اپنے پہلے ہی ناول ’ دوگز زمین ‘ کے لیے ، ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ پانے والے معروف ناول نگار و افسانہ نگار ، عبدالصمد نے اپنی سوانح ، جس کا نام ’ افسانہ بنے گا کل ‘ ہے ، کے ابتدائی اور بعد کے صفحات میں یہ وضاحت کرکے کہ اس کو پڑھتے ہوئے قارئین تکرار محسوس کریں گے ، ٹوکنے یا تنقید کرنے کی راہ بند کردی ہے ۔ اتنا ہی نہیں یہ لکھ کر کہ ’’ سوانح حیات ( اور وہ بھی میری ) کی ضرورت ہی کیا ہے ، اس سے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہوگا ، اس کے مطالعے سے کس کو دلچسپی ہو سکتی ہے ‘‘ ، انہوں نے لوگوں کے سامنے اپنی ذات کو کھول کر پیش کرنے کو بے جواز قرار دے دیا ہے ، لہذا اب یہ سوال اٹھانا کہ جو کچھ انہوں نے لکھا ہے وہ سوانح ہے بھی یا نہیں ، بے معنیٰ ہو جاتا ہے ۔ لیکن ، جیسا کہ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ کچھ دوست بہت دنوں سے اصرار کر رہے تھے کہ میں اپنی سوانح حیات یا زندگی نامہ تحریر کروں ، اس کی توجیہ یہ دی جاتی کہ مجھے بہت سی سماجی ، سیاسی اور ادبی تحریکوں اور شخصیتوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے ، جو اکثر لوگوں کو نہیں ملتا ‘‘ ، انہوں نے اپنی سوانح حیات لکھی ۔ اور دوستوں کے اصرار کے علاوہ اس کے لکھنے کی سب سے بڑی وجہ ، ان کے بقول یہ بنی کہ ’’ بہت سوچنے اور بہت غور کرنے کے بعد اچانک ایک ایسے لمحے نے مجھے آ لیا جس نے مجھے قائل کردیا کہ میں خدائے بزرگ و برتر کے بخشے ہوئے اور اس کے عطا کردہ قوت اظہار پہ اور اس کی ان کرم فرمائیوں کا اپنے قلم سے اظہار تشکر تو کروں جس نے کوئی خاص علم ، کوئی غیر معمولی صلاحیت کے نہ رہتے ہوئے بھی اپنی رحمتوں کی مجھ پر بے پناہ بارش فرمائی ، پھر زندگی کے بے شمار موڑ پر ان بے حساب محبتوں اور ہمدردیوں کا ، جو جانے انجانے خدا کے بندوں نے مجھے بے کم و کاست عطا کیا ، بند مٹھی میں وقت کی مہربانیوں کا اور ان پاک باز ہاتھوں کا جنہوں نے میری قسمت کی سرشت میں کالے دھبوں کو پڑنے نہیں دیا یا انہیں مٹانے کی پوری کوشش کی ، اپنے قلم سے ان باتوں کا کم سے کم میں اعتراف تو کروں ، تحریری طور پر محبتوں اور شفقتوں کے صلے میں سنہری لکیریں کھینچنے کی کوشش تو کروں ، اپنے کمزور کاندھوں پر دبے ہوئے بے شمار قرضوں کے بار کو کچھ تو ہلکا کر جاؤں ۔‘‘ یقیناً اللہ رب العزت کا شکر اور کرم فرماؤں کی کرم فرمائی کا اعتراف ایک شریف النفس انسان کی ایسی صفات ہیں جو ہمیشہ یاد رکھی جاتی ہیں ۔ اور اس سوانح کے مطالعہ سے یہ خوب اندازہ ہو جاتا ہے کہ عبدالصمد ایک اعلیٰ پائے کے فکشن نگار ہونے کے ساتھ ایک مہذب انسان بھی ہیں ۔ اس 192 صفحات کی کتاب میں کہیں بھی نہ کسی کی برائی ہے اور نہ غیبت یا بہتان ، ہاں کہیں کہیں دبے لفظوں میں چند لوگوں سے شکایت ہے ، کہیں کہیں ان کے دل کا درد چھلک آیا ہے ۔ لیکن نہ لکھنے میں تلخی آئی ہے اور نہ ہی انہوں نے کسی کی ذات پر کیچڑ اچھالا ہے ، نہ ہی بڑی بڑی گپیں ہانکی ہیں ۔ اور نہ ہی خود کو دنیا کا سب سے بڑا عاشق ثابت کرنے کی کوشش میں کسی کے بسے بسائے گھر کو اجاڑنے کی کوشش کی ہے ، جیسا کہ عام طور پر سوانح لکھنے والے کرتے ہیں ۔
لوگ یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ جب اس سوانح حیات میں کوئی رِس یا رنگینی نہیں ہے تو اسے کیوں پڑھا جائے ، اس سوال کا جواب بہت آسان ہے ؛ یہ سوانح ، ایک بڑے فکشن نگار کے تجربات سے واقفیت کے لیے ، اس کے ادبی نظریات اور ادب سے اس کے لگاؤ کی بنیادوں کی جانکاری کے لیے ، پڑھی جائے ۔ اور یہ جاننے کے لیے پڑھی جائے کہ کیسے بہت کچھ حاصل کرنے کے بعد بھی انسان کا سَر تنتا نہیں ہے ، بلکہ وہ اپنی گردن جھکائے رکھتا ہے ۔ مجھے یہ سوانح – حالانکہ میں اسے سوانح کی جگہ زندگی کی کچھ بکھری ہوئی یادیں کہنا زیادہ پسند کروں گا – پسند آئی ، اس لیے کہ اس میں ادب کے تعلق سے یا یوں کہہ لیں کہ ادبی تحریکوں کے تعلق سے عبدالصمد نے اپنے دل کی باتیں بہت صاف صاف کہہ دی ہیں ۔ ایک جگہ ( بلکہ کئی جگہ ) وہ جدیدیت کا اور عوامی ادب ( پاپولر لٹریچر ) اور اردو زبان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ جدیدیت ایک بدلاؤ تھا جسے تحریک کا نام دے دیا گیا ، یہ با قاعدہ کوئی تحریک ہر گز نہیں تھی ، مگر جب اس کے زیر اثر تحریریں سامنے آئیں تو ایک خوشگوار تبدیلی کا احساس ہوا ، اور اس وقت کے اونگھتے بلکہ نیم مردہ ادب کو انگڑائی لے کر اٹھ کھڑا ہونے کا ایک موقع نصیب ہوا ۔ یوں میرا خیال ہے کہ ادب کبھی اس طرح ٹھپ نہیں پڑ جاتا کہ اسے مردہ یا نیم مردہ کہا جانے لگے ، سست رفتاری ضرور تھی ، کوئی نئی چیز سامنے نہیں آرہی تھی ، فکشن اور شاعری میں دہرائے جانے کا احساس ہوتا تھا ، یہ ساری باتیں خالص ادب سے متعلق تھیں ، ورنہ مقبول عام رسالے تو دھوم مچائے ہوئے تھے ہی ۔ ماہنامہ ’ شب خون ‘ نے اس خوشگوار تبدیلی کو روشن کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ۔ نیت اور خلوص کی حد تک تو معاملہ ٹھیک ٹھاک رہا ، مگر بعد میں جدیدیت کے نام پر اوٹ پٹانگ اور معنی و مطلب سے عاری چیزیں سامنے آنے لگیں ۔ اگر چہ اس افراتفری میں بھی فکشن اور شاعری کے چند بہترین نمونے سامنے ضرور آئے ۔ افسوس اس کا ہے کہ جس طرح کا ماحول بن گیا تھا ، اس کی دھند میں اچھی تحریروں کا ذکر کم ہوتا تھا اور بے معنی چیزوں کا زیادہ ۔ انہیں جان بوجھ کے فروغ بھی دیا گیا ، جس کا سب سے خراب نتیجہ یہ ہوا کہ عام قاری ادب سے بتدریج کٹتا گیا ۔ مقبول عام رسالوں کے پڑھنے والوں کو تمسخر بھری نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا ۔ ایک ایسا ماحول بن گیا کہ مقبول عام رسالوں میں لکھنے والے اور ان کے قارئین غیر اعلانیہ طور پر دوسرے درجے کے ادبی شہری قرار پائے ۔ ان سب باتوں کا نفسیاتی اثر یہ ہوا کہ مقبول عام رسالوں کے قاری بھی اپنے محبوب رسالوں سے شرمانے لگے ۔ جو ادب اس وقت لکھا جارہا تھا اسے سمجھنے والے بہت کم تھے ، ان کے پڑھنے ولے ان سے بھی کم ۔ مجموعی طور پر اس صورت حال سے ادب کا اور آگے چل کے کہا جائے تو اردو ہی کا نقصان ہوا ۔ بہت ہی افسوس ناک منظر سامنے آنے لگا اور آج صورت حال یہ ہے کہ ادب کو تو چھوڑ یے ، اب تو زبان ہی پر بن آئی ہے ۔ زبان ہی نہ رہے گی تو ادب پڑھے گا کون ؟ کچھ لوگ سنجیدگی سے زبان کو بچانے میں لگے ہیں مگر زیادہ تر لوگوں کو اب بھی اس کا احساس نہیں ۔ اس حقیقت کی طرف ان کا دھیان ہی نہیں جاتا کہ اردو کی بقا صرف اس لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ ان کی مادری زبان ہے ۔ ہندوستان کے ایک بہت بڑے حصے کے اردو بولنے والے اور کسی زبان میں اپنا مافی الضمیر ادا نہیں کر سکتے ، بلکہ اس لیے بھی کہ ان کی ساری مذہبی اور تہذیبی وراثت نیز ان کی ساری تاریخ اسی زبان میں محفوظ ہے ۔ ان کے بچے اگر اردو نہیں جانتے تو وہ اپنی مذہبی اور تاریخی وارثت کے بارے میں کچھ نہیں جان سکیں گے ۔ بیشک انٹر نیٹ اور دوسرے ذرائع سے بھی یہ معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ، مگر وہ ساری معلومات ادھوری اور کام چلاؤ انداز میں بیان ہوتی ہیں ، نیز آج کے بچوں کو زیادہ تفصیلات میں جانے کا شوق بھی نہیں ہے ۔‘‘
عبدالصمد نے تفصیل سے اپنے لکھنے کے عمل کا ذکر کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ لکھنا میرے لیے کبھی کوئی آسان فعل نہیں رہا ۔ جب لکھنے کا موڈ مجھ پر طاری ہوتا ہے تو اُس سے پہلے مجھ پر ایک اضطراب اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ یہ سلسلہ فوراً ختم نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات کئی کئی روز پر مشتمل ہوتا ہے ۔‘‘ اردو ادب کے بارے میں وہ لکھتے ہیں : ’’ زیادہ نہیں ، ہم صرف سو برسوں کی ادبی تاریخ کا مطالعہ کرلیں تو ہمیں بہ خوبی اندازہ ہو جائے گا کہ ہمارا ادب آگے نہیں بڑھ رہا ہے بلکہ پیچھے ہٹ رہا ہے ۔ دنیا کی ہر شے کی بتدریج ترقی ہو رہی ہے مگر ہمارے اردو ادب پر ایسا برا وقت پڑا ہے کہ ہم معیاری و غیر معیاری کی تمیز ؎ہی بھول گیے ہیں اور ادب کے نام پر آج جو کچھ لکھا جا رہا ہے ، ہم اسی پر مطمئن ہو بیٹھے ہیں ۔‘‘
عبدالصمد نے اپنی سوانح حیات میں اپنے خاندان یا خاندان کی تاریخ کا بڑا مختصر سا ذکر کیا ہے ، اپنی اہلیہ اور بیٹوں کا بھی مختصر ذکر ہے ، سوانح پڑھ کر بس یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایک زمیندار گھرانے سے تھے ، جو تقسیم کے بعد کھیت اور زمینیں بیچ بیچ کر شان بنائے رکھتا تھا ۔ انہوں نے مسلمانوں کے زوال پر ، تعلیم سے ان کی دوری پر سخت لہجے میں بات کی ہے ۔ سوانح میں اپنے استادوں کا بہت پیار سے ذکر کیا ہے ۔ جن کالجوں میں درس دیا ، پرنسپل رہے ان کا تفصیلی ذکر ہے ۔ ’ اردو مشاورتی کمیٹی ‘ میں چونکہ کلیدی عہدے پر رہے اس لیے اس کی باتیں بھی ہیں ، اور کچھ ذکر اردو کی ادبی دنیا کی گروہ بندی کا بھی ہے ، لیکن سب سے زیادہ انہوں نے اس دور کے ادیبوں کو یاد کیا ہے جیسے کہ کلام حیدری ، سہیل عظیم آبادی ، عبدالمغنی اور دوسرے ۔ عبدالصمد نے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ اور ’ اردو مشاورتی کمیٹی ‘ کی بات کرتے ہوئے کچھ تنازعات کا سرسری طور پر ذکر کیا ہے ، لیکن کسی کا نام نہیں لیا ۔ کتاب میں لاو پرساد یادو کا اور ان کے حوالے سے رنجن یادو اور رابڑی دیو اور اس وقت کی سیاست کا دلچسپ ذکر ہے ۔ لالو پرساد یادو سے عبدالصمد کی قربت رہی ہے ، وہ لکھتے ہیں : ’’ ایک تو ان کے ( لالو کے ) ذہن و دماغ میں اقتدار کا بھوت قبضہ جما کے بیٹھ گیا اور یہ بھوت کبھی بھی انسان کو پنپنے نہیں دیتا ، دھیرے دھیرے عوام سے ان کی دوری ہوتی چلی گئی ، ان کے آس پاس خوشامدیوں اور فائدہ اٹھانے والے چالاک لوگوں کا گھیرا تنگ ہوگیا ، انہوں نے اقتدار میں اپنے سسرالی رشتہ داروں کو بے پناہ فائدہ اٹھانے کا موقع دیا اور وہ اعلانیہ طور پر غیر آئینی حکمراں بن بیٹھے ۔‘‘ یہ کہانی بہت دلچسپ ہے ، اس کا لطف اسے پڑھ کر ہی ممکن ہے ۔ عبدالصمد نے خلوصِ نیت سے یہ سوانح لکھی ہے ، بھلے یہ مختصر سہی مگر اس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے ۔ اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جانا چاہیے ۔ ممبئی کے ’ کتاب دار ‘ ( 9869321477 ) نے اسے خوبصورت انداز میں شائع کیا ہے ۔ قیمت 300 روپیے ہے ۔ دہلی میں اسے ’ عرشیہ پبلیکیشنز‘ ( 9971775969 ) سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔