عالم اسلام کے ممتاز عالم دین ، عظیم مصلح ،پچاس سے زائد کتابوں کے مصنف علامہ یوسف قرضاوی کے سانحہ ارتحال پر امار ت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ کے مرکزی دفتر میں مورخہ 26 ستمبر 2022 کو سہ پہر چار بجے ایک تعزیتی نشست امیر شریعت بہار ،اڈیشہ و جھارکھنڈ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کی صدارت میں منعقد ہوئی ۔علامہ قرضاوی کے انتقال کو دنیائے اسلام کا بہت بڑا علی خسارہ بتاتے ہوئے امیر شریعت مد ظلہ نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ موجودہ صدی میں وہ دنیا کی عظیم ترین علمی ، فقہی و دعوتی شخصیت کے حامل تھے ۔ پوری دنیا میں ان کے فقہی و علمی آرا ء کو اہل علم و فقہ کے درمیان سند و مرجع کی حیثیت حاصل تھی ۔ آپ کی زندگی اسلامی افکار و نظریات کی بقاء اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے وقف تھی ۔ اس کام کے لیے آپ کو غیر اسلام پسند اورمغربی تہذیب کی دلدادہ حکومتوں کی طرف سے اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ نے برسوں قید وبند اور جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کیں۔کئی دہائیوں سے آپ اپنے وطن مصر سے باہر قطر میں زندگی گزار رہے تھے ۔ آج بھی ان کی بیٹی اورداماد کئی برسوں سے بغیر کسی جرم کے جیل میں بند ہیں ۔اتنی صعوبتیں اور مشکلات برداشت کرنے کے باوجود آپ نے صحیح اسلامی فکر کی ترجمانی کو اپنی زندگی کاواحد مقصد بنا رکھا تھا۔ آج ان کے انتقال سے پوری ملت اسلامیہ ایک جرأت مند و حق گو مصلح اور عظیم داعی اسلام سے محروم ہو گئی ہے ۔
خیال رہے کہ علامہ یوسف عبد اللہ القرضاوی کا(9 ستمبر 1926-26 ستمبر 2022)آج مورخہ 26 ستمبر 2022 کو 96 سال کی عمر میں قطر کی دار الحکومت دوحہ میں انتقال ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ! یوسف قرضاوی کی پیدائش 9 ستمبر 1926ء کو مصر کے محافظہ غربیہ کے مرکز المحلہ الکبری کا ایک گاؤں ‘‘صفط تراب’’میں ہوئی۔آپ نے 1944 سے 1958 تک دنیا کی مشہور اسلامی یونیورسٹی جامعہ ازہر قاہرہ مصر میں تعلیم حاصل کی ۔ آپ اکیسویں صدی کے عظیم مصلح اور اخوان المسلمین کے بانی حسن البناکے عقیدت مندوں میں سے تھے ، وہ آخر عمر تک اخوان کے حامیوں میں رہے ۔ اخوان کی سر گرم حمایت کی بنا پر وہ مصری حکومت کی نظروں پر چڑھ گئے ، جس کی بنا پر انہیں مصر کی سکونت ترک کر کے قطر جانا پڑا، وہاں وہ کئی یونیورسٹیوں میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے ۔ انہوں نے الجزائر کی بھی کئی یونیورسٹیوں میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیے۔وہ عالمی اتحاد برائے علماء اہل اسلام کے بانی اور سر پرست اور اس وقت یورپین کاؤنسل فار فتاویٰ اور ریسرچ کے سربراہ تھے ۔وہ پچاس سے زائد کتابوں کے مصنف تھے جس میں ‘‘الفتوى بين الانضباط والتسيب، فی فقہ الاقلیات المسلمہ،فقہ الزکوٰۃ،الحلول المستوردة وكيف جنت على أمتنا،من فقہ الدولۃ فی الاسلام،الشیخ الغزالی کما عرفتہ،الوقت فی حیاۃ المسلم،اصول العمل الخیری فی الاسلام،تاریخنا المفتری علیہ،السیاسۃ الشرعیہ، السنۃ و البدعۃ، الورع والزہدثقافتنا بین الانفتاح والانغلاق ، الحلال و الحرام فی الاسلام، الاسلام بین شبہات الضالین و اکاذیب المفترین ’’ ان کی اہم تصنیفا ت میں شامل ہیں۔
حضرت امیر شریعت کی صدارت میں منعقد اس تعزیتی نشست میں نائب امیر شریعت بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی ، قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی القاسمی ، قاضی شریعت مولانا محمد انظار عالم قاسمی، صدر مفتی مولانا سہیل احمد قاسمی، نائب ناظم مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، مولانا سہیل احمد ندوی و مولانا مفتی محمد سہراب ندوی، مفتی امارت شرعیہ مولانا مفتی محمد سعید الرحمن قاسمی، مولانا قمر انیس قاسمی، مولانا احمد حسین قاسمی، مولانا ڈاکٹڑ محمد اعجاز احمد سابق چیئر مین بہار اسٹیٹ مدرسہ بورڈ، مولانا محمد ابو الکلام قاسمی ، مولانا منہاج عالم ندوی ، مولانا شہنواز مظاہری، مولانا مرسل احمد مولانا شمیم اکرم رحمانی ، حافظ صبغۃ اللہ رحمانی ، مولانا سعود اللہ رحمانی ، مولانا حافظ احتشام عالم رحمانی ،مولانا محمد عادل فریدی وغیرہ کے علاوہ دیگر کارکنان امارت شرعیہ شریک تھے۔ علامہ کے انتقال پر دیگر شرکاء مجلس نے بھی دلی رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے علامہ کے محاسن کا تذکرہ کیا اور تعزیتی کلمات کہے۔ آخر میں تما م شرکاء نے علامہ یوسف القرضاوی رحمہ اللہ کے لیے ایصا ل ثواب اور مغفرت و بلندی درجات کی دعاء کی ۔