کا انعقاد کرتا رہے گا۔
پروفیسر انجو ولی ٹکو،ڈین لاء فیکلٹی،دہلی یونیورسٹی نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ آج کے خطبے کا موضوع وقت کا تقاضا ہے، آئینی وژن کا آغاز ہمارے گھروں سے ہوتا ہے، جب بھی کبھی ہم حق کی بات کرتے ہیں تو ہم دوسرے کو الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب ذمہ داریوں کی ادائیگی کی بات کرتے ہیں تو ہم لوگوں کو اکٹھاکرتے ہیں اور یہیں سے سوچ میں ایک فرق پیدا ہوجاتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ حق کے حصول اور ذمہ داریوں کی ادائیگی دونوں مواقع پر لوگوں کو ہم ساتھ رکھیں، میں آپ سب سے درخواست کروں گی کہ دستورکے پری ایمبل کو ضرور پڑھا کریں، زندگی کی اخلاقیات کا نام ہی قانون ہے، جب بھی ہم کچھ کریں اس سے پہلے دوسروں کے حقوق کو ضرور سمجھیں، میں شکر گزار ہوں شعبہ اردو اور صدر شعبہ اردو کی کہ انھوں نے لینگویج اور لاء کو ایک جگہ لاکر کھڑا کیا اور اتنا اچھا پروگرام منعقد کیا۔
پروگرام کی نظامت پروفیسرابوبکرعبادنے بحسن وخوبی انجام دیتے ہوئے تمام مہمانوں بالخصوص پروفیسرفیضان مصطفی کاتعارف کرایا۔انھوں نے اس موقع پرکہاکہ پروگرام توبہت ہوتے ہیں،اس طرح کے پروگراموں کاانعقادکم ہوتاہے،لیکن اس طرح کے پروگراموں کے انعقادسے معاشرے اورطلباوطالبات میں بیداری پیداہوتی ہے ۔
اس پروگرام کے کنوینرپروفیسر متھن کمار نے مہمانوں کاشکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہمارا آئین سب سے اچھا ہے، لیکن اس کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس کے استعمال کرنے والوں پر ہے، مجھے امید ہے کہ آج کی گفتگو سن کر ہم سب اپنے حقوق کی بات کرنے کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں پر بھی توجہ دیں گے۔
اس پروگرام میں خصوصی طورپرپروفیسرچندرشیکھر،پروفیسرریاض عمر، پروفیسر وجیاوینکٹ رمن پروفیسر مظہر احمد،پروفیسرمحمدکاظم،پروفیسر مشتاق عالم قادری، ڈاکٹراحمدامتیاز،ڈاکٹرارشادنیای،ڈاکٹرشاذیہ عمیر، ڈاکٹرعلی احمدادریسی، ڈاکٹرشمیم احمد، ڈاکٹرہردے بھانو پرتاپ، ڈاکٹر عارف اشتیاق، ڈاکٹرفرحت کمال اوردوسرے شعبوں خاص طور سے لافیکلٹی کے متعدد اساتذہ ،طلباوطالبات شریک ہوئے۔

You may also like