رحمۃ اللعالمین کے در پہ جانے کے لیے
ہے مرا عزم سفر بگڑی بنانے کے لیے
ہاں انہی کے در پہ جاتا ہوں جو ہیں داتا سخی
اپنا کشکول گدائی بھر کے لانے کے لیے
جو رہیں راضی تو پھر راضی رہے اللہ بھی
جا رہا ہوں لو اسی در سے لگانے کے لیے
کیوں کریں ضائع بہاکے اپنے اشکوں کو یہاں
جاتے ہیں رخسار پہ موتی اگانے کے لیے
دل مرا رنجور اپنوں کی جفائیں بے شمار
اس لیے جاتا ہوں اپنا دکھ سنانے کے لیے
ہے جہاں کی خاک بھی خاک شفاء درد دل
کیوں نہیں چلتے دوا اپنی بھی لانے کے لیے
ان سے جو رشتہ ہے میرا وہ کسی سے بھی نہیں
جانا میرا ہے وہی رشتہ نبھانے کے لیے
ان سے رہ کر دور ہم جو کچھ گنوا بیٹھے یہاں
چلیے چلتے ہیں وہاں سب کچھ کمانے کے لیے
قاسمی کیجیے دعا اللہ سے میرے لیے
ہو کبھی طیبہ سفر واپس نہ آنے کے لیے
نعت
اے رسولِ خد ! عالمی آپ ہیں
سارےانسان و جن کےنبی آپ ہیں
گلشنِ دہر میں آئی ہرسو بہار
باعثِ رونق و تازگی آپ ہیں
زندگی کاملاجن سے زریں اصول
اور کوئی نہیں اے نبی! آپ ہیں
آپ کی "ذات "تو مشعلِ راہ ہے
بہرِظلمت یہاں روشنی آپ ہیں
مظہرِ عشقِ ربِّ دوعالم ہیں آپ
جن کےصدقےیہ دنیاسجی آپ ہیں
خوف محشرکامجھکوذرا بھی نہیں
"ضامن و شافعِ امتی آپ ہیں”
میں ہوں ختمِ نبوت کاقائل حسیب
ہے "عقیدہ” مرا آخری آپ ہیں
مدحتِ شافعِؐ محشر پہ مقرر رکھا
میرے مالک نے مرے بخت کو یاور رکھا
میں نے خاکِ درِ حسان ؓ کو سُرمہ جانا
اور ایک ایک سبق نعت کا ازبر رکھا
میں نے قرآن کی تفسیر میں سیرت کو پڑھا
نور کو دائرہ نور کے اندر رکھا
نورِ مطلق نے اسے خلق کیا خلق سے قبل
منصبِ کارِ رسالت میں مؤخر رکھا
معنیِ اجرِ رسالت کو سمجھنے کے لیے
زیرِ نگرانی سلمانؓ و ابوذرؓ رکھا
خاتمیت کا شرف آپؐ کو بخشا اور پھر
آپ ؐ کی دسترسِ خاص میں کوثر رکھا
جس کسی نے بھی کبھی شان میں گستاخی کی
ابد آباد تک اس شخص کو ابتر رکھا
تختی لکھی تو اسی نام سے آغاز کیا
جس کو معبود نے ہر نام سے اُوپر رکھا
منزلِ شُکر کہ ہر گام ، خوشی ہو کہ الم
ورد اک اسمِ گرامی کا برابر رکھا
عمر بھر ٹھوکریں کھاتا نہ پھروں شہر بہ شہر
ایک ہی شہر میں اور ایک ہی در پر رکھا
جہانِ سبز میں جس وقت زندگی پھیلی
گلوں میں رنگ تو پتوں میں تازگی پھیلی
حلاوتوں کا مرقع ترا لعابِ دہن
تری زباں سے زمانے میں چاشنی پھیلی
ہر ایک لفظ ہدایت کا پیش خیمہ بنا
تمہارے نطق سے ہر لمحہ راستی پھیلی
تری نظر سے زمانے نے دیکھنا سیکھا
"ترے جمال سے دنیا میں روشنی پھیلی”
تمہاری بزم سے دانش کدوں کو فیض ملا
تمہاری نعت سے عالم میں شاعری پھیلی
تمہی نے حسن کے معنی بتائے دنیا کو
ترے سراپے کے باعث ہی دلکشی پھیلی
اپنے آقا کے مدینے کی طرف دیکھتے ہیں
دل اُلجھتا ہے تو سینے کی طرف دیکھتے ہیں
اب یہ دُنیا جسے چاہے اُسے دیکھے سرِسیل
ہم تو بس ایک سفینے کی طرف دیکھتے ہیں
عہدِ آسودگئ جاں ہو کہ دورِ ادبار
اُسی رحمت کے خزینے کی طرف دیکھتے ہیں
وہ جو پل بھر میں سرِ عرشِ بریں کھُلتا ہے
بس اُسی نور کے زینے کی طرف دیکھتے ہیں
بہرِ تصدیق سندنامہ نسبتِ عشاق
مُہرِ خاتم کے نگینے کی طرف دیکھتے ہیں
دیکھنے والوں نے دیکھے ہیں وہ آشفتہ مزاج
جو حرم سے بھی مدینے کی طرف دیکھتے ہیں
لطفِ نبی سے شومئ قسمت کے دن گئے
خوشیاں منا ئیے کہ مصیبت کے دن گئے
میں کہہ رہا تھا ذکرِ نبی کی سجا لے بزم
دیکھ ان سنی کا پھل سبھی برکت کے دن گئے
سن کر اذا جا کہہ اٹھے اصحابِ مصطفٰے
سرکار کی رفاقت و قربت کے دن گئے
خوش قسمتی سے مجھ کو درِ آقا مل گیا
اب اے زمانے تیری ضرورت کے دن گئے
عشقِ نبی میں ڈوب جا اور ان کو لے پکڑ
پھر مل نہیں سکیں گے جو رحمت کے دن گئے
ہم سے نبی کی سنتیں ہونے لگی ہیں ترک
افسوس اپنی عظمت و نصرت کے دن گئے
جب رحمتِ نبی پہ یقیں ہی نہیں رہا
کہنا ہی ہوگا تجھ کو کہ راحت کے دن گئے
مجھ کو فضائے شہرِ نبی ہو گئی نصیب
یعنی کہ کربِ حسرتِ جنت کے دن گئے
فضا میں رقصاں ہر ایک منظر میں
اس کے جلووں کی تابناکی
اسی کے دم سے ہے آسماں پر
شفق کے رنگوں کی بے کرانی
اسی کے نقشِ قدم نے بدلے
یہ ریگزاروں کے تپتے منظر
اسی کی چشمِ کرم نے بخشی
یہ رحمتوں کی عظیم چادر
اسی کی خاطر بنائے رب نے
یہ سب مناظر یہ سارے پیکر
اسی کی خاطر صدائے کن سے
تمام عالم کی ابتدا کی
اسی کے ہاتھوں عروجِ آدم کی
لفظ اقرأ سے انتہا کی
اسی نے آکر ہمیں بتایا
کہ علم و حکمت کی رہگزر پر
ہے ابن آدم کی سر بلندی
طلسم دنیا کا اسم اعظم
حصولِ علم و عمل میں پنہاں
کہ اس پہ چل کر
وقارِ آدم کی عظمتوں کے نشاں ملیں گے
کہ اس کو کھو کر
جہنموں کے مہیب سیلِ رواں ملیں گے
رموز اقرأ کا وہ شناسا
وہ میرا مولا وہ میرا آقا
وہ میرا والی وہ میرا رہبر
وہ میرا شافع وہ میرا سرور
وقار آدم کا نقش اول
کتاب ہستی کا حرف آخر
فضا میں رقصاں ہر ایک منظر میں اس کے جلووں کی تابناکی
درودِ پاک کا چوگرد حصار کھینچوں گا
گنہ کا جسم سے یوں اختیار کھینچوں گا
نہ ایسے نکلے گا کانٹا غزل کا سینے سے
چراغِ نعت جلا کر یہ خار کھینچوں گا
پڑھوں گا نعت جو کوہِ حرا کے سامنے میں
وہ مجھ کو کھینچے گا میں کوہسار کھینچوں گا
فضائے طیبہ میں لوں گا میں زور زور سے سانس
رگوں میں اپنی وہاں کا غبار کھینچوں گا
تمام شہر سنے گا اَجِیبُ کی آواز
ورائے سدرہ کچھ ایسے پکار کھینچوں گا
اٹک ہی جائے گی طیبہ میں روح کی چادر
جسے پلٹتے ہوئے تار تار کھینچوں گا
صفائی کی بڑی محنت سے صفحۂ دل کی
اب اس پہ نور کے نقش و نگار کھینچوں گا
شفا ملے گی مدینے پہنچ کے ہی مجھ کو
وہاں تلک میں یہ قلبِ فگار کھینچوں گا
ریا نکالوں گا اعمالِ صالحہ سے قمر
میں اپنی جیت کے اندر سے ہار کھینچوں گا
وہ ایسا حسیں جس کا ثانی نہ ہمسر جو ہے خوب تر خوشتروں سے بھی خوشتر
جو شمس و قمر سے بھی زیادہ منور: وہ میرا نبی ہے وہ میرا نبی ہے
جہاں شاہ بھی بن کے آئے گداگر جہاں کی فقیری امیری سے بہتر
جہاں سرنگوں شان کسریٰ و قیصر :وہ میرا نبی ہے وہ میرا نبی ہے
جو فخر رسل سید الانبیا ہیں جو ہادی کل خاتم الانبیا ہیں
جو ساقی کوثر ہے شافع محشر وہ میرا نبی ہے وہ میرا نبی ہے
وہی جن پہ قرآن نازل ہوا ہے جو ہیں فخر کونین جان جہاں ہیں
جو بعد خدا خلق میں سب سے بہتر :وہ میرا نبی ہے وہ میرا نبی ہے
جو امت کی خاطر دکھ و غم اٹھائے جو دشمن کو سینے سے اپنے لگائے
دعائیں دے ان کو جو برسائے پتھر وہ میرا نبی ہے وہ میرا نبی ہے
تھا ہر سمت دنیا میں کفر و ضلالت نبی آئے آئی بہار ہدایت
چمک اٹھا جن سے جہاں کا مقدر وہ میرا نبی ہے وہ میرا نبی ہے
محمد محمد ہی ورد زباں ہے یہ غم کا مداوا ہے تسکین جاں ہے
لٹاڈالے جن پر ہر اک شی یہ انظر وہ میرا نبی ہے وہ میرا نبی ہے
ڈاکٹر سید افضل حسین قاسمی
نورنگ دواخانہ بنگلور
ہم نے دیکھ کر طیبہ ، قسم ایسی کھالی ہے
کہ یہ شاعری اپنی ، اب گُنہ سے خالی ہے
د ر ر سو لِ ا کر م کا ، مر جعِ خلا ئق ہے
جاکے اس جگہ دیکھو ، ہر کوئی سوالی ہے
وہ نظر سعا د ت کی ، بھو ل ہی نہیں پا تے
جب سے اک نظر ہم نے، جالیوں پہ ڈالی ہے
ان پہ جان کے صدقے ، مال بھی نچھاور ہے
جن کا ہر عمل مِشعل ، ہر ا د ا نر ا لی ہے
سر خرو و ہی ہو گا ، جس نے بند گی کر تے
ا ن کی را ہ پر چل کر ، ز ند گی بنا لی ہے
و ا عظو نہ سمجھا ؤ ، طو رِ بند گی ہم کو
حکمِ بند گی اُن کا ، اِن سے گردِ پا لی ہے
ہیں غلا م د نیا میں ، آ پ کے بہت لیکن
پا سکا ہے کو ئی جو، رُ تبہ ء بلا لی ہے
آپ ہیں ر سو لو ں میں، عظمتو ں کا مینا ر ہ
ہا شمی لقب اُ مّی ، اور نسب بھی عا لی ہے
قا سمی ند ا مت کے ، عر قِ چشم ہیں ریزاں
ہے نہ کچھ عمل اپنا ، سر کُلَہ سے خا لی ہے
چہرہ ہے کہ انوارِ دو عالم کا صحیفہ
آنکھیں ہیں کہ بحرینِ تقدس کے نگیں ہیں
ماتھا ہے کہ وحدت کی تجلی کا ورق ہے
عارِض ہیں کہ ”والفجر“ کی آیت کے اَمیں ہیں
گیسو ہیں کہ ”وَاللَّیل“ کے بکھرے ہوئے سایے
ابرو ہیں کہ قوسینِ شبِ قدر کھُلے ہیں
گردن ہے کہ بَر فرقِ زمیں اَوجِ ثریا
لب، صورتِ یاقوت شعاعوں میں دُھلے ہیں
قَد ہے کہ نبوت کے خد و خال کا معیار
بازو ہیں کہ توحید کی عظمت کے عَلَم ہیں
سینہ ہے کہ رمزِ دلِ ہستی کا خزینہ
پلکیں ہیں کہ الفاظِ رُخِ لوح و قلم ہیں
باتیں ہیں کہ طُوبیٰ کی چٹکتی ہوئی کلیاں
لہجہ ہے کہ یزداں کی زباں بول رہی ہے
خطبے ہیں کہ ساون کے امنڈتے ہوئے دریا
قِرأت ہے کہ اسرارِ جہاں کھول رہی ہے
یہ دانت، یہ شیرازۂ شبنم کے تراشے
یاقوت کی وادی میں دمکتے ہوئے ہیرے
شرمندۂ تابِ لب و دندانِ پیمبرﷺ
حرفے بہ ثنا خوانی و خامہ بہ صریرے
یہ موجِ تبسم ہے کہ رنگوں کی دھنک ہے
یہ عکسِ متانت ہے کہ ٹھہرا ہوا موسم
یہ شکر کے سجدے ہیں کہ آیات کی تنزیل
یہ آنکھ میں آنسو ہیں کہ الہام کی رِم جھم
یہ ہاتھ، یہ کونین کی تقدیر کے اوراق
یہ خط، یہ خد و خالِ رُخِ مصحف و انجیل
یہ پاؤں،یہ مہتاب کی کرنوں کے مَعابِد
یہ نقشِ قدم، بوسہ گہِ رَف رَف و جبریل
یہ رفعتِ دستار ہے یا اوجِ تخیل!
یہ بندِ قبا ہے کہ شگفتِ گُلِ ناہید
یہ سایۂ داماں ہے کہ پھیلا ہوا بادل
یہ صبحِ گریباں ہے کہ خمیازۂ خورشید
یہ دوش پہ چادر ہے کہ بخشش کی گھٹا ہے
یہ مہرِ نبوت ہے کہ نقشِ دلِ مہتاب
رخسار کی ضَو ہے کہ نمو صبحِ ازل کی
آنکھوں کی ملاحت ہے کہ روئے شبِ کم خواب
ہر نقشِ بدن اتنا مناسب ہے کہ جیسے
تزئینِ شب و روز کہ تمثیلِ مہ و سال
ملبوسِ کہن یوں شکن آلود ہے جیسے
ترتیب سے پہلے رُخِ ہستی کے خد و خال
رفتار میں افلاک کی گردش کا تصور
کردار میں شامل بنی ہاشم کی اَنا ہے
گفتار میں قرآں کی صداقت کا تیقُّن
معیار میں گردُوں کی بلندی کفِ پا ہے
وہ فکر کہ خود عقلِ بشر سَر بگریباں
وہ فقر کہ ٹھوکر میں ہے دنیا کی بلندی
وہ شکر کہ خالق بھی ترے شکر کا ممنون
وہ حُسن کہ یوسفؑ بھی کرے آئینہ بندی
وہ علم کہ قرآں تِری عِترت کا قصیدہ
وہ حِلم کہ دشمن کو بھی امیدِ کرم ہے
وہ صبر کہ شبیرؑ تری شاخِ ثمردار
وہ ضبط کہ جس ضبط میں عرفانِ اُمُم ہے
الہام کی رم جھم ہے کہ بخشش کی گھٹا ہے
یہ دل کا نگرہے کہ مدینے کی فضا ہے
سانسوں میں مہکتی ہیں مناجات کی کلیاں
کلیوں کے کٹوروں پہ تیرا نام لکھا ہے
آیات کی جھرمٹ میں تیرے نام کی مسند
لفظوں کی انگوٹھی میں نگینہ سا جڑا ہے
خورشید تیری رہ میں بھٹکتا ہوا جگنو
مہتاب تیرا ریزۂ نقشِ کف پا ہے
واللیل تیرے سایۂ گیسو کا تراشا
والعصر تری نیم نگاہی کی ادا ہے
رگ رگ نے سمیٹی ہے تیرے نام کی فریاد
جب جب بھی پریشاں مجھے دنیا نے کیا ہے
خالق نے قسم کھائی ہے اُس شہرِ اماں کی
جس شہر کی گلیوں نے تجھے ورد کیا ہے
اِک بار تیرا نقشِ قدم چوم لیا تھا
اب تک یہ فلک شکر کے سجدے میں جھکا ہے
سورج کو اُبھرنے نہیں دیتا تیرا حبشی
بے زر کو ابوزر تیری بخشش نے کیا ہے
ثقلین کی قسمت تیری دہلیز کا صدقہ
عالم کا مقدر تیرے ہاتھوں پہ لکھا ہے
اُترے گا کہاں تک کوئی آیات کی تہہ میں
قرآں تری خاطر ابھی مصروفِ ثنا ہے
اب اور بیاں کیا ہوکسی سے تیری مدحت
یہ کم تو نہیں ہے کہ تو محبوبِ خدا ہے
اے گنبدِ خضرا کے مکیں میری مدد کر
یا پھر یہ بتا کون مرا تیرے سوا ہے
بخشش تیری آنکھوں کی طرف دیکھ رہی ہے
محسن تیرے دربار میں چپ چاپ کھڑا ہے
بتا رہی ہیں ضیائیں یہاں سے گزرے ہیں
حضور کیا روشِ کہکشاں سے گزرے ہیں
ہوئے ہیں آج وہ عنوانِ داستانِ جمال
وگرنہ یوں تو ہر اِک داستاں سے گزرے ہیں
ہر ایک بزم میں کہتے ہیں فخر سے جبریل
حضور خاص مِرے آشیاں سے گزرے ہیں
ہے مختصر یہی افسانۂ شبِ معراج
جہاں سے کوئی نہ گزرا وہاں سے گزرے ہیں
اے مسلمانو مبارک ہو نویدِ فتح یاب
لو وہ نازل ہورہی ہے چرخ سے ام الکتاب
وہ اٹھے تاریکیوں کے بامِ گردوں سے حجاب
وہ عرب کے مطلعِ روشن سے ابھرا آفتاب
گم ضیائے صبح میںشب کا اندھیرا ہوگیا
وہ کلی چٹکی ، کرن پھوٹی سویرا ہوگیا
خسروَ خاور نے پہنچا دیں شعائیں دور دور
دل کھلے شاخیں ہلیں ، شبنم اڑی ، چھایا سرور
آسماں روشن ہوا ، کانپی زمیں پر موج ِ نور
پَو پھٹی ، دریا بہے، سنکی ہوا ، چہکے طہور
نورِ حق فاران کی چوٹی کو جھلکا نے لگا
دلبری سے پرچمِ اسلام لہرانے لگا
گرد بیٹھی کفر کی ، اٹھی رسالت کی نگاہ
گرگئے طاقوں سے بُت، خم ہوگئی پشتِ گناہ
چرخ سے آنے لگی پیہم صدائے لا الہٰ
ناز سے کج ہوگئی آدم کے ماتھے پر کلاہ
آتے ہی ساقی کے ، ساغر آگیا ، خم آگیا
رحمتِ یزداں کے ہونٹوں پر تبسم آگیا
آگیا جس کا نہیں ہے کوئی ثانی وہ رسول (ص)
روحِ فطرت پر ہے جس کی حکمرانی وہ رسول ( ص)
جس کا ہر تیور ہے حکمِ آسمانی وہ رسول ( ص)
موت کو جس نے بنا یا زندگانی وہ رسول (ص)
محفلِ سفاکی و وحشت کو برہم کردیا
جس نے خون آشام تلواروں کو مرہم کردیا
فقر کو جس کے تھی حاصل کج کلاہی وہ رسول (ص)
گلہ بانو ں کو عطا کی جس نے شاہی وہ رسول ( ص)
زندگی بھر جو رہا بن کر سپاہی وہ رسول ( ص)
جس کی ہر اک سانس قانونِ الٰہی وہ رسول (ص)
جس نے قلبِ تیرگی سے نور پیدا کردیا
جس کی جاںبخشی نے مُردوں کو مسیحا کردیا
واہ کیا کہنا ترا اے آخری پیغامبر
حشر تک طالع رہے گی تیرے جلووں کی سحر
تونے ثابت کردیا اے ہادیء نوعِبشر
مرد یوں مہریں لگا تے ہیں جبین ِ وقت پر
کروٹیں دنیا کی تیرا قصر ڈھا سکتی نہیں
آندھیا ں تیرے چراغوں کو بجھا سکتی نہیں
تیری پنہا ں قوتوں سے آج بھی دنیا ہے دنگ
کس طرح تو نے مٹا یا امتیازِ نسل و رنگ
ڈال دی تونے بِنائے ارتباطِ جام و سنگ
بن گیا دنیا میں تخیل ِ اخوت ذوقِ جنگ
تیرگی کو روکشِ مہرِ درخشاں کردیا
تونے جس کانٹے کو چمکا یا گلستا ں کردیا
(تضمین بر اشعار غالب)
یہ کون طائر سدرہ سے ہم کلام آیا
جہانِ خاک کو پھر عرش کا سلام آیا
جبیں بھی سجدہ طلب ہے یہ کیا مقام آیا
”زباں پہ بار خدایا! یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے“
خطِ جبیں ترا امّ الکتاب کی تفسیر
کہاں سے لاوں ترا مثل اور تیری نظیر
دکھاوں پیکرِ الفاظ میں تری تصویر
”مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغ اسیر
کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیے“
کہاں وہ پیکرِ نوری، کہاں قبائے غزل
کہاں وہ عرش مکیں اور کہاں نوائے غزل
کہاں وہ جلوہ معنی، کہاں ردائے غزل
”بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے دل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے“
تھکی ہے فکرِ رسا اور مدح باقی ہے
قلم ہے آبلہ پا اور مدح باقی ہے
تمام عمر لکھا اور مدح باقی ہے
”ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے“
چاند،سورج، پھول، غنچہ اور ستارا آپکا
یا نبی ہے مدح خواں عالم یہ سارا آپکا
دیدی اپنے نام کی نسبت ہمارے نام کو
کس قدر مضبوط ہے رشتہ ہمارا آپکا
آپ ہی تو صاحبِ لولاک ہیں یا مصطفیٰ
ہے دو عالم کی ہر اک شۓ استعارہ آپکا
امتِ عاصی کی بخشش کی سند کردی عطا
رب نے یوں معراج میں صدقہ اُتارا آپکا
آپ کے فاقوں میں پنہاں تھا قناعت کا سبق
ورنہ تھا زر کیلٸے کافی اشارہ آپکا
یہ شہنشاہی کہ دنیا حشر تک دیگی خراج
فاقہ مسی میں ہوا پھر بھی گزارا آپکا
الاماں ہیں نیکیوں سے ہاتھ خالی یا نبی
” عاصیوں کو ہے سرِ محشر سہارا آپکا“
ظلمتِ باطل ہوٸی کا فور دنیا سے ” ذکی“
ہو گیا ہے نور جسدم آشکارا آپکا
(ترجمہ سورة الفاتحة)
مولانا عبد الوحید ثاقب نعمانی رحمہ اللہ
(والد محترم الخطاط مولانا طارق بن ثاقب )
خدا ہی کیلئے مخصوص ہر حمد و ستائش ہے
اسی کی قبضہ قدرت میں روزی کی کشائش ہے
وہ پالن ہارہے، سارے جہاں کا رب اعلیٰ ہے
نہایت مہرباں ہے، اور بےحد رحم والاہے
وہی انصاف کے دن کا ہے مالک عادل وحاکم
اسی کی حکمرانی ہے ازل سے تا ابد قائم
تری ہم بندگی کرتے ہیں تو معبود ہے مطلق
تجھی سے طالب نصرت ہیں تو ہے حامی برحق
چلا تو ہم کو سیدھی راہ پر اے ہادی و مولا
انہی کی راہ، جن پر تو نے اپنا فضل فرمایا
نہ ان کی راہ جو مغضوب ہیں معتوب ہیں تیرے
بھٹکتے ہیں لیے دل میں جو رسوائی کے اندھیرے
دعائے ثاقب افسردہ دل مقبول ہو جائے
کلی امید کی میری شگفتہ پھول ہوجائے
عارفہ مسعود عنبر
بلا لو مجھے میرے آقا مدینہ
بھنور میں ہے اب زندگی کا سفینہ
نظر میں بسا لوں وہ روضہ کا منظر
مزین ہو دیدار سے میرا سینہ
زمیں پر ہے کچھ اس طرح سبز گنبد
انگوٹھی میں جیسے جڑا ہو نگینہ
رہ معرفت میں جو چلتا رہے گا
وہی پائے گا باب رحمت کا زینہ
درود و تلاوت ہو ہر دم لبوں پر
ہے رمضان کا یہ مقدس مہینہ
میری تجھ سے یا رب یہی التجا ہے
مجھے بخش دے تو ثناء کا قرینہ
لعاب دہن انگبیں ہے نبی کا
سبھی خوشبوئیں ہیں نبی کا پسینہ
میں سرشار عشقِ نبی ہوں اے عنبر
میرا ورد ہے بس مدینہ مدینہ
افتخاررحمانی فاخرؔ
اللہ کی پہچان ہے ، عرفان ہے تیری جبیں
تکوین کی ، حسنِ جہاں کی شان ہے تیری جبیں
اے زینت ِ لوح وقلم، اے وجہِ تخلیق ِ جہاں
اعجازِ حق ، آئینۂ قرآن ہے، تیری جبیں
چھائی تھی جو اک تیرگی ، اُس تیرگی کے واسطے
اک صبح عالم تاب کا اعلان ہے تیری جبیں
میرے لیے ترکِ بتاں، اعزاز ہے اے مصطفی!
کفر و یقیں کی جنگ میں، میزان ہے تیری جبیں
دیکھا تجھے جو اک جھلک ، تیرا وہ دیوانہ ہوا
واللہ! بے شک منبعِ ایقان ہے تیری جبیں
بدرالدجیٰ چہرہ ترا ، زلفیں تری ہیں والضحیٰ
طاقِ حرم میں روشنی کی جان ہے، تیری جبیں
اُس طور سینا پر تجلی جو ہوئی تھی ناگہاں
یاں مظہرِ صد جلوۂ یزدان ہے تیری جبیں
نبی کا شہر ہے شہر مدینہ
مدینہ چل مدینہ چل مدینہ
بھٹک جاؤں میں رستہ چلتے چلتے
کوئی لے جائے مجھ کو پھر مدینہ
صبا کہیو مدینہ جا کے ان کو
کہ ہے اب ہند میں دشوار جینا
کہاں کا مشک؟ کیسا عود و عنبر
مری خوشبو، نبی جی کا پسینہ
مہ و انجم، فلک سے بھی ہیں بہتر
در و دیوار اور خاک مدینہ
ملے دو گز زمیں مجھ کو بھی یا رب
نہیں اس جیسا کوئی بھی خزینہ
مقدر مانگنا ہو، تو یہ مانگیں
مدینے میں ہی مرنا اور جینا
بہا لیں سعد دو قطرے خدا را
ندامت کے تو آنسو ہیں نگینہ
سعد مذکر دہلی
مقیم حال مدینہ منورہ
سعودعثمانی
گر ایک شعر بھی مرا شایانِ نعت ہے
پھر تو یہ ساری عمر ہی قربان نعت ہے
سچ یہ ہےساری زیست ہی دیوان نعت ہے
ہر گوشہء حیات میں امکان نعت ہے
تیری کُلاہِ فخر بھی پاپوش ہی تو ہے
جوتے اتار ! دیکھ یہ ایوانِ نعت ہے
رسمی مبالغوں کو پرے رکھ کے بات کر
ثابت تو کر کہ ہاں مجھے عرفانِ نعت ہے
قصے کہانیوں کو کہیں دور جا کے پھینک
سیرت کو نظم کر کہ یہی جانِ نعت ہے
آداب ہیں سکوت کے بھی’ گفتگو کے بھی
دونوں طرح بتا کہ سخن دان نعت ہے
گنتی کے چند لوگ ہیں’ گنتی کے خوش نصیب
حاصل جنہیں طلائی قلم دانِ نعت ہے
مدح نبی تو خود بھی بڑا فخر ہے مگر
مصرعہ قبول ہو تو یہ احسانِ نعت ہے
سب جانثاروں مدح گزاروں کے درمیاں
جگمگ ہے ایک شخص جو حسّانِ نعت ہے
توفیق نعت دی ہے جو تو نے سعود کو
یارب وہ اجر بھی کہ جو شایان ِ نعت ہے
سعد عالم مذکر
کیا ذکر کروں عظمت سرکار دوعالم
عالی ہیں بہت حضرت سرکار دوعالم
سر تابہ قدم غرق ندامت ہوں ہمیشہ
محبوس ہوں در الفت سرکار دوعالم
نظریں ہیں جھکی، جسم پہ رعشہ سا ہے طاری
یہ تو ہے فقط ہیبت سرکار دوعالم
عاصی ہوں، سیہ کار ہوں، آداب سے عاری
بس ایک نگہ رحمت سرکار دوعالم
اے ارض مقدس تری تقدیس کے صدقے
اے کاش ملے قربت سرکارِ دوعالم
یاقوت و جواہر ہوں کہ مہتاب یا انجم
ہر شی سے حسیں صورت سرکار دوعالم
رومی ہوں، نہ قدسی ہوں نہ جامی ہوں نہ سعدی
مجھ میں نہیں کچھ سیرت سرکار دوعالم
خالی ہیں معانی سے یہ جملے مرے لیکن
تحفہ ہے یہی حضرت سرکار دوعالم
اے سعد مدینہ میں نکل جائے مرا دم
مدفن ہو سر تربت سرکار دوعالم
اعظم سیتاپوری
میں نے سرکار کے قدموں میں ہی جا مانگی ہے
جان نکلے مری طیبہ میں دعا مانگی ہے
ان کی سیرت سے معطر ہی رہے گھر میرا
لائے خوش بو جو مدینے سے صبا مانگی ہے
حشر میں آپ کا دامن ہو مجھے بھی حاصل
جو گناہوں کو چھپا لے وہ ردا مانگی ہے
کامیابی وہ صحابہ کو ملی ہے جس سے
آج میں نے اسی اسوے سے وفا مانگی ہے
سر بلندی مرے آقا کے طریقوں کو ہو
میں نے رازق سے یہ محنت ہی سدا مانگی ہے
حکم سے خالی کریں پھر سے مویشی جنگل
وہ غلامانِ نبی کی ہی ندا مانگی ہے
لذتِ قرب ہے مانگی ، نہ کہ منصب کوئی
قلبِ مضطر کے لیے میں نے دوا مانگی ہے
آپ کی بات بلندی میں ثُرَیّا جیسی
کیسے سمجھوں؟ تو میں نے عقلِ رسا مانگی ہے
نور آقا کی سنن کا یہاں پھیلے اعظم
بچ سکوں میں بھی خطا سے وہ فضا مانگی ہے
*استاد جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد
اعظم سیتا پوری
نبی کو بلانا فلک سے بھی اوپر محبت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
کبھی والضحی اور والليل کہنا یہ الفت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
کروں حق ادا کیسے نعتِ نبی کا، ہے عاجز قلم اور زباں بھی ہے قاصر
مگر حصہ جو بھی مجھے مل گیا ہے، عنایت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
نبی نے ہمیشہ اس امت کی خاطر ستم سہ لیے اور آنسو بہائے
مصیبت کے ماروں کی فریاد سننا، یہ رحمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
ستاتے تھے مشرک وہ سجدہ جو کرتے، مظالم کیے اہلِ طائف نے ان پر
مگر بد دعا سے گریزاں ہی رہنا شرافت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
وہ آسودہ ہو کر کبھی کھا سکے نہ، کبھی اہلِ حاجت کو واپس نہ بھیجا
رہے ہاتھ خالی، وہ پھر بھی نوازش، مروت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
نہ دعوی کریں ہم، عمل خود ہی بولے، دلائل کی بالکل ضرورت نہیں ہے
یہ سنت پہ ان کی سدا چلتے رہنا، محبت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
جزا ان کو امت کی جانب سے یا رب، تو دیتا رہے جو بھی شایاں ہو تیرے
عقیدت سے اعظم درود ان پہ پڑھنا، سعادت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
عارف امام
کہیں خلا میں ہے کاغذ، قلم زمیں پہ نہیں
میں نعت لکھتے ہوئے کم سے کم زمیں پہ نہیں
خرامِ ناز ! کہ رستے پہ بچھ گئے ہیں فقیر
ہمارے سینے پہ رکھیے قدم زمیں پہ نہیں
خوشی کے مارے زمیں پر قدم نہیں پڑتے*
یقیں ہوا کہ دیارِ حرم زمیں پہ نہیں
یہ لوگ عشقِ محمدؐ کے آسمان پہ ہیں
عرب زمیں پہ نہیں ہیں، عجم زمیں پہ نہیں
سرشکِ عشق، تجھے آسماں سمیٹتا ہے
زمیں پہ میں ہوں، مری چشمِ نم زمیں پہ نہیں
کسی میں تاب کہ تصویرِ نور کھینچ سکے؟
یہاں تو سایۂِ شاہِ اممؐ زمیں پہ نہیں
درِ رسولؐ پہ ہیں، اے قضائے عُجلت خیز
یہیں سے ہم کو اٹھا لے کہ ہم زمیں پہ نہیں
بُتانِ کعبہ! تمہیں اب زمیں پہ گرنا ہے
یہ بُت شکن ہے اور اس کے قدم زمیں پہ نہیں
سُخن کی بھیک ہے، افلاک سے اترتی ہے
کہ اس شمار میں دام و درم زمیں پہ نہیں
سلیم شوق پورنوی
مکہ ہے انوار ِ خدا اور طیبہ ہے مینارِ رسول
ایک جگہ اللہ کا گھر ہے ایک جگہ دربارِ رسول
جنت جس پر رشک کناں ہے، لندن ہےنہ پیرس ہے
وہ ہے ارضِ شہرِ مدینہ جس پر ہے گھربارِ رسول
ان کا سراپا نور ِ مجسم ، قرآں کی تفسیر لگے
مازاغ بصر ہے چشمِ نبی والشمس ضحیٰ رخسارِ رسول
ذکرِ نبی سے صبح کروں میں فکرِ نبی میں اپنی شام
میرے مرض کی یہ ہی دوا ہے میں تو ہوں بیمارِ رسول
ہند کا اک دیوانہ شاعر سب سے کہتا پھرتا ہے
فضلِ خدا ہو مجھ پہ اگر تو ہوجائے دیدارِ رسول
فرشِ زمیں سے عرش علاٰ پر اک لمحے میں پہنچے وہ
کیسی بلند ہے شانِ پیمبر کیسا ہے معیارِ رسول
آپ کے جانی دشمن بھی یہ بات ہمیشہ کہتے تھے
ارفع و اعلی ذات ِ محمد اونچا ہے کردار رسول
سارے صحابہ سچے ہیں ، سب صدق و وفا کے پیکر ہیں
سارے صحابہ موتی ہیں اور سارے ہیں شہکارِ رسول
بوبکر ہیں یار ِ غار ِ پیمبر اور عمر محبوبِ نبی
عثماں کی ہے شان نرالی حیدر ہیں کرارِ رسول
اس کی دنیا قعرِ مذلت جس سے نبی ناراض ہوا
اس کی دنیا روشن روشن، جس پہ ہوا ضوبارِ رسول
دل ہی دل میں شوق خدا سے ایک دعا میں کرتا ہوں
میرے بھی اسباب بندھے اور میں بھی بنوں رہوارِ رسول
سلیم شوق پورنوی
ہے بعدِ خدا سب سے تری ذات مکرم
تو سیدِ ابرار ہے تو مرسَلِ اعظم
والشمس ترا چہرہ ہے "شفتین” ترے لب
واللیل ترے گیسو ہیں اے نورِ مجسم
تو مرکزِ ایمان ، تو قرآن کی تفسیر
عرفانِ شریعت ہے تو اے رحمتِ عالم
فیضان ترا عام ہے ہر خلقِ خدا پر
تو باعثِ تخلیقِ جہاں، محسنِ اعظم
احمد ہے تری ذات ، صفت یٰسین و طٰہ
اور امی لقب تیرا ہے اے ہادیِ اکرم
ہے شہر ترا شہرِ امیں شہرِ مقدس
بستی ہے تری رشکِ فلک مرکزِ عالم
سرہند ہو ، اجمیر ہو، کربل ہو کہ بغداد
ان سب سے ترا روضہ ہے عظمت میں مقدم
ازواج تری یانبی! امت کی ہیں مائیں
اصحاب ترےبعد رسل سب سےمعظم
مکہ کی زمیں مطلع ِ انوار ِ خدا ہے
طیبہ کی زمیں ہے مرےجذبات کی سرگم
میں کیسے لکھوں نعت نبی اپنے قلم سے
جذبات پرا گندہ ہیں الفاظ بھی بیدم
اے شوق مجھے شوق ہے جانے کا مدینہ
اےکاش کہ جانے کےہوں اسباب فراہم