چھیڑ کے ساز زر گری خلق خدا ہے رقص میں
یوں کہ تمام شہر ہی ڈوب چلا ہے رقص میں
یہ جو نشہ ہے رقص کا اک مری ذات تک نہیں
کوزہ بہ کوزہ گل بہ گل ساتھ خدا ہے رقص میں
کوئی کسی سے کیا کہے کوئی کسی کی کیوں سنے!
سب کی نظر ہے تال پر سب کی انا ہے رقص میں
حسن کی اپنی اک نمو عشق کی اپنی ہاؤ ہو
ایک ہوا ہے رنگ میں ایک ہوا ہے رقص میں
کون یہ کہہ کے چل دیا ہو تری بستیوں کی خیر
آج ہوا بھی تیز ہے اور دیا ہے رقص میں
کوئی سواد وقت پر کوئی سرود ذات تک
پاؤں ہے سب کا ایک سا پھر بھی جدا ہے رقص میں
برج شہی سے دیکھنا ایسے فشار وقت میں
خاک بہ سر غزل بہ لب کون گدا ہے رقص میں
غزل
اک نوید نَو کہ بدلا ہے کیلنڈر نے لباس
پھر نئے موسم کی آہٹ ، پھر نئی خوشبو کی آس
پھر برہنہ شاخ پر ہوگی نئے گل کی امید
پھر نئے پتوں کا استقبال اور خوش آمدید
پھر وہی خوابوں کے کاروبار نیندوں کے عذاب
پھر وہی رستہ ، وہی بےکیف منظر اور سراب
پھر وہی دھڑکن وہی سانسیں وہی جینے کا روگ
پھر وہی سب جانے پہچانے مگر انجان لوگ
پھر وہی ہوٹل ، وہی چائے ، وہی سگرٹ ، سموک
پھر وہی اپنے ، وہی اپنوں سے ہوگی نوک جھوک
صاف یونیفارم ، جوتے ، سائیکل ، بستے ، سکول
کل بھی آئیں گے نظر راہوں میں غنچے اور پھول
پھر وہی ٹک ٹک گھڑی کی اور پرانے فاصلے
پھر وہی آفس کی جلدی ، پھر وہی شکوے گلے
پھر وہی سورج ستارے ، پھر وہی اپنی زمیں
سب بدلتا یوں ہے جیسے کچھ بدلتا ہی نہیں
سب وہی کردار ہوں گے تیر اور شمشیر کے
سب وہی پچھلے قرینے ہوں گے رانجھا ہیر کے
سال نو ہم خوب واقف ہیں ترے آغاز سے
زخم ِ دیرینہ ہرے ہوں گے نئے انداز سے
بس نیا محسوس ہوتا ہے نئی پوشاک سے
پاس ہوتا جارہا ہے جسم اپنی خاک سے
یہ خوش نظری خوش نظر آنے کے لئے ہے
اندر کی اداسی کو چھپانے کے لئے ہے
میں ساتھ کسی کے بھی سہی ، پاس ہوں تیرے
سب دربدری ایک ٹھکانے کے لئے ہے
ٹوٹے ہوئے خوابوں سے اٹھائی ہوئی دیوار
اِک آخری سپنے کو بچانے کے لئے ہے
اس راہ پہ اک عمر گزر آئے تو دیکھا
یہ راہ فقط لوٹ کے جانے کے لئے ہے
رہ رہ کے کوئی خاک اڑا جاتا ہے مجھ میں
کیا دشت ہے اور کیسے دِوانے کے لئے ہے
تجھ کو نہیں معلوم کہ میں جان چکا ہوں
تو ساتھ فقط ساتھ نبھانے کے لئے ہے
تو نسلِ ہوا سے ہے بھلا تجھ کو خبر کیا
وہ دکھ جو چراغوں کے گھرانے کے لئے ہے
اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے ادھر کے ہم ہیں
پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے
اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں
وقت کے ساتھ ہے مٹی کا سفر صدیوں سے
کس کو معلوم کہاں کے ہیں کدھر کے ہم ہیں
چلتے رہتے ہیں کہ چلنا ہے مسافر کا نصیب
سوچتے رہتے ہیں کس راہ گزر کے ہم ہیں
ہم وہاں ہیں جہاں کچھ بھی نہیں رستہ نہ دیار
اپنے ہی کھوئے ہوئے شام و سحر کے ہم ہیں
گنتیوں میں ہی گنے جاتے ہیں ہر دور میں ہم
ہر قلم کار کی بے نام خبر کے ہم ہیں
کسے خبر ہے کہ کیا رنج و غم اٹھاتے ہیں ـ پروین شاکر
کسے خبر ہے کہ کیا رنج و غم اٹھاتے ہیں
تراش کر جو زباں کو قلم اٹھاتے ہیں
قراردادِ محبت تو کب کی فسخ ہوئی
فریق آج یہ کیسی قسم اُٹھاتے ہیں
زمیں کی پُشت تحمل سے دُہری ہو جائے
اگر وہ بوجھ اٹھائے جو ہم اٹھاتے ہیں
مثالِ دُردِ تہِ جام ہیں کہ بیٹھ کے بھی
اک اور حشر پسِ جامِ جِم اُٹھاتے ہیں
ہمیں بُجھانے کو اندر کا حبس کافی ہے
ہوا مزاجوں کا احسان کم اُٹھاتے ہیں
وہاں بھی ہم تو ستارہ سوار تھے کہ جہاں
بہت ہی سوچ سمجھ کے قدم اُٹھاتے ہیں
کئی بار اس کا دامن بھر دیا حسنِ دو عالم سے
مگر دل ہے کہ اس کی خانہ ویرانی نہیں جاتی
کئی بار اس کی خاطر ذرے ذرے کا جگر چیرا
مگر یہ چشمِ حیراں جس کی حیرانی نہیں جاتی
نہیں جاتی متاعِ لعل و گوہر کی گراں یابی
متاعِ غیرت و ایماں کی ارزانی نہیں جاتی
مری چشمِ تن آساں کو بصیرت مل گئی جب سے
بہت جانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
سرِ خسرو سے نازِ کج کلاہی چھن بھی جاتا ہے
کلاہِ خسروی سے بوئے سلطانی نہیں جاتی
بجز دیوانگی واں اور چارہ ہی کہو کیا ہے
جہاں عقل و خرد کی ایک بھی مانی نہیں جاتی
دستِ طلب دراز ہے کس کا نہ دیکھیے
دل اپنا دیکھیے میاں، کاسہ نہ دیکھیے
آنکھوں کے ساتھ روح بھی سلگے گی صبح تک
بجھتے دیے کی لو کو زیادہ نہ دیکھیے
یہ جان لیں وہ پیڑ ہیں سایہ فروش پیڑ
شاخوں پہ جن کی کوئی پرندہ نہ دیکھیے
اب کیا جو آرہا ہوں ہراک شخص میں نظر
میں نے کہا بھی تھا مجھے اتنا نہ دیکھیے
جائیں مگر پھر ایسے کہ کچھ چھوڑ کر نہ جائیں
یعنی ہمیں پلٹ کے دوبارہ نہ دیکھیے
دریا کے زخم جذب نہ ہوجائیں روح میں
کچھ دور بیٹھیے، تہِ دریا نہ دیکھیے
آپ اپنے سورجوں کے سجائیں نقوش و رنگ
میں کیسے بن رہا ہوں ستارہ نہ دیکھیے
کچھ خواب مستقل یہاں محوِ طواف ہیں
آنکھیں ہماری دیکھ کے دنیا نہ دیکھیے
یہ بھی ممکن ہے کہ آنکھیں ہوں تماشا ہی نہ ہو
راس آنے لگے ہم کو تو یہ دنیا ہی نہ ہو
کہیں نکلے کوئی اندازہ ہمارا بھی غلط
جانتے ہیں اسے جیسا کہیں ویسا ہی نہ ہو
ہو کسی طرح سے مخصوص ہمارے ہی لیے
یعنی جتنا نظر آتا ہے وہ اتنا ہی نہ ہو
ٹکٹکی باندھ کے میں دیکھ رہا ہوں جس کو
یہ بھی ہو سکتا ہے وہ سامنے بیٹھا ہی نہ ہو
وہ کوئی اور ہو جو ساتھ کسی اور کے ہے
اصل میں تو وہ ابھی لوٹ کے آیا ہی نہ ہو
خواب در خواب چلا کرتا ہے آنکھوں میں جو شخص
ڈھونڈنے نکلیں اسے اور کہیں رہتا ہی نہ ہو
چمک اٹھا ہو ابھی روئے بیاباں اک دم
اور یہ نظارہ کسی اور نے دیکھا ہی نہ ہو
کیفیت ہی کوئی پانی نے بدل لی ہو کہیں
ہم جسے دشت سمجھتے ہیں وہ دریا ہی نہ ہو
مسئلہ اتنا بھی آسان نہیں ہے کہ ظفرؔ
اپنے نزدیک جو سیدھا ہے وہ الٹا ہی نہ ہو
عکسِ شکستِ خواب بہر سُو بکھیریے
چہرے پہ خاک ،زخم پہ خوشبو بکھیریے
کوئی گزرتی رات کے پچھلے پہر کہے
لمحوں کو قید کیجیے ، گیسو بکھیریے
دھیمے سُروں میں کوئی مدھر گیت چھیڑیے
ٹھہری ہُوئی ہَواؤں میں جادُو بکھیریے
گہری حقیقتیں بھی اُترتی رہیں گی پھر
خوابوں کی چاندنی تو لبِ جُو بکھیریے
دامانِ شب کے نام کوئی روشنی تو ہو
تارے نہیں نصیب تو آنسو بکھیریے
دشتِ غزال سے کوئی خوبی تو مانگیے
شہرِ جمال میں رمِ آہو بکھیریے
مت برا اس کو کہو گرچہ وہ اچھا بھی نہیں
وہ نہ ہوتا تو غزل میں کبھی کہتا بھی نہیں
جانتا تھا کہ ستم گر ہے مگر کیا کیجیے
دل لگانے کے لیے اور کوئی تھا بھی نہیں
جیسا بے درد ہو وہ پھر بھی یہ جیسا محبوب
ایسا کوئی نہ ہوا اور کوئی ہوگا بھی نہیں
وہی ہوگا جو ہوا ہے جو ہوا کرتا ہے
میں نے اس پیار کا انجام تو سوچا بھی نہیں
ہائے کیا دل ہے کہ لینے کے لیے جاتا ہے
اس سے پیمان وفا جس پہ بھروسا بھی نہیں
بارہا گفتگو ہوتی رہی لیکن مرا نام
اس نے پوچھا بھی نہیں میں نے بتایا بھی نہیں
تحفہ زخموں کا مجھے بھیج دیا کرتا ہے
مجھ سے ناراض ہے لیکن مجھے بھولا بھی نہیں
دوستی اس سے نبہ جائے بہت مشکل ہے
میرا تو وعدہ ہے اس کا تو ارادہ بھی نہیں
میرے اشعار وہ سن سن کے مزے لیتا رہا
میں اسی سے ہوں مخاطب وہ یہ سمجھا بھی نہیں
میرے وہ دوست مجھے داد سخن کیا دیں گے
جن کے دل کا کوئی حصہ ذرا ٹوٹا بھی نہیں
مجھ کو بننا پڑا شاعر کہ میں ادنیٰ غم دل
ضبط بھی کر نہ سکا پھوٹ کے رویا بھی نہیں
شاعری جیسی ہو عاجزؔ کی بھلی ہو کہ بری
آدمی اچھا ہے لیکن بہت اچھا بھی نہیں
وسعت پذیر امرِ الٰہی ہے میرے دوست
یہ کائنات، لامتناہی ہے میرے دوست!
بیرونِ ذات دیکھ لے یا اندرونِ ذات
دونوں طرف بسیط خلا ہی ہے میرے دوست
اک فوج ہے برائے دفاعِ فسردگی
تیرا یہ دوست اُس کا سپاہی ہے میرے دوست
ہم اِس کا طول ناپ نہیں سکتے، کیونکہ عشق
ڈوری ہے جس کا ایک سِرا ہی ہے میرے دوست
ناظر جو منظروں میں نظر آ نہیں رہا
تو وجہ تیری کور نگاہی ہے میرے دوست
خیراتِ غم سے چلتی ہے اور نفع کے بغیر
تنظیمِ اہلِ درد، رفاہی ہے میرے دوست
پہلے بدن میں عقل کا جمہوری دور تھا
اور آج کل جنون کی شاہی ہے میرے دوست
حسنِ جہاں ہے لمحۂ کُن سے تباہ کُن
افسوس! اِس کا انت، تباہی ہے میرے دوست
تخلیقِ نورِ ارض و سماوات ہے تو پھر
کیوں کائنات میں یہ سیاہی ہے میرے دوست؟
دیکھا ہے صرف میں نے اُسے چاند رات میں
رویت کی صرف ایک گواہی ہے میرے دوست!
وہ ہاتھ ہاتھوں میں تھام کر مسکرا رہا ہوں
میں اپنے ہونے کی ساری خوشیاں منا رہا ہوں
ابھی اسے خواب جیسی نعمت نہیں دکھائی
ابھی تو میں اس کو صرف دنیا دکھا رہا ہوں
مرے مقدر کا رزق اس تک پہنچ رہا ہے
میں اپنے ہاتھوں سے اس کو کھانا کھلا رہا ہوں
مجھ ایسے بندے کے ساتھ رہنے میں فائدہ ہے
میں شاہ رگ کے قریب بستی بسا رہا ہوں
رکاوٹیں اور عداوتیں میرا حوصلہ ہیں
مجھے یقیں ہے درست رستہ بنا رہا ہوں
میں سر اٹھا کے خدا کے چہرے کو دیکھتا تھا
سو میری گردن اکڑ گئی تھی جھکا رہا ہوں
ابھی مرا دھیان منزلوں کی طرف نہیں ہے
سفر میں ہوں اور قدم قدم سے ملا رہا ہوں
عجب خوف مسلط تھا کل حویلی پر
ہوا چراغ جلاتی رہی ہتھیلی پر
سنے گا کون مگر احتجاج خوشبو کا
کہ سانپ زہر چھڑکتا رہا چنبیلی پر
شبِ فراق میری آنکھ کو تھکن سے بچا
کہ نیند وار نہ کر دے تیری سہیلی پر
وہ بے وفا تھا تو پھر اتنا مہربان کیوں تھا
بچھڑ کے اس سے میں سوچوں اس پہیلی پر
جلا نہ گھر کا اندھیرا چراغ سے محسن
ستم نا کر میری جاں اپنے یار بیلی پر
مانگ پوری نہیں ہوتی کہ صلہ ملتا ہے
کوئی آ کر مجھے دورانِ دعا ملتا ہے
میں اسے اس کے بلانے پہ ملوں یا نہ ملوں
پر میں جب یاد کروں مجھ سے خدا ملتا ہے
ہائے کچھ لوگ کہ برسوں سے نہ دیکھا جن کو
ایک وہ شخص کہ بچھڑے بھی تو آ ملتا ہے
اجنبی دور چلا جا کہ تجھے چوم نہ لوں
تیرا چہرہ کسی چہرے سے بڑا ملتا ہے
آج لگتا ہے کوئی فیصلہ ہو جائے گا
آج دل میں مرے محشر سا بپا ملتا ہے
تیری بستی میں تو ہر شخص ہی شیدائی ہے
ہر شجر پر ہی کوئی نام لکھا ملتا ہے
کھیل ہی کھیل میں بھی ہم سے نہ روٹھا کیجے
اس شرارت سے بھلا آپ کو کیا ملتا ہے
جب سے معلوم ہوا آپ مقدر میں نہیں
تب سے فریاد میں بھی دگنا مزا ملتا ہے
ایک رنگباز کی فرقت نے مجھے زرد کیا
جس کے اطراف میں ہر شخص ہرا ملتا ہے
دنیا والوں کے لیے کتنا ہی مضبوط بنے
مجھ سے ملتا ہے تو پھر ٹوٹ کے آ ملتا ہے
جب سے ہم آپ کے ہاتھوں سے صحت یاب ہوئے
شہر کا شہر ہی بستر سے لگا ملتا ہے
ہر جگہ سے خوشی مایوس پلٹ آتی ہے
جس کو دیکھو وہ اداسی سے بھرا ملتا ہے
جانتی ہوں کوئی دستک نہیں دے گا لیکن
منتظر رہنے سے جانے مجھے کیا ملتا ہے
راستہ بھانپ چکا ہے مری رفتار شفق
کوئی پتھر ہو وہ پہلے سے ہٹا ملتا ہے
تمہارے حسن کا بے شک کوئی جواب نہیں
مگر ہماری نظر بھی فقط حباب نہیں
نہ غرق ہو تو محبت میں کون پار لگا
سبھی کے عشق کی تقدیر میں چناب نہیں
خراب ہو کے جو نکلا تھا باغ خوبی سے
بہت خراب ہے لیکن بہت خراب نہیں
کسی نے دشت میں تنہائی کی صدا نہ سنی
ہجوم بانگ میں دل اب بھی انتخاب نہیں
زمیں کے صفحہ پہ لکھی ہوئی تو دیکھی ہے
کتاب دل کا مگر مجھ سے انتساب نہیں
یہ فتنہ فتنہ کہانی سنا تو دوں تجھ کو
مگر بتا کہ تجھے تاب ہے کہ تاب نہیں
مری حیات ہے سنگیں حقیقتوں کا بیاں
کسی کا خواب مری زندگی کا خواب نہیں
کسے پتا ہے کہ سیلفون سے مٹی تہذیب
نہ سر میں علم، کسی ہاتھ میں کتاب نہیں
یہ کائنات ہے مظہر دو حرف کن کی تو پھر
ہمارے ذہن میں کیوں علم کا نصاب نہیں
وہ ایک وعدۂ فردا، یہ بس حقیقت حال
نظر میں دشت نہیں، دشت میں سراب نہیں
کبھی ہواؤں میں آندھی، کبھی زمین کا رزق
یہ کیسی خاک ہے جس پر ذرا بھی آب نہیں
یوں بھی باقی ہیں ابھی جینے کے آثار مرے
بسترِ مرگ سے اُٹھّے ہیں کئی یار مرے
موجِ ادراک سے سورج کی شعاعیں پھوٹیں
تو نظر آئے کچھ اندیکھے سے کردار مرے
سینہء شب میں مچلتا ہے اداسی کا بدن
ایک تصویر میں دکھتے ہیں یہ آزار مرے
خواب بازار میں لایا ہوں تجارت کے لئے
سوچ کر کرنا ذرا سودا خریدار مرے
ہر نظارے میں چھپی بیٹھی ہے من کی جوبن
کس طرح خود کو سنبھالے گا اے ہشیار مرے
اپنی آنکھوں میں تری پیاس لئے پھر تا ہوں
اک نظر میری طرف دیکھ اے دلدار مرے
پہلے مشکل سے سمندر میں سفینہ اترا
اور پھر چھوٹ گئی ہاتھ سے پتوار مرے
مجھ کو صحرا میں ذرا خاک اڑانی ہے ابھی
اس لئے دیر سے آئیں گے پرستار مرے
میں نے لفظوں سے بنا ہے وہ زمانہ یارو
غور کرنے پہ نظر آئیں گے اشعار مرے
وہ بالیقین نبی کا غلام ہے ہی نہیں
کہ جس کا خوف تو ہے احترام ہے ہی نہیں
فلک سے اُترے ہوؤں کا مقام ہے ہی نہیں
وہاں کے جیسی یہاں دُھوم دھام ہے ہی نہیں
یہ ایک بات مسلسل مجھے ستاتی ہے
حقیقتاً تو کوئی بھی نظام ہے ہی نہیں
عجیب تر ہے بھری کائنات کا منظر
شروع ہو تو کہیں اختتام ہے ہی نہیں
جسے مٹانے کی دُھن ہے نہیں وجود اس کا
جسے اچھال رہے ہو وہ نام ہے ہی نہیں
وہ اور ہیں جو مسائل کے حل سُجھاتے ہیں
تُو صرف جی کہ مجھے تجھ سے کام ہے ہی نہیں
میں فکرمند نہیں ہوں کہ یہ بساطِ جہاں
کسی کا ہو گا ، مرا انتظام ہے ہی نہیں
شکست و ریخت پہ فوری نہ رائے قائم کر
نُمو کی شرط ہے یہ ، انہدام ہے ہی نہیں
نگلتا جاتا ہے کارِ عبث مرے دن رات
کہ شورِ شہر میں کچھ لطفِ شام ہے ہی نہیں
لغت میں لفظ “ وفا “ کے کئی معانی ہیں
کہ اپنی شرع میں بدعت حرام ہے ہی نہیں
نمود و نام ، ستائش ، صلہ نہیں درکار
سخن وری تو مری تام جھام ہے ہی نہیں
سمجھ نہ لینا کہیں خود کو زندگی سے بڑا
یہاں کسی کو بھی پیارے دوام ہے ہی نہیں
وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں
تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر
مرے لیے کوئی شایانِ التماس نہیں
ترے جلو میں بھی دل کانپ کانپ اُٹھتا ہے
مرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں
کبھی کبھی جو ترے قرب میں گزارے تھے
اب اُن دنوں کا تصّور بھی میرے پاس نہیں
گزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دیدہ و دل
سحر کی آس تو ہے زندگی کی آس نہیں
مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مِٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں
کچھ خبر لائی تو ہے باد ِبہاری اُس کی
شاید اس راہ سے گزرے گی سواری اُس کی
میرا چہرہ ہے فقط اُس کی نظر سے روشن
اور باقی جو ہے مضمون نگاری اُس کی
آنکھ اٹھا کر جو روادار نہ تھا دیکھنے کا
وُہی دل کرتا ہے اب منت و زاری اُس کی
رات کی آنکھ میں ہیں ہلکے گلابی ڈورے
نیند سے پلکیں ہوئی جاتی ہیں بھاری اُس کی
اس کے دربار میں حاضر ہوا یہ دل اور پھر
دیکھنے والی تھی کچھ کارگزاری اُس کی
آج تو اُس پہ ٹھہرتی ہی نہ تھی آنکھ ذرا!
اُس کے جاتے ہی نذر میں نے اُتاری اُس کی
عرصۂ خواب میں رہنا ہے کہ لوٹ آنا ہے
فیصلہ کرنے کی اس بار ہے باری اُس کی
ایسوسی ایٹ پروفیسر،شعبۂ اردو عین شمس یونیورسٹی، قاہرہ۔ مصر
تیرے ساتھ محبت نے اور تجھ سے رشتے داری نے
کتنا میرے دل کو جلایا اس ذہنی بیماری نے
اس کا عشق کہاں تھا سچا تھا اس کی زباں کب سچّی تھی
کتنے دلوں کو مار دیا ہے اس کی اس عیاری نے
گھائل دل پر زخم لگائے صبح و شام اکیلے میں
دل کو میرے بہت ستایا میری ہی خودداری نے
شامل تھا محبوب مراجو میری صبحوں شاموں میں
میرا دامن جلا دیا ہے اس کی ہی مکّاری نے
اب چاہت ہی کمزوری ہے نہ الفت سے میں ٹوٹی ہوں
سبق سکھائے بہت سے مجھ کو دوست تری غداری نے
پھر سے ولا کے دل میں کیسے ہنگامہ ہو جائے گا
قتل کیا احساس کو اس کے جھوٹی سی دلداری نے
بہت سی خوشیوں کو صرف ایک غم نے گھیر لیا
عجیب ہے کہ زیادہ کو کم نے گھیر لیا
کنیزیں، مالِ غنیمت کے ساتھ، آتی رہیں
محل کا نصف، کم از کم، حرم نے گھیر لیا
طویل وقت پھرے نشّہِ وجود میں ہم
پھر ایک روز، اچانک، عدم نے گھیر لیا
ہمارے خواب بڑے اور آنکھیں چھوٹی تھیں
جگہ بنائی تو اُس کو بھی نم نے گھیر لیا
پتہ تھا اُس سے بچھڑتے ہی دوست گھیریں گے
وہی ہوا، مجھے رنج و الم نے گھیر لیا
ہماری جیب میں بچپن سے تھی قلم کی جگہ
بڑے ہوئے تو اُسے بھی رقم نے گھیر لیا
مقدّسات کی نگرانی کرنا پڑتی ہے
اِسی اصول کے تحت اُس کو ہم نے گھیر لیا
غبار اڑتا رہا کارواں، رکا ہی نہیں
وہ کھو گیا تو مجھے پھر کہیں ملا ہی نہیں
نہ کوئی در نہ دریچہ نہ روزن دیوار
کہاں سے آئے ہوا کوئی راستا ہی نہیں
گواہ ہیں مرے گھر کے یہ بام و در سارے
کہ تیرے بعد یہاں دوسرا رہا ہی نہیں
وہ دوڑ تھی کہ ہوئے مضمحل قوی سارے
بس ایک تیرا تصور کبھی تھکا ہی نہیں
ہزار رنگ بھرے لاکھ خال و خد کھینچے
سراپا تیرا مکمل کبھی ہوا ہی نہیں
میں کیا کروں یہ تری سبز وادیاں لے کر
یہاں وہ پھول جسے دل کہیں کھلا ہی نہیں
ہر ایک سمت مری وحشتیں ہراساں ہیں
کہ دور دور کوئی ان کا ہم نوا ہی نہیں
تمام رات یہ آنکھیں تلاش کرتی رہیں
مگر ستارہ مرا آسماں پہ تھا ہی نہیں
ضیا میں خود کو یہ سمجھا رہا ہوں مدت سے
کہ یہ جہان مرے واسطے بنا ہی نہیں
آرائشِ خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو
وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو
یہ کیا کہ روز ایک سا غم ایک سی امید
اس رنجِ بے خمار کی اب انتہا بھی ہو
یہ کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
ٹوٹے کبھی تو خوابِ شب و روز کا طلسم
اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو
دیوانگئِ شوق کو یہ دھن ہے کہ ان دِنوں
گھر بھی ہو اور بے درودیوارسا بھی ہو
جز دل کوئی مکان نہیں دہر میں جہاں
رہزن کا خوف بھی نہ رہے درکھلا بھی ہو
ہر ذرہ ایک محملِ عبرت ہے دشت کا
لیکن کسے دکھاؤں کوئی دیکھتا بھی ہو
ہر شے پکارتی ہے پس پردۂ سکوت
لیکن کسے سناؤں کوئی ہم نوا بھی ہو
فرصت میں سن شگفتگیِ غنچہ کی صدا
یہ وہ سخن نہیں جو کسی نے کہا بھی ہو
بیٹھا ہے ایک شخص مرے پاس دیر سے
کوئی بھلا سا ہو تو ہمیں دیکھتا بھی ہو
بزم سخن بھی ہو سخنِ گرم کے لیے
طاؤس بولتا ہو تو جنگل ہرا بھی ہو
قلیل ہو کہ زیادہ، مگر مَحبّت ہو
کسی طرح بھی محبّت ہو، پر محبّت ہو
تمام عمر بھلا کون زندہ رہتا ہے
سوائےاُس کے، جسے عمر بھر محبّت ہو
مجھے تو چین نہ پڑتا تھا، جب محبّت تھی
یہ شخص بیٹھ نہ پائے، اگر محبّت ہو
قبائے نم ! یہی حق ہے برستی بارش کا
خراب کرتی شرابور تر محبّت ہو
تو جانتا نہیں، کتنی دراز ہوتی ہے
اگر یہ زندگیِ مختصر محبّت ہو
ہر ایک جھیل پہ مرغابیاں نہیں آتیں
محبتّوں کے لیے،سربسر محبّت ہو
جو ایک بار کے قائل ہیں’ان سے پوچھیے گا
وہ کیا کرے،جسے بارِ دگر محبّت ہو
تَو ایک شخص مجھے بھول جانا چاہیے نا !
سعُودؔ ! مجھ کو اگر راس ہر محبّت ہو
میری آرزو کے چراغ کو وہ ہوا کا جھونکا بجھا نہ دے
مجھے خوف ہے کوئی نازنیں میرے دردِ دل کو بڑھا نہ دے
میری داستانِ وفا کو تو یونہی ہنس کے دل سے بھلا نہ دے
میں خزاں رسیدہ چمن نہیں میرے آشیاں کو جلا نہ دے
سرِ راہ مجھ پہ کرم کیا جو خزانہ غم کا وہ دے گیا
میرا ہمسفر کہیں آج ہی کسی راہزن سے بتا نہ دے
میرا نام دل کی کتاب میں جو لکھا ہے رکھنا حجاب میں
مجھے ڈر ہے اپنے رفیق سے کہیں راز یہ تو بتا نہ دے
ابھی سادہ ہیں کئی اک ورق میری داستانِ حیات کے
کہیں لے کہ بدلا یہ زندگی مجھے خوں کے آنسو رولا نہ دے
میرا خانماں ہے لٹا ہوا میرا حوصلہ ہے مٹا ہوا
میری بے نوائی کو دیکھ کر کہیں بزم سے وہ اٹھا نہ دے
تجھے اس نے کیسی شراب دی کہ ترا جمال نکھر گیا
ذرا دیکھنا کہیں اےقمر! کوئی بجلی تجھ پہ گرانہ دے
تجھے کیا ہوا ہے کہ روز و شب کہ پھرا کرے ہےغزل بلب
تو بتا کہ اس کا ہے کیا سبب یوں ہی عمر ساری بتا نہ دے
تیری زندگی میں بہار ہے میری زندگی میں غبار ہے
ذرا رحم کر تو حسیب پر اسے یونہی در سے بھگا نہ دے
تُو زندگی کے بُرے تجربات میں سے ہے
تجھے بھُلانا تو ناممکنات میں سے ہے
خبر میں جن کی لکھا ہوتا ہے، "کوئی نہ بچا”
تمہارا ہجر اُنہی حادثات میں سے ہے
مرے لئے ہے اندھیرا بھی روشنی کی طرح
یہ روشنائی، خدا کی دوات میں سے ہے
میں جلد چھوڑنے والا ہوں سب بُری عادات
تجھے نہیں کہ تو مستثنیات میں سے ہے
ہمارا بخشا ہوا عشق تجھ سے کرتا ہے وہ
تجھے جو قرض مِلا ہے، زکوٰۃ میں سے ہے
معاف کرنا! یہ کرتے ہو جس کے نام پہ قتل
معاف کرنا اُسی کی صفات میں سے ہے
ہمیں تو گریہ بھی لگتا ہے سہل، اور یہ چیز
ہماری چند بڑی مشکلات میں سے ہے
سنے گی خاکِ سیہ کب ہری بھری آواز
خزاں کے دل میں اترتی بہار کی آواز
یہی ملا ہے وراثت میں بے نواؤں کو
گھٹی گھٹی سی خموشی دبی دبی آواز
کوئی عوام سے پوچھے تو کیسے اترے گی
دھواں دھواں سی سماعت میں جنتی آواز
یہ چند لوگ جو اب تک ہیں آشتی خواہاں
انھیں بھی کھینچ نہ لے جائے آگ کی آواز
ہمارے پاس اب اس کے سوا رہا کیا ہے
گھناؤنی سی خموشی، ڈراؤنی آواز
نکل کے حلقۂ رنداں سے پھر کہیں نہ ملی
وہ اک سبو سی خموشی، شراب سی آواز
گئی تھی رات کہیں خامشی کے حجرے میں
وہ آگ تھی کہ وہیں راکھ ہو گئی آواز
سنو سنو کہ یونہی ناشنیدہ ڈھہ نہ پڑے
یہ حسن و خیر و ولا سے لدی پھندی آواز
تو بات یہ ہے میاں، تشنگی کے کانوں میں
ازل سے گونج رہی ہے سراب کی آواز
سنائی دیتی ہے اکثر خرابۂ دل میں
بجھی بجھی سی وہ تنہا چراغ کی آواز
ہمارا ترکہ ہے بیٹا سنبھال کر رکھنا
یہ ٹوٹی پھوٹی خموشی، بچی کھچی آواز
کل اک خطیبِ مسیحا کلام کا فرزند
تھڑے پہ بیچ رہا تھا مری ہوئی آواز
فغاں کہ منبر و ماتم کے شور میں ہوئی گم
ابوالحسن کی خموشی، حسین کی آواز
کھلے پروں سے فضا کو طلائی کرتے ہوئے
نکالتے ہیں پرندے سفید سی آواز
کسی زمانے میں افلاک تھے سمیع و مجیب
کسی زمانے میں ہوتا تھا آدمی آواز
جو ناشنیدہ بھی محوِ سماع رکھتی ہے
سکوتِ دل کو ہے ازبر وہ سرمدی آواز
کہاں کا حافظِ قرآں جو سن نہیں سکتا
وہ حرف حرف میں مدغم پیمبری آواز
کسے سناؤں کہ آسیبی کانوں میں پڑ کر
اجاڑ ہو گئی کیسی بھری پری آواز
زبان سوکھ گئی، دل میں قحط سالی ہے
نہ خامشی تر و شاداب ہے نہ ہی آواز
یہ ایک بوند کہ ہے چشم و دل کی کل پونجی
اسے سنبھال رکھو، ہے یہ آخری آواز
بلاتی ہے مجھے رہ رہ کے آپ سے باہر
مرے ہی سینے سے آتی اک اجنبی آواز
ہمارے بچے نگل جائے گی خدا نہ کرے
یہ دلدل ایسی خموشی، یہ اژدری آواز
ہوس نہیں ہمیں آوازیں جمع کرنے کی
حضور آپ جو سنتے ہیں بس وہی آواز
کسی زمانے میں سورج زبان رکھتا تھا
کسی زمانے میں ہوتی تھی روشنی آواز
کبھی سنو تو سہی کان دھر کے بیدردو
یہ زخم دل کی، یہ آنسو ہے آنکھ کی آواز
اسی طرح خس و خاشاک بن کے سنتے رہو
خطیبِ شعلہ بیاں کی جہنمی آواز
اسے رجز میں کھپائیں کہ نوحہ خوانی میں
یہ باقی ماندہ سخن، یہ رہی سہی آواز
ہمیں مرقع ہستی سے دو ورق ہی ملے
کٹی پھٹی سی خموشی، مڑی تڑی آواز
یہ خالی ہاتھ خموشی کفیل ہے میری
مرا اثاثہ ہے کشکول میں پڑی آواز
ایسا مت کہہ کہ یہاں تُو غلطی سے آیا
دل وہ حجرہ ہے جہاں دکھ بھی خوشی سے آیا
خامشی آئی دریدہ دہنی سے تیری
دیکھنا مجھ کو تری کم نظری سے آیا
فتح مندی کا جو اِک رنگ ہے اُس چہرے پر
سرخروئی سے نہیں ۔۔۔۔۔ دل شکنی سے آیا
ورنہ راہیں تو مری سمت کئی آتی تھیں
اٌس کو عجلت تھی سو بے راہ روی سے آیا
اِس کہانی میں کہیں ذکر تو آیا اُس کا
کیا ہوا جو مری کردار کشی سے آیا
نئے ملبوس میں وہ جچ تو رہا ہے لیکن
کوئی پوچھے کہ یہ کس آمدنی سے آیا
آزماتا ہوں مگر اور کسی پر ۔۔۔ افسوس !!
یہ ہنر جبکہ مجھے اور کسی سے آیا
اب کوئی روک رہا ہو تو میں رک جاتا ہوں
مجھ میں یہ وصف غریب الوطنی سے آیا
موت کا خوف بڑا خوف ہے لیکن جواد
جو مجھے اُسکی توجہ میں کمی سے آیا
گو یہ مشکل گھڑی ہے ، سو جاؤ
نیند جب آ رہی ہے ، سو جاؤ
کون آے گا پوچھنے کے لیے
سب کو اپنی پڑی ہے سو جاؤ
سب کو اب کام سے ہے کام یہاں
تم کو کیا بے کلی ہے ، سو جاؤ
دن تھے جب جاگنے کے ، جاگتے تھے
اب یہ دیوانگی ہے ، سو جاؤ
نیند میں جو جگاے رکھتی تھی
آنکھ وہ سو گئی ہے سو جاؤ
گھپ اندھیرے میں خوف آے گا
کچھ ابھی روشنی ہے ، سو جاؤ
جو بھی ہونا ہے ، ہو رہے گا تو پھر
امن یا ابتری ہے ، سو جاؤ
تم جہاں دن گزار آے ، وہ اب
کوے بے گانگی ہے ، سو جاؤ
جس کے آگے ٹھہر سکے تھے نہ ہم
وہ ہوا پھر چلی ہے ، سو جاؤ
خود ہی کہتے ہو خود ہی سنتے ہو
کیسی بے چارگی ہے ، سو جاؤ
وسوسہ دل سے یوں نہ جائے گا
رات اب دو گھڑی ہے ، سو جاؤ
خود سے ہر دم الجھتے رہتے ہو
کیسی دیوانگی ہے ، سو جاؤ
تھک بھی جاتا ہے آدمی آخر
رنج ہے یا خوشی ہے ، سو جاؤ
دن بھی آے گا جاگنے والا
رات اب ہو گئی ہے ، سو جاؤ
سخنِ حق کو فضیلت نہیں مِلنے والی
صبر پر دادِ شجاعت نہیں مِلنے والی
وقتِ معلوم کی دہشت سے لرزتا ہوا دل
ڈُوبا جاتا ہے کہ مُہلت نہیں مِلنے والی
زندگی نذر گزاری تو مِلی چادرِ خاک
اِس سے کم پر تو یہ نعمت نہیں مِلنے والی
راس آنے لگی دُنیا تو کہا دِل نے کہ جا!
اب تُجھے درد کی دولت نہیں مِلنے والی
ہوسِ لقمۂ تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کسی حرف کو حُرمت نہیں ملنے والی
گھر سے نکلے ہوئے بیٹوں کا مقدر معلوم
ماں کے قدموں میں بھی جنت نہیں ملنے والی
زندگی بھر کی کمائی یہی مِصرعے دو چار
اِس کمائی پہ تو عزت نہیں ملنے والی