دانشور ،نقاد اور ماہرِ لسانیات ایڈورڈ سعید اپنے ایک مضمون میں ،مصر کے نوبل ایوارڈ یافتہ فکشن نگار نجیب محفوظ اور ان کے ناولوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب انہوں نے نیویارک کے ایک پبلشر کو ،محفوظ کے کئی ناولوں کے انگریزی تراجم شائع کرنے کے لیے دیے ، تو اس نے ’’ میری تجویز کو مسترد کر دیا تھا ۔ میں نے وجہ جاننا چاہی تھی تو انتہائی سنجیدگی سےمجھے مطلع کیا گیا تھا کہ عربی ایک متنازعہ زبان ہے۔‘‘ حالانکہ بعد میں نجیب محفوظ کے ناول انگریزی زبان میں شائع ہوئے ،اور انہیں بہت سارے ادبی انعامات کے ساتھ ادب کا نوبل ایوارڈ بھی ملا ،لیکن اپنے ناولوں کے حقوق انہوں نے بقول ایڈورڈ سعید ’’ اونے پونےداموں میں اس وقت فروخت کیے تھے جب انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن وہ ایک عالمگیر شہرت یافتہ ادیب بن جائیں گے ۔ لہٰذا ان کی کتابوں کے انگریزی تراجم کی اشاعت میں محفوظ کا ظاہر ہے کوئی ؑعمل دخل نہیں ہے ، کیونکہ یہ یک طرفہ تجارتی معاہدہ ہے جس کا فنی یا لسانی محاسن سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔‘‘ ہم اسے ایک عظیم ادیب کے ساتھ کی گئی دھوکہ دھڑی بھی کہہ سکتے ہیں ،اور اسے اس کی حق تلفی سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں ۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ان کیفیات کے اظہار کے ساتھ ساتھ ،ہمیں ، مذکورہ پبلشر کا شکر گزار بھی ہونا چاہئے کہ اس نے اونے پونے داموں ہی سہی ، محفوظ کے ناولوں کو انگریزی میں شائع کر کے ، یہ ممکن تو بنایا کہ ان ناولوں تک سب کی ، اردو والوں کی بھی ، رسائی ہو سکے ۔ اردو والے ، جیسا کہ ہم سب جانتے ہی ہیں ، محفوظ کے ناولوں کی طرف اسی وقت متوجہ ہوئے جب انہیں نوبل ایوارڈ حاصل ہوا ، اس سے پہلے ہم نجیب محفوظ کو جانتے ہوئے بھی جیسے ان کے وجود سے بے خبرتھے ، کسی نے یہ کوشش نہیں کی تھی کہ راست عربی زبان سے ان کے ناولوں کے ترجمے کرے ۔ آج بھی یہی صورتِ حال ہے ، عربی کے بہترین ایوارڈ یافتہ ناولوں کے اردو ترجمے انگریزی ہی سے ہوتے ہیں ، کہنے کو ہند و پاک میں عربی دانوں کی ایک کثیر تعداد بستی اور اپنی عربی دانی پر فخر کرتی ہے ۔ اس کے برعکس یوروپ والوں کو دیکھیں کہ وہ عربی سیکھتے ہیں اورراست عربی زبان سے انگریزی میں عربی کی بہترین تخلیقات کے تراجم کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ عرب کی تہذیب سے واقف بھی ہوتے ہیں اور اس سے استفادہ بھی کرتے ہیں ۔ آج نجیب محفوظ کی یاد، ان کے ۱۹۴۱ء میں شائع ہونے والے ناول ’ اللص و الکلاب ‘ کا اردو ترجمہ ’ چور اور کُتّے ‘ پڑھتے ہوئے آگئی ۔ یہ ناول پہلی بار میں نے اس وقت پڑھا تھا جب یہ انگریزی سے اردو زبان میں ترجمہ ہو کر پاکستان سے شائع ہوا تھا ،اس کے پبلشر ’سٹی بک پوائنٹ، کراچی‘ تھے ،بڑے جتن سے اسے میں نے یہاں حاصل کیا تھا ۔ اور اب اسےاشعر نجمی ، مالک و مدیر ’اثبات‘ نےاپنے ادارے ’ اثبات پبلی کیشنز ‘ سےہندوستانی قارئین کے لیے شائع کیا ہے ۔ اس ناول کے مترجم سید علاءالدین ہیں جن کے اجدادکا تعلق خطۂ اعظم گڑھ سے ہے ۔ ناول پر بات کرنے سے قبل یہ بتاتا چلوں کہ محفوظ اپنی تحریروں کی وجہ سے کئی طرف سے نشانے پر رہے ، کبھی حکومت کے نشانے پر تو کبھی شدت پسندوں اورکبھی مذہبی کٹر پسندوں کے نشانے پر ، لیکن انہوں نے ، جو بات کہنا چاہی وہی کہی ، کبھی کسی کے دباؤ میں نہیں آئے ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ایک مصنف کا کام ان حالات کی نقشہ کشی کرنا ہوتا ہےجن میں وہ رہتا ہے اور اگر حالات تبدیل ہو جاتے ہیں تو مصنف بھی تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ حالات کی صحیح نقشہ کشی سے کبھی کوئی انہیں روک نہیں سکا ۔
اب آتے ہیں ان کے زیر تعارف و تبصرہ ناول ’ چور اور کتّے ‘ کی طرف ۔ اس ناول کا موضوع چوری ، جیل ، سماج ، تشدد ، جبر ، مصر اورقاہرہ ہے ۔ نجیب محفوظ کے ہر قاری کو ، ان کے ناولوں میں قاہرہ کی زندگی کی حیران کن تصویر نظر آئے گی ، اس ناول میں بھی قاہرہ کی جیتی جاگتی ، حیران کر دینے والی تصویر دکھائی دیتی ہے ۔ قاہرہ کی صورت میں سارا مصر اور سارے مصری ، قاری کے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں ۔ اسےنجیب محفوظ کی حقیقت نگاری بھی کہا جا سکتا ہے ۔ اس میں وجودیت کی بھی چھاپ ہے ۔’ چور اور کتّے ‘ کو بعض نقاد محفوظ کے تخلیقی سفر میں ایک نئے مرحلے کی شروعات سے تعبیر کرتے ہیں ۔ یہ ناول مختصر ہے ، اس کے بعد محفوظ نے کئی مختصر ناول لکھے ، جن میں کہانی کے کسی ایک کردار پر زیادہ توجہ مبذول کی گئی ہے ۔ ہندوستان میں عربی زبان کے واحد افسانہ نگار ڈاکٹر محسن عتیق خان اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ اس ناول میں ،’’ شعور کی رو ، داخلی مونولوگ ، فلیش بیک جیسی تکنیک کا خاص طور سے استعمال کیا گیا ہے ۔‘‘ یہ انقلاب کے بعد کے مصر کے ایک پریشان حال انسان کی کہانی ہے ۔ ایک ایسی کہانی جو پڑھنے والوں کے سامنے ، ذہنی اذیت میں مبتلا ایک انسان کی نفسیاتی تصویر ، ایک جاسوسی کہانی جیسی تیز رفتاری اور سسپنس کے ساتھ پیش کرتی ہے ۔ چار سال جیل میں رہنے کے بعد رہا ہوکر ، ایک ہنر مند نوجوان چور سید مہران انتقام پر اتارو ہے ۔ جب وہ جیل سے باہر آتا ہے تو اسے ایک ایسی دنیا ملتی ہے جہاں بہت کچھ بدل چکا ہے ۔ مصر ایک انقلاب سے گزر چکا ہے ، اور اس کی پیاری بیوی نبویّہ اور اس کا بھروسے مند دست راست الیش سدرا ، جنہوں نے اسے پولیس کے حوالے کرنے کی سازش رچی تھی ، اب ایک دوسرے سے شادی کر چکے ہیں ،اور سید کی چھ سالہ بیٹی ثنا ان کے ساتھ رہ رہی ہے ۔ لیکن بڑا دھوکہ تو اس کے سرپرست ، رؤف الوان نے دیا ہے ، جو کبھی ایک انقلابی تھا ، جس نے کہا تھا کہ غیر منصفانہ معاشرے میں امیروں سے چوری کرنا انصاف کا کام ہے ، اب وہ خود ایک معزز اور امیر آدمی ہے ، اخبار کا ایڈیٹر ہے ، اب اسے بدنام اور رسوا سید سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔ سید ،دھوکہ دینے والوں اور خود کو برائی کی جانب ڈھکیلنے والوں سے ، انتقام کےاپنے خیال کو عملی جامہ پہنانے کی جیسے جیسےکوشش کرتا ہے ، ویسے ویسے وہ مزید ذہنی عذاب میں مبتلا ہوتا اورحالات کا شکار بنتا چلا جاتا ہے ، اور جب تک اسے اپنی غلطی کا احساس ہو ، تب تک بڑی دیر ہو چکی ہوتی ہے ۔ نجیب محفوظ ، ایک بیمار اور مشتعل ذہن کی ، خود اپنے ہاتھوں تباہی تک پہنچنےکی تصویر ، بڑی ہنر مندی سے کھینچتے ہیں ۔ یہ ایک فردِ واحد کی پورے معاشرے سے ، جو اندر تک کھوکھلا ہو چکا ہے ، لڑائی اور بربادی کی کہانی ہے ۔ سارا سماج ، سوائے ایک طوائف نور ، اور ایک کیفے والے ٹارزن کے ، سید کی مدد کے لیے ہاتھ نہیں بڑھاتا ۔ ایک اقتباس ملاحظہ کریں :
’’ اس کی خوفزدہ آنکھیں اب موت کے بھوت کو دیکھ رہی تھیں جو تاریکی میں اس کی طرف بڑھ رہاتھا ۔
ثنانے ڈرکر ناامیدی سے اس سے منہ موڑ لیا تھا ۔
اس نے محسوس کیا کہ قریب ہی مشتبہ نقل و حرکت ہورہی ہے جس میں غصے کی آمیزش ہے ۔ پھر فائرنگ شروع ہوگئی ، گولیوں کی بوچھار ہونے لگی ، آوازوں سے کان کے پردے پھٹنے لگے ، مقبروں سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اڑ کر چاروں طرف بکھرنے لگے ، اس نے پھر فائر کیا ، ہر طرح سے بے خبر ۔ بے شمار گولیاں چلیں ’’ تم کتّو تم ‘‘ وہ غصے سے دیوانہ ہو گیا ۔
ہر طرف سے مزید گولیاں چلیں ۔
یکا یک چندھیا دینے والی روشنی بجھ گئی اور فائرنگ بھی رک گئی ، ہر طرف اندھیرے اور خاموشی کا راج ہو گیا ۔ وہ بھی اب فائرنگ نہیں کر رہاتھا ۔ آہستہ آہستہ سکون بڑھتا گیا اور لگ رہا تھا کہ پوری دنیا مبہوت ہوگئی ہے وہ سوچنے لگا …..؟ لیکن سوال اور اس کا موضوع تحلیل ہو کر رہ گیا اس طرح جیسے اس کا نام ونشان بھی نہ رہا ہو ، اس کے خیال کے مطابق شاید وہ رات میں پیچھے ہٹ گئے ہوں ۔۔ اس کا مطلب ہے اس نے فتح حاصل کر لی ۔ تار یکی اتنی زیادہ بڑھ چکی تھی کہ اس میں کچھ دیکھنا ممکن نہیں تھا ، یہاں تک کہ مقبرے کا ہیولا بھی جیسے کوئی شے خود کو نہ دکھانا چاہتا ہو ۔ وہ نہ ختم ہو نے والی گہرائی میں اترتا جارہا تھا ، اسے نہ ہی اپنی کیفیت کا اندازہ تھا نہ جگہ کا اور نہ ہی مقصد کا ۔ اس نے خود پر قابو پانے کی کوشش کی ، بلا سمجھے کہ کیا کر رہا ہے ۔ اس نے مدافعت کی آخری کوشش کی ، آخری گستاخ یاد سے ، لیکن چونکہ وہ زخمی ہو چکا تھا جس کی اسے پروانہیں تھی ، اس نے ہتھیار ڈال دیئے اب اسے کسی بات کی کوئی پروانہیں تھی ۔‘‘
اس ناول کا ترجمہ سید علاءالدین نے ٹھیک ٹھاک کیا ہے ، لیکن اس کا ترجمہ اگر کوئی راست عربی سے کرتا تو ترجمہ کہیں بہتر ہو سکتا تھا ۔ اس ترجمہ میں کہیں کہیں روانی متاثر ہوئی ہے اور جملے کہیں کہیں مصنوعی ہو گئے ہیں ۔