Home تجزیہ کانگریس کو خود کانگریس ہراتی ہے -ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

کانگریس کو خود کانگریس ہراتی ہے -ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

by قندیل

ہریانہ میں انتخابی تشہیر کا آغاز ہو چکا ہے ۔ کسی سے بھی معلوم کیجیے، جواب یہی ملے گا، ہریانہ میں کانگریس کے لیے ماحول سازگار ہے ۔ خود بی جے پی کے لوگ بھی یہی مانتے ہیں ۔ ٹکٹ مانگنے والوں کی تعداد سے بھی اس کا اندازہ ہوتا ہے ۔ بھاجپا نے حکومت مخالف لہر سے نپٹنے کے لیے پریوار واد اور نئے چہروں میں بھروسہ دکھایا ہے ۔ حالانکہ وہ پریوار واد کی ہمیشہ مخالف رہی ہے ۔ مگر ہریانہ میں خاندان کی بنیاد پر ٹکٹ پانے والوں کی فہرست طویل ہے ۔ مثلاً کلدیپ بشنوئی کے بیٹے بھوے بشنوئی، کرن چودھری کی بیٹی شروتی چودھری، راؤ اندر جیت کی بیٹی آرتی راؤ، کرتار بھڑانہ کے بیٹے من موہن بھڑانہ، ست پال سانگوان کے بیٹے سومیر سانگوان، ہریش چندر مدھا کے بیٹے کے ایل مدھا، مہاویر یادو کے بیٹے راؤ دلبیر کو ٹکٹ دیا گیا ہے ۔ دوبارہ ٹکٹ پانے والوں میں سے کچھ کے انتخابی حلقے بدلے گئے ہیں ۔ جیت حاصل کرنے کے لیے دوسری پارٹیاں چھوڑ کر آئے لوگوں کو ٹکٹ دیا گیا اور پارٹی کے نیتا و کارکن دیکھتے رہ گئے ۔ دوسری پارٹیوں کے نیتاؤں کو ترجیح دینے کی وجہ سے بی جے پی کو اندرون ناراضگی کا سامنا ہے ۔

بی جے پی کامیابی حاصل کرنے کے لیے تمام طرح کے داؤ پیچ آزما رہی ہے ۔ نفرت کی بنیاد پر سماج کو بنٹنے کی کوشش بی جے پی کا آزمایا ہوا نسخہ ہے ۔ چرخی دادری میں گو مانس کھانے کے شک میں دو مزدوروں کو اتنا پیٹا گیا کہ ایک کی موت ہو گئی ۔ اس پر وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی نے انتہائی شرمناک اور مجرموں کو شہ دینے والا بیان دیا ۔ دوسرے واقع میں گو اسمگلر مان کر بارہویں جماعت کے طالب علم آرین مشرا کے قتل نے حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ۔ ریاست میں بد انتظامی کا حال یہ ہے کہ نارکوٹکس بیورو کی رپورٹ کے مطابق ہریانہ کے 22 میں سے 13 اضلاع نشے کا ہب بن چکے ہیں ۔ کسان 378 دن سرحد پر بیٹھے رہے انہیں دہلی میں داخل نہیں ہونے دیا گیا ۔ اس دوران 700 سے زیادہ کسانوں کی موت ہو گئی ۔ اب کسان معلوم کر رہے ہیں کہ جب ہمیں راجدھانی میں داخل نہیں ہونے دیا گیا تو ہم سے ووٹ کیوں مانگ رہے ہیں ۔ ہریانہ کی 60 فیصد آبادی گاؤں میں رہتی ہے اور 70 فیصد آبادی کا کسی نہ کسی طرح زراعت سے تعلق ہے ۔ وہاں عام رائے ہے کہ بی جے پی گاؤں، غریب اور کسان کی مخالف ہے ۔ کیونکہ پانی پت، سونی پت، گڑ گاؤں، فرید آباد، کھرگودا، روہتک اور انبالہ انڈسٹریل بیلٹ ہونے کے باوجود یہاں بے روزگاری کی شرح ملک کی شرح سے تین گنا ہے ۔ ہریانہ کی کھلاڑی پہلوان بیٹیوں کے خلاف نا انصافی، اگنی ویر، مہنگائی، چھوٹی صنعتوں، کاروباریوں کی پریشانی، سرکاری تعلیم اور علاج ختم ہونے کی وجہ سے یہاں ماحول بی جے پی کے خلاف ہو گیا ہے ۔

کانگریس کے حق میں جو ماحول دکھائی دے رہا ہے ۔ اس میں ہریانہ کے کسی مقامی لیڈر کا دخل نہیں بلکہ بی جے پی کی ناکامی اور راہل گاندھی کے ذریعہ کسانوں کی حمایت، اگنی ویر کے خلاف آواز، ریاست کا نام روشن کرنے والی پہلوان بیٹیوں کو انصاف دلانے کا عہد، چھوٹی صنعتوں اور کاروباریوں کی مدد کا وعدہ، مہنگائی، بے روزگاری پر لگام، سرکاری تعلیم و علاج کی سہولیات دستیاب کرانے، قانون انتظامیہ کے مسائل اٹھائے جانے کے نام پر کانگریس کو ووٹ ملیں گے ۔ اس کے برخلاف ہریانہ میں عوامی حمایت دیکھ کر کانگریسی حواس باختہ ہو رہے ہیں ۔ سب کو وزیر اعلیٰ کی کرسی دکھائی دے رہی ہے ۔ ہر بڑا کانگریسی اپنے گروپ کے زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو جتانا اور دوسرے کو ہرانا چاہتا ہے ۔ اسی گروپ بندی کی وجہ سے کانگریس اچھی حالت میں ہونے کے باوجود 2019 میں 31 سیٹوں پر رک گئی تھی ۔ گٹ بازی کی وجہ سے رندیپ سرجے والا کو ہار کا منھ دیکھنا پڑا تھا ۔ اکثریت بی جے پی کو بھی نہیں ملی تھی وہ 40 سیٹیں ہی حاصل کر سکی تھی ۔ ہریانہ کی اسکرینگ کمیٹی کے صدر اجے ماکن خود اس گٹ بازی کو جھیل چکے ہیں ۔ دوسال قبل یہی گٹ بازی اجے ماکن کو راجیہ سبھا کا الیکشن ہرا چکی ہے ۔ اس وقت کرن چودھری نے ان کے خلاف ووٹ کیا تھا ۔ کرن چودھری کو سرجے والا اور شیلجا کے گروپ نے بچانے کی کوشش کی تھی ۔ یہاں تک کہ ان کے بی جے پی میں جانے پر بھی انہیں نے ان کی حمایت میں بیان دیا تھا ۔ کہا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ 90 سیٹ والی اسمبلی کے تقریباً 70 ٹکٹ بھوپیندر ہڈا کی مرضی سے دیے گئے ہیں ۔ بی جے پی ہریانہ کی تمام چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ ہڈا کے خلاف بیانیہ تیار کر سکتی ہے ۔

یہ گروپ بندی ہماچل میں ابھشیک منو سنگھوی کو بھی ہرا چکی ہے ۔ وہاں تو کانگریس کی چنی ہوئی حکومت پر ہی خطرہ منڈرانے لگا تھا ۔ سکھوندر سنگھ سکھو بڑی مشکل سے حکومت بچا پائے ۔ لیکن لوک سبھا الیکشن میں کانگریس کو ہماچل سے متوقع کامیابی نہیں ملی ۔ راجستھان، چھتس گڑھ اور مدھیہ پردیش کی مثال بھی سامنے ہے ۔ جہاں کانگریس کو خود کانگریس نے ہرایا ۔ راجستھان میں سچن پائلٹ اور اشوک گہلوت کے اختلافات نے پارٹی کو نقصان پہنچایا ۔ وہیں چھتس گڑھ میں بھوپیش بگھیل نے اپنے لوگوں کو ٹکٹ دینے کے چکر میں بیس جیتنے والے امیدواروں کے ٹکٹ کٹوا دیے ۔ مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ کے بیانات اور محدود انتخابی مہم کانگریس کا ماحول ہونے کے باوجود مطلوبہ کامیابی نہیں دلا سکی ۔ یہاں تک کہ گروپ بندی کے چکر میں کانگریس مدھیہ پردیش سے لوک سبھا کی ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکی ۔ پھر کانگریسیوں کے غیر سیاسی طنز یہ بیان پارٹی کے لیے سم قاتل ثابت ہوتے ہیں ۔ مثلاً مودی کو چائے والا کہنا 2014 میں کانگریس کو بھاری پڑا ۔ منی شنکر ایئر، سیم پترودا، سلمان خورشید، کمل ناتھ، دگوجے سنگھ اور کئی دوسرے کانگریسیوں کے بیانوں نے پارٹی کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ مثال کے طور پر حال ہی میں وزیر داخلہ رہے سشیل کمار شندے نے کہا کہ وزیر داخلہ رہتے ہوئے وہ شری نگر کے لال چوک پر نہیں جا سکتے تھے ۔ اس پر پلٹ کر امت شاہ نے جواب دیا کہ ہمارے زمانہ میں اپوزیشن کے لیڈر بھی شری نگر جا کر برف سے کھیل سکتے ہیں ۔ کانگریس کو یہ صورتحال بدلنی ہوگی ۔ ایسے تمام کانگریسیوں کو سخت پیغام دینا ہوگا کہ جو بھی پارٹی کو نقصان پہنچانے والا بیان دے گا ۔ پارٹی اس کے خلاف سخت کاروائی کرے گی ۔

ہریانہ کو کانگریس نے 1966 میں ریاست بنایا تھا ۔ بعد میں یہ ملک کی ایک ترقی یافتہ ریاست کا ماڈل بنی ۔ گزشتہ دس سال سے بی جے پی مرکز اور ریاست دونوں جگہ حکومت میں ہے ۔ اس نے ہریانہ کی ترقی کے لیے کیا کیا وہ عوام کو نہیں بتا پا رہی ہے ۔ 1966 سے 2014 تک ریاست پر 70 ہزار کروڑ کا قرض تھا ۔ جو دس سالوں میں سوا تین لاکھ کروڑ ہو گیا ہے ۔ ہریانہ ایک ترقی پسند ریاست ہے تین طرف سے اس کی سرحد دہلی سے ملتی ہے ۔ بی جے پی گزشتہ دس سال میں اسے کوئی سمت نہیں دے سکی ۔ سوائے لنچنگ کی حمایت، فرقہ وارانہ و طبقاتی تفریق، کسان اور گاؤں کی مخالفت کے ۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے پاس اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ اب اسے کانگریس کی گروپ بندی اور زبان پھسلنے والے بیانوں سے امید ہے ۔ باقی باتوں کا جواب تو عوام دے رہے ہیں کیونکہ وہ ہندو مسلمان سے بہت آگے نکل چکے ہیں ۔ ایک چیز کا جواب خود کانگریس کو دینا پڑے گا اور وہ ہے گروپ بندی کا ۔ کانگریس کے لیڈران کی ٹھسک ہائی کمان کو توڑنی ہوگی ۔ تاکہ سارے گٹ باز نیتاؤں کے تیور ٹھیلے ہو جائیں ۔ ہریانہ میں اس کے پاس موقع ہے جہاں ہائی کمان سخت پیغام دے سکتا ہے کہ گروپ بندی کرنے والا کوئی بھی شخص بخشا نہیں جائے گا ۔ یہ الیکشن کوئی گروپ نہیں بلکہ کانگریس پارٹی لڑ رہی ہے ۔ ہریانہ میں ہائی کمان کا بھی امتحان ہے اگر وہ گروپ بندی کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو گیا تو تمام ریاستوں کو اس کا پیغام چلا جائے گا ۔ یہاں ڈھیلے پڑے تو ریزلٹ بھی ویسا ہی ہوگا ۔ یعنی عوام جتانا بھی چاہیں تو کانگریس جیتنا نہیں چاہتی اس کا یہی پیغام جائے گا ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like