وہ مدتوں کے بعد سرِ راہ مل گیا
ایسا لگا کہ جیسے کوئی زخم چھل گیا
اس کے تو جیسے پاؤں زمیں نے پکڑ لیے
اور میں کسی شجر کی طرح جڑ سے ہل گیا
اس کے بھی لفظ جیسے مقفل سے ہوگئے
میرے بھی لب پہ جیسے کوئی حرف سل گیا
اس کے بھی دل کے رنگ نگاہوں تک آگئے
مجھ میں بھی قافلہ سا چلا ، تا بہ دل گیا
لمحے کہ جیسے وقت میں گرہیں سی پڑ گئیں
منظر کہ جیسے آنکھ کے پردے پہ سل گیا
وہ جس پہ اندمال کی مدت گزر چکی
اندر کہیں وہ زخم رگ ِ جاں سے مل گیا
پھولوں نے جیسے جھانک لیا تھا مرا وجود
دل کا ہر ایک رنگ درختوں پہ کھِل گیا
دھندلی سی کچھ وداع کی تصویر ہے سعود
منظر کشی کے وقت کوئی عکس ہل گیا