گزرے دنوں ایک لاجواب کتاب زیر مطالعہ رہی ، ’ چودھری محمد نعیم ؛ منتخب مضامین ( پہلی جلد ) ‘ ۔ یہ چودھری صاحب کے پندرہ مضامین کا انتخاب ہے ۔ چودھری محمد نعیم بارہ بنکی میں 1934 میں پیدا ہوئے تھے ، 1961 میں شکاگو یونیورسٹی میں ملازمت ملی تھی ، وہاں چالیس سال تک درس و تدریس کا کام کیا ، اب ریٹائرڈ ہیں ، لیکن تحقیق اور تحریر کا کام اب بھی جاری ہے ، انگریزی زبان میں ان کی کوئی درجن بھر کتابیں ہیں ۔ اس مجموعہ کے بیک کور پر ان کا تعارف کراتے ہوئے یہ تحریر ہے ، ’’ چودھری محمد نعیم کے مضامین اردو کی مروجہ ادبی تنقید کے زمرے سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ اردو سے وابستہ سماج میں پچھلی کئی صدیوں میں آنے والی سیاسی ، اقتصادی اور ثقافتی تبدیلیوں کا جائزہ لے کر ان کے نتائج کا رُخ جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ‘‘ ان مضامین کو پڑھنے کے بعد میرا ردعمل یہ ہے کہ چودھری محمد نعیم اپنی تحریروں / مضامین سے رائج یا روایتی تصورات پر ضرب ، وہ بھی کاری ضرب لگانے کا کام لیتے ہیں ۔ کیسے ؟ آئیں اس سوال کا جواب ان کے مضامین پر ایک نظر ڈال کر تلاش کریں ۔
کتاب کا پہلا مضمون’ غالب ؔ کی دلّی : دو مقبول عام استعاروں پر گستاخانہ نظر ثانی ‘ کے عنوان سے ہے ، اور جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہوتا ہے ، یہ غالبؔ کی دلّی کو ایک ایسے زاویے سے دیکھتا ہے ، جسے ،مصنف کو لگتا ہے ، لوگ ’ گستاخانہ ‘ مان سکتے ہیں ۔ کیوں ؟ اس لیے کہ غالبؔ کی دلّی کا ایک ایسا تصور بنا دیا گیا ہے ، جس سے ہٹ کر اسے دیکھنے کے لیے ، اکثریت تیار نہیں ہے ۔ یہ تصور کیا ہے ؟ چودھری محمد نعیم لکھتے ہیں کہ ادبی تاریخ نگاروں کی رو سے ’’ غالب ؔ کی دلّی کی حیثیت گویا ایک مغلیہ باغ کی تھی جو اپنی آخری ’ بہار ‘ دیکھ رہا تھا اس سے پہلے کہ بغاوت کے بعد رونما ہونے والے واقعات کی ’ خزاں ‘ نے اسے ہمشیہ کے لیے اجاڑ کر رکھ دیا ۔ ‘‘ اس دلّی کو ’ آخری شمع ‘ سے بھی تشبیہ دی جاتی تھی ، جو بجھنے سے پہلے بھڑک کر پرانی چمک دمک دکھاتی ہے ۔ چودھری محمد نعیم ، غالبؔ کی دلّی کے اس عام تصور کو ، جو ہم سب کے ذہنوں میں اپنی جگہ بنا چکا ہے ، یہ کہہ کر توڑتے ہیں کہ غالبؔ کی دلّی ’’ آخری بار بھڑک کر اپنے اردگرد کے ماحول کو اپنے پرانے مغلیہ نور سے روشن کر دینے والی ’ شمع ‘ نہیں تھی ۔ اگر یہ کوئی شمع تھی تو نہ مغلوں کی بنائی ہوئی تھی اور نہ 1857 کی بغاوت کے ساتھ گل ہوئی تھی ؛ یہ ایک نئی چیز تھی ، جو ہندوستانی اور برطانوی اشتراک عمل کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی اور اگرچہ 1857 میں یہ بہت تیز ہواؤں کی زد میں آئی لیکن اس کے بعد بھی جلتی اور روشنی دیتی رہی ۔ اور نہ ہی یہ دلّی کوئی ایسا ’ باغ ‘ تھی جو اپنی آخری بہار دیکھنے کے بعد بغاوت کے دوران مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہو ۔‘‘ چودھری محمد نعیم یہ باتیں ہوا میں نہیں کہتے ، وہ حوالے ، مثالیں اور دلیلیں دیتے ہیں ۔ وہ ایرانی تورانی گروہوں کی جنگوں ، نادر شاہ کے حملے ، افغانوں ، مراٹھوں ، روہیلوں اور جاٹوں کے متواتر دھاوؤں سے لٹتی اور تباہ ہوتی دلّی کی منظر کشی کرتے ہیں ، بادشاہ کےاپنے قلعے تک ہی محدود ہوجانے کا سچ بیان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کی دلّی کی شان تقریباً ختم ہوچکی تھی اور لوگ نقل مکانی کر رہے تھے ، لیکن انگریزوں کی آمد نے دلّی کو پھرسے آباد کیا ۔ فصیل بند شہر مسیحی سرگرمیوں کا مرکز بنا ، ’ دہلی کالج ‘ کی شکل میں ایک ایسا ادارہ انگریزوں نے سنبھالا جہاں ’ مشرقی ‘ تعلیم کے ساتھ ’ مغربی علوم‘ کی تعلیم دی جاتی تھی ، اس کے عملے میں انگریز پرنسپل کے ساتھ کئی ہندوستانی استاد بھی تھے ، جن میں مولوی مملوک علی اور مولوی امام بخش صہبائی بھی شامل تھے ، اور مفتی صدرالدین آزردہ اس ادارے کے اعزازی ممتحن تھے ۔ ڈپٹی نذیر احمد ، مورخ ذکاء اللہ اور محمد حسین آزاد وغیرہ یہیں کے تعلیم یافتہ تھے ۔ یہ دلّی کی ’ نشاۃ الثانیہ ‘ تھی ۔ چودھری محمد نعیم نے دہلی کی ادبی ، تہذیبی اور ثقافتی فضا پر ، اس ’ ہندوستانی اور برطانوی اشتراک عمل ‘ کے اثرات کا مدلل انداز میں ذکر کیا ہے ، وہ دلّی کی خوش حالی ، امن وامان اور نئی ترقیوں اور ٹکنالوجی بالخصوص پرنٹنگ پریس کا ذکر کرتے ہیں ، اور یہ ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں ، کہ غالبؔ کی دلّی ’ مغلیہ دلّی ‘ نہیں تھی ۔ مضمون بہت دلچسپ ہے ، اس میں جن اشخاص کا ذکر کیا گیا اور جن واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، وہ مزید معلومات کے حصول پر اکساتے ہیں ، جیسے یہ کہ ڈاکٹر چمن لال ، جو برطانوی میڈیکل سروس میں تھے ، اور بادشاہ کےمعالج بھی تھے ، عیسائی ہو گئے تھے ، اور ’ ماسٹر ‘ رام چندر جو ڈپٹی نذیر احمد اور ذکاء اللہ کے استاد تھے ، عیسائی ہو گئے تھے اور ان کی اتباع میں ڈپٹی نذیر احمد بھی عیسائیت اپنانے کے قریب پہنچ چکے تھے ۔ ایک دلچسپ شخصیت مولوی عمادالدین کی تھی جو بعد میں پادری عمادالدین کہلائے ۔
دوسرے مضمون ’ ایک ادبی جعلسازی کی دکھ بھری کہانی ‘ میں بھی دلّی کا ذکر ہے ، لیکن میر تقی میرؔ کے حوالے سے ، بلکہ یہ میر تقی میرؔ کی ہی کہانی ہے ۔ اس مضمون میں ایک اجڑی ہوئی دلّی نظر آتی ہے ، جہاں میرتلاشِ روزگار میں پہنچے ہیں ۔ اپنے ’ سوتیلے خالو ‘ سراج الدین علی خاں آرزو کے یہاں ٹھہرے ہیں ۔ آرزو کی تعریف چودھری محمد نعیم نے اِن لفظوں میں کی ہے ، ’’ شاعر ، شاعر گر ، ماہرِ اَلسِنہ ، لسانی مسائل پر گہری نظر رکھنے والے اور ان سے انتہائی خیال انگیز نتائج نکالنے والے ، بلند پائے کے لُغت نگار اور تذکرہ نگار ۔ ‘‘ اس مضمون میں ’ جعلسازی ‘ کی جس ’ دکھ بھری کہانی ‘ کا ذکر ہے وہ انہی آرزو کی کتاب ، تذکرۂ فارسی گویاں ’ مجمع النفائس ‘ کے حوالے سے ہے ۔ اس کتاب کے دس نسخے پائے جاتے ہیں ، ان میں صرف ایک نسخہ ایسا ہے ، جس میں میرؔ کا ذکر ہے ۔ چودھری محمد نعیم قیاس کرتے ہیں کہ آرزو کی کتاب کے اس نسخہ میں میرؔ کا جو ذکر ہے ، وہ میرؔ کی ’ جعلسازی ‘ ہے ۔ حالانکہ یہ قیاس ہے ، لیکن اس قدر مدلل کہ میرؔ شک و شبہ کے گھیرے میں آ کھڑے ہوتے ہیں ۔ چودھری محمد نعیم نے امتیاز علی خاں عرشی کے مرتب کردہ نسخے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے ، ’’ اس میں میرؔ کا ترجمہ ( تذکرہ ،حال ، سوانح )شامل ہے ، جو کسی اور نسخے میں نہیں ؛ یہ نسخہ آرزو کی وفات کے بعد تیار کیا گیا تھا ؛ میر کے ترجمے کے صفحات کا کاغذ اصل مخطوطے کے کاغذ سے مختلف ہے ، گو یہ صفحات مخطوطے کے آخر میں نہیں بلکہ بیچ میں شامل کیے گیے ہیں ؛ ترجمے کا خط باقی صفحات کے خط سے مختلف ہے ؛ نیز یہ کہ پورے مخطوطے میں جگہ جگہ حاشیے پر الفاظ اور مصرعے درج ہیں جیسا کہ کسی نسخے کی تصحیح کرتے وقت کیا جاتا ہے اور وہ اسی خط میں ہیں جس میں میرؔ کا ترجمہ ہے ۔‘‘ سوال ہے کہ میرؔ نے یہ ’ جعلسازی ‘ اگر کی ، تو کیوں کی ؟ چودھری محمد نعیم اس کا جواب بھی دیتے ہیں ، وہ لکھتے ہیں ، ’’ تصحیح مکمل ہونے پر مخطوطہ جلد ساز کے ہاتھوں سے گزر کر بالآخر ایک دن راجہ ( ناگر مل ) کے سامنے پیش کر دیا گیا ۔ ہم نہیں جانتے ، نہ قیاس کر سکتے ہیں کہ اس کے بعد کیا ہوا ۔ بظاہر یہ لگتا ہے میرؔ کو کچھ کامیابی ہوئی کیونکہ اب وہ دو تین سفر میں راجہ کے ہمراہ نظر آتے ہیں ۔ لیکن ایک دن یہ تعلق بھی بری طرح ٹوٹا ۔ ‘‘ اس مضمون میں میرؔ کی شخصیت عام تصور کے برخلاف نظر آتی ہے ، بالخصوص آرزو کے حوالے سے ، جو ان کے سوتیلے خالو تھے ۔ چودھری محمد نعیم لکھتے ہیں ، ’’ میرؔکی تمام فارسی تحریریں ( مع نکات الشعرا ) ایک طرح سے میرؔ کے آرزو سے اس جنونی شغف یا obsession کا اظہار ہیں جو رشک اور رقابت ، تعلقِ خاطر اور نفرت ، منتقمانہ جوش ، خوش کرنے کی للک ، زک دینے کی ضد ، کتنے ہی منتقمانہ جذبات کا ملغوبہ ہے اور جس کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ آرزو کی وفات کے بعد بھی میرؔ اس سے چھٹکارا نہ حاصل کرسکے ۔‘‘ گویا کہ میرؔ ایک نفسیاتی کیس تھے ! میر ؔ کی ایک تصویر غالبؔ اور محمد حسین آزاد کے ساتھ تیسرے مضمون ’ اردو شاعری کی سرپرستی : مغل اور برطانوی حکمرانوں کے درمیان ایک موازنہ ‘ میں بھی نظر آتی ہے ۔ اس مضمون میں میرؔ اپنی شاعری کے حوالے سے حساس نظر آتے ہیں ، اسی لیے وہ دو ملازمتیں چھوڑتے ہیں اور عسرت کی زندگی گزارتے ہیں ، بلکہ مانگے پر گزارہ کرتے ہیں ۔ میرؔ کو انگریزی حکومت سے فائدہ نہیں پہنچا ، جبکہ غالبؔ ’’ انگریزوں کی موجودگی کے خاصے ممنون احسان تھے ۔‘‘ یہ مضمون شاعروں اور ان کے مربیوں کے دو رویّوں کو اجاگر کرتا ہے ، ایک مغل دور کے حکمرانوں ، امرا اور نوابوں کا رویہ ، اور دوسرا انگریزی دور کا رویہ ۔ اس مضمون کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ عظیم شاعروں کے لیے ’ شاعری ‘ ایک ’ پیشہ ‘ تھا ، روزی روٹی کا ذریعہ اور جب کوئی مربی ملتا تو ان کی زندگی بہتر گزرتی اور بصورت دیگر یہ تنگ دست ہوتے ۔ کیسی افسوس ناک صورتِ حال تھی !
مضمون ’ آداب کی پابندی بمقابلہ انفرادیت : دلّی اور لکھنئو میں وضعداری کی مختصر تاریخ ‘ اور ’ ماقبل جدید کی اردو ، امتزاج یا امتیاز؟ ‘ یہ دونوں ہی مضامین ایک الگ مزاج کے ہیں ، لیکن انہیں بھی پڑھ کر قارئین روایتی تصورات کو منہدم ہوتے محسوس کرتے ہیں ۔ اِن میں سے پہلا مضمون چودھری محمد نعیم نے ’ اپنے وضع دار دوست نیر مسعود کے نام ‘ معنون کیا ہے ۔ مضمون کی بنیاد میں یہ سوال ہے کہ ’’ آداب کی پابندی کرنے والے سماج میں ایسا کوئی فرد ( یا افراد جو محسوس کرتے تھے کہ معاشرے کا ادب آداب کا اصرار انہیں ناگوار تسلیم و رضا کا طرزِ عمل اختیار کرنے پر مجبور کر رہا ہے ) اپنی انفرادیت کے واضح اظہار کے لیے کیا طریقہ اختیار کرسکتا تھا کہ – خود اپنی نگاہوں میں – پوری طرح ’ مہذب ‘ کہلانے کے دعوے سے محروم نہ ہوجائے ؟‘‘ آداب اور انفرادیت کی یہ بحث ’ وضعداری ‘ کی بحث کو اپنے دامن میں سمیٹتی ہے ، اس میں ’ بانکوں ‘ کا ذکر بھی آتا ہے اور ’ علی گڑھ کٹ پائجامے ‘ کا بھی ۔ دو گروپ سامنے آتے ہیں ، ایک نے ’’ ’ وضعداری ‘ کو مطلوبہ اجتماعی ترقی کے راستے کی ایک روکاؤٹ کے طور پر دیکھا اور اس کا مضحکہ اڑایا ۔‘‘ اس گروپ میں مرزا محمد ہادی رسوا ، عبدالحلیم شرر اور ڈپٹی نذیر احمد بھی شامل تھے ۔ دوسرا گروپ وہ تھا جسے ’ وضعداری ‘ میں ایک نہایت پسندیدہ خوبی دکھائی دی جو باقی رکھے جانے کی مستحق تھی نہ کہ محض کسی قسم کی ’ ترقی ‘ کی خاطر راستے سے ہٹا دیے جانے کی ۔ ‘‘ دوسرے مضمون میں اردو زبان سے ’ مقامیت ‘ یعنی ہندوستانی ماحول کو ختم کرنے ، لسانی برتری کے احساس کے پنپنے اور اس کے نتیجہ میں ، مرتب ہونے والے اثرات کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ یہ مضمون شاعری کے حوالے سے ہے ، اس میں دکن اور لکھنئو و دلّی کی زبانوں کے فرق کے حوالے سے تہذیبی اور ثقافتی تبدیلیوں کا جائزہ لے کر ، جو نتائج سامنے آئے ، اُن پر بات کی گئی ہے ۔ ایک اقتباس ملاحظہ کریں ، ’’ لیکن جو بات ایک قسم کے لسانی برتری کے احساس کے ردعمل کے طور پر شروع ہوئی تھی ، اس نے آگے چل کر خود وہی نخوت آمیز رویہ اختیار کر لیا ۔ جیسا کہ عام طور پر معلوم ہے ، دہلی میں اردو شاعری کے رائج ہونے کے بعد جو پہلا کام کیا گیا وہ اردو زبان کو اس کے تمام دکنی عناصر سے پاک کرنے کا تھا ۔ دہلی کا محاورہ مروج محاورہ قرار پایا ۔ بعد میں جب لکھنئو زیادہ خوشحال ثقافتی مرکز بنا اور دور دور سے لوگ وہاں پہنچ کر سکونت اختیار کرنے لگے تو دہلی اور لکھنئو کے اہلِ زبان حضرات کے درمیان ایک رقابت شروع ہو گئی ۔ یہ رقابت انیسویں صدی کے وسط تک بڑی شدت سے جاری رہی ، اور اس کے بعد بھی وقفے وقفے سے اور نسبتاً کم شدت کے ساتھ سر اٹھاتی رہی ۔ اسی طرح غلط فہمی پر مبنی یہ خیال بھی کہ صرف دہلی اور لکھنئو ہی اردو کے اصل مرکز ، اور یوپی اور دہلی کے رہنے والے ہی اردو کے اصل اہلِ زبان ہیں ، بیسویں صدی تک پٹنہ ، لاہور ، کلکتہ اور حیدرآباد جیسی جگہوں پر تلخی اور منافرت کے جذبات پیدا کرتا رہا ۔‘‘
یہ تبصرہ و تعارف کچھ طویل ہوگیا ہے ، اس لیے باقی مضامین کا ایک سرسری تعارف ہی ممکن ہے ؛ مضمون ’ نذیر احمد کا انعامی ادب ‘ میں ڈپٹی صاحب کے ناولوں کا ، جنہیں انگریزوں نے انعامات دیے ، تجزیہ ہے ، اس کے ساتھ ہی اس دور کے دیگر ’ انعامی ادب ‘ کا ایک سرسری ذکر کیا گیا ہے ۔ اس میں خواتین کی تعلیم پر بھی بات کی گئی ہے ۔ چودھری محمد نعیم عورتوں سے متعلق ڈپٹی صاحب کے رویے اور طرزِ احساس کو ’ ریڈیکل ‘ قرار دیتے ہوئے ان کے ناولوں کے بارے میں لکھتے ہیں ، ’’ ان کے یہ ناول ادب الآداب کی وہ تصانیف ہیں جن کی ضرورت اس وقت کے حاکم و محکوم کو تھی ۔ اس میں ان کی کامیابی کا راز ہے ، لیکن ہمارے زمانے میں ان کی مقبولیت باعثِ تشویش ہو سکتی ہے ۔‘‘ ایک لاجواب مضمون ’ بیگماتی زبان ‘ کے عنوان سے ہے ، اس میں نعیم صاحب اس تصور کو ، کہ ’ پردہ نشین بیگمات ‘ کی زبان ’ بیگماتی زبان ‘ تھی ، یہ کہہ کر توڑتے ہیں کہ ’’ اردو خواں اور اردو نویس عورتوں نے نہ تو ریختی کو ہاتھ لگایا اور نہ ’ بیگماتی اردو ‘ کو ۔‘‘ ایک مضمون ’ شیخ امام بخش صہبائی ، استاد ، عالم ، شاعر اور معمّی ‘ مشہور ’ دہلی کالج ‘ کے استاد و شاعر پر ہے ۔ یہ ایک طویل مگر لاجواب مضمون ہے ، اس میں صہبائی اور ان کے دو بیٹوں کے انگریزوں کے ہاتھوں قتل کی المناک تفصیل ہے ، ساتھ ہی غالبؔ ، سرسید احمد خاں اور محمد حسین آزاد سے صہبائی کے نرم گرم تعلقات پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ صہبائی کی فارسی اور اردو کتابوں کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ چودھری صاحب یہ مانتے ہیں کہ صہبائی ایک بڑے عالم تھے ، لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ مجھے صہبائی خود اپنے زمانے میں ایک دقیانوسی شخصیت نظر آتے ہیں ، زمانے کی رَو سے بے نیاز اور ماضی کے اوراق میں گم ۔‘‘ ایک مضمون عبدالحلیم شرر کی کتاب پر ’ شرر کا گزشتہ لکھنئو : ’ ہندوستان ‘ ، ’ مشرق ، ’ تمدن ‘ اور ’ آخری ‘ کی معنوی تہہ داری ‘ کے عنوان سے ہے ۔ مضمون میں ’ ہندوستان ‘ ، ’ مشرق ‘ ، ’ تمدن ‘ اور لفظ ’ آخری ‘ کی معنویت پر بحث کی گئی ہے ، اور اس کی روشنی ہی میں شرر کی کتاب کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ چودبری صاحب نتیجہ نکالتے ہیں کہ ’’ خواہ وہ ( شرر ) زیادہ تر ماضی کے بارے میں لکھنے کا دعویٰ کرتے ہوں ، شرر ضمناً حال کے بارے میں بھی لکھ رہے تھے ۔‘‘ یہ ایک لاجواب مضمون ہے ۔ ’ مشی تیرتھ رام فیروز پوری ‘ کی حیات و خدمات ، ان کے تراجم اور تراجم کے جائزے پر ، مذکورہ نام سے ایک بےحد اہم مضمون شاملِ کتاب ہے ، جسے پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اردو والوں نے کتنی اہم شخصیات کو ’ فراموش ‘ کر رکھا ہے ۔ نعیم صاحب نے اس مضمون کے حواشی میں مظہرالحق علوی کا نام بھی لیا ہے ، جو ایک اعلی پائے کے مترجم تھے ، مگر ان پر اب تک کوئی کام نہیں ہو سکا ہے ۔ اب چند مضامین کے نام ؛ ’ بہرام کا خالق ظفر عمر ، بی اے ( علیگ ) ‘ ، یہ مضمون ’ نیلی چھتری ‘ کے خالق اور ادیبہ حمیدہ اختر کے والد ظفر عمر کی حیات اور خدمات پر ہے ۔’ جادو نگار ’ مسٹر رینالڈس ‘ اور اردو میں نثری فکشن کا ارتقا ‘ ، یہ مضمون برطانوی ادیب رینالڈس اور اردو ادب پر ، ان کے ناولوں کے تراجم ، اور اوریجنل ناولوں کے ذریعے پڑنے والے اثرات سے بحث کرتا ہے ۔ آخر کے تین مضامین کے عنوان ہیں ، ’ محمدی بیگم ، ایک شعلۂ مستعجل ‘ ، ’ تہذیبِ نسواں کا تعارف ‘ اور ’ پرانے اخبار اور رسائل : ایک گم ہوتا ہوا ورثہ ‘۔ پہلے دو مضامین ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں ، کیونکہ محمدی بیگم ’ تہذیب نسواں ‘ کی اڈیٹر اور ان کے شوہر ممتاز علی اس کے منیجر تھے ۔ یہ دونوں مضامین نسوانی ادب ، تعلیم یا یہ کہہ لیں نسوانی ادب کی تاریخ کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں ، اور نسوانی ادب اور پرچوں کے ذریعے خواتین کی تربیت کی تاریخ کو بھی ۔ آخری مضمون میں ایک ایسے مسٔلے کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے جس پر دھیان اور توجہ دینا ضروری ہے ، وہ ہے پرانے رسائل اور اخباروں کو بچانا ، انہیں محفوظ کرنا ۔ چودھری محمد نعیم نے وہ وجوہ بتائی ہیں ، جو اخباروں اور رسالوں کے قدیم ذخائر کو ہمارے لیے قیمتی بنا دیتے ہیں ۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں ، ’’ پرانے رسائل اور اخبار میں اکثر ایسے خیال انگیز بیانات بھی نظر آجاتے ہیں جو ہمارے عصری اعتقادات کو چیلنج کر سکتے ہیں ۔‘‘
کتاب میں شامل پندرہ کے پندرہ مضامین لاجواب ہیں ، ان میں سے سات اصلاً اردو میں لکھے گیے ہیں ، باقی کے آٹھ مضامین انگریزی سے ترجمہ ہیں ، کتاب کے مرتب ، باوقار ادبی پرچے ’ آج ‘ کے مدیر اجمل کمال نے چھ مضامین کا اور ترجمے کے لیے ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ ارجمند آرا نے دو مضامین کا ترجمہ کیا ہے ۔ ترجمے کی ایک خوبی یہ ہے کہ پڑھ کر لگے کہ اگر حقیقی مصنف اِس زبان میں لکھتا تو ایسا ہی لکھتا ، یہ ترجمے بالکل ویسے ہی ہیں جیسے چودھری محمد نعیم کے اردو مضامین ، یعنی شاندار ترجمے ۔ کتاب دہلی کے ’ انویوگیا ‘ نامی پبلشر نے شائع کی ہے ، موبائل نمبر ہے 9350809192 ۔ یہ کتاب ’ نیا ورق ‘ کے ایڈیٹر شاداب رشید کی دوکان ’ کتاب دار ‘ سے ، جو ادبی کتابوں کے شوقین حضرات کا ٹھکانہ ہے ، حاصل کی جا سکتی ہے ، ان کا موبائل نمبر ہے 9869321477 ۔ کتاب بڑے حجم میں 362 صفحات پر مشتمل ہے اور قیمت 600 روپیہ ہے ۔