نئی دہلی: قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام عالمی کتاب میلے میں ‘آؤ کہ کوئی خواب بنیں’ کے تحت محفل افسانہ خوانی کا انعقاد ہوا جس میں نئی نسل کے فکشن نگاروں ڈاکٹر نورین علی حق، ڈاکٹر محمد عرفان اور ڈاکٹر سفینہ بیگم نے شرکت کی اور افسانہ نگاری کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پروگرام کی صدارت معروف فکشن نقاد پروفیسر ابوبکر عباد، صدر شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی نے کی۔ انھوں نے صدارتی خطاب میں کہا کہ نئے افسانہ نگاروں سے بہت سی توقعات ہیں ۔ اچھی بات یہ ہے کہ نئی نسل کے افسانہ نگار نئے موضوعات اور عصری تقاضوں کے تحت افسانے لکھ رہے ہیں اور ان کے یہاں امکانا ت کی ایک دنیا آباد ہے۔ این سی پی یو ایل کا یہ قدم لائق تحسین ہے کہ عالمی کتاب میلے میں نئے تخلیق کاروں کو پلیٹ فارم مہیا کیا ہے جہاں وہ اپنے جذبات و احساسات اور تجربات و مشاہدات کو عام قاری سے شیئر کررہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ نئی نسل کے تخلیق کاروں کے تعلق سے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں تحفظات اور تعصبات بھی ہیں مگر قومی اردو کونسل نے انھیں موقع فراہم کرکے نئی نسل کے تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس پروگرام کی نظامت کے فرائض فیضان الحق نے انجام دیے۔
قومی خبریں
جامعہ اسپورٹ کمپلیکس کو ہم جدید معیار کے مطابق بنائیں گے: شیخ الجامعہ پروفیسر مظہرآصف
بین الجامعاتی ٹورنامنٹ کی اختتامی تقریب میں دہلی ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسو سی ایشن کے صدر مسٹرروہن جیٹلی اور رجسٹرار مہتاب عالم رضوی کی شرکت
نئی دہلی:بین الجامعاتی ٹورنامنٹ-25 2024 کی اختتامی اور انعامات تقسیم کرنے کی تقریب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 4 فروری 2025 (منگل) کو شام 5:00 بجے نواب منصور علی خان پٹودی اسپورٹس کمپلیکس، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقد ہوئی۔ یہ ٹورنامنٹ 23 جنوری 2025 سے 4 فروری 2025 تک نواب منصور علی خان پٹودی اسپورٹس کمپلیکس، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقد ہوا۔تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ ا س میں ٹیبل ٹینس (مرد و خواتین)، بیڈمنٹن (مرد و خواتین)، کرکٹ T-20 (مرد)، فٹ بال (مرد)، والی بال (مرد)، باسکٹ بال (مرد و خواتین) اور اتھلیٹکس (مرد و خواتین) کھیلوں کا انعقاد ہوا۔ اس ٹورنامنٹ کو پروفیسر نفیس احمد، اعزازی ڈائریکٹر (کھیل و اسپورٹس)، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی قیادت میں منعقد کیا گیا۔پروگرام کی صدارت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے معزز وائس چانسلر پروفیسر مظہر آصف نے کی، جبکہ چیف گیسٹ کی حیثیت سے مسٹر روہن جیٹلی، صدر، دہلی ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن نے شرکت کی۔ مہمانِ خصوصی کے طور پر شری اونکار ناتھ یادو (IRRS)، ڈائریکٹر، اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا موجود تھے۔شیخ الجامعہ پروفیسر مظہر آصف نے اس موقع پر کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں ہم نے کھیل کود کو خاص جگہ دی ہے ۔ انہو ں نے این سی سی جامعہ کو ایک سبجیکٹ کے طور پر شروع کر نے کی بات بھی کہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جامعہ اسپورٹ کمپلیکس کو ہم جدید معیار کے مطابق بنائیں گے۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اس ٹورنامنٹ کا مقصد طلبہ میں چھپی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا، ان میں ٹیم ورک اور اسپورٹس مین اسپرٹ کا شعور پیدا کرنا، باہمی تعاون کو فروغ دینا، تعلقات استوار کرنا اور طلبہ، تدریسی و غیر تدریسی عملے کے درمیان بہتر روابط قائم کرنا ہے۔ ایسے مقابلے طلبہ کے لئےحوصلہ افزا، ان کے ذہنی دباؤ کو کم کر نے کا باعث اور ان کی جسمانی و ذہنی صحت کو بہتر بنانے میں معاون ہو سکتے ہیں۔ اس پروگرام میں اشوک شرما، سیکریٹری، دہلی ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن؛ شری مختیار، DC/Dy. C.S.O.، سیکریٹریٹ سیکیورٹی آرگنائزیشن، وزارت داخلہ، حکومتِ ہند؛ اور پروفیسر محمد مہتاب عالم رضوی، رجسٹرار، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے بھی شرکت کی۔
تقریب میں پروفیسر مظہر آصف، مسٹر روہن جیٹلی، شری اونکار ناتھ یادو، شری اشوک شرما، شری مختیار اور پروفیسر محمد مہتاب عالم رضوی نے تمام شرکاء کو مبارکباد دی اور انہیں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ کھیلوں میں بھی حصہ لینے کی ترغیب دی۔ پروفیسر نفیس احمد نے ٹورنامنٹ کے انعقاد پر مختصر تعارفی نوٹ پیش کیا۔انہوں نے اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں سرگرم حصہ داری نبھائی۔اس مسابقہ میں 13 ٹیموں نے شرکت کی، جن میں AJK-MCRC اور یونیورسٹی پولی ٹیکنک. بایو سائنس، ہیومنیٹیز اینڈ لینگوجیز ، لاء فیکلٹی، انجینیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی فیکلٹی آف ڈینٹیسریزسمیت مختلف ٹیمیں شامل تھیں۔پروفیسر محمد عابد، اعزازی ڈپٹی ڈائریکٹر (کھیل و اسپورٹس)، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے تمام معزز مہمانوں، اساتذہ، اور عملے کے ارکان کا شکریہ ادا کیا۔
قومی اردو کونسل کے زیراہتمام عالمی کتاب میلے میں ترجمے کی اہمیت پر مذاکرہ اور مشاعرے کا انعقاد
نئی دہلی: قومی اردو کونسل کے زیراہتمام عالمی کتاب میلے میں آج دو پروگراموں کا انعقاد ہوا۔ پہلا پروگرام قومی اردو کونسل کے اسٹال پر ترجمے کی اہمیت کے عنوان سے ہوا جس میں نئی نسل کے مترجمین ڈاکٹر احسن ایوبی، ڈاکٹر نوشاد منظر اور ڈاکٹر جاوید عالم نے بطور مہمان شرکت کی اور انھوں نے ترجمہ نگاری کے تعلق سے اپنے تجربات شیئر کیے۔ انھوں نے ترجمے کے حوالے سے نئے رجحانات پر بھی گفتگو کی۔ اس پروگرام کی صدارت پروفیسر سرورالہدیٰ شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کی۔ انھوں نے اپنے صدارتی خطاب میں نئی نسل کے ترجمہ نگاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صدی کثیر لسانی ثقافت سے شناخت کی جاتی ہے، ایسے میں نئی نسل کے لیے مختلف زبانوں اور علوم سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ نئی نسل کا مختلف زبانوں کی طرف بڑھتا ہوا رجحان خوش آئند ہے۔اس پروگرام کی نظامت ڈاکٹر عبدالباری نے کی۔
بعدازاں کونسل کے زیراہتمام ’لیکھک منچ ‘میں ایک شاندار مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ مشاعرے کی صدارت بزرگ شاعر چندربھان خیال نے کی۔ صدارتی تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آج کل مشاعرے تو بہت ہورہے ہیں لیکن اس کا معیار و وقار دن بدن گرتا جارہا ہے۔ اردو کے فروغ کے لیے جس طرح کی کوششیں ہونی چاہئیں وہ آج کل کے مشاعرے میں ناپید ہیں۔ سنجیدہ مشاعرے کے انعقاد کے حوالے سے قومی اردو کونسل کی کاوشیں قابل قدر ہیں۔ انھوں نے اپنے اشعار سے بھی سامعین کو محظوظ کیا۔ ان کے علاوہ اس مشاعرے میں اقبال اشہر، نصرت مہدی، پاپولر میرٹھی، اورآلوک یادو نے خوبصورت اشعار پیش کیے۔ نظامت معین شاداب نے کی اور شکریے کی رسم ڈاکٹر عبدالباری نے انجام دی۔
مشاعرے کے منتخب اشعار پیش ہیں:
دل میں جب جستجو کے شرارے چلے
میری انگلی پکڑ کرستارے چلے
(چندربھان خیال)
کھلی آنکھوں ہی رخصت ہوگئی وہ
مجھے آنے میں دیری ہوگئی تھی
(اقبال اشہر)
میں کہاں اپنی کسی فکر کے اظہار میں تھی
میں تو ہر دور میں سونپے ہوئے کردار میں تھی
(نصرت مہدی)
جذبۂ انسانیت سے اپنا رشتہ توڑ کر
ڈاکوؤکیا مل گیا شاعر کا جبڑا توڑ کر
(پاپولر میرٹھی)
نئی نسلوں کے ہاتھوں میں بھی تابندہ رہے گا
میں مل بھی جاؤں گا مٹی میں قلم زندہ رہے گا
(آلوک یادو)
افلاک تو کیا ملتے زمیں کا نہ رہوں گا
میں تیرے بھروسے پہ کہیں کا نہ رہوں گا
(معین شاداب)
ڈاکٹر تابش مہدی کلاسیکی اندازکے شاعر اور پہلو دار شخصیت رکھتے تھے۔پروفیسر شہپررسول
بزم تابش کے زیر اہتمام ڈاکٹر تابش مہدی کے انتقال پر آن لائن تعزیتی جلسہ
لکھنؤ:ڈاکٹر تابش مہدی ڈاکٹر تابش مہدی کلاسیکی اندازکے شاعر تھے اور ان کے ترنم میں بڑا رچاؤ تھا۔ وہ مہذب انداز میں اپنی بات رکھنے کی جرآت رکھتے تھے۔ان خیالات کا اظہار دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چیرمین پروفیسر شہپر رسول نے بزم تابش کے زیر اہتمام ڈاکٹر تابش مہدی کے سلسلے میں منعقد آن لائن تعزیتی نشست میں کیا۔تعزیتی نشست کے آغاز ڈاکٹر محمد خالد خاں نے قرآن پاک کی تلاوت کی اورجناب سحر محمود نے ڈاکٹر تابش مہدی کی ایک نعت ترنم سے پیش کی۔نظامت کا فریضہ ڈاکٹر عمیر منظر نے انجام دیا۔جناب مظفر نایاب(قطر)نے قطعہ تاریخ وفات پیش کیا۔دانش نور پوری اور نور العین قیصر نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔
صدارتی کلمات میں پروفیسر شہپررسول نے کہا کہ وہ ایک بہترین فن کار اور شخص تھے۔انھوں نے اپنے آداب کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ان کی سچی اور اچھی شخصیت دیر تک ان کی یاد دلاتی رہے گی وہ بلند اوصاف کے حامل تھے۔
پروفیسر سراج اجملی نے کہا کہ ان کی ذات علم و عمل کے امتزاج کا اعلی نمونہ تھی۔ان کے خلوص اور محبت کے بیان کے لیے ایک دفتر چاہیے۔مولانا محمد طاہر مدنی نے اپنی طویل رفاقت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ جامع الکمال تھے۔ایک درد مند دل رکھتے تھے۔محبت رسول میں انھیں درجہ کمال حاصل تھا۔پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ شاعری کے فن پرانھیں دسترس حاصل تھی۔ان کی شخصیت میں تصنع بالکل نہیں تھا۔پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ اپنی طرح کے وہ بے مثل انسان تھے۔حوصلہ افزائی ان کا شعار تھا۔مولانا بدرالاسلام قاسمی (دیوبند)نے کہا کہ وہ تابش مہدی ہر طبقے میں مقبول تھے۔روابط سب سے تھے۔بے حد مخلص اور علم دوست ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے موقف پر جمے رہنے کی ہمت اور استقامت میں بھی دور دور تک ان کا ثانی نہیں ملے گا۔ڈاکٹر محمد ارشد (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ)نے کہا کہ تابش مہدی کے انتقال سے خرد نوازی اور حوصلہ افزائی کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا ان کی زندگی عزم وحوصلے اور غیر ت و خود داری کا نمونہ تھی۔ڈکٹر محمد اکرم السلام (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہئ عربی دہلی یونی ورسٹی)نے کہا کہ ان میں ادب آموزی کا انتہائی انداز تھا۔ان کی نعتوں میں خلفائے راشدین اور مدح صحابہ کا پہلو بہت نمایاں رہتا تھا۔ڈاکٹر محمد خالد خاں (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ)اپنے دیرینہ روابط کا ذکر کیا اور کہا کہ ان کا اصلاحی اور تربیتی پہلو مثالی تھا۔ممتاز صحافی ڈاکٹر منور حسن کمال نے کہا کہ ان میں غیر معمولی سلیقہ مندی تھی نیز ان کا انداز مشفقانہ تھا شعبہ اردوکلکتہ یونی ورسٹی کے سابق صدر ڈاکٹر امتیاز وحید نے کہا کہ ڈاکٹر تابش مہدی اپنے عہد کے نمایاں اسلوب کی حیثیت رکھتے تھے۔ان کے عہد کی تفہیم میں ان کا ذکر خیر ناگزیر ہے۔اس موقع پر انھو ں نے یہ بھی کہا کہ تابش مہدی نے تدریس اور فن تجوید کو سکہ بند اور ذمہ داریوں سے اوپر اٹھ کر ایک مشن کے طورپر متعارف کرایا۔ڈ اکٹر طارق احسن(ممبئی)نے انھیں ایک عظیم شخصیت قرار دیا اور کہا کہ انھوں نے بلا کا حافظہ پایا تھا۔ڈ اکٹر عمیر منظر نے کہا کہ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ان کے نثری کارنامے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔جناب عبدالمنان مظہر نے کہا کہ ڈاکٹر تابش مہدی نے اپنے وقت کا انقلابی استعمال کیا۔ان کے اندر قرآن کی خدمت کا بے پناہ جذبہ موجود تھا۔دانش ریاض (ممبئی)نے کہا کہ ان جیسا مخلص اور مربی میں نے نہیں دیکھا۔سب کا خیال رکھتے تھے۔
رمیصا رحمن (دہلی)نے کہا کہ ان کی حیثیت میرے مربی کی تھی اور نہایت بلند خیال کے مالک تھے۔جناب سحر محمود(نیپال)نے کہا کہ ڈاکٹر تابش مہدی شعرو ادب پر غیر معمولی قدرت رکھتے تھے۔ان کے شاگردوں کا ایک بڑا حلقہ تھا۔ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمیں ان سے سیکھنے اور اپنے اشعار کی اصلاح کا موقع ملا۔تعزیتی جلسہ کا اختتام پروفیسر سراج اجملی کی دعا پر ہوا۔
قومی اردو کونسل کے کیلی گرافی اینڈ گرافک ڈیزائننگ سینٹرز کے ذمے داران کی میٹنگ
نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے صدر دفتر میں آج کیلی گرافی اینڈ گرافک ڈیزائننگ سینٹرز کے ذمے داران کی میٹنگ ہوئی جس میں دہلی اور بیرونِ دہلی کے سینٹر انچارج شامل ہوئے۔ واضح رہے کہ دہلی کے باہر کے سینٹروں کے ذمے داران آن لائن اس میٹنگ کا حصہ بنے۔ اس موقعے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ کیلی گرافی ہماری تہذیب کا حصہ ہے، اس کی حفاظت ہماری ذمے داری ہے اور اس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس میٹنگ کا مقصد تمام سینٹر کے ذمے داران کے ساتھ انٹریکشن اور تعارف ہے۔ سینٹرز کے ذمے داران کے مشورے کی روشنی میں ہم اس کورس کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر شمع کوثریزدانی (اسسٹنٹ ڈائرکٹر اکیڈمک) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کیلی گرافی اینڈ گرافک ڈیزائننگ سینٹرز میں اچھے تربیت یافتہ، تجربہ کار اساتذہ کے انتخاب پر زور دیا۔ اس موقعے پر میٹنگ میں شامل سینٹرز کے ذمے داران کو کچھ ہدایات بھی دی گئیں۔ ریسرچ آفیسر انتخاب احمد کے شکریے پر میٹنگ کا اختتام عمل میں آیا۔ میٹنگ میں محمد قاسم اور محمد افروز وغیرہ بھی شریک ہوئے۔
ہندوستانی عناصر کی نمائندگی، سائنسی تغیرات اور ترجمہ اردو زبان کا منشور ہونا چاہیے: ڈاکٹر شمس اقبال
‘وکست بھارت کا وژن اردو زبان کا مشن’ کے بنیادی تھیم کے تحت قومی اردو کونسل کی عالمی اردو کانفرنس21تا23فروری2025
نئی دہلی:آج قومی اردو کونسل کے صدر دفتر میں ساتویں عالمی اردو کانفرنس کے سلسلے میں ایک مشاورتی میٹنگ کا انعقاد عمل میں آیا۔اس موقعے پر کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے میٹنگ کے شرکا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ فروغ اردو کے منصوبے میں اردوکے ادبی پہلوؤں کے ساتھ عصری تقاضوں اور تغیرات کو ذہن میں رکھتے ہوئے نئے موضوعات کو بھی شامل کیا جانا ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستانی عناصر کی نمائندگی، سائنسی تغیرات اور ہندوستانی و عالمی زبانوں سے ترجمہ اکیسویں صدی میں اردو کا منشور ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ وکست بھارت مہم میں اردو زبان کا بھی اہم رول ہوگا، اسی وجہ سے کونسل کی ساتویں عالمی اردو کانفرنس کا مجوزہ موضوع ‘وکست بھارت کا وژن اردو زبان کا مشن’ ہے۔ اس موضوع میں نہ صرف اردو کے ادبی پہلووں کو پیش نظر رکھا گیا ہے،بلکہ موجودہ ہندوستان کی ضروریات اور ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر میں اردو کے کردار کو خاص طورپر پیش نظر رکھا گیا ہے۔انھوں نے کہا کہ اس کانفرنس میں غیر روایتی طورپر مقالہ نگاری کے ساتھ انٹرایکٹیو سیشنز بھی رکھے جائیں گے اور یہ کانفرنس نہ صرف اردو زبان کے فروغ بلکہ حکومتِ ہند کے وکست بھارت کے خواب کی تعبیر کے حوالے سے ایک بامقصد روڈ میپ پیش کرے گی۔
اس موقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر پروفیسر مظہر آصف نے مجوزہ موضوع سے اتفاق کرتے ہوئے کانفرنس کی مقصدیت پر زور دیا اور کہا کہ ہماری نگاہ اس کے نتائج پر ہونی چاہیے اور اس کانفرنس میں اساتذہ وسینئرز کے ساتھ نئی نسل کے اسکالرز کو بھی ضرور مدعو کیا جانا چاہیے تاکہ موضوع کے تعلق سے نئے آئیڈیاز سامنے آسکیں۔
کونسل کے سابق ڈائرکٹر اور آئی سی ایس ایس آر کے سکریٹری پروفیسر دھننجے سنگھ نے بھی موضوع کی انفرادیت کو سراہا اور کہا کہ ہم اگر زبان کی ترقی کے لیے کام کریں گے تو اس سے یقیناً ادب کا بھی فروغ ہوگا۔انھوں نے کہا کہ وکست بھارت کا بنیادی ہدف اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنا ہے اور اس سلسلے میں اردو زبان بھی اپنا رول ادا کرسکتی ہے۔انھوں نے اس کانفرنس میں اردو کے ساتھ دیگر زبانوں کے اسکالرز کی شمولیت پر بھی زور دیا۔پروفیسر اعجاز علی ارشد نے بھی عصری ترقیات و تغیرات سے اردو کی ہم آہنگی پر زور دیا اور اس حوالے سے عربی فارسی کے ساتھ ہندوستان کی علاقائی زبانوں سے استفادہ اور نئی نسل کو اس کے لیے تیار کرنے پر زور دیا۔ پروفیسر حسنین اختر(صدر شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی) نے کہا کہ آج کے بدلتے حالات میں کسی بھی زبان کی ترقی کے لیے سائنٹفک اپروچ اختیار کرنا ضروری ہے اور ہمیں توقع ہے کہ ‘وکست بھارت کا وژن اردو زبان کا مشن’ ایک ایسا موضوع ہے جس میں تمام ممکنہ پہلو زیر بحث آسکتے ہیں۔پروفیسر احمد محفوظ (صدر شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ)نے کہا کہ یہ عنوان بہت مناسب ہے اور خوش آہنگ بھی ہے، انھوں نے کہا کہ آج کے دور میں اردو کو بحیثیت زبان فروغ دینے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے نئے وسائل اختیار کرنے کے ساتھ ہندوستان کی علاقائی ثقافتوں کو بھی جوڑنے کی ضرورت ہے۔توقع ہے کہ اس کانفرنس میں اس حوالے سے نہایت کارگر نکات سامنے آئیں گے۔ پروفیسر مشتاق قادری(شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی) نے کسی بھی زبان کی کماحقہ ترقی کے لیے اسے محض درس و تدریس کے دائرے سے نکال کر عملی دنیا میں برتنا ضروری ہے،قومی ترقی میں بھی وہ زبان تبھی اپنا رول ادا کرسکتی ہے اور ‘وکست بھارت کا وژن اردو زبان کا مشن’ ایک ایسا موضوع ہے جس میں اس حوالے سے اہم اور قابل عمل امور سامنے آسکتے ہیں۔
ان کے علاوہ ڈاکٹر سید مشیر عالم (اڈیشہ) اورڈاکٹر عبداللہ امتیاز(صدر شعبۂ اردو ممبئی یونیورسٹی) نے بھی مجوزہ موضوع سے اتفاق کرتے ہوئے اس کی افادیت پر روشنی ڈالی۔اس موقعے ڈاکٹر کلیم اللہ(ریسرچ آفیسر)،جاوید عالم(ٹیکنیکل اسسٹنٹ)،محمد افروز وغیرہ بھی موجود رہے۔
پھلواری شریف:پروفیسر ڈاکٹر مولانا آفتاب عالم قاسمی کی وقیع اور معتبر تصنیف ’’تجارت قرآن و حدیث کی روشنی میں‘‘ کا اجراء امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم مولانامفتی محمد سہراب ندوی قاسمی ،ہفت روزہ نقیب کے مدیر اعلیٰ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ ،مولانا مفتی احتکام الحق قاسمی نائب مفتی دارالافتاء امارت شرعیہ،مولانا مفتی وصی احمد قاسمی نائب قاضی شریعت امارت شرعیہ،مولانا احمد حسین قاسمی مدنی معاون ناظم امارت شرعیہ،مولانا عبداللہ جاوید ثاقبی امارت شرعیہ،مولانا ارشد رحمانی امارت شرعیہ،جناب عرفان الحق و جناب امتیاز صاحب بیت المال کے ہاتھوں عمل میں آیا، تقریب اجراء میںمولانا شاہ نواز عالم مظاہری ،مولانا مجاہدالاسلام مظاہری،مولانا صابر حسین قاسمی اور امارت شرعیہ کے دیگر کارکنان نیز حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کی ریسرچ ٹیم کے مولانا حفظ الرحمن ،مولانا اکرام الدین اور مولانا قیام الدین اور فکر و نظر چینل کی پوری ٹیم موجود تھی،اس موقع سے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے کتاب کے مصنف کا تعارف کرایااور بتایا کہ مولانا نے دارالعلوم سے فراغت کے بعد بہار یونیورسٹی سے ایم اے ،پی ایچ ڈی کیا،ابھی وہ اکچھیاوٹ کالج مہوا میں صدر شعبۂ فارسی ہیں ،اور ان کی شناخت علمی شخصیت کے ساتھ مشہور تاجر کی ہے،وہ یہ چاہتے ہیں کہ علماء تجارت کی طرف راغب ہوں اور دانشور طبقہ میں جو ان کی معا شی پس ماندگی کا ذکر کیا جاتا ہے ،وہ بولے دینی خدمات کے ساتھ معاشی جدو جہدبھی اہم فریضہ ہے ،معاشی پس ماندگی کو دور کرنے کے لئے علماء کو خود ہی آگے آنا ہوگا ،کوئی دوسرا ان کے مسائل حل نہیں کر سکتا ،قائم مقام ناظم مولانا مفتی محمد سہراب ندوی قاسمی صاحب نے مولانا کے خیالات کی پذیرائی کی اور مولانا کو ایک اچھی کتاب کی تصنیف پر بھرپور مبارکباد دی ،مجلس کے تمام شرکاء نے مولانا کی اس محنت کو سراہا اور توقع کی کہ آئندہ بھی مولانا کا قلم اسی طرح رواں دواں رہے گااور ضروری موضوعات پر ان کی تصنیفات کا سلسلہ جاری رہے گا،ان کے پاس علم بھی ہے اور سرمایہ بھی،اس باوقار مجلس کا آغاز اللہ کے نام سے ہوا،اور اختتام دعا پر ہوا۔
ممبئی/دہلی: قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام ’خواب، کتاب اور بچے‘ کے عنوان سے بچوں کے ادب پر سہ روزہ ورکشاپ اور نمائش کتب و فروخت کے دوسرے دن کا آغاز ڈائریکٹر ڈاکٹرشمس اقبال کے استقبالیہ کلمات سے ہوا۔ انھوں نے کہا کہ یہ ورکشاپ اس لیے اہم ہے کہ جب ہم تعلیم یافتہ سماج کی بات کرتے ہیں تو اس کا اہم پہلو بچے اور نوجوان ہیں جن کی تربیت اور تعلیم ہماری ذمہ داری ہے،کیوںکہ بچے سماج کا آئینہ ہوتے ہیں۔ اسی مقصد کے تحت اس ورکشاپ میں اردو کے اہم قلمکاروں کو مدعو کیا گیا ہے۔ قومی اردو کونسل تخلیق کار اور قارئین کے درمیان رشتہ جوڑنے کی مسلسل کوشش کر رہی ہے۔ آج کے پہلے تکنیکی سیشن میں شاہ تاج خان نے ’پرپل ڈے‘، ایم مبین نے ’اے آئی اسکول‘، اقبال برکی نے ’محبت‘، اقبال نیازی نے ’لیزم‘، مشتاق کریمی نے ’ان کہی کہانی‘ کے عنوان سے کہانیاں سنائیں جن پر ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
لنچ کے بعد دوسرے تکنیکی سیشن کا آغاز اسلم پرویز کی کہانی چاول کے دو دانے سے ہوا،اس کے بعد آفتاب حسنین نے ’دادا صاحب پھالکے‘، فرحان حنیف وارثی نے ’ریان کا سورج اور نانی‘، صادقہ نواب سحر نے ’ممبئی کا میوزیم‘ اور شجاع الدین شاہد نے ’ہمت مرداں‘ کے عنوان سے کہانیاں پیش کیں۔ واضح رہے کہ یہ سہ روزہ ورکشاپ 21 جنوری تا 23 جنوری 2025 چلے گا۔ اس ورکشاپ کی خصوصیت یہ رہی کہ بنا کسی مصلحت اور بھید بھاؤ کے کہانیوں پر سب نے کھل کر گفتگو کی اور کہانیوں کو بہتر بنانے کے لیے اپنے اپنے سجھاؤ پیش کیے۔ اس میں مختلف اسکولوں کے طلبہ اور طالبات بھی شریک ہوئے اور انھوں نے بھی کہانیوں پر اپنی رائے کا بے جھجھک اظہار کیا۔
نئی دہلی:’’جس طرح جشنِ جمہوریت کو ہم قومی وراثت کے طور پر مناتے ہیں، اسی طرح مشاعرہ بھی ہمارا قومی، ثقافتی، سماجی اور تہذیبی ورثہ ہے۔ یہ ہماری گنگا جمنی تہذیب کا ایک اہم شناختی نشان ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ مشاعرہ ایک ایسا اہم تہذیبی ادارہ ہے جہاں ہم گفت و شنید اور نشست و برخاست کے آداب سیکھتے ہیں۔ زندگی کے غیر معمولی تجربات، جو مختلف پہلوؤں سے جڑے ہوتے ہیں، ہمارے شعرا ان ہی مشاعروں میں پیش کرتے ہیں‘‘۔اِن خیالات کا اظہار اردو اکادمی، دہلی کے زیر اہتمام جامع مسجد کے سامنے واقع اردو پارک میں منعقدہ مشاعرۂ جشن جمہوریت کے موقع استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے اکادمی کے وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول صاحب نے کیا۔ انھوں نے ملک کے مختلف خطوں سے آئے تمام شعرا اورپنڈال موجود سامعین کا استقبال کیا۔اس موقع پر انھوں نے گنگا جمنی تہذیب کا حوالہ دیتے ہوئے ملک میں منعقد ہونے والے مشاعروں کی نہ صرف اہمیت پر زور دیا بلکہ ان مشاعروں میں انسانی زندگی کے غیر معمولی اور گوناگوں تجربات پر بھی روشنی ڈالی۔
ناظم مشاعرہ معروف رائے بریلوی نے بھی مشاعرہ کی قومی و تہذیبی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ’’مشاعرہ ہماری تہذیب کا ایسا جشن ہے جس کے لیے ہمیں اپنی ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہیے‘‘۔
مشاعرہ کی صدارت معروف شاعر اظہر عنایتی نے کی اور نظامت کی ذمہ داری نوجوان شاعر معروف رائے بریلوی نے انجام دی۔ وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول، سکریٹری اکادمی محمد احسن عابد، صدر مشاعرہ اظہر عنایتی اور اکادمی کی گورننگ کونسل کے ممبران کے ہاتھوں شمع روشن کرکے باضابطہ مشاعرے کا آغاز ہوا۔ مشاعرہ جشن جمہوریت میں ڈاکٹرنواز دیوبندی، منیر ہمدم، ڈاکٹر طارق قمر، ڈاکٹر معید رشیدی،پروفیسر رحمٰن مصور، شکیل جمالی، اعجاز انصاری، مجیب شہزر، مصداق اعظمی، شمیم کوثر، خورشید حیدر اور عمر فرحت نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔
مشاعرہ میں پیش کیے گئے منتخب اشعار قارئین کے لیے پیش ہے:
ہم نے روشن چراغ کر تو دیا
اب ہواؤں کی ذمہ داری ہے
ہم اندھیرے میں ہیں مگر دیکھو
دور تک روشنی ہماری ہے
(اظہر عنایتی)
بے خیالی میں بھی خیال اس کا
میرا کیا ہے، یہ ہے کمال اس کا
(ڈاکٹر نواز دیوبندی)
جب سے دیکھا ہے اس نے زمیں کی طرف
آسماں کی طرف دیکھتا کون ہے
(منیر ہمدم)
یقین مانو کہ اردو جو بول سکتا ہے
وہ پتھروں کا جگر بھی ٹٹول سکتا ہے
(معروف رائے بریلوی)
سلسلہ افواہ کا کیسے تھمے اس شہر میں
آپ کے ہمراز کے ہمراز کے ہم راز ہیں
(مصداق اعظمی)
جب لوگ مرے قتل کی تحقیق کریں گے
ممکن ہے کہ قاتل مرے اپنے نکل آئیں
(اعجاز انصاری)
میرے لیے نہیں تھی حواشی میں بھی جگہ
پھر یوں ہوا میںان کے حوالے میں آگیا
(پروفیسررحمٰن مصور)
تمہارے زخم ہیں مرہم تمہی تلاش کرو
کسی کو زخم دکھانے سے فائدہ کیا ہے
(مجیب شہزر)
اپنی ذات سے آگے جانا ہے جس کو
اس کو برف سے پانی ہونا پڑتا ہے
(ڈاکٹر معید رشیدی)
سنا ہے رشتۂ جاں وہ عزیز رکھتا ہے
یہ بات ہے تو چلو سلسلہ نکالا جائے
(ڈاکٹر عمیر منظر)
تجھے اس کی کوئی خبر نہیں یہ مر ے سکون کی بات ہے
مری زندگی کا سوال ہے تیرے ایک فون کی بات ہے
(ممتاز نسیم)
نہ تیری گلی میں آنا نہ تیری گلی میں جانا
کیوں بنا رہی ہے دنیا نیا روز اک فسانہ
(شمیم کوثر)
ہجر میں تیرے بھٹکتا رہا صحرا صحرا
اس سفر میں کہیں آرام کیا ہوتو بتا
(خورشید حیدر)
آخر میں صدر مشاعرہ اظہر عنایتی کے منتخب اشعار کے ساتھ یہ مشاعرہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ مشاعرہ کے اختتام پر ناظم مشاعرہ معروف رائے بریلوی نے اس کامیاب اور پروقار مشاعرہ کے لیے سامعین اور منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور آئندہ سال منعقد ہونے والے جشن جمہوریت کے مشاعرہ میں دوبارہ ملنے کے ارادہ کے ساتھ اس بزم کے اختتام کا اعلان کیا۔
ہزاری باغ(اسٹاف پورٹر):شعبۂ اردو ونوبا بھاوے یونیورسٹی میں گزشتہ رو زحسب معمول منعقد ہونے والے ہفتہ وارشعبہ جاتی سمینار کے موقع پر اردو کے معتبر بے باک اور معروف صحافی خورشید پرویز صدیقی کے سانحۂ ارتحال کے تعلق سے ایک تعزیتی نشست کے انعقاد کاعمل میں آیا ۔ اس موقع پر مرحوم کو انہتائی جذباتی خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے اور ان کے صحافتی امتیازات کے حوالے سے گفتگو کی گئی ۔
صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر زین رامش اور استاد شعبۂ اردو ڈاکٹر ہمایوں اشرف کے علا وہ شعبہ میں تدریسی امور سے وابستہ محترمہ وحیدہ رحمان اور محترمہ عالیہ تبسم نے اپنے خیالات اور تاثرات پیش کیے ۔ ڈاکٹر ہمایوں اشرف نے بہ حیثیت صحافی خورشید پرویز صدیقی کی مجموعی خدمات کا ذکر تے ہوئے بالخصوص ان کی بے باکی اور ایماندارانہ صحافتی رویے پر تفصیلی گفتگو کی ۔ انہوں نے کہا کہ خورشید پرویز صدیقی جناب غلام سرورکے صحافتی رویے کو نہ صرف انتہائی کارگر محسوس کر تے تھے بلکہ وہ اس کی تقلید بھی کر تے تھے اور یہی وجہ تھی کہ ان کی صحافت بہت سارے دوسرے لوگوں سے منفرد تھی ۔ ڈاکٹر زین رامش نے ان کی صحافتی کارگزاریوں کے ساتھ ہی ان کے بہت سارے شخصی امتیازات بھی ذکر کیا اور اس بنیاد پر ان کی شخصیت کے تعین قدر کی کو شش کی ۔ ساتھ ہی انہو ں نے خورشیدپرویز صدیقی کی تحریرو تصنیفی کارگزاریوں پر بھی تجزیاتی گفتگو کی ۔ اس حوالے سے مرحوم کی کتاب ”بعد از خدا بزرگ توئی“اور ”سبزی باغ کی کہانی میری زبانی“خصوصی طور پر موضوع تذکر ہ رہی ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ انحطاط پذیر صورتحال میں خورشید پرویز صدیقی کی معنویت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ بالخصوص جھارکھنڈ میں اردو صحافت کی آبرو تھے ۔ نشست کا باضابطہ آغاز تلاوت کلام پاک اور نذرانۂ نعت پاک کی پیشکش سے ہوا۔ تعزیتی نشست اور دعائے مغفرت کے بعد سیمینار کے تحت انتہائی معروف ومعتبر اور بہ معنی شخصیت مولانا حسین آزاد کے ناقابل فراموش علمی وادبی کارناموں کے تعلق سے تین مقالے طلبا و طالبات کے ذریعے پیش کیے گئے ۔ سیمینار کی صدارت صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر زین رامش نے کی جبکہ نظامت کے فرائض بہ حسن خوبی سمسٹر اول کی طالبہ تہنیت فاطمہ نے بہ حسن خوبی انجام دیے ۔
ممبئی :مجھے اس مجموعے (بوئے دوست )میں سب سے اچھی بات یہ لگی کہ اس میں اکثر وہ اشعار ہیں جو شاعر کے اپنے محسوسات ہیں ،اس کی جو انفرادی کیفیت ہے یعنی جو کچھ وہ محسوس کرتا ہے ،دنیا کے بارے میں یا عشق کے بارے میں ،یا باطنی دنیا کے بارے میں اس کے جو تجربات ہیں ،اس کا بیان انھوں نے حتی الامکان بہت عمدہ طریقے سے کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار شعبہ اردو جامعہ ملیہ کے صدر پروفیسر احمد محفوط نے عبداللہ ندیم کے پہلے شعری مجموعے کی رسم اجرا کے موقع پراردو چینل اور شعبہ اردو ممبئی یونی ورسٹی کے زیر اہتمام منعقد جشن اردو میں کیا ۔
پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ عبداللہ ندیم کے بہت سے شعروں کو پڑھ کر آدمی فوراً یہ کہے گا کہ ایسے اشعار وہی شخص کہہ سکتا ہے جس کا مزاج شاعری خاص طور پر غزل گوئی کا ہو ۔غزل کی ہماری روایت میں بھی بہت رنگ ہیں لیکن جو بنیادی اسلوب مانا گیا ہے اور جسے اہمیت دی گئی ہے وہ یہ کہ غزل کے اشعار میں ذاتی اور انفرادی لہجہ یا آہنگ ہوجو ان کے یہاں موجودہے ۔
پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ ان کی غزلوں کو پڑھ کر کہیں سے یہ نہیں لگتا کہ وہ دنیا کے بارے میں کوئی تبصرہ کررہے ہیں یا کوئی رد عمل ظاہر کررہے ہیں ،بلکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل پر جو کچھ گزر رہا ہے اس کابیان ہے ۔ پروفسراحمد محفوظ نے مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اگلا مجموعہ ہمارے لیے اور بھی اہمیت کا حامل ہوگا ۔
ڈاکٹرشاہ عالم (شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ )نے کہا کہ عبداللہ ندیم تازہ کار شاعر ہیں ۔انھوں نے نئے کہنے والوں کے لیے امید پیدا کی ہے ۔ ڈاکٹرشہیم خاں (مانو حیدر اًباد)نے کہا کہ عبداللہ ندیم کے اشعار کی روانی قابل داد ہے،انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’بوے دوست‘ میں زبان کا خلاقانہ استعمال بھی قاری کے لیے توجہ کا باعث ہے ۔ اس موقعے پر ڈاکٹر پرویز احمد نے کہا کہ عبداللہ ندیم کی شاعری کا عشقیہ پہلو کلاسیکی عہد کی یاد دلاتا ہے۔ڈاکٹرعمیر منظر نے کہا کہ عبداللہ ندیم کی غزلیں پرکشش اسلوب کی حامل ہیں۔ان کی اس کشش کا راز ان کی سادگی ہے ۔
اس موقعے پر ڈاکٹر قمر صدیقی ،ڈاکٹر ذاکر خاں ذاکر،حافظ محمد ولی خاں اور دیگر احباب نےمبارک بادپیش کی۔نوجوان شاعر عبید حارث نے عبداللہ ندیم کو ان کی تصویر سے مزین ایک پوٹریٹ نذر کیا ۔ واضح رہے کہ عبداللہ ندیم علامہ شبلی کے مشہور شاگرد اور ممتاز ادیب و شاعر مولانا عبدالسلام ندوی کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔
نئی دہلی: ( پریس ریلیز) گزشتہ شب نئی آواز اور شکھر کے اشتراک سے تسمیہ اڈیٹوریم،جامعہ نگر میں ایک باوقار ایوارڈ فنکشن اور عالمی مشاعرہ”ایک شام امیر اکبرآبادی کے نام“سے منعقد ہوا۔جس میں اردو ادب کے جینوئن خدمت گاروں کی عزت افزائی کی گئی اور ان کی خدمت میں ایوارڈز پیش کئے گئے۔اردو کی شعری روایت کے اہم پڑاؤ کوبھی یاد کیا گیا۔ افتتاح پروفیسر شہپر رسول، وائس چیئرمین اردو اکادمی، دہلی نے کیا جبکہ صدارت ڈاکٹر سید فاروق، صدر تسمیہ آل انڈیا ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی نے کی۔ پروفیسر شہپر رسول نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو کے ایسے لوگ جو واقعی ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ان کی زندگی میں ہی ان کی عزت افزائی کرنے کی یہ کوششں قابل ستائش ہے۔انھوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جینوئن تخلیق کاروں کو نوازا جانا صحیح اصطلاح نہیں ہےبلکہ کی خدمت میں اعزاز پیش کیا جانا صحیح اصطلاح ہے۔ اسی احساس کے تحت میں نے اردو اکادمی کی وائس چیئرمین شپ کے پہلے ٹرم میں ایوارڈ کے سائٹیشن میں تبدیلی کر کے اس کی تصحیح کی ہے۔ کیونکہ نوازنے کی اصطلاح سے جینوئن تخلیق کاروں کی توہین ہوتی ہے۔صاحبِ جشن امیر اکبر آبادی نے کہا کہ اس خوبصورت تقریب کا حصہ بن کر مجھے بےحد خوشی ہو رہی ہے۔یہ شام میرے لیے ایک ناقابلِ فراموش یادگار ہے۔برسوں کی ریاضت کا صلہ ملتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔
تقریب کے ابتدائی حصے میں مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیات کی خدمت میں ایوارڈ اور سرٹیفکٹ پیش کیے گئے۔اس موقع پر انہیں شال بھی اوڑھاکر ان کی عزت افزائی کی گی۔ان میں عامر قدوائی (کویت)،فیروز احمد صدیقی،اردو روزنامہ ”سائبان“ (جاوید رحمانی)،محمد وسیم انصاری،اسلام ملک اور دہلی ڈینٹل ہاسپٹل(ڈاکٹر تنویر احمد)کے نام شامل ہیں۔ تقریب کے اس حصے کی نظامت محترمہ خوشبو پروین نے اپنے خوبصورت انداز میں کی اور عمدہ انداز میں ایوارڈ یافتگان کا مؤثر تعارف پیش کیا۔ اس کے بعد وسیم جھنجھانوی کی نعت پاک سے بین الاقوامی مشاعرے کا آغاز ہوا۔اس موقع پر ملک اور بیرونِ ملک کے جن شعرائے کرام نے اپنے کلام سے محظوظ کیاان میں پروفیسر شہپر رسول، شیداامروہوی،امیر اکبرآبادی(آگرہ)،عامر قدوائی(کویت)، پروفیسر محمدحسین (آگرہ)، شاہدانجم، جبارشارب (جھانسی)،تحسین منور،سلیم رہبر (جھانسی)، اجمل عارف اعظمی(ممبئی)، دلداردہلوی، وسیم جھنجھانوی(مظفر نگر)، علما ہاشمی،حامد علی اختر، خوشبو پروین اور مشاعرہ کنوینر اعجاز انصاری کے نام شامل ہیں۔ مشاعرے کی نظامت حامد علی اختر نے خوبصورت انداز میں کی۔ تقریب کے انعقاد میں محمدہدایت اللہ(صدر نئی آواز) اوراعجاز انصاری نے خصوصی کردار ادا کیا۔ استقبالیہ کمیٹی میں حامد علی اختر، جبار شارب اور خوشبو پروین شامل تھے۔ اس مشاعرے نے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل کی۔ سامعین کی بڑی تعداد جن میں شہر کی چیدہ ادبی شخصیات اور اردو زبان کے شائقین شامل تھے۔سب نے مشاعرے کو سراہا اور نئی آواز اور شکھر کی اس کاوش کو بے حد پسند کیا۔
’خواب، کتاب اور بچے‘ کے عنوان سے ممبئی میں قومی اردو کونسل کے زیراہتمام سہ روزہ ورکشاپ کاانعقاد عمل میں آئے گا
نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے صدر دفتر میں جشن بچپن، ممبئی کے تعلق سے ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میں ممبئی سے فاروق سید (مدیر : گل بوٹے)، خورشید صدیقی، ڈاکٹر قاسم امام، وسیم سلیم شیخ اور عرفان علی پیرزادہ (ممبر قومی اردو کونسل ،نئی دہلی) نے شرکت کی۔ اس موقعے پر قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ فاروق سید گذشتہ کئی برسوں سے مختلف مقامات پر جشن بچپن کا انعقاد کرتے رہے ہیں اور بچو ں کو کتاب کلچر سے جوڑنے کی کوشش کے علاوہ بچوں کے ادیبوں کی حوصلہ افزائی کرنے کا بھی کام کرتے رہے ہیں۔ جشن بچپن بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر نے مزید کہا کہ اس وقت بچوں کی شخصیت سازی اور ان کی ذہنی و فکری رہنمائی کی شدید ضرورت ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں حکومت ہند نے بھی بچوں اور مادری زبان کا خاص خیال رکھا ہے۔ بچوں کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے ہمیں وکست بھارت 2047@ کے تناظر میں بھی کام کرنا ہوگا تاکہ ملک کی تعمیر و ترقی میں بچے بھی اہم کردار ادا کرسکیں۔ فاروق سید (مدیر: گل بوٹے) نے کہا کہ جشن بچپن کے ذریعے ہم بچوں اور بچوں کے ادیبوں کو نہ صرف جوڑتے ہیں بلکہ ان کے اندر تحرک پیدا کرنے بھی کوشش کرتے ہیں۔ ہم مستقبل کے لیے صرف قاری نہیں بلکہ قلمکار بھی تیار کرنا چاہتے ہیں۔
واضح رہے کہ ممبئی میں 21 سے 24 جنوری 2025 تک جشن بچپن منایا جائے گا اور اسی جشن کی مناسبت سے قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام ’خواب، کتاب اور بچے‘ کے عنوان سے ایک سہ روزہ ورکشاپ کا بھی انعقاد ہوگا جس میں بچوں کے مصنّفین شرکت کریں گے اور ادب اطفال کی موجودہ صورتِ حال اور مستقبل کے منظرنامے کے حوالے سے گفتگو کریں گے۔ اس موقعے پر نمائش کتب اور فروخت کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔
ایم پی اردو اکادمی کے زیر اہتمام منعقدہ سہ روزہ "جشن اردو” وزیر ثقافت کے ذریعے انعامات و اسناد کی تقسیم اور مشہور کتھک فنکارہ شنجنی کلکرنی کے "رقصِ راس” کے ساتھ اختتام پذیر
بھوپال: مدھیہ پردیش اردو اکادمی سنسکرتی پریشد کے تحت تین روزہ "جشن اردو” کا اختتام عزت مآب وزیر برائے محکمہ ثقافت، سیاحت جناب دھرمیندر بھاؤ سنگھ لودھی کے ہاتھوں ہوا۔ اس موقع پر انہوں نے مختلف مقابلوں کے فاتحین کو انعامات پیش کیے۔ ساتھ ہی جشن اردو کے والنٹیئرز کو بھی اسناد سے نوازا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا، یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ اردو اکادمی کے ذریعے وسودھیو کٹمبکم کے نظریے کو لے کر یہ پروگرام منعقد کیا گیا۔ یقینی طور سے وسودھیو کٹمبکم کا جو نظریہ ہے وہ ہماری ہندوستانی ثقافت کی بنیاد ہے۔ اس نظریے کو لے کر جشن اردو کے پلیٹ فارم کے ذریعے یہ پروگرام منعقد کیا گیا اس کے لیے میں ایم پی اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس وقت ہندوستان اور پوری دنیا کو اس نظریے کی بہت ضرورت ہے۔
اس سے پہلے جشن اردو کے تیسرے اور آخری دن کا آغاز "اردو ادب اور وسودھیوکٹمبکم” کے موضوع پر منعقد مکالمے سے ہوا۔ اجلاس کے مہمان خصوصی مشہور ادیب اور ریاستی الیکشن کمیشن، مدھیہ پردیش کے کمشنر، جناب منوج سریواستو نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج کا جو موضوع ہے اس پر ادب کے حوالے سے بات ہونی چاہیے مذہب کے حوالے سے نہیں اور زبان و ادب کو مذہب کے دائروں میں باندھنا ٹھیک نہیں ۔ اردو ادب کے قدیم دور میں بھی اگر آپ دیکھیں تو کئی ایسے شعراء و ادبا مل جائیں گے جو غیر مسلم تھے لیکن انھوں نے تاعمر اردو کی خدمت کی۔ ادب اپنے آپ میں خود ایک روحانی احتیاج ہے۔
بھوپال کے سینیئر ادیب و محقق ڈاکٹر محمد نعمان خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو زبان و ادب کی آفاقیت کا ایک سبب جہاں اس کا کلاسیکی اور روایتی ادب ہے وہیں مختلف ملکوں کی زبانوں کی جدید ادبی اصناف کی شمولیت اور ان کےتراجم بھی ہیں۔ جہاں اردو غزل اور بعض دیگر ادبی اصناف دیگر زبانوں میں تخلیق کی جا رہی ہیں وہیں سنسکرت، ہندی اور ہندوستان کی کئی علاقائی زبانوں کے علاوہ انگریزی، جاپانی ، ترکی ، چینی ، روسی، عربی ، فارسی ، فرانسیسی وغیرہ زبانوں کی بعض ادبی و شعری اصناف مثلاً ہائیکو، تن کا، رینگا کاتا اوتا ، ترائیلے ، چوکا ، سیڈوکا ، سین ریو، سانیٹ، دوہے، گیت، کنڈلیاں ، تری وینی، چو بولے، اندرسبھائیں وغیرہ کی تخلیق اردو زبان میں بھی ہو رہی ہے اور کئی عالمی اور علاقائی زبانوں کے ادبی شاہ کاروں اور کئی مذہبی صحائف کو اردو نثر و نظم میں منتقل کیا جا چکا ہے اور اردو زبان کے کئی ادب پاروں کا مذکورہ بالا زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
لکھنؤ سے آئے ڈاکٹر عباس رضا نیر نے "اردو شاعری میں” وسودھیوکٹمبکم” کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا،” وسودھیو کٹمبکم کا تصور عصبیت کو ختم کرتا ہے اور فیضان انسانیت کو عام کرتا ہے۔ یعنی یہ شخص میرا ہے اور یہ شخص میرا نہیں ہے کی تفریق صرف تنگ نظر یا جاہل لوگ کرتے ہیں ۔ جو لوگ اچھے اخلاق والے ہیں (یا جو مطلق سچائی کو جانتے ہیں ) ان کے لیے پوری دنیا ایک کنبہ ( ایک اکائی ) ہے۔”
وسودھیو کٹمبکم تین سنسکرت الفاظ ، وسودھا (زمین دنیا)، ایوا ( جیسے ) اور کٹمبکم ( بڑا وسیع کنبہ ) سے بنا ہے۔ یہ شلوک مہا اپنشد میں مذکور ہے۔ہماری اخلاقیات اور سماجی ثقافتی تانے بانے اس قابل فہم فقرے کے گرد بنے ہوئے ہیں اور ہماری دنیاوی حکمت ایسی بنیادوں سے گونجتی ہے، جن کا ہمارے رشیوں نے بہت فصاحت سے اظہار کیا ہے۔
اجلاس کے آغاز میں اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے کہا کہ "مدھیہ پردیش اردو اکادمی کے ذریعے منعقد ‘جشن اردو’ وسودھیوکٹمبکم” کے احساس کو عملی شکل دینے کی کوشش تھی۔ اردو ادب نے ہمیشہ انسانیت کو جوڑنے کا کام کیا ہے۔ اس نے ہمیں یہ احساس دلایا ہے کہ سرحدیں اور امتیازات عارضی ہیں، اور پوری دنیا کو ایک خاندان کے طور پر دیکھنا ہی حقیقی فلسفہ ہے۔ اس سمت میں ہمیں مزید حکمت عملی تیار کرنی ہوگی اور اردو کے ذریعے "وسودھیوکٹمبکم” کے راستے کو ہموار کرنا ہوگا۔”
اس اجلاس کی نظامت مشہور شاعر اور مصنف ڈاکٹر محمد اعظم نے کی۔
دوسرے اجلاس میں سہ پہر تین بجے رنگ محلہ سوسائٹی فار پرفارمنگ آرٹس کی طرف سے "مرزا صاحب اور سنیما کا عشق” ایک منفرد پرفارمنس پیش کی گئی، جس کے ہدایت کار عدنان خان ہیں۔
اسی اجلاس میں اگلا پروگرام "بھارتیہ فلسفہ اور غالب” کے موضوع پر مرکوز تھا، جس میں مقررین تھے عزیز عرفان (اندور)، سلیم انصاری (جبلپور)، اور سریش پٹوا (بھوپال)۔
عزیز عرفان نے کہا کہ غالب کی شاعری اور دیگر نثری تحریروں خصوصاً ان کے خطوط میں ہندوستانی فلسفہ نظر آتا ہے۔ نظریہء غالب ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کے درخشاں باب کی حیثیت رکھتا ہے۔
سلیم انصاری نے کہا کہ اقبال کی طرح غالب کے یہاں بھی انسان اور انسانی تہذیب کا ایک مخصوص تصور موجود ہے جسے ان کی شاعری میں آسانی سے تلاش کیا جا سکتا ہے اور جس کا اندازہ غالب کے اشعار کی رفعتوں سے کیا جا سکتا ہے ۔غالب کا انسان اپنی ذات میں عاشق،فلسفی، صوفی سب کچھ ہے ۔ان سب سے بڑھ کر وہ اپنے سینے میں ایک دردمند دل رکھتا ہے ۔وہ معاشرے کی ایک ایسی اکائی ہے جو اپنی مٹی اور اپنی تہذیب سے محبت کرتا ہے ۔
اس اجلاس میں غالب کی زمین پر کہی گئی غزلیں بھی م پیش کی گئیں۔ جن شعرا نے غزلیں پیش کیں ان کے اسمائے گرامی اور اشعار درج ذیل ہیں ۔
شہر پر جانبازوں کے حملے سے پہلے سوچنا
یہ علاقہ مختلف یہ راجدھانی اور ہے
عابد کاظمی (بھوپال)
بے خیالی میں نہ جانے کیا کیا کہے جاتا ہوں میں
اور یہ دنیا سمجھتی ہے بڑا گیانی مجھے
منیش جین (گوالیار )
چھوڑ کر ہاتھوں سے دامن کوشش و تدبیر کا
لوگ رونا رو رہے ہیں بیٹھ کر تقدیر کا
ڈاکٹر احسان اعظمی
غم زندگی کے رتھ ہر نہ جو دل سوار ہوتا
فن شاعری کا غالب کہاں تاجدار ہوتا
پرویز اختر
عشق خوشبو ہے دونوں جہاں کے لیے
پھر انیتا یہ دائرہ کیا ہے
انیتا مکاتی دھار
اس اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر احسان اعظمی نے انجام دیے۔
آخری دن کے اختتامی اجلاس میں شنجنی کلکرنی نے "رقصِ رآس” پیش کیا۔ اس رقص کی تھیم تھی "صوفی رقص میں وحدت کا احساس”۔ اس کے تحت شنجنی کلکرنی اور ان کی ٹیم نے صوفیانہ کلام پر کتھک کی دلکش پیشکش دے کر حاضرین کو مسحور کردیا۔
آخر میں ممتاز خان نے تمام شرکاء اور مہمانان کا شکریہ ادا کیا ۔
اردو اکادمی، دہلی کی جانب سے جلسہ تقسیم انعامات برائے تعلیمی و ثقافتی مقابلہ جات 2024 کا انعقاد
دہلی: ہر سال کی طرح اس سال بھی محکمۂ فن و ثقافت و السنہ حکومت دہلی کی جانب سے اْردو اکادمی، دہلی نے غالب انسٹی ٹیوٹ میں مختلف تعلیمی وثقافتی مقابلے میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے بچوں کی حوصلہ افزائی کےلیے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا،اسکولوں کے طلباوطالبات کے درمیان یہ مقابلہ 19؍ اگست تا2؍ ستمبر2024 کے درمیان منعقد کیے گئے تھے، ان تمام مقابلوں میں اول، دوم، سوم اور حوصلہ افزائی کے انعامات حاصل کرنے والے طلبا و طالبات اور ٹیموں کو اکادمی کی جانب سے نقد انعامات، مومینٹوز/شیلڈز، اور اسناد پیش کی گئیں۔ وائس چیئرمین اْردو اکادمی، دہلی پروفیسر شہپر رسول ،سکریٹری جناب محمد احسن عابد،تعلیمی سب کمیٹی کی کنوینر اور تعلیمی و ثقافتی مقابلوں کی کو آرڈینیٹر ڈاکٹر شبانہ نذیر اور اْردو اکادمی دہلی کی گورننگ کونسل کے ممبران جناب شیخ علیم الدین اسعدی ،محمدضیاء اللہ، محمد فیروز صدیقی اور محمد مزمل کے ہاتھوں دہلی کے مختلف اسکولوں کے بچوں کو انعامات سے نوازا گیا۔ اس پروگرام کی سب سے خاص بات یہ رہی کہ اکادمی کی جانب سے پہلی مرتبہ Best Participating Schoolاور Best Performing School ایوارڈزدیے گئے اوراس کے لیے ایک ہی اسکول رابعہ گرلزپبلک اسکول کو اکیس ۔ اکیس ہزار روپے کی رقم کے علاوہ ٹرافی اور سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا۔ان مقابلوں میں پہلا انعام پانے والے 17 طلبا کو 2500 روپے ، دوسرا انعام حاصل کرنے والے 26 طلبا کو 1500 سورپے، تیسرا انعام حاصل کرنے والے 25 طلبا کو 1000روپے کے نقد انعام سے نوازا گیا۔ حوصلہ افز ائی انعام کے تحت 74 طلبا کو 750 روپے دیے گئے۔ ٹیم انعام کے تحت اول،دوم اورسوم کے 33 انعام دیے گئے اوراس کے تحت 1,46,000 روپے اورامنگ پینٹنگ مقابلے کے تحت 29 طلبا کو 42000 روپے انعام کے طورپردیے گئے ۔اس طرح کل ملا کر 3 لاکھ 92 ہزارروپے انعام کے طورپرطلبا میں تقسیم کی گئی۔
پروگرام کا آغاز مشہور و معروف گلوکارہ اوشین بھاٹیہ نے اپنی سریلی آواز سے کیا۔انھوں نے احمد فراز کی مشہورومعروف غزل ’رنجش ہی سہی دل ہی دْکھانے کے لیے آ‘سے کیا اورپھر کئی شعراء کاکلام پیش کیا اور آواز اورانداز سے سماں باندھ دیا ۔ پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے ریشما فاروقی نے اکادمی کے وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول ،سکریٹری احسن عابد اور ڈاکٹر شبانہ نذیر کے علاوہ اکادمی کی گورننگ کونسل کے ممبران کا خیر مقدم کیا۔
اس موقع پر پروفیسرشہپر رسول نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو اکادمی، دہلی اس طرح کے تمام پروگرام بچوں کی ادبی صلاحیتیں نکھارنے کے لیے کرتی ہے، یہ سلسلہ بہت قدیم ہے اور تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ ان مقابلوں میں طلبا کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی محنت بھی نظر آتی ہے،انھوں نے کہا کہ انعامات حاصل کرنے والے طلبااور جو نہیں حاصل نہیں کرسکے وہ دونوں ہی ہمارے لیے نہایت اہم ہیں اور میں صمیم قلب سے ان کا استقبال کرتا ہوں۔اکادمی کے سکریٹری جناب محمد احسن عابد نے اس موقع پر کہا کہ اس طرح کے مختلف پروگرام کرانے کا مقصد اردو کے طلبا کی صلاحیتوں کو نکھارنا ہے ان کی شخصیت کو جلا بخشنے کے لیے اس طرح کے پروگرام بہت ضروری ہیں تاہم انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بچوں کے لیے صرف اکیڈمک سطح پر ملنے والی کامیابی ہی کافی نہیں ہے بلکہ والدین کو ان کا تعلیمی معیار بہتر بنانے کے لیے غیر نصابی سرگرمیوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس موقع پر ڈاکٹر شبانہ نذیر نے کہا کہ اْردو اکادمی اس وقت بہت فعال ہاتھوں میں ہے، روایت سے ہٹ کر بھی اکادمی نے بہت کچھ نیا کیا ہے، بچوں کے ہونے والے ان مقابلوں کی ستائش کرتے ہوئے انھوں کہا کہ اس سال اساتذہ کے لیے بھی ایک نیا پروگرام شروع کیا گیا جس کے تحت پورے دن کے لیے ایک ٹیچرس کارنیوال رکھا گیا جس میں اساتذہ نے خود بھی غزل سرائی اور بیت بازی جیسے پروگرام میں شرکت کی۔ اس کے علاوہ ان مقابلوں میں شریک ہونے والے تقریباً 500 طلبا کو اکادمی کا رسالہ ’بچوں کاماہنامہ اْمنگ‘ ایک سال کے لیے مفت دیا جارہا ہے۔
اس پروگرام کے بعداکادمی کا ایک پروگرام ’’اردو خواندگی مراکز کا افتتاح‘‘ کشمیری گیٹ واقع اکادمی کے سلور جوبلی ہال میں منعقد ہوا، جس میں دہلی حکومت میں وزیر برائے فن و ثقافت والسنہ عزت مآب سوربھ بھاردواج نے اردو مراکز کے انسٹرکٹرس میں اسٹیشنری تقسیم کی۔ اس موقع پر سوربھ بھاردواج نے اکادمی کے ذمے داران اور مراکز کے انسٹرکٹرس کو مبارکباد پیش کی اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ اس کام کے لیے آپ کو دی جانے والی رقم ماہانہ 8 ہزار کچھ بھی نہیں ہے لیکن آپ کی ذمے داری بہت بڑی ہے، آپ دہلی سرکار کی اسکیم کا حصہ بن رہے ہیں یعنی آپ دہلی سرکار کی ہر اس علاقے میں نمائندگی کر رہے ہیں جہاں آپ کا سینٹر ہے، اس لیے آپ حضرات ایمانداری سے اپنا کام کیجیے تاکہ حکومت کی اس طرح کی اسکیموں کو کامیابی ملے اور آگے چل کر زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے استفادہ کرسکیں۔اس موقع پر پروفیسر شہپر رسول اور جناب محمد احسن عابد نے بھی خطاب کیا اور ڈاکٹر شبانہ نذیر بھی اس اہم پروگرام میں موجود رہیں۔ تقریباً 150 اردو خواندگی مراکز کے لیے اسٹیشنری کے علاوہ اور ضروری سامان جیسے چٹائی (میٹ)، بورڈ اور اردو اکادمی کا ایک فلیکس بورڈ بھی دیا گیا۔واضح رہے کہ یہ مراکز دہلی کے مختلف علاقوں جیسے پرانی دہلی، اوکھلا،مدن پور کھادر،جیت پور،امبیڈکر نگر،مالویہ نگر،جعفر آباد، مصطفیٰ آباد، کراڑی، نانگلوئی اور اتم نگر،وغیرہ میں شروع کیے گئے ہیں۔
نئی دہلی: اردو اکادمی دہلی کے چیئرمین اور دہلی حکومت کے وزیر برائے فن، ثقافت و السنہ، عزت مآب عالی جناب سوربھ بھاردواج نے اکادمی کی ایوارڈ و کلچرل پروگرام سب کمیٹی کی تجاویز اور ایگزیکٹیو کمیٹی کے فیصلوں کی توثیق کرتے ہوئے سالانہ ایوارڈز برائے سال2023-24 کے اعلان کی منظوری دی۔ تفصیلات درج ذیل ہیں:
’’کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ‘‘ ممتاز ادیب اور ماہرِ سرسیدیات پروفیسر افتخار عالم خاں (علی گڑھ) کو دیا جائے گا۔ ’’کل ہند ایوارڈ برائے فروغِ اردو زبان‘‘ مشہور نغمہ نگار جاوید اختر (ممبئی) کے نام کیا گیا ہے اور ’’پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی ایوارڈ‘‘ ممتاز ادیب، ناقد، شاعر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ شعبۂ اردو کے سابق صدر پروفیسر خالد محمود کو دیا جائے گا۔ یہ تینوں ایوارڈز پانچ لاکھ روپے نقد، سند، شال اور مومینٹو پر مشتمل ہیں۔
ان کے علاوہ’’ ایوارڈ برائے تحقیق و تنقید‘‘پروفیسر احمد محفوظ،’’ایوارڈ برائے تخلیقی نثر‘‘ محترمہ رخشندہ روحی،’’ایوارڈ برائے شاعری‘‘،جناب سلیم شیرازی،’’ایوارڈ برائے بچوں کا ادب‘‘ جناب طٰہٰ نسیم، ’’ایوارڈ برائے ڈراما‘‘ جناب انیس اعظمی اور ’’کل ہند ایوارڈ برائے سائنس‘‘ جناب عابد معز (حیدرآباد) کو دیے جائیں گے۔یہ تمام ایوارڈز دو لاکھ روپے نقد، شال، سند اور مومینٹو پر مشتمل ہیں۔
اورنگ آباد:شہر اورنگ آباد سمبھاجی نگر مہاراشٹرا میں مرصع آرٹ کلچرل اینڈ لٹریری فاؤنڈیشن کی جانب سے ثقافتی پروگرام منعقد کیا گیا،جس میں ڈاکٹر ہاجرہ بانو کے تحریر کردہ ڈراموں پر مبنی کتاب "باتوں باتوں میں "کا اجراء محفل کے صدر مقیم خان سابق نیوز ریڈر آکاش وانی آل انڈیا ریڈیو کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اس موقع پر انھوں نےکہا کہ آکاش وانی آل انڈیا ریڈیو کی نشریات کے لیے ڈرامہ تحریر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کیوں کہ اس میں کئی پابندیوں کو ملحوظِ خاطر رکھنا پڑتا ہے ۔ شہر اورنگ آباد سے اردو پروگرام بند ہو چکے ہیں لیکن ڈاکٹر ہاجرہ بانو نے ان ڈراموں کو شائع کر کے اسے دوبارہ زندہ کردیا ہے ۔ مہمان خصوصی اسلم مرزا نے کتاب کے انتساب کی گہرائی پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا ۔ بابائے افسانچہ عظیم راہی نے ڈرامہ کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے اپنی نیک تمنائیں پیش کیں۔ اس تقریب میں وشال نکاڑجے، سیدخرم، سپنا، اور دوست محمد خان نے اپنے گیتوں، رقص اور غزل گوئی سے حاضرین کا دل جیت لیا ۔ شیخ صدام نے اپنے منفرد انداز میں نظامت کے فرائض انجام دئیے ۔ شہر کے ادبی اور تعلیمی حلقوں سے تعلق رکھنے والے باذوق حاضرین بھی اس موقع پر موجود تھے ۔
بانگ درا‘کے سوسال مکمل ہونے پر اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتمام سہ روزہ قومی سمینار اختتام پذیر
نئی دہلی :اردو اکادمی، دہلی کے زیر اہتمام ’بانگِ درا ‘ کے سوسال مکمل ہونے پر سہ روزہ قومی سمینار میں ملک بھر کے دانشوران و ادیب شریک ہوکر ان کی شاعری اور خصوصاً بانگِ درا کے حوالے سے اقبال کی شاعری کا سماج،تاریخ اور خصوصی طور پر ادب میں کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں بھرپور گفتگو سننے کو ملی۔
پہلے اجلاس میں بطور مقالہ نگار پروفیسر توقیر احمد خاں(بانگِ درا کی اشاعت : ایک تعارف) ڈاکٹر الطاف انجم (کلامِ اقبال اور نوتاریخیت)، ڈاکٹر عرفان اللہ فاروقی (علاقائی قومیت کا تصور اور اقبال کی اسلامی اردو شعریات)، ڈاکٹر معیدالرحمن (اقبال کی نظموں کا نوآبادیاتی مطالعہ) ۔دوسرے اجلاس میں پروفیسر اسلم اصلاحی (آیاتِ بینات)، ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی ( شکوہ و جواب شکوہ: فنی جائزہ)، ڈاکٹر عبدالسمیع (نظم فلسفۂ غم کا فنی و فکری مطالعہ)، ڈاکٹر امیر حمزہ (بانگِ درا میں بچوں کی نظمیں اور تشبیہاتی نظام) نے مقالات پیش کیے۔ان دونوں اجلاس کی صدارت بالترتیب پروفیسر شریف حسین قاسمی اور پروفیسر خالدعلوی نے کی۔
اتوار کی صبح ساڑھے دس بجے قمر رئیس سلور جبلی ہال میںتیسرا اجلاس پروفیسر خالد محمود کی صدرات اور ڈاکٹر محمد شاداب شمیم کی نظامت میں شروع ہوا ۔ اس اجلاس میں پروفیسر رحمت یوسف زئی نے ’غلام قادر روہیلہ ‘ پر فنی و فکری جائزہ پیش کرتے ہوئے اس وقت کے تاریخی پس منظراور اس نظم کے تحت کلام اقبال کی خصوصیات اوراس کے امتیازات پر بھی گفتگو کی۔پروفیسراحمدمحفوظ نے ’تصویر درد‘ کے آہنگ کا مطالعہ پیش کرتے ہوئے اس نظم کے آہنگ اورعروض پرسیرحاصل گفتگوکی۔ڈاکٹر معیدرشیدی نے ’غالب،داغ اوراقبال کی تثلیث میں بانگ درا کی غزلوں کی شناخت‘کے عنوان سے پرمغز مقالہ پیش کیا،اس میں انھوں نے کلام اقبال پر غالب اورداغ کے اثرات پر گفتگو کی اور خصوصی طور پر اقبال کے متروک کلام کو مو ضوع بناتے ہوئے نئے زاویوں پر بات کرنے کی کوشش کی ۔ڈاکٹر محمد شاہد خاں نے ’نظم والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘کا فکری وفنی جائزہ بہت ہی جامع انداز میں پیش کرتے ہوئے انگر یزی متون سے تقابل بھی پیش کیا ۔ ڈاکٹر محمد احسان حسن نے ’بانگِ درا کے سوسال: ایک اجمالی جائزہ‘ پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے بانگِ درا کے تحریکات و رجحانات پر کیا اثرات مرتب ہوئے ، اس پر بھی گفتگو کی۔
صدرا تی تقریر میں پروفیسر خالد محمود نے سبھی مقالات پر گفتگو کرتے ہوئے اقبال کے اختصاص پر خصوصی گفتگو کی ۔ انھوں نے کہا کہ اقبال کو ہی یہ اختصاص ہے کہ مکتب سے لے کر تازندگی سب سے زیادہ قاری آپ کو اقبال کے ہی ملیںگے ۔اقبال کے کلام کا ہی یہ آہنگ ہے کہ سب سے زیادہ وہ اپنی جانب راغب کرتا ہے ، اگر آ پ سروے کریں گے تو معلوم ہوگا کہ لوگوں کو سب سے زیادہ اقبال کے ہی اشعار یاد ہوںگے ، عوام و خواص میں اقبال ہی سب سے زیادہ مقبول ہیں اور انہیں کے اشعار سب سے زیادہ لوگوں کو یاد بھی ہیں ۔
ظہرانے کے بعد سمینار کا چوتھا اور آخری اجلاس پروفیسر معین الدین جینا بڑے اورپر وفیسر مظہر احمد کی صدارت و ڈاکٹر عالیہ کی نظامت میں منعقد ہوا ۔ اس اجلاس میں پروفیسر سید محمد عزیز الدین حسین نے ’بانگ درا کا تاریخی تجزیہ ‘ پر مقالہ پیش کرتے ہوئے تاریخی نظموں کے حوالے سے اقبال کے یہاں تاریخ کو شاعری میں پیش کرنے کا جو شعور پایا جاتا ہے اس پر بھر پور روشنی ڈالی ۔پروفیسر محمد معظم الدین نے ’اقبال اور درسی نصاب : بانگ درا کے حوالے سے ‘ پراپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اب تک بانگ درا کو نصاب تعلیم میں جو اہمیت حاصل ہوئی ہے وہ شاید کسی دوسرے شعری مجموعے یا شاعر کو ملی ہو ۔
صدراتی تقریر میں پر وفیسر مظہر احمد نے اقبال کے حوالے سے اپنے تجر بات کا اظہار کیا اور مزید کہا کہ اب نصاب تعلیم میں اقبال جس طریقے سے نشانے پر آئے ہیں اس کے تدارک کے لیے بھی غور کرنا ہوگا ۔ پر وفیسر معین الدین جینا بڑے نے سمینا ر کے کنوینر کے طور پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ گورننگ کونسل کے قیام سے پہلے ہی اس سمینار کا خاکہ تیار ہوچکا تھا اس کے لیے اکادمی کے سکریٹر ی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اس نامساعد دور میں اقبال کے صرف ایک مجموعہ پر سہ روزہ قومی سمینار منعقد کیاگیا ۔ مزید انھوں نے کہا کہ ایسے میں نوجوان نسلوں پر کم توجہ دی جاتی ہے تو میں نے اس سمینار میں نوجوان قلمکاروں کو برابر کا شریک رکھا،9 بزرگ قلمکار تھے تو9 بالکل نوجوان قلمکار تھے اور مجھے خوشی ہے کہ سبھی نے عمدہ مقالے پیش کیے ۔ سمینا رمیں مقالہ نگارا ن کی فہرست میں شمولیت کے حوالے سے سخت لہجہ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اتفاق سے چار روز قبل کسی صاحب کا ایک نوجوان کے حوالے سے فون آیا کہ آپ انھیں مقالہ نگاران میں شریک کرلیں ، میں نے ان سے فون پر ہی خفگی کا اظہار کیا کہ آپ نے اس حوالے سے فون کیسے کردیا ، پھر اتفاق سے اسی نوجوان کا فون آیا تو میں نے اسے بھی سختی سے منع کردیا لیکن یہ معاملہ جاری رہا ، پھراتفاق سے اس نوجوان نے ایک وزیر سے فون کروایا پھر میں نے وائس چیئر مین سے اس متعلق بات کی تو انھوں نے کہاکہ وزیر کے فون پر تو قبول نہیں کیا جاسکتا۔لیکن یہ رویہ بہت ہی تکلیف دہ ہے،سارے اداروں اور یونیورسٹیز کو بھی اس جانب غور کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی ۔
سمینار میں گورننگ کونسل کے ممبران میںپروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین ، جناب خورشیداکرم، شیخ علیم الدین اسعدی اور محمد فیروز صدیقی کے علاوہ پروفیسر شہزاد انجم ،ڈاکٹر نگار عظیم ، جناب سہیل انجم ،جناب حبیب سیفی،ڈاکٹرعادل حیات ، ، ڈاکٹر محمد مستمر، ڈاکٹر محمد ارشد ، ڈاکٹر افسانہ حیات ، ڈاکٹر خان محمد رضوان ، ڈاکٹر ابراہیم افسر، عرفان راہی اور یونیورسٹیز کے طلبا و طالبات موجود تھے۔
کولکاتہ : ”بزم ادب کولکاتہ“ کے سرپرست جناب قمر الدین ملک کی میزبانی میں امپیریل اپارٹمنٹ کے خوبصورت کمیونٹی ہال میں بزم ادب کولکاتہ کی تجدید نو کے بعد پہلی ادبی نشست کا اہتمام دہلی سے تشریف لائے ملک کے معروف افسانہ نگار، شاعر و ادیب جناب پرویز شہریار کی صدارت میں منعقد ہوا۔ تقریب کا آغاز بزم کے صدر اختر حسین کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ بزم کے اعزازی جنرل سیکریٹری نعیم انیس نے خیر مقدمی کلمات میں بزم کا تعارف کراتے ہوئے اس کے ادبی سفر پر روشنی ڈالی۔ بزم کے سرپرست جناب نثار احمد اور جناب قمر الدین ملک نے بھی حاضرین مجلس سے خطاب کیا۔
اس موقع پر کولکاتہ سے شائع ہونے والے سہ ماہی ادبی میگزین ”فکر و تحریر“ کے نئے شمارے کی رسم رونمائی عمل میں آئی۔ اس ادبی نشست میں ایک مشاعرہ بھی ہوا جس میں دہلی اور کولکاتہ کے ممتاز شعراء نے اپنے خوبصورت اور معیاری کلام سے محفل کو چار چاند لگا دیے۔ مشاعرے میں جناب پرویز شہریار، جناب اکرم آذر، جناب خواجہ مومن، جناب منظور عادل، جناب نوشاد مومن، جناب مہتاب سلم، جناب ارشاد آرزو، جناب نسیم فائق، جناب شاہد علی دلکش، جناب شاہد اقبال، اور جناب احمد معراج نے شرکت کی۔
نشست کے دوران شرکاء نے بزم ادب کولکاتہ کی تجدید نو کو ایک اہم اقدام قرار دیا اور اس کی مستقبل کی سرگرمیوں کے حوالے سے قیمتی تجاویز پیش کیں۔ بزم ادب کولکاتہ نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ نئی نسل کو ادب سے جوڑنے اور اردو زبان و ادب کو فروغ دینے کے لیے مختلف ادبی سرگرمیوں کا انعقاد کرے گی۔
آخر میں شکریہ کی رسم بزم ادب کولکاتہ کے سرپرست محمد جمال صاحب نے ادا کی اور تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ نشست کا اختتام دعائیہ کلمات کے ساتھ ہوا۔
نئی دہلی: ہندوستان کے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کا 92 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ وہ طویل عرصے سے صحت کے مسائل سے دوچار تھے۔ جمعرات کی رات 8:06 بجے انہیں دہلی کے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (AIIMS) لایا گیا، جہاں انہیں فوری طور پر ایمرجنسی وارڈ میں داخل کیا گیا۔ رات 9:51 بجے ڈاکٹر سنگھ نے آخری سانس لی۔ ان کی وفات کے بعد پورے ملک میں غم کی لہر دوڑ گئی، اور سیاسی، سماجی اور علمی حلقوں سے تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری ہے۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ دو بار ہندوستان کے وزیر اعظم رہے اور اپنی عاجزی، محنت اور معاشی اصلاحات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کی قیادت میں ہندوستان نے کئی اہم اقتصادی تبدیلیاں دیکھیں جنہوں نے ملک کی بنیاد کو مضبوط کیا۔
کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، “میں نے اپنا ایک استاد کھو دیا ہے۔ منموہن سنگھ جی نہ صرف کانگریس کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے ایک رہنما تھے۔ ان کی دانشمندی اور قیادت نے ہمیں ہمیشہ رہنمائی دی۔ ان کی کمی ہمیشہ محسوس ہوگی۔”
سونیا گاندھی نے کہا، “ڈاکٹر منموہن سنگھ ایک عظیم ماہر اقتصادیات، غیر معمولی وزیر اعظم، اور ایک شاندار انسان تھے۔ ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ میں ان کے خاندان کے لیے دعاگو ہوں۔”
وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، “ڈاکٹر منموہن سنگھ جی کے انتقال کی خبر سن کر شدید صدمہ ہوا۔ ان کی عاجزی، ذہانت اور بصیرت نے ہمیشہ ہمیں متاثر کیا۔ دکھ کی اس گھڑی میں میری دعائیں ان کے خاندان اور مداحوں کے ساتھ ہیں۔”
مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا، “میں نے ان کے ساتھ کام کیا اور انہیں قریب سے دیکھا۔ ان کی مالیاتی اصلاحات اور علمی صلاحیت ملک کے لیے ایک قیمتی اثاثہ تھیں۔ ان کی محبت اور عزم کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔”
بی جے پی صدر جے پی نڈا نے کہا، “ڈاکٹر منموہن سنگھ جی نے ہمیشہ عوامی خدمت کو ترجیح دی۔ وہ ملک کے عظیم رہنماؤں میں شامل تھے، اور ان کی خدمات کا اعتراف سبھی کرتے ہیں۔”
ڈاکٹر منموہن سنگھ 26 ستمبر 1932 کو غیر منقسم ہندوستان کے پنجاب کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی، کیمبرج یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ ان کی تعلیمی قابلیت اور ذہانت نے انہیں عالمی سطح پر ایک ممتاز ماہر اقتصادیات کے طور پر پہچان دلائی۔
انہوں نے 1971 میں وزارت تجارت میں اقتصادی مشیر کے طور پر سرکاری ملازمت کا آغاز کیا اور وزارت خزانہ کے چیف اکنامک ایڈوائزر، ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر اور وزیر خزانہ جیسے اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ 1991 کے اقتصادی بحران کے دوران، انہوں نے وزیر خزانہ کے طور پر جو اصلاحات کیں، وہ آج بھی ایک تاریخی کارنامہ سمجھی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ اپنی عاجزی اور انسان دوستی کے لیے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ان کی قیادت اور خدمات نے ہندوستان کو کئی چیلنجز سے نکالا اور ترقی کے راستے پر گامزن کیا۔ ان کا انتقال ہندوستان کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔
دہلی: غالب انسٹی ٹیوٹ میں تقریبات کا افتتاح 20دسمبر کی شام کو ہواتھااور آج 22دسمبر کو یہ مکمل ہوگئیں۔ 22دسمبر کو بین الاقوامی سمینار کے تین اجلاس ہوئے۔ پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسر ارتضیٰ کریم نے کی۔ اس موقع پر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے کہاکہ غالب تقریبات کا انتظارہم سال بھر کرتے ہیں۔ پوری اردو دنیا کی نظریہاں کے بین الاقوامی سمینا رپر ہوتی ہیں، اس لےے ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس زیادہ ہونا چاہےے۔ اس اجلاس میں جناب امیر مہدی نے ’غالب کا تفکر‘ ، جناب سیفی سرونجی نے ’غالب اور تصوف‘ اور ڈاکٹر احسان حسن نے ’سوالوں کا شاعر غالب‘ پیش کیا۔ اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر حنبل رضا نے کی۔ دوسرے اجلاس کے صدر جناب ظہیر انور نے اپنی تقریر میں کہاکہ تنہائی ہر تخلیق کارکاسب سے قیمتی سرمایہ ہے لیکن یہی اس کا کرب بھی ہے۔ ہر شخص کی تنہائی اپنا منفرد مفہوم رکھتی ہے۔ غالب کے یہاں جس اندازمیں یہ احساس ظاہر ہوا اس کی مثال غالب سے پہلے نظر نہیں آتی۔ اس اجلاس میں پروفیسر انیس اشفاق نے ’کلام غالب میں نثریت‘، پروفیسر سرورالہدیٰ نے ’فریاد کی کوئی لے نہیںہے‘ اور ڈاکٹر جاویدنجارنے ’غالب کا ہے انداز بیاں اور‘ کے موضوع پر مقالات پیش کےے۔ آخری اجلاس کا صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر خالد محمود نے کہاکہ علمی مذاکروں کا فیضان یہ ہے کہ یہاں بہت سارے مقالہ نگاراپنے مطالعے کا نچوڑ پیش کرتے ہیں اس طرح ہم چند لمحوں میں بہت ساری کتابوں کامطالعہ کرلیتے ہیں۔ اس لحاظ سے سمیناروں میں شرکت بڑے فائدے کاسودا ہے۔اس اجلاس میں پروفیسر مظہرمہدی نے ’1857کی بغاوت غالب کا غم اور ان کی ہمدردی‘، ڈاکٹر شاہد پٹھان نے ’تنقید غالب کی تازہ تمثیل،غالب نئی تشکیل‘، اور ڈاکٹر خالد مبشرنے ’کلام غالب میں مسلمات کی ردوقبول کی آویزش‘ کے موضوع پر مقالات پیش کےے۔ اختتامی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہاکہ بین الاقوامی غالب تقریبات میں مقالہ نگاروں اور شرکاکی شرکت ہمیں نئی توانائی عطا کرتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ آئندہ بھی آپ کا تعاون اسی طرح برقرار رہے گا۔ پروفیسر انیس اشفاق نے کہاکہ غالب تقریبات میری زندگی کے معمول کاحصہ ہے اگرمیں اس میں شریک نہ ہوسکوں تو شاید ان دنوں جب یہ منعقد ہورہی ہوگی میں رات کو سو نہ سکوں گا۔ اس سمینار نے ایک پوری نسل کی تربیت کی ہے۔میری کئی تحریریں اس سمینار کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں۔ پروفیسر شہزاد انجم نے کہاکہ غالب کا سرمایۂ شعر دوسرے بہت سے شعراکے مقابلے میں مختصر ہے لیکن یہ ایسا سرچڑھ کے بولتاہے کہ دوسرا کوئی شاعر اس کے مقابلے نہیں ٹھہر سکتا۔ غالب تقریبات نے غالب کی انہیں امتیازی خصوصیات کو واضح کیا ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹرادریس احمد نے تمام شرکاکا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ غالب انسٹی ٹیوٹ ہر سال کسی اہم موضوع پر سمینار منعقد کرتاہے اور اس کے پیچھے منصوبہ یہی ہوتاہے کہ غالب اور تمام ادبی سرمایہ پر نئے سرے سے غور کیا جائے۔ سمینار کے بعد اردو ڈرامہ ’نظیر کتھاکیرتن‘ پیش کیاگیا۔ اس کے ڈائرکٹر جناب رجنیش بشٹ تھے اور پیش کش ہم سب ڈرامہ گروپ اور کھیل تماشا تھیئٹر گروپ کی تھی۔
دہلی: غالب کی ذہنی زندگی اور حقیقی زندگی میں ایسی کشمکش تھی جو آخر عمر تک باقی رہی۔ ان کے کلام میں نالہ و فریاد کا ایک بڑا سرچشمہ تھا۔ ان کے ذہن میں معانی و شوق کا جو وفور تھا وہ اظہار کے کسی پیرائے کی گرفت میں نہ آتا تھا۔ اس کی وجہ سے ان کے کلام میں لفظ و معنی کی آویزش اکثر محسوس ہوتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر قاضی جمال حسین نے بین الاقوامی غالب سمینار کا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ درد و الم سے کبیدہ خاطر ہونے کے بجائے غالب نے اسے راحت کا ذریعہ بنا لیا چنانچہ لذت درد، شکست آرزو، غم ہستی وغیرہ اسی لذت اندوزی کا شاخسانہ ہیں۔ غالب تقریبات کاافتتاح 20 دسمبر کو شام چھ بجے ایوان غالب میں سابق چیف انفارمیشن کمشنر جناب وجاہت حبیب اللہ نے کیا۔ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ غالب تقریبات کے تحت ہونے والی سرگرمیاں ہماری علمی اور ثقافتی وابستگی کو واضح کرتی ہیں۔ سمینار کا موضوع ’فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے‘ غور و فکر کے بہت سے زاویے اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ غالب نے درد و غم اور نارسائی کو جس سطح پر محسوس کیا وہ عام سطح سے بہت بلند ہے اور وہی انھیں بڑا تخلیق کار بناتی ہے۔ اجلاس کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے کی انھوں نے کہا کہ انسان کی تمناو ¿ں کا ،خوابوںکا اور اُس کے عزم کا جس قدر خوبصورت اور پراعتماد بیان غالب کے یہاں ہے کہیں اور نہیں ملتا۔ ’فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے احساس غم کسی ضابطے کا پابند نہیں، نہ ہی اس کے اظہار کا مخصوص پیرایہ ہو سکتا ہے۔ یہ موضوع جتنا سادہ نظر آتا ہے اصلاً اتنا ہی گہرا اور پیچیدہ ہے۔ جامعہ ہمدرد کے وائس چانسلر پروفیسر محمد افشار عالم نے افتتاحی اجلاس میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ ہر برس بین الاقوامی غالب تقریبات کا انعقاد کرتا ہے اور یہاں ہر سال ایک ایسا موضوع منتخب کیا جاتا ہے جس میں نئی بات کہنے کی بہت گنجائش ہو۔ غالب کو پڑھنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ انھیں نئے زاویے سے دیکھا جائے کیوں کہ وہ خود ساری زندگی فرسودگی سے دامن کش رہے۔ غالب کو یاد کرنا ایک اعتبار سے تازہ دم رہنے کا ہم معنی ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا غالب انسٹی ٹیوٹ ہر برس غالب کے یوم پیدائش کے موقع پر دسمبر میں غالب تقریبات کا اہتمام کرتا ہے اور یہ تقریبات محض رسمی نہیں ہوتیں بلکہ ہم نے پورے سال کیا کیا اس کی ایک رپورٹ بھی ہوتی ہے یہ رپورٹ کتابوں کی رونمائی کی شکل میں پیش کی جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس سال کا سمینار بھی بہت کامیاب رہے گا اور جب یہ کتابی شکل میں شائع ہوگا تو اس سے گفتگو آگے بڑھے گی۔اس موقع پر ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی کو فخرالدین علی احمد غالب انعام برائے تحقیق و تنقید، پروفیسر محمد رضا نصیری (ایران) کو فخرالدین علی احمد غالب انعام برائے فارسی تحقیق و تنقید، اور پروفیسر عبدالرشید کو غالب انعام برائے مجموعی ادبی خدمات پیش کیا گیا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کی درج ذیل نئی مطبوعات کی رسم رونمائی ہوئی: (۱) غالب اور جشن زندگی، ڈاکٹر ادریس احمد (۲) غالب راز حیات اور اضطراب آگہی، پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی (۳) توضیحی اشاریہ غالب نامہ، پروفیسر فاروق انصاری (۴) اردو ادب کی تشکیل جدید، پروفیسر ناصر عباس نیر (۵) کچھ غالب کے بارے میں، ڈاکٹر محضر رضا (۶) دیوان غالب (تمل ترجمہ ڈاکٹر سید رفیق پاشا حسینی) (۷) غالب نامہ کے دو شمارے (۸) ڈائری کلینڈر2025۔ افتتاحی اجلاس کے بعد معروف غزل سرا ڈاکٹر رادھیکا چوپڑا نے غالب اور دوسرے شعرا کی غزلیں پیش کیں۔ سمینار کے بقیہ اجلاس 21 اور 22دسمبر کو صبح دس بجے سے شام پانچ بجے تک ایوان غالب میں ہوں گے۔ 21 دسمبر کو شام چھ بجے عالمی مشاعرہ اور 22 دسمبر کو شام چھ بجے اردو ڈرامہ ’نظیر کتھا کیرتن‘ پیش کیا جائے گا۔
پونے بک فیسٹیول میں قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام ‘میرا تخلیقی سفر :مصنفین سے ملاقات’ پروگرام
پونے /دہلی : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے زیر اہتمام پونہ بک فیسٹیول فرگیوسن کالج پونہ میں ‘میرا تخلیقی سفر :مصنفین سے ملاقات’ کے عنوان سے پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں بطور مصنف ڈاکٹر صادقہ نواب سحر، نورالحسنین، قاضی مشتاق احمد اور رفیق جعفر نے شرکت کی۔ اس موقعے پر مصنفین اور تخلیق کاروں نے اپنے تخلیقی سفر کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ فکشن نگارڈاکٹر صادقہ نواب سحر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی کئی خوبیوں اور دلچسپیوں کو آزماتے رہتے ہیں، محنت اور قسمت ہمیں راستہ فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے پروگرام کے تعلق سے بتایا کہ اس طرح کے فیسٹیول زندگی میں خوبصورتی اور رنگ کا نہ صرف اضافہ کرتے ہیں بلکہ آج کے موبائل کلچر میں ہر نسل کو کتابوں سے جوڑنے کا مثبت اور دلچسپ ذریعہ بھی ہیں۔ ممتاز فکشن نگار نورالحسنین نے کہا کہ میرا تخلیقی سفر پروگرام آسان نہیں ہے اس سے ایک فائدہ ہوتا ہے کہ اپنے اندر جھانکنے کا موقع ملتا ہے، اور پتہ چلتا ہے قارئین کس طرح کا ادب پسند کر رہے ہیں ، زندگی کے مسائل پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔
مشہورکہانی کار اور ڈرامہ نویس قاضی مشتاق احمد نے کہا کہ اردو زبان نے ہمیشہ دوسری زبانوں کے ساتھ تعاون کرکے اچھا منظرنامہ پیش کیا ہے۔ اس کام کو آگے بڑھانے میں قومی کونسل نے بڑا اچھا کام کیا ہے۔ اس کے لیے کونسل اور اس کے اراکین مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ادب زندگی ہے اور اس کی روح تخلیقی ادب ہے. کہانیاں افسانے ڈرامے بڑے پیمانے پر غیر اردو ماحول میں پیش کرکے اس مہم کو اور جاندار بنایا جا سکتا ہے.
مشہور شاعر اور مصنف رفیق جعفر نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ جب سے ڈاکٹر شمس اقبال نے ذمہ داری سنبھالی ہے کونسل نئے منصوبوں کے ساتھ زیادہ فعال نظر آ رہا ہے، ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں تیز ہوئی ہیں، شمس اقبال کے اداریے این سی پی یو ایل کے منصوبوں اور ارادوں کی غمازی کرتے ہیں. اس موقعے پر قومی اردو کونسل کے ممبر عرفان علی پیرزادے، اسسٹنٹ ایڈیٹر ڈاکٹر عبدالباری،شاہ تاج پونے، ڈاکٹر عظیم راہی وغیرہ کے علاوہ بڑی تعداد میں سامعین موجود رہے۔
نئی دہلی:(پریس ریلیز)بر صغیر کے معروف فکشن نگار اور دائرہ حضرت وصیؒ کے سابق سجادہ نشین پروفیسر حسین الحق کی وفات کے تین سال مکمل ہونے پر حسب روایت مولانا انوار ؒ الحق اردو لائبریری، گیابہار اور میران فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایک ویبیناربعنوان”حسین الحق:ناول نگار، کہانی کار، اور صوفی“ کا انعقاد کیا گیا۔ آن لائن پروگرام میں متعدد اہم شخصیات اور ریسرچ رسکالروں نے شرکت کی۔
اس موقع پر کلیدی گفتگو کرتے ہوئے منفرد لب و لہجہ کے فکشن نگار اورجامعہ ملیہ اسلامیہ شعبہ اردو کے استاذ پروفیسر خالد جاوید نے حسین الحق کی تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے کہا کہ حسین الحق کا معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے قرۃ العین حیدر کے بعد اردو ناول کو جس عروج پہ پہنچایا وہ شاید کسی اور نے نہیں پہنچایا۔انہوں نے یکے بعد دیگرے ناول لکھے۔ ’بولو مت چپ رہو‘ اور ’فرات‘ ناول کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جو مسلمان پاکستان نہیں گئے، ان پر ہندوستان میں کیا گزری، اس کی داستان جتنے بہتر طریقے سے حسین الحق نے اپنے ناولوں میں بیان کی، ایسی کہیں بیان نہیں کی گئی، یہ بات میں پورے دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں۔ حسین الحق کے بیانیے کا کمال ہے کہ وہ مختلف پہلوؤں کو علامتی انداز میں بیان کرتے ہیں۔ نئی اور پرانی نسل کا جو ٹکراؤ ہے، اس میں فلیش بیک کا وہ خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں۔ایک طرف ناد علی پڑھا جا رہا ہے تو دوسری جانب انگریزی گیت ہے۔ تاریخ، تہذیب اور ثقافت اہم عناصر ہیں۔ حسین الحق جب ناول لکھ رہے تھے اور جن تکنیکوں کا استعمال کر رہے تھے،وہ اس وقت اردو ناول میں کہیں تھی ہی نہیں۔ خالد جاوید نے مزید زور دیتے ہوئے کہاکہ اگر ہم اردو معاشرہ کہہ لیں یا مسلم معاشرہ کہہ لیں اور اگر اس کی بات ہم کریں تو حسین الحق کے ناول ڈپٹی نذیر احمدکے ناول ”ابن الوقت“ سے اس کے سرے جا کر مل جاتے ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد نے جو کام اپنے دور میں کیا وہ کام حسین الحق نے اپنے دور میں کیا ہے۔ فکشن میں تصوف کے وجودی عناصر کو جس طریقے سے استعمال کیا ہے، وہ لطیف قسم کا رمز ہے، اس سے پہلے تصوف کے اخلاقی پہلو کی عکاسی فکشن میں ہم نے کہی نہیں دیکھی۔
شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے استاذ پروفیسر صغیر افراہیم نے کہاکہ حسین الحق سے میرے بہت اچھے تعلقات تھے۔ انہیں اللہ نے بہت صلاحیت دی تھی۔ میں ان کے افسانوں کا انتخاب کر رہا تھاتو انہوں نے کہاکہ دوستی کو کنارے رکھ کر انتخاب کرنا۔ جس کا نتیجہ یہ رہا کہ حسین الحق کے افسانوں کے انتخاب کو کافی مقبولیت ملی۔ ڈاکٹر علی امام نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ مجھے ایک بات یہ محسوس ہوتی ہے کہ مضامین جتنے بھی لکھے جا رہے ہیں، ان سارے مضامین میں فنکار کے اندر جو تخلیقی اشارات موجود ہیں، اس کا ذکر کم ہوتا ہے۔ اور لوازمات پر بہت زیادہ بات کی جاتی ہے۔
معروف مترجم اور کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض کے پروفیسر سرور حسین نے کہاکہ قربانی صبر اور محبت ان کے ناول ”اماوس میں خواب“ کا تھیم ہے۔ حسین الحق اس ناول سے ہندو مسلم اتحاد کا ایک نیا آغاز کرتے ہیں۔
پروگرام کی صدارت مرزا غالب کالج،گیابہارکے سابق صدر شعبہ انگریزی پروفیسر عین تابش نے کی۔ اور نظامت کے فرائض نئی نسل کے نمائدہ افسانہ نگار اور شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹرنورین علی حق،دہلی اور جے این یو کی طالبہ ثمن رضوی نے انجام دیے۔
دوران گفتگو حسین الحق کے بڑے صاحبزادے شارع علی حق نے ریسرچ اسکالروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ جو حسین الحق پر ریسرچ کر رہے ہیں انہیں کسی بھی قسم کی مدد چاہئے وہ ہم سے رابطہ کریں۔ ہماری کوشش ہے کہ حسین الحق کی تمام کتابوں کو ری پرنٹ کرایا جائے اور ری پرنٹ کا کام شروع بھی ہوچکا ہے۔حسین الحق کے افسانوں کا آٹھواں مجموعہ”مسافر کا خواب“ جسے ڈاکٹر سید عینین علی حق ترتیب دے رہے ہیں، بہت جلد منظر عام پر آنے والا ہے۔حسین الحق صاحب سے متعلق بچوں کو کتابیں چاہئے وہ انہیں فراہم کی جائیں گی ۔
اس موقع پر ملک کی مختلف دانش گاہوں کے ریسرچ اسکالروں نے حسین الحق کے حوالے سے مقالات پیش کئے۔ ان میں انجم پروین، محمد فیصل، سجاد احمد، صبیحہ خاتون، صائقہ غیاث، سومی پروین، حرا قمر، ترنم آرا، محمد عادل اورشافع انوار الحق شامل ہیں۔
دیگر شرکاء میں پروفیسر حسین الحق کی اہلیہ محترمہ نشاط اسرار،ونوبا بھاوے یونیورسٹی،ہزاری باغ جھارکھنڈ کے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر زین رامش،مرزا غالب کالج میں کامرس کے استاذپرویز وہاب،پروفیسر حسین الحق کی صاحبزادی ڈاکٹر ایما حسین اور ایمن نشاط، شعار نازش، پروفیسر حسین الحق کے چھوٹے صاحبزادے ڈاکٹرشعور نازش کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں نے بھی آن لائن پروگرام میں شرکت کی۔
قومی اردو کونسل کے زیراہتمام ’ہندوستان کے لسانی تنوع میں مادری زبان کی اہمیت‘ پر مذاکرہ
نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیراہتمام انڈیا انٹرنیشنل سینٹر نئی دہلی میں مشہور تمل شاعر، مصنف، صحافی اور مجاہد آزادی سبرامنیا بھارتی کے یومِ پیدائش کے موقعے پر بھارتیہ بھاشا اُتسو کی مناسبت سے ’ہندوستان کے لسانی تنوع میں مادری زبان کی اہمیت‘ پر مذاکرے کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقعے پر خیرمقدمی کلمات پیش کرتے ہوئے قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ جو اپنی مادری زبان بھول گیا وہ گویا مرچکا ہے۔ مادری زبان ہمیں اپنی تہذیب و تاریخ اور افکار و اقدار سے جوڑے رکھتی ہے۔ انھوں نے اس موقعے پر مہاکوی سبرامنیا بھارتی اور بھارتیہ بھاشا اُتسو کے حوالے سے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ سبرامنیا بھارتی ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی ایک روشن علامت تھے اور انھوں نے تمل زبان کو بہت سے شاہکار دیے جن میں ’بھگوت گیتا‘ کا تمل ترجمہ بھی شامل ہے۔ بیشتر مقررین نے اس خیال کا اظہار کیا کہ آج کی کثیر لسانی دنیا میں بھی اپنے تہذیبی و ثقافتی اقدار کے تحفظ اور زمینی جڑوں سے وابستگی کے لیے مادری زبان ضروری ہے۔ صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے پروفیسر انیس الرحمن نے کہا کہ زبانیں مرتی نہیں بلکہ تبدیل ہوجاتی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ مادری زبان کی بہت سی سطحیں ہوتی ہیں اور زبان کا تعلق تجربے سے بھی ہے۔ پروفیسر دھننجے سنگھ نے کہا کہ مادری زبان ہم سیکھتے نہیں اس زبان میں ہم پلتے ہیں۔ کچھ زبانیں ہوتی ہیں جن کو بنا بولے بول لیتے ہیں اور سن لیتے ہیں۔ پروفیسر روی پرکاش ٹیک چندانی نے کہا کہ بھارت کی مٹی کی بھاشاؤں میں ا یک طرح کا بہناپا ہے اور ہمیں تمام بھاشاؤں کی کھڑکیاں کھولنی چاہئیں اور ان کا آنند لینا چاہیے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اسیم بھاشا کا کوئی چھیتر نہیں ہوتا، کوئی علاقہ نہیں ہوتا۔ اور اسیم زبانیں ہی زندہ رہتی ہیں۔ پروفیسر خالد جاوید نے کہا کہ مادری زبان روح کی زبان ہوتی ہے، اگر ایک ہی زبان ہوتی تو سارا حسن ختم ہوجاتا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ تخلیقی زبان جو کہتی نہیں وہ بھی ڈسپلے کردیتی ہے اور یہ مادری زبان ہی ہے جس میں ہم خواب دیکھتے ہیں۔ پروفیسر اخلاق احمد آہن نے ہندوستانی زبانوں کے حوالے سے کہا کہ بیشتر زبانیں بولیوں سے زبان کی سطح پر آئی ہیں اور کچھ زبانیں برطانوی استعماریت کا شکار بھی ہوئی ہیں۔ اس موقعے پر تمام مہمانان کا گلدستے سے استقبال کیا گیا۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر عبدالباری نے کی۔ اس مذاکرے میں کونسل کے عملے کے علاوہ دہلی کی معزز شخصیات نے بھی شرکت کی۔
نئی دہلی:خطاطی ہمارا قدیم تہذیبی وعلمی ورثہ ہے۔ عربی، فارسی اور اردو میں اس کی روایت سیکڑوں سال سے موجود ہے۔ مختلف اساتذۂ فن نے اس میدان میں اپنی فنکاری کے نمونے پیش کیے اور زبان اور رسم الخط کو حسن و دلکشی عطا کی۔ اس قدیم اور گراں قدر ورثے کی بقا و تحفظ کے لیے اردو اکادمی، دہلی دوسالہ کتابت و خطاطی کورس چلاتی ہے۔ آج اردو اکادمی، دہلی کی جانب سے قمررئیس سلو جبلی آڈیٹوریم میں ایک روزہ خطاطی ورکشاب کا انعقاد کیا گیا جس میں ادارہ ادبیاتِ اردو، حیدرآباد کے معروف خطاط محمد عبدالغفار نے شرکت کی۔اس خصوصی ورکشاپ میں محمد عبدالغفار نے خطاطی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے طلبا کو اس فن کی اہمیت اور اس کے قواعد و ضوابط سے متعارف کرایا اور طلبہ کو نہ صرف قلم اور سیاہی کے استعمال کے اصول سکھائے بلکہ خطاطی میں جمالیات اور تجریدی طرز کے گرافکس کی اہمیت سے بھی متعارف کرایا۔انھوں نے طلبہ کو فنِ خطاطی کی تاریخ، مبادیاتِ اردو رسم الخط، حروف تہجی، دوحرفی جوڑ، سہ حرفی تا سات حرفی جوڑ، دائرے اور کشش اور نشست و لکھنے کے طریقے سے بھی واقف کرایا۔ اس موقع پر طلبانے خطاطی کی مختلف تکنیک اور جدید رجحانات پر سوالات کیے اور ماہر خطاط سے عملی مشقیں کیں۔
آج کے اس ورکشاپ میں تقریباً 40 طلبہ نے حصہ لیا جن میں اکثریت طالبات کی تھی۔ان کے علاوہ دہلی کے مختلف علاقوں میں خطاطی کے اساتذہ نے بھی شرکت کی جن میں جناب مشتاق احمد (مدرسہ زینت القرآن)،جناب محمد زبیر (صوفیہ این جی او)، قاری محمد اکرام اللہ (مدرسہ زینت القرآن) اور مفتی ریحان شامل تھے۔
کٹوارہ میں قومی اردو کونسل کا دو روزہ کیلی گرافی ورکشاپ اور کتابو ں کی نمائش
لکھیم پور/ نئی دہلی: لکھیم پور مہوتسو 2024 کے تحت کٹوارہ کیلی گرافی ورکشاپ میں قومی اردو کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی نے بھی شرکت کی۔ کٹوارہ میں دوروزہ کیلی گرافی ورکشا پ کا انعقاد 25 تا26 نومبر 2024 ہوا۔اس ورکشاپ میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ذریعے چلائے جارہے دوسالہ کیلی گرافی اورگرافک ڈیزائن سینٹر کے اساتذہ محمد اسلم رضابارہ بنکی، عبدالرحمن لکھنؤ، طعوف خان لکھنؤ، مشتاق احمد، زبیراحمددہلی اورعرشی کوہ نور فیروز آباد وغیرہ نے ورکشاپ میں شامل طالبات کو کیلی گرافی اورگرافک ڈیزائن کی تربیت دی، اس موقعے پر محترمہ شمیم قریشی ممبئی نے بھی طالبات کوکیلی گرافی کے متعلق اہم معلومات فراہم کی۔26 نومبر کونمائش کا افتتاح مشہور فلم ساز مظفرعلی ، امن گیری ایم ایل اے گولہ کھیری نے کیا۔ اس مہوتسو میں محترمہ درگاہ شکتی ناگ پال،ڈی ایم جناب ونود کمار،ایس ڈی ایم گولہ سکویرسنگھ تحصیلدارگولہ اور قومی اردو کونسل کے ریسرچ آفیسرانتخاب احمد بھی موجودتھے۔لکھیم پور مہوتسو 2024 میں قومی اردو کونسل کی طرف سے نمائش کتب (Book Exhibition)کا بھی اہتمام کیاگیا۔
نئی دہلی : اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتما م ادبی و ثقافتی سر گرمیاں لگاتار دہلی کے مختلف علاقوں میں منعقد ہوتی رہتی ہیں ۔ اکادمی ادبی سرگرمیوں کے علاوہ ہر سال ادیبوں کو ایوارڈ اور مصنفین کی کتابوں کو انعامات سے بھی نوازتی ہے ۔اردو اکادمی کا یہ بہت ہی اہم پروگرام ہوتا ہے جسے بہت ہی اہتمام سے دہلی سکریٹریٹ کے اندر منعقد کیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال ایوارڈ کا اور اس سال انعامات کا جلسہ اس اہم مقام پر منعقد ہوا ۔ اس سال گزشتہ تین بر سوں کے منتخب 44 کتابوں پر مصنفین کو اول دوم اور سوم انعامات کے لیے منتخب کیا گیا۔ جنھوں نے جلسہ میں شریک ہوکر اپنا انعام ، اکادمی کا نشان اور سند حاصل کیا ۔
پروگرام میں مہمان خصوصی کے طور پر جناب سوربھ بھاردواج وزیر برائے فن ، ثقافت والسنہ نے شرکت کی اور مصنفین و حاضرین سے مخاطب ہوتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ بہت ہی خوشی کی بات ہے کہ ہمارے درمیان آپ جیسے عمدہ مصنفین ہیں جن کی کتابوں کو آج کے الکٹرانک دور میں بھی بڑے شوق سے لوگ پڑھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ جیسے مصنفین کی حوصلہ افزائی کے لیے اردو اکادمی کتابوں پر انعامات دیتی ہے ۔
مہمان اعزازی وزیر برائے خوراک و رسد جناب عمران حسین نے مصنفین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان اچھی کتابیں لکھی جارہی ہیں اور ادبی حلقوں میں وہ بہت ہی زیادہ مقبول بھی ہورہی ہیں ۔اکادمی ثقافتی و ادبی پروگر ام جس تندہی سے کرتی ہے اس کے لیے بھی اکادمی مبارکباد کی مستحق ہے ۔
صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے اردو اکادمی کے وائس چیئر مین پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ کتاب کی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے اور بغیر کتاب پڑھے کام نہیں چلتا ہے۔ ایک کتاب پڑھنے کے بعد آدمی کی شخصیت وہ نہیں رہتی ہے جو کتاب پڑھنے سے پہلے ہوتی ہے ۔آپ تمام لوگ جو مختلف سرگرمیوں سے وابستہ ہیں لیکن قلم کی سرگرمی ہی ہے جو آپ کو مخصوص بناتی ہے ۔
استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے سکر یٹری اردو اکادمی محمد احسن عابد نے کہا کہ اکادمی جیسے ادارے اسی لیے قائم ہوئے ہیں کہ جو بھی اردو میں اہم خدمات انجام دے رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، آ پ تمام مصنفین جن کی کتابیں انعام کے لیے منتخب ہوئی ہیں مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
جلسہ تقسیم انعامات کتب میں جن مصنفین انعامات حاصل کیے ان میں پروفیسر توقیر احمد خاں’’ جدید اردو شاعری‘‘، جناب معصوم مرادآبادی’’ اردو صحافت :آغاز سے 1857 تک کا ایک مختصر جائزہ‘‘،جناب اسد رضا’’ طنزانچے‘‘ ، ڈاکٹر انا دہلوی ’’آبروئے غزل‘‘،ڈاکٹر ذاکر فیضی’’ نیا حمام ‘‘، ڈاکٹرراشدہ رحمن ’’ابتدائی دور کی ناول نگار خواتین‘‘، پروفیسر مینوبخشی’’ ابرِ کرم‘‘ ،ڈاکٹر عبدالباری قاسمی ’’تفہیم و تعبیر ‘‘، ڈاکٹر محمد نعمان خاں’’ فلسفۂ تعلیم ‘‘،جناب سہیل انجم’’ نقشِ برسنگ ‘‘،پروفیسر شہزاد انجم’’ اردو کے غیرمسلم شعرا اور ادبا‘‘ ،جناب انتظار نعیم’’ اُجالوں میں سفر‘‘،جناب معین شاداب’’ افکار و اظہار‘‘، ڈاکٹر تسنیم بانو’’ تحریکِ نسواں اور خواتین افسانہ نگار (جلد اول)‘‘،ڈاکٹر زاہد احسن’’ اردو شاعری میں حب الوطنی ‘‘، ڈاکٹر پرویز شہریار’’راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری‘‘، ڈاکٹر سید فیضان حسن’’ ادب و ثقافت ‘‘ ڈاکٹر ابراہیم افسر’’ رشید حسن خاں کی ادبی جہات ‘‘، ڈاکٹر نوشاد منظر’’غالب ہندی ادیبوں کے درمیان‘‘، ڈاکٹر شمع افروز زیدی ’’جنھیں میں نے دیکھا جنھیں میں نے جانا‘‘، محترمہ غزالہ قمر اعجاز’’ مجھے بھی‘‘،جناب اختر اعظمی ’’دیدہ ور‘‘۔پروفیسر شریف حسین قاسمی ’’حاصلِ تحقیق ‘‘،ڈاکٹر غلام یحییٰ انجم ’’ ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ‘‘، پروفیسر کوثر مظہری’’ جمیل مظہری فردنامہ ‘‘، جناب خورشید اکرم’’ رات کی بات‘‘، ڈاکٹر ریاض احمد ’’ تعلیم و تدریس کے عصری مباحث‘‘،ڈاکٹر امیر حمزہ’’ رباعی تحقیق ‘‘، جناب شاہد انور’’ اشارت‘‘،جناب محمد حیدر علی’’ جدید اردو افسانے کا فکری و فنّی منظرنامہ‘‘،ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا’’ایک ایسا بھی دور ‘‘،جناب طالب رامپوری’’ نئی امید کے پھول‘‘ ،جناب احمد علوی ’’عاشقِ دلباختہ ‘‘،محترمہ سیدہ نفیس بانو شمع ’’وقت مجھے لکھ رہا ہے‘‘، ڈاکٹر سرفراز جاوید’’دیوانِ آبرو‘‘ ، ڈاکٹر شاہنواز ہاشمی’’ اردو صحافت (حقائق ، روایت اور امکانات)‘‘،جناب اشرف علی بستوی’’ کارپوریٹ میڈیا: ایک جائزہ‘‘مفتی عطاء الرحمن قاسمی’’نقوشِ خاطر‘‘ ،محترمہ شبنم آرا ’’بدلتے معاشرتی اقدار اور عورت‘‘، ڈاکٹر عرفان رضا’’ دہلی کے کتب خانوں میں اردو مخطوطات کا اشاریہ‘‘ کے اسمائے گرامی شامل ہیں-
پروگرام میں گورننگ کونسل کے ممبران علیم الدین اسعدی ، ڈاکٹر شبانہ نذیر ، ڈاکٹر محمد عارف، فیروز صدیقی ، مزمل خاں ، مولانا اسامہ کاندھلوی کے علاوہ پروفیسر خالد محمود ، ڈاکٹر ایم آر قاسمی ، ڈاکٹر خالد مبشر ، ڈاکٹر سلمان فیصل ، ڈاکٹر زاہد ندیم احسن سمیت وزارت کے افسران و کارکان ، معززین شہر ، شعرا و ادبا اور مصنفین کے اہل خانہ بھی موجود تھے۔
نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے صدر دفتر میں ‘موجودہ صورت حال میں اخوت کی اہمیت’ کے عنوان سے پینل ڈسکشن(Panel Discussion) کا انعقاد کیاگیا،افتتاحی تقریرکرتے ہوئے قومی کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے کہاکہ آئین ہمارے قانونی نظام کو سمجھنے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ یوم آئین اس لیے منایاجاتاہے تاکہ ہم جان سکیں کہ ہمارے حقوق کیاکیاہیں،آج کے اس پینل ڈسکشن کا مقصد یہ ہے کہ ہم لوگ قانون اورآئین سے زیادہ سے زیادہ واقف ہوسکیں۔ خواجہ عبدالمنتقم نے کہاکہ ہمارابھارت ایک ایساوسیع وعریض ملک ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے اورالگ الگ زبانیں بولنے والے صدیوں سے مل جل کررہتے آئے ہیں،انھوں نے کہاکہ جہاں تک Fraternity یعنی اخوت/ بھائی چارہ یابرادرانہ تعلقات کی بات ہے اس کی ضرورت کل بھی تھی،آج بھی ہے اورکل بھی رہے گی،یہ تو ہماری ہزار سالہ ثقافت کاحصہ رہی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ اسے ہمارے ملک کے آئین کی تمہید یعنی Preamble میں بھی شامل کیاگیاہے،انھوں نے مزید کہاکہ فریٹرنٹی کا تصور ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں،ہماراآئین ملک کے شہریوں کے الگ الگ رنگ وروپ کو تسلیم کرتاہے لیکن ان کی جداگانہ حیثیت کے باوجود انھیں مساوی حیثیت دیتاہے۔پروفیسر نزہت پروین خان ڈپارٹمنٹ آف لیگل اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنی گفتگو میں کہاکہ Preamble کانسٹی ٹیوشن کی روح ہے، اس کا ایک ایک لفظ ہمارے لیے رہنماکی حیثیت رکھتاہے،انھوں نے کہاکہ Fraternity ہندوستان میں ایک آئینی قدر ہے، جس کا مقصدآزادی اورمساوات کے ساتھ ہم آہنگی اوراتحاد قائم کرناہے حالانکہ بھائی چارے کا اصول جیساکہ ہندوستان کے آئین کی تمہید میں درج ہے اکثر انصاف،آزادی اورمساوات کی بنیادی اقدار میں سب سے کم زیربحث لایاجاتاہے،حالانکہ Fraternity کی اہمیت کاتقاضا یہ ہے کہ اس پر بھی اسی طرح بات کی جائے جس طرح دوسری اہم چیزوں پر بات کی جاتی ہے۔پروفیسر ظفر محفوظ نعمانی ڈپارٹمنٹ آف لاعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے کانسٹی ٹیوشن کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے آج کے موضوع پر بے حد اہم گفتگو کی، انھوں نے کہاکہ کانسٹی ٹیوشن بنانے والے حضرات بڑے فقیہ تھے اورانھوں نے پوری کوشش کی کہ ہندوستان کے لیے ایک ایساجامع قانون تیار کیاجائے جس میں سب کے لیے یکساں مواقع ہوں، اس کے لیے ان حضرات نے دنیاکے تمام آئین کا بغور مطالعہ کیااورجو چیز اچھی لگی اسے ہندوستان کے کانسٹی ٹیوشن میں شامل کیا۔ اس پروگرام کا انعقاد یوم آئین کے موقعے پر کیا گیا۔ ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی، اسسٹنٹ ڈائرکٹر (اکیڈمک) نے مہمانان کا تعار ف کرایا اورشکریے کی رسم اداکی، اس پروگرام میں کونسل کا پوراعملہ موجود رہا۔
غالب اکیڈمی کے زیرِ اہتمام ڈاکٹر مشتاق صدف کی مرتبہ کتاب ’’کوثر مظہری: اسرار و آثار‘‘ کا اجرا
نئی دہلی : پروفیسر کوثر مظہری سے میرا رشتہ فکر و نظر ہی نہیں بلکہ مٹی کا بھی ہے۔ علم و ادب کے آسمان پر ان کی تابانی اور بلندی سے مجھے فطری خوشی اور فخر کا احساس ہوتا ہے، کیوں کہ ان کا تعلق میری مٹی اور میرے گاؤں سے ہے۔ ان خیالات کا اظہار غالب اکیڈمی، نئی دہلی کے زیرِ اہتمام ڈاکٹر مشتاق صدف کی مرتبہ کتاب ’’کوثر مظہری: اسرار و آثار‘‘ کی تقریبِ رسمِ اجرا میں وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر مظہر آصف نے بحیثیت مہمان خصوصی کیا۔ انھوں نے علاقائی زبان میں پروفیسر کوثر مظہری کے ساتھ غیرمعمولی اپنائیت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے دلکش بھوجپوری لب و لہجے سے محفل کو لالہ زار بنا دیا۔ اس موقع پر انھوں نے پروفیسر کوثر مظہری کی شال پوشی کی۔ صدارتی خطاب کرتے ہوئے بزرگ ادیب و شاعر اور سابق وائس چیئرمین دہلی اردو اکادمی پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ پروفیسر کوثر مظہری کی غیرمعمولی علمی و ادبی صلاحیتوں اور انتظامی استعداد کو دیکھتے ہوئے مجھے قوی توقع ہے کہ مستقبل قریب میں شیخ الجامعہ پروفیسر مظہر آصف کی سرپرستی میں وہ بحیثیت صدر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کو مزید علمی سربلندی عطا کریں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر مشتاق صدف نے پروفیسر کوثر مظہری کی شخصیت اور خدمات پر یہ اہم کتاب مرتب کرکے اردو دنیا اور بالخصوص ہم جامعہ والوں کو ایک بیش قیمت تحفے سے نوازا ہے۔ اس کے لیے ہم ان کے ہمیشہ احسان مند رہیں گے۔ پروفیسر خالد محمود نے ڈاکٹر مشتاق صدف کی شال پوشی کی۔ مہمان اعزازی سابق چیئرمین سی آئی ایل، جے این یو اور معروف ادیب پروفیسر انور پاشا نے کہا کہ پروفیسر کوثر مظہری کی شخصیت اقبال کے اس شعر کی مصداق ہے کہ ’’آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بیباکی/اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی‘‘۔ انھوں نے کہا کہ پروفیسر کوثر مظہری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ خود بھی اختلاف کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اختلاف کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ سابق صدر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مشہور ادیب پروفیسر شہزاد انجم نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر کوثر مظہری کی شخصیت اور تحریر دونوں ہی بے لاگ اور بے باک ہے۔ ان کا دائرہ شاعری، فکشن تحقیق اور تنقید پر محیط ہے۔ عہدِ حاضر کے ممتاز فکشن نگار پروفیسر خالد جاوید نے پروفیسر کوثر مظہری کو مزاحمت، بغاوت اور صداقت پسندی کا استعارہ قرار دیا۔ صدر شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی اور معروف نقاد پروفیسر ابوبکر عباد نے کہا کہ کوثرمظہری کی تحریر ان کی شخصیت ہی کا آئینہ ہے۔ وہ اپنی تخلیق، تنقید اور تحقیق کو مذہب، اخلاق اور تہذیبی اقدار کے محور سے وابستہ رکھتے ہیں۔ پروفیسر کوثر مظہری کے صاحبزادے نوجوان عالمِ دین مولانا سعد اللہ احسان ندوی نے پروفیسر کوثر مظہری کی شخصیت اور ان کے طریقۂ تربیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ہمیں مقلد محض بنانے کے بجائے ہمارے علمی و تنقیدی شعور کی افزائش کی ہے۔ بزرگ شاعر متین امروہوی نے اس موقع پر پروفیسر کوثر مظہری کی خدمت میں تہنیتی قطعہ بھی پیش کیا۔ تقریب کی نظامت کے فرائض مشہور شاعر اور ناظم معین شاداب نے انجام دیے۔ پروگرام کا اختتام غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد کے اظہارِ تشکر پر ہوا۔
اس موقع پر صاحبِ کتاب ڈاکٹر مشتاق صدف نے کتاب کے مشمولات کا تعارف پیش کرتے ہوئے اس کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر کوثر مظہری نے اپنے اعزاز میں منعقد کی گئی اس تقریب پر اپنے جذباتِ تشکر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری زندگی کا ایک جذباتی، یادگار اور ناقابل فراموش لمحہ ہے۔ اس کتاب میں پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی، پروفیسر ممتاز احمد خاں، پروفیسر قدوس جاوید، پروفیسر انیس الرحمن، پروفیسر شافع قدوائی، پروفیسر علی احمد فاطمی، پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین، پروفیسر خالد جاوید، پروفیسر شہزاد انجم، مرحوم پروفیسر مولا بخش سمیت درجنوں نئے پرانے ادیبوں کے مفصل مضامین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مشاہیر کے افکار و آرا میں پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر شکیل الرحمن، پروفیسر حامدی کاشمیری، پروفیسر قمر رئیس، پروفیسر شمیم حنفی، کمال احمد صدیقی ، فرحت احساس، پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر عین تابش اور حقانی القاسمی کے تاثرات بھی موجود ہیں۔
غالب اکیڈمی کی اس تقریبِ اجرا میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، جے این یو اور ڈی یو سمیت دہلی کے معزز ادیب، شعرا اور اسکالرز موجود تھے، جن میںثروت عثمانی، مظہر محمود، سیارہ خاتون، نگار عظیم، تسنیم کوثر،شاداں تخیل، انوارالحق تبسم، اے نصیب خان،حقانی القاسمی، سہیل انجم، شعیب رضا فاطمی،توحید خاں، سرورالہدیٰ،خالد مبشر، سید تنویر حسین، مشیر احمد،امتیاز وحید، ابوظہیر ربانی، عادل حیات، شاداب تبسم،علاء الدین خاں، جاوید حسن، محمد آدم، محمد اکرام، نوشاد منظرمحمد مرتضیٰ، محمد انظار، قرۃالعین، زاہد ندیم احسن، سلمان فیصل، ثاقب عمران، تبسم حیات، صبا نگار، عامر حسین، عبدالباری، اکرم ظفیر، خان محمد رضوان، حامد علی اختر، سمیہ محمدی، عظمت النساء، غلام علی اخضر، وسیمہ اختر، سفیر صدیقی وغیرہ شامل ہیں۔