Home تجزیہ چیف جسٹس کا خو ف اور الجھن- سہیل انجم

چیف جسٹس کا خو ف اور الجھن- سہیل انجم

by قندیل

جب بھی کوئی بڑا آدمی اپنے کسی بڑے مشن کو ایمانداری سے مکمل کرتے ہوئے یا اس کی تکمیل کے بغیر ہی اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوتا ہے تو اس کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ مستقبل اس کے کردار کے بارے میں کیا فیصلہ کرے گا اور تاریخ اس کے بارے میں کیا لکھے گی۔ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ جب وزارت عظمیٰ کے منصب سے سبکدوش ہونے والے تھے تو ان کی آخری پریس کانفرنس میں بعض صحافیوں نے کہا کہ وہ ایک کمزور وزیر اعظم ثابت ہوئے ہیں۔ اس پر انھوں نے کہا تھا کہ ’اپوزیشن اور ہمعصر میڈیا کے مقابلے میں تاریخ ان پر زیادہ مہربان ہوگی۔ میں نہیں سمجھتا میں ایک کمزور وزیر اعظم تھا۔ سیاسی مجبوریوں کے تناطر میں جو سب سے اچھا کر سکتا تھا وہ میں نے کیا‘۔ ہندوستان کے موجودہ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کو بھی، جو کہ نو نومبر کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والے ہیں، کہا ہے کہ تاریخ ان کے بارے میں پتہ نہیں کیا فیصلہ کرے گی۔ انھوں نے گزشتہ دنوں بھوٹان میں ایک لا اسکول کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’دو سال تک ملک کی خدمت کرنے کے بعد میں سبکدوش ہو رہا ہوں۔ اب جبکہ میری مدت ملازمت ختم ہو رہی ہے میرا دماغ ماضی اور مستقبل کے بارے میں خوف اور الجھن سے بھرا ہوا ہے۔ میں خود کو ان سوالوں میں گھرا پاتا ہوں کہ کیا میں نے اپنے اہداف حاصل کر لیے۔ تاریخ میرے بارے میں کیا فیصلہ کرے گی۔ کیا میں کچھ مختلف کر سکا ہوں۔ میں اگلی نسلوں کے ججوں اور قانونی پیشہ وروں کے لیے کیا ورثہ چھوڑ کر جا رہا ہوں‘۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنے کام سے مطمئن ہیں۔ ان کے بقول ’ان دو برسوں میں میں اس عہد کے ساتھ صبح کو بیدار ہوا کہ اپنا کام پوری ایمانداری سے کروں گا اور میں اس اطمینان کے ساتھ بستر پر سونے گیا کہ میں نے اپنی مکمل وابستگی کے ساتھ ملک کی خدمت کی‘۔
ڈی وائی چندر چوڑ جب ملک کے چیف جسٹس بنے تو ان کے بارے میں عوام کی بہت اچھی رائے تھی۔ انھیں ایک ایماندار جج کے طور پر دیکھا گیا اور آج بھی ایک بڑے حلقے میں انھیں ایماندر جج کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تاہم ان کے بعض ایسے فیصلے اور اقدامات رہے ہیں جن سے شکوک و شبہات نے جنم لیے۔ ادھر انھوں نے اتوار کو ایک ایسا بیان دیا جس پر تنازع پیدا ہو گیا ہے۔ انھوں نے پونے میں اپنے آبائی گاوں میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ایودھیا تنازعے کے حل کے لیے ایشور سے پرارتھنا کی تھی۔ ان کے بقول ’ہمارے پاس فیصلے کے لیے معاملے آتے ہیں لیکن ہم ان کے حل پر نہیں پہنچ پاتے۔ ایودھیا معاملے میں بھی یہی ہوا جو تین ماہ میرے سامنے رہا۔ میں ایشور کے سامنے بیٹھا اور ان سے میں نے کہا کہ انھیں اس کا حل ڈھونڈنا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو بھروسہ ہو تو ایشور راستہ نکال دیتے ہیں‘۔ چونکہ یہ باتیں ان کے کسی فیصلے کا نہیں بلکہ ایک تقریر کا حصہ ہیں اس لیے ان پر تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اس پر خوب تنقید ہو رہی ہے۔ کانگریس کے سابق ایم پی ادت راج نے چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ اگر چیف جسٹس نے دیگر تنازعات کے سلسلے میں بھی ایشور سے پرارتھنا کی ہوتی تو وہ معاملے بھی سلجھ سکتے تھے اور عام لوگوں کو بغیر پیسے کے انصاف مل جاتا۔ ای ڈی، سی بی آئی اور آئی ٹی کا غلط استعمال بھی بند ہو جاتا۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو کے مطابق جسٹس چندر چوڑ سیاسی عزائم رکھتے ہیں اور اسی لیے انھوں نے ایسا بیان دیا ہے۔ بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کو ایشور کے سامنے نہیں بلکہ آئین کے سامنے بیٹھنا چاہیے تھا۔ اگر وہ بھگوان کے سامنے بیٹھے تو انھیں جامع مسجد کی سیڑھیوں اور حضرت نظام الدین کی درگاہ پر بھی ماتھا ٹیکنا چاہیے تھا۔ متعدد سیاسی جماعتوں کے رہنماوں نے بھی ان کے بیان پر تنقید کی ہے۔ بہرحال ہم ان کے بیان پر تبصرہ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ البتہ ایشور کے فیصلے پر تو تبصرہ کیا ہی جا سکتا ہے۔ ایشور سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر وہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ہیں تو انھوں نے سب کے ساتھ انصاف کیوں نہیں کیا۔ یہ تو انصاف نہیں ہے کہ کسی ایک کا حق چھین کر کسی دوسرے کو دے دیا جائے۔ واضح رہے کہ ایودھیا معاملے کا فیصلہ سنانے والے پانچ ججوں میں جسٹس چندرچوڑ بھی رہے ہیں۔ فیصلے میں مسلم فریق کے تمام دعووں کو تسلیم کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر یا مسجد کے نیچے کسی مندر کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ پھر بھی مندر کے حق میں فیصلہ سنا دیا گیا۔ بہرحال یہاں ہم دو واقعات کا ذکر بلا تبصرہ کرنا چاہیں گے۔ پہلا یہ کہ چیف جسٹس نے جولائی میں ایودھیا جا کر رام مندر میں پوجا کی تھی۔ دوسرا یہ کہ انھوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اپنے گھر پر گنیش بھگوان کی پوجا کی تھی جس پر تنازع پیدا ہوا تھا۔
اب عدلیہ ہی سے متعلق ایک دلچسپ اور معنوی اعتبار سے انتہائی اہم واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔ یہ واقعہ بھی جسٹس چندر چوڑ کی مدت ملازمت کی یادگار کے طور پر دیکھا جائے گا۔ انھوں نے گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کی لائبریری میں ’انصف کی دیوی‘ کے نئے مجسمے کا افتتاح کیا۔ روایتی انصاف کی دیوی مغربی لباس میں ہے۔ اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ قانون اندھا ہے۔ اس کے ایک ہاتھ میں ترازو اور دوسرے میں تلوار ہے۔ ترازو بھی نصف نصف کرنے یعنی انصاف کرنے سے عبارت ہے۔ جبکہ تلوار سزا دینے سے عبارت ہے۔ یعنی مظلوموں کے ساتھ ہوگا اور مجرموں کو سزا دی جائے گی۔ لیکن اب جس مجسمے کی نقاب کشائی کی گئی ہے اس کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں۔ ایک ہاتھ میں ترازو تو ہے لیکن دوسرے ہاتھ میں تلوار کی جگہ پر آئین کی کتاب ہے۔ اس نئی دیوی نے مغربی لباس کی جگہ پر ساڑی زیب تن کر رکھی ہے جسے ہندوستانی ثقافت کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تبدیلی بہت اہم ہے اور آنکھیں کھلی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عدلیہ انصاف کے بارے میں کیا سوچتی ہے۔ اس میں یہ نظریہ بھی پوشیدہ ہے کہ بغیر کسی تعصب کے انصاف کیا جانا چاہیے۔ تلوار کی جگہ پر آئین کی کتاب اس لیے ہے تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ نظام انصاف صرف سزاوں پر نہیں بلکہ آئینی اصولوں اور جمہوری اقدار پر مبنی ہے۔ عدلیہ کا عہد و پیمان متوازن انداز میں قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔ یقینی طور پر یہ باتیں بہت اچھی ہیں۔ انصاف کی دیوی کو تو سب کے ساتھ انصاف کرنا ہی چاہیے۔ پہلے یہی ہوتا تھا۔ وہ آنکھیں بند ہونے کے باوجود سب کو ایک نظر سے دیکھتی تھی اور سب کے ساتھ انصاف کرتی تھی۔ لیکن اب کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ پٹی ہٹا دیتی ہے یا کانی آنکھ سے فریقین کو دیکھ لیتی ہے اور پھر ان کے مطابق فیصلہ کرتی ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ اب اس کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔ لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ اسے جس فریق کا چہرہ پسند آجائے اس کے حق میں فیصلہ سنا دے اور جس کا ناپسند ہو اس کو انصاف سے محروم کر دے۔ تلوار کی جگہ پر آئین کی موجودگی ایک بہت اچھی علامت ہے۔ حالیہ برسوں میں آئینی اصولوں اور جمہوری قدروں کی پامالی کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ اگر تلوار کی جگہ آئین کی کتاب کی موجودگی آئینی اصولوں اور جمہوری قدروں کی بحالی میں معاون ثابت ہو تو اس سے اچھی بات اور کیا ہوگی۔ ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ یہ تبدیلی صرف علامتی نہیں ہوگی بلکہ حقیقی ہوگی اور بلا تفریق مذہب و ملت سب کے ساتھ انصاف ہوگا۔ بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ چیف جسٹس کے دور میں کچھ اچھے فیصلے بھی ہوئے ہیں اور انھوں نے انصاف کی بالادستی قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں ہم یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ جیسا کہ انھوں نے کہا کہ وہ اپنے کام سے مطمئن ہیں، تو پھر انھیں یہ فکر لاحق نہیں ہونی چاہیے کہ تاریخ ان کے بارے میں کیا لکھے گی اور مستقبل کیا فیصلہ کرے گا۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like