Home تجزیہ شہر وانم باڑی کی تعلیمی تنزلی پر ایک نوحہ گر کا نوحہ – اسانغنی مشتاق رفیقی

شہر وانم باڑی کی تعلیمی تنزلی پر ایک نوحہ گر کا نوحہ – اسانغنی مشتاق رفیقی

by قندیل

انسانوں کو جانوروں سےممتاز کر کے ان کے سر پر اشرف المخلوقات کا تاج رکھے والی واحد شئے علم ہے۔ قدرت کے ذریعے انسانوں کو عطا کی گئی یہ وہ بیش بہا نعمت ہے جس کے بل پر یہ کمزور مخلوق کائنات کو مسخر کرنے کی طاقت حاصل کر لیتی ہے، ستاروں پر کمند ڈال سکتی ہے، سمندر کی گہرائیوں کو چیر کر اس کی تہہ سے انمول خزانے نکال لا سکتی ہے۔ علم اور تعلیم کے بغیر انسان اور جانور برابر ہیں۔ ہر باشعور انسان کو اس کا ادارک ہوتا ہے اور جب وہ زیادہ دور اندیش ہوتا ہے تو اس کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ علم اور تعلیم کی انمول دولت معاشرے کے ہر فرد تک برابر پہنچتی رہے۔ اس کے لئے وہ ایسی شکلیں پیدا کرتا چلا جاتا ہے جس سے سماج علم اور تعلیم سے مستفید ہوتا رہے بلکہ وہ ان شکلوں میں جدت اور ندرت کے ایسی دائمی روح بھی پھونکتا جاتا ہے جس سے یہ ایک لامتناہی دور تک آنے والی نسلوں کو بھی فائدہ پہنچاتے رہیں۔
ہمارے یہاں ایسے بیدار مغز دور اندیش لوگ ہر زمانے میں موجود رہے ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنے دور میں تعلیم کے تئیں بیداری پیدا کی بلکہ اپنے قول و عمل سے بعد کی نسلوں کو بھی متاثر کیا۔ خاص کر انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے شروعات میں ایسے نا بغہء روز گار لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہمارے معاشرے میں پیدا ہوئی جنہوں نے زمانے کی کروٹ کو محسوس کیا اور آنے والے دور میں تعلیم کی اہمیت سمجھتے ہوئے ایسے ادارے قائم کئے جو صرف ان کے دور میں ہی نہیں آج بھی تشنگان علم کو سیراب کر کے انہیں اپنی منزلوں تک پہنچانے میں مستعد ہیں۔ ان باشعور، دور اندیش لوگوں کی دور اندیشی کی بدولت آج ہمارا معاشرہ نہ صرف علم کی دولت سے مالا مال ہے بلکہ اپنے اطراف و اکناف کے لئے مشعل راہ بھی بنا ہوا ہے۔ ہمارے سماج میں ہر اعتبار سے ترقی اور عروج کے جتنے بھی غلغلے سنائی دیتے ہیں وہ انہیں دور بین لوگوں کی فکر کے نتائج ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اب وہ نا بغہء روز گار لوگ، ان کی بیدار مغزی ان کی دور اندیشی ان کی دریا دلی ایک قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیمی خدمات کے حوالے سے ہمارا ماضی بہت درخشاں رہا ہے۔ ‘پدرم سلطان بود’ پر سینہ پھلانے کے بعد اب آئیے آج کے دور پر نظر ڈالتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ سماج اور معاشرے میں ہر زاوئیے سے پھیلاؤ کے باوجود بیسویں صدی کے شروعات میں جو ادارے قائم ہوگئے ان کے علاوہ ہمارے درمیان کوئی نیا فلاحی ادارہ جس کا مقصد علم اور تعلیم کی ترویج ہو قائم نہیں ہوا۔ کیا ہمارے سماج میں علم اور تعلیم پر زوال چھا چکا ہے یا ہمارا معاشرہ معاشی دیوالیہ پن کا شکار ہوگیا ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے، بس ہمارے کرتا دھرتاؤں میں سوچ کا زاویہ بدل گیا ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں فلاحی اداروں کا قیام، تعلیم کی ترویج کے ذریعے معاشرے کے ہر فرد کو معاشی طور پر مضبوط کرنا کار ثواب سمجھاجاتا تھا لیکن بعد کے دور میں ثواب کے حصول کے لئے برسات میں اگنے والے ککر متوں کی طرح دوسرے دائرے میدان میں آگئے جس کی وجہ سے دولت کے سوتوں کا بڑا حصہ ایسے صحراؤں کی طرف مڑ گیا جو کبھی سیراب ہونا جانتے ہی نہیں ہیں اور جہاں سے سوائے جسموں کو لہو لہان کرکے، گھاؤ اور دراڑ ڈالنے والے خاردار جھاڑیوں کے کبھی کچھ نہیں پیدا ہوتا۔ اور اب تو تجربہ سے یہ بات ثابت بھی ہوچکی ہے کہ ان صحراؤں میں اگنے والے خار دار جھاڑیوں سے تقسیم کرنے والے باڑ یا لکیریں تو کھینچی جاسکتی ہیں لیکن ان پر اتحاد و بھائی چارگی کے پھول نہیں کھلائے جاسکتے۔ افسوس ہے ان پر جنہوں نے ہمارے یہاں کے دریا دلوں کے سوتوں کا رخ اپنے آس پاس تعلیمی چمن اگانے کے بجائے ان خشک صحراؤں کی طرف موڑ دیا۔ ثواب اور عذاب کا یہ چکر اتنی چالاکی سے چلایا گیا کہ اچھے اچھے ذہین و فطین افراد بھی اس میں الجھ کر رہ گئے اور یوں تعلیمی ترقی کا وہ دریا جس کی اٹھان غضب کی تھی ایک چھوٹی سی نہر میں تبدیل ہوکر رہ گیا جس سے فیض پانے والوں کی تعداد بھی محدود ہوگئی۔ ایسا نہیں کہ تعلیمی ادارے اس دور کے بعد قائم ہی نہیں ہوئے، قائم تو ہوئے لیکن ان کامقصد فلاحی نہیں سو فیصد کاروباری ہوگیا۔ آج کے معاشی تنزلی کے حالات میں سماج کا ایک بڑا طبقہ جو غریب اور مفلس ہے وہ ان اداروں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت بھی نہیں کرسکتا۔
ان سب کے علاوہ ایک اور بات جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں تعلیمی ترقی کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے وہ ہمارے فلاحی اداروں کی باگ دوڑ ایسے نا اہل، کوتاہ نظر، نا عاقبت اندیش افراد کے ہاتھوں میں آجانا ہے جو نہ علم کی اہمیت سے واقف ہیں اور نہ تعلیم کی ضرورت کو محسوس کرسکتے ہیں۔ یہ ڈھیٹ سرمایہ دارانہ ذہنیت کے مالک ہیں اور ہر چیز کو نفع و نقصان کے ترازو میں تولنے والی کاروباری جمعیت ہے جس کا واحد مقصد دولت کے انبار جمع کرنا ہے۔ یہی نہیں یہ سرمایہ پرست ان فلاحی اداروں کے متوازی اپنے کاروباری تعلیمی ادارے بھی چلا رہے ہیں جو ایک طرح سے ان فلاحی اداروں کے ساتھ اخلاقی دھوکہ ہے۔ جدید لغت میں اس عمل کو ‘آفس آف پرافٹ’ کہا جاتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ وہ یہ سب فلاح و بہبود، خلوص و للہیت کے نام پر کررہے ہیں۔ پتہ نہیں کب حالات بدلیں گے، قدرت کب منافقین پر اپنا شکنجہ کسے گی اور کب منصبوں پر اہل افراد جلوہ افروز ہوں گے۔ بے شک خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like