Home نقدوتبصرہ کانگریس ہاؤس: ساکن پانی میں ہلچل – عبداللہ ندیم

کانگریس ہاؤس: ساکن پانی میں ہلچل – عبداللہ ندیم

by قندیل

اشعر نجمی صاحب کے نئے ناول “کانگریس ہاؤس “ کو جب میں نے پڑھنا شروع کیا تو ایک انجانے خوف نے مجھے گھیر لیا ۔ شاید اس کیفیت کے لیے انگریزی کا لفظ Trepidation زیادہ مناسب ہے۔ ناول کے تعلق سے پچھلے دو ہفتے سے ادب فہم اور ادب شناس حضرات کی آرا نے ،اگر سچ کہوں تو مجھے ڈرا دیا تھا ۔میں ویسے بھی جارگن Jargon سے ڈرنے والا انسان ہو۔ایم اے سال اول میں کمیونیکیشن تھیوری میں اتنے سارے جارگنز سے واسطہ پڑا ہے کہ زندگی میں اب مزید جارگنز کی گنجائش نہیں ۔ڈر یہ بھی تھا کہ خدا جانے میں اسے کس حد تک سمجھنے میں کامیاب ہوں گا ،الحمد للہ کہ کچھ خدشات محض خدشات نکلے ،پھر بھی اسے ایک layman کا تبصرہ سمجھ کر پڑھا جائے۔
یہ ناول پڑھتے ہوئے نہ جانے کیوں مجھے مشہور جاپانی فلم میکر اکیرا کروساوا Akira Kurosawa کی فلم راشومان Rashomon یاد آگئی ۔فلم کے ابتدائی سین میں لوہے کا زنگ آلود گیٹ اور اس کے سامنے بیٹھا ہوا بوڑھا گیٹ کیپر ، کانگریس ہاؤس کی زنگ آلود کھڑکی اور سامنے بیٹھا بوڑھا واچ مین ،شاید اس کا سبب بنا ہو۔دونوں ہی زوال اور انحطاط decadence کی علامت کے طور پر استعمال ہوئے ہیں، مزید برآں اس تھیم میں بھی مماثلت تلاش کی جا سکتی ہے کہ سچ کوئی واحد اکائی نہیں ہے بلکہ اس کے کئی انٹر پریٹیشن ہو سکتے ہیں ۔لیکن کانگریس ہاؤس اس سے بہت آگے کی چیز ہے ۔
Trusting a politician is more like falling in love with a prostitute
کتاب کھولتے ہی اس جملے سے آپ کا سابقہ پڑتا ہے ۔اشعر نجمی جیسا زیرک اور دور رس مصنف ،جس کے یہاں “کاما “ بھی بغیر مطلب کے نہیں آتا ہے ،کتاب کے ابتدائی صفحے پر ایسا جملہ یونہی نہیں ٹانک سکتا ۔میں سمجھتا ہوں یہ “کلیو” ہے بیانیہ کو سمجھنے کا۔پھر کانگریس ہاؤس اور جناح ہاؤس؟ کوئی اور علامت بھی استعمال کی جا سکتی تھی ۔یہ ایک انتہائی کمپلیکس complex ناول کو سمجھنے کا ایک بہت سیدھا سادا زاویۂ نگاہ ہوسکتا ہے ،لیکن جس طرح سے ان علامتوں کے ذریعے تاریخ کے جبر کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، اس کی انگلی پکڑ کر ناول کو کسی حد تک سمجھا جا سکتا ہے ۔آزادی کی جد وجہد،تقسیم کا ہولناک حادثہ ،آزاد ہند میں بڑھتی ہوئی فسطائیت ،سیاست کا مکروہ چہرہ ،عورت کے جنم جات دکھ ،یہ وہ ببانیہ ہے جو متوازی طور پر چلتا رہتا ہے ،حالانکہ کہانی کی شروعات ایک “بار بالا “کے ریپ سے ہوتی ہے ۔(ریپ بھی یہاں بہت وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے اور اس کا انکشاف ناول کے آخر میں ہوتا ہے )کہانی آگے بڑھتی ہے اور ایک کہانی کے بطن سے دوسری کہانی جنم لیتی ہے۔بادی النظر میں وقت اور تاریخ سے ماورا لیکن حقیقت میں منسلک اشعر نجمی نے اپنے ایک کردار سے تاریخ کے بارے میں ایک جملہ کہلوایا ہے “تاریخ ایک بڑے کوڑے دان کے سوا کچھ نہیں ہے لیکن اس میں کوڑا تو ہمارا ہی ہے” اس مرحلے پر مجھے پھر راشومان یاد آرہی ہے ،جس کے متعلق ایک مبصر نے بڑا تاریخی جملہ کہا ہے :
“Rashomon is not about our ability to reconstruct the past accurately.Its about what human decietfulness means for our ability to live truthfully”
اشعر نجمی صاحب نے کانگریس ہاؤس میں بیانیہ کی جو تکنیک اختیار کی ہے ،اس پر مشاہیر روشنی ڈال چکے ہیں ۔تکنیک کی اہمیت سے کسے انکار ،پھر بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ تکنیک تو محض ایک ٹول ہے ۔اگر مدعا پوری طرح بیان ہوگیا تو ٹھیک ہے ورنہ معاملہ missing woods for the trees جیسا ہو جاتا ہے۔ایک اور disruptive تکنیک اشعر صاحب نے استعمال کی ہے۔کہانی کے بیچ میں اچانک جنگل آ جاتا ہے جو بظاہر اوپر کے متن سے غیر مر بوط لگتا ہے لیکن غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ بعد میں آنے والے متن کی کلید ہے ۔جارج آرویل اینیمل فارم Animal farm میں جانوروں کو ٹول بنا کر انسانی خصلت کا پوسٹ مارٹم کر چکے ہیں ۔البتہ یہاں معاملہ “طنز” کا نہیں ہے ۔اشعر نجمی صاحب کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے تمام تر تکنیکوں کے استعمال کے باوجود اس ناول کو “اہمال “ سے بچا لیا اور اسے ایک existential bullshit نہیں بننے دیا ۔
ایک اور کمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنے تجربے کو اپنی ذات کا حصہ بننے دیا ۔قوت مشاہدہ اپنی جگہ لیکن اسے تجربہ بننے میں وقت لگتا ہے ۔ہمارے یہاں ضبط کا مادہ کم ہوتا جارہا ہے ۔تقسیم کا دکھ تو ہمیں وراثت میں ملا ہے اور یہ نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے اور ایک طرح سے ہمارے ڈی این اے کا جزو بن گیا ہے ،اشعر صاحب نے جس طرح سے 1992 کے ممبئی فسادات کے تناظر میں اس کہانی کا تانا بانا بنا ہے ،وہ میرے خیال سے اس کا سب سے مضبوط پہلو ہے ۔انھوں نے تین دہائیوں سے زیادہ اسے اپنے وجود میں سینت سینت کر رکھا ۔شاید انھیں علم تھا کہ فوری اشتعال میں جو چیز لکھی جاتی ہے ،وہ دیر پا نہیں ہوتی ہے ۔لیکن ایسا بھی نہیں کہ وہ “حال” سے بے خبر ہیں ۔چاہے وہ “ستیا” Satya “فلم کا مشہور ڈائیلاگ “ممبئی کا کنگ کون “ ہو یا مکیش امبانی کے سپوت کامرغیاں بچانے کا مضحکہ خیز واقع ،کچھ بھی ان کی نظر سے چھپا نہیں ہے اور وہ اسے اس طرح کہانی میں پرو دیتے ہیں ،گویا وہ اسی موقع کے لیے بنا تھا ۔
“اچھا ،تو یہ کہنا چاہ رہی ہے جیسے امبانی کا بیٹا مرغی بچا رہا ہے تو وہ پیار ہےاور اس کا باپ “جیو مارٹ “ میں چکن پیس بیچ رہا ہے تو وہ سیکس ہے ؟”
اشعر صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ساکن پانی میں پتھر اچھال دیا ہے ،دیکھیں کتنی ہلچل ہوتی ہے ؟عجب نہیں کہ یہ ناول ایک نئے موومنٹ کا catalyst بن جائے۔

You may also like