اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر آنے والی نسل اپنے ماقبل سے زیادہ ذہین اور باشعور ہوتی ہے۔تاہم اس پر نہ تو کلیت کا حکم لگایا جا سکتا ہے، نہ تمام شعبوں میں اس کی اکثریت کا دعویٰ درست ہوگا۔ علم و ادب کاشعبہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
ادھر چند دہائیوں سے مذہبی اور عصری علوم کے چشموں سے فیض یافتہ ایک ایسی نسل تیار ہورہی ہے جنھیں قدیم و جدید تعلیم کا حسین امتزاج،یا دینی مدارس اور عصری دانش گاہوں سے حصول تربیت کاخوبصورت سنگم کہا جاسکتا ہے۔ ایسے اشخاص زندگی کے مختلف شعبوں: مثلاًذاتی، سرکاری، نیم سرکاری اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک ہیں۔ اداروں سے باہر بھی اس نسل کی ایک خاصی تعداد ایسی ہے جسے موقع فراہم ہو تو عمدہ، اہم اور مفید کام انجام دے سکتی ہے۔ دین و دنیا کے علوم سے بہرہ مند ایسے افرادکی ایک مختصر سی جماعت اردو زبان و ادب کی خدمت میں بھی مصروف ہے۔ اسے علامہ شبلی نعمانی ، مولانا مناظر احسن گیلانی اور علامہ نیاز فتح پوری کی روایت کا امین کہیے تو بے جا نہ ہوگا۔حقانی القاسمی، ڈاکٹر احمد سجاد ساجدؔ،نایاب حسن اور ڈاکٹر عبدالباری وغیرہ سے قریبی واقفیت ہے ۔ان کی تحریریں پڑھتا اور استفادہ کرتا رہتاہوں۔
چند مہینوں پہلے عزیزی ڈاکٹر عبدالباری نے اپنی کتاب ’اردو تنقید : نقوش و نشانات‘ کا مسودہ لاکر دیا اور خواہش ظاہر کی کہ اس کتاب سے متعلق کچھ لکھ دوں۔ بعض شاگروں کی خواہش ٹالنی آسان نہیں ہوتی، سو کتاب پڑھنی شروع کی اور حیرت، دلچسپی اور خوشی کی کیفیتوں سے گزرتا رہا۔ تنقید اور تنقیدی دبستانوں سے متعلق اساتذہ اور دوسرے اصحاب نے متعدد کتابیں لکھی ہیں، لیکن مذکورہ کتاب نہ صرف یہ کہ اس موضوع پر ماقبل کتابوں سے منفرد ہے بلکہ کسی حد تک ممتاز ،منضبط اور قدرے زیادہ مفید بھی ہے ۔
اس مکمل کتاب کی تبویب سے بھی مصنف کی سلیقہ مندی اور ادبی شعور کا اظہار ہوتا ہے۔ محنت سے کی گئی تحقیق اور تنقیدی اظہار ان کی معتدل مزاجی کا ثبوت ہیں جو کسی بھی مصنف کی نمایاں خصوصیات میں شامل ہونی چاہئیں۔ مشرقی اور مغربی تنقید پر الگ الگ کتابیں موجود ہیں،دوتین کتابوں میں دونوں کو یکجا بھی کیا گیا ہے لیکن عبدالباری نے مشرقی اور مغربی تنقید کی تلاش وبیان میں اضافے کیے ہیں :مثلاً جاپانی ،چینی تنقید اور زمانۂ جاہلیت اور اسلامی دور میں تنقید کی روایت اور طریقۂ کار وغیرہ۔ علاوہ ازیں بعض تنقیدی دبستانوں کے ابتدائی نقوش و نشانات بھی دریافت کیے ہیں ، یا دریافت شدہ آثار کو منضبط کیا ہے۔کتاب کی اہمیت اس طور بھی ہے کہ یہ یونانی، سنسکرت،چینی، جاپانی، انگریزی، عربی ، فارسی اور اردو تنقید کے مشمولات کی بنا پر تنقید کا ایک مکمل شناخت نامہ بن جاتی ہے یا یوں جانیے کہ مختلف زبانوں، اصناف، ادوار اور رجحانات کے تنقیدی نقوش و نشانات کے حوالے سے دستاویزی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔
فی زمانہ اس قدر جانفشانی اور سلیقے سے کام کرنے کی توقع کم کی جاتی ہے کہ قدیم تحریروں کی قرأت،موضوع کے وسیع مطالعے اورمتن کی چھان پھٹک کے طریقۂ کار کا رواج تقریباً ختم ہوتا جارہا ہے۔پھر یہ کہ لکھنے پڑھنے کامقابلہ چلن میں نہیں رہا، دنیائے علم و ادب کے موجودہ عہد میں کوئی تحریک یا رجحان زندگی نہیں جی رہا ہے جس سے تحقیق، تنقید، تخلیق اور تحریر ی کاوشوں کی جانب طبیعت مائل ہو، دل میںرغبت اور امنگ پیدا ہو۔ قاری نے بھی کتابوں سے کافی اور رسائل و جرائد سے کسی حد تک فاصلہ بڑھا لیا ہے اور جنھوں نے کتب و جرائد سے رشتہ استوار رکھا ہے ان میں سے بیشتر نے سچی ستائش، واقعی تنقید اور بیباکیِ اظہار کے دروازوں پر مصلحت کے قفل ڈال لیے ہیں۔ سو، خدشے اور خوشی سے عاری ایسی صورت حال میں اگرکوئی مصنف ژرف بینی،سنجیدگی اور سلیقے سے کام کرتا ہے تو وہ لائق قدر اور قابل مبارکباد ہے۔ عزیزی ڈاکٹر عبدالباری ایسے ہی نوجوان مصنف ہیں جن کے کام کو بہ نظر تحسین دیکھا جانا چاہیے اور ان کی تلاش و جستجوکی توصیف کی جانی چاہیے۔