دہلی الیکشن کا ہنگامہ ختم ہوگیا،نفرت اور اشتعال انگیزی کی شکست ہوئی،عوام نے یک طرفہ بی جے پی کے خلاف ووٹنگ کی،ماحول بھی ایسا بنادیاگیاتھاکہ عام آدمی پارٹی کے علاوہ کانگریس یا کسی متبادل کی طرف دیکھنا بھی بی جے پی کو فائدہ پہونچاسکتاتھا،بی جے پی کے خلاف مسلمانوں نے جم کر پوری طرح متحد ہوکر ووٹنگ کی،اور ایسا کرنا بھی چاہیے تھا
سچ ہے کہ اگر بی جے پی نے نفرت کا ماحول نہ بنایاہوتا،شاہین باغ پر حملے نہ ہوتے تو مسلم ووٹوں کی تقسیم سے کجریوال کو سیٹیں ضرور کم ہوتیں،گرچہ وہ سرکار بنالیتے،خود اوکھلا کے ایم ایل اے امانت اللہ خان سے ناراضگی کے باوجود مجبوری میں انھیں ہی ووٹ دیناپڑاکیوں کہ کانگریس نے بھی مضبوط مقابل یھاں نھیں دیاتھا اسی کا فائدہ عام آدمی پارٹی اور امانت اللہ کو ہوا،اس وقت عام آدمی پارٹی کی مخالفت کی فضا نھیں تھی
نتائج پر فطری طور پر مسلم کمیونیٹی کو خوشی ملنی تھی،ملی،رک کر سوچیے،عام آدمی پارٹی کو بھی احساس ہوگا کہ کام کی بنیاد پر ووٹ تو ملتے ہی لیکن یکمشت مسلم ووٹ نے ہی اتنی زبردست جیت دلائی ہے،اسے کیوں نہ احساس دلایاجائے کہ پچھلے سیشن میں جس طرح مسلم کاز کو نظراندازکیاگیا،اب کجریوال سرکار ان پر توجہ دے لیکن چلی ہےیہ رسم کہ گرم ہندوتوا کا مقابلہ نرم ہندوتواسے کیاجانے لگاہے،چاہے کانگریس ہو،عام آدمی پارٹی ہویا بی ایس پی،ایس پی ہوں،فرقہ پرستی کو فرقہ پرستی سے کاٹنے کی بجائے سیکولرزم کے حقیقی اصولوں سے شکست کیوں نھیں دی جاسکتی،اچھا تو تھا کہ ان سب سے قطع نظر صرف وکاس کے مدعے رکھے جاتے جس طرح عام آدمی پارٹی نے انتخابی مہم شروع کی تھی،بعد میں ہنومان چالیسا،ہنومان بھکتی،مندر پر آگئی،حکومت سازی کے بعد بھی اطمینان ہوجاناچاہیے تھا لیکن ہر منگل کو چالیسا پاٹھ کا شوشہ چھوڑا گیا
الیکشن کے دوران سی اے اے اور شاہین باغ پر کجریوال کی خاموشی کو مجبوری سمجھ کر معاف کیاجاتارہا،لیکن اب کون سی مجبوری ہے کہ یہ وکاس پرش ان متنازعہ امور پر ایک لفظ بولنے کوتیار نھیں،سکھ واقعے میں دوڑ کر ملاقات کرنے والے وزیراعلی کو جامعہ آنے کی ہمت نہیں ہوسکی،دہلی کے وزیر اعلی کو دہلی میں درجن بھر مقامات پربیٹھیں خواتین کے درد کی فکر نھیں؟ سسودیا بس یہ کہہ کررہ گئے کہ ہم شاہین باغ کے ساتھ ہیں لیکن ان کاکوئی ٹاپ لیڈر جھانکنے تک آیا؟احتجاج اور دھرنوں کی مولود اور عادی پارٹی اب تک ان قوانین کے خلاف سڑک سے کیوں بھاگی ہوئی ہے؟
سیدھا سیدھا کجریوال جواب دیں کہ سی اے اے،این آرسی اور این پی آر کومسترد کرتے ہیں یا نھیں؟مسلم ممبران اسمبلی،اسمبلی سےسی اے اے کے خلاف تجویز منظور کرائیں اور فوری طور پراین پی آر لاگو نہ کرنے کا اعلان کرائیں کیوں کہ یکم اپریل سے این پی آر کا کام شروع ہوناہے،چار ریاستوں مدھیہ پردیش،کیرل،مغربی بنگال اور چھتیس گڑھ نے این پی آر سے بھی منع کیاہے،امید ہے کہ پنجاب،جھارکھنڈ،راجستھان،تلنگانہ حکومتیں بھی این پی آر روکیں گی،بہار،دہلی،مہاراشٹر،آندھراپردیش کی سرکاریں بھی روک دیں تو بہت حد تک سنگھی عزائم پر روک لگے گی،اس لیے ان ریاستوں پر پورا زور دیناچاہیے جو سیکولرزم کا ڈھونگ رچتی ہیں
کجریوال سرکار بتائے کہ اردو اکیڈمی کی نشستوں پر بحالی کیوں نھیں ہورہی ہے؟پچھلے سیشن میں اردو ٹیچروں پر دھوکہ دیتے رہے،یہ جھانسہ کب تک دیں گے؟بٹلہ ہائوس انکائونٹر کی جانچ کے لیے آپ سے کہابھی نھیں جائے گا کیوں کہ یہ ہمت آپ میں نھیں ہے،اور نہ آپ کے لوکل بہادر ایم ایل اے میں ہے،جو اپنے علاقے کا بجلی بحران دور نھیں کرسکے،جنھوں نے سڑکیں اور گلیاں کھود کر مہینوں سے چھوڑ رکھی ہیں،بنیادی مسائل حل نھیں کرپارہے ہیں،بڑی بات تو رہنے دیجیے،ہم امت شاہ سے ملاقات پر سوال نھیں اٹھارہے ہیں ہوسکتاہے کہ ترقیاتی امور پر گفتگو ہوئی ہو،ذاتی اور نفرت آمیزحملے کے باوجود ریاست کی فلاح کے لیے ملنا اچھی بات ہےکسے یاد نھیں ہے کہ کجریوال کی پارٹی نے 370پر ایوان میں بی جے پی کو ووٹ دیاتھا،آخر اس کے سیکولر لیڈران کیوں کنارے ہوگئے،یوگیندریادو،آشوتوش اورپرشانت بھوشن سے پٹری نھیں جمی اور جو خالص سنگھی تھے،اپنی اصل کی طرف چلے گئے،وی کے سنگھ اور کرن بیدی کی مثال موجود ہے نزدیک سے نظر رکھنی ہوگی کہ انا آندولن کے باقی لوگ وکاس کا مکھوٹا لگاکر کہیں سنگھی ایجنڈے کو پورا تو نھیں کررہے ہیں