( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
ایک ہیں مہنت پرم ہنس آچاریہ! یہ خود کو ’ جگت گرو‘ کہتے اور کہلواتے ہیں ، لیکن ان کی زبان جب کھلتی ہے تو اس سے باتیں گلی کے لُچّوں کی طرح نکلتی ہیں ۔ حال ہی میں ان کی بے لگام زبان نے دو دفعہ ایسی شرانگیزی کی ہے ، جو اگر کوئی اور کرتا تو اب تک اس پر مقدمہ بن گیا ہوتا اور وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتا ۔ اور اگر وہ یوپی اور ایم پی کا ہوتا تو اس کے گھر پر بلڈوزر بھی چل چکا ہوتا۔ مہنت ہیں تو یوپی کے ہی ، خاص ایودھیا کے، مگر ان پر یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی خاص کرپا ہے ، اسی لئے ان کی ہر شرانگیزی کو پنیہ یا دھرم کا کام سجھا جارہا ہے ۔ مہنت پرم ہنس نے پہلے تو ہر اس تھیٹر کو جس میں شاہ رخ خان کی فلم ’ پٹھان‘ ریلیز کی جائے پھونک دینے کی اپیل کی ۔ اس کے دوتین روز بعد انہوںنے باقاعدہ یہ اعلان کردیا کہ اگر کہیں ان کے ہاتھ شاہ رخ خان آجائے تو وہ اسے زندہ جلادیں گے ۔ مہنت جو ہیں شاہ رخ خان سے اس قدرخفا ہیں کہ قانون اپنے ہاتھ میں لینے کو یا با الفاظ دیگر قانون کی دھجیاں اڑانے کو تیار ہیں ۔ اور اپنے چیلوں کو بھی تیار کررہے ہیں ۔ کیا ایسی زبان کسی بھی شخص کے لئے بولنا جائز ہے ؟ کیا چخ چیخ کر شاہ رخ خان کو زندہ جلانے کی دھمکی دینا ملک کے آئین اور قانون سے کھلواڑ نہیں ہے ؟ کیا شاہ رخ خان کو ’ فلم جہادی‘ قرار دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے خلاف لوگوں کو اکسایا جائے ، تشددپر آمادہ کیا جائے اور انہیں اور ان کے اہل خانہ کو ذہنی اور جسمانی نقصان پہنچایا جائے ؟ اگر یہ باتیں ملک کے آئین اور قانون کے خلاف ہیں تو اب تک مہنت آزاد کیوں گھوم رہے ہیں؟ کیوں ان کے خلاف کوئی سرکاری ایجنسی حرکت میں نہیں آئی ہے ؟ کیوں سپریم کورٹ نے ’سوموٹو‘ کارروائی نہیں کی ہے ؟ اس ملک کی عدلیہ کی آنکھیں کیا بند ہیں کہ وہ خاموشی سے دیکھ رہی ہے کہ ایک خاص اداکار کے خلاف ، صرف اس لیے کہ وہ مسلمان ہے ، لوگوں کو تشدد پر آمادہ کیا جارہا ہے اور اس اداکار کو ’فلم جہادی‘ قرار دیا جارہا ہے ؟اور یہ ’ فلم جہادی‘ کیا بلا ہے ؟ فلم ’پٹھان‘ کے فلمساز آدتیہ چوپڑا ہندو ہیں ، ہدایت کار سدھارتھ آنند ہندو ہیں ، موسیقار جوڑی وشال شیکھر ہندو ہے ، ڈانس ڈائریکٹر ویبھوی ہندو ہیں، نغمہ نگار وشال ہندو ہیں ، دیپیکا پڈوکون ہندو ہیں ، بس ایک شاہ رخ خان مسلمان ہیں ، وہ بھی ایک اداکار کے طور پر ۔۔۔ نہ ہی یہ فلم شاہ رخ خان نے بنائی ہے ، نہ گانے لکھے ہیں ، نہ موسیقی دی ہے اور نہ ہی وہ فیشن ڈیزائنر اور ڈانس ڈائریکٹر ہیں تو پھر اس فلم کے بنانے کی اور اس میں شامل ’ مواد‘ دکھانے کی ذمےداری ان پر کیسے ڈالی جاسکتی ہے؟ بات ایک دم صاف ہے ، مہنت کو، بی جے پی کو، سنگھ پریوار کو نہ ہی دیپیکا پڈوکون کی ’بھگوا بکنی‘ سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ ہی فلم کے فیشن ڈیزائنر اور ڈانس ڈائریکٹر اور فلمساز وہدایت کار سے ، ان سب کو تو بس شاہ رخ خان کو نشانہ بنانا ہے کہ وہ مسلمان ہے ۔ شاہ رخ خان کا تو اس سے کچھ نقصان نہیں ہوگا ، انہیں ساری دنیا میں جو شہرت ملی ہے ، عزت اور احترام حاصل ہوا ہے ، وہ نہ یوگی کے نصیب میں ہے نہ ہی نروتم مشرا کے نصیب میں ۔۔۔ لیکن ’ پٹھان‘ اور شاہ رخ خان کو نشانہ بناکر فلمی دنیا اور اس فلم سے وابستہ پورے عملے کا نقصان تو ہوگا ہی بھارت عالمی سطح پر اپنے قد اور وقار کو مزید کم کرلے گا ۔ حکومت جاگے ، پولس جاگے ، عدلیہ جاگے اور یہ جو ہنگامہ کرنے پر اتارو ہیں انہیں سلاخوں کے پیچھے کرنے کی بس ایک دھمکی دے دے، معاملہ ٹھنڈا پڑجائے گا۔ وہ بھی بھیگی بلی بن جائیں گے جو شاہ رخ خان کو زندہ جلانے کی دھمکی دہے رہے ہیں ۔ حکومت کو اب کارروائی کرنا ہی چاہئے ۔