( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
ہندوستان کے چیف جسٹس چندر چوڑ نے بہت صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ’’ کوئی بھی ہندوستان کے کسی حصے کو ’ پاکستان ‘ نہیں کہہ سکتا ۔‘‘ معاملہ کرناٹک ہائی کورٹ کے جسٹس سریشانند کے ایک ’ ریمارک ‘ کا تھا ۔ جسٹس سریشانند نے ایک معاملہ کی سماعت کے دوران ایک مسلم اکثریتی علاقے کو ’ منی پاکستان ‘ قرار دیا تھا اور ایک خاتون وکیل کی وضاحت پر ’ انڈر گارمنٹ ‘ پر متنازع جملے کسے تھے ۔ جسٹس سریشانند کے جملے انتہائی افسوس ناک تھے ۔ ایک مسلم اکثریتی علاقہ کو ’ منی پاکستان ‘ کہنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ اُس علاقہ میں رہنے والے مسلمان ’ مشکوک ‘ ہیں ، پاکستان نواز ہیں اور ان کی وفاداری پر کوئی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ یہ نظریہ بالکل وہی ہے ، جسے سنگھ پھیلا رہا ہے ۔ یہاں جسٹس سریشانند پر سنگھی ہونے کا الزام نہیں لگایا جا رہا ہے ، بس یہ کہنا مقصود ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں سنگھ کے پرچار کے اثرات کیسے کیسے ذہنوں کو متاثر کرتے ہیں ، اور کر سکتے ہیں ۔ ایک طویل عرصہ سے ملک کے مختلف مسلم اکثریتی علاقوں کو ’ منی پاکستان ‘ کہنے کی شرانگیز مہم شروع ہے ۔ ممبئی کے کئی علاقے جیسے کہ بھنڈی بازار ، گوونڈی ، ممبرا ، مدن پورہ وغیرہ کو ’ منی پاکستان ‘ کہا جاتا ہے ۔ مالیگاؤں بہتوں کی نظر میں ’ منی پاکستان ‘ ہے ۔ کیرالا میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ، اس لیے اسے بھی کچھ لوگ ’ منی پاکستان ‘ قرار دیتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ پروپیگنڈا لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کر رہا ہے ، یہاں تک کہ اعلیٰ پولیس و سرکاری افسران اور عدلیہ کے معزز جج صاحبان بھی اس پروپیگنڈا سے متاثر ہونے لگے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں یہ جو بار بار ، بی جے پی کے سیاست داں بشمول وزراء ، مسلمانوں کے بارے میں کہتے پھرتے ہیں کہ ’ پاکستان چلے جاؤ ‘ اس سے بھی مسلم فرقہ کے خلاف زہر پھیلتا ہے ۔ چیف جسٹس آف انڈیا چندر چوڑ نے جسٹس سریشانند کے متنازعہ بلکہ نازیبا بیانات کے خلاف از خود نوٹس لیا تھا ۔ اور یہ ضروری بھی تھا ، کیونکہ عدالتوں سے اِدھر ماضی قریب میں جج صاحبان نے کچھ ایسے تبصرے کیے ہیں جو ایک مخصوص فرقے کے جذبات کو متاثر کرنے کا سبب بنے ہیں ، اور اگر اس طرح کے تبصروں پر روک نہیں لگائی جاتی تو عدالتوں پر جو رہا سہا اعتبار ہے ، وہ بھی ختم ہو سکتا ہے ، بلکہ ختم ہو ہی جائے گا ۔ چیف جسٹس چندرچوڑ کی قیادت میں جسٹس ایس کھنہ ، بی آر گوائی ، ایس کانت اور ایچ رائے پر مشتمل پانچ ججوں کی بنچ نے جسٹس سریشانند کے خلاف کارروائی تو منسوخ کردی کیونکہ انہوں نے اپنے بیانات سے رجوع کر لیا تھا اور کھلی عدالت میں معافی مانگ لی تھی ۔ چونکہ معاملہ سنگین نوعیت کا تھا اس لیے کرناٹک ہائی کورٹ تنازعہ میں سپریم کورٹ نے سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت میں ایک بنچ بھی تشکیل دیا تھا ، اور جج کے بیان پر کرناٹک ہائی کورٹ سے رپورٹ بھی طلب کی تھی ۔ حالانکہ بعد میں جسٹس سریشانند کے ذریعے عوامی طور پر معافی مانگنے پر سپریم کورٹ نے ان کے خلاف کارروائی بند کرنے کا اعلان کردیا ۔ سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی بنچ نے بالکل درست کہا کہ ’’ کوئی بھی ہندوستان کے کسی حصے کو ’ پاکستان ‘ نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ ملک کی علاقائی سالمیت کے خلاف ہے ۔ ہمارا مقصد عدالت میں معاملے کو سامنے لاکر اس پر توجہ مرکوز رکھنا ہے ، اسے دبانا نہیں ۔‘‘ جسٹس سریشانند کے متنازعہ بیانات سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیے تھے ، اس لیے بدھ کو کرناٹک ہائی کورٹ نے یوٹیوب ، فیس بک اور ’ ایکس ‘ پر عدالت کی سماعت کے ویڈیو کو لائیو اسٹریم نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا ، حالانکہ سوشل میڈیا پر وہ پوسٹیں ہنوز دیکھی جا سکتی ہیں ۔ چیف جسٹس آف انڈیا چندر چوڑ کا از خود نوٹس لینا بھی ، اور ملک کے کسی بھی علاقہ کو ’ پاکستان ‘ کہنے سے لوگوں کو روکنا بھی قابلِ تحسین عمل ہے ۔ چیف جسٹس آف انڈیا سے درخواست ہے کہ وہ لوگوں کو یہ ہدایت بھی دیں کہ اس ملک کے کسی بھی مسلمان کو نہ پاکستانی کہا جائے اور نہ ہی ان سے کہا جائے کہ ’ پاکستان چلے جاؤ ‘ کیونکہ اس سے بھی ملک کی سالمیت متاثر ہو سکتی ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)