Home نقدوتبصرہ چندر شیکھر کمبار کا اسطوری شعری بیانیہ-حقانی القاسمی

چندر شیکھر کمبار کا اسطوری شعری بیانیہ-حقانی القاسمی

by قندیل

گلوبلائزیشن کی وجہ سے افکار واقدار ، تصورات وتخیلات، رویے اوررجحانات میں ایک طرح کی یکسانیت پیدا ہوگئی ہے۔ تصورات کی اسی عمومیت میں مخصوص ثقافتی قومی تشخصات کو ختم کردیا ہے اور مختلف زبانوں اور ثقافتوں نقطہ امتیاز یا حد فاصل صرف علاقائی اظہارات، حصولیات اور متعلقہ علاقائی زبانوں کے مخصوص استعارات، تلمیحات اور تشبیہات ہی ہیں۔ آفاقیت جہاں عمومیت کی وجہ سے اپنی کشش اور قدر کھوتی جارہی ہے وہیں علاقائیت نہ مانوس اجنبی استعارات، تلمیحات ، لفظیات ، علاقائی تناظرات اور علاقائی کرداروں کی وجہ سے اپنے اندر ایسی قوت اور کشش پیدا کرتی جارہی ہے کہ اس میں حیرت واستعجات کے عناصر کے علاوہ نیا پن بھی ہوتا ہے۔ اس لیے ایسی تخلیقات جس میں علاقائی اور مقامی لمس ہو اس میں دوسری ادبیات اور زبانوں کے قارئین کی دلچسپی بڑھتی جارہی ہے۔ تصورات اظہارات کی نئی کونپلیں قارئی کے شعور اور احساس کو تازگی سے ہمکنار کرتی ہیں اور نامانوس اجنبی حقیقتوں کے عرفان و ادراک کا ذریعہ بنتی ہے ایک ایسی کھڑکی کھلتی ہے جس سے نامانوس ہوائیں آتی ہیں اور احساس اظہار کی ایک نئی دنیا روبرو ہوتی ہے۔ علاقائی شعر وادب میں وہ اساطیر وعلامات ہوتے ہیں جن سے ہم واقف نہیں ہوتے بلکہ ایسی تحیرخیز مقامات، مناظر اور کردار ہوتے ہیں جو ہمیں ایک دوسری دنیا کی سیر کراتے ہیں۔

جب ہم ایک ہی جیسے احساس واظہار سے شب وروز گزرتے ہیں تواس یکسانیت سے اکتاہٹ سی ہونے لگتی ہے مگر جب یہی احساس واظہار ایک بدلی ہوئی صورت میں سامنے آتے ہیں تو اس کی کیفیت ہی الگ ہوتی ہے۔ اسی نئی کیفیت کا احساس پروفیسر چندر شیکھر کمبار کی کنٹرانظمیں پڑھ کر ہوتاہے جس میں علاقائی روایات، رسومات، اقدار، علامتیں اور استعارے ہیں خاص طور پر وہ کردار ہیں جن سے علاقائی افراد ہی واقف ہوسکتے ہیں۔

چندر شیکھر کمبار کی شاعری میں وہ بہت سی علامتیں، استعارے ، فوک آرٹ، کلچر اور اس سے جڑے ہوئے بہت سے تلازمے ملتے ہیں۔ان کی پوری شاعری بیانیہ انداز کی ہیں جس میں اساطیر کے ساتھ ساتھ معاصر زندگی اور سماج کا ایک منظر نامہ ہے ان کی نظموں میں خوبصورت پیکر تراشی، امیجری اور استعاراتی اظہار ہیں۔انھوں نے فوک اور میتھالوجی پر اپنے شعری بیانئے مرکوز کیا ہے اور اسے معاصر زندگی کے مسائل اور موضوعات سے جوڑا ہے۔ان کے یہاں حیات وکائنات کے مسائل اور حقائق کی شعری تفہیم کا زاویہ الگ ہے انہوں نے اپنے وجدان سے بہت سے اشیاء کی حقیقت اور ماہیت کو جس طور پر محسوس کیا ہے اسے شعری پیکر میں ڈھال دیا ہے۔ان کی شاعری میں ماضی کی کھڈر ہوتی تاریخ کاکرب بھی ہے ملبے میں چیختا ماضی بھی ہے اور مردہ ماضی سے مستقبل کا مکالمہ بھی ہے۔

در اصل کمبار کے پاس اعلیٰ داخلی شعور کی شیو والی آنکھ بھی ہے جس سے وہ ان داخلی اطراف واکناف و کنہیات کو دیکھ لیتے ہیں جو عمومی نگاہ سے اوجھل ہوتی ہے۔ان کے یہاں جو اساطیری علامات اور ثقافتی استعارے ہیں وہ دوسرے شاعروں سے قدرے مختلف ہیں۔شیولنگا ان کی شاعری کی مرکزی علامت اور کردار ہے بیشتر نظموں میں شیولنگا سے تخاطب ہے کہ در اصل جس ثقافت اور علاقے سے ان کا تعلق ہے وہ جین مت اور لنگائیت سے متاثر ہے اور اس لیے لنگائیت میں جو اساطیر، علامات اورثقافتی کردار ہیں وہ ان کی شاعری میں بھی در آئے ہیں۔

ہمپی کی چٹانیں ان کی مشہور نظم ہیں جس میں انھوں نے گمشدہ تہذیب اور پتھر پر کندہ تاریخ کی جستجو کی ہے ان چٹانوں میں در اصل تاریخ اورتہذیب کی بہت ساری کتھائیں کندہ ہیںجو کبھی عظیم الشان تہذیب کا مرکز ہوا کرتاتھا نہایت ہی خوشحال اور متمول شہر تھاوجے نگر کا دارالخلافہ اب ایک کھنڈر میں تبدیل ہوگیا ہے۔اب ان کھنڈرات میں صرف سانس لیتی تاریخ اور تہذیب ہی محفوظ ہے۔ان کی نظم کے بند دیکھئے جس میں اُن چٹانوںکی گونجتی آوازیں سنائی دیتی ہیں :

تاریخ کی ترجمان ہیں

یہ چٹانیں……

ہمپی کی یہ چٹانیں

شعلے اگلتے سورج تلے

چلچلاتی دھوپ میں پیاسی

چاندنی میں

مکمل… گونگا سکوت

بہتے دریا میںخواب

جو بکھرے چاند کی گانٹھ لگاتے ہیں

مہر بہ لب کئے گئے معصوم الفاظ

رات کے کالے لنگم سے

چہچہاتے پرندوں میں

شاموں، صبحوں کی چہچہاہٹ

بھینسہ جو تیر نہیں سکتا

گہرے رُکے ہوئے پانیوں میں

یہ چٹانیں……

ہمپی کی چٹانیں……

بھگوان شِوا کی مہربانی سے پرے

اس کی تیسری آنکھ کی آگ ہیں

معتوبِ وملتمس

قدموں کے مہربان لمس کے لئے

وہ داستانیں ہیں

کھلنے کی منتظر…پوسیدہ گھسی پٹی

مگر لنگ نہ بنتے ہوئے

اور نہ ہی کوئی انگ

یہ چٹانیں…پھول بنتی ہیں

جب سیاح، انہیں دیکھتے ہیں

چٹانیں

ان ماؤں کی مسکراہٹ کی دوستی کی متمنی

جو اپنی بانہوں میں اپنے ننھے منوں کو سنبھالی ہوتی

ہیں

اپنے سائے پھیلا کر اُن سے بغل گیر ہوتی ہیں

یا…سردی کے باعث

ٹھنڈی یادوں کو بھڑکاتی ہیں

نیم گرم لوگوں کو جلاڈالتی ہیں

انتقام لے لیتی ہیں

یہ چٹانیں…

…………

یہ چٹانیں

کمبار کے زور تخیل میں بہت سے یوٹوپیائی کردار بھی خلق کئے ہیں اُن میں شِوپورہ بھی ایک علامتی اور استعاراتی کردار ہے جس میں انھوں نے پوری دنیا کا ایک عکس دکھانے کی کوشش کی ہے یہ صرف ایک یوٹوپیائی گاؤں نہیں ہے بلکہ اس شِوپورہ کے آئینے میں ہماری پوری دنیا اور ملک کی المیاتی صورتحال کو پیش کیا ہے۔ نئی دنیا کا ایک کریہہ چہرہ جس کو شاعر نے دکھانے کی کوشش کی ہے یہ نظم ملاحظہ کیجئے ؎

وہ ایک چھوٹا سا قریہ

نام اس کا شِوا پورہ

آپ نے سنا بھی نہ ہوگا

تمہارے کسی بھی نقشہ کے کسی بھی کونے میں

ہمارا قریہ … ہے ہی نہیں

چھوٹی چھوٹی سی تنگ گلیاں

جو گاؤں سے باہر جاتی ہی نہیں

پگڈنڈی پر سے ہوکر آنا ہوگا

اندر آنے کااور کوئی راستہ ہے ہی نہیں

اندر آنے کے بعد … بھی

ہم جہاں رہتے ہیں

وہ مرکز آپ کو نہیں ملے گا

آپ جہاں کھڑے ہوں گے

سب اِسی کو مرکز سمجھ لیجئے

باقی سب … نواح میں شامل

………

شہر سے اُس کا موازنہ کیا جائے

تو ہمارا قریہ چھوٹا تو ہے ہی

اِس میں دورائے کہاں؟

دونوں کا موازنہ؟

چہ معنی دارد؟

یہاںکوئی حادثہ رُونما ہوتا ہی نہیں

تاریخ کے اَوراق میں اُس کے لئے جگہ ندارد

نہیں، یہاں اک ندی سَدا رواں دواں ہے

ہمارے لئے دیو، بھوت،راکھشس

دیوتا سمان ہیں

ہماری حاجت روائی کے لئے

اُفق کے اس پار بھی

ہمارا رشتہ جوڑے رکھنے والے کوئی نہیں

کچھ بھی ملے،لاکر تقسیم کردیتے ہیں

اس کا کوئی مسئلہ نہیں ہماری نظر میں

یہ صرف شِوپورہ کا المیہ نہیں ہے بلکہ Mercaterمیپ سے بہت سے علاقے غائب ہیں یہی Mercaterمائنڈ ہیں جو ہمارے سماج، سیاست اور ادب پر بھی حاوی ہے۔ شَوپورہ کسی بھی نقشے میں شامل نہیں مگر دنیا کے ہر نقشے کا یہ حصہ ہے۔

کمبار کے یہاں تاریخ اور اساطیرکا خوبصورت امتزاج ہے اور اس میں بہت سے ایسے اساطیری کردار ہیں جن سے آگہی کا ذریعہ کمبار کی نظمیں ہی ہیں المّا، پرندر وٹھلا، چندی ھوما، دھوما کیتو، نندی پرچم، ویر بھدر، رودرا،دکشایگنیا، بسوا، ویرو پاکشا، مہامنے، کوڈلا سنگما دیوا، جنگم، منگلہ، شکرا، کاگوڈوٹمپا، ملناڈ، منڈارا اور اس طرح کے بہت سے کردار اور لفظیات ان کے یہاں ہیں جن سے ہمیں بہت سے نئی حقیقتوں کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔

کمبار کی نظموں میں طنزیاتی لمس بھی ہیںوہ معاصر سماج اور سیاست کو گہری ضرب کاری کرتے ہیںدر اصل یہ تلخ، تنداور طنزیہ انداز اس سماج اور سیاست کا رد عمل ہے جس نے ہماری روحانی انسانی قدروں اور مقدس علامات واشارات کو سلب کرلیا ہے اوراس کی جگہوں پر ہمارے ذہنوں پر صارفیت کو مسلط کر دیا ہے ایک نظم کے ٹکڑے دیکھئے:

ہمارے پاس ہے ہی کیا

سوائے ہماری روایتی تہذیب کے

جسے مفت میں دیں توبھی کوئی نہ لے

جو باقی ہے

وہ صرف گاندھی ہے

وَباما کا استقبال

ایک اور نظم کا ٹکڑا دیکھئے:

ان دیوتاؤں کے لئے

مندر نہیں ہیں

جو مندر موجود ہیں، اُن میں

اَوروں کا داخل ممنوع ہے

اُن کے لئے پوجا، ناقوس، ڈفلی، تہوار نہیں ہیں

شادی کا دھوم دھڑاکا

شان وشوکت بینڈ باجہ نہیںہے

سچ کہوں تو، بھکت بھی نہیں ہیں

کسی کو بھی ان کا نام تک معلوم نہیں ہے

اُن میں جان نہیں

مگر یہ

لاشیں بھی نہیں ہیں

بُھوت پریت نہیں

شہید بھی نہیں ہیں

اُن کو نہ دفن کرسکتے ہیں اور نہ ہی جلا سکتے ہیں

اب یہاں

اسی نظم کا ایک اور بند دیکھئے:

اے دیوتاؤ!

تمہارے لئے بہائے گئے ہمارے آنسوؤں کو

بازار میں بھاری قیمت پر بیچ ڈالا ہے

تمہاری زبان، بازو، انگلیاں

ہماری طرف اشارہ کررہی ہیں

پر بھی

ہمیں ڈر نہیں ہے

بدسلیقگی سے دیکھنے پر بھی

تمہارا دیدار

ہم پر بے اثر ہے

پوچھتے ہو کہ ایسا کیوں ہے؟

اس لئے کہ

تم ہمارے نہیں

یہ نظمیں در اصل ان کی یادوں کا سفر نامہ اور مشاہدات و محسوسات کا منظر نامہ ہے انھوں نے کنڑ کی لوک کتھاؤںکو اپنی نظمیہ شاعری کا پیرہن عطا کیا ہے اس میں وہ گاؤں اور مقامات اور مناظر بھی ہیں جن سے ان کی آنکھوں کا گہرا رشتہ ہے بدلتے ہوئے شہراور گاؤں اورتبدیل ہوتی معاشرت تہذیب و ثقافت کا بیان بھی ہے دیکھئے بنگلور کی کیسی خوبصورت منظر کشی کی ہے جس سے بنگلور کا موجودہ منظرنامہ نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے اور ماضی سے مختلف ایک نئی تصویر آنکھوں میں گھومنے لگتی ہے:

ماہواری بند ہونے کے باوجود

روز روز ایک نئی کالونی کو جنم دینے والے

اے شہر بنگلور!

پھیلی ہوئی ہریالی کو پھاڑ کر

اُگاتے ہوئے پیڑوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے

تالاب، ندی، تالوں، گڈھوں کو

غٹاغٹ پی کر

تیری فلک بوس ہائی ٹیک عمارتوں کاکیا کہنا!

اُوپر بجلی کے تاروں کاجال

نیچے جوہڑ، نالیوں، گڈوں کے مربوط سلسلوں میں

بیماریوں کے موجد جراثیم

قطار اندر قطار

ٹیوب لائٹوں میں دانت پیستے ہوئے

زور کا قہقہہ لگانے کے کیا کہنے!

گاندھی بازار کے شوکیسوں میں

سینہ تان کر اپنی نمائش کرتی ہوئی

آراستہ وپیراستہ قیمتی اشیاء کا کیا کہنا

نیلے آسمان

کمبار کی نظموں میں خوبصورت محاکات منظر نگاری کی داستانویت بھی ہے ان کی نظموں کے بین المتون میں بہت سی داستانیں ہیں۔ انھوں اپنے گاؤں کی ایک پرانی داستان کو نظم کے قالب میں ڈھالا ہے جس کے تین کردار ہیں مکھیا، اوما دیوی، اور جنگم اوما دیوی کے گاؤں میں ایک گشتی سنت بھکاری بن کر آتا ہے تو اوما دیوی اس کی محبت میں گرفتار ہوجاتی ہے مکھیا کو خبر ملتے ہی قتل کا منصوبہ بناتا ہے جس کی بھنک جنگم کو مل جاتی ہے وہ بھاگ جاتا ہے اور اوما دیوی بھی ایک ایسے پرانے مندر میں بھاگ کر چلی جاتی ہے جہاں اس کا جنگم رہتاتھا مندر کے کمرے میں جاکر دروازہ اندر سے بند کر لیتی ہے اور وہیں اپنی آخری سانس لیتی ہے۔ در اصل یہ داستان ایک پرسوز عشقیہ بیانیہ ہے جسے بہت اچھے انداز میں انھوں نے پیش کیا ہے نظم کا ایک ٹکڑا ملاحظہ کیجئے:

وہ دیکھ …… مندر آگیا

دروازہ کھول کر اے اُوما دیوی

قدم پہلے بڑھاتے ہوئے

حُجرۂ مقدس میں داخل ہوگئی

دروازہ اندر سے بند کرلیا

کُنڈی چڑھالی اندر سے

روشنی بہنے لگی

’’میں جنگم، آگیا ہوں، دروازہ کھول بھدرے‘‘

یہ سب کا الما ہے

ہر کسی کا الما

میرا جنگما، میرے بازؤں میں ہے، مجھے اور کوئی نہیں چاہئے

گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ شاعرچندر شیکھر کمبار کے یہاں موضوعاتی تنوع ہے اساطیر ہیں لوک کتھائیں ہیں، تاریخ ہے تہذیب ہے ، عشق ہے، رومان ہے، طبقاتی کشمکش ہے، علاقائی تشخص ہے اور نئی دنیا کا بحران بھی اور اس سے جڑا ہوافرد اور اجتماع کے حدودیاتی مسائل بھی غرضیکہ آج کی زندگی کے جو مسائل وموضوعات ہیں ان پر انہیں کمبار نے اپنے ڈراموں، ناولوں کے علاوہ اپنی شاعری میں بھی ڈھالا ہے وہ نہایت حساس ذہن کے فنکار ہیں اور ان کا مطالعاتی اور مشاہداتی دائرہ بھی وسیع ہے ان کی شناخت کے بہت سے حوالے ہیں ڈرامہ نویس، فکشن نگار، محقق اور ادیب مگر انہیں اپنی شاعری کا حوالہ سب سے زیادہ پسند ہے اور حقیقت یہی ہے کہ انہوں نے کنڑ شاعری کو نئے زاویے اور جہات سے روشناس کرایا ہے۔ ان کے یہاں جو علاقائی سنبلزم ہے وہ قاری کو متاثر کرتی ہے اور ایک جہان دیگر کی سیاحت کراتی ہے ان کا تخلیقی اظہار اور اسلوب اوروں سے الگ ہے مابعد الطبیعاتی طرز احساس سے جڑا ہوا ان کا جمالیاتی اظہار بہت متاثر کن ہے۔ ان کی نظموں کو مشہور مترجم ڈاکٹر ماہر منصور نے اردو کا روپ عطا کیا ہے کہتے ہیں کہ ترجمہ میں نظم کی روح مر جاتی ہے مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ ماہر منصور نے نظم کی روح کو مرنے نہیں دیا ہے۔ وہ کشش اور قوت اصل نظموں میں ہیں ویسی ہی قوت ترجمے میں نظر آتی ہے ترجمہ کا ایک خوبصورت نمونہ دیکھئے:

میری آنکھوں کے گلشن میں

چلے آؤ چہل قدمی کی خاطر

اُگایا ہے تمہارے ہی لئے

گلوں اور سبزبیلوں کا تروتازہ حسین گلشن

دھنک لٹکائی ہے اس میں

بجھایا ہے گلابی سرخ رنگوں کا حسیں بستر

……

بخوبی جانتا ہوں میں

تمہارے نرم گالوں کی عجب سرخی کے آگے

مری آنکھوں کا یہ باغِ بہاراں

بے آب وگل بنجر بیاباں کی طرح ہے

جانِ من

رشکِ قمر

دراوڑی شاہکار کا ہند آریائی زبان میں ترجمہ یقیناً ایک خوشگوار قدم ہے اس سے دو الگ الگ تہذیبوں کے امتزاج کی صورت سامنے آتی ہے اور دو الگ ثقافتی دیواروں کے درمیان ایک کھڑکی سی کُھل جاتی ہے جس سے ہم الگ الگ تہذیب وتمدن سے تعلق رکھنے والے افراد کے اوظاع و اطوار، جذبات وکیفیات، علامات واستعارات کو دیکھ سکتے ہیں۔

You may also like