Cell:9891726444
جاوید مشیری کا تعلق دلی سے ہے اور ان کی سانسوں میں اسی شہر کی سوندھی سوندھی مٹی کی خوشبو ہے مگر انہیں دبستان دہلی کے حصار میں قید کرنا موزوں نہیں ہوگا کہ یہ ان کے شعری مزاج و منہج سے میل نہیں کھاتا۔وہ ہر طرح کے نظریاتی اور دبستانی انسلاکات سے آزاد ہیں۔ شاعری کے باب میں ان کا خود مکتفی تخلیقی وجود ہے۔ان کا شعری رنگ و آہنگ جداگانہ اور منفرد ہے۔ جاوید کی شاعری میں دہلی کی داخلیت بھی ہے اور لکھنؤ کی خارجیت بھی۔ ان کے ہاں لکھنؤ کی لسانی نزاکت و لطافت ہے اور دلی کی فکری نفاست و طہارت بھی۔ حزن بھی ہے، نشاط بھی، رمزیت اشاریت بھی ہے، سادگی اور سلاست بھی۔ ان کی شاعری دبستانی تشخص کو توڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ وہ شاعری نہیں ہے جس میں صرف دلی سانس لے رہی ہے بلکہ اس میں انسانی وجود میں آباد تمام شہروں کی سانسیں اور دھڑکنیں ہیں۔ یہ دلی کی شعری داستان قطعی نہیں ہے بلکہ حدیثِ دل ہے۔ داخلی جذبات اور احساسات سے ترتیب دیا ہوا خیالوں کا جیتا جاگتا ایک ایسا شہر ہے جو زندگی کے تمام تر تضادات اور تناقضات کے ساتھ نظر آتا ہے۔ اس میں کسی خاص شہر کی معاشرت اور ماحول کا عکس بھی نہیں ہے۔ یہ انسانی معاشرت کے آداب و اسالیب کا تخلیقی مونتاژ ہے۔ یہ جاوید مشیری کے وجودی تجربات کا بیانیہ ہے۔ یہ ہمارے عہد کے سماجی سیاسی اور ثقافتی مدو جزر اور نشیب و فراز کا منظر نامہ ہے۔ آج کی زندگی کے انتشار و اضطراب، بے چہرگی، تہذیبی اور ثقافتی کشمکش اور معاشرتی اقدار کی شکست و ریخت، رشتوں کے ا نقطاع اور وجودی بحران کو انہوں نے بہت ہنر مندی سے اپنی شاعری کا حصہ بنایاہے:
کون اب مطمئن ہے دنیا میں
حادثے آج کس کے گھر جائیں
چاہتی ہے فرات کی صورت
میرے اندر کی کربلا مجھ کو
یہ جنگ اقتدار یہ نفرت یہ فاصلے
انسان زندگی سے گریزاں ہے ان دنوں
جن سے کوفے نے بے وفائی کی
ان اسیروں کے قافلے میں ہوں
جاوید مشیری کے تخلیقی احساس و اظہار کی رگوں میں تازہ لہو دوڑ رہا ہے۔ ان کے شعر پڑھتے جائیے، امکانات کے نئے در کھلتے جائیں گے۔ سمندر، صحرا کی وسعتیں نگاہوں میں سمٹتی جائیں گی۔ ان کی شاعری استعجابی کیفیت سے سرشار کرنے والی ہے۔ خیال کی ندرت اور اظہار کی جدت تو دیکھتے ہی بنتی ہے :
بڑھتا ہی جارہا ہے اندھیرا زمین پر
سورج کو آسماں سے اتر جانا چاہیے
حصار خواب سے باہر نکل نہ پاؤں میں
یہ آرزو ہے کہ سورج زمیں پہ لاؤں میں
اب مزہ آئے گا کہانی میں
چاند اترے گا رات پانی میں
آنکھوں نے انتظار میں اک عمر کاٹ دی
وہ چاہتی تھیں جھیل میں مہتاب دیکھنا
آپ کانٹوں سے دوستی رکھیں
مختصر ہے حیات پھولوں کی
رات کے پچھلے پہر تک جاگنے والا،چراغوں سے ہوا کاٹنے والا، دشمن جانی کے ساتھ عمر بسر کرنے والا، آگ اور پانی سے کھیلنے والا، یہ وہ شاعر ہے جس کا ہر شعر احساس کی نئی قبا اوڑھے ہوئے ہے۔ ہر لفظ ایک نئے معنیاتی پیرہن میں ہے۔ جاوید مشیری کے موضوعات و لفظیات دونوں ہی ان کے مزاج کی انفرادیت کی گواہی دیتے ہیں۔ احساس کی زمین پر اظہار کی نئی نئی کونپلیں دیکھ کر حیرتوں کے در وا ہو جاتے ہیں۔ ان کے لفظوں میں عجب سی روشنی ہے کہ قاری کے ذہن میں معانی کے چراغ روشن ہو جاتے ہیں۔ نہ ابہام نہ ژولیدگی :
ہجر ہی ہجر ہو وصال نہ ہو
آگ لگ جائے ایسے موسم کو
سوچتی ہیں یہ دھڑکنیں دل کی
سب تمہارے ہوئے ہمارا کیا
تجھے تو ہجر میں صحرا ہوئے زمانہ ہوا
یہ کس کی آنکھوں میں سیلاب دیکھتا ہوں میں
سو بار کرکے دیکھ لے تو دل کی سرجری
ذہنوں سے تیری یاد کے جالے نہ جائیں گے
سورج سے بغاوت ہے کمر باندھ رہا ہوں
میں رات کے آنچل سے سحر باندھ رہا ہوں
پھول جیسے لفظوں سے اس کا نام لکھوں گا
میرے گاؤں کی لڑکی کتنی خوبصورت ہے
کب سے تنہا بھیگ رہی ہو تم اشکوں کی بارش میں
روتے روتے تھک جاؤ تو پیش کریں ہم شانہ کیا
ان کی شاعری میں عصری حسیت بھی ہے اور کلاسیکی رومانیت بھی ۔ عصری وقوعات و واردات کو انہوں نے اپنی شاعری میں یوں پیش کیا ہے کہ سارے مناظر فلیش بیک کی طرح ذہن میں چلنے لگتے ہیں:
سرحدیں خون کی پیاسی ہیں لہو دو اپنا
بس بیانات سے طاقت نہیں ملنے والی
ان بے گھروں کا ذکر کہانی میں کیا کریں
جن کو نصیب اپنا مکاں تک نہیں ہوا
پھر سے فساد شہر میں مہماں ہے اِن دنوں
شعلوں کی زد میں اپنا گلستاں ہے اِن دنوں
صحن کے ساتھ بٹ گئے دل بھی
اب کہاں آئے گی ہوا تازہ
یہ عصریت کا رنگ ہے تو دوسری طرف رومانویت کا یہ رس اور رنگ بھی دیکھئے :
کچھ تیرے ہجر کے موسم میں بھی شدت کم ہے
کچھ میری آنکھ میں پہلے سی روانی بھی نہیں
تمہارا ہجر سلامت مجھے کمی کیا ہے
ہر ایک زخم کو شاداب دیکھتا ہوں میں
سوچئے تو تنہائی اک عجیب موسم ہے
ڈھونڈئیے تو اس جیسا ہم زباں نہیں ملتا
جاوید کی شاعری میں جہاں محبت ہے وہیں مزاحمت اور مقاومت بھی ہے۔ وہ احوال جہاں سے بے خبر نہیں ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ آج دنیا کس سمت جا رہی ہے اور روشنی کی جگہ اندھیرا پھیل رہا ہے۔ نفرت نے محبت کی جگہ لے لی ہے۔ انسانی وجود ایک شدید بحران کا شکار ہے۔ سوچ پہ پہرا ہے اور لب بھی آزاد نہیں ہیں۔ اسی لئے اُن کے یہاں اس طرح کے شعر بھی مل جاتے ہیں:
تم احتجاج کے لہجے میں حق جو مانگو گے
تمہیں پہ در بھی کھلے گا نئی سزاؤں کا
سچ بولنے کی آج اجازت نہیں تو پھر
افسانے ہی لکھیں گے قلم کار کیا کریں
تم کو ہر موڑ پہ اب تیغ بکف رہنا ہے
سر جھکانے سے شہادت نہیں ملنے والی
اب یہ لازم ہے کہ اعلان بغاوت کردوں
ہاتھ اُس کا مری دستار تلک آپہنچا
شاعری میں جاوید مشیری کا شجرۂ نسب خدائے سخن میر سے ملتا ہے :
جناب میر کی نسبت کا فیض ہے جاوید
ہمارا نام ہے شامل غزل گھرانے میں
سچے شعر کہتے ہیں میر کی طرح جاوید
ایسے ویسے لوگوں سے بات ہی نہیں کرنی
شاید میر تقی میر کی نسبت نے ہی ان کی شاعری میں شعر میر کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اسی لیے شاعری میں بھی ویسی ہی مقناطیسیت ہے۔
جاوید کی شاعری میں ان کی ذات ذہن اور ضمیر کی ساری کھڑکیاں کھلی نظر آتی ہیں۔ یہ ان کے رعنائی خیال اور احساس جمال کا عکس نامہ ہے۔ ذرا ندرت خیال اور جمالیات کے رنگ و نور تو دیکھئے:
تیرے عارض، تیرے گیسو، تیری آنکھیں، تیرے لب
خامشی کی سب زبانیں بولتا تیرا بدن
تیرے بدن کا تمام موسم مہک رہا ہے گلاب بن کر
بدن سرا میں ہوا اجالا، ہوا ہے لہجہ بھی زعفرانی
مری تنہائیوں کے ساتھی ہیں
ترے رخسار، ترے لب آنکھیں
جاوید مشیری کے ہاں عشق عبادت ہے اور محبت ریشمی عبارت، اس لئے اُن کے یہاں رومانی جذبات اور احساسات کی فراوانی بھی ملتی ہے۔انہی کے شعر ہیں:
ہماری آنکھ کو نسبت ہے تیرے چہرے سے
دل و نگاہ کا رشتہ نہ ٹوٹ پائے گا
نیم شب کی خامشی اور جاگتی آنکھیں
تم نے ایسے عالم میں ہم سے بے وفائی کی
جاوید نے اپنی شاعری میں لا یعنی فلسفوں اور مہمل تجربوں کا انبار نہیں لگایا ہے بلکہ جو دل پہ گزرتی رہی ہے اسی کو رقم کیا ہے۔ حیات و کائنات کی حقیقتوں اور اپنے محسوسات و مشاہدات کو شعری اظہار کا سر نامہ بنایا ہے۔ آنکھوں کے دائرے میں زندگی کے جو مناظر اور مظاہر آئے انہیںاپنی شاعری کے کینوس پر نقش کردیا ہے۔ ان کی شاعری میں بس اپنے ہی تجربات و حوادث ہیں۔
جاوید مشیری نے بہت خوبصورت لفظیات کا انتخاب کیا ہے۔ دھوپ، چاندنی، شام، رات، خواب، خوشبو، دشت و صحرا، چراغ، ہجر ، وصال اور اس کے علاوہ ان کے ہاں بہت خوبصورت تلمیحات، تشبیہات اور استعارے بھی ہیں۔ مگر یہ استعارے ابہام اور اہمال سے پاک ہیں۔ خود کہتے ہیں:
اے غزل ترے استعاروں کو
نذر ابہام کر نہیں سکتے
انہوں نے شاعری کے تمام تلازمات اور لوازمات کا پاس رکھا ہے۔ اسی لئے ان کے ہاں نہ فنی سقم ہے اور نہ فکری سوقیانہ پن، بلکہ اس میں اتنی کشش اور قوت ہے کہ ہر شعر دامن دل کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔
جاوید مشیری نے خود کو غزل میں محصور نہیں رکھا بلکہ نظم میں بھی طبع آزمائی کی اور اسے بھی اپنی غزل کی طرح اتنا خوبصورت رنگ و روپ دیا کہ غزلیہ اور نظمیہ آہنگ میں ایک لاشعوری قربت اور مشابہت محسوس ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے غزل اپنی مخصوص صنفی ہیئت سے نکل کر نظمیہ پیکر میں ڈھل گئی ہو۔ یہ بھی ایک شاعرانہ ہنر ہے کہ نظم میں غزل کا سا انداز اور اسلوب نظر آئے۔ یہ چند نظمیں دیکھئے جن سے نظم نگاری میں اُن کے کمال فن کا پورا عکس نظر آتا ہے۔ ان نظموں میں کچھ ذاتی واردات بھی ہیں اور کچھ عصری وقوعات بھی اور ہر ایک نظم قاری کے ذہن پر ایک خوبصورت تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہے:
دل میں پھول مہکے ہیں
اور اُداس آنکھیں ہیں
تیری یاد آتی ہے
آج پھر نجانے کیوں
خط وہ آخری تیرا
آج پھر پڑھا میں نے
جس میں تونے لکھا تھا
زندگی جدائی ہے
—آخری خط
=
سیاستوں کے کھیل نے
جو سرحدیں بنائی ہیں
ابھی تلک نہیں پٹیں
اُدھر بھی کچھ غبار ہے
ادھر بھی کچھ غبار ہے
جو رنگ و نسل ایک ہے
جو رسم و راہ ایک ہے
مگر دلوں کے قافلے
سیاستوں کے کھیل بھی
بڑے ہی کاٹ دار ہیں
لڑاکے بھائی بھائی کو
بڑھا رہا ہے کھائی کو
یہاں نہ کوئی غیر ہے!
تو پھر یہ کیسا پھیر ہے!!!
—غبار
=
نہ رات میری
نہ نیند میری
نہ خواب میرے
یہ میری آنکھوں کو کیا ہوا ہے؟
جو!
اب ستارے
سجار ہی ہیں!
—خواب آنکھیں
=
خدا تری زمین پر
یہ آدمی سے آدمی
تری ہی کائنات میں
چلا ترے خلاف کیوں
اسے لہو کی پیاس سے
نجات دے نجات دے
خدا تری زمین جو
حسین تھی حسین ہے
بچا اسے تباہی سے
ہے ترے اختیار میں
زمین کو سنوار دے!
کوئی بشر اُتار دے!!
—تری زمیں
جاوید مشیری ایک حساس ، بالغ نظر، بیدار شاعر ہیں جنہوں نے زندگی کے اُن تمام زاویوں کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے جن سے آج کے معاشرے کے انفرادی اور اجتماعی وجود کا رشتہ ہے۔ یہ گویا آج کی سیاست ، ثقافت اور معاشرت کا ایک نگار خانہ ہے، جس میں ہم حیات و کائنات کے بہت سارے رنگ دیکھ سکتے ہیں۔