نایاب حسن
پورے ملک میں این آرسی/سی اے بی کے خلاف احتجاج ایک پرزور آندھی کی شکل اختیار کرچکاہے،ایسا لگتاہے کہ اب یہ آندھی تھمنے والی نہیں ہے،یہ بل اب حکومت اور عوام کے درمیان آرپارکی جنگ میں تبدیل ہوسکتاہے۔اس کے خلاف ہندوستان ہی نہیں،عالمی سطح پر آوازیں اٹھ رہی ہیں،اقوامِ متحدہ سے لے کر انسانی حقوق کی تنظیموں تک کی طرف سے اسے ردکیاجارہاہے،فوری طورپر اس کے جواثرات مرتب ہوئے ہیں ان میں بنگلہ دیشی وزیر اور جاپانی وزیر اعظم تک کا دورہئ ہند ملتوی ہونا اور خود ہندوستانی وزیر داخلہ امیت شاہ کا اروناچل کا دورہ رد ہونا شامل ہے۔عالمی میڈیا میں کئی ایسی رپورٹس اور مضامین شائع ہوچکے اور ہورہے ہیں،جن میں اس بل کی قانونی و دستوری خامی پر پر زور بحثیں ہورہی ہیں۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ این آرسی اور مجوزہ شہریت ترمیمی بل کے خلاف احتجاج ابھی دوچار دن سے نہیں ہورہاہے،گزشتہ کئی مہینے سے ہورہاہے،البتہ اب سے ہفتہ بھر پہلے تک یہ شمال مشرقی ریاستوں آسام و تری پورہ و اروناچل وغیرہ میں ہورہاتھا اورجب سے پارلیمنٹ سے یہ بل پاس ہواہے،تب سے اس کا دائرہ پورے ملک تک پھیل چکاہے اورکل سے تو اس کی شکل ایک تحریک کی ہوچکی ہے۔متعدد سیاسی تجزیہ کار اسے ایک نئی سول نافرمانی تحریک سے بھی تعبیر کررہے ہیں،گویاہندوستان کوایک بار پھر سسٹم کے مظالم و زیادتی سے آزادی کے لیے پوری قوت سے میدانِ احتجاج میں آنا ہوگااور ایسا لگ رہاہے کہ یہ ملک اس کے لیے بالکل تیار ہے۔اگر اپوزیشن کی کوئی مرکزی پارٹی مثلاً کانگریس اس تحریک کو تمام تر دستیاب طاقت و قوت کے ساتھ اٹھاتی ہے،توعین ممکن ہے کہ اس کے لیے زندگیِ نو کا سامان ہوجائے اور گزشتہ چھ سال سے جس سیاسی بن واس کااسے سامنا ہے،وہ ختم ہوجائے۔کانگریس کو غالباً اس کا ادراک ہے؛چنانچہ اس کی طرف سے آج رام لیلامیدان میں ”بھارت بچاؤ“ریلی کا انعقاد کیاگیاتھا،جس میں سونیاوراہل اور پرینکاسمیت دسیوں دیگر کانگریسی لیڈران اور ہزاروں کی تعداد میں عوام موجودتھے۔امید کی جانی چاہیے کہ کانگریس اسی عنوان سے یہ ریلی ملک بھر میں کرے گی اور شہریت ترمیمی بل کے نقصانات اور اس کے خطرناک مضمرات و عواقب سے اس ملک کے عوام کو روشناس کروائے گی۔یہ بل تو سرے سے گاندھی جی کے نظریہئ ہندوستان کے خلاف ہے،اگر آپ مذہب کی بنیاد پر کسی کو ہندوستان کا شہری بنائیں گے یا اسے ہندوستان سے نکالیں گے،تویہ تو ہندوستان کے آئین و دستور کی اساس کے ہی منافی ہے۔اسی چیز کوبنیاد بناکر ملک کے بیشتر حساس شہری،دانشوران اور سماجی کارکن احتجاج کررہے ہیں۔
چند دنوں سے مسلمانوں کے احتجاج میں بھی تیزی آئی ہے،خصوصاً علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دارالعلوم دیوبندوغیرہ کے طلبہ کے احتجاجات کے بعد عام مسلمانوں کے درمیان اس بل کے تعلق سے جاننے،سمجھنے اور پھر اس کی مخالفت کرنے کاماحول بناہے، کل جمعہ کی نماز کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں جمعیۃ علماے ہندنے بھی اپنے طورپر احتجاج کیا،جنتر منتر پر ہونے والے احتجاج میں مولانا محمود مدنی بھی موجود تھے۔مسلمانوں کی طرف سے ہونے والے احتجاج میں ایک چیز جودیکھنے میں آرہی ہے اور وہ سراسر نقصان دہ ہے،وہ ہے خالص مذہبی جذباتیت کا اظہار اور احتجاج کے دوران نعرہئ تکبیر وغیرہ لگانا،گویاوہ کسی مذہبی میدانِ جنگ میں اترے ہوئے ہیں اور کفرواسلام کی معرکہ آرائی ہورہی ہے۔بھائی آپ تواحتجاج میں اب اترے ہیں،آپ سے کئی ماہ قبل سے تو غیر مسلم اس آگ میں کودے ہوئے ہیں، ذراشمال مشرقی ریاستوں کی خبر لیجیے،توپتاچلے گاکہ وہاں کے ہندوکس قوت اور بے خوفی کے ساتھ اس حکومت کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔احتجاج کرتے ہوئے نماز پڑھنے کی جو تصویریں سوشل میڈیاپر وائرل ہورہی ہیں اور ان پر جو”ایمان افروز“کیپشنز لکھے جارہے ہیں،وہ مسلمانوں کی ایمانی حرارت کوبھلے ہی تازہ کرنے والے ہوں،مگر سوشل پلیٹ فارم پر جب یہ چیزیں آئیں گی،توموجودہ زہرناک سیاسی ماحول میں ان کا منفی اثر مرتب ہونابھی یقینی ہے اور عین ممکن ہے کہ ان احتجاجات میں ”مذہبی روح“پھونکنے کی وجہ سے دھیرے دھیرے ہم میدان میں تنہارہ جائیں اور معاملہ ہاتھ سے جاتارہے۔آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایسے دسیوں سانحات رونما ہوچکے ہیں کہ ہم نے قومی،وطنی ودستوری ایشوز کومشرف بہ اسلام کردیااور اس کی وجہ سے ہمیں شرمناک ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ان موقعوں پر جذبات کی کھیتی کرنے والے بعض افراد اور جماعتوں کو توسرخیاں بٹورنے کا موقع مل جاتا ہے،مگر مجموعی طورپر مسلمان بری طرح پِٹ جاتے ہیں۔پس ہمارے ذہن میں یہ حقیقت اچھی طرح رہنی چاہیے کہ یہ بل صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے،کئی اعتباروں سے یہ ہندووں کے بھی خلاف ہے؛بلکہ یہ دراصل ہندوستان کی جمہوری روح،اس کی ہزاروں سال کی تہذیبی و انسانی روایت،گاندھی جی کے نظریہئ ہندوستان اورآزادہندوستان کے معماروں کے ذریعے تیارکردہ دستور کے خلاف ہے۔تمام تر احتجاجات اور احتجاجی نعروں کا زور اسی پر ہونا چاہیے۔یہ اسلام اور کفر کی جنگ ہرگزنہیں ہے،یہ جنگ اس بات کی ہے کہ ہندوستان ستر سال قبل اختیارکردہ سیکولرزم کی راہ پر چلے گا یامٹھی بھر فرقہ پرست اور تنگ نظرطالع آزماؤں کے ہاتھوں شکست کھاجائے گا!
قندیل
نایاب حسن
شہریت ترمیمی بل بالآخر دونوں ایوانوں سے پاس ہوگیا اور حکومت ملک کے ایک بڑے طبقے کو شہریت سے محروم کرنے یا اس کا ناطقہ بند کرنے کے لیے قانونی جواز حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔اس بل کا پارلیمنٹ میں پیش کیاجانااور پارلیمنٹ کے اجلاس کودیگر اہم موضوعات سے ہٹاکر اس میں الجھانا دراصل حکومت کی پالیسی تھی،حکومت نہیں چاہتی کہ اس ملک کے اصل مسائل منظر عام پر آئیں اور پبلک ڈسکشن کا حصہ بنیں۔جو لوگ ملک کے حالات و معاملات پرنگاہ رکھتے ہیں،انھیں اندازہ ہوگاکہ گزشتہ مہینے ڈیڑھ مہینے کے عرصے میں قومی سطح پر کئی مسائل سامنے آئے،جے این یو میں فیس بڑھوتری پر ہنگامے چل رہے تھے کہ دہلی یونیورسٹی کے ایڈہاک اور گیسٹ ٹیچروں کی رساکشی شروع ہوگئی،ادھر ملک بھر میں بے روزگاری و مہنگائی کا عفریت مسلسل اپنے پنجے گاڑے ہواہے،مگر ان تمام اہم ایشوز کو نظر انداز کرتے ہوئے حکومت نے اپنی ترجیحات کچھ اور طے کررکھی ہیں۔عوام سے جڑے مسائل و موضوعات سے اس حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں اور ایسی حکومت کو یقیناً عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی،جس کی اَساس ہی مذہبی منافرت پر قائم ہواورجسے اسی بنیاد پر ووٹ ملا ہوکہ وہ اس ملک کو ہندوراشٹربنائے گی۔یہ ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی کوحکومت اس لیے نہیں دی گئی کہ وہ ترقیاتی وفلاحی ایجنڈوں پر کام کرے گی،بی جے پی دراصل آرایس ایس کے اس دوررس منصوبے کے تحت برسرِ اقتدار آئی ہے،جس میں اکھنڈبھارت کی تشکیل اور ہندوراشٹرکے خواب کی تعبیر سرفہرست ہے اور اسے ووٹ بھی اسی منصوبے پر کام کرنے کے لیے ملتاہے۔
آسام میں پہلے این آرسی کانفاذہوا،جو لمبے عرصے سے اٹکاہوا تھا،اس میں انیس لاکھ لوگ اپنی شہریت کے دستاویزات فراہم کرنے سے رہ گئے،جن میں اتفاق سے زیادہ تعداد ہندووں کی تھی،اب بی جے پی کوایک نیاسیاسی حربہ ہاتھ آیااور امیت شاہ نے اپنی تقریروں میں کھلے عام یہ اعلان کرنا شروع کردیاکہ این آرسی سے باہر رہ جانے والے ہندو،سکھ،بودھ اور جین مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،انھوں نے مشرقی و شمال مشرقی ریاستوں میں کھلے عام یہ باتیں کہیں اور وہاں کے غیر مسلموں کے دلوں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت کا زہر گھولتے رہے۔اس کے بعدشاہ نے اپنی اس بات کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے سٹیزن شپ امینڈمینٹ بل تیار کروایا،جسے پارلیمنٹ کے حالیہ سیشن میں پیش کیاگیا اور ہزارہنگاموں کے باوجود اکثریت سے یہ بل پاس بھی ہوگیا۔دیکھنے والوں نے دیکھاکہ دونوں ایوانوں میں امیت شاہ کی تقریر حسبِ روایت جارحانہ،منتقمانہ اور رعونت سے لبریز تھی،انھوں نے واضح طورپر یہ کہاکہ پڑوس کے ملکوں میں اقلیتوں کے ساتھ ظلم کیاجاتاہے؛اس لیے ہندوستان انھیں پناہ دینا چاہتاہے؛حالاں کہ انھوں نے یہ بھی کہاکہ یہ بل شہریت دینے کے لیے ہے،کسی کی شہریت چھیننے کے لیے نہیں ہے،مگر شہریت دینے کی جو وجہ بتائی گئی،اس میں صاف طورپر مذہب کو اوپر رکھاگیا،یعنی پاکستان،بنگلہ دیش و افغانستان کے ہندو،سکھ وغیرہ کو ان کے مذہب کی وجہ سے پناہ دی جائیگی،جبکہ انہی ملکوں سے اگر مسلمان یہاں پناہ لینا چاہتاہے،تواس کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔حالاں کہ اگر ہندوستان ایک جمہوری سٹیٹ ہے اور یقیناً ہے،توپھر اس امتیاز وتفریق کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان کے پارلیمنٹ میں باقاعدہ پڑوس کی اقلیتوں کے حالات پر بحث ہوتی ہے اورانھیں پڑوسی ملکوں کے مظالم سے نجات دلانے کے لیے پناہ دینے کا قانون بنایاجاتاہے،مگر جب دنیاکے ممالک ہندوستانی اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف لکھتے /بولتے ہیں،تویہ حکومت اسے اپنا داخلی مسئلہ بتاکر ناقابلِ توجہ قراردے دیتی ہے،یہ سیاسی منافقت ہے یا مذہبی عصبیت و منافرت؟
اس قانون کے روبہ عمل آجانے کے بعد باہر سے آنے والے مسلمانوں کامسئلہ توچھوڑیے،پہلے سے جو ہزاروں روہنگیااور دیگر مسلمان یہاں پناہ گزین ہیں،ان پر تو قیامت ہی ٹوٹ پڑے گی۔وہ اپنے ملک بھی نہیں جاسکیں گے کہ انھوں نے ان ملکوں کوچھوڑاہی اس وجہ سے تھاکہ وہ ان کے لیے قابلِ رہایش نہیں رہے تھے۔اب ہندوستانی حکومت انھیں یا تو بزوروجبر ہندوستان بدر کرے گی یا انھیں ڈٹینشن کیمپوں کے حوالے کردیاجائے گا۔یہ ڈٹینشن کیمپ کیاہے اور کیسا ہوتا ہے،اس کی سب سے اندوہ ناک مثال ہمارے پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں موجودڈھائی لاکھ سے زائد وہ بہاری ہیں،جوانیس سو سینتالیس میں اسلامی مملکت کا خواب سجائے اپنے وطن کو چھوڑکر مشرقی بنگال کوچ کرگئے تھے اورجنھیں 1971میں غیر بنگالی ہونے کی بناپر نئے وجودپذیر ہونے والے بنگلہ دیش نے بھی قبول نہیں کیااور مملکتِ خدادادبھی انھیں اپنانے سے انکاری ہوگیا،بے چارے تب سے اب تک کیمپوں میں پڑے ہیں،رہتے اسی روئے زمین پر ہیں،مگر ان کا کوئی وطن نہیں ہے،ان کی دوتین نسلیں اسی بے وطنی کا کرب سہتے گزرگئیں اور مستقبل کا بھی کچھ پتانہیں۔اگر ہمارے ملک میں یہ نیاقانون بنتاہے،تویقیناً یہاں پناہ لینے والے ہزاروں مسلمانوں کیساتھ بھی یہی ہونے والاہے۔اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ صورتِ حال تب پیدا ہوگی،جب بہت سے اسی ملک کے شہری بعض کاغذات و دستاویزات کی نایابی کی وجہ سے غیر ملکی قراردے دیے جائیں گے اور انھیں بھی ان کیمپوں کے حوالے کردیاجائے گا۔جس حکومت میں کسی مسلم نام والے شخص کو سنسکرت تک پڑھانے کی اجازت نہ ہو،بھلے اس کا خاندان برسوں سے کیرتن بھجن گاتاچلاآرہاہو،وہاں آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کسی مسلمان کو غیر ہندوستانی ثابت کرنے کے لیے کتنی معمولی وجہ کافی ہوسکتی ہے۔
اس بل کے قانونی معائب و نقائص کو توچھوڑیے کہ اس پر بڑے بڑے ماہرین ِقانون لکھ اور بول رہے ہیں،مگر حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔بات اصل یہ ہے کہ امیت شاہ سال دوسال قبل یہ بات کہہ چکے ہیں کہ بی جے پی آنے والے پچاس سال تک حکومت میں رہے گی،اسی مقصد سے انھیں وزارتِ داخلہ سونپی گئی ہے۔اگر آپ اس سال کے عام انتخابات کے بعد کے سیاسی احوال پر نظر رکھتے ہوں،تو محسوس کیاہوگا کہ پہلے ٹرم میں جو توجہ اورمحوریت مودی کو حاصل تھی،وہ اب امیت شاہ کوحاصل ہے،بہ تدریج مودی پس منظر میں چئلے گئے ہیں اور اس کی وجہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران رونما ہونے والے چند نہایت متنازع،مسلم مخالف اور حساس واقعات ہیں۔سب سے پہلے اگست میں جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370کا تحلیل کیاجانا،جس کے بعد شدت پسندہندووں،اس ملک کے جانب دار و متعصب میڈیا اور حکومت نے مسلسل جشن منایا،مختلف شہروں میں بی جے پی کی طرف سے باقاعدہ ایسے پوسٹرزلگائے گئے،جن میں اس قسم کی باتیں لکھی گئیں کہ گویا بی جے پی نے کشمیر پر قبضہ کیاہے،اس کے بعد گزشتہ ماہ ایودھیاکیس کا فیصلہ اوراب سی اے بی بل کا پاس ہونا۔یہ سارے واقعات ایسے ہیں کہ اس ملک کے زیادہ تر اکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے دلوں میں ایک قسم کا احساسِ فتح مندی پیدا کرتے ہیں اورانھیں یہ لگتاہے کہ بی جے پی مسلمانوں کو دبائے رکھے؛بلکہ ملک بدرکردے،یہی کافی ہے،انھیں اورکچھ بھی نہیں چاہیے۔موجودہ ہندوستان میں تعلیم،صحت،روزگار وغیرہ کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا،انتہاپسندانہ سیاست کے عروج نے عوامی سائیکی اور اس ملک کے زیادہ تر شہریوں کے شعور پر مذہبی تعصب کا دبیزپردہ ڈال دیاہے،سو کچھ بعید نہیں کہ حالیہ قانون کے پاس ہوجانے کے بعد بی جے پی حکومت کی عمر میں مزید اضافہ ہوجائے۔
مگرمعاملہ ساراکاسارامایوس کن نہیں ہے کہ یہ ملک ہزاروں سال سے تنوعات ِ فکر و نظر کا مرکزرہاہے،سواس بل کے پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے کے پہلے دن سے ہی ملک کے حساس و بیدار طبقوں میں حکومت کے خلاف احتجاج کی ایک مضبوط لہر چل رہی ہے،یہ لہر پہلے پہل غیر مسلم دانشوروں اور مثقّف افراد سے شروع ہوئی اور اب تعلیمی اداروں تک پھیل چکی ہے۔قابل ذکرہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بھی پہلے سے شمال مشرقی ریاستوں کی یونیورسٹیوں میں اس بل کے خلاف زبردست احتجاج جاری ہے۔اب یہ احتجاج ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کرنے کی راہ پر گامزن ہورہاہے اور اسے ہر حال میں پورے ملک میں پھیلنا چاہیے۔بات صرف یہ نہیں کہ اس قانون کا نقصان مسلمانوں کوپہنچے گا،بات یہ ہے کہ یہ قانون اس ملک کی جمہوری روح کے منافی ہے۔مسلمان توخیر ستر سال پہلے ہی ہرحال میں یہاں رہنے کا فیصلہ کرچکاتھا،سووہ ذہنی و نفسیاتی طورپر ہر قسم کے سیاسی حربے کامقابلہ کرنے کے لیے تیارہے۔
نایاب حسن
مظفرپورکے ہسپتالوں میں چمکی بخارسے تپ کر مرنے والے معصوم بچوں کامعاملہ پورے ملک میں گرم ہوتاجارہاتھا،جس کی وجہ سے ایسالگنے لگاکہ دوسری اننگ کی شروعات میں ہی مودی اینڈکمپنی کوجھٹکالگ سکتاہے، مگرکمال چابک دستی سے اس حکومت نے وہ قدم اٹھایا، جس کے لیے اس ملک کی اکثریت نے اسے ووٹ دیاہےـ ایک قطعی غیرمتعلق ایشوکوپارلیمنٹ میں ڈسکشن کاموضوع بنایاگیا اورایک بارپھرتین طلاق سے متعلق بل کوپارلیمنٹ میں پیش کردیاگیاـ میڈیامیں ایک بارپھرمسلم خواتین کوانصاف دینے کی آوازیں گونجنے لگیں، سوشل میڈیاایک بارپھرمودی مَے ہوگیا،مودی ڈیڑھ سوبچوں کی لاشوں کو تین طلاق بل کے غلاف سے ڈھکنے میں کامیاب رہےـ ان کے ووٹروں میں یہ پیغام گیاکہ مودی مسلمانوں کوچھوڑنے والانہیں ہے اوروہ اسی سے خوش ہیں ـ آناًفاناًمظفرپورمیں معصوموں کی اموات کی خبریں گم ہونے لگیں ـ اب نہلے پہ دہلاکے طورپرایک اور خبر جھار کھنڈسے آئی ہے، واقعہ 17جون کاہی ہے، مگرخبراب وائرل ہوئی ہے اوراس کاتعلق ماب لنچنگ سے ہے، تبریزانصاری نامی نوجوان کوایک بھیڑنے بچہ چوری کے الزام میں پکڑااورباندھ کرپیٹا، پھر پولیس کے حوالے کردیا، تھانے میں ہی اس کی موت ہوئی، مگر پولیس نے اپنے بچاؤ کے لیے مردہ کویہ بتاکر ہسپتال بھیج دیاکہ حالت نازک ہےـ یہ خبرآج دن بھر چھوٹی انگریزی وہندی نیوزویب سائٹس کے علاوہ کئی بڑی ویب سائٹوں پربھی چلتی رہی، سوشل میڈیاپرہندونوجوانوں کے جوکمینٹس آرہے ہیں اس واقعے پر، وہ مودی وشاہ کی نفرت انگیزجوڑی کی کامیابی کی دلیل ہیں ـ ایک نوجوان کوبے رحمی سے پیٹ پیٹ کر مارڈالاگیا، اب اس کے گھروالے قانون سے انصاف کامطالبہ کررہے ہیں، تولوگوں کولگتاہے کہ یہ لوگ ڈھونگ کررہے ہیں ـ لوگوں کی ہمدردی بھی بٹورناچاہتے ہیں اورمالی معاوضہ بھی حاصل کرنے کے چکرمیں ہیں ـ
ویسے مودی کے دوبارہ اقتدارمیں آنے کے بعدماب لنچنگ کایہ کوئی نیاواقعہ نہیں ہے، انتخابات کے نتائج آنے کے بعدسے ہی سلسلہ شروع ہوگیا تھا؛ بلکہ یوں کہیں کہ یہ سلسلہ رکاہی نہیں تھاـ دوبارہ پی ایم بننے کے بعداپنے خطاب میں مودی نے اقلیتوں کواعتمادمیں لینے کی بات کہی، جس پرہم خوش ہیں اورخوش ہوئے بغیرکوئی چارہ بھی نہیں ہےـ مگرحقیقت یہ ہے کہ مودی کے طریقۂ کارمیں فی الحقیقت کوئی تبدیلی نہیں آئی ـ مظفرپورکے اتنے عظیم سانحے پرکچھ ٹوئٹ کرنے، بولنے میں ان پرسکتہ طاری رہا، مگرشیکھردھون کے ورلڈکپ سے باہرہونے پرانھیں بہت دکھ ہوااورانھوں نے دھون سے اظہارِ ہمدردی میں ٹوئٹ بھی کیاـ بات ماب لنچنگ کی اگرکریں، تو2014-19کاعرصہ ہمارے ذہنوں میں ہوگا، کیسے کیسے سفاکانہ ووحشیانہ واقعات رونماہوئے، کس کس طرح جانورکوبچانے کے نام پرانسانوں کاشکارکیاجاتارہا، مگرمودی کے لبوں نے ہل کرنہیں دیا، سوہمیں اب بھی اس کی کوئی توقع نہیں ـ یہ جودرندے ہیں، یہ انہی کے لوگ ہیں، ان کی پارٹی سے سیاسی وابستگی رکھتے ہیں، اسی وجہ سے ان میں کاکوئی اگرکسی واقعے میں جیل جاتاہے، تومودی کے وزیراورایم پی اس سے اظہارِہمدردی کرتے ہیں، جب وہ جیل سے باہرنکلتاہے، تو مالا پہناکراس کی عزت افزائی کرتے ہیں اوراگرجیل میں مرتاہے، تواس کے جسم کوترنگے میں لپیٹ کرنذرِ آتش کرتے ہیں ـ
اب سے پہلے تواپوزیشن میں کم سے کم آوازلگانے کی طاقت تھی، مگراس بارتووہ فقط کراہنے لائق رہ گیاہےـ سوبظاہرمودی حکومت کے دوسرے پانچ سال کاپہلے سے بدترہوناتقریبایقینی ہےـ 2014 سے پہلے یہ سوچنابھی اچھانہیں سمجھاجاتاتھاکہ مودی پی ایم ہوں گے، 2019میں تونہ صرف مودی دوسری بارپی ایم ہیں؛ بلکہ امیت شاہ، جن کے بارے میں "تڑی پار "کی سیاسی اصطلاح ہندوستانی سیاسی حلقوں میں بہت مشہورہوئی تھی، وہ وزیرداخلہ ہیں ـ
الغرض دنیاکی اس سب سے بڑی جمہوریت میں اب جمہوریت کے علاوہ اورسب کچھ ہےـ اب ہراَنہونی، ہونی ہے، ہرناکردنی، کردنی ہے اورناگفتنی، گفتنی ہےـاب جس کوہوجان ودل عزیز، وہ گلے میں جتنی طاقت ہواس طاقت سے خود چیخے، چلائے، اب یہاں نہ کوئی اپوزیشن ہے، نہ میڈیاہے اورنہ وہ انسان، جنھیں انسانیت چھوکربھی گزری ہے،جودرست اورنادرست کوپرکھنے اوران میں تمیزکرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ـ اب ہندوستان میں صرف مودی وشاہ ہیں اوران کاوِراٹ سامراج ہے!!
نایاب حسن قاسمی
کہتے ہیں کہ ڈاکٹر مسیحاہوتاہے اور اس کے دستِ مسیحائی سے مریضوں کو زندگی ملتی ہے،مگر اِس وقت ہندستان میں جو صورتِ حال ہے،اس سے تو یہ معلوم ہوتاہے کہ ڈاکٹری بھی دیگر پیشوں کی طرح ایک پیشہ ہی ہے اور اس شعبے میں مسیحا نہیں،خودغرضوں، مفاد پرستوں اور شقیق القلب انسانوں کا جتھہ گھسا ہواہے،یہ وہی لوگ ہیں،جو لاکھوں لاکھ ڈونیشن دے کر میڈیکل کالجز سے اس لیے ڈاکٹری کی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں کہ باہر نکلتے ہی بھوکے بھیڑیے کی طرح عوام کو نوچ کھاناہے۔
کتنے افسوس اور شرم کی بات ہے کہ ایک طرف مغربی بنگال میں مرکزی حکومت کے ذریعے اسپانسرڈڈاکٹروں کے احتجاج کی حمایت میں ملک بھر کے ڈاکٹر ہڑتال پر ہیں اور دوسری طرف خود بی جے پی-جے ڈی یوکے زیر اقتدار صوبۂ بہار کے شہر مظفر پور کے ہسپتالوں سے ہر لمحہ معصوم بچوں کی اموات کی خبریں آرہی ہیں۔مرکزی حکومت سیاسی توڑ جوڑ میں مصروف ہے،وزیر مملکت برائے صحت اشونی چوبے اتنے سلگتے ایشو پر میڈیا پریفنگ کے دوران ہی جھپکیاں لینے لگتے ہیں،بہار کی این ڈی اے حکومت کے وزیر صحت منگل پانڈے مظفر پور کی خطرناک صورت حال کے جائزے کے لیے بلائی گئی ریاستی ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کی میٹنگ میں انڈیا-پاکستان میچ کی تازہ ترین صورت حال جاننے کو بے تاب نظر آتے ہیں اورمیچ کے بعد فوراً نہایت مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹوئٹ کے ذریعے جیت کی مبارکبادپیش کرتے ہیں،ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ اس جیت کو ایک اور ”اسٹرائک“ سے تعبیر کرتے ہیں، پورے ملک کے میڈیااور پبلک ڈومین میں روہت شرما کی سنچری کا غلغلہ ہے،جبکہ دوسری طرف انہی دنوں میں مظفر پور کے ایس کے ایم سی ایچ اور کیجریوال ہسپتال میں لگ بھگ 130بچے چمکی بخار میں تپ کر جاں ہار ہوچکے ہیں۔یہ سیاسی شقاوت و سفاکیت اور بر سر اقتدار قوتوں کی بے ضمیری کی نہایت گھناؤنی مثال ہے۔بارش نہ ہونے کی وجہ سے مظفر پورہی نہیں،اردگرد کے کئی اضلاع سمستی پور،ویشالی و چمپارن وغیرہ میں عجیب نفسانفسی کاعالم ہے،قلتِ تغذیہ کے شکاربچے بلک رہے، ان کے والدین ہسپتالوں کے چکر کاٹ رہے اور ڈاکٹروں کے آگے رو گڑگڑارہے ہیں،مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔قومی میڈیا اتنے عظیم سانحے کو نگل جانا چاہتاہے،پورا ملک اور اس ملک کی سواارب کی آبادی روہت شرماکے 140رنز پرخوشی خوشی130بچوں کی بلی دے رہی ہے۔الیکشن ابھی تازہ تازہ گزراہے،قریب کے دنوں میں کوئی الیکشن نہیں آرہا؛اس لیے وزیر اعظم سمیت ان کی پارٹی کے اشتراک سے بہارمیں قائم حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، وزیر اعلیٰ نتیش کمار متاثرہ خاندانوں کے لیے ساڑھ چارچار لاکھ روپے کے معاوضے کا اعلان کرکے مطمئن ہوچکے ہیں،انھیں اب تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ مظفر پور پہنچ کر متعلقہ ہسپتالوں کا جائزہ لیں، متاثرین سے ملاقات کریں اور ان کے تئیں اظہار ہمدردی کریں۔یہ ایسی صورتِ حال تھی کہ مرکزی حکومت کو فوراً ان ہسپتالوں کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان کرنا چاہیے، ان ہسپتالوں کودرپیش ڈاکٹرزاور وسائل کی قلت کے مسئلے کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی،مگر کسی کوکوئی فرق نہیں پڑتا۔
ریاستی وزیر منگل پانڈے،وزیر مملکت برائے صحت اشونی کمار چوبے اور مرکزی وزیر صحت ہرش وردھن مظفر پور کا دورہ کرچکے ہیں،مگر صورتِ حال محض دوروں سے کب قابومیں آتی ہے!انھوں نے وہاں پہنچ کررسمی یقین دہانی کروادی ہے کہ مسئلے کو قابو کیاجائے گا۔ اسی قسم کے واقعات سے یہ پتاچلتاہے کہ ہماری منتخب کردہ حکومت عوامی مفادات اور عوام کے مسائل کے تئیں کتنی سنجیدہ ہے اور اس حکومت کی ترجیحات کیاہیں۔بہت زیادہ عرصہ نہیں گزراکہ گورکھپور کے ایک ہسپتال میں گیس کی کمی کی وجہ سے ساٹھ سے زائد بچوں کی اموات ہوئی تھیں اور اس موقعے پر وہاں کی بی جے پی حکومت نے اپنی غلطی کو ماننے اوراس کی اصلاح کرنے کی بجاے ایک مسلمان ڈاکٹر کفیل کو سزادینے کا فیصلہ کیااور اسے جیل بھجواکر دم لیاتھا۔کیابہار کی نتیش کمارکی سربراہی والی حکومت بھی کسی ایسے ہی حربے کو اپنانے والی ہے؟ اس پورے معاملے میں سب سے زیادہ افسوسناک صوبائی و مرکزی حکومت کا رویہ ہے۔بہار میں توکسی دوسری پارٹی کی حکومت بھی نہیں ہے کہ بی جے پی اسے ذمے دار قراردے کر اپنا دامن جھٹک لے،وہاں توآپ ہی کی حکومت ہے،ایک طرف اندرخانہ مغربی بنگال میں ڈاکٹروں ہی کا سہارالے کر ممتابنرجی کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی جی توڑ کوشش کی جارہی ہے اور دوسری طرف اپنے زیر اقتدار ریاست میں ہسپتالوں کی حالت نہایت خستہ،ڈاکٹروں کی قلت اور وسائل علاج کی نایابی کی وجہ سے ہر دن بیسیوں معصوم بچے مررہے ہیں۔وزیر داخلہ پاکستان پر ہندستان کی جیت کی مبارکباد پیش کرتے ہیں،مگر انھیں مظفر پور میں جاری موت کے ہولناک کھیل پر دولفظ کہنے کی توفیق نہیں ملتی۔وزیر اعظم بھی ٹوئٹر پر اپنی نئی حکومت کا جشن منانے میں مصروف ہیں،ان کی طرف سے بھی ان سیکڑوں معصوم بچوں کی موت پران کے اہل خانہ سے تعزیت کاایک بول سننے کونہیں مل رہاہے۔
اصل بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں حکومتیں عوام کے لیے کام کرنے کے محض کاغذی دعوے کرنے کی عادی ہوتی ہیں،عملیت پسندی سے انھیں کوئی سروکار نہیں ہوتا،ان کے کام بھی زیادہ ترکاغذوں پر ہی نظر آتے ہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ چھ سالوں میں مودی اینڈ کمپنی کی بہ دولت یہاں سیاست و حکومت کا جو نیا ٹرینڈ قائم ہواہے،اس میں عوام کی حیثیت محض آلۂ کار کی ہوگئی ہے،مودی جی نے ہندستانی سیاست کا ڈھانچہ اور سانچہ بدل کر رکھ دیا ہے،دعویٰ تو کچھ ہے،مگر ان کی اصل سیاست جھوٹے راشٹر واد اور مذہب ی منافرت پر قائم ہے،2014میں بھی انھیں اسی بنیاد پر اس ملک کے عوام کے ایک طبقے نے سپورٹ کیاتھا اور اسی بنیاد پر وہ2019میں بھی وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں۔اب ہماری انتظامی و انتخابی سیاست میں عوامی مسائل،تعلیم، روزگار، صحت جیسے موضوعات کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں بچی،اب جو جتنا زیادہ راشٹر وادی ہوگا،اس کی سیاسی کامیابی کے چانسز اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔اس میں خود اس ملک کے عوام کے بھولے پن یا ان کے مذہبی جنون کا بھی دخل ہے،جب آپ نے ایک سیاسی جماعت کومحض راشٹر واد کے مسئلے پر مینڈیٹ دیا ہے، توآپ اس کی حکومت سے بہتر تعلیم،روزگار اور بہتر طبی وسائل کی فراہمی کا مطالبہ یا اس کی امید بھی کیسے کرسکتے ہیں؟نئے سیاسی منظر نامے کے تحت ہی ہمارے ملک کے نئے قومی میڈیاکا سیٹ اَپ ہواہے،جہاں پردہ،تین طلاق،آتنک واد،مسلمانوں کے تشٹی کرن،ان کی حب الوطنی، وندے ماترم گانے یانہ گانے جیسے موضوعات پر چوبیس گھنٹے مباحثے ہوتے اورٹی وی پینلسٹوں میں ہاتھاپائی ہوتی رہتی ہے،مگر اس میڈیاکے لیے گورکھپور یا مظفر پورجیسے سانحے کوئی اہمیت نہیں رکھتے،ان پر کسی مباحثے کی ضرورت نہیں؛بلکہ اس طرح کی خبروں کوجتنا زیادہ دبایاجائے،اتناہی اچھاسمجھاجاتاہے۔ سوشل میڈیاکا اوپن پلیٹ فارم ہمارے پاس موجود ہے،مگر فیس بک سے لے کر ٹوئٹر تک کھنگال ڈالیے،بڑے سیاسی تجزیہ کاروں سے لے کر چھوٹے موٹے سیاسی وسماجی ایکٹوسٹس کی پوسٹس اور ٹوئٹس کا جائزہ لیجیے،تو پتاچلے گا کہ ہر طرف تقریباًسناٹاہے،سب ہندوہردے سمراٹ کو تاجِ شاہی سونپ کر اگلے پانچ سال تک کے لیے گیان دھیان کی اَوَستھا میں چلے گئے ہیں،ایک ہولناک خاموشی ہے،سب کی زبانوں پر آبلے پڑگئے ہیں،چندایک کو چھوڑکر کوئی ان سیکڑوں معصوموں کے حق میں بولنے کوآمادہ نہیں۔بہار میں اہم اپوزیشن پارٹی آرجے ڈی ہے، مگر لالوکی غیبوبت میں ان کے جیالے تیجسوی یادوکی سرکردگی میں حالیہ لوک سبھا الیکشن کے دوران آرجے ڈی کو ایسی پٹخنی لگی ہے کہ یہ پارٹی اور اس کے لیڈرابھی تک اس کے کرب سے باہر نہیں نکل سکے ہیں،اپوزیشن پوری طرح ”مون“ ہے، گویاوہ زبانِ حال سے عوام کو یہ کہہ رہے ہیں کہ تم نے ہماری جگہ این ڈی اے کو ووٹ دیاتھا،تواب اس کا مزا چکھو!الغرض مظفر پور میں جاری موت کایہ کھیل،جو بہ تدریج پوری ریاست میں پاؤں پسارتا جا رہا ہے، نہایت ہی اندوہناک ہے اور یہ سانحہ جتنا عظیم ہے،اتنی ہی شرمناک اس کے تئیں ریاستی و مرکزی حکومتوں اور اپوزیشن کا رسپانس ہے، موجودہ حالات میں کچھ نہیں کہاجاسکتاکہ آنے والے چند دنوں کے دوران معصوم جانوں کے زیاں کایہ سلسلہ تھم سکے گایانہیں۔ ایک سوشل ورکرتمناہاشمی نے سی جے ایم کورٹ میں وفاقی وزیر صحت ہرش وردھن اورریاستی وزیر صحت منگل پانڈے کے خلاف شکایتی عرضی داخل کی ہے،جس میں انھوں نے حکومت پر الزام لگایاہے کہ اس نے اتنی بڑی تعداد میں بچوں کی اموات کو روکنے کے لیے عوامی بیداری کی مہم چلانے اوران کی اموات کے اسباب کی کھوج لگانے کے لیے ضروری ریسرچ کروانے میں سستی کا مظاہرہ کیاہے،سی جے ایم نے اس شکایت کوسننے کے بعد سماعت کی اگلی تاریخ24جون مقرر کی ہے،تب تک دیکھیے حالات کہاں تک پہنچتے ہیں!
نایاب حسن قاسمی
سیتامڑھی ہندستان کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے اورہندواساطیری روایات کے مطابق اسے مذہبی تقدس بھی حاصل ہے، ہندووں کی مخصوص زیارت گاہوں میں شامل ہے، اس کی بنیادی شناخت بھگوان رام کی بیوی سیتا کی جاے پیدایش کے طورکی پر جاتی ہے،بعد کے تاریخی ادوار میں اس کی حیثیتیں بدلتی بھی رہی ہیں۔فی الحال یہ صوبہئ بہار کاایک حاشیائی اورمجموعی طورپر سرکار،میڈیااور سماجی وانسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے نیشنل و انٹر نیشنل اداروں کی پہنچ سے دورایک پسماندہ ضلع ہے۔اس کے اپنے دُکھ ہیں اور اپنے آزار،جنھیں دوسرے توکیا،وہ لوگ بھی کم ہی سمجھتے ہیں،جن کی یہ جنم بھومی ہے، اس کی آغوش میں جنم لینے والے اس کے زیادہ تر فرزند ہندستان و بیرونِ ہند کے شہروں کی تعمیر و ترقی میں تو حصہ ڈالتے ہیں،مگر خود یہ ضلع عموماً اپنے سپوتوں کی ذہنی،فکری،علمی ومادی حصولیابیوں سے محروم ہی رہتا ہے۔مذہبی طبقات میں یہاں ہندواور مسلم آبادی نمایاں ہے،مسلمان تقریباً21فیصد ہیں،جبکہ ہندو76فیصد،پھر ان میں مختلف برادریاں ہیں،جن میں یادوسیاسی اعتبار سے فیصلہ کن پوزیشن میں ہیں،یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک سیتامڑھی لوک سبھا حلقے سے سب سے زیادہ یادوامیدواروں نے جیت درج کرائی ہے۔سیاسی اعتبار سے مسلمان بھی یہاں خاصے اثرانداز رہے ہیں؛ چنانچہ متعدداسمبلی حلقوں پر مسلم نمایندوں کا بول بالارہاہے،جن میں پوپری(سرسنڈ)اورسیتامڑھی جیسے اہم حلقے شامل ہیں،سرسنڈ سے موجودہ ایم ایل اے آرجے ڈی کے ابودجانہ ہیں۔ سیتامڑھی پہلے مظفر پور ضلع کا حصہ ہوا کرتا تھا،1972میں اسے مستقل ضلع بنایاگیا،پھر اس میں سے بھی کٹ کر ایک اور ضلع شیوہر1994میں بناہے۔
سیتامڑھی لوک سبھا حلقہ چھ اسمبلی حلقوں (بتھناہا،پریہار،سرسنڈ،باجپٹی،سیتامڑھی،رونی سیدپور) پر مشتمل ہے،اس حلقے میں کل ووٹرز 15,74,914ہیں،جن میں 8,32,370مرداور7,42,544خواتین ہیں۔آزادی کے بعد پہلی بار 1957میں سیتامڑھی لوک سبھا حلقے سے اچاریہ جے بی کرپلانی پرجاسوشلسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑکر ممبرپارلیمنٹ منتخب ہوئے،جے بی کرپلانی کا نام ہندستانی سیاست میں متعارف و مشہور ہے،وہ گاندھیائی طرزِ فکر کے پیرووں میں نمایاں ہیں،آزادی کے پرجوش سپاہیوں میں شامل تھے،آزادی سے قبل 1946میں میرٹھ میں اجلاس میں مولانا ابوالکلام آزاد کی جگہ انھیں کانگریس کا صدر بنایاگیا تھا،حالاں کہ آزادی کے بعد 1950میں پرشوتم داس ٹنڈن سے کانگریس کی صدارت کا الیکشن ہارنے کے بعد وہ کانگریس سے الگ ہوگئے،پھر اپنی سیاسی جماعت ”کسان مزدور پرجا پارٹی“ کے نام سے بنالی،اس پارٹی کاسوشلسٹ پارٹی آف انڈیا میں انضمام ہوگیااوراس کی کوکھ سے ایک تیسری پارٹی ”پرجا سوشلسٹ پارٹی“کے نام سے معرض وجودمیں آئی اور اسی کے ٹکٹ پر دوسرے لوک سبھا الیکشن میں کرپلانی سیتامڑھی سے منتخب ہوئے اور 1950کے بعد تاحیات(مارچ 1982) وہ اپوزیشن میں ہی رہے،حالاں کہ دوسری طرف ان کی بیوی سچیتاکرپلانی تاحیات کانگریس کی اہم لیڈر رہیں،یوپی کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بھی بنائی گئیں۔بہر کیف کرپلانی کی بھاری بھرکم شخصیت کے اعتبار سے آزاد ہندستان کی تاریخ کا یہ اہم پہلوہے کہ حیدرآباد(پاکستان)میں جنمے اور احمدآباد(گجرات)سے تعلق رکھنے والے جے بی کرپلانی سیتامڑھی(بہار)سے ممبرآف پارلیمنٹ منتخب ہوئے،اس انتخاب کی وجہ یقیناً ان کی قومی شہرت،جدوجہد آزادی میں سرگرم شرکت اوران کا بالابلند سیاسی قدتھا۔
اس کے بعدلگاتار تین بار (1962-71)ناگیندرپرساد یادوکانگریس پارٹی کے ٹکٹ پر یہاں سے ایم پی منتخب ہوتے رہے،ایمرجنسی کے بعد فوراً 1977میں جنتاپارٹی سے مہنت شیام سندر(بہاریونیورسٹی میں اقتصادیات کے سابق لیکچرروریڈراورمشہور ہندی ادیب رام وِرچھ بینی پوری کے داماد) منتخب ہوئے، 1980میں دیوراج ارس کی کانگریس پارٹی سے بلی رام بھگت، 1984میں کانگریس سے رام سریشٹھ کھریہر،1989میں جنتادل سے حکم دیونارائن یادو،1991اور1996میں جنتادل سے نول کشوررائے،1998میں آرجے ڈی سے سیتارام یادو، 1999میں جے ڈی یو سے نول کشور رائے،2004میں آرجے ڈی سے سیتارام یادو،2009میں ارجن رائے اور 2014میں رالوسپاسے رام کمار شرما سیتامڑھی سے ممبرآف پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔شرماجی اس سے پہلے دوبار نانپور سے مکھیارہے،2014میں اُوپندر کشواہا کی راشٹریہ لوک سمتا پارٹی این ڈی اے کا حصہ تھی اور مودی لہر میں پورے ملک میں بہت سے لوگوں کی قسمت چمکی،جن میں رالوسپااور رام کمار شرما بھی تھے۔الیکشن جیتنے کے بعد نہ تو پارلیمنٹ میں ان کی کارکردگی قابلِ اطمینان رہی،حالاں کہ پارلیمنٹ میں ان کی حاضری 92فیصد رہی،جو قومی شرح 80فیصداورریاستی شرح 87فیصدکے بالمقابل بہتر ہے،مگربحثوں میں ان کی حصے داری نہایت معمولی محض27 فیصدہے،جبکہ قومی سطح پر ممبران پارلیمنٹ کی حصے داری67فیصد اور ریاستی سطح پر 58 فیصد ہے،پارلیمنٹ میں ان کے ذریعے دریافت کیے گئے سوالات کی تعداد204ہے،جس کی نیشنل شرح292اور ریاستی شرح197ہے،یعنی رام کمار شرما کے سوال پوچھنے کی شرح ٹھیک ٹھاک ہے۔یہ تو پارلیمنٹ کے اندر کی بات ہوئی،اگر ہم رام کمار شرما کے زمینی کاموں کا جائزہ لیں اور اپنے رائے دہندگان سے ان کے رابطے اور ان تک پہنچنے،ان کے مسائل کو سننے اور سمجھنے کی ان کی کوششوں کی تحقیق کریں،تو اس معاملے میں رام کمار شرما کی کارکردگی نہایت مایوس کن ہے،ایسا لگتاہے کہ چوں کہ ان کی جیت مودی لہر میں ہوئی تھی؛اس لیے جیتنے کے بعدوہ بس خوشی ہی مناتے رہ گئے، انھوں نے نہ تو الیکشن کے دوران کچھ زیادہ محنت کی اور ایم پی بننے کے بعد تو خیر کیاکرتے۔مودی حکومت میں پھیلنے والے سماجی زہر کا اثر سیتامڑھی میں بھی نظر آیا اور گزشتہ سال کے اخیر میں خاص سیتامڑھی شہر کے آس پاس کے علاقے میں بھیانک فرقہ وارانہ جھڑپیں ہوئیں،جن میں ایک اسی سالہ بوڑھے کونہایت وحشیانہ طریقے سے مار ڈالا گیا، اس سارے سلسلہئ واقعات پر مختلف سماجی گروپس نے اپنے اپنے طورپر حکومت کے خلاف احتجاج کیا،نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر اس واقعے کے خلاف احتجاجی تحریک چلائی،پھر متعدد لیڈنگ نیوزچینلوں اور اخبارات نے اس واقعے پر خصوصی رپورٹنگ کی،تو ہلکا پھلکا اثر ہوا،مگر قابلِ ذکر ہے کہ اس سارے ایپی سوڈ میں سیتامڑھی کے ایم پی کہیں دوردورتک نظر نہیں آئے،حلقے میں ان کے ترقیاتی کام کابھی کوئی اتاپتانہیں ہے،عام طورپر لوگوں کو ان سے شکایت یہ ہے کہ وہ ایم پی بننے کے بعد کبھی حلقے میں نظر ہی نہیں آئے،یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں حلقے کے ایک گاؤں میں انھیں نوجوانوں کے زبردست احتجاج کا سامنا کرنا پڑا تھا۔مارچ میں ری پبلک ٹی وی نے ان کا ایک اسٹنگ آپریشن نشرکیاتھا،جس میں وہ کسی کارپوریٹ کمپنی سے متعلق پارلیمنٹ میں سوال کرنے کے عوض دس کروڑ روپے مانگ رہے تھے،بعد میں جب رپورٹر نے انھیں ایک ہوٹل میں گھیرا،تو بے چارے بری طرح سٹپٹا گئے تھے،کوئی جواب ہی نہیں بن پارہاتھا۔
اس بار کے الیکشن میں صورتِ حال2014کے بالمقابل بالکل ہی مختلف ہوگئی ہے،مودی لہر اب نایاب ہے،دوسرے یہ کہ کشواہاکی پارٹی اب مہاگٹھ بندھن کا حصہ ہے یعنی آرجے ڈی،کانگریس وغیرہ کے اتحاد میں شامل ہے اور سیتامڑھی حلقے میں چوں کہ یادوووٹ سب سے زیادہ ہے،سو یہ آرجے ڈی کے حصے میں گئی ہے اور اس نے ڈاکٹرارجن رائے کو ٹکٹ دیا ہے۔ارجن رائے پہلی بار2005میں جے ڈی یو سے ممبر اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور2009میں اسی پارٹی سے سیتامڑھی سے ایم پی بنے تھے،2014کی مودی لہر میں تیسرے نمبر پرکھسک گئے تھے۔آدمی ٹھیک ٹھاک لگتے ہیں،تعلیم یافتہ ہیں،پہلی مدتِ کار میں کام بھی کروائے تھے،ایک مقامی صحافی سے انٹرویو میں انھوں نے کہاہے کہ وہ سیتامڑھی میں صحت،تعلیم اور صنعت کے شعبوں میں کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں،اس ضلع میں یہ تینوں شعبے واقعی نہایت خستہ حالت میں ہیں،علاج کے لیے عموماً دربھنگہ اور پٹنہ اور تعلیم وروزگار کے لیے تو پتانہیں یہاں کے لوگوں کو کہاں کہاں جانا پڑتا ہے،بدعنوانی ویسے تو ہمارے پورے سسٹم کو جکڑے ہوئی ہے،مگرسیتامڑھی چوں کہ ہر اعتبار سے مین سٹریم سے کٹا ہوا ہے،جس کی وجہ سے عموماً میڈیا کی بھی یہاں تک رسائی نہیں ہوتی؛چنانچہ ضلع انتظامیہ سے لے کر پولیس تھانہ کے افسران اور بلاک سے لے کر گرام پنچایت کے مکھیا اور وارڈ ممبران تک ہر سرکاری کام میں بے حساب من مانی کرتے ہیں،عام لوگوں کو معمولی سے معمولی کام کروانے کے لیے بھی متعلقہ سرکاری نمایندے کی جیب گرم کرناپڑتی ہے۔ضلع کی ترقی کے لیے ان تمام مسائل کا گہرائی سے جائزہ لینا اوران کے حل کی کوشش کرنا نہایت ضروری ہے۔
امید ہے کہ ارجن رائے اس بار سیٹ نکال لیں گے؛کیوں کہ یادوووٹ تو انھیں ملے گاہی،مسلمانوں کے پاس بھی ان کے علاوہ کوئی اور متبادل نہیں ہے؛اس لیے مسلمانوں کاووٹ بھی زیادہ تر ارجن رائے کو ہی جائے گا،اسی طرح دوسری برادریاں،جن میں خاص طورپر ہندوپسماندہ برادریاں (موسہر،ملاح وغیرہ) شامل ہیں،ان کاووٹ بھی گٹھ بندھن کی وجہ سے ارجن رائے کو ملنے کا امکان ہے،حالاں کہ بیک وارڈبرادریوں میں سے ایک بڑا طبقہ ایسابھی ہے،جو بی جے پی یا این ڈی اے کی طرف اپنا رجحان رکھتا ہے۔بہرکیف اگر ارجن رائے کامیاب ہوتے ہیں،تو جس قسم کے عزائم کا اظہار انھوں نے کیاہے،ہم امید کریں گے کہ وہ ان کو زمینی سطح پر اتارنے کی بھی کوشش کریں۔معاشی و سماجی بدحالی کے علاوہ ایک نیا مسئلہ سیتامڑھی میں پھر سے سرابھار رہاہے اور وہ ہے فرقہ وارانہ منافرت کے بڑھتے رجحانات،اس ضمن میں بھی انھیں خاص کام کرنے کے ساتھ سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے بہت منظم جدوجہد کرنی ہوگی۔این ڈی اے میں یہ سیٹ جے ڈی یو کے حصے میں آئی ہے،اس نے پہلے مقامی ڈاکٹر ورون کو ٹکٹ دیا تھا،مگر انھوں نے منع کردیا،تو آناً فاناً بی جے پی کے ممبر اسمبلی سنیل کمار پنٹو کو جے ڈی یو میں شامل کرکے ٹکٹ دے دیاگیا ہے۔ان کے لیے انتخابی پرچار کرنے بی جے پی صدر امیت شاہ سیتامڑھی پہنچے تھے، 28اپریل کو ان کی ریلی تھی،پون گھنٹے کی تقریر میں ہوابازی ہی کرتے رہے،سیتامڑھی کے مسائل یا اس کی ضرورتوں پر بہ مشکل دوچار جملے بولے ہوں گے، سارازور راشٹرواد،موی مودی،پلواما اور فوج وغیرہ پر رہا اور اس بار بی جے پی تو پورے ملک میں انہی موضوعات پر الیکشن لڑرہی ہے،وجہ یہ ہے کہ گزشتہ پانچ سال کے عرصے میں مودی حکومت نے حقیقی معنوں میں کوئی ایسا کام کیاہی نہیں،جسے عوام کے سامنے پیش کرکے ان سے ووٹ مانگ سکے۔امیت شاہ سیتامڑھی ریلی کے دوران مودی حکومت میں شروع کی گئی یوجناؤں کی ایک لسٹ لے کر گئے تھے اور بڑے مضحکہ خیز انداز میں انھوں نے اس لسٹ کو پڑھ کر سنایا،جس پر بی جے پی حامی حاضرین اچھلنے لگے،ان کی پون گھنٹے کی تقریر بونگیوں اورتضادبیانیوں کا’’شاہکار“تھی۔
نایاب حسن قاسمی
پلواما میں خود کش حملے کے دوران 40؍سی آر پی ایف کے جوانوں کے مارے جانے کے بعد سے مسلسل مودی حکومت پر دباؤ تھا کہ پاکستان سے سخت بازپرس کی جائے یا اس حملے کا بدلہ لیاجائے بالآخر منگل26؍فروری کی صبح یہ خبر آگئی کہ ہندوستانی ایئر فورس کے’’میراج2000‘‘نامی بارہ جنگی طیاروں نے صبح ساڑھے تین بجے کے وقت پاک مقبوضہ کشمیر کے بالاکوٹ میں جیش محمد کے تربیتی کیمپوں پرلگ بھگ ایک ہزار کلو وزن کی بمباری کی اور ہندوستانی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق لگ بھگ دوسودہشت گردوں کو مار گرایا،جبکہ پاکستان آرمڈ فورس کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے وہاں کے میڈیاکو بتایاکہ بالاکوٹ کے نزدیک مظفر آباد کے علاقے میں ہندوستانی طیارے دیکھے توگئے تھے،مگر ان کا بروقت اور مؤثر پیچھا کیاگیا،جس کے بعد وہ فوراً ہی لوٹ گئے اور لوٹتے وقت اپنا’’بوجھ‘‘ہلکاکرتے گئے،جودھماکہ خیز اشیاکی صورت آبادی سے خالی علاقوں میں گراہے اور اس سے ایک بھی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا ہے؛حالاں کہ دوسری طرف پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے جوجوابی یا دفاعی حملے کے سلسلے میں بیانات سامنے آئے ہیں ،ان سے معلوم ہوتاہے کہ ہندوستانی فضائیہ نے واقعی اپناکام کردیاہے اور پاکستان یہ تسلیم کرنے سے کترارہاہے ؛کیوں کہ پھر اسے یہ بھی ماننا پڑے گاکہ اس نے دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے ۔
اس کے بعد ہندوستان کے صحافتی اور سیاسی حلقوں میں خوشی و مسرت کا اظہار کیاجارہاہے اور ایسا کہاجارہاہے کہ ہندوستانی فوج نے پاکستان کو منہ توڑ جواب دیاہے اور عام شہریوں کو نقصان پہنچائے بغیر سیکڑوں دہشت گردوں کو نیست و نابود کردیاہے،جو ایک بڑی حصول یابی ہے۔ہندوستانی خارجہ سکریٹری وجے گوکھلے نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ خفیہ اطلاعات کی بنیادپرہندوستانی فضائیہ نے بالاکوٹ میں واقع جیشِ محمد کے سب سے بڑے کیمپ پر حملہ کیا ہے،ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہندوستان کو درپیش ممکنہ خطرے کے پیشِ نظر جیشِ محمد کے کیمپ پر کی جانے والی یہ ایک ’’غیر عسکری‘‘کارروائی تھی اور یہ پیش نظر رکھاگیا تھا کہ شہری ہلاکتوں سے بچا جائے،ان کے مطابق یہ حملہ گھنے جنگل میں پہاڑ کی چوٹی پر واقع ایک کیمپ پر کیا گیا، جو شہری آبادی سے کافی دور تھا۔ان کایہ بھی کہناتھا کہ اس آپریشن میں بڑی تعداد میں جیشِ محمد کےممبران، تربیت دینے والے سینیئر کمانڈرزاور دہشت گرد،جو فدائی حملوں کے لیے تیار کیے جا رہے تھے، ہلاک کر دیے گئے۔پاکستان نے فورااس سارے واقعے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی ہے اور منگل کو دن میں وزیر اعظم عمران خان نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی،وزیر دفاع پرویز خٹک اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ اعلیٰ سطحی میٹنگ کی ،جس میں انھوں نے یہ طے کیاہے کہ اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھایاجائے گا،خصوصاً اقوام متحدہ،اوآئی سی اور دوست ممالک سے پاکستان بات کرے گا۔شاہ محمود قریشی کایہ بھی کہناہے کہ پاکستان بھی جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے-عمران خان کہتے ہیں کہ وقت اورجگہ کاانتخاب اب وہ کریں گے،وہ19؍فروری اور اس کے بعد کے اپنے بیان میں کہہ چکے ہیں کہ اگر ہندوستان کی جانب سے کوئی جارحانہ کارروائی ہوتی ہے،تو پاکستان جواب دینے کے بارے میں سوچے گا نہیں،جواب دے گا،اب پاکستانی میڈیا بھی وہاں کی حکومت پر یقیناً جوابی کارروائی کا دباؤ بنائے گی۔جیش محمد کے کیمپ کو تباہ کیے جانے کے ہندوستانی دعوے کو پاکستان شدت سے مسترد کررہاہے اوراس نے پاکستان میں موجودبین الاقوامی میڈیاکو موقعِ واردات کے معاینے کی دعوت دی ہے۔
ویسے یہ بہر حال حقیقت ہے کہ ہندوستانی فضائیہ نے حملہ کیاہے،البتہ اس حملے میں کس کااور کتنا نقصان ہواہے،اس بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتا ،بی بی سی نے جاے وقوع سے متصل علاقے کے ایک شخص کی ایک 55سکنڈکی ویڈیوجاری کی ہے،جس میں وہ بتارہاہے کہ صبح تین چار بجے کے قریب زور دار دھماکے کی آواز سننے میں آئی تھی ،پھر اچانک وہ آواز بند ہوگئی اور صبح کے وقت پتا چلاکہ چار پانچ مکانات کو نقصان پہنچا اور ایک آدمی زخمی ہوا ہے ۔اِدھر ہندوستانی حکومت خود توتفصیلات بتانے سے خاموش ہے،البتہ حکومت کے ترجمان مختلف صحافی نیوزچینلوں پر، ویب سائٹس پراور ٹوئٹر وغیرہ پر اطلاع دے رہے ہیں کہ سو،دوسو؛بلکہ تین سو دہشت گرد مارے گئے ہیں اوراس طرح پلواما سانحہ اب بی جے پی کے لیے ایک بہت بڑا انتخابیAdvantageثابت ہونے والا ہے،اس جوابی حملے کے بعد اب اپوزیشن کی جانب سے اس سوال کا بھی کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا کہ پلوامامیں فوجیوں کے قافلے پر ساڑھے تین سو کلو دھماکہ خیزمواد کے ساتھ حملہ کیسے ممکن ہوا؟اب یہ بھی پوچھنابے معنی ہوگا کہ جب پہلے سے حکومت کو خبر تھی کہ الیکشن سے قبل دہشت گردانہ حملہ ہوسکتا ہے،تو وہ سی آرپی ایف جوانوں کی سلامتی کے ساتھ شری نگر منتقلی کا انتظام کیوں نہ کرسکی؟ اب این ایس اے اجیت ڈوبھال پر سوال اٹھانا بھی بے معنی ہوگا،عین ممکن ہے کہ اب آنے والے الیکشن تک بات ہوگی،تو صرف مودی جی اوران کے چھپن انچ کے سینے کی، انوپم کھیروغیرہ جیسے’’ دیش بھکت کلاکار‘‘ تو ابھی سے آستینیں چڑھاکر ٹوئٹر پر کانگریسیوں،لیفٹسٹوں،لبرلز اور سیکولرز کی بینڈ بجانے میں سرگرم ہوچکے ہیں ،ایک صاحب نے ٹوئٹر پر لکھاہے کہ’’ چالیس جوانوں کے بدلے تین سو دہشت گردوں کوماردیاگیا،اسے کہتے ہیں ایک سر کے بدلے دس سر لانا اور یہ ہے نیا ہندوستان‘‘۔ مودی اور بی جے پی کے لیے انتخابی ریلیوں میں عوام کے سامنے پیش کرنے کے لیے یہ ایک ایسا موضوع ہے،جو اس الیکشن میں سرِ فہرست رہے گااور جیسا کہ یہاں کے عوام کی عادت ہے،بہت ممکن ہے وہ اسی معاملے پر بی جے پی کی حمایت کے لیے آمادہ بھی ہوجائیں۔ایسے میں اپوزیشن کے لیے ایک بار پھر بڑی آزمایش کا موقع ہوگا،ایک طرف خالص قوم پرستانہ جذبات کا اُبال ہوگا،تو دوسری طرف معاشی،سماجی و سیاسی سطح پر گزشتہ پانچ سال کے دوران برپامودی حکومت کے ذریعے برپاکی جانے والی تباہیاں ہوں گی، مودی اینڈ کمپنی چاہے گی کہ عوام کا ذہن صرف پلوامااور مابعد پلواما میں اٹکارہے،اپوزیشن والے اس سلسلے میں اب کوئی سوال بھی اٹھائیں گے،تو حسبِ روایت انھیں اینٹی نیشنل گینگ میں شامل کرنا آسان ہوگا؛لہذا اپوزیشن کو بڑی حکمت عملی کے ساتھ عوامی ذہن و رجحان کوملک کے اصل مسائل کی طرف پھیرنا ہوگا۔ویسے ابھی آنے والے دنوں میں پتانہیں اس جوابی حملے کے بارے میں بھی کیاکیا انکشافات سامنے آئیں ۔
پلواما حملہ اور اس کے بعد کے اب تک کے حالات کاایک تو ظاہر ہے،جو ہمیں نظر آرہاہے اور ہم اسی ظاہر کودیکھنے اور اس کے مطابق کوئی رائے قائم کرنے کے مکلف ہیں،مگر اس پورے ڈرامے کے پس منظر میں 2019ء کا جنرل الیکشن مرکزیت کاحامل ہے۔کئی تجزیہ کاروں کا یہ مانناہے کہ بی جے پی نے 2018ء کے اواخر میں اپنے ایک اہم انتخابی حربہ بابری مسجد۔رام جنم بھومی کو آزماناچاہا،مگراس میں کامیابی نہیں ملی اور خود اسی سے تعلق رکھنے والے کئی افراد اور جماعتیں بیزار ہوگئیں ،حتی کہ پروین توگڑیاجیسے ”کارگر” انسان بھی بی جے پی کے خلاف سیاسی محاذ آرائی کرنے لگے،تو اب یہ پلواما سانحہ پیش آگیا اور اب تو اس کا جواب بھی دے دیاگیا ہے،پی ایم مودی کا جوش قابلِ دید ہے،آج ہی راجستھان میں انھوں نے اپنا2014ء والا نعرہ دہرایاہے’’یہ دیش نہیں جھکنے دوں گا،یہ دیش نہیں مٹنے دوں گا‘‘ دوسری طرف مختلف شعبوں میں موجود ان کے بھکت اپنے کام پر لگ چکے ہیں،آگے آگے دیکھتے ہیں،کیاہوتاہے۔ویسے میرا جی چاہ رہاہے کہ کنال کامراکے ساتھ میں بھی مودی جی کو 2019ء کے الیکشن میں کامیابی کی پیشگی مبارکباد پیش کردوں!
نایاب حسن قاسمی
ماب لنچنگ نئے ہندوستان کانیاٹرینڈبن چکاہے، انسانی جانیں جانوروں پرنچھاورکرنے والاہندوستان دنیاکاپہلادیس ہے،تاریخ کے مختلف ادوار میں مذہبی منافرت وفسادات کا ہمارے یہاں ایک طویل سلسلہ رہاہے، مگرانسان نماوحشی شیطانی ہجوم کے ذریعے کسی بے بس انسان کومارڈالنے، پھراس کی لاش کے گردرقص کرنے، اس منظرکوویڈیومیں قیدکرنے اورسوشل میڈیاکے سہارےپوری دنیا میں نشرکرنے کی روایت بی جے پی کی نئی حکومت میں باقاعدہ شروع ہوئی ـ جب یہ صورتِ حال ابتدائی مرحلے میں تھی، تو قومی میڈیامیں ایک بے چینی پیداہوئی، سول سوسائٹی نے ہنگامے کیے، اخبارات میں ان خبروں کوبڑی کوریج ملی، مگراب اس پرپانچ سال کاعرصہ بیتنے کے بعدماب لنچنگ ایک معمول کاواقعہ بن چکاہے، حادثے ہورہے ہیں، جنونی بھیڑنہتھے انسانوں کاخون مسلسل پی رہی ہے،مگرایسالگتاہے کہ رفتہ رفتہ یہ سانحے ہمارے روزمرہ واقعات کاحصہ بنتے جارہےہیں؛ اس لیے میڈیاسے ان واقعات کی خبریں بہ تدریج غائب ہورہی ہیں، لوگ مطمئن ہوتے جارہے ہیں ـ ایسے میں معروف وسینئرصحافی اوردانشور محترم ضیاءالسلام صاحب نے ہمارے دل ودماغ کوجھنجھوڑنے اور ذہن وشعورپر دستک دینے کی بڑی تواناکوشش کی ہے، ان کی تازہ ترین کتاب Lynch Files: The Forgotten Saga of victims of Hate Crimeمجھے پڑھناچاہیے، آپ کوپڑھناچاہیے، سارے ہندوستان کوپڑھناچاہیےـ یہ کتاب نہیں، یہ موجودہ ہندوستان کاخونیں منظرنامہ ہے، جس کاہرگوشہ پرہَول ہے، لرزہ انگیزہے، ہیبت ناک ہے، ہمیں خوف زدہ کرتاہے، ہمارے حال ومستقبل پرسوالیہ نشان کھڑے کرتاہےـ خوف ودہشت کی بات اس لیے بھی ہے کہ ایسے جنونیوں کوکئی بار حکومت کی پشتیبانی اورمقامی پولیس کی حمایت حاصل ہوتی ہے؛ بلکہ اگرکوئی ماب لنچرجیل پہنچ جائے، تواس کی بیل کروائی جاتی اورحکومت کاوزیرپوری بے غیرتی کامظاہرہ کرتے ہوئےاس ننگِ انسانیت کے گلے میں پھول مالا ڈالتا نظر آتا ہےاوراگرایساشخص مرتاہے، تواس کی لاش کوترنگےمیں لپیٹ کرقومی اعزازکے ساتھ نذرِ آتش کیاجاتاہے:
آسماں راحق بودگرخوں بباردبرزمیں
آج اس کتاب کااجرانمایاں اہلِ فکر و دانش کے ہاتھوں انڈیا انٹرنیشنل سینٹرمیں ہواہے ـ سپریم کورٹ کے وکیل پرشانت بھوشن، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسراپوروانند،بزرگ صحافی جان دیال، جے این یوکی پروفیسر غزالہ جمیل اورنوجوان لیڈر جگنیش میوانی جیسے مختلف علمی وعملی شعبوں سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد نے اس کتاب کے پس منظروپیش منظرپرروشنی ڈالتے ہوئے جوباتیں کیں، وہ آج کے ہندوستان کی وہی زمینی حقیقت ہے جس کی طرف میں نے اشارے کیےـ آج کے مودی، امیت شاہ وآرایس ایس زدہ ہندوستان میں ان جیسےلوگوں کاوجودغنیمت ہے، جو سماجی مساوات، انصاف، جمہوریت اورقومی یکجہتی کے لیے ہرقسم کے اندیشوں سے بالاتر ہوکرسوچتے، بولتے، لکھتے اورعمل بھی کرتے ہیں ـ ضیاء السلام صاحب نے تقریبِ اجراکے آغازمیں اپنی کتاب کاتعارف کرواتے ہوئے بات دادری کے شہید محمداخلاق سے شروع کی، پھروہ گزشتہ سال جولائی میں اکبر(رکبر)خان کی شہادت کوبیان کرنے لگے، دونوں واقعات کے بعدکے شوراورسناٹوں کوانھوں نے اس کتاب کی تصنیف کی وجہ قراردیا، ان کے لہجے میں دردتھا، کرب تھا،احساس کی بےچارگی تھی اور وہ تکلیف، جوآج ہندوستان کاہرحساس وذمے دارشہری اس وقت بڑی شدت سے محسوس کرتاہے، جب ماب لنچنگ کے کسی واقعے میں کسی اخلاق، کسی پہلوخاں، کسی جنیدوغیرہ کوقتل کردیاجاتاہےـ یہ کتاب ہرہندوستانی کوضروربالضرور پڑھناچاہیے!
پروگرام کے اخیرمیں سامعین کوپانچ سات منٹ مہمانوں سے سوال کرنے کے لیے دیے گئے، جس کے دوران ایک صاحب نےمہمانوں سے پوچھاکہ موجودہ ناگفتہ بہ حالات میں قلم یاکتاب کی طاقت کس حدتک کارگرہوسکتی ہے؟ اس کے جواب میں جناب جان دیال نے حق پسنداہلِ قلم وصحافت کی پریشانیوں کاذکرکیااورکہاکہ حکومت اپنے خلاف کوئی تنقیدنہیں سنناچاہتی؛ اس لیےزیادہ تر یاتوبک چکے ہیں یاخوف زدہ ہیں، مگرکچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جوبے خوفی کے ساتھ اپنی صحافتی وسماجی ذمے داریاں پوری کرنے کی کوشش کررہے ہیں ـ اُس وقت میرے ذہن میں احمدفرازکے یہ اشعارگردش کررہے تھے، جویقیناضیاصاحب، جان دیال اوران جیسےانصاف پسندوحق نگاراہلِ قلم وصحافت پرصادق آتے ہیں:
مراقلم نہیں کردار اُس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصورکرکے ناز کرے
مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے
مرا قلم نہیں اوزار اُس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
مرا قلم نہیں اُ س دُزدِ نیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اُچھالتا ہے
مرا قلم نہیں تسبیح اُس مبلغ کی
جوبند گی کا بھی ہردم حساب رکھتا ہے
مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چہرے پہ دہرا نقاب رکھتا ہے
مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
جبھی تو لوچ کماں کی، زبان تیر کی ہے
میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبوں کی قسم
مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائےگا!
نایاب حسن قاسمی
جاننے والے جانتے ہوں گے کہ 2014میں عین الیکشن سے چند ماہ قبل سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے میڈیاایڈوائزرمسٹر سنجے بارو "دی ایکسیڈینٹل پرائم منسٹر "نامی کتاب منظرِ عام پرلائے تھے اوربی جے پی، جواس وقت انتخابی مہم میں فراٹے سے آگے بڑھ رہی تھی، اس کی رفتارکومزیدکئی پرلگ گئے تھےـ اب جبکہ چندماہ بعدسترہواں لوک سبھاالیکشن ہونے کوہے، تواسی کتاب کوصفحاتِ قرطاس سے پردۂ سیمیں پراتاراجارہاہے اورابھی ستائیس دسمبرکواس کاٹریلرہی ریلیزہواہے کہ ہنگامے برپاہوگئے ہیں، چندمنٹوں پرمشتمل یہ ٹریلرہی ایسا "جامع "ہے کہ اس سے پوری فلم کے اندرون میں جھانکا جاسکتاہے اوراسی وجہ سے مختلف سمتوں سے مختلف آوازیں اٹھ رہی ہیں ـ بنیادی طورپرکانگریس اس پرکسی رائے کے اظہارسے دامن بچاتی نظرآتی ہے، جبکہ اس کے دوسرے درجے کے؛ بلکہ بعض اول درجے کے لیڈران بھی اس فلم کوبی جے پی "سپانسرڈ” بتا رہے ہیں ـ اس فلم پردھماچوکڑی کاسلسلہ ٹوئٹرسے شروع ہواہے، جہاں سب سے پہلے بی جے پی کے آفشیل ٹوئٹرہینڈل سے اس کے ٹریلرکالنک شیئرکیاگیا اوراس پرنوٹ بھی لکھاگیاکہ اس فلم میں اس بات کاانکشاف کیاگیاہے کہ کس طرح مسلسل دس سال تک اس ملک کوایک مخصوص خاندان نے یرغمال بنائے رکھااورمنموہن سنگھ کواس وقت تک محض دکھاوے کے لیے وزیراعظم بنائے رکھاگیا، جب تک گاندھی خاندان میں کوئی اس عہدے کے لائق نہیں ہوگیاـ اس کے بعد بی جے پی کے ٹاپ کے لیڈروں نے اسے ری ٹوئٹ کیا، گویاباضابطہ بی جے پی کی جانب سے اس فلم کوپرموٹ کیاجانے لگا، اس کی وجہ ظاہرہے کہ مجموعی طورپر اس فلم میں کانگریس کاوہ چہرہ دکھا یاگیاہے، جسے دیکھ کرفلم کے ناظرین کانگریس سے متنفرہوسکتے ہیں، دورہوسکتے ہیں اورممکن ہے اس فلم کی وجہ سے آنے والے الیکشن میں کانگریس کونقصان اٹھاناپڑے، ظاہرہے کہ اسی امیدمیں بی جے پی باقاعدہ اس فلم کے ڈیجیٹل پرموشن میں لگ گئی ہے؛ حالاں کہ اس سلسلے میں کانگریس کامجموعی ردعمل یہ بھی سامنے آرہاہے کہ اس فلم کوبی جے پی ہی پروڈیوس کررہی ہے،
بی جے پی پرشک اس وجہ سے بھی کیاجارہاہے کہ اس فلم کے ڈائریکٹروجے گٹی اسی سال اگست میں 34کروڑکے جی ایس ٹی فراڈمیں جیل ہی ہواکھاچکے ہیں،اس کے باوجودایک حکمراں پارٹی، جوبدعنوانی کے خاتمے کی قسمیں کھاتی ہے، وہ اس کی فلم کی تشہیرکررہی ہےـ کانگریس کے میڈیاترجمان رندیپ سرجے والاکاکہنایہ ہے کہ بی جے پی مختلف شعبوں میں حکومت کی بوگس کارکردگی کے خلاف اٹھنے والے سوالات سے بچنے کے لیے اس فلم کی پرموشن میں لگ گئی ہے، ابھیشیک منوسنگھوی نے بھی ٹوئٹ کیاہے کہ بی جے پی ہی اس فلم کی پروڈیوسرہےـ
ادھرانوپم کھیر فلم پرہونے والے ہنگامے پرکہتے ہیں کہ میں نے اس فلم کے لیے جتنی محنت کی ہے، اتنی اپنے پینتیس سالہ کریئرمیں پانچ سوفلموں میں کام کے دوران نہیں کی، ان کولگتاہے کہ ان کی یہ فلم اتنی بڑی اوراہم ہے کہ اسے آسکرکے لیے نامزدکیاجاناچاہیے، وہ ریلیزسے پہلے فلم کی کسی قسم کی سپیشل سکریننگ کاسختی سے انکارکرتے ہیں، ان کاکہناہے کہ فلم کے ٹریلرکے لیے اورپوری فلم کے لیے باقاعدہ قانونی طورپرسینسربورڈسے اجازت مل چکی ہے؛ اس لیے ہم کسی کوسپیشل طورپردکھانے کے پابندنہیں ہیں،حالاں کہ ایک دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ انوپم کھیرجیسے لوگ ہی گذشتہ چندسالوں کے دوران ریلیزہونے والی کئی فلموں پربرپاہونے والے تنازعات میں دوسری انتہاپرتھے، پی کے، اے دل ہے مشکل، لویاتری، پدماوتی وغیرہ جیسی فلموں پرجواٹھاپٹک ہوئی، اس سے سب واقف ہیں ـ عدمِ برداشت کاجومسئلہ اب تک کانگریس یادوسرے اپوزیشن والے اٹھاتے رہے، وہی اب بی جے پی، انوپم کھیر،ان کی بیوی اورگودی میڈیااٹھارہاہے؛ بلکہ مدھیہ پردیش کی نئی کانگریس حکومت کوبیک فٹ پرپہنچانے کے لیے بعض چینلوں نے یہ افواہ بھی پھیلانے میں عارمحسوس نہیں کی کہ وزیراعلی کمل ناتھ نے ایم پی میں اس فلم کوبین کرنے کااعلان کیاہے، جبکہ حقیقتاً ایسی کوئی بات نہیں تھی ـ کچھ زیادہ چالاک لوگ راہل گاندھی کے پراے ٹوئٹس کے سکرین شاٹس کے حوالوں سے برداشت وعدمِ برداشت کے موضوع کوہوادیناچاہتے ہیں ـ
میرے خیال میں سب سے زیادہ موج سنجے باروکی ہے، کانگریس والوں کاکہناہے کہ یہ صاحب یوپی اے ون میں دوہزارچارسے دوہزارآٹھ تک وزیراعظم کے میڈیاایڈوائزرتھے، پھرجب الیکشن آیا، توچلے گئے اورجب دوبارہ یوپی اے کی حکومت آئی، توپھرآفس سنبھالنے پہنچ گئے، مگرانھیں ملازمت نہیں دی گئی، کانگریس کاتویہی کہناہے کہ دوبارہ کام نہ ملنے کی وجہ سے ہی انھوں نے وہ کتاب لکھی اوراس میں نادرست باتیں درج کردیں، جبکہ دوسری طرف کے لوگ اس کتاب کوایک "گھرکے بھیدی "کے انکشافات کے طورپردیکھتے ہیں اوران کامانناہے کہ اس میں درج تمام باتیں درست ہیں ـ بہرکیف باروتوفائدے میں ہیں کہ پہلے تووزیراعظم کامشیربن کر موج کرتے رہے، وہاں سے نکلے، توپانچ سال پہلے اسی وزیراعظم پر کتاب لانچ کرکے مال بنایا اوراب اس کے فلمی حقوق بیچ کرمال بنالیا،فی الجملہ سنجے باروایک انتہادرجے کے ابن الوقت، موقع پرست، طوطاچشم اور ناقابلِ اعتمادانسان نظرآتے ہیں ـ
اس پورے سیناریومیں سب سے دلچسپ کیریکٹرریئل ڈاکٹر منموہن سنگھ کاہے، بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں اور بارونے اپنی کتاب میں بھی یہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انھیں سونیاگاندھی نے وزیراعظم اس لیے بنایا کہ متعددوجوہ کی بناپروہ خودنہیں بن سکتی تھیں اوراس وقت اندرونِ گاندھی فیملی کوئی دوسراسیاسی جانشین اس قابل بھی نہیں تھا اور ڈاکٹرسنگھ نہایت شریف النفس اوربے ضررانسان تھے؛ اس لیے انھیں بلی کابکرابنادیاگیا؛ حالاں کہ دوسری طرف منموہن سنگھ کاکم وبیش نصف صدی کاسیاسی سفریہ تسلیم کرنے سے روکتاہے کہ وہ اس حدتک "بدھو "تھے کہ اپنے خلاف گاندھی فیملی کی سازشوں کوسمجھ ہی نہ سکے اورآسانی سے آلۂ کاربنتے چلے گئے ـ
اپنے اوپربننے والی فلم پرمیڈیاکے ذریعے پوچھے گئے سوال پرانھوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہااوران سے یہی توقع بھی کی جارہی تھی ـ مشہور صحافی راجدیپ سردیسائی نے ان کے اس رویے کو ان کے "لیجنڈ "ہونے کی علامت قراردیاہے ـ
بہرکیف اصل بات یہ ہے کہ چوں کہ بی جے پی اپنی مدتِ کارمیں بہترگورننس دینے کے معاملے میں بری طرح ناکام رہی ہے اوراسے خوداس حقیقت کاادراک ہوچلاہے؛اس لیے آنے والے چندماہ میں اسی قسم کے قطعی بیہودہ، بکواس اورعوامی مفادات سے غیرمتعلق قسم کے موضوعات پبلک ڈومین میں لانے اورانھیں برقراررکھنے کی کوشش کرے گی، 27 دسمبر کوپارلیمنٹ سے دوبارہ تین طلاق بل کاپاس کیاجانابھی اسی کاشاخسانہ تھا، اس بل کے جومقاصدواغراض حکومت بیان کرتی ہے، وہ اس صدی کااب تک کاسب سے دلچسپ "لطیفہ” قراردیاجاسکتاہے ـ ابھی جنوری میں ہی بابری مسجدکیس کی بھی سماعت شروع ہونے والی ہے، اس طرح کے دوچاراوربھی معاملے اٹھائے جاسکتے ہیں، میڈیاتومودی بھگتوں کی صف میں شامل ہے ہی؛ اس لیے رائی کوپہاڑبنانے کاعمل بڑی آسانی سے انجام دیاجاسکتااوریہ کامیاب بھی ہوسکتاہےـ
نایاب حسن
۱۱؍دسمبر کو آنے والے پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج نے ۲۰۱۹ء کے عام الیکشن سے قبل ہندوستانی سیاست کے ایک نئے انقلاب کا اشارہ دے دیاہے۔یہ اشارہ اس بات کا ہے کہ گزشتہ ساڑھے چار سال کے عرصے میں اس ملک کے عوام بی جے پی حکومت سے اوب چکے ہیں اور ذہنی طورپر وہ آیندہ انتخابات میں اسے باہر کا راستہ دکھانے کے لیے تیار ہیں،پانچ صوبوں میں سے دو ایسے صوبے تھے،جہاں بی جے پی گزشتہ پندرہ سالوں سے حکومت میں تھی اور چوتھی بار حکومت کے لیے پر جوش تھی،جبکہ راجستھان میں ۲۰۱۳ء میں برسرِ اقتدار آئی تھی اور بی جے پی والوں کو توقع تھی کہ وسندھراراجے دوبارہ راجستھان کی وزیر اعلیٰ ہوں گی،مگر نہ صرف یہ کہ ہندوتوکی زبردست تجربہ گاہوں مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کو شکست سے دوچار ہونا پڑا؛ بلکہ راجستھان میں بھی اسے پچھلے انتخابات کے بالمقابل خاصے نقصان کا سامنا کرنا پڑا،چھتیس گڑھ میں توبی جے پی آدھی سیٹیں بھی حاصل نہ کرسکی۔مدھیہ پردیش میں گوکہ کانگریس کو۱۱۴؍نشستیں حاصل ہوئیں اور وہ دوسیٹوں سے پیچھے رہ گئی،مگر دیگر پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کی حمایت سے وہ وہاں حکومت بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
حالاں کہ دوریاستیں ایسی بھی ہیں،جہاں بی جے پی اور کانگریس دونوں میں سے کسی کابھی حربہ کارگرثابت نہ ہوااور مقامی پارٹیوں نے بری طرح ان دونوں جماعتوں کو مسترد کردیا،جہاں میزورم میں مقامی میزورم نیشنل فرنٹ نے۲۶؍سیٹیں حاصل کیں،وہیں وہاں برسرِ اقتدار اور گزشتہ الیکشن میں ۳۴؍سیٹیں حاصل کرنے والی کانگریس محض پانچ سیٹوں پر سمٹ گئی اور بی جے پی کوتو محض ایک سیٹ پر صبر کرنا پڑا،کچھ یہی صورتِ حال جنوبی ہند کی نوتشکیل شدہ ریاست تلنگانہ میں بھی ہواکہ کے سی راؤکی تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کی لہر میں نہ تو بی جے پی کی فرقہ وارانہ پالیسی کامیاب ہوپائی اور نہ ہی کانگریس کے عظیم اتحاد کی تکنیک نے کام کیا،ریاست کی کل ۱۱۹؍سیٹوں میں سے۸۸؍سیٹ کے سی راؤ لے اڑے،کانگریس اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر محض۲۱؍نشستیں ہی حاصل کرسکی ،بی جے پی اپنی تمام تر زہر افشانیوں کے باوجود ایک نشست سے آگے نہ بڑھ سکی،ویسے یہ صورتِ حال بڑی دلچسپ ہے کہ کہاں یو گی آدتیہ ناتھ حیدرآباد میں ریلی کرتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے کہ اویسی کو یہاں سے اس طرح بھگادیں گے،جیسے نظام کو بھاگنا پڑا تھااور کہاں تو پوری پارٹی محض ایک سیٹ پرلٹک گئی،یوگی کے علاوہ بی جے پی کے دیگر اسٹار پرچارکوں اور خود وزیر اعظم نے بھی تلنگانہ میں عجیب و غریب قسم کی منافرت انگیز تقریریں کیں اور انھوں نے جی توڑ کوششیں کیں کہ وہاں کے عوام کو مذہبی خطوط پر منقسم کرکے کامیابی حاصل کرلیں،مگر یہ وہاں کے عوام کے سیاسی شعور کی بلندی اور بیداری کہی جائے گی کہ انھوں نے اس قسم کی ہفوات پر دھیان دینے کی بجاے اپنے بنیادی مسائل کو سامنے رکھ کر ووٹنگ کی اور ایک سیکولر اور بلا تفریق تمام مذاہب و فرقوں کے لیے کام کرنے والی سرکار میں اعتماد جتاکر کے سی راؤ کو دوبارہ تلنگانہ میں حکومت کرنے کا موقع دیا۔سیاسی مبصرین تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کی اس عظیم کامیابی کے پس پردہ مجلس اتحاد المسلمین کی حمایت کو بھی بڑی وجہ مان رہے ہیں ،اویسی برادران نے نہ صرف اپنی پارٹی کے امیدواروں کے حلقوں میں انتخابی مہم چلائی اور وہاں پہنچ کر تقریریں کیں؛بلکہ کے سی راؤکے امیدواروں کے حق میں بھی کھل کر کمپیننگ کی اور انھیں کامیاب کرنے کے لیے بھی مہم چلائی۔اس الیکشن میں حسبِ روایت مجلس نے اپنی ساتوں سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے اور اس کی وجہ عا م طورپر یہ بتائی جاتی ہے کہ ان حلقوں کے ممبرانِ اسمبلی اپنے عوام کے درمیان رہ کر کام کرتے ہیں،اس کے علاوہ اویسی برادران کا اپناایک سٹائل ہے عوام کے بیچ رہنے کا اور وہ بھی بے شمارلوگوں کواپنی طرف کھینچتاہے۔
میزورم اور تلنگانہ کے نتائج نے ایک خاص سیاسی پہلو کو اجاگر کیاہے اور وہ یہ کہ آنے والے عام انتخابات کے دوران مختلف ریاستوں کی مقامی پارٹیوں کا رول اہم ہوگا اور ان میں سے بھی ان پارٹیوں کی اہمیت زیادہ ہوگی،جوکہ ریاست کی سیاسی فضامیں اپنااثر و تاثیر رکھتی ہے،مثلاً تلنگانہ میں تلنگانہ راشٹریہ سمیتی اور مجلس اور میزورم میں میزورم نیشنل فرنٹ یا بہار میں جے ڈی یو اور آرجے ڈی اور یوپی میں بی ایس پی اور ایس پی،مغربی بنگال میں ٹی ایم سی اور کرناٹک میں اے آئی ڈیم کے اور اے ڈی ایم کے،دہلی میں عام آدمی پارٹی اورمہاراشٹر میں این سی پی،شیوسینا اور نونرمان سینا وغیرہ۔لہذا عام انتخابات سے قبل اگرمتحدہ فرنٹ کے قیام کی کوششیں ہوتی ہیں ،تو اس میں ان علاقائی پارٹیوں کاکردار غیر معمولی ہوگا اور انھیں ان کا مطلوبہ حق دینا ہوگا،تبھی بی جے
پی۔آرایس ایس کے گٹھ جوڑ سے پیدا ہونے والی فرقہ وارانہ اور ملک کے لیے نقصان دہ سیاست سے اس ملک کو بچایاجاسکتاہے۔ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ محاذکس کی سربراہی میں قائم ہوگا؟ظاہری طورپرکانگریس کانام سب سے اوپر ہونا چاہیے کہ وہ ایک قومی جماعت ہے،مگر اسد الدین اویسی نے تلنگانہ انتخابات کے نتائج پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہاہے کہ ہم ۲۰۱۹ء میں غیر کانگریسی اور غیر بی جے پی حکومت بنانے کی کوشش کریں گے،اس کا مطلب یہ ہے کہ کانگریس کی سربراہی میں قائم ہونے والے محاذمیں وہ شامل نہیں ہونا چاہتے،ان کی باتوں سے یہ بھی سمجھ میں آرہاتھا کہ وہ تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کو بھی کسی تیسرے اتحاد کی تشکیل کی طرف لے جانا چاہتے ہیں،ویسے یہ اکیلے مجلس کی بات نہیں ہے،ایسی کئی پارٹیاں ہوسکتی ہیں،جو کانگریس اور بی جے پی دونوں سے الگ کوئی اتحاد قائم کرنا چاہتی ہوں ،مگر مسئلہ پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاایسا اتحاد قائم ہونا ممکن ہے؟اور اگر قائم ہوا بھی،تو اس کی سربراہی کون کرے گا؟اس کا خط و خال کیا ہوگااور اس کا طریقۂ عمل کیا ہوگا؟عام طورپر اس میں شامل ہونے والی جماعتیں کون ہوسکتی ہیں ؟اب چوں کہ جنرل الیکشن میں گنتی کے چند ماہ رہ گئے ہیں ؛لہذااس سے قبل ہی کانگریس کوبھی چاہیے کہ تمام مقامی پارٹیوں کے ساتھ مشترکہ ایکشن پلان مرتب کرے اور ان پارٹیوں کے جائز مطالبوں پر کان دھرتے ہوئے آنے والے الیکشن کے لیے ایسا خاکہ بنائے،جو ملک کے مجموعی جمہوری ڈھانچے کی سالمیت ،قومی معیشت کے تحفظ اور دستوری اداروں کی سلامتی کی راہ میں معاون ثابت ہو۔بی جے پی میں توابھی سے ایک الگ قسم کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں،بابری مسجد۔رام مندر کے مسئلے پر آرایس ایس ،بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے علاوہ اب خود بی جے پی میں بھی ایسا گروہ سراٹھارہاہے،جو مودی کو جملے باز سمجھتا ہے،کچھ لوگ پروین توگڑیا کی قیادت میں تحریک چلانے کوپرتول رہے ہیں،جبکہ کچھ دوسرے لوگ یوگی آدتیہ ناتھ کو ہندوتوکا برانڈقرار دے کران کی سربراہی میں سراٹھانے کو تیار ہیں،آنے والے چند ماہ میں ہندوستانی سیاست کا رخ کیاہوگا،کچھ نہیں کہاجاسکتا۔یہ تو طے ہے کہ ملک کا بہت بڑا طبقہ بی جے پی سے اوب چکاہے اور آیندہ اسے مسترد کرنا چاہتاہے،اب یہ اپوزیشن کی ذمے داری ہے کہ وہ اس طبقے کوکس طرح مثبت انداز میں ایک جٹ کرپاتا ہے!
نایاب حسن
گزشتہ کل یعنی 20 نومبر کو افغانستان کی راجدھانی کابل میں وزارت داخلہ کی آفس کے قریب، ہائی سکیورٹی زون میں ایک ہوٹل کے کانفرنس ہال میں نبی رحمتﷺکی ولادت کی مناسبت سے ایک پروگرام منعقد کیاگیا تھا،جس میں ملک بھر کے لگ بھگ ایک ہزار شرکاموجود تھے،جن میں علماکی کثیر تعداد تھی،پروگرام ابھی شروع ہوا تھا اورقرآن کریم کی تلاوت ہورہی تھی کہ اسی دوران ایک شخص دھماکہ خیزجیکٹ پہنے جلسہ گاہ میں گھسا اور اپنے آپ کو اڑالیا،جس کے نتیجے میں دیکھتی آنکھوں پچاس سے زائد علماو وعام مسلمان جاں بحق ہوگئے ،جبکہ ستر سے زائد شدید زخمی ہوگئے۔خبروں کے مطابق ابھی تک کسی شدت پسند جماعت نے حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے؛بلکہ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے اخباری بیان میں شدت سے نہ صرف اس خود کش حملے کی تردید کی ہے؛بلکہ اسے قابلِ مذمت قراردیاہے۔ آئی ایس آئی ایس کے بارے میں قیاس لگایاجارہاہے کہ ممکن ہے اس نے یہ حملہ کروایاہو؛ کیوں کہ طالبان کی طرف سے عام شہریوں کے برخلاف عموماحکومتی اہل کار، فوج، پولیس یابیرونی فورسزپرحملے کیے جاتے ہیں اورآئی ایس آئی ایس کوطالبان کے مقابلے میں زیادہ شدت پسندبھی سمجھاجاتاہے ـ
افغانستان کی صورتِ حال گزشتہ کم ازکم تین دہائیوں سے پرپیچ ہے اور نائن الیون کے بعد تواس کی پیچیدگی کئی گونہ بڑھ گئی ہےـ ایک طرف توامریکی افواج ہیں، جن کی غیرانسانی دھونس اورمظالم سے افغان عوام بے دم ہیں، دوسری طرف خودبھانت بھانت کے مسلم شدت پسندگروپس ہیں، جنھوں نے عام شہریوں کے ناک میں دم کیاہواہے، پھرمسلمانوں میں شیعہ سنی جماعتوں کے باہمی اختلافات کو بھی نظراندازنہیں کیاجاسکتا، سنیوں میں بھی اب آئی ایس آئی ایس کے وہاں دخول کے بعد کٹراورنارمل کی تفریق پیداہوگئی ہےـ افغانستان دنیاکاایسامجبوروبے بس ملک ہے، جس پراب تک اتنے بم وبارودانڈیلے جاچکے ہیں کہ اب تواس کی فضائیں بھی زہرآلودسی ہوگئی ہوں گی، ابھی اکتوبرمیں وہاں پارلیمانی انتخابات ہوئے تھے، اس دوران بھی کئی مقامات پردہشت گردانہ حملے ہوئے اورلاشیں گرتی رہیں، اسی سال صرف اِس مہینےمیں چھ دہشت گردانہ حملے ہوچکے ہیں، جن میں ڈیڑھ سو سے زائد افرادجا بحق، جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق جنوری 2016سے اب تک سوسے زائددہشت گردانہ حملوں میں لگ بھگ اکیس سوجانیں گئی ہیں ـ
اب تک اس تازہ حملے کی ذمے داری کسی جماعت نے قبول نہیں کی ہے، مگراس کی مکمل رودادبڑی جگرخراش ہے، سوشل میڈیاپرویڈیودیکھی جاسکتی ہے کہ ایک نہایت باوقارروحانی مجلس ہے، جس کاابھی آغازہی ہواہے اورقاری صاحب اپنی خوب صورت آوازمیں قرآن پاک کی تلاوت کررہے ہیں کہ اچانک دھماکے کی آوازآتی ہے، پھرقاری کی آوازدبتی اورحاضرین کی دردانگیزچیخوں کاحصہ بن جاتی ہےـ اس کایہ پہلوبھی قابلِ ذکرہے کہ یہ جلسہ ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مناسبت سے منعقدکیاگیاتھا،جس میں یقیناسرورِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے عملی واخلاقی پہلووں پرروشنی ڈالی جاتی، آپ کے فضائل بیان کیے جاتے، آپ کی حیاتِ بابرکات کے ان نقوش کواُجالاجاتا، جوتاریخِ انسانی کے ماتھے کاجھومرہیں، مگراس کی نوبت ہی نہ آسکی اوروہ لوگ موت کی آغوش میں سلادیے گئے، جواپنے نبی سے محبت کااظہارکرنے اورآپ کی سیرت کاپیغام دنیاکوپہنچانے کے لیے اکٹھاہوئے تھےـ یہ حملہ کس جماعت نے کیایاکروایاہے، اس سے قطعِ نظریہ توکم ازکم واضح ہے کہ وہ جوبھی ہو،جس جماعت سے تعلق رکھتاہو، مسلمان ہے، ایک اہم نکتہ اس سلسلے میں یہ بھی ہے کہ گزشتہ چندماہ سے خاص طورپرافغان علمادہشت گردوں کے نشانے پرہیں، جون میں کابل ہی کی پالی ٹیکنک یونیورسٹی میں ایک اجلاس ہواتھا، جس میں وہاں کے علماجمع ہوئے تھے اورانھوں نے خودکش دھماکے کے عدمِ جوازوحرمت پرایک متفقہ فتوی جاری کیاتھا،جوں ہی وہ حضرات اس مجلس سے فارغ ہوکرباہرنکلے، دروازے پرہی ایک شخص نے خودکودھماکے میں اڑادیااورایک درجن سے زائدافرادجاں بحق ہوگئے تھے، اُس حملے کے بعدبھی پتانہیں چلاتھاکہ حملہ کس نے کروایاہے، اِس باربھی اب تک پتانہیں لگ پایاہے کہ حملہ کس گروہ نے کروایاہےـ
افغانستان کامعاملہ سیاسی اعتبارسے اس قدرعجیب وغریب ہے کہ حتمی طورپرکوئی رائے قائم نہیں کی جاسکتی،مگرایسے موقعے پربحیثیت مسلمان ہمیں اپنے گریبان میں جھانکناچاہیے یہ سوچناچاہیے کہ ہم کہاں پہنچ گئے کہ نبیِ رحمت کے ذکروتذکارکی مجلس میں بھی سوسومسلمان ناحق مارے جارہے ہیں اورایساکرنے والے کوئی اورنہیں،مبینہ طورپر خوداسی نبیِ رحمت کے نام لیوااورامتی ہیں ـ میرے خیال میں ناموسِ رسالت کی توہین اس سے زیادہ اورکچھ نہیں ہوسکتی کہ رحمت للعالمین کویادکرنے کے لیے جمع ہونے والے علماومسلمانوں کوخودمسلمان ہی قتل کرنے لگیں،یہ واقعہ گرچہ افغانستان میں رونماہواہے، مگراس کی ہلاکت انگیزبازگشت سارےعالمِ اسلام کوسننی چاہیے، حملہ آئی ایس آئی ایس نے کیاہویاطالبان نے یااس میں کسی تیسرے کاہاتھ ہو، بہرحال اس میں راست کردار بہ طورظالم بھی مسلمانوں کاہے اوربہ طورمظلوم بھی مسلمانوں ہی کاہےـ ایسالگتاہے کہ یہ دورہماری تیرہ بختی وہلاکت کابدترین دورہے، ہرجگہ اللہ تبارک وتعالی کاقہروغضب امتِ مسلمہ کی گھات میں ہے اورکہیں دوسرے ہمیں تاراج کررہے ہیں، توکہیں ہم خوداپنے ہی ہاتھوں قتل ہورہے ہیں،ہم اپنی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے خوداپنی ہلاکت کاسامان کرتے ہیں اوراحمقوں کی جنت کی تلاش میں نیک وبد،صحیح وغلط اور خطا وصواب کے مابین امتیازتک نہیں کرپاتےاورپھرجب اپنے بنے ہوئے جال میں خودپھنستے ہیں، توبھی ہوش نہیں آتا،ہمیشہ”باہر "کی سازشیں تلاش کرنے میں جٹ جاتے ہیں ـ
اللہم اغفرلنا، وسدد خُطانا واھدناالصراط المستقیم
نایاب حسن
فرقہ وارانہ فسادیامذہب پر مبنی تشددو قتل کا واقعہ اگر کسی مین سٹریم علاقے میں رونما ہوتاہے،توفوراً نگاہوں میں آجاتا ہے اور پھر میڈیاسے لے کر سرکاری کارگاہوں،دفاتر ،افراد و نمایندگان اور ملک بھر کے مختلف خطوں میں موجود سماجی و انسانی حقوق کی تنظیموں کے بیچ اس کی چرچاہونے لگتی ہے؛لیکن اگر اسی قسم کا یا اس سے بھی اندوہناک واقعہ ملک کے کسی حاشیائی،پسماندہ اور قومی منظرنامے سے اوجھل علاقے میں رونما ہو،تواس کی طرف نہ تو میڈیاکی تیز نگاہ پہنچتی ہے،سرکار تو خیر جان بوجھ کر اسے دبانے کی کوشش کرتی ہے اور رہی بات سماجی یا رفاہی اور حقوق انسانی کی تنظیموں کی،تو وہ ان علاقوں میں عموماً اس لیے نہیں پہنچتیں کہ ان کے ’’کاموں‘‘کی بروقت پذیرائی یا ان کاموں کے عوض حاصل ہونے والے نقدنتائج وفوائدکا امکان کم ہوتا ہے۔گزشتہ۱۹؍۲۰؍اکتوبر کو درگاپوجاکی مناسبت سے ’’مورتی وسرجن‘‘کے موقعے پر سیتامڑھی اور اس سے متصل مختلف محلوں میں جان بوجھ کر مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لیے پہلے سے طے شدہ راستے کے برخلاف مسلمانوں کی آبادی میں گھس کر مورتی لے جانے پر اصرار کیاگیا،مذہبی منافرت پر مبنی نعرے لگائے گئے،پھر یہ افواہ پھیلی کہ کچھ لوگوں نے جلوس پر پتھر بازی کی،جس کی وجہ سے مدہوبن ، مرلیاچک ،راجوپٹی ،گوشالہ چوک وغیرہ میں حالات بگڑنے لگے ،فوری طورپر مقامی پولیس و انتظامیہ نے مداخلت کی، توحالات کسی طرح قابومیں آگئے،مگر اس کے اگلے دن آس پاس کے انتہا پسند ہندووں نے باقاعدہ جتھہ بندی کرکے مسلمانوں پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی اور دوہزار کی بھیڑ دستیاب ہتھیاروں کے ساتھ مسلمانوں کی بستی پر حملہ آور ہوگئی،پتھر بازی سے شروع ہونے والایہ حادثہ دیکھتی آنکھوں آگ زنی اور قتل و خوں ریزی میں تبدیل ہوگیا،کئی دکانیں جلادی گئیں ، مکانات نذرِ آتش کردیے گئے اور انتہائی وحشت و درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ساٹھ سالہ بزرگ زینل انصاری نام کے شخص کو نہ صرف قتل کیاگیا؛بلکہ اسے جلانے کی کوشش کی گئی،افسوس کی بات ہے کہ یہ پورا علاقہ مقامی پولیس اور مرکزی ضلع انتظامیہ کے آس پاس ہی واقع ہے،مگر ایسا لگتاہے کہ یا تو جان بوجھ کر حالات کو قابوسے باہر ہونے دیاگیایا انھیں حالات کی حساسیت کا اندازہ ہی نہیں تھا،سیتامڑھی پولیس کا سفاک چہرہ اس صورت میں بھی سامنے آیاہے کہ زینل انصاری کے گھر والوں نے تھانے میں ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی ،تواسے معلوم تھاکہ ان کا قتل ہواہے،مگر یہ بات ان لوگوں سے چھپائی گئی اور انھیں مظفر پور صدر ہسپتال لاش کی شناخت کے لیے بھیج دیاگیا،لاش اس بری حالت میں تھی کہ گھر والے پہچان ہی نہ سکے،مگر دوچار دن کے بعد جب انٹرنیٹ سروس شروع ہوئی اور سوشل میڈیاپر زینل انصاری کے قتل کی تصویریں وائرل ہوئیں،تب ان کے گھر والوں نے مختلف علامتوں کے ذریعے انھیں پہچانا،وہ چاہتے تھے کہ ان کی لاش اپنے گاؤں لاکر تجہیز و تکفین کریں،مگر پولیس نے انھیں مجبورکیاکہ مظفر پور میں ہی دفنادیاجائے۔
بہر کیف قتل کا یہ واقعہ اتناہی اندوہناک اور انسانیت سوز ہے،جتنے انسانیت سوز واقعات ملک کے دوسرے خطوں میں گزشتہ ساڑھے چار سالوں کے دوران رونما ہوچکے ہیں اور اب بھی کہیں نہ کہیں رونما ہوتے ہی رہتے ہیں۔ویسے سیتامڑھی کے مذکورہ علاقے میں فرقہ وارانہ فساد کوئی نیاحادثہ نہیں ہے،اس سے پہلے بھی نوے کی دہائی میں اوراس سے قبل اس علاقے میں ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں اور ہر سال رام نومی یا درگاپوجاکے موقعوں پر بہار کے مختلف اضلاع میں حالات کشیدگی کا شکار ہوجاتے ہیں،اسی سال رام نومی کے جلوس کے موقعے پر نالندہ،بھاگلپور ،مونگیراور سمستی پور وغیرہ میں غیر معمولی طورپر حالات خراب ہوئے تھے اور ان علاقوں میں جان و مال کا بڑا اتلاف ہوا تھا،یہ واقعات ایسے تھے کہ بہار حکومت کو ہوشیار ہوجانا چاہیے تھا ،مگرافسوس ہے کہ اپنے آپ کو’’ سشاشن بابو‘‘ کہلوانے والے نتیش کمار اوران کی سرکارنے جب سے دوبارہ این ڈی اے کے آغوش میں پناہ اختیار کی ہے،بہار میں بھی بہ تدریج ایسے ہی حالات بن رہے ہیں،جو ملک کے دوسرے کئی بی جے پے کے زیر حکومت صوبوں میں گزشتہ ساڑھے چار سال سے قائم ہیں۔دوسری جانب سیتامڑھی کے حالیہ واقعے میں ایک قابلِ غور و فکر پہلوقومی میڈیا، ملک بھر کے سماجی و انسانی حقوق کے اداروں اور خاص طورپر مسلمانوں کے قومی سطح کے رفاہی وملی اداروں،جمعیتوں اور تنظیموں سے متعلق ہے ،جنھوں نے مجموعی طورپرزینل انصاری کے وحشیانہ قتل اور نذرِ آتش کیے جانے پرمذموم ترین بے حسی کا مظاہرہ کیاہے،کل ہندسطح کے ملی اداروں کوواضح کرناچاہیے کہ ان کا "دائرۂ خدمات "کہاں سے شروع ہوکرکہاں ختم ہوتاہے؟انفرادی طورپر چند مقامی لوگوں اور محدود تروسائل رکھنے والے اداروں کی خبر ہے کہ وہ اپنے تئیں اس پورے واقعے کی تفتیش اور متاثرین کی بازآباد کاری کے سلسلے میں کوشش کررہے ہیں،ایک خبر ’’آج تک‘‘کے واسطے سے ہمیں ملی ہے کہ سیتامڑھی سنگھرش سمیتی کے صدرمحمد شمس شاہنوازنے قومی اقلیتی کمیشن کو خط لکھ کر پورے حادثے کی جانچ کا مطالبہ کیاہے،مسلم بیداری کارواں کا اخباری بیان بھی دیکھاکہ 3؍ نومبر سے وہ متاثرہ علاقوں کا جائزہ لے گا،راجوپٹی،سیتامڑھی سے تعلق رکھنے والے تنویر عالم علیگ صاحب کے بارے میں خبر ملی ہے کہ وہ اپنے طورپر تمام سلسلۂ واقعات کی تفتیش اور متاثرین کو انصاف دلانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں،چوں کہ وہ خود اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور انھیں اس کی حساسیت کا بخوبی اندازہ ہے ؛اس لیے انھوں نے 25؍ اکتوبر کواپنے فیس بک پیج پر مقامی لوگوں سے صورتِ احوال کی مکمل تفصیلات معلوم کرکے جو رپورٹ لکھی ہے،وہ اہم ہے اور اس کے مطابق جو حقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ سیتامڑھی کے مذکورہ بالا علاقوں میں حالیہ ہنگامہ آرائی اور قتل و غارت گری یا تو مقامی انتظامیہ و پولیس کی بے شعوری وعدمِ حساسیت کی وجہ سے رونما ہوئی ہے یا خود پولیس و انتظامیہ بھی فسادی عناصر سے ملی ہوئی تھی،زینل انصاری کی اندوہناک موت کے معاملے میں حکمراں جماعت سے قطعِ نظر اپوزیشن کا رویہ بھی نہایت پراسرار ہے،مرکزی رہنماؤں کو توچھوڑیے،مقامی لیڈروں کی زبانیں بھی عموماًگنگ ہیں اور اس انسانیت کش حادثے کواس طرح گول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،گویا یہ کوئی معاملہ ہی نہیں ہے،اوپندرکشواہاکی پارٹی سے حادثاتی طورپر منتخب ہونے والے سیتامڑھی کے ایم پی رام کمارشرما تو ایسے شخص ہیں ،جو کبھی اپنے حلقے میں دیکھے ہی نہیں گئے،سواس معاملے میں بھی ان کا کہیں اتاپتانہیں ہے،پارلیمنٹ میں بھی وہ شا ید ہی کبھی اپنے حلقے کی نمایندگی کرتے نظر آئے ہوں،گویا ان کے انتخابی حلقے کو کوئی مسئلہ ہی درپیش نہیں ہے!
بہر کیف اس پورے معاملے کی منصفانہ جانچ ازحد ضروری ہے ،یہ اچھی بات ہے کہ حالات کو پر امن بنانے اور سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے مقامی سطح پردونوں فرقوں کے باشعور افراد ،دانشوران اورسماجی کارکنان کوششوں میں مصروف ہیں اور فی الحال امن و امان کا ماحول قائم بھی ہوگیاہے،مگر چوں کہ آنے والے قریبی وقت میں ہی جنرل الیکشن ہونے والاہے ،جس کے پیش نظر فرقہ پرست عناصر کی جانب سے مزید کسی ہنگامہ آرائی کی کوشش عین ممکن ہے ؛اس لیے دونوں اطراف کے سنجیدہ طبقات کو ایسے حالات اور غیر سماجی کوششوں کو بروقت ناکام بنانے کے لیے مضبوط لائحۂ بنانا چاہیے اور باہم تبادلۂ خیال کرکے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے والے تمام اسباب و عوامل کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے!
نایاب حسن
بی جے پی کو’’مغلِ اعظم ‘‘والے اکبرسے بھلے ہی پرابلم ہو،مگرمودی کی کابینہ میں موجوداکبرسے کوئی پرابلم نہیں ہے ، ابھی توصرف نوخواتین نے ان کے خلاف جنسی ہراسانی وچھیڑخانی کے قصے بیان کیے ہیں،بات نکلی ہے، توپتانہیں کتنی دورتلک جائے، دی وائر پر1997کے عرصے میں’’ایشین ایج ‘‘میں موصوف کے ساتھ کام کرچکی غزالہ وہاب کاجومضمون شائع ہواہے، وہ رونگٹے کھڑے کردینے والاہے،ان کے ساتھ جوہوا،اس پربائیس سال کاعرصہ بیت چکاہے، مگرکہانی کی سطور/بین السطورسے ایک ملازمہ کی بے چارگی وبے بسی اورایک باس کی حیوانیت کاجونقش ابھرتاہے، وہ نارمل انسان کے لیے لرزہ انگیزہے ۔ الزام لگانے والی ان خواتین کی باتوں کی آنکھ موندکرتصدیق نہیں کی جاسکتی، مگرایک بات توپکی ہے کہ مسٹرایم جے اکبرکھل کرکھیل چکے ہیں۔
حیرت ہے کہ اس انتہائی سیریس معاملے میں بی جے پی نے من حیث المجموع چپی سادھ رکھی ہے، روی شنکرپرساداورسشماسوراج جس طرح صحافیوں کے سوال سے کنی کتراتے نظرآئے، اس سے تویہی لگتاہے کہ مودی حکومت اکبرکی پشتیبانی کررہی ہے ، ادھرحضرت اکبر اورمودی جی بیرونی دورے پرہیں؛ اس لیے نہ تو صاحبِ معاملہ کاکوئی رسپانس سامنے آیاہے، نہ ان کے باس کا، بہرحال ایسالگتاہے کہ’’می ٹو‘‘ کاہندوستانی ورژن خاصادھماکہ خیزثابت ہونے والاہے۔
ایم جے اکبر پرجن عورتوں نے جنسی ہراسانی یا چھیڑچھاڑکے الزامات لگائے ہیں،وہ سب ان کے ساتھ مختلف صحافتی اداروں میں کام کرچکی ہیں،ایک زمانہ تھا،جب انگریزی صحافت میں موصوف کے جلوے تھے،ان کی تحریروں اور تجزیوں کا وقار و اعتبار تھا اور انھیں ملک کے ٹاپ کے صحافیوں کی صفِ اول میں رکھاجاتا تھا، انھوں نے سب سے پہلے سیاسی ہفتہ وار انگریزی میگزین’’ سنڈے ‘‘کی ادارت کی ،انگریزی کے دوبڑے اخبار ’’ٹیلی گراف‘‘اور’’ایشین ایج‘‘کے مدیر رہے، ’’انڈیاٹوڈے‘‘اور ’’سنڈے گارجین‘‘کے ایڈیٹوریل ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں،ان کے علاوہ دیگر کئی اہم اخبارات اور صحافتی اداروں سے ان کی وابستگی رہی ، موصوف اپنی صحافیانہ خدمات کا معاوضہ بھی ہاتھوں ہاتھ وصولتے رہے،کانگریس سے وابستہ ہوئے اور ۱۹۸۹ء میں کشن گنج،بہار سے ممبرپارلیمنٹ منتخب ہوئے،جبکہ ۱۹۹۱ء میں انھیں شکست سے دوچار ہونا پڑا،البتہ آں جہانی راجیوگاندھی سے ان کی گاڑھی چھنتی تھی،سوانھیں کانگریس کی حکومت اور پارٹی میں غیر معمولی اثر و رسوخ حاصل رہا ،ایک عرصے کے بعدگزشتہ لوک سبھا انتخابات سے عین قبل انھوں نے اپنا سیاسی قبلہ بدلا اور بی جے پی کا دامن تھام لیا،بی جے پی کو بھی ایسے قابل انگریزی صحافی کی ضرورت تھی،انھیں ہاتھوں ہاتھ لیاگیا؛بلکہ حکومت میں آنے کے دوسرے سال مودی نے انھیں جونیئر وزیر خارجہ بھی بنادیا،اب ان کاکام ہے باہر کے ملکوں میں جاکر مودی حکومت کی’’ساکھ‘‘کومضبوط کرنا اور وہ یہ کام بخوبی کررہے ہیں۔
جس ’’می ٹو‘‘(MeToo) تحریک کا فی الحال ہندوستان میں شورہے اوراس کی زدمیں متعدد سلیبرٹیزاور اب سیاست دان بھی آگئے ہیں،اس کا آغاز دراصل سال بھر قبل امریکہ میں ہالی ووڈہیروئن الیساملانو(Alyssa Milano)نے کیاتھااوراس کا مقصدتھاکہ مختلف بڑے پلیٹ فارم پر سرگرمِ عمل خواتین کے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسانی اور چھیڑخانی کوبرسرِ عام لایاجائے اور جن خواتین کے ساتھ یہ حادثے ہوئے ہیں،وہ خود آگے بڑھ کر اپنے بارے میں بتائیں،گزشتہ سال بھر سے یہ تحریک مسلسل عالمی صحافت میں زیر بحث ہے اور مختلف ممالک کے کئی بڑے نام اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں،بہت سی عورتوں کو اس سے حوصلہ ملاہے اور اپنے ساتھ ہونے والی جس زیادتی کے ذکر سے انھوں نے ایک زمانے تک خاموشی اختیار کیے رکھی،اب وہ سوشل میڈیاپر کھل کراپنی روداد بیان کررہی ہیں،ممکن ہے کہ اس تحریک کی آڑمیں کئی بے قصور لوگوں کابھی استحصال کیاجارہاہو،مگر بہر حال یہ ایک سنجیدہ ایشوہے اور عام طورپر ایسی خواتین کو لوگوں کی ہمدردیاں حاصل ہورہی ہیں، جو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو سرِعام بیان کررہی ہیں۔ہندوستان میں اب تک اس کے اثرات محسوس نہیں کیے گئے تھے،مگر گزشتہ ماہ ماضی قریب کی فلم ایکٹریس تنوشری دتا نے جب ایک میڈیاپلیٹ فارم پرآکر۲۰۰۸ء میں اپنے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسانی کی کہانی بیان کی اور اس ضمن میں انھوں نے فلم اسٹار نانا پاٹیکر، کوریوگرافر دنیش اچاریہ ،فلم ساز شامی صدیقی اور ہدایت کارراکیش سارنگ پر الزام لگایاکہ انھوں نے ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران ان کے ساتھ نازیبا حرکت کی تھی، توان کی بات پر غیر معمولی توجہ دی گئی ،پھراسی کے بعد یہاں بھی’’می ٹو‘‘تحریک کی گونج سنائی دینے لگی اور فلم اسٹارآلوک ناتھ،مشہور کامیڈی شواے آئی بی کے اتسوچکرورتی ، تنمے بھٹ اورگرسمرن کھمبا،فلم ڈائریکٹر وکاس بہل،وویک اگنی ہوتری،سبھاش گھئی اورساجدخان وغیرہ پر جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے گئے ہیں ، اس کا فوری اثر یہ ہواہے کہ’’ آل انڈیابکچود‘‘نے اپنے تینوں لوگوں کو باہرکردیاہے،کنگنارناوت کے الزام کے بعد کوئن کے ڈائریکٹروکاس بہل ’’امیزون‘‘کی ویب سیریز سے علیحدہ کردیے گئے ہیں،تنوشری دتاکے ذریعے ممبئی کے اوشیوارہ تھانے میں ناناپاٹیکرکے خلاف تعزیراتِ ہند کی دفعہ۳۵۴؍ (چھیڑچھاڑ)اور دفعہ ۵۰۳؍ (خواتین کے ساتھ نازیباسلوک)کے تحت مقدمہ درج کیاگیاہے ،ان کے گھر کے باہر سیاسی و غیر سیاسی خواتین کا احتجاج بھی جاری ہے،جبکہ آلوک ناتھ نے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئے ونیتا ننداکے خلاف ہتکِ عزت کا مقدمہ دائرکرنے کا فیصلہ کیاہے ،ساجد خان ’’ہاؤس فل۴‘‘کی ڈائریکٹرشپ سے کنارہ کش ہوچکے ہیں اور اکشے کمار نے بھی معاملہ صاف ہونے تک اس کی شوٹنگ سے منع کردیاہے۔
ایم جے اکبر کے خلاف ایک دونہیں ،اب تک کل نوخواتین نے جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے ہیں،سب سے پہلے پریہ رمانی(Priya Ramani) نے اپنے ٹوئٹس کے ذریعے بیان کیاکہ ساؤتھ ممبئی کے ایک لگژری ہوٹل میں انٹرویوکے بہانے اکبر نے ان کے ساتھ نازیباحرکت کرنے کی کوشش کی، پھر شوما راہا (Shuma Raha)نے ایک انگریزی اخبارکوایم جے اکبر کے ساتھ اپنے اسی قسم کے تجربے کے بارے میں بتایا،پریرناسنگھ بندرانے بھی اپنی بیتی بیان کی، کنیکا گہلوت بھی سامنے آئیں، ایشین ایج کی موجودہ ریزیڈنٹ ایڈیٹر سپورناشرمانے بھی اپناواقعہ بیان کیا،پھرشتاپاپال نے سلسلہ وار ٹوئٹس کرکے اپنی رودادبیان کی اور غزالہ وہاب نے ’’دی وائر‘‘ پر اپنے ایک قدرے تفصیلی مضمون میں ایم جے اکبر کوبھگتنے کا اپنا تلخ تجربہ بیان کیا،ان سبھی خواتین کے ٹوئٹس اور بیانات سے جوحقیقت سامنے آتی ہے ،وہ روش کمارکے الفاظ میں یہ ہے کہ مسٹر اکبر کاجس خاتون پر دل آتاتھا،وہ اسے پیار سے ہموار کرنے یا منانے کی بجاے سیدھے اس پر حملہ کرتے تھے، غزالہ نے تواپنے مضمون میں لکھاہے کہ’’ ایشین ایج‘‘دہلی کی آفس میں مشہور تھاکہ مسٹراکبر کاکیبن ان کا’’حرم‘‘ہے،انھوں نے یہ بھی لکھاہے کہ اخبار کے ہر ریجنل آفس میں ان کی ایک گرل فرینڈ ہوتی تھی،اپنے ساتھ بیتنے والا جوواقعہ غزالہ نے بیان کیاہے،وہ نہایت ہی ڈراؤنااور ناقابلِ بیان ہے۔اس معاملے میں اب تک بی جے پی کی جانب سے باضابطہ کوئی ردعمل سامنے نہیں آیاہے،وزیر قانون روی شنکر پرساداور وزیر خارجہ سشماسوراج صحافیوں کے سوالات سے پیچھاچھڑاتے نظر آئے ، البتہ دوسری خاتون وزرامینکاگاندھی،نرملاسیتارمن اور اسمرتی ایرانی نے بہ ظاہر ان خواتین کے تئیں ہمدردی ظاہر کی ہے اور کہاہے کہ متعلقہ شخص کو سامنے آکر اپنی صفائی پیش کرنی چاہیے،جبکہ کانگریس سے بی جے پی سدھارنے والی یوپی کی موجودہ یوگی حکومت کی وزیر ریتابہوگنا جوشی نے ایم جے اکبر کی حمایت کرتے ہوئے کہاہے کہ چوں کہ ابھی ان کے خلاف کسی طرح کا جرم ثابت نہیں ہواہے؛لہذا استعفادینے کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ویسے اس سارے سلسلۂ واقعات پر بعض لوگوں کاتبصرہ یہ بھی ہے کہ ان خواتین کی فوری تصدیق نہیں کی جاسکتی،جب تک کہ خودوہ لوگ اپنا موقف سرِعام بیان نہ کردیں،جن کے خلاف جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے جارہے ہیں،کچھ لوگ اسے شہرت حاصل کرنے یاکسی کوبے جا بدنام کرنے کا شاخسانہ بھی قراردے رہے ہیں ،بہر کیف کم ازکم مسٹر اکبر کے معاملے میں تویہ بات نہیں کہی جاسکتی؛کیوں کہ ایک دونہیں ،نوخواتین نے ان کے خلاف ایک ہی قسم کے الزامات عائد کیے ہیں، مودی حکومت کا ان کے بارے میں فیصلہ کن موقف کیاہوگا،یہ توایک سیاسی معاملہ ہے،مگر خود مسٹر اکبر کوسامنے آکر اپنی پوزیشن صاف کرنی چاہیے۔
اس پورے معاملے میں ایک پہلو عبرت کابھی ہے اور وہ تہذیبِ نوکی چکاچوند،آزادیِ نسواں کے کھوکھلے نعروں،مساواتِ مردوزن کی پرفریب تحریک سے وابستہ ہے، جب بات اخلاقی قدروں کی کی جاتی ہے،جب خواتین اور مردوں کے حدودوشعبہ ہاے کار میں تفریق کا ذکر ہوتاہے،جب مردوزن کے بے محابااختلاط کے عواقب ونتائج پر گفتگو کی جاتی ہے ،توکچھ لوگ حکمتِ بقراط اور دانشِ سقراط کا پٹاراکھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور تہذیب و ثقافت کے ایسے ہی سورما ’’بے چاری‘‘ خواتین کے حقوق کے تحفظ کاعلم لے کر میدانِ کارزار میں کود پڑتے ہیں،مگر’’می ٹو‘‘ جیسی تحریک سے صاف طورپر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ لوگ خواتین کی آزادی نہیں چاہتے،خواتین تک پہنچنے کی آزادی چاہتے ہیں اور جب انھیں خواتین تک پہنچنے کا راستہ مل جاتاہے،توپھر وہ ہوتاہے،جس کا ہونا فطری ہے اورجس کے بارے میں ہمیں یہ الٹراماڈرن،انتہائی لبرل اوربے پناہ آزادخیال خواتین بتارہی ہیں۔راحت اندوری کا ایک شعر ہے:
آگ کے پاس کبھی موم کو لاکردیکھوں؟
ہواجازت توتجھے ہاتھ لگاکر دیکھوں؟
آگ اورموم جب باہم ملیں گے،توآگ کی تپش سے موم کا پگھلنایقینی ہے؛لیکن اکیسویں صدی کی تہذیب و فکر و دانش کے سرخیل یہ مان کرنہیں دے رہے،مگریہ تو بہرحال سوچنا ہوگاکہ مسئلے کا حل کیا ہے؟ کیا ’’می ٹو‘‘جیسی تحریکوں سے مسئلے کاحل نکل سکتاہے؟شایدنہیں،مگرجواس مسئلے کا درست حل ہے،کیایہ دنیاوہاں تک پہنچنے کوآمادہ ہے؟ اس کا جواب بھی شاید’’نہیں‘‘ہی ہوگا،پس ’’می ٹو‘‘مومنٹ کے بعد’’ہی ٹو‘‘یا’’شی ٹو‘‘جیسی مزید تحریکوں کے لیے تیار رہیں،ساتھ ہی اقبال کا یہ شعر بھی گنگناتے رہیں:
میں بھی مظلومیِ نسواں سے ہوغمناک بہت
نہیں ممکن مگر اس عقدۂ مشکل کی کشود
نایا ب حسن
سپریم کورٹ نے آج آئی پی سی کی دفعہ497کے تحت آنے والے زناکاری کے قانون کوکالعدم قراردے دیاہے،یہ قانون 158سال پراناتھا اوراس کے تحت شادی شدہ خاتون کو بغیر شوہر کی اجازت کے جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت نہیں تھی،اگر ایسا ہوتاہے ،توزناکار عورت کے لیے توکوئی سزانہیں تھی،اسے متاثرہ ماناگیاتھا، البتہ مردکے لیے پانچ سال تک کی سزاکی تجویز تھی۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت چاردگر ججوں کی بنچ نے اس قانون کو مجموعی طورپر یہ کہتے ہوئے کالعدم قراردیاکہ یہ سماجی انصاف ،مساوات اور خواتین کے حقوق کی خلافت ورزی کرتاہے،معززججزکاکہناتھاکہ کیاعورت اپنے شوہر کی ملکیت ہے کہ اسے کسی سے جنسی تعلقات قائم کرنے کے لیے شوہر کی اجازت لینی چاہیے؟انھوں نے متذکرہ قانون کے ایک پہلو پراعتراض کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ اگر شادی شدہ عورت کسی مردکے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتی ہے،تومذکورہ قانون کے مطابق صرف مرد کو سزاہوگی،عورت کونہیں ہوگی،حالاں کہ اگر یہ عمل جرم ہے،تودونوں کومجرم ہونا چاہیے۔
گویا مذکورہ بالا قانون میں دوخامیاں تھیں :ایک تویہ کہ شادی شدہ عورت اگر کسی سے جنسی تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے،تواسے شوہر کی اجازت سے مشروط کیا گیا تھا، جوعدالت کو سماجی انصاف کے خلاف اور رائٹ ٹوپرائیویسی کا معاملہ نظرآیااور دوسری خامی یہ تھی کہ ایساواقعہ رونما ہونے کی صورت میں مجرم صرف مرد کو گردانا جاتا تھا، حالاں کہ اس عمل میں دونوں برابرکے شریک تھے؛چنانچہ پانچ ججوں کی’’ بصیرت ،معاملہ فہمی ،قانونی آگاہی و انسانیت نوازی‘‘ اس نتیجے پر پہنچی کہ سرے سے اس قانون کوہی کالعدم قراردے دیاجائے،یعنی اب کسی شادی شدہ عورت کا کسی مردکے ساتھ جنسی تعلقات کرنا کوئی جرم نہیں ،جرم تو عورت کے حق میں پہلے بھی نہیں تھا،اب مرد کے لیے بھی جرم نہیں رہااور دوسرے یہ کہ اس کے لیے عورت کو شوہر سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔دلیل میں ایک تووہی اوپر ذکرکردہ باتیں کہی گئی ہیں، دوسرے بہ طوراستشہاد یہ کہاگیاکہ چوں کہ چین ،جاپان اور برازیل وغیرہ میں ایسا کرنا جرم نہیں ہے؛اس لیے ہندوستان میں بھی اسے جرم نہیں ہونا چاہیے۔
کیرلاکے جوزف سائن نامی’’ ایکٹوسٹ ‘‘نے دفعہ497کے خلاف عرضی داخل کی تھی اور جولائی میں مرکزی حکومت نے اپنا حلف نامہ داخل کرتے ہوئے ہندوستانی سماج و تہذیب کے تحفظ اور خاندانی نظام کی بقاکا حوالہ دیتے ہوئے اس قانون کوبرقرار رکھنے کی اپیل کی تھی۔حکومت کا موقف اس معاملے میں قانون کو برقرار رکھنے ، البتہ حسبِ ضرورت اس میں ترمیم و تبدیلی کرنے کا تھا؛لیکن اگست میں اس کیس کی آخری سماعت ہوئی اور متعلقہ ججوں نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیاتھا،جسے آج سنایا گیاہے۔
حیرت کی بات ہے کہ زیادہ تر روشن خیال سمجھے جانے والے لوگ اس فیصلے کی سراہناکررہے ہیں اور اسے خواتین کے امپاورمنٹ سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں،حالاں کہ اگر اس کی تہہ میں جائیں ،توپتاچلتاہے کہ کورٹ نے فیصلہ محض اس بناپر دیاہے کہ موجودہ زمانے میں بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں زناکاری کوئی جرم نہیں ہے،اس کیس کی سماعت کے دوران ججوں نے ایسے حوالے بھی دیے اور آج فیصلہ سناتے ہوئے بھی چند ملکوں کونامزدکرکے یہ کہاگیاکہ وہاں اس طرح کا کوئی قانون نہیں ہے؛لہذا ہندوستان میں نہیں ہونا چاہیے،حالاں کہ کسی بھی معاملے میں فیصلہ متعلقہ ملک،مقام اوروہاں کے سماج و تہذیب کو دیکھتے ہوئے ہونا چاہیے تھا،پھر یہ کہ معززججوں کو اپنی بصیرت بھی تو استعمال کرنی چاہیے تھی،دوسرے یہ کہ یہ فیصلہ قطعی خواتین کے حق میں نہیں ہے،اس میں تو مردوں کو چھوٹ دی گئی ہے،جبکہ مذکورہ قانون کے مطابق عورت کو متاثرہ اور مردکو مجرم ماناگیاتھااوراس کے لیے پانچ سال تک کی سزاتجویز کی گئی تھی۔مزید حیرت اس پر ہے کہ معزز عدلیہ نے اپنے ریمارک میں کہا کہ اگر میاں بیوی کوپریشانی ہو،توان کے لیے طلاق کا راستہ کھلاہے،واہ!ایک طرف توابھی کچھ ہی دن پہلے طلاق کے نام پر مسلم مردوں کورگڑچکے ہیں،دوسری طرف یہ فرمایاجارہاہے کہ اگر زناکاربیوی سے شوہر کواور زناکارشوہر سے بیوی کو مسئلہ ہو،توان کے لیے طلاق کا راستہ کھلاہے۔بھلے ہی عدالت نے شادی کے بعد زناکاری کو قانونی جواز فراہم کردیاہے؛لیکن ہندوستانی معاشرے میں کیاکوئی شوہر یابیوی اس صورتِ حال کو جانتے بوجھتے برداشت کرسکتے ہیں؟یقیناًنہیں کریں گے اوراس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہونا چاہیں گے،طلاق کی نوبت آئے گی یا یوں ہی اپنے وزیر اعظم کی طرح ایک دوسرے کو کو چھوڑکر چلتابنے گا،پھر ذرا غور کیجیے کہ ان کی اولاد کاکیا بنے گا؟آخر کورٹ نے معاملے کے اس پہلو پرکیوں غور نہیں کیا؟چند دن پہلے فیس بک پر پاکستان کے ایک نیوز چینل کی جانب سے نشرکی گئی ایک ویڈیودیکھی تھی،جس میں ایک چار سال کی بچی کو دکھایاگیاتھا، وہ بچوں کے شیلٹرہوم میں تھی،اس سے جب چینل کے نمایندہ نے اس کے والدین کے بارے میں دریافت کیا،تواس معصوم بچی نے عجیب دلدوز واقعہ سنایا کہ اس کاباپ ایک معمولی رکشاڈرائیور ہے،جسے اس کی ماں نے چھوڑدیاتھااور بیٹی کے ساتھ الگ رہتی تھی،پھر اس کا کسی دوسرے مرد کے ساتھ معاشقہ ہوا،دونوں گلچھرے اڑاتے رہے،ماں کی ممتامشہور ہے،مگر وہ ہوسناک وسفاک عورت اپنی اس معصوم بیٹی کے ساتھ مارپیٹ کرتی رہی اور پھر ایک دن اسے ایک پولیس اسٹیشن پر چھوڑکر اپنے آشناکے ساتھ فرار ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک گھناؤناجرم ہے اور وہاں کی پولیس وحکومت اگر حساس ہوگی تو ضرور ایکشن لے گی،مگر کیاہماری عدلیہ نے آج جو فیصلہ سنایاہے،اس کی روشنی میں اپنے یہاں خدانخواستہ آیندہ قانونی جواز کے ساتھ اِسی قسم کے واقعات کے امکانات بڑھتے ہوئے نظرنہیںآتے؟شادی شدہ مردوخواتین کا جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے اِدھر اُدھرمنہ مارنااگر ان کی پرائیویسی اور سماجی انصاف کامعاملہ ہے، تودیگر گھریلواور سماجی تباہیوں کواگرَ ان دیکھابھی کردیاجائے ،توکم ازکم یہ توطے کیاجائے کہ ان کے جو بچے ہوں گے،ایسے حالات میں ان کی کیا پوزیشن ہوگی اوران کا کون پرسانِ حال ہوگا؟ بہرکیف اس فیصلے میں کئی جھول ہیں،مرکزی حکومت خود اس فیصلے کے لیے تیار نہیں تھی،اب آگے اس کی طرف سے کیاقدم اٹھایاجاتاہے،یہ دیکھنا چاہیے۔
نایاب حسن
2011ء سے شام میں جاری تاریخِ انسانی کی بدترین خانہ جنگی تاہنوزختم ہوتی نظر نہیں آرہی،سات سال قبل جب ’’ بہارِعرب‘ ‘نامی انقلاب متعددعربی ملکوں میں رونما ہوا تھا،توبہت سے سیاسی مبصرین و دانشوران کے ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہواتھاکہ شاید یہ عوامی انقلابات ان عربی ملکوں سے شخصی آمریت اور خاندانی حکومت کا سلسلہ ختم کرکے ایک شفاف جمہوری طرزِ حکومت کی بنیاد ثابت ہوں گے،مگر پھر ساری دنیانے بہ چشمِ سردیکھا اور بہ گوشِ ہوش سناکہ ان انقلابات کی گردوغبار اور خوں ریزی و غارت گری کے پردے سے جب وہ ممالک باہر نکلے،توحالات پہلے سے بھی بدتر ہوگئے تھے، تیونس، مصر، یمن،لیبیاوغیرہ کا جو منظر نامہ2011سے قبل تھا اورجواَب ہے،دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے؛بلکہ اپنی اندوہناکی کے اعتبار سے پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہے۔شام میں بھی اُنہی دنوں عوامی انقلابات کی آندھی آئی،اسدخاندان کی چھ دہائیوں پر مشتمل خاندانی حکومت ،طرزِ حکمرانی،عوام کے استحصال اور ظلم و زیادتی سے لوگ پریشان تھے،مگرانھیں ہمت نہیں ہوتی تھی کہ حکومت کے خلاف صداے احتجاج بلند کرسکیں؛لیکن دیگر آس پڑوس کے ملکوں میں رونماہونے والے احتجاجات نے اچانک ان کے اندر بھی ہمت و جرأت پیدا کردی اور وہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے،ابتداء اً یہ محسوس کیاگیاکہ دوسرے ملکوں کی طرح شام میں بھی چند مہینوں یا ایک آدھ سال میں یہ انقلاب اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا اور پھر ایک نئی طاقت برسرِ اقتدار آئے گی،مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا،شامی انقلابات میں متعددخارجی قوتیں گھستی گئیں،معاملہ تب اور پیچیدہ ہوگیا،جب حکومت کا تعاون کرنے والی قوتوں اوراپوزیشن کی حامی طاقتوں میں ایک دوسرے کوزیر کرنے کی خطرناک ریس شروع ہوگئی،شروع میں ایران اورحزب اللہ نے شامی حکومت کی مدد کی،پھر2015-16ء میں روس بھی اس صف میں شامل ہوگیا،2014ء میں امریکہ نے آئی ایس آئی سے نپٹنے کے لیے ایک عالمی اتحاد قائم کیا،اس نام پر اس اتحاد نے الگ شام پر بمباریاں کیں،شامی اپوزیشن کی امداد بھی کی گئی،2016ء میں ترکی بھی شامی خانہ جنگی کے تئیں اپنے موقف کے ساتھ کھل کر سامنے آیا اوراس نے اپوزیشن کی مدد شروع کردی۔اس پورے خطرناک خونیں کھیل سے عالمی سیاسی طاقتوں اور ملکوں کو فائدہ ہورہاہویا نقصان ،مگر سب سے زیادہ نقصان شامی عوام کا ہوا،عالمِ انسانیت کا ہوااور شام نے دنیابھر کے لیے مہاجرین اورپناہ گزینوں کاایک نہایت پیچیدہ مسئلہ پیدا کردیا،اس عرصے میں شامی عوام،بوڑھوں،بچوں اور عورتوں کی بے بسی و بے چارگی اور مظلومیت کے ایسے ایسے مناظر دنیاکے سامنے آچکے ہیں کہ انھیں دیکھ کر انسانیت لرزاٹھی۔ایک طرف شامی حکومت ہے، جو اپنے حامیوں کے سہارے اپنے مخالفین پر مہلک سے مہلک ترین ہتھیار استعمال کرنے میں بھی جھجک محسوس نہیں کررہی،دوسری طرف اپوزیشن ہے کہ وہ بھی بعض بیرونی طاقتوں کے اکساوے میں آکردانستہ یا نادانستہ شام کے بے قصور عوام کی کشت و خون میں حصہ دار بنا ہواہے،بہر کیف شام کابحران اکیسویں صدی میں اب تک کا نہایت ہی پیچیدہ ، ناقابلِ فہم اور مشکل ترین بحران ثابت ہورہاہے۔
گزشتہ سات سالوں کے واقعات کی روشنی میں یہ ثابت ہوچکاہے کہ شامی اپوزیشن تمام تر بیرونی امداد کے باوجودکمزور ہے اوروہ طاقت وقوت ، ہتھیار،وسائل و ذرائع وغیرہ کے اعتبار سے شامی حکومت اوراس کے اتحادیوں کا ہم پلہ نہیں ہے،آیندہ بھی اس کی امید کم ہی نظر آرہی ہے؛کیوں کہ امریکہ اپنی دوسری’’مصروفیات‘‘میں مشغول ہے اورترکی تن تنہاکیا کرسکتاہے،جبکہ شام میں موجود کردی النسل اپوزیشن گروپ ترکی سے یوں بھی نالاں ہے۔شامی حکومت کے دعووں کے مطابق وہ اب تک اپوزیشن کے ذریعے قبضہ کیے گئے شام کے بیشتر علاقوں پر دوبارہ اپنا قبضہ بحال کرچکی ہے اور اب صرف ایک صوبہ ادلب رہ گیاہے،جو اپوزیشن کے قبضے میں ہے۔ابھی چند دنوں قبل میڈیامیں یہ خبرآئی تھی کہ شامی حکومت اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ادلب پر فیصلہ کن حملے کا منصوبہ بنارہی ہے،کچھ ابتدائی کارروائیوں کی بھی خبریں تھیں،ظاہر ہے کہ اگر اس منصوبے پرباقاعدہ عمل ہوگا ،تو وہاں بھی وہی صورتِ حال پیدا ہوگی،جواس سے قبل دمشق،حلب ،لاذقیہ ،رقہ اور دیگر صوبوں کو اپوزیشن کے قبضے سے چھڑانے میں پیدا ہوئی تھی،وہاں ہزاروں مکانات مسمار ہوئے، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے،ہزاروں انسانوں کی جانیں گئیں اور دیکھتی آنکھوں ہنستے بستے علاقے خرابوں میں بدل گئے؛چنانچہ ادلب کے تعلق سے فیصلہ کن حملے کی خبر آتے ہی وہاں کے عوام ؛بلکہ عالمی سطح پر شدید بے چینی محسوس کی گئی،ادلب شام کا شمالی مغربی صوبہ ہے،یہاں کی کل آبادی تین ملین ہے ،جبکہ یہاں ساٹھ ہزارشامی انقلابیوں کاٹھکانہ ہے، اسی صوبے کے لگ بھگ ساڑھے تین ہزارکلومیٹرکے علاقے پر اگست 2016ء سے ترکی فوج کا قبضہ ہے،کہتے ہیں کہ اس حصے کو ترکی فوج نے داعش سے خالی کروایاہے اور وہاں ایک مامون و محفوظ آبادی بسانے کے لیے شامی انقلابیوں کی مدد اورامریکہ،یورپ اوراقوامِ متحدہ کو کسی حد تک راضی کرکے اس پر قابض ہے،اس خطے میں کئی اہم شامی بستیاں؍شہرواقع ہیں،جن میں الباب،أعزاز،جرابلس،عفرین وغیرہ شامل ہیں، ادھر ترکی اور روس،اسی طرح ترکی اور ایران کے درمیان خوشگوار ڈپلومیٹک اور تجارتی تعلقات ہیں،جن سے ساری دنیا آگاہ ہے،جبکہ شام کے مسئلے میں ترکی ایک طرف ہے اور روس و ایران دوسری طرف ،ایسے میں ادلب پر متوقع فیصلہ کن حملے کے سلسلے میں ترکی ، روس اور ایران کا کردار اہم تھا؛چنانچہ اس سلسلے میں پندرہ دن قبل طہران میں ایک سہ فریقی اجلاس منعقد ہواتھا،جس میں ادلب پر حملے کے تعلق سے روس اور ترکی کے مابین اختلافات سامنے آئے تھے ،یعنی روس حملے کے حق میں تھا اور ترکی اس کے خلاف تھا،اس کے بعداب 17؍ستمبرکو دونوں ملکوں کے صدوررجب طیب اردوگان اور ولادیمیرپوتن نے روس کے جنوب مغربی شہر ’’سوچی‘‘میں ملاقات کی ہے،یہ ملاقات تین گھنٹے سے زیادہ جاری رہی،جس میں ترکی اور روس کے مابین اقتصادی و تجارتی تعلقات کے علاوہ ترجیحی طورپر شام کی موجودہ صورتِ حال اور ادلب پر متوقع حملے پر بات چیت کی گئی اور دونوں ملکوں نے مل کر ایک معاہدہ کیاہے ۔
اس معاہدے کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں روسی اور ترکی صدور نے یہ اعلان کیاکہ انھوں نے شامی فوج اور اپوزیشن کے مابین ادلب میں ہتھیار وں سے خالی خطے کے قیام پر معاہدہ کیاہے،پوتن نے کہاکہ آنے والے 15؍اکتوبر سے پندرہ سے بیس کلومیٹر تک کا علاقہ ہتھیاروں سے خالی کروا یا جائے گا،ساتھ ہی انھوں نے یہ شرط بھی لگائی کہ ادلب کومسلح ’’انتہا پسندوں اور دہشت گردوں ‘‘سے خالی کروایاجائے،دوسرے یہ کہ ان علاقوں سے خطرناک ہتھیاروں کی منتقلی کاکام ترکی و روسی افواج کی مشترکہ نگرانی میں انجام دیاجائے گا۔جبکہ ترکی کے صدر کاکہناتھاکہ ترکی ادلب میں کسی بھی تحریضی کارروائی پر بندش لگانے کی بھر پور کوشش کرے گا ،ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے روس کے ساتھ جن اقدامات پرمعاہدہ کیاہے،وہ عمومی طورپر مسئلۂ شام کے حل میں مؤثر ثابت ہوں گے اور موجودہ خانہ جنگی کے خاتمے اور شام کے مستقبل کے تعلق سے باہمی مذاکرے پرمختلف شامی گروپس کو آمادہ کرسکیں گے۔دونوں ملکوں کے رہنماؤں کی ملاقات کے بعد روسی وزیر خارجہ سرگئی شویگونے کہا کہ ادلب میں کوئی فوجی کارروائی نہیں کی جائے گی،جب ان سے دریافت کیاگیاکہ کیاروس اور ترکی کے مابین ہونے والے اس معاہدے سے شامی حکومت متفق ہے؟توانھوں نے کہاکہ ہم جلد ہی اس معاہدے میں مذکور تمام نکات پر شامی حکومت کی رضامندی حاصل کرلیں گے۔
ایک عربی سیاسی مبصر کے مطابق ترکی نے اس معاہدے میں روس کو اس بات کی ضمانت دی ہے کہ بحیرۂ روم کے آس پاس اورخاص طورپرحمیمیم اور طرطوس میں قائم روس کے ایئر بیسز محفوظ رہیں گے اوراس کے مقابلے میں ادلب میں شامی اپوزیشن کا ہولڈبرقراررہے گا،جس کا مطلب یہ ہے کہ مسئلۂ شام کے پر امن حل کے سلسلے میں آستانہ و جینوا کے طریقۂ کار کو اختیار کیاگیاہے۔
بہرحال اگر اس معاہدے پر حقیقی معنوں میں عمل ہوتاہے ،تواس کا مطلب یہ ہے کہ ادلب پر فیصلہ کن حملہ فی الحال مؤخر ہوگیاہے اوراب ترکی کی ذمے داری یہ ہوگی کہ وہ اپوزیشن کو کسی بھی قسم کی مسلح کارروائی سے روکے ،جبکہ روس کی ذمے داری یہ ہوگی کہ وہ شامی حکومت اور فوج کوادلب میں کسی بھی قسم کی مسلح کارروائی سے باز رکھے۔ادلب کے شہریوں سمیت دنیابھر کی نگاہیں اردوگان اور پوتن کی اس ملاقات پر ٹکی ہوئی تھیں،اس معاہدے کے سامنے آنے کے بعد انھوں نے چین کی سانس لی ہے کہ کم ازکم فوری طورپر تو خطرہ ٹل گیاہے ؛حالاں کہ اس معاہدے پر عمل کی معلنہ تاریخ آنے میں ابھی پچیس دن باقی ہیں اور اس معاہدے میں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی ہے کہ ان پچیس دنوں میں کیا ہوگا،ہاں فی الحال ادلب میں سکون کا ماحول ہے اور دونوں میں سے کسی بھی جانب سے کوئی فوجی کارروائی سننے میں نہیں آئی ہے۔ویسے کیایہ ایک اندوہناک المیہ نہیں ہے کہ کسی ملک کے محفوظ و مامون رہنے کا انحصار دوباہری ملکوں کی مشیت و رضامندی پرہے؟اس میں قصوروارکون ہے:شامی حکومت،انقلابی گروپس یا وہ ممالک اور طاقتیں ،جو شام کو اپنی فوجی مشقوں کا اڈہ بنائے ہوئی ہیں؟اس پورے ڈرامے میں شام کے عوام کا کردارکیاہے؟جن میں سے پانچ لاکھ تو گزشتہ سات سالوں کے دوران ناحق مارے جاچکے،لگ بھگ آٹھ ملین خانماں برباد ہوچکے،جبکہ پانچ ملین سے زیادہ شامی عوام دنیا کے مختلف ملکوں میں دربدری کی زندگی گزاررہے ہیں
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شام میں انقلاب حکومت کے تئیں عوام کی بے چینی کی وجہ سے پیدا ہواتھا،مگر وہ خارجی طاقتوں کی مسلسل گھس پیٹھ کی وجہ سے بہ تدریج بدترین بحران کے شکار ہوتے گئے،یہ بحران اب اس حد تک پیچیدہ ہوچکاہے کہ اس کا حل نہ شامی عوام کے لیے ممکن رہااورنہ وہاں کی حکومت حل کر سکتی ہے،باہری طاقتیں ہی اسے حل کرسکتی ہیں اورکیاباہری طاقتیں واقعی مسئلۂ شام کو حل کرنا چاہتی ہیں؟یہ ایک ایسا سوال ہے،جس کا جواب زیادہ تر ’’نہیں‘‘میں ملتاہے؛لہذا گویایہ طے ہے کہ شام کے مستقبل کا فی الحال کوئی مستقبل نہیں ہے۔
نایاب حسن
آرایس ایس کا سہ روزہ لیکچرسیریز کاپروگرام ختم ہوگیا اورساتھ ہی اپنے پیچھے بے شمار سوالات،تحیرات اور تفکرات چھوڑگیا،سنگھ کے سربراہِ اعلیٰ موہن بھاگوت اس بارکلیتاً بدلے بدلے سے نظر آئے اور انھوں نے پروگرام کے پہلے اور دوسرے دن اپنی تقریروں میں ہندوستانی سیاست،تاریخِ آزادی اور مسلمانوں کے تعلق سے جوباتیں کہی تھیں،ان پرکل ہم نے مختصر تبصرہ کیا تھاـ آخری دن بھی انھوں نے سامعین و ناظرین کو اپنی باتوں سے محوِ حیرت کیا،ایسا لگتاہے کہ یہ پروگرام بڑی گہری منصوبہ بندی کے ساتھ کیاگیاتھااوریہ منصوبہ بندی یا تو بڑی خوب صورتی سے ہندوستان بھر ؛بلکہ پوری دنیاکوبے وقوف بنانے کی تھی یا پھر اس پروگرام کے ذریعے آرایس ایس کی ایک نئی روپ ریکھاتیار کرنے کی واقعی شروعات کی گئی ہے،ہاں !ان دونوں پہلووں کے ساتھ اس کے سیاق و سباق پر نگاہ رکھنا بھی ضروری ہے اور وہ ہے آنے والے قریبی مہینوں میں ہونے والے ریاستی و جنرل الیکشنز۔
بہرحال موہن بھاگوت اس سہ روزہ پروگرام میں ہر دن حاضرین،میڈیا اور ہندوستان بھر کوچونکاتے رہے،یہ سلسلہ آخری دن انھوں نے سوال جواب کے سیشن میں مختلف سوالات کا بڑی خود اعتمادی کے ساتھ جواب دیا،انہی سوالات میں سے ایک یہ تھاکہ آرایس ایس کے گروجی اور سنگھ کے دوسرے سربراہ مسٹر گولوالکر نے اپنی کتابBunch of Thoughtsمیں مسلمانوں کو ہندووں کا دشمن قراردیاہے،کیاسنگھ ان کے اس قسم کے خیالات و افکار سے متفق ہے؟سنگھ کے تئیں مسلم سماج میں جو خوف کی نفسیات پائی جاتی ہے،اسے سنگھ کیسے دور کرے گا؟اس سوال کے جواب میں سنگھ سربراہ نے کہا:ارے بھائی!ہم ایک دیش کی سنتان(اولاد)ہیں،بھائی بھائی جیسے ہیں؛اسی لیے سنگھ کواقلیت جیسے لفظ کے تئیں تحفظ ہے(قابلِ ذکرہے کہ مولاناابوالکلام آزادبھی ہندوستانی مسلمانوں کواقلیت سمجھنے، لکھنے اوربولنے کے سخت خلاف تھے، البتہ اس کاپس منظرکچھ الگ تھا)سنگھ اس کو نہیں مانتا،سب اپنے ہیں،دورگئے تو جوڑناہے،اب رہی بات بنچ آف تھاٹس کی،توباتیں جوبولی جاتی ہیں،وہ مخصوص احوال اور مخصوص سیاق و سباق میں بولی جاتی ہیں،ان کی معنویت دائمی نہیں رہتی۔ان کاکہناتھاکہ: ایک بات یہ ہے کہ گروجی کے جو دائمی افکارہیں،ان کا ایک مجموعہ مشہور ہواہے،اس میں اُس وقت کے سیاق و سباق میں کہی جانے والی باتیں ہٹاکر جو ہمیشہ کام آنے والے افکارہیں،انھیں ہم نے لیاہے،سنگھ بند سنگٹھن نہیں ہے کہ ہیڈگیوار جی نے کچھ جملے بول دیے،تو ہم انہی کو لے کر چلیں،سمَے کے ساتھ چیزیں بدلتی ہیں۔
ہائے!بھاگوت جی نے کتنی اچھی باتیں کی ہیں،انھوں نے گولوالکر یا ہیڈگیوار کے حوالے سے جوکہاہے ،وہ ایک تنظیم اور ذراپھیلاکردیکھیے، تو ایک پوری قوم کے لیے زریں اصول کی حیثیت رکھتاہے،بہت سے اصول اور بہت سی باتیں بعض مخصوص زمانے میں،مخصوص سیاق و سباق کے تحت ،مخصوص افراد یاجماعتوں کو سامنے رکھ کہی یا لکھی جاتی ہیں اور ایک مدت کے بعد ان باتوں کی معنویت ختم ہوجاتی ہے یا ان کی غلطی واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے،تولوگ ان سے دامن چھڑالیتے ہیں۔کئی مسلم جماعتوں کے ساتھ بھی ایسا ہوتا رہاہے کہ ان کے اولین سربراہوں نے مختلف مسئلوں میں کوئی موقف اختیار کیا،پھر اس کا زبانی اظہار کیایااپنی کتابوں میں لکھا،مگر ایک زمانے کے بعد ان کے متبعین نے اس موقف سے دامن چھڑالیا؛بلکہ اسے کتابوں سے بھی باہر کردیا۔سنگھ سربراہ نے بھی سوال کے جواب میں یہی کہاہے کہ گولوالکرکے بہت سے اقوال یاافکارموجودہ زمانے میں آؤٹ ڈیٹڈہوچکے ہیں، ان کی معنویت ختم ہوگئی ہے اوران کے جوافکارموجودہ دورمیں بھی قابلِ اخذواستفادہ ہیں، ان کاایک مجموعہ سنگھ نے شائع کروایاہے؛ لہذااب وہی قابلِ اعتبارہے، اب گولوالکرکی ہرتحریر، تقریریاتصنیف قابلِ اعتبارنہیں ہے ـ مگرسوال یہ پیداہوتاہے کہ کیاان کی یہ بات موجودہ وقت میں سنگھ کے نظریاتی وعملی منصوبے میں بھی شامل ہے؟ کیاسنگھ سے وابستہ ادارے اورافرادبھی ایساہی مانتے ہیں؟ جوبات انھوں نے بنچ آف تھاٹس کے متعلقہ کے حصے کے حوالے سے سے کہی ہے،کیاعملی سطح پراس کاپہلے سے وجودہے یامحض انھوں نے بات بنائی ہے ـ ویسے اس پورے پروگرام میں سنگھ سربراہ نے جس قسم کی باتیں کہی ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے تفریحاً ہی سہی، بعض لوگوں کاخیال ہے کہ اب سنگھ بی جے پی کی بجاے کانگریس کو "گود "لینے والاہے،کہایہ بھی جارہاہے کہ چوں کہ مودی حکومت اپنی موجودہ مدتِ کارمیں تقریباناکام رہی ہے؛ اس لیے آیندہ انتخابات کے متوقع منفی نتائج کے اندیشے سے سنگھ بی جے پی سے دامن چھڑارہاہےـ
بہرحال آرایس ایس کے حالیہ اجلاس نے کئی سطحوں پرایک نئی بحث چھیڑدی ہے، ایک بڑاسوال یہ پیداہورہاہے کہ کیا سنگھ آنے والے قریبی دنوں میں کچھ اوربھی حیران کن اقدامات کرنے والاہے؟
نایاب حسن
بی جے پی کے فکری و نظریاتی سرپرست آرایس ایس کاان دنوں وگیان بھون ،دہلی میں سہ روزہ لیکچرسیریز کا پروگرام چل رہاہے،اس کا عنوان ہے "Future of Bharat: An RSS perspective”(بھارت کا مستقبل:آرایس ایس کا نظریہ)اس کا مقصد بنیادی طورپر مختلف شعبہ ہاے حیات سے وابستہ لوگوں کو آر ایس ایس سے متعارف کروانا اوراس کے مقاصد و عزائم اور سانچہ و ڈھانچہ سے روشناس کرواناہے؛یہی وجہ ہے کہ اس پروگرام میں بنیادی خطاب سنگھ سربراہ موہن بھاگوت کا ہورہاہے۔قابلِ غور ہے کہ اکثر و بیشتر اپنے متنازعہ خطابات سے میڈیا و عوام کی توجہ کھینچنے والے مسٹر بھاگوت اس مرتبہ غیر متوقع طورپر بڑی سلجھی ہوئی تقریریں کررہے ہیں،اس تقریب کے پہلے دن انھوں نے مودی کے عام نعرے کی صریح مخالفت کرتے ہوئے واضح طورپر کہاکہ ’’ہم لوگ تو یُکت بھارت والے ہیں،مکت بھارت والے نہیں ہیں‘‘،اس سے انھوں نے مودی ’’کانگریس مکت بھارت‘‘کے نعرے کی گویا تردید کی ،اتناہی نہیں،انھوں نے ماقبل آزادی کی جدوجہد پر روشنی ڈالتے ہوئے آزادی کی جنگ میں کانگریس کی جدوجہد کا اعتراف کیااور سراہا،انھوں نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی،یہ بھی کہاکہ جو ہمارے مخالفین ہیں،وہ بھی ہمارے ہیں ،ہمیں ان سے شکتی ملتی ہے،البتہ ہم یہ ضرور دیکھیں گے کہ ان کی مخالفت سے ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچے،انھوں نے کہاکہ سینٹر میں حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو،اس سے ہمیں کوئی مطلب نہیں،ہمارامیدانِ کار ہندوستانی سماج ہے اوراس میں ہماری محنت ہمیشہ جاری رہے گی۔دوسرے دن کا ان کا خطاب اور بھی دلچسپ ہوااور میڈیامیں اس پر خاصی حیرت کا اظہار کیاجارہاہے،دوسرے دن انھوں نے ستر منٹ تک تقریر کی،جس میں ہندوستانی سماج اور مسائل وغیرہ کے سلسلے میں آرایس ایس کے نقطۂ نظر کی وضاحت کی،اسی ضمن میں انھوں نے ایک بات یہ کہی کہ ہندوستان ایک ہندوراشٹرہے اوراس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہاں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے؛بلکہ جس دن ایسا ہواکہ ہندوستان سے مسلمانوں کا خاتمہ ہوگیا،توہندوتواکی کوئی معنویت ہی نہیں رہ جائے گی؛کیوں کہ ہر ایک کو اپنے ساتھ لے کر چلنایہی آرایس ایس کا فلسفہ ہے،ہندوتواکامطلب ہے ایک عالمی خاندان یعنی ساری دنیاایک خاندان ہے،اس تقریر میں انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسیداحمد خان کا بھی ذکر کیا،ان کے تعلق سے ایک واقعے کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ جب وہ بیرسٹربنے،توپہلے مسلم بیرسٹر کی حیثیت سے آریہ سماج کی طرف سے ان کے لیے ایک اعزازی پروگرام کا انعقاد کیاگیا،جس میں انھوں نے کہاکہ’’مجھے افسوس ہواکہ آپ نے مجھے اپنوں میں نہیں شمار کیا،کیاہم مادرِ وطن کے سپوت نہیں ہیں؟ارے تاریخ میں ہماراطرزِعبادت ہی توبدلاہے اور کیابدلاہے؟‘‘،بھاگوت نے کہاکہ 1881ء سے پہلے ہندوستانی سماج ایساہی تھا،مگر پھر حالات بدل گئے،اب ہمیں دوبارہ انہی حالات پر لوٹنا ہوگا، انھوں نے یہ بھی کہاکہ اگر کسی کا کہنایہ ہے کہ اسے ہندونہ کہاجائے،بھارتیہ(ہندوستانی)کہاجائے،توٹھیک ہے،ہم آپ کے کہنے کا سمّان کرتے ہیں۔
سرسید کے حوالے سے جو بات بھاگوت نے کہی ہے،اس میں کتنی صداقت ہے اور کس پس منظر میں انھوں نے یہ کہاتھا،اس کی تحقیق سے قطعِ نظران کا جو طرزِ استدلال ہے وہ بڑا دلچسپ ہے،انھوں نے سرسید کے مبینہ واقعے سے یہ نتیجہ اخذکیاہے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے آپ کو ہندوکہلانا پسند نہیں کرتے،البتہ اس ملک کے باشندے ہونے کی حیثیت سے بھارتیہ،یعنی ہندوستانی کہلانا پسند کرتے ہیں(اوریہ حقیقت بھی ہے)تو ٹھیک ہے،ہم آپ کے اس نقطۂ نظر کا احترام کرتے ہیں اور اگرکوئی طبقہ اپنے آپ کوہندونہیں کہلوانا چاہتا،توسنگھ کو کوئی تکلیف نہیں ہے۔جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ہی یہ بھی صراحت کی کہ مسلمانوں کے بغیر ہندوتوایا ہندوراشٹر کا تصور نہیں کیاجاسکتا،یعنی مسلمان اس ملک کے لیے ناگزیر ہیں۔انھوں نے سماجی تکثیریت،مساوات اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کے حوالے سے وہی باتیں کہیں،جو سیکولرجماعتوں کی جانب سے کہی جاتی ہیں۔
آرایس ایس سربراہ کے اس خطاب کا مختلف ناحیوں سے تجزیہ کیاجارہاہے،ایک تجزیہ یہ ہے کہ چوں کہ اس پروگرام میں سنگھ نے ہندوستان ہی نہیں؛بلکہ بیرونِ ہند(جس میں مسلم ممالک بھی شامل ہیں)کے سرکاری و غیر سرکاری اہل کاروں کو بھی دعوت دی تھی،اسی طرح مدعوحضرات و خواتین میں بہت سے ایسے لوگ تھے،جن کی غیر سنگھی نظریاتی وابستگی واضح ہے،ہندوستانی سنیماکے کئی اہم چہرے اس تقریب میں نظر آئے؛لہذاان سب کے سامنے بھاگوت نے آرایس ایس کی ایک قابلِ قبول شبیہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے؛تاکہ جو لوگ آرایس ایس سے متوحش ہیںیا اس سے کٹے کٹے رہتے ہیں،وہ اسے جاننے ،سمجھنے اور اس کے قریب آنے میں دلچسپی لیں۔موہن بھاگوت کے اس بدلے ہوئے لہجے کی ایک اہم وجہ اگلے سال منعقد ہونے والے عام انتخابات کو بھی قرار دیاجارہاہے،حالاں کہ بی جے پی تو اپنے جارحانہ رویے میں کسی قسم کی کمی نہیں کررہی ہے،مودی و شاہ کی جوڑی مسلسل اپناکام کررہی ہے،مگر بھاگوت کی تقریر کچھ اور کہہ رہی ہے،کیاانھوں نے معاملے کو بیلنس کرنے کی کوشش کی ہے؟کیا الیکشن سے پہلے وہ مسلمانوں کے تعلق سے اس قسم کی باتیں کرکے انھیں بی جے پی سے قریب آنے کے اشارے دے رہے ہیں؟کیا آرایس ایس کا یہ پروگرام دراصل بی جے پی کے لیے الیکشن کمپیننگ کا حکیمانہ سر آغاز ہے؟
جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے،توبھلے ہی بھاگوت کا بیان خوش آیندہے،جس کا خیر مقدم ہونا چاہیے اور ہونے بھی لگاہے،مگر زمینی حقائق بہت کچھ الگ ہیں،اگر ہم بھاگوت کے اس خطاب کو نقطۂ تحول مان لیتے ہیں ،توکیایہ بھی مان لیں کہ اب ’’گھر واپسی‘‘کی مہم نہیں چھیڑی جائے گی؟’’لوجہاد‘‘کے ڈرامے بند ہوجائیں گے؟مسلمانوں کو آرایس ایس سے منسلک افراد اور تنظیموں کے ذریعے ہراساں کیے جانے کا سلسلہ بند ہوجائے گا؟اگر بھاگوت کا یہ خطاب واقعی ایک سیاسی گیم ہے،تب توکوئی بات ہی نہیں ؛لیکن اگر حقیقتاً ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں آرایس ایس کانظریہ و طریقۂ کاربدل رہا ہے، توپھر اس نظریے کو زمینی سطح پر اتارنے میں ابھی بہت وقت لگے گا؛کیوں کہ گزشتہ نوے سال کے عرصے میں سنگھ نے اپنے لوگوں میں جس ذہنیت کو پروان چڑھایاہے،وہ محض دوتین تقریروں سے کیسے ختم ہوسکتی ہے؟!
نایاب حسن
دنیاکاسب سے بڑا جمہوری ملک ہندوستان خوف،اندیشوں،وحشتوں اور دہشتوں کی آماجگاہ بنتاجارہاہے،یہاں اندراگاندھی کے دور کی ایمرجنسی کو بار بار دُہرایاجاتااور اس زمانے کی اَنہونیوں کا مسلسل ذکر ہوتا رہتاہے،مگر افسوس کہ وہ ایمرجنسی تو اعلانیہ تھی اور لوگوں کو اس کے مالہ و ماعلیہ کے بارے میں بھی معلوم تھا،مگر ابھی جو اس ملک میں ایمرجنسی لگی ہوئی ہے،وہ غیر اعلانیہ ہے اور یقیناً یہ ایمرجنسی اُس سے کہیں زیادہ خطرناک اور نتائج کے اعتبارسے ہلاکت ناک ہے،جمہوریت بنیادی طورپر ہر قسم کی شخصی و اجتماعی آزادی سے عبارت ہوتی ہے،مگر فی الحال ہندوستانی جمہوریت کے مشتملات و حدود میں پوری طرح ترمیم و تنسیخ کا عمل جاری ہے،ہندوستانی جمہوریت کا سانچا اور ڈھانچااس وقت اِس ملک کی حکمراں جماعت تیار کررہی ہے اوراسے ہی تمام شہریوں کوماننا اوراس پر عمل کرنا ہوگا؛چنانچہ کھانے پینے،پہننے سے لے کر بولنے اور اظہارِخیال تک کے معاملوں میں عام ہندوستانی آزاد نہیں ہے،اسے انہی حدود پر عمل کرناہے،جوحکومت ،حکمراں جماعت یا اس کے ہم خیال شدت پسندو تنگ نظر مذہبی و ثقافتی گروہ طے کر رہے ہیں،مظلوم کے حق کے لیے،اس کی عزتِ نفس کے لیے آواز بلند کرنا بھی جرم ہے؛بلکہ اس وقت تواس ملک میں اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنا،غریب ہونا،پسماندہ ہونا،دلت ہونابھی جرم ہی مان لیاگیا ہے اور جہاں ان تمام طبقات کے ساتھ مجرموں والا برتاؤکیاجاتا، انھیں جہاں تہاں ذلیل کیاجاتااورماردیاجاتاہے،وہیں ایسے لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے اٹھنے والے گنے چنے لوگوں کوبھی سرکاریں،سرکاری ایجنسیاں،پولیس محکمہ اور تفتیشی ادارے ہٹ لسٹ میں شامل کرلیتے ہیں ،گویا پورے ملک میں آمریت کھل کر کھیل رہی ہے،موجودہ سرکارکے ابتدائی دنوں میں شروع ہونے والے ماب لنچنگ کے غیر منتہی سلسلے سے لے کرحالیہ دنوں میں میڈیا کے سربرآوردہ افراد کی زباں بندی تک کے واقعات اس کی بین شہادتیں ہیں،درمیان میں نوٹ بندی،جی ایس ٹی،رافیل ڈیل میں کی جانے والی من مانیاں اور سرکارکی دیگر آمرانہ کارروائیاں بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
گزشتہ 28؍اگست کوحیدرآباد،ممبئی،دہلی اور فریدآبادوغیرہ میں کم ازکم دس دانشوروں، سماجی وقانونی کارکنان اور حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم افرادکے گھروں پر مہاراشٹرپولیس کے ذریعے چھاپے مارے گئے،ان کے لیپ ٹاپ،فون اور دیگر الیکٹرانک ڈیوائسزضبط کیے گئے اور 2017ء کے دسمبرمیں بھیماکورے گاؤں ریلی سے متصل ہونے والے پر تشددواقعات اوردیگر ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں پانچ لوگوں کوگرفتاربھی کرلیاگیا،گرفتارشدگان میں گوتم نولکھا،وَروَرراؤ،ورنن گونزالویس،سدھابھاردواج اور ارون فریریاشامل ہیں،ان میں سے ایک کا تعلق دہلی،ایک کا حیدرآباد،ایک کا ہریانہ اور دوکا تعلق ممبئی سے ہے،رومیلاتھاپر،پربھات پٹنایک،ستیش دیش پانڈے،دیوکی جین اور مجادارووالانے ان کی گرفتاریوں کے خلاف سپریم کورٹمیں پٹیشن دائر کیاتھا،جس کے بعد کورٹ نے 6؍ستمبر تک ان کی گرفتاری پر روک لگاتے ہوئے یہ بھی تبصرہ کیاتھاکہ ’’اختلافات جمہوریت کے لیے سیفٹی والو(Valve) کی حیثیت رکھتے ہیں،اگر انھیں روکا گیا،توجمہوریت ٹوٹ جائے گی‘‘۔ ساتھ ہی اگلی سماعت تک ان تمام افراد کوان کے گھروں میں نظربندکرنے کی ہدایت دی تھی،بامبے ہائی کورٹ نے 3؍ستمبرکواس سلسلے میں ایک عرضی کی سماعت کرتے ہوئے مہاراشٹر پولیس اور جانچ ایجنسیوں کے ذریعے 31؍اگست کو پریس کانفرنس کرنے پرسخت نکتہ چینی کی،جس میں اسی واقعے میں مزید دیگر دانشوران کے ملوث ہونے کی بات کہی گئی تھی اور پولیس نے اس سلسلے میں ایک خط کابھی ذکرکیاتھا،جس کے مطابق ممنوعہ ماؤوادی تنظیم کے لیے آٹھ کروڑ روپے کاگرینیڈلانچرزاوردھماکہ خیز اشیاکی خریداری کی بات لکھی گئی ہے،کورٹ نے سات ستمبرتک پولیس اور جانچ ایجنسیوں کوایسی کسی بھی پریس کانفرنس کرنے سے منع کیاہے۔
دوسری طرف سماجی سطح پر ان گرفتاریوں کے سلسلے میں خاصی بے چینی پائی جارہی ہے،کورٹ کا فیصلہ جوبھی آئے،مگر اس پورے معاملے سے ایک چیز واضح طورپر سمجھ میں آرہی ہے کہ اس پکڑدھکڑ کے سلسلے کے پسِ پشت یقینی طورپر سیاسی دسیسہ کاریاں کام کررہی ہیں،ابھی مختلف صوبوں میں لوکل انتخابات ہورہے ہیں،اس کے متصل بعد مدھیہ پردیش،راجستھان وغیرہ میں ریاستی اور چند ماہ بعد ہی عام انتخابات کے موسم آرہے ہیں،متعدد نیوز چینلوں اور انتخابی سروے کرنے والی ایجنسیوں نے ابھی سے یہ دکھانا اور بتانا شروع کردیاہے کہ مودی اور بی جے پی کی مقبولیت کا گراف لگاتار گھٹ رہاہے،ایسے میں مودی اینڈکمپنی یقیناًہاتھ پر ہاتھ دھر کے نہیں بیٹھ سکتی،کچھ منصوبے،کچھ خاکے،کچھ نقشۂ عمل اس کے پاس ضرور تیار ہوگا،جسے اگلے مہینوں میں زمینی سطح پر اتاراجائے گا،عین ممکن ہے کہ دلتوں،پسماندہ طبقات اور سماج کے دیگر دبے کچلے لوگوں کے حقوق کی لڑائی لڑنے والے ان رضاکاروں،دانشوروں،شاعروں اور ادیبوں پر نکیل کسنے کا سلسلہ بھی اسی کا حصہ ہو،اس کے علاوہ فسادات،مذہبی منافرت کوہوادینا،ہندومسلم ہنگامے تو بی جے پی کے آزمائے ہوئے نسخے ہیں ہی،ان دانشوروں کے خلاف قومی سطح پر سرچ آپریش چلاکر حکومت دراصل ان گنے چنے لوگوں کی زبانوں کوبھی بند کردینا چاہتی ہے،جن کی صداے احتجاج وقتاً فوقتاً اسے تشویش میں مبتلا کرتی رہتی ہے،جس طرح میڈیاسے تعلق رکھنے والے چند بے باک و حق پسند صحافیوں پر لگام لگاکراس نے پوری صحافی برادری کو متنبہ کیاکہ یا توحکومت کی سرمیں سرملائے یا خاموش رہے،اسی طرح سول سوسائٹی کے چند حساس افراد کے خلاف منظم کارروائی کرکے ایسے تمام لوگوں کو خبردار کرنا چاہتی ہے،جو کسی نہ کسی سطح پر انسانی حقوق،شہری آزادی اور عدل و انصاف کے آوازے بلند کرتے رہتے ہیں،سیاسی مبصرین کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ مہاراشٹرپولیس کے ذریعے یہ پورا پلان دراصل سناتن سنستھاسے جڑے سنسنی خیز حقائق ، خبروں اور واقعات پرپردہ ڈالنے کی حکمتِ عملی بھی ہوسکتی ہے،اس میں کسی شبہے کی گنجایش نہیں کہ ملک بھر میں جتنی بھی انتہاپسند ہندوتنظیمیں اور ادارے ہیں،ان کے تار مختلف پرپیچ راہوں سے گزرکر آرایس ایس اور پھر بی جے پی سے جڑے ہوئے ہیں،اس وابستگی کی وجہ سے انھیں خفیہ یا اعلانیہ طورپربی جے پی کاسیاسی سپورٹ بھی حاصل ہوتاہے،ابھی بقرعید سے قبل سناتن سنستھاکے ایک سے زائد دہشت گردگرفتار کیے گئے،جن کے ہاں سے بڑی مقدار میں دھماکہ خیزاشیا،بندوقیں ضبط کی گئیں، ان کے بارے میں یہ بھی پتاچلاکہ وہ مختلف تہواروں کے موقعوں پر مختلف مقامات پر بم بلاسٹ کرنے والے تھے،کئی اہم افراد ،سیاست داں،صحافی،سماجی کارکنان و دانشوران بھی ان کے نشانے پر تھے،جنھیں وہ اڑانا چاہتے تھے،پھر یہ بھی پتاچلاکہ معروف خاتون صحافی گوری لنکیش اور ادیب نریندر دابھولکرکے قتل میں اسی تنظیم کاہاتھ تھا،توپورے ملک کے کان کھڑے ہوگئے تھے اور سب منتظر تھے کہ ان لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں حکومت اور عدلیہ مطلوبہ کردار اداکریں گے،مگر ٹھیک اسی دوران یہ نیاڈرامہ سٹیج کردیاگیاہے اور لوگوں کے ذہن کو،میڈیاکو ،عقلِ عام کو سناتن سنستھا سے موڑکر مذکورہ بالا سماجی کارکنان کی گرفتاریوں میں الجھانے کی منصوبہ بندی یا سازش کی گئی ہے۔
ان گرفتاریوں کے سلسلے میں سماج کے دانشور،ذی ہوش،قانون داں اور سیاسی لیڈران وانصاف پسند عوام اپنے طورپر احتجاج درج کروارہے ہیں،ملک کے مختلف شہروں میں پریس کانفرنسوں،احتجاجی مارچوں کے ذریعے مہاراشٹرپولیس اور حکومت کے ذریعے کیے گئے اس اقدام کے خلاف آوازیں بلند کی گئی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا،جواس طرح کے موقعوں پرحصولِ انصاف اور حکومت کی غلط کاریوں کا پردہ فاش کرنے کے سلسلے میں اہم رول اداکرسکتاہے اور جمہوریت کا چوتھا ستون ہونے کی حیثیت سے اس کی یہ ذمے داری بھی ہے،وہ بالکل ہی سردمہری کاشکارہے،حکومت نے اس کے گرد ایسا گھیراتنگ کررکھاہے کہ مجموعی طورپر میڈیابھی وہی زبان بولنے پر مجبور ہے،جوحکومت کی منشاہے؛چنانچہ ایک طرف سناتن سنستھاکے دہشت گردوں کی گرفتاری،ان کے پاس سے دھماکہ خیز اشیاکی ضبطی کو مین سٹریم میڈیاپوری طرح گول کرگیا،جبکہ دوسری طرف بھیماکورے گاؤں سانحے کے سلسلے میں عام طورپر نہایت منفی رپورٹنگ کی گئی، ملک کے معزز شہریوں کونکسلائٹ قراردیاگیا،انھیں ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث بتایاگیا اور حالیہ گرفتاری پر بھی میڈیانے اپنی ذمے داری کے برخلاف ہی کردار اداکیاہے۔
ہندوستانی سیاست کاعمومی مزاج یہ ہے کہ آدی واسیوں اور دلتوں پر ہونے والے مظالم کو ہر حکومت (چاہے کانگریس کی ہویابی جے پی کی)یہ کہہ کر صحیح ثابت کرتی رہی ہے کہ یہ کارروائیاں نکسل انتہاپسندوں کے خلاف کی گئی ہیں،مسلمانوں کی مجموعی طورپر، خاص کر انتخابی پس منظرمیں اب کوئی سیاسی شناخت نہیں رہی،مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ دلت اور آدی واسی قبائل اب بھی تمام سیاسی پارٹیوں کے لیے بڑے ووٹ بینک کی حیثیت رکھتے ہیں،مگر ان دلتوں اور آدی واسیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکنان کی حالیہ گرفتاریوں کے ذریعے حکومت واضح طورپر دلتوں کے موقف،اغراض اور مسائل کے تئیں اپنی بے توجہی کا ثبوت دے رہی ہے، حالاں کہ بی جے پی اور خاص کر مودی توایسا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے،جہاں وہ اپنے آپ کو دلتوں کا ہمدرد ومسیحا ثابت کرسکیں،اس وقت پورے ملک سے ہزاروں غریب،دلت،محروم واقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان بے گناہ جیل میں بند ہیں،جن کے لیے انصاف کی لڑائی ایسے ہی لوگ لڑتے ہیں،اب حکومت نے ان لوگوں کوبھی گرفتار کرکے ان ہزاروں لوگوں کو انصاف سے محروم کرنے کی سمت میں قدم بڑھایاہے اور یہ باقی ان لوگوں یااداروں کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی ہوسکتی ہے ،جوملک کے مظلوموں،مجبوروں اوردبے کچلے انسانوں کے انصاف کی لڑائی لڑرہے ہیں۔
نایاب حسن
لگ بھگ سترہ اٹھارہ سال قبل میں جوگیشوری، ممبئی کے ایک ادارے میں فارسی کے ابتدائی درجے کاطالب علم تھا، مدرسے کے قریب ہی ایک چھوٹاسا میدان ہواکرتاتھا، جہاں طلباکرکٹ کھیلاکرتے تھے، اسی میدان کے ایک گوشے میں ایک ریڈنگ سٹینڈہوتاتھا،جس پراردو، ہندی وانگریزی کے متعدداخبارات پڑے ہوتے،یہ انتظام کس کی طرف سے تھا نہیں معلوم، مگروہاں روزانہ اخبارات پابندی سے نظرآتے، میری عمرتب بہت چھوٹی تھی، کھیلوں سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی،البتہ اس میدان کی سیرکوجاتاہرروزتھا اورمقصدہوتاتھااخباپڑھنا، روزنامہ "انقلاب "پابندی سے پڑھاجاتا،سب سے پہلے کرکٹ والاصفحہ بالتفصیل پڑھاجاتا، زیادہ "دلچسپ "خبریں ہوتیں، توبعدمیں مزیدتفصیل سے پڑھنے کے لیے ادھرادھرنگاہ دوڑاتے اورجب کسی کواپنی طرف متوجہ نہ پاتے، تواس صفحے کوہی پھاڑکراپنی جیب میں اڑس لیتے، دوسراوہ صفحہ ہوتا،جس پرنئی ریلیزیونے والی رنگارنگ فلموں کے اشتہارات ہوتے، ظاہرہے کہ سنیماہال میں جاکروہ فلمیں تودیکھ نہیں سکتے تھے، توان کے اشتہارات کوہی دیدے پھاڑکردیکھتے، تب مراٹھامندرمیں ڈی ڈی ایل جے کاغالباڈھائی سوواں/تین سوواں ہفتہ چل رہاتھا،اس کے بعدجس صفحے کواہتمام سے پڑھاجاتا، وہ ادارتی صفحہ ہوتاتھا،ظاہرہے کہ اس میں جومضامین شائع ہوتے، وہ اس وقت کماحقہ ہماری سمجھ میں نہ آتے تھے، مگراس پیج میں کوئی کشش ہوتی تھی کہ ہم اسے بھی شوق اورغورسے پڑھتے اوردیکھتے تھے،خاص مضمون والے کالم میں مختلف ایام میں کئی لوگوں کے مضامین شائع ہوتے تھے، مگرایک نام ہمیشہ مجھے اپنی جانب متوجہ کرتا، اس وجہ سے نہیں کہ ان کے مضمون کی خوبیاں اورخصوصیات مجھے پتاتھیں؛ بلکہ اس لیے کہ ان کانام مجھے عجیب سامخلوط قسم کالگتاتھا،”کلدیپ نیر "شروع میں تومیں مضمون پڑھنے سے زیادہ اس پرغورکرتارہاکہ یہ بندہ ہندوہے یامسلمان ہے یادونوں ہے؟ پھراس نام کاعادی ہوتاگیا اور پابندی سے ان کے کالم پڑھنے لگاـ ممبئی میں قیام کازمانہ لگ بھگ سواسال کاہوگا اوراس دوران کلدیپ نیر/نائرکوہم نے پابندی سے پڑھاـ
بعدکے دنوں میں انھیں ہوش اورشعورکے ساتھ پڑھا، پھریہ عقدہ بھی کھلا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں، البتہ ان کے مضامین اردواخباروں میں مسلسل چھپتے رہتے ہیں؛ اس لیے اردووالوں نے انھیں نائرسے نیربنادیاہے،حالاں کہ ان کی کئی کتابیں، جو اردومیں پاکستان سے چھپی ہیں، ان کے ٹائٹل پر ان کانام کلدیپ نائرہے ـ
بہرکیف وہ ایک وژنری صحافی تھے، ان کے اندرسطحیت کی بجاے دروں بینی، بصیرت مندی، ژرف نگاہی،فکری آفاقیت اورسینہ ودل کاتوسع پایاجاتاتھا، انھوں نے کم وبیش سترسال سرگرم عملی،صحافتی زندگی گزاری، اس عرصے میں ان کے رول بدلتے بھی رہے،وہ صحافی ہونے کے علاوہ ایک ڈپلومیٹ، مصنف، سماجی کارکن، ہند-پاک دوستی کے نہایت پرجوش داعی ومحرک تھے، ان کی پیدایش سیالکوٹ کی تھی اوردہلی میں تمام ترآسایشوں، کامیابیوں کے حصول کے باوجودوہ سیالکوٹ سے خودکوجدانہیں کرسکے تھے، یہی وجہ ہے کہ انھوں سترسال کے عرصے میں اپنی حدتک ہندـ پاک کوقریب لانے کی ہرممکن عملی کوششیں کیں ـ ان کے مضامین ابھی تک ہندوستان میں بہ یک وقت اردو، ہندی اورانگریزی اخبارات میں شائع ہوتے تھے،بیرونی ممالک کے دسیوں اخبارات ان کے کالم پابندی سے چھاپتے تھے،انھوں نے لگ بھگ درجن بھرکتابیں لکھی ہیں،بہت سارے قومی وبین الاقوامی اعزازات سے نوازے گئے، حتی کہ ان کی زندگی میں ہی ایک پرائیویٹ ادارے کی جانب سے ان کے نام سے ایک صحافتی ایوارڈکی شروعات کی گئی اورپہلاایوارڈمعروف ٹی وی جرنلسٹ رویش کمار کوملاتھاـ
کلدیپ صاحب نے ایک بھرپورزندگی گزاری، کامیابیوں اورسربلندیوں کے کئی آسمان چھوئے،اپنے حصے کی شمع پوری قوت وہمت کے ساتھ جلائے رہے، ان کی رحلت آزادہندوستان کی صحافتی تاریخ کے ایک عہد، ایک قرن کی رحلت ہے!
نایاب حسن
چنددن قبل میں اپنے دوستوں (خالدسیف اللہ، ایڈیٹردربھنگہ ایکسپریس اورعبدالباری قاسمی ایڈیٹرقندیل) کے ساتھ رات کے کھانےاورچائے نوشی کے بعدٹہل رہاتھا اوراس دوران قومی سیاست کی مختلف جہتوں پرباتیں بھی ہورہی تھیں،دورانِ گفتگوعبدالباری صاحب نے بتایاکہ ان دنوں اے بی پی نیوزپرآنے والاپنیہ پرسون واجپئی کاخاص پروگرام "ماسٹرسٹروک "جب بھی ٹی وی پرآتاہے، تودرمیان میں باربارسگنل آتاجاتااورپورے پروگرام کے دوران "قطع وبرید "کاسلسلہ جاری رہتاہے،انھوں نے اس پراپنے شبہے کابھی اظہارکیاتھاکہ ہونہ ہو،پرسون کے اس پروگرام کوحکومت کے اشارے پرمتاثرکیاجارہاہو؛ کیوں کہ ابھی کچھ ہی دن قبل جب سے وہ اے بی نیوزمیں آئے تھے اوراپنانیاپروگرام شروع کیاتھا، اس میں زیادہ ترملک کے بنیادی موضوعات ومسائل پرحقائق کی روشنی میں گفتگوکرتے ہوئے خاص طورپرمرکزی سرکاران کے نشانے پرہوتی تھی، ظاہرہے کہ جب قومی میڈیامیں دورچوبیس گھنٹے گائے اورگوبر، طلاق وحلالہ اورمسجدومندر کاکھیل کھیلنے کاچل رہاہو، توایسے میں معقول صحافت کی گنجایش کہاں رہ جاتی ہے! پھرکل بھی ہم نے کسی فیس بک پیج پرایک ویڈیودیکھاکہ ایک شخص پریکٹکلی یہ دکھانے کی کوشش کررہاتھا کہ پنیہ پرسون واجپئی کے پروگرام کے دوران کس طرح ٹی وی کاسگنل عالمِ نزع میں چلاجارہاتھا اورآج بالآخریہ خبربھی آہی گئی کہ پرسون واجپئی اے بی پی نیوزسے الگ ہوگئے یاکردیے گئے ہیں، جب وہ آج آفس پہنچے، توان سے کہاگیا کہ وہ اپناکام کرکے چلے جائیں، ممکن ہے کہ آج ہی ان کے شوکاآخری دن ہو ـ
بہرحال وہ اپنامعمول کاکام نمٹا کردفترسے نکل گئے اوراس کے ساتھ ہی یہ خبرعام ہوگئی کہ انھیں کل سے آفس آنے سے روک دیاگیاہے، اس سے قبل کل ہی کاواقعہ ہے کہ چینل کے ایڈیٹوریل ہیڈملندکھانڈیلکرنے استعفادیاتھا، اسی چینل میں ایک دوسرے بے باک ودوٹوک گفتگوکرنے والے صحافی واینکر ابھیسارشرماہیں، ان کے بارے میں بھی خبرہے کہ انھیں طویل رخصت پربھیج دیاگیاہے، گویاکچھ دن قبل این ڈی ٹی وی کونشانہ بنانے والاسرکاری جبر اب اے بی پی نیوزکے انصاف پسندایڈیٹران اورصحافیوں کوتختۂ مشق بنا رہاہےـ فی الحال توہندوستان کے سیکڑوں چینلوں میں مشکل سے چندایک چینل اوران میں بھی دوچارصحافی ہیں، جنھوں نے واقعی قلم کی آبروقائم رکھی ہے اورخریدوفروخت کے عروج کے دورمیں بھی صحافت کاتقدس برقراررکھے ہوئے ہیں، مگرحاکمِ وقت یہ کیسے برداشت کرسکتاہے کہ اس کی سیاسی لغزشیں سرِ عام آشکارکی جائیں، حکومت کوتووہ چینلزاوران کے زرخریداینکرزاورصحافت کے پردے میں سفاہت پھیلانے والے ناہنجارلوگ پسندہیں، جورات دن مودی مودی کے نعرے لگاتے، حکومت کی غلطیوں کوبھی درست ٹھہراتے،اس کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کووسعت دینے کے لیے گلے پھاڑپھاڑکرچلاتے اورناظرین کے ذہن ودل میں مذہبی انتہاپسندی کی سڑانڈپیوست کرتے ہیں ـ ہم نے آج ہی "دکن کرانیکل "میں ایک رپورٹ پڑھی ہے کہ ہندوستان غربت کی شرحِ فیصدکے معاملے میں اپنے پڑوسی ملک پاکستان سے بھی گئی گزری حالت میں ہے، مگرقومی میڈیاپرایک نظرڈالیے، توایسالگتاہے کہ غربت تواس ملک کاکوئی مسئلہ ہی نہیں ہے،2011میں افریقی عربی ملک تیونس میں ایک ریڑھی والے سبزی فروش نے پولیس کی زیادتی کے خلاف احتجاجاخودکشی کرلی، توپوراملک ہل گیاتھا،قیامت خیزمظاہروں کاایساطوفان آیا کہ کئی عشروں سے تختِ اقتدارپرقابض زین العابدین بن علی سوکھے پتے کے ماننداس طوفان میں اڑگیا، مگرہمارے یہاں مہاراشٹرمیں صرف حالیہ چنددنوں میں کم ازکم پانچ کسان اپنی غربت، بے چارگی اورحکومت کی بے حسی سے عاجزآکر خودکشی کرچکے ہیں، ایک کے توخودسوزی کی بھی خبرہے، مگرنیشنل میڈیامیں ڈسکشن کاموضوع دیکھیے تواس کاکہیں نام ونشان نہیں ہے، مظفرپورکاتازہ حادثہ بھی ہندوستان کے لیے عالمی شرمندگی وذلت کاسبب ہے، مگرنہ توبہارکے وزیرِ اعلی اس پرلب کھول رہے ہیں، نہ مودی نے ایک حرفِ مذمت کہااورمیڈیاکاتوخیرکہناہی کیا،یہاں اب تک راہل گاندھی کی جھپی پرمباحثے ہورہے ہیں اوراین آرسی کے نئے ڈرافٹ پرموٹابھائی ہندی سنیماکے ولن جیسے بول بول رہاہے ـ
بہرکیف موجودہ تیرہ وتارہندوستانی سیاسی منظرنامے پرالیکٹرانک میڈیامیں چندہی ایسے چہرے ہیں، جنھوں نے اب تک برسرِ اقتدارقوتوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے سے انکارکیاہے، یہ حکومت نہ انھیں کیسۂ زرکے دام میں پھنساسکی ہے اورنہ سطوتِ شمشیرہی ان کی بے باکی پرلگام لگاسکی ہےـ ظاہرہے کہ ہردورمیں ایسے لوگوں کی جمعیت بہت محدودہوتی ہے،یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، جوقلم کی آب اورصحافت کاوقارہوتے ہیں، ان کے دم سے حق گوئی کی روایت کوتسلسل عطاہوتا اورحق نگاری کی رسم آگے بڑھتی ہے، یہ ضمیرکی آوازکوسنتے اور حالات کے جبرکوشکست دینے کاحوصلہ رکھتے ہیں ـ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات انصاف، سچائی، حق پرستی وحق پژوہی کودبانے سے عبارت ہیں، ایسے میں ہراس فرد یاادارے کا زیرِ عتاب آنایقینی ہے، جس کے سرمیں حق اورسچ بولنے کاسوداسمایاہواہے، یہ وہ دورہےکہ جس میں سنگ وخشت مقیداورسگ آزادہیں،یہ دریدہ دہنوں کے بدن دریدہ ہونے کادورہے،ہونہ ہوکہ کشیدہ سری پراصرارکرنے والے سپردِ دارورسن کردیے جائیں، مگربہرکیف ایسے جنوں پیشہ گروہ کاوجودضروری ہے، کہ یہی گروہ حکومتِ وقت کی ایذارسانیوں کوعالم آشکاراکرکے اس کی ستم ایجادیوں کاحصارتوڑسکتاہے؛ لہذاحلقۂ صحافت میں جوسنجیدہ لوگ ہیں یاسماج کے دیگرطبقات کے حقیقت پسندحق گوافراد،سبھوں کواس بدترین غیراعلانیہ ایمرجنسی کے خلاف سینہ سپرہوناچاہیے، سلطانیِ جمہور کے موجودہ دورمیں اگرحاکم طبقہ میڈیاکواپنے قابومیں کرلے یااسے خریدلے یااس کے حقیقت بیانی کے حق کودبانے میں کامیاب ہوجائے، تویہ متعلقہ قوم، ملک اورجمہوریت کے لیے انتہاسے بھی زیادہ شرم وذلت کی بات ہے!
نایاب حسن
اپنی بیٹی عہد تمیمی کے ساتھ آٹھ ماہ اسرائیلی جیل میں گزار کر آزاد ہونے والی ناریمان تمیمی اپنی اسارت کے تجربے کو مختصراًیوں بیان کرتی ہیں’’مجھے عہدکی اس تصویر پر کوئی ندامت نہیں ہے،جس میں وہ میرے گھر پر حملہ آورہونے والے اسرائیلیوں کا مقابلہ کررہی ہے…اور میں اپنے گھر یا گاؤں پر ہونے والے کسی بھی ظلم کادستاویزی ویڈیو بناؤں گی‘‘۔ان کا کہناہے کہ انھیں سزااس لیے ہوئی کہ انھوں نے اسرائیلی تسلط کی حقیقت کو ریکارڈکرکے دنیاکے سامنے دکھادیاتھا۔
اسرائیلی فوج نے گزشتہ سال دسمبر کی19؍تاریخ کوعہد تمیمی کو مغربی رام اللہ کے گاؤں نبی صالح سے گرفتار کیاتھا،اس پر یہ الزام لگایاتھا کہ اس نے دواسرائیلی فوجیوں پر حملہ کیااور ایک کومکابھی رسید کیا،پھراس کی والدہ نے ایک ویڈیوبھی نشر کردیا،جس میں وہ اسرائیلی فوجیوں کو اپنے گھر میں گھسنے سے روک رہی تھی۔سترہ سالہ عہدکاکہناہے کہ اس ویڈیوکے عام ہونے کے بعد اسرائیلی فوجی اس کے گھر والوں کوقید میں ڈالنے کی دھمکیاں دیتے ،انھیں ڈراتے ؛ چنانچہ وہ اپنی تعلیم پر دھیان دینے کی بجاے روزانہ رات کواپنی گرفتاری کا انتظار کرنے لگی،حتی کہ اسے گرفتار کرلیاگیا۔
قید سے رہائی کے بعد سیکڑوں لوگ اس کے استقبال کو گئے،اس وقت لوگوں سے بات کرتے ہوئے اس نے جیل کے اپنے بعض تجربات شیئر کیے، اس نے کہاکہ چوں کہ میں نے گاؤں میں اسرائیل کے خلاف احتجاج میں شرکت کی تھی؛اس لیے مجھے تفتیش کا نشانہ بنایاگیا،اس نے بتایاکہ اسرائیلی فوجیوں نے اسے زبانی طورپر ہراساں کیا،وہ کہتے تھے کہ’’تمھارابال بہت خوب صورت ہے،تمھاری آنکھیں بڑی خوب صورت ہیں،جب تم سمندرمیں اترتی ہوگی، توتمھاراسراپابالکل سرخ نظرآتاہوگا ‘‘۔
عہدتمیمی پر12؍الزامات لگائے گئے تھے،ان میں سے ایک یہ بھی تھاکہ اس نے لوگوں کواسرائیل اور اسرائیلی افواج کے خلاف بھڑکایا اور ایک فوجی کوماراتھا،اس پر پتھر برسائے تھے۔عہدتمیمی کا کہناہے کہ اسرائیلی فوج کو مارنے یا اسے گھر سے بھگانے کی وجہ سے اسے گرفتار نہیں کیاگیا؛بلکہ اس کی ویڈیوبناکروسیع پیمانے پر پھیلانے کی وجہ سے اسرائیلی فوج اور حکومت کو زیادہ پریشانی ہوئی،حالاں کہ حقیقت تو اس سے بھی زیادہ ہے، جس سے وہ لوگ ڈرتے ہیں۔عہدتمیمی کوجب گرفتار کیاگیا اور تفتیش کے لیے جنوبی رام اللہ میں واقع تحقیقاتی سینٹر لے جایاگیا،توکچھ دیر بعد اس کی والدہ بھی اپنی بیٹی کی خبر گیری کے لیے وہاں پہنچ گئیں،مگر اسرائیلی فوجیوں نے نہ صرف عہد تمیمی کی والدہ کو ان کی بیٹی سے نہیں ملنے دیا؛بلکہ انھیں بھی گرفتار کرلیا۔ناریمان تمیمی کہتی ہیں’’میری بیٹی کے لیے سب سے مشکل لمحہ وہ تھا،جب اس نے مجھے قید کی حالت میں دیکھا،وہ دیکھتے ہی صدمے کاشکارہوگئی اور چیخنے لگی’’انھوں نے آپ کوبھی گرفتار کرلیا؟‘‘ اسرائیلی فوجیوں نے ہمیں ملنے نہیں دیا‘‘۔پھر اسی رات دونوں ماں بیٹی کو شمالی اسرائیل میں واقع خواتین کی جیل بھیج دیاگیا، جاتے ہوئے بس میں بھی ماں بیٹی کو بات چیت کی اجازت نہیں دی گئی۔ان دونوں کی گرفتاری سے قبل ہی ان کے خاندان کے ایک بچے کو اسرائیلی گولی نے شدید طورپر زخمی کردیاتھا،اس کا زخم نہایت گہرا تھا،عہدتمیمی کہتی ہے کہ’’ہم سب اس کی زندگی و موت کے اندیشے میں گھرے ہوئے تھے‘‘، پھر جلد ہی اس سے بھی زیادہ غمناک خبر ملی،اس کے بڑے بھائی وعدتمیمی کو اسرائیلی فوج نے گرفتار کرلیا،جبکہ چچازادبھائی عزالدین تمیمی اسرائیلی گولی کی زد میں آکر شہید ہوگیا۔عہد تمیمی نے دورانِ قید ایک کنگن تیار کیااوراس پراپنے بھائی کانام نقش کرکے اسے پہنتی اوربھائی کویادکرتی تھی۔اس کا بھائی ایک بیس سالہ نوجوان ہے،جسے اس گاؤں کے دیگر کئی نوجوانوں کے ساتھ گرفتار کیاگیااور ان کے خلاف مقدمے چلائے جارہے ہیں۔
عہدتمیمی کو احساس ہے کہ اس کی گرفتاری و بہادری کے واقعے کو عالمی میڈیامیں غیر معمولی کوریج حاصل ہوئی اور اسرائیلی حکومت نے اسے جو آزادی دی ہے، اس میں کچھ نہ کچھ اس کابھی دخل ہے،مگروہ چاہتی ہے کہ اس موقع کوایک سیاسی سمبل بننے کی بجاے اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینیوں کے دکھ اور پریشانیوں سے دنیا کو آگاہ کرانے کے لیے استعمال کرے،خاص طورپر اسرائیلی جیلوں میں جو کم عمرفلسطینی لڑکے لڑکیاں ہیں ،ان کی پریشانیوں کووہ دنیاکے سامنے اجاگرکرنا چاہتی ہے،اس کا سکنڈری اسکول کا ریزلٹ ابھی نہیں آیاہے،امتحان اس نے جیل میں رہتے ہوئے ہی دیاتھا،عہدتمیمی کا خواب یہ ہے کہ وہ پسِ دیوارِزنداں مصائب جھیل رہے فلسطینیوں کے لیے رہائی وخلاصی کی سفیر بنے ،جس کے لیے وہ قانون کی اعلیٰ ڈگری حاصل کرناچاہتی ہے،وہ چاہتی ہے کہ قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے ملک کا مقدمہ پوری قوت سے عالمی عدالتوں میں لڑے اور ارضِ قدس سے اسرائیلی تسلط کا خاتمہ کرے!
ویسے عہد تمیمی کو اس دھمکی کے ساتھ جیل سے خلاصی دی گئی ہے کہ اگراس نے اسرائیلی حکومت کے خلاف کسی سرگرمی میں حصہ لیا،تومزید تین ماہ کے لیے قید کیاجاسکتاہے،مگر اس لڑکی نے جیل سے نکلتے ہی اس کے دروازے پر شدت سے دھکادے کر اپنے ارادے واضح کردیے کہ وہ اسرائیلی جیل سے ڈرتی نہیں ہے اور اپنے احتجاج و مزاحمت سے بازنہیں آنے والی ہے ۔اس کی والدہ ناریمان تمیمی کواپنی بیٹی کے اسرائیلی فوجی سے بھڑجانے والی تصویر پر کوئی ندامت نہیں ہے،ان کا کہناہے’’جب بھی مجھے اپنے کسی بچے یا رشتے دارپر اسرائیلی غاصبوں کے ظلم کی خبر ملے گی،میں ان کی درندگی کو بے نقاب کروں گی‘‘۔ ان کا خیال ہے کہ اسرائیل کے جرائم کی تصویریں بنانا، انھیں محفوظ رکھنااور جدید وسائلِ مواصلات کے ذریعے پھیلانا ضروری ہے؛تاکہ اسرائیلی تسلط و مظالم کی حقیقت دنیاکے سامنے آئے اور علمبردارانِ عدل وانصاف کواپنی چپیاں توڑنی پڑیں،انھوں نے اپنے گاؤں کے بچوں کو پیغام دیتے ہوئے کہاکہ جس کے پاس بھی موبائل فون ہے،وہ اسرائیلی مظالم کوبلا خوف و خطر ضرور ریکارڈ کرے۔قابل ذکرہے کہ عہدتمیمی کی بے مثال جرأت و بسالت اس کے اہل خانہ کی مشترکہ میراث ہے،اس کے والد نوباراوراس کی والدہ اب تک اسرائیل کی جانب سے اب تک پانچ بارباقاعدہ زنداں رسید کی جاچکی ہیں ،ایک سے زائد بار انھیں گولیاں بھی لگی ہیں،اس کا بڑااور چھوٹابھائی بھی اسرائیل کے خلاف احتجاجات میں شرکت کی وجہ سے ایک سے زائد بار جیل رسید ہوچکے ہیں،اب بھی یہ دونوں ماں بیٹی اسرائیلی جیل سے اس عہد کے ساتھ نکلی ہیں کہ جب تک فلسطین پر اسرائیل کاناجائز قبضہ باقی ہے،تب تک ان کا جہدوجہاد جاری رہے گا،کوئی سی طاقت ان کے اس جذبے کوسردنہیں کرسکتی ۔
ویسے یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے،رام اللہ کے اس گاؤں کا تقریباً ہر بچہ،نوجوان اور بوڑھااسرائیلی جیلوں سے گزرچکاہے اوراس کا سلسلہ جاری ہے، اسی طرح عہد تمیمی جیسے اور بھی بچے اور بچیاں ہیں،جو اسرائیلی جبر کی علامتوں پر مکے رسید کرتے ہوئے اپنی آزادی اور جذبۂ آزادی کو بیداروشرربار رکھے ہوئے ہیں ، سترہ سالہ لڑکی کی فکری اڑان اور ذہنی براقی کودیکھ کر عام ذہنوں کوحیرانی ہوتی ہے ،اس نے جیل سے رہائی کے بعد میڈیا کوخطاب کرتے ہوئے فلسطین کے تئیں رائج عالمی تصور کی تردیدکرتے ہوئے کہاکہ ’’میں حصولِ آزادی کے لیے لڑررہی ہوں؛لہذامیں نہ مجبورہوں اور نہ متاثرہ ہوں، متاثرین تو اسرائیلی فوجی ہیں،جن کا برین واش کرکے ناجائز سرگرمیوں میں استعمال کیاجارہاہے‘‘۔اس کاکہناہے کہ’’ہمیں اپنے نبی محمدﷺکی زوجۂ مطہرہ حضرت خدیجہؓجیسی مضبوط خاتون بنناہے‘‘۔فیض احمد فیض نے جون 1983ء میں لکھی گئی اپنی اس نظم کوجن فلسطینی مجاہدین کی نذرکیاہے،ان میں عہدتمیمی ہی جیسی جرأت مند و بے خوف فلسطینی نسل شامل ہے:
ہم جیتیں گے
حقا ہم اِک دن جیتیں گے
بالآخر اک دن جیتیں گے
کیا خوف ز یلغار اعدا
ہے سینہ سپر ہر غازی کا
کیا خوف ز یورش جیش قضا
صف بستہ ہیں ارواح الشہدا
ڈر کاہے کا
ہم جیتیں گے
حقا ہم اِک دن جیتیں گے
’’قد جاء الحق و زھق الباطل ‘‘
فرمودۂ رب اکبر
ہے جنت اپنے پاؤں تلے
اور سایۂ رحمت سر پر ہے
پھر کیا ڈر ہے
ہم جیتیں گے
حقا ہم اک دن جیتیں گے
بالآخر اک دن جیتیں گے
نایاب حسن
بی جے پی نے دوسروں کو چت کرنے کے لیے سوشل میڈیاپر جیالوں کی جو فوج تیار کی تھی،اس کے حملہ ہاے ترکانہ کا رخ اب خود اس کی ایک سینئر لیڈرطرف ہے اوراس نے گزشتہ کئی دنوں سے لگاتار اس کے ناک میں دم کیاہوا ہے،بات فطری ہے جیساکہ ہم نے بچپن میں ہی پڑھاتھا کہ’’چاہ کن راچاہ درپیش!‘‘تویارلوگوں نے اپنے سیاسی حریفوں،نظریاتی مخالفین اور مسلمانوں و اقلیتوں کورگیدنے کے لیے جو آئی ٹی سیل بنایا تھااور اس کے کارپردازوں کو سوشل میڈیاکے میدان میں اتاراتھا،وہ چوں کہ اب مودی جی اوران کی حکومت کو پروموٹ کرنے کے لیے کوئی معقول وجہ نہیں دیکھ پارہے؛اس لیے بی جے پی کی طرف ہی ان کی توجہ مبذول ہوگئی ہے۔محترمہ سشماسوراج بی جے پی کی ایک سینئر لیڈرہیں،ان کا تعلق اس پارٹی کے اس دھڑے سے ہے،جسے قدرے اعتدال پسند سمجھاجاتا ہے،ان کا پس منظربھی آر ایس ایس والانہیں ہے،حالاں کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کا رویہ روایتی رائٹسٹ رویے کے برخلاف ہے،البتہ یہ ضرورہے کہ اپنے دوسرے کولیگس کے بالمقابل وہ قدرے مختلف ہیں،بحیثیت وزیر خارجہ عام طورپر وہ ایکٹیورہتی ہیں،گزشتہ چار سالوں کے دوران مختلف مواقع پر ان کی بڑی پذیرائی بھی ہوئی ہے،مختلف جنگ زدہ ممالک میں بسے ہندوستانیوں کو اپنے ملک واپس لانے کے سلسلے میں یا کسی دوسرے ملک میں مقیم ہندوستانی کو درپیش مشکل کو دور کرنے کے حوالے سے ان کی کارکردگی کوعام طورپر سراہاگیاہے،چوں کہ آج کل بڑے سے بڑے انسان تک رسائی کے لیے سوشل میڈیاکو ذریعہ کے طورپر استعمال کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھاہے؛کیوں کہ اس طرح فوری رسپانس کی توقع بھی ہوتی ہے؛چنانچہ موقع بہ موقع کئی لوگ سشماسوراج سے بہ ذریعہ ٹوئٹ تعاون کی درخواست کرتے ہیں اور یہ بڑی بات ہے کہ وہ فوراً اس درخواست پر توجہ دینے کے ساتھ حسبِ امکان تعاون بھی کرتی یا کرواتی ہیں۔
ابھی حال میں ایک واقعہ لکھنؤمیں پیش آیا،جہاں پاسپورٹ آفس کے ایک جونیئر افسر نے ایک جوڑے کواس کا پاسپورٹ دینے سے اس لیے انکارکیاکہ شوہر مسلم اور بیوی ہندوتھی اور انھیں برابھلابھی کہا،پھر ان لوگوں نے وزارتِ خارجہ سے رابطہ کیا،تووزارت نے ان کا پاسپورٹ بھی دلوایااور ان کی شکایت کی وجہ سے اس افسر کو لکھنؤپاسپورٹ سیواکیندرسے گورکھپور ٹرانسفرکردیاگیا،اس واقعے پر ہندوتوابریگیڈمیں کھلبلی سی مچ گئی اور انھوں نے ٹوئٹرپر سشماسوراج کے خلاف مہم چھیڑدی،کئی لوگوں نے توان کے شوہر کو مشورہ دیاکہ انھیں اُس طرح ’’ٹھیک‘ ‘کیاجانا چاہیے،جس طرح عام ہندوستانی شوہراپنی بیویوں کو’’ٹھیک‘‘ کرکے رکھتے ہیں۔حیرت ناک امر یہ ہے کہ اس پورے ایپی سوڈ میں وزیر اعظم تودرکنار، کسی قابلِ ذکروزیر تک نے ایک لفظ تک بولنے کاتکلف نہیں کیا۔ اس کے برخلاف 6؍جولائی کوروزنامہ’’انڈین ایکسپریس‘‘ میں بی جے پی کے سنگھ ریٹرن ترجمان و قومی جنرل سکریٹری رام مادھونے اپنے کالم میں ایک طرف تو بی جے پی کے ’’سوشل ایکٹوسٹس‘‘کوتلقین کی کہ سوشل میڈیاپر کسی کے خلاف ناراضگی اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے زبان میں شایستگی ملحوظ رکھنی چاہیے اور کسی کے بارے میں ایسے الفاظ نہیں استعمال کرنے چاہئیں ،جوخود اپنے بارے میں نہیں سننا چاہتے ،اسی طرح سشماسوراج کی قوم پرستی کی ’’تصدیق ‘‘کی اور اپنے لوگوں سے ان پر’’اعتماد‘‘کرنے کی اپیل کی ،مگر ساتھ ہی اپنے اندرون کے چور کوظاہر کرنے سےوہ خودکو روک نہیں سکے اور مضمون کے پہلے پیراگراف میں ہی صاف صاف لکھاکہ’’چاہے سشمار سوراج لکھنؤپاسپورٹ آفس کے جونیئر اہلکار کے ٹرانسفر کی ذمے دارہوں،چاہے انھوں نے یہ عمل مصنوعی سیکولرجوش کے تحت کیاہویاوہ افسر سیکولر گینگ کی زیادتی کا شکارہواہو،یہ سب اہم سوالات ہیں،البتہ ان کی اہمیت ثانوی ہے؛اس لیے نہیں کہ یہ سوالات حساس نہیں ہیں؛بلکہ اس لیے کہ ہمیں کسی نتیجے تک پہنچنے سے پہلے گہرائی سے ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے‘‘۔آپ زبان تو دیکھیں اس بندے کی، ایک وہ خاتون ہے،جس نے اپنی زندگی،اپنی توانائی اور اپنی تمام تر فکری و نظری قوتیں بی جے پی کی تعمیر وترقی کے لیے صرف کی ہیں اور بڑی ریاضتوں کے بعد وہ آج اس مقام پر ہے اور دوسری طرف یہ انسان ہے،جس کی ساری زندگی آر ایس ایس میں گزری اور ابھی بی جے پی میں آئے محض چار سال ہوئے ہیں،دراصل رام مادھوکا یہ لہجہ بی جے پی پر آرایس ایس کی اس چھاپ کانتیجہ ہے،جس کے سایے تلے مودی وودی ؛سب بونے،کوتاہ قد اور Nothing ہیں،سشماسوراج کے خلاف جو مہم جوئی ہورہی ہے اوراس پر بی جے پی کاکوئی بندہ لب کھولنے کی جرأت نہیں کررہا،اس کے پس پردہ بھی کہیں نہ کہیں یہ حقیقت ضرور کارفرماہے کہ اس خاتون کا پس منظرآرایس ایس زدہ نہیں رہاہے۔
البتہ لکھنؤوالے سانحے میں ان کے ساتھ جوکچھ ہواہے،وہ خود ان کی اپنی پارٹی(جس کا خود بھی حصہ ہیں)کے بوئے ہوئے بیج کا نتیجہ ہے،سیاسی مفاد پرستی کے زیر اثرمسلمانوں سے نفرت کی جس انتہاپرآپ لوگوں کوپہنچاناچاہتے ہیں،اتفاق سے وہ اس سے بھی آگے نکل جانے کے چکر میں ہیں،وہ آگ،جوآپ نے دوسروں کوبھسم کرنے کے لیے لگائی تھی،خود آپ کے دامن تک بھی پہنچ چکی یا پہنچ رہی ہے،جس مقصد کے لیے آپ نے ہندوستان کے بے روزگار نوجوانوں کومسلمانوں کے خلاف اکسایاتھا،اسی مقصدکے تحت ان کا ہاتھ اب آپ کے اپنے گریبانوں تک بھی پہنچ رہاہے،ہم تو پروین توگڑیا کوبھی دیکھ رہے ہیں،جس نے مودی جیسے’’ہندوہردے سمراٹ‘‘کی پول کھولنے کا بیڑااٹھایاہواہے اور صاحب جی اس کا قصہ پاک کرنے کے موقعے کی تلاش میں ہیں۔خیر!سشماسوراج کے ساتھ ہونے والی ٹرولنگ یقیناًافسوس ناک ہے،مگر اس کی گہرائی میں جوسفاک عوامل کارفرماہیں،ان سے انکاربھی بھلاکیسے کیاجائےاورمجھے تولگتاہے کہ”ابھی توپارٹی شروع ہوئی ہے "آگے اوربھی مرحلے آئیں گے ـ
ایلے کیپلن (معروف خاتون صنعت کار، دانش ور، لکھاری)
میں نے یہ بات بارہا کہی ہے کہ مطالعۂ کتب کامیابی کی کلید ہے؛چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے دولت مند اور کامیاب انسان مثلاً Bill Gates اور Elon Muskجیسے لوگوں نے کتابوں کو اپنا بہت سارا وقت دیاہے،مؤخرالذکرکاتویہ کہناہے کہ اس نے راکٹ بنانے کا طریقہ کتابوں کے ذریعے ہی حاصل کیا،دوسری طرف متعددمطالعات و تحقیقات سے ثابت ہواہے کہ مطالعہ انسان کے ذہنی دباؤ کودور کرتا،ارتکازی قوت کو بڑھاتااور طویل المیعادوقصیرالمیعادیادداشت کی قوت میں اضافہ کرتاہے۔ ریڈنگ Musclesکولچک داربنانے کے فوائد واضح ہیں،البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پڑھنے کا عمل وقت طلب ہے اور ایک مصروف زندگی میں کسی شخص کا مطالعے کے لیے وقت نکالنا اور پھر محدود ترین وقت میں اس سے فائدہ اٹھاناناممکن سا لگتا ہے۔
ہارورڈبزنس ریویواور دیگر ماہرین نے اسی وجہ سے کچھ ایسی ٹپس اور طریقے دریافت کیے ہیں،جنھیں استعمال کرنے سے مطالعہ نہ صرف آپ کا روزکامعمول بن سکتاہے؛بلکہ آپ اپنے پڑھنے کی مقدار و منفعت میں بہت زیادہ اضافہ بھی کرسکتے ہیں۔مثال کے طورپرذیل میں کتب بینی کی عادت کو فروغ دینے والے سات عملی طریقے آپ کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں:
۱۔ہرکتاب کومکمل پڑھنا ضروری نہیں!
کبھی کبھی میں کسی کتاب کا مطالعہ شروع کرتی ہوں،پھرپتالگتاہے کہ اس کے مطالعے میں مجھے مزانہیں آرہایااس میں کچھ خاص پرمعنی موادنہیں ہے،مگراس کے باوجود میں اسے پڑھنے میں اپنی طاقت صرف کرتی ہوں؛کیوں کہ میں کسی کتاب کوبیچ سے نہیں چھوڑنا چاہتی۔
بیسٹ سیلنگ کتاب Happiness Project کی مصنفہ اور ہارورڈبزنس رویومیں ہیبٹ ایکسپرٹ مسزGretchen Rubinکاماننایہ ہے کہ اس قسم کی ذہنیت کہ میں ایک حوصلہ مند انسان ہوں اور ایک کام شروع کرنے کے بعداسے درمیان میں چھوڑنہیں سکتا،مطالعے کے عمل میں مفید نہیں ہوتی؛چنانچہ ان کا مشورہ ہے کہ آپ بے لطف کتاب کوجتنی جلدی چھوڑدیں،اس سے آپ کو اتناہی زیادہ اچھی کتابیں پڑھنے کا وقت ملے گااوربے فائدہ کتاب پر آپ کا وقت کم سے کم خرچ ہوگا۔اسے آپ یوں بھی سوچ سکتے ہیں کہ ہر سال لگ بھگ پچاس ہزار کتابیں شائع ہوتی ہیں،توآپ ایسی کتابوں پر اپنا وقت کیوں ضائع کریں،جنھیں پڑھنے میں آپ کو لطف نہیں آرہا؟اگرآپ کوکوئی ناول پڑھنے میں اچھانہیں لگ رہا،توبغیر کسی احساسِ جرم کے آپ اس سے چھٹکاراحاصل کریں اور کوئی دوسری کتاب پڑھیں!
۲۔وقت توبہت ہے!
بطورمصنف اپنی بے مثال کامیابیوں کومطالعۂ کتب کانتیجہ بتانے والےStephen King اپنے مداحوں سے کہتے ہیں کہ اگر وہ ان کے نقشِ قدم پر چلناچاہتے ہیں،توروزانہ پانچ گھنٹے پڑھاکریں۔قلتِ وقت سے دوچاربزنس وومن کے طورپر مجھے سٹیفن کنگ کی یہ تجویز سن کر پہلے تو ہنسی آئی،پھر ہارورڈ بزنس ریویوکے ذریعے پتاچلاکہ کنگ کیسے اپنے گھر اورگھر کے باہر مطالعے کا اہتمام کرتے ہیں،مثال کے طورپر Red Sox گیم کے دوران بھی وہ مسلسل مطالعے میں مصروف رہتے ہیں۔
عام چلنے پھرنے ؍تفریح کرنے والے لوگ اُس شخص کو مجنوں سمجھیں گے،جوپارک میں بھی کتابیں لے کر پہنچ جائے؛لیکن اگر انھیں معلوم ہوجائے کہ ایسی ہی عادت کی وجہ سے سٹیفن کنگ کی دنیابھرمیں اب تک تین سوپچاس ملین(۳۵؍کروڑ)کتابیں فروخت ہوچکی ہیں،توآیندہ وہ ضرور اپنے ساتھ کوئی کتاب لے کر جائیں گے۔ Parishaکاکہناہے کہ’’دن بھر میں ایسے بہت سے منٹس مخفی ہوتے ہیں،جومل کربہت سارے منٹس میں بدل جاتے ہیں‘‘۔میں یہ نہیں کہتی کہ آپ اپنے کسی عزیز کی شادی میں بھی کتاب لے کر پہنچ جائیں،ہاں یہ ضرور ذہن میں رکھیں کہ ہر جگہ پڑھنے اور مطالعہ کرنے کے لیے تھوڑے بہت مواقع ضرور میسرآجاتے ہیں۔
۳۔یکسو رہیں!
سائنس کامانناہے کہ اگر آپ کوئی کام کررہے ہیں اور اس دوران آپ کا دھیان کسی اورطرف بٹ گیا،توآپ کے کام کانتیجہ الٹاہو سکتاہے اور آپ کی کامیابی کا چانس کم سے کم ہوسکتا ہے۔۲۰۰۹ء کی ایک تحقیق کے مطابق جب اُن طلبانے،جو سائیکولوجسٹ بننا چاہتے تھے،اپنے لیے معاون سرگرمیوں کی تفصیلات لکھیں اور انھیں Experimenterکے ساتھ شیئرکیا،توخودوہ ان سرگرمیوں کو اچھی طرح انجام نہیں دے سکے،جب کہ ان کے مقابلے میں دوسراگروپ،جس نے اپنی سرگرمیاں کسی کے ساتھ شیئر نہیں کی تھیں،اس نے انھیں اچھی طرح انجام دیا۔جب لوگ اپنے کسی کام کا مقصد دوسروں سے شیئر کرتے ہیں،تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود محنت نہیں کرنا چاہتے،پس اگر آپ نے طے کیاہے کہ زیادہ سے زیادہ کتابیں پڑھیں،توآپ اپنےGoal تک پہنچنے کے لیے اس کا اظہاربھی کرسکتے ہیں،اسے لکھ بھی سکتے ہیں،مگر اس کا علم صرف آپ کوہو،کسی اور کواس میں شریک نہ کریں۔
۴۔ذہنی ارتکازہونا چاہیے:
معروف بلاگرNeil Pasrichaنے اپنے گھر میں اس کا انتظام یوں کیاہے کہ ٹیلی ویژن کو بیسمنٹ میں پہنچادیااور بک شیلف کواپنے سامنے رکھا،ہارورڈ بزنس ریویوکے مطابقPasrichaنے ماہرنفسیات Roy Baumeister کے "Chocolate chip cookie and radish "نامی تجربے سے فائدہ اٹھایا،جس میں بھوکے افراد کی ایک جماعت کوایک لمبی پہیلی حل کرنے دی گئی اور اسے کھانے کے لیے کچھ بھی نہ دیاگیا،جبکہ ایسے ہی لوگوں کی ایک دوسری جماعت کوکچھ بسکٹس دیے گئے(اورانھیں کھانے سے منع کیاگیا) متوقع طورپر بسکٹ والے گروپ نے جلدی ہاتھ اٹھادیا؛ کیوں کہ اس نے اپنی ساری طاقت بسکٹ سے دور رہنے میں صرف کردی تھی۔
۵۔مطبوعہ کتابیں پڑھیں:
ذہنی ارتکازکے سلسلے میں یہی مشورہ ای۔بکس کے بالمقابل مطبوعہ کتابوں کے پڑھنے کے حق میں نافذالعمل ہونا چاہیے۔آپ کے ہاتھ میں کوئی ’’محسوس‘‘ کتاب ہو،یہ زیادہ بہتر اور آپ کی توجہ وقوتِ ارادی کومرکوزکرنے والاہے،بالمقابل اس کے کہ آپ کے پاس کوئی ایسا ڈیوائس (موبائل،ٹیبلیٹ،لیپ ٹاپ وغیرہ)ہو،جوانٹرنیٹ سے کنکٹ ہواور اس میں کتابیں بھی ہوں،جنھیں آپ پڑھیں،پھر اسی دوران ای میل چیک کرنے لگیں یاسوشل میڈیاپر مشغول ہوجائیں، اس سے یقیناً آپ کا ذہن منتشرہوگااور توجہ بٹ جائے گی،پھر آپ مطالعے سے کماحقہ مستفید نہیں ہوسکتے۔یہ بھی ذہن میں رہے کہ ذہنی توجہ کا ارتکازمطبوعہ کتاب کے مطالعے کے مفید ہونے کی کئی وجوہات میں سے ایک ہے،ورنہ آج کل کے دور میں،جبکہ تمام تفریحی و کاروباری ذرائع سکرین پر منتقل ہوچکے ہیں،مطبوعہ کتاب کامطالعہ ذہنی تازگی ونشاط کے حصول میں بھی مفید ہے۔
۶۔اپناطرزِفکربدلیے!
میڈیاسٹریٹیجک اورمصنفRyan Holidayزوردیتے ہیں کہ ہم اگر زیادہ سے زیادہ پڑھنا چاہتے ہیں،تواس کے لیے ہمیں پہلے ’’پڑھنے‘‘سے متعلق اپنی سوچ کوبدلنا ہوگا،ان کاکہناہے کہ’’پڑھنے کے عمل کوکسی دوسرے عمل کی طرح نہیں سمجھناچاہیے کہ چاہاتوکیایانہیں کیا؛بلکہ یہ ہمارے فطری اور ضروری اعمال جیسے کھانے اور سانس لینے جیسا ہونا چاہیے‘‘۔ان کے مطابق’’آپ اس لیے نہیں پڑھتے کہ آپ پڑھنا چاہتے ہیں؛بلکہ عموماً غیر ارادی اور لاابالی پن کے ساتھ پڑھتے ہیں‘‘۔کامیابی کا خواب محض اس کے متعلق بات کرنے سے پورا نہیں ہوتا،اس کے لیے دقت پسندی کے ساتھ خاکہ سازی کی جاتی ہے، پھر محنت کی جاتی ہے،تب وہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوتاہے،آپ بھی ایسا کرسکتے ہیں،اس طرح کہ اپنی مطالعے کی عادت کومنظم بنائیں،وقت کے مطابق ہدف مقررکریں اورانھیں روزانہ کے کاموں میں اول نمبر پر رکھیں۔
۷۔منتخب کتابوں کی فہرست بنائیں!
بسااوقات کوئی فیصلہ لینے میں غیر معمولی پریشانی درپیش ہوتی ہے،فیصلہ لینے کایہ عمل اس وقت آپ کی قوتِ ارادی پربھی بہت اثر انداز ہوتا ہے،جب آپ کوئی نئی عادت مثلاً مطالعہ و کتب بینی کو اختیار کرنا چاہتے ہوں؛چنانچہ اگر آپ ہرسال شائع ہونے والی ہزاروں کتابوں کوپڑھنا چاہیں،توایسا ہوتونہیں سکتا،البتہ اس چکر میں آپ کے دماغ کی دہی ہوجانی ہے،اسی وجہ سے ہارورڈبزنس ریویومطالعے سے قبل آپ کو منتخب کتابوں کی ایک فہرست بنالینے کا مشورہ دیتا ہے ،خوش قسمتی سے دنیاکے بڑے بڑے ثروت مند مثلاً بل گیٹس اور مارک زکربرگ اپنی پسندیدہ کتابوں کی فہرست شیئر کرتے رہتے ہیں،پس آپ گوگل پر چندمنٹ کی تلاش کے ذریعے مطالعۂ کتب کے سلسلے میں اپنے زمانے کے بڑے لوگوں کی پیروی کرسکتے ہیں۔
یہ عین ممکن ہے کہ ہم وارن بفیٹ کی طرح روزانہ پانچ سوصفحات نہ پڑھ سکیں یا بل گیٹس کی طرح سال میں پچاس کتابیں مکمل نہ کرسکیں،مگر ان طریقوں کو اختیار کرکے ہم سال بھر میں پہلے سے زیادہ کتابیں ضرور پڑھ سکتے ہیں،اپنی معلومات کاجائزہ لینے،ان میں اضافہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرسکتے ہیں اور کتب بینی کے سائنٹفکAdvantagesسے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
ترجمانی: نایاب حسن
ابراہیم قالین
۲۴؍جون کو ترکی کے عوام نے ایک تاریخی صدارتی و پارلیمانی الیکشن میں ووٹنگ کی،پہلے کی طرح اس بار بھی ووٹنگ فیصداسی سے زائد تھا،صدر رجب طیب اردوگان کو52.5فیصدووٹ حاصل ہوئے اور اس طرح ان کا دوبارہ صدر منتخب ہونا طے ہوگیا،انھوں نے دیگر امیدواروں کے مقابلے میں دس ملین زائد ووٹ حاصل کیے،ان کی پارٹی(AKپارٹی)نے42.5فیصدووٹ حاصل کیے،جبکہ عوامی اتحاد،جس میں عدالت و انصاف پارٹی کے علاوہ نیشنلسٹ مومنٹ پارٹی شامل تھی،اس نے بھی پارلیمنٹ میں قابلِ لحاظ اکثریت حاصل کی۔
ان نتائج سے پتاچلتاہے کہ ترکی کے عوام اب بھی اردوگان اوران کی پارٹی پر اعتماد کرتے ہیں،اسی طرح ان نتائج کایہ پہلو بھی اہم ہے کہ عوام نے ترکی میں نئے صدارتی نظام کی تائید کی ہے اور اردوگان اس سسٹم میں پہلے صدر کے طورپر منتخب کیے گئے ہیں،اس انتہائی اہم الیکشن میں اردوگان نے مؤثرکمپیننگ کی اور عوام میں اپنی ساکھ قائم رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں،مخالف پارٹیوں نے بھی کچھ ووٹ حاصل کیے،مگر وہ ترکی کی سیاست میں اردوگان کی بلندقامتی کو چیلنج نہیں کرسکیں،مسلسل سولہ سالوں سے حکومت میں ہونے اور13؍ الیکشنزاور ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کرنے والے اردوگان نے اپنے سب سے نزدیکی مد مقابل کوبھی 20؍پوائنٹ سے زائد سے شکست دے دی،موجودہ عالمی سیاست میں کہیں بھی کوئی سیاست داں ایسا نہیں ہے،جسے لگاتاراتنے دنوں سے ایسی نمایاں کامیابی مل رہی ہو،اس سے ترکی کے اندرون کے ان سماجی و سیاسی حقائق کابھی پتاچلتاہے،جن کاباہر والے کماحقہ اندازہ نہیں لگاپاتے۔
اردوگان اوران کی پارٹی کو2002ء سے اب تک کے ان کے ٹریک ریکارڈ کی وجہ سے کامیابی ملی ہے،اتنی بڑی عوامی حمایت نے اس حقیقت پر مہرِتصدیق ثبت کردی ہے کہ وہ ایک کامیاب لیڈرہیں،انھوں نے ترکی کی اقتصادیات کو بہتر سمت دیاہے،ملک میں لچک داروہمہ گیر سیاسی سسٹم کومضبوط کیا ہے، جس کی وجہ سے ترکی کی معیشت وسیاست میں مختلف طبقات کے لوگوں کا شامل ہونا ممکن ہوا ہے۔ پارٹی پالیٹکس اورIdentity Politicsکے تنازعات کے باوجود انھوں نے ترکی کے پسماندہ و مڈل کلاس خاندانوں کا معیارِ زندگی بلند کرنے کی انتھک کوششیں کیں،تعلیم،صحت،انفراسٹرکچر،سڑک،ایئرپورٹ اور پبلک ہاؤسنگ کے شعبوں کوبہتر کیا،انھوں نے سماجی انصاف و برابری پر مبنی اعلیٰ درجے کی منصوبہ سازی کی،جس کی وجہ سے ملک کے شہری و دیہاتی؛ ہردو خطوں نے فائدہ اٹھایا اور ترقی حاصل کی۔
اردوگان کی کامیابی محض Service Politicsکی وجہ سے نہیں ہے؛بلکہ انھوں نے ترکی میں مختلف شناخت رکھنے والے طبقات کے لیے دروازے کھولے ہیں،جن میں مذہبی طبقات،کرد،علوی،غیر مسلم اقلیتیں مثلاً یہودی،رومی آرتھوڈوکس برادری ،آرمینین اور آشوری طبقات شامل ہیں۔کردی زبان پر سے پابندی اٹھالی گئی ہے اورکردوں کوترکی کے دیگر شہریوں کی طرح اپنے آپ کوexpressکرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے،انھیں ہر قسم کی سرگرمیاں انجام دینے کی آزادی ہے؛بلکہ کئی کردتواردوگان کے خاص اور معتمد لوگوں میں شامل ہیں،وہ کردسمیت ترکی سماج کے تمام طبقات سے مضبوط رشتہ رکھتے ہیں،انھوں نے کردعوام اور دہشت گردجماعت PKKکے درمیان واضح خطِ امتیاز کھینچاہے،عوام کواس دہشت گردنیٹ ورک کے مظالم و استحصال سے نجات دلائی ہے،جوصرف اپنے مفادکوعزیزرکھتاہے،اسے کردعوام سے کوئی لینادینانہیں ہے۔
ترکی کی خارجہ پالیسی کی توسیع کرتے ہوئے انھوں نے اس کا دائرہ افریقہ،ایشیااور لاطینی امریکاتک پہنچایاہے،وہ خارجہ پالیسی کو بے مقصد نہیں سمجھتے، ناٹوممبرہونے اور یورپی یونین میں شمولیت کا امیدوارہونے کے ناطے دنیاکے دیگر ممالک کے ساتھ ترکی کا رویہ متضاد نہیں ہوسکتا؛بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ موجودہ ہنگامہ خیز عالمی صورتِ حال کے پیش نظر ترکی کے قومی مفادکے لیے360؍ڈگری خارجہ پالیسی بناناضروری ہے۔دنیاکے مظلوم طبقات کی ترکی کے ذریعے اعانت کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے گئے ہیں،ترکی نے عالمِ اسلام اور دنیاکے دیگر خطوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں انسانوں کی مددکی ہے۔ اردوگان عالمی انصاف کی دعوت دیتے ہیں،اس سلسلے میں ان کا یہ نعرہ خاصااہم ہے کہ’’دنیاپانچ میں منحصرنہیں ہے‘‘ان کی یہ بات اگر چہ بعض مراکزِ طاقت کوبری لگی،مگر حقیقت ہے کہ یہ جملہ موجودہ عالمی نظام کی خرابیوں کی نشان دہی کرتاہے۔یہ امرباعثِ حیرت نہیں ہے کہ اس وقت ان کی جیت کا جشن نہ صرف ترکی میں منایاجارہاہے؛بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فلسطین،صومالیہ،میانمار،افغانستان،پاکستان،سینٹرل ایشیا،بلقان اور دوسرے مقامات پر بھی منایا جا رہاہے،اس وقت اپوزیشن کوچاہیے کہ وہ اپنی خامیوں کا جائزہ لے،اردوگان نے گزشتہ سولہ سال کے عرصے میں فوجی کی بجاے شہری حکمرانی کی حوصلہ افزائی کی اورترکی کے خود ساختہ قائدین کی حوصلہ شکنی کی ہے؛چنانچہ اس وقت ترکی میں سیاسی طاقت حاصل کرنے کا واحد ذریعہ یہ رہ گیاہے کہ عوامی انتخابات میں کامیابی حاصل کی جائے،اردوگان نے اپنے آپ کو چیلنج کے حوالے کیااورکامیابی حاصل کی ہے،اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ ترکش ووٹرس کا اعتماد جیتنے کے لیے نسلی سیاست اور گندی کمپیننگ کے اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلے۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ترکی الیکشن کے حوالے سے میڈیاکے ذریعے بہت سی غلط معلومات پھیلائی گئیں،مغربی میڈیاکے ایک حصے نے زمینی حقائق کی رپورٹنگ کی بجاے سیاسی ورکرکارول اداکرتے ہوئے اپوزیشن کے امیدواروں کو بے جا اُچھالا،حالاں کہ پہلے کی طرح اس بار بھی اردوگان کی شکست کی ان کی پیشن گوئیاں غلط ثابت ہوئیں،انھوں نے قارئین و ناظرین کی پھرکی لینے کے لیے اپنے مخصوص و منتخب ایجنڈے کے تحت رپورٹنگ کی،مگر ان کے منصوبے کارگرنہ ہوسکے،افسوس کی بات یہ ہے کہ انھوں نے ترکی کی سماجی و سیاسی حرکیات کو سمجھنے میں غلطی کی،ایسے میڈیااہل کاروں کے لیے یہ الیکشن ایک سبق ہونا چاہیے۔
اردوگان کی یہ جیت کچھ باہری مبصرین کے گلے اس لیے نہیں اتررہی ہے کہ وہ بعض حاشیائی افراد اور گروپس کی طرف سے پھیلائی جانے والی ناقابلِ اعتمادوجانب دارانہ خبروں پر انحصارکرتے یا مغربی دارالسطلنتوں کے بندکمروں میں بیٹھ کر پیشین گوئی کرنے والے تھنک ٹینکس پراعتماد کرتے ہیں،بہت سے خود ساختہ ’’ماہرینِ ترکیات‘‘توایسے ہیں کہ خود ان کے پاس ترکی کے بارے میں تجزیہ کرنے کے لیے کوئی مضبوط اور ٹھوس معلومات نہیں ہیں، ۲۴؍جون کا صدارتی و پارلیمانی الیکشن صرف اردوگان کے لیے نہیں تھا،اپوزیشن کے لیے بھی تھا،جس کے نتائج واضح ہیں،اب جہاں ترکی صدارتی نظامِ حکومت کے تحت ایک نئے دورمیں داخل ہورہاہے،وہیںیہ ملک شکست و ریخت سے دوچار خطے میں ایک خوشحال و مستحکم جزیرے کی مثال بھی پیش کرتا ہے۔
(مضمون نگاررجب طیب اردوگان کے چیف مشیر،ترجمان ، پرنس الولید سینٹرفارمسلم کرسچین انڈرسٹنڈنگ،جارج ٹاؤن یونیورسٹی ،امریکہ کے ایسوسی ایٹ فیلواور کئی کتابوں کے مصنف ہیں،یہ مضمون ترکی کے انگریزی اخبار روزنامہ’’صباح‘‘میں۲۶؍جون کو شائع ہواہے)
ترجمانی:نایاب حسن
نایاب حسن
وادی میں اسمبلی الیکشن کے بعد بی جے پی وپی ڈی پی کے درمیان قائم ہونے والا سیاسی اتحاد محض تین سال کے اندر بالآخردم توڑگیا،جب یہ اتحاد قائم ہوا تھا، تبھی ایسے اندیشے ظاہر کیے جارہے تھے کہ اس کی عمر بہت مختصر ہوگی اور دونوں پارٹیوں کے طریقۂ کار و طرزِ فکر میں بعد المشرقین ہونے کے باوجودمسلسل تین سال تک اتحاد کا برقراررہ جانا بھی بڑی بات ہے،البتہ اتحاد کے دوپہلووں پر غور کیا جانا ضروری ہے کہ یہ جب قائم ہوا تھا،تب اس کی وجہ کیا تھی اور جب یہ ختم ہوگیاہے،تواس کی وجہ کیاہے؟خبریں ہیں کہ پہلے بی جے پی صدر امیت شاہ نے جموں وکشمیر حکومت میں بی جے پی کے وزراولیڈران کے ساتھ میٹنگ کی،ان سے تبادلۂ خیال کیااوراس کے بعد پی ڈی پی سے اتحاد توڑنے کا فیصلہ لیاگیاہے،دہلی میں پارٹی کے نائب صدروجنرل سکریٹری رام مادھواپنی پریس کانفرنس میں یہ کہتے نظر آئے کہ ہم نے پی ڈی پی کے ساتھ مل کر اس لیے حکومت بنائی تھی کہ عوامی مینڈیٹ ضائع نہ ہوجائے اور ہم یہ بھی چاہتے تھے کہ مل کر وادی میں امن و امان کی بحالی کے لیے کوششیں کریں گے،مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر کے ساتھ خصوصی برتاؤ کیا،اسی ہز ارکروڑروپے کا بجٹ وادی کی ترقیات کے لیے جاری کیاگیا،وزیر داخلہ اور دیگر سینئر وزراو لیڈران نے ریاست کے متعدد دورے کیے،صوبے میں قیامِ امن کے لیے مذاکرات کی بھی کوششیں کی گئیں،مگر صوبے کی حکومت نے اس سلسلے میں اُس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا،جو اس سے مطلوب تھا،رام مادھوکے مطابق یہ فیصلہ حالیہ دنوں میں بگڑتے ہوئے حالات ،سیزفائرکی مخالفت اور معروف صحافی شجاعت بخاری وفوجی جوان اورنگزیب کے دن دہاڑے قتل جیسے واقعات کی وجہ سے بھی کیاگیا ہے، ان کاکہنایہ بھی تھا کہ پی ڈی پی جموں اور لداخ کے علاقوں کے ساتھ ناانصافی کررہی تھی اور ان علاقوں میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کیاگیا۔ویسے تجزیہ کاروں کامانناہے کہ اس اتحادکے ٹوٹنے کے آثارتوپہلے سے ہی نظر آرہے تھے اور اس کی پیش رفت خود پی ڈی پی نے کردی تھی،The Economic Timesنے مارچ میں رونما ہونے والے ایک واقعے کاحوالہ دیتے ہوئے لکھاہے کہ پی ڈی پی اور بی جے پی کے درمیانcontact personکا رول اداکرنے والے ریاست کے وزیر خزانہ حسیب درابونے ایک موقعے پر کشمیر کے مسئلے کوایک ’’سوشل ایشو‘‘قراردے دیاتھا،جس کی وجہ سے انھیں اپنی منسٹری گنوانی پڑی تھی،پی ڈی پی نے اپنے اس اقدام سے ہی واضح کردیاتھاکہ بی جے پی اور پی ڈی پی میں جو نظریاتی بعدہے،وہ ختم نہیں ہونے والا اور ساتھ مل کر حکومت بنانامحض ایک سیاسی ضرورت یا’’سیاسی مفادپرستی‘‘ہے،اسی طرح کٹھوااجتماعی عصمت دری کے بعد بھی وادی میں بی جے پی بیک فٹ پر آگئی تھی؛کیوں کہ ایک طرف زانیوں کی حمایت کرنے والے اسی کے نظریے کے لوگ تھے،جبکہ دوسری طرف اسے بطورحکمراں پارٹی کے اپنے آپ کو مظلوموں کے ساتھ بھی کھڑاکرنا تھا،نائب وزیر اعلیٰ (جو بی جے پی سے تھے)اپنی اس پوزیشن کو اچھی طرح نبھانہ سکے اور بالآخرانھیں عہدے سے دست بردار ہونا پڑا تھا۔ محبوبہ مفتی نے بھی اب تک بڑاسمپل ری ایکشن دیاہے،اس سے بھی ایسا لگتاہے کہ انھیں اس اتحاد کے ٹوٹنے سے کوئی ’’شاک‘‘نہیں لگاہے،جیسا کہ میڈیالوگوں کو باورکرانا چاہ رہاہے،ان کاکہناہے کہ ہم نے ریاست کے بھلے کے لیے ہی بی جے پی کے ساتھ مل کرحکومت بنائی تھی،البتہ رشتہ ٹوٹنے کی کوئی وجہ انھوں نے نہیں بتائی ،ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیاہے کہ وہ کسی دوسری پارٹی کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کانہیں سوچ رہی ہیں۔
دوسری طرف کانگریس اور نیشنل کانفرنس بغلیں بجارہی ہیں،عمر عبداللہ اور غلام نبی آزاد نے واضح طورپر کسی سے بھی اتحاد کے امکان کو مسترد کیاہے اور ساتھ ہی پی ڈی پی و بی جے پی پر الزام لگایا ہے کہ انھوں نے تین سال کے دوران ریاست کو بے پناہ اقتصادی و سماجی نقصان پہنچانے کے بعد اسے ایک سخت صورتِ حال میں مبتلاکردیاہے،دیگر سیاستی رہنمابھی بڑی پھرتی سے اپنے ردعمل کا اظہار کررہے ہیں۔ویسے حقیقت میں اسے دونوں پارٹیوں(خاص کر بی جے پی) کی ابن الوقتی کہنا چاہیے کہ تختِ حکومت پر قابض ہونے کے لیے نظریاتی بعدہونے کے باوجود اتحاد قائم کرلیا،پھرجیسے تیسے گھسٹتی رہیں،اس دوران نہ تو وادی کے حالات میں کوئی بہتری آئی،نہ وہاں کی ترقی و خوشحالی کے لیے کچھ نیاکیاگیا؛بلکہ حالات بد سے بدتر ہی ہوتے رہے،اب جب اگلا عام الیکشن ہونے میں سال بھر سے بھی کم وقت رہ گیاہے،توملک کے عوام کو’’ چُو…‘‘بنانے کے لیے بی جے پی کی طرف سے بڑی سیاسی چال چلنے کی کوشش کی گئی ہے،چوں کہ اس ملک کا غالب حصہ کشمیر کو آرایس ایس کے چشمے سے دیکھتاہے،جو بی جے پی کاسرپرست ہے،جس کی نگاہ میں ہر کشمیری آتنک وادی ہے اور اس میں نہ کسی فرد کی تفریق ہے،نہ جماعت کی؛لہذا موٹابھائی نے ملک بھر کے بھکتوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ دیکھو!ہم آتنک وادیوں کو برداشت نہیں کرسکتے اور اس کے لیے حکومت بھی قربان کرسکتے ہیں،رام مادھویا بی جے پی اس اتحاد کو ختم کرنے کی وجہ جوبھی بیان کریں،اصل وجہ یہی ہے۔گھاٹے میں یقیناً پی ڈی پی رہی ،کہ اسے موقع پرستی اور نظریات سے پیچھے ہٹنے کاالز ام بھی سہنا پڑا اور اب بی جے پی نے اسے ایسے موڑپر لاکرپٹخنی دی ہے کہ اس کے لیے نہ جاے ماندن،نہ پاے رفتن کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔اب گیندگونراین این ووہراکے پالے میں ہے،ان کی مدتِ کارکی اگلی امرناتھ یاتراتک توسیع پہلے ہی کی جاچکی ہے ، دیکھناہے کہ گورنرراج نافذہونے کے بعد کب تک قائم رہتاہے،عمرعبداللہ نے توگورنرسے اپیل کردی ہے کہ چوں کہ عوام کو حکومت کے انتخاب کاحق حاصل ہے؛لہذاگورنرراج کولمبا کھینچنے کی بجاے فوراً انتخابات کرادیے جائیں ،بہر کیف بی جے پی۔پی ڈی پی اتحادکاڈرامااپنے کلائمیکس کوپہنچ چکاہے:
ساری باتیں ٹھیک تھیں تیری،تومیرا،میں تیراتھا
اورمفادجہاں ٹکرایا،ساری کہانی ختم ہوئی!
نایاب حسن
آرایس ایس نے 7؍جون کوسابق صدرجمہوریہ پرنب مکھرجی کو اپنے یہاں تربیت حاصل کرنے والوں کے اجتماع سے خطاب کرنے کے لیے ناگپور مد عو کیا ہے،جس پرقومی میڈیامیں بحث کا تازہ سلسلہ شروع ہوگیاہے،کچھ لوگ ہیں،جواس دعوت میں کانگریس اورآرایس ایس کی ’’خفیہ‘‘رشتے داری کو تلاش کررہے ہیں،جبکہ کچھ لوگ ذاتی طورپر پرنب مکھرجی اور آرایس ایس کے تعلقات کی کھوج میں مصروف ہیں،فیس بک وغیرہ سوشل سائٹس پر مجھے متعددایسی تصاویرنظرآئیں،جن میں پرنب داکوخاکی چڈی پہناکر پیش کیاگیاہے،گو یاان کا آرایس ایس سے پرانایارانہ ہے اوراسی وجہ سے انھیں آرایس ایس نے اپنے یہاں خطاب کے لیے بلایاہے،حالاں کہ دوسری جانب ایک حقیقت وہ ہے،جو سارے ہندوستان کوپتاہے کہ پرنب مکھرجی لائف ٹائم کانگریسی ہیں اور ان کی شبیہ ایک سادہ مزاج،مگر گھاگ سیاست داں کی رہی ہے،انھوں نے اپنے اب تک کے طویل تر سیاسی کریئر میں کانگریس اور حکومتِ ہند میں مختلف بڑے چھوٹے مناصب پر رہتے ہوئے کام کیاہے اور عام طورپر ان کے کام کو سراہاگیاہے۔پرنب مکھرجی عام طورپر سنجیدہ رہنے والے ایک سلجھے ہوئے انسان نظر آتے ہیں ،ان کے فکر ونظر میں کشادگی اور زبان و بیان میں سادہ بیانی وشفافیت نظر آتی ہے،وہ صدرجمہوریہ بنائے تو گئے تھے کانگریس کے دورِ حکومت میں ،مگر 2014ء میں مودی اینڈ کمپنی کے بیچ پھنس گئے تھے،مگر لگ بھگ ساڑھے تین سال کا عرصہ وہ کسی طرح نکال لے گئے،ایسانہیں کہاجاسکتا کہ انھوں نے مودی حکومت میں انجام پانے والی عوام مخالف پالیسیوں اور اقدامات کی تائید کی یاان کی حوصلہ افزائی کی؛بلکہ انھوں نے موقع بہ موقع حکومت کو ٹوکااور اس کی غلطیوں کی نشان دہی بھی کی،البتہ جمہوریۂ ہند میں چوں کہ صدرِمملکت کی طاقت ہمیں معلوم ہے؛لہذازیادہ تر ان کی باتیں نقارخانے میں طوطی کی آواز ہی ثابت ہوئیں،البتہ انھوں نے صدرجمہوریہ رہتے ہوئے اپنی ذمے داریوں کواداکرنے کی بھرپور کوشش کی اوراپنے طورپر کسی کوتاہی کامظاہرہ نہیں کیا۔
کچھ دانش ورقسم کے لوگ پرنب داکودی جانے والی اس دعوت کوخوش آیندقراردے رہے ہیں،ان کاموقف یہ ہے کہ آرایس ایس نےOut Of The Boxسوچنے اور قدم اٹھانے کی پہل کی ہے،جو قابلِ تعریف ہے اوراس کے لیے آرایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت قابلِ تحسین ہیں،ابھی دوماہ قبل مارچ میں انھوں نے پونے کے ایک پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ بی جے پی کی جانب سے’’ لانچ ‘‘کیاگیا ’’کانگریس مکت بھارت‘‘ کا جملہ دراصل ایک سیاسی نعرہ تھا،اس کاحقیقت سے کوئی لینادینانہیں ہے،انھوں نے اسی موقعے پر یہ بھی کہاتھا کہ ہم سب (موافقین و مخالفین )کومل کر ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینا چاہیے۔بی جے پی کے سینئر لیڈراور سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے معاون سدھیندرکلکرنی نے کل کے روزنامہ انڈین ایکسپریس میں اپنے کالم میں لکھاہے کہ کانگریس اور راہل گاندھی کو اس دعوت پر حیرت زدہ یا پریشان ہونے کی بجاے اسے تحسین کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے اور خود راہل کو بھی چاہیے کہ وہ آرایس ایس سربراہ کو کانگریس آفس یا اپنی رہایش گاہ پر مدعوکرکے ملک کے موجودہ حالات پر تبادلۂ خیال کریں ،مسائل سے نمٹنے کی تدبیروں پر غوروخوض کریں اور باہمی اختلاف کے باوجود ملک کی تعمیر و خوشحالی کی منصوبہ سازی میں مشارکت کامشترکہ عہد کریں۔آرایس ایس کے حوالے سے انھوں نے لکھاہے کہ اس تنظیم کا دعویٰ ہے کہ وہ سیاسی پارٹی نہیں ہے اوراس کا سیاست سے کوئی لینا دینانہیں ہے،اپنے اس دعوے کواسے عملی طورپر ثابت کرناچاہیے،حالاں کہ میرے خیال میں ایسا ممکن ہی نہیں ہے؛کیوں کہ آرایس ایس تو وہ تربیت گاہ ہے،جہاں سے ٹریننگ حاصل کرکے لوگ بی جے پی میں داخل ہوتے اور قومی سیاست میں وارد ہوتے ہیں،اس وقت بی جے پی کے صفِ اول و دوم کے بیشتر سیاست داں ناگپور سے’’فارغ التحصیل ‘‘ ہونے کے بعد ہی قومی سیاست میں عملی حصہ لے رہے ہیں اور اس کا علم پورے ملک کوہے،کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
سدھیندرکلکرنی کی بات یہاں تک توٹھیک ہے کہ باہم متخالف جماعتوں ،اداروں اور تنظیموں کوبھی کبھی کبھی ایک ساتھ بیٹھنے اور بات چیت کرنے کی پہل کرنی چاہیے،اس سے دوریاں ختم تونہیں ہوں گی،کم ضرور ہوں گی،تعلقات کی تلخی بھی کچھ ہلکی ہوگی،ایسابھی نہیں ہوتا کہ کسی تنظیم میں صرف خامی ہی خامی ہو،اس میں بعض خوبیاں بھی ہوسکتی ہیں،اگر مکالمہ ومذاکرہ کاماحول ہوگا،توایک دوسرے کی ان خوبیوں کواپنانے کی طرف توجہ ہوسکتی ہے۔اس وقت جو کل ہند سطح پر آرایس ایس سیاسی عروج کے فقیدالمثال دور سے گزررہاہے،اس کے پیچھے اس کا نہایت منظم تنظیمی ڈھانچہ،لاثانی اتحاد،اپنے مقصد کے حصول کے تئیں فدائیت و فنائیت کاقابلِ قدر جذبہ،رضاکارانہ طرزِعمل کا وفوراور باہمی تعاون کا عمومی مزاج کارفرماہے اور اس کی ان خصوصیات سے کوئی بھی انصاف پسند شخص انکار نہیں کرسکتا،جبکہ اس کے برخلاف کانگریس میں عام طورپر اشرافیہ طبقے کا بول بالا رہاہے،جس کی خودپسندی اور عجب و غرور و نرگسیت نے ہی اس جماعت کوموجودہ سٹیج پر پہنچایاہے،تنظیمی اعتبار سے آرایس ایس کی جو خوبیاں ہیں ،ان سے ملک کی ہرتنظیم چاہے وہ سیاسی یاسماجی،رفاہی و ثقافتی؛یکسرخالی ہے،آرایس ایس تووہ تنظیم ہے،جس نے اپنی تاسیس کے بعد لگ بھگ چالیس سال انڈرگراؤنڈرہ کر کام کیاہے،اس کے پس پشت عزائم جوبھی رہے ہوں، مگر یہ توبہر حال ایک حقیقت ہے کہ اس نے بے غرضی کے ساتھ صرف کام کواپنے پیشِ نظر رکھاہے، جبکہ ہم دوسری تنظیموں کودیکھتے ہیں کہ وہ کام کرنے سے زیادہ تشہیر وایڈورٹائزنگ کے پیچھے ہلکان ہوتی رہتی ہیں۔
بہر کیف پرنب مکھرجی کا آرایس ایس کے اجتماع میں جانا تقریباً یقینی ہے،سدھیندرکلکرنی نے اپنے کالم میں پرنب داکو لکھاہے کہ انھیں اس موقعے پر ملک کو درپیش تہذیبی ،ثقافتی و سماجی چیلنجز کوبیان کرتے ہوئے ان سے نمٹنے کے لیے تمام ہندوستانیوں کی ذمے داریوں کی تشریح کرنی چاہیے،انھیں بیان کرنا چاہیے کہ جمہوریت اور تہذیبی تنوع اس ملک کی ضرورت ہے اوراس کی بقاکے لیے لازمی عنصر بھی ہے،انھیں ملک کے اکثریت کے ایک طبقے میں اٹھنے والی نفرت و زہریلے نعروں کی لہر کے نقصانات کی نشان دہی کرنی چاہیے،انھیں بتانا چاہیے کہ ہندوستان کا روشن مستقبل ہندوراشٹر میں نہیں؛بلکہ اس کے جمہوری و مشترکہ کلچر کو مضبوط کرنے میں ہے،پرنب مکھرجی کا آرایس ایس کے اجلاس میں جانا قابلِ اعتراض ہرگزنہیں ہے، دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ وہاں کیاکہتے ہیں!
تحریر:نروپماسبرامنین
ترجمانی:نایاب حسن
(نروپماسبرامنین معروف انگریزی مصنفہ اور کالم نگار ہیں،اب تک ان کے دوبیسٹ سیلنگ ناولز منظرعام پرآچکے ہیں،پہلاناول Keep The Changeکے نام سے2010ء میں شائع ہواتھا،جبکہ دوسرا Intermissionکے نام سے جولائی 2012ء میں منظرعام پرآیاتھا۔ٹائمس آف انڈیا، ہندوستان ٹائمس ،انڈین ایکسپریس ،آبی این لائیوڈاٹ کام ،دی ریڈنگ آوراور ڈھاکہ ٹریبیون سمیت دسیوں دیگرقومی و بین الاقوامی انگریزی اخبارات، بلاگس،ویب سائٹس وغیرہ پر ان کے مضامین،تجزیے،تبصرے پابندی سے شائع ہوتے ہیں۔ان کا زیر نظرمضمون17؍مئی کو روزنامہ انڈین ایکسپریس میں شائع ہوا ہے۔ ماں بیٹی کے مکالمے پر مشتمل یہ تحریردلچسپ بھی ہے اورمعنی خیزبھی!)
’’اپنے کمرے میں یہ تصویر کیوں لٹکارکھی ہے؟‘‘اب کی بارجب میں گھرگئی،توامانے نہایت غصے سے پوچھا۔’’کون سی تصویر؟‘‘میں نے ان سے دریافت کیا، حالاں کہ مجھے اندازہ ہوگیاتھاکہ ان کا اشارہ جناح کی تصویر کی طرف ہوگا۔میری چھیاسی سالہ والدہ نے کہا’’وہ تصویر ،جس میں ایک بندہ بلیک سوٹ میں ملبوس ہے،اس کے منہ میں سگریٹ اور ساتھ میں دوکتے کھڑے ہیں‘‘۔
’’آخراتنے دنوں بعداچانک آج کیوں اس بارے میں آپ پوچھنے لگیں؟‘‘میں نے اپنی ماں سے دریافت کیا۔’’میں تم سے کیوں پوچھ رہی ہوں؟تم نے دیکھانہیں کہ ایسی ہی ایک تصویر کی وجہ سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کیاہورہاہے؟دس سال پہلے یہ کوئی قابلِ اعتراض چیز نہیں تھی،مگراب یہ کسی دھماکے دار چیز کی طرح ہوگئی ہے‘‘۔میں نے جواب دیا’’ارے یہ سب ہنگامہ کرناٹک الیکشن کے پیش نظر کھڑا کیاگیا ہے،ویسے یہ ایک پرائیویٹ گھرہے،یہاں آپ کسی کی بھی تصویر لگاسکتی ہیں‘‘۔
میری امانے کہا’’آج کل کچھ بھی نہیں کہاجاسکتا،اگر وہ گھروں پرریڈمارنے لگ جائیں،پھر کیاہوگا؟جیسے انھوں نے دوتین سال قبل بیف تلاش کرنے کے لیے کسی بندے کے گھر کی فریج چیک کی تھی،تم توویسے بھی ایک جانی پہچانی انسان ہو اور ہمیشہ ہندوستان و پاکستان کی دوستی کے امکانات پر لکھتی رہتی ہو‘‘۔ ’’اما!آپOver-reactکررہی ہیں‘‘میں نے کہا۔’’نہیں !میں Over-reactنہیں کررہی،آخرتمھارے کمرے میں جناح کی تصویر کیوں ہے؟وہ تمھارے انکل لگتے ہیں؟‘‘۔میں نے جواب دیا’’وہ تصویر دراصل میری تاریخ کا حصہ ہے‘‘۔امانے فوراًمیرے جواب کا ردکیا’’تمھارے پاس گاندھی یا نہروکی بھی کوئی تصویر ہے؟وہ بھی تو تمھاری تاریخ کا حصہ ہیں،یہ وہ لوگ ہیں،جن کی تصویریں تمھارے پاس ہونی چاہئیں،جناح کی نہیں!‘‘۔
’’اما! میں ہندوستان کی تاریخ کی بات نہیں کررہی،گرچہ وہ بھی اس کا حصہ ہے،مگر میری مراد میری ذاتی تاریخ ہے،میرے کام کی تاریخ،یہ تصویر مجھے پاکستان کے ایک مشہور شخص نے بطورہدیہ دیاتھا‘‘میں نے کہا۔
’’ہدیہ؟کیااس مشہور بندے کے پاس تمھیں ہدیہ دینے کے لیے اور کوئی چیز نہیں تھی؟‘‘
’’اس شخص نے اپنی ساری زندگی پاکستانیوں کویہ بتانے میں صرف کردی کہ ان کے ملک کا بانی پکا سیکولر تھا‘‘۔
’’سیکولرتھا؟تبھی اس نے ہندوستان کا بٹوارہ کروایااوراس کے نتیجے میں بے پناہ خوں ریزیاں ہوئیں؟‘‘۔
’’اما!آپ کو پتاہے ناکہ تقسیمِ ہندکی کہانی نہایت پیچیدہ ہے‘‘۔
’’بہرکیف!یہ بتاؤکہ وہ مشہور بندہ کون تھا،جس نے تمھیں وہ تصویر گفٹ کی تھی؟‘‘۔
’’ان کا نام اردشیرکاؤسجی تھا،وہ پاکستانی اخبار ’’ڈان‘‘کے کالم نگار تھے اور وہ تاحیات یہ لکھتے رہے کہ جناح نے پاکستان میں ہر شخص کو اس کے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی کی بات کی تھی،جب میں کراچی میں ان کے گھر ان سے ملنے گئی،توانھوں نے مجھے دو(تصویریں)پوسٹرزدیے تھے اور کہاتھا کہ دوسرا پوسٹراگر میں چاہوں ،توکسی کوبھی دے سکتی ہوں۔انھوں نے کہاتھا کہ لوگوں کو یہ حقیقت بتانے کے لیے کہ جناح کوئی کٹرمذہبی انسان نہیں تھا ،خوب صورت سلے ہوئے سوٹ میں ملبوس،منہ میں سگریٹ دبائے،کتوں سے کھیلتے ہوئے جناح کی تصویر شیئرکرنا ضروری تھا‘‘۔
’’یعنی تمھارے پاس ایسی ایک اور تصویر ہے؟‘‘ امانے تقریباًچلاتے ہوئے سوال کیا۔
’’نہیں نہیں!میں نے ایک تصویر وہاں سے لوٹتے وقت ایک پاکستانی دوست کودے دی تھی‘‘۔
’’خداکاشکرہے!اب میں اپنے اصل سوال پر آتی ہوں،یہ تصویر کب ہٹاؤگی؟‘‘۔
’’اگرآپ کواس سے زیادہ تکلیف ہے،توجب میں گھرسے لوٹنے لگوں گی،توساتھ لیتی جاؤں گی‘‘۔
’’ہرگزنہیں!ایسا نہ ہوکہ ہوائی اڈے پر ایکسرے مشین تمھیں روک لے اورپھر مجھے اورتمھارے پاپاکوتمھیں پولیس سے چھڑاکرلانا پڑے‘‘۔
’’اما!ایکسرے مشین بیگ میں رکھی ہوئی تصویر کی فوٹوتھوڑی اتارلے گی،و یسے بھی یہ تمل ناڈوہے،اترپردیش نہیں ہے،یہاں لوگوں کوجناح وغیرہ سے کوئی پرابلم نہیں ہے‘‘میں نے اپنی بات کو معقول بنانے کی کوشش کی۔
’’تم کس دنیا میں ہو؟تمھیں پتابھی ہے کہ AIADMKکی جنم کنڈلی کس کے ہاتھوں میں ہے،یہ لوگ تواس کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں‘‘۔
’’کون ہے وہ؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’میں زور سے اس کانام نہیں لے سکتی‘‘امانے کہا۔
گفتگوکا تسلسل تھوڑا ٹوٹاتھاکہ پھر امانے کہا’’میں وہ تصویر’’قائدِ ملت ہال‘‘والوں کودے آتی ہوں،ان کے پاس جناح کی تصویر نہیں ہے‘‘۔
’’اما!اگر ان کے پاس یہ تصویر نہیں ہے،تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسی تصویر نہیں رکھنا چاہتے،ایسا تونہیں ہوسکتا کہ انھیں جناح کی کوئی تصویر ہی نہ ملی ہویا وہ اس انتظار میں ہوں کہ کوئی انھیں جناح کی تصویر دے جائے گا‘‘۔
’’جوبھی ہو،ہمیں اس تصویر سے چھٹکاراحاصل کرنا چاہیے!‘‘۔
’’اف!آپ اس تصویر کوچھوڑیں،کرناٹک الیکشن کے بارے میں بتائیں ،کون جیت رہاہے؟‘‘۔
امانے کہا’’اسی وجہ سے تومیں کہہ رہی ہوں کہ ہمیں اس تصویر سے چھٹکاراحاصل کرلیناچاہیے‘‘۔
’’اما!یہ کس قسم کی بات ہوئی؟ہندوستان میں اب بھی قانون و انصاف قائم ہے‘‘۔
’’اور تم جہاں رہتی ہو،وہاں کبھی vigilantesکے فسادوخوں ریزی کے بارے میں نہیں سنا؟‘‘
’’اما!وہ تو گائے کے نام پر کرتے ہیں اور انھوں نے اب تک کسی بوڑھے انسان کوتونشانہ نہیں بنایا!‘‘میں نے کہا۔
یہ سن کر اماکاجواب تھا’’ارے!دیکھانہیں انھوں نے اڈوانی کے ساتھ کیاسلوک کیا؟!‘‘۔
تحریر:پرتاپ بھانومہتا(وائس چانسلراشوکایونیورسٹی،ہریانہ)
ترجمانی:نایاب حسن
تقسیمِ ہندکا سانحہ نہایت تکلیف دہ تھا،اس نے دونہایت قدیم اور گہری تہذیب کے بیچ سے دوایسی اکائیاں پیدا کردیں،جودوالگ الگ قومیں بننا چاہتی تھیں،یہ سانحہ آج بھی ہندوپاک دونوں ملکوں کے لیے مشترکہ طورپر عدمِ تحفظ کے احساسات کا سبب ہے؛یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کی تشکیلِ نوپر ستر سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا،مگراس کے باوجود تقسیمِ ہند آج بھی ہمارے لیے ایک قسم کے نفسیاتی عدمِ تحفظ کا سبب بنی ہوئی ہے،آج بھی نہ صرف اس واقعے کی تاریخی حیثیت پر سوال جواب کیے جاتے ہیں؛بلکہ اس کی دستوری حیثیت یادونوں ریاستوں کانامکمل رہ جانا آج بھی بحث ونقاش کا موضوع بنا ہوا ہے۔دونوں ریاستیں آج بھی حالتِ جنگ میں ہیں،بہت سے ہندوستانی(خصوصاً ہند و نیشنلسٹ) تقسیم کواپنے لیے ایک قسم کی شکست اور ہندوستان کی مقدس سرزمین کی بے حرمتی تصور کرتے ہوئے اس کا بدلہ لینا چاہتے ہیں اوریہ لوگ پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے کوتیارنہیں،دوسری طرف پاکستان ہے،جو مسئلۂ کشمیر کو تقسیمِ ہندکی نامکمل کارروائی کے حصے کے طورپر دیکھتا ہے۔
اس طرح جس بنیادی مسئلے کے حل کے لیے ہندوستان کی تقسیم کی گئی تھی،وہ تاہنوزباقی ہے،نتیجتاً جنوبی ایشیامیں جس آزادی کا خواب دیکھاگیاتھا،اس کی بجاے اس خطے کی سیاست نے قومی شناخت کے مسئلے پر ایک دوسرے کے خلاف غیظ و غضب اور عدمِ تحفظ کے احساس کوبڑھاوادیاہے،پاکستان میں یہ احساس خوداذیتی پر مبنی عسکریت اور انتہاپسندی کی وجہ سے پنپتا رہا،جبکہ ہندوستان میں اس نقطۂ نظر کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی کہ یہاں اکثریت پسندی پر مبنی سیاست و حکومت کے قیام اور ملک کی اقلیتوں کوحاشیے پرڈال کر تقسیمِ ہندکا بدلہ لیاجاسکتا ہے،جب سے بی جے پی مرکزمیں برسرِ اقتدار آئی ہے،اس نظریے کو مزید تقویت حاصل ہوئی ہے،جب تک کہ بی جے پی کو کسی زبردست سیاسی ردِ عمل کا سامنا نہیں ہوتا،اس وقت تک برصغیرکایہ خطہ اُس زہرناک فرقہ وارانہ دھماکے کے کنارے کھڑاہے،جس کی اکثریت پسند طبقہ اشاعت کررہاہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں محمد علی جناح کی تصویر کے حوالے سے جوہنگامہ کھڑاکیاگیاہے،اسے اسی سیاق وسباق میں سمجھناچاہیے،یہ سمجھنااہم ہے کہ یہ معاملہ اے ایم یومیں جناح کی تائید وتحسین کانہیں ہے،اس کا اصل مقصدہندوانتہاپسندجماعتوں کے ذریعے یونیورسٹی اوراس کے باہر فرقہ وارانہ کشیدگی کوہوادینا ہے۔گڑگاؤں میں(جہاں میں رہتاہوں) نماز پڑھنے کی جگہ کولے کر ایک عرصے سے کشیدگی قائم ہے۔ جس طرح1930ء کی دہائی میں پورے ملک میں ثقافتی ایشوزکوبحث مباحثے کا موضوع بنادیاگیاتھا،جس کے نتیجے میں تقسیمِ ملک کا سانحہ رونما ہوا،اسی طرح اِس وقت گائے،نماز،تاریخی آثار اور جناح کی ایک غیر متعلق تصویرکو سیاسی حربے کے طورپر استعمال کیاجارہاہے،ان چیزوں کانہ تواس ملک کے اصل مسائل سے کوئی تعلق ہے اورناایسی بحثوں سے ملک کا بھلا ہونے والاہے۔
دوسری بات،چلیے یہ مان لیتے ہیں کہ تقسیمِ ہندکے ذمے دارجناح تھے،مگراُس وقت کے سیاسی قضیے سے اب استدلال کرنا کہاں تک درست ہے؟1947ء سے آج تک اگرہم ایک ہی سکرپٹ کو دُہراتے جارہے ہیں،توہم آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں؟یہ ایک حقیقت ہے کہ 47ء میں دوریاستیں وجودمیں آئیں،اگر جنوبی ایشیاکے ممالک ایک دوسرے سے قریب آسکتے ہیں،تواس حقیقت کوکھلے دل سے ماننے کے بعد ہی آسکتے ہیں،اس کے بغیرنہیں۔ہندوستان اور پاکستان دونوں کواپنے باہمی اختلافات کونظراندازکرکے مشترکہ امکانات کی جستجوکرتے ہوئے ایک نئے مستقبل کاتصورکرنے سے پہلے ایک دوسرے کوکھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگا،پاکستان کشمیر کے واسطے سے ہندوستان پر انگلی اٹھاتارہاہے،جبکہ ہندوستان اپنے ہندونیشنلسٹ طبقات کے ذریعے یہ کام کرتا رہا ہے، جو تقسیمِ ہندکی حقیقت کوتسلیم کرنے کے لیے تیارنہیں،ہم لوگ محض ایک نظریاتی کنفیوژن سے کس قدر مضبوطی کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں،یہ ایک حیرت ناک امر ہے۔دوقومی نظریہ کا ( ایک یا تین قومی نظریہ کی طرح)تنقیدی جائزہ لیاجاسکتاہے،یہی نظریہ تشکیلِ پاکستان کی بنیادتھا،مگر اس نظریے کی تنقید کرنے والے اکثر لوگ بغیرسوچے سمجھے پاکستان کے وجودکوکٹہرے میں کھڑا کردیتے ہیں،ہم جب تک ایسا کہتے رہیں گے،دونوں طرف عدمِ تحفظ کے احساسات میں اضافے کا سلسلہ بڑھتارہے گا۔
بحث ونقاش کے اسی مرحلے میں جناح سامنے آجاتے ہیں۔اکیسویں صدی کی ابتدا میں غیر متوقع طورپر(اُس وقت کے بی جے پی کے صفِ اول کے لیڈران) ایل کے اڈوانی اور جسونت سنگھ دونوں کواس حقیقت کا ادراک ہوگیا تھاکہ جنوبی ایشیاکانیا مشترکہ مستقبل پاکستان کو تسلیم کیے بغیر وجودمیں نہیں آسکتا۔پاکستان کی جانب سے(اس کی تمام تر شدت پسندیوں کے باوجود) حملوں کے ہندوستانی اندیشوں کے برعکس خود اندرونی طورپر ہندوستان میں باہمی اختلافات اور تباہی کے آثارزیادہ ہیں،ہمیں سب سے پہلے ایسے سٹیج تک پہنچنا ضروری ہے،جہاں ہندوپاکستان ایک دوسرے کوحقیقت پسندی کے ساتھ برتیں،نہ یہ کہ دونوں کے درمیان ہونے والا ہر مذاکرہ جذباتیت اور ایک دوسرے کے وجود پر سوال اٹھانے میں ختم ہوجائے،اس ضمن میں پہلے ہمیں جناح کو تسلیم کرنا ہوگا،ایک ولن کی حیثیت سے نہیں؛بلکہ ایک ایسے بانیِ ریاست کی حیثیت سے،جس نے ایک نہایت پیچیدہ صورتِ حال میں ایک ملک حاصل کیا۔اب نہ تو کسی ہندوستانی کا جناح کو تقسیمِ ہندکی وجہ سے برابھلاکہنا درست ہے اورنہ کسی پاکستانی کاگاندھی یا تقسیمِ ہندکے دوسرے مخالف سیاست دانوں کوبرابھلاکہنا درست ہے ،اس ضمن میں جسونت سنگھ اور اڈوانی کی جانب سے جناح کا کھلے دل سے اعتراف کیاجاناماضی کی تلخیوں کوبھلاکرآگے بڑھنے کےProcessکاخوب صورت حصہ تھا،گرچہ ان کی یہ پیش رفت زیادہ مؤثرثابت نہیں ہوئی،مگر اس سے انھوں نے اپنے طرزِعمل سے ایک سوال ضرور قائم کیاکہ کیاہم اس موضوع پر بحث کی رائج شرطوں کو بدل نہیں سکتے؟
جناح کی تصویر کہاں ہونی چاہیے اور کہاں نہیں،اس پر ڈبیٹ ہوسکتی ہے،مگر فی الحال جولوگ جناح کو بطورحربہ استعمال کررہے ہیں،ان کا مقصد یہ ہے کہ یہ خطہ ماضی کی طرح ہی باہمی غیظ و غضب اور کینہ و بغض کے الاؤ میں تپتارہے،اگرآپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ تقسیمِ ہندایک سیاسی غلطی تھی،توہمیں اپنے اپنے ملک میں ایسا ماحول بناناہوگا،جہاں کسی بھی فردکواس کی مذہبی شناخت کی وجہ سے نشانہ نہ بنایاجائے،افسوس کی بات ہے کہ اس وقت میڈیاڈسکشن میں تقسیمِ ہندکی غلطی کی معقولیت اور صحت کوہی ثابت کیاجارہاہے اور جناح تمام بحث مباحثے کا محوربنے ہوئے ہیں۔
بہت سارے پبلک مباحثوں میں دوقسم کی غلطیاں سامنے آرہی ہیں،پہلی تویہ کہ تقسیمِ ہندکے سانحے کومخصوص مذہبی فرقہ کی نظر سے دیکھاجائے،جس سے دوقومی نظریے کوتقویت پہنچتی ہے کہ میں سانحۂ تقسیمِ ہند کے ہندوولن کو تلاش رہاہوں اور آپ مسلم ولن کوتلاش کیجیے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ملک کے ہندو،مسلم اور سکھ؛ سب تشددسے بچنے کی کوشش کرتے ،توتقسیمِ ہنداوراس کے معاً بعد رونما ہونے والے فسادات واقع ہی نہ ہوتے،اس تشددکے لیے جناح اس لیے ذمے دار تھے کہ انھوں نے اپنے مطالبے کومنوانے کے لیے دستوری راستہ اختیار نہیں کیاتھا،مگر ہندومہاسبھاجیسی تنظیموں کا جرم یہ بھی تھاکہ وہ راست طورپران فسادات کا حصہ بن گئی تھیں۔دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں تقسیمِ ہند کے اسباب کی دریافت کے سلسلے میں ہلکے پھلے اور سادہ ذرائعِ معلومات سے احتراز ہوگا،ہمیں اس سلسلے میں محض ایک ایسے ولن کی کھوج سے بچناہوگا،جوواقعات و نتائج کی تنہاذمے داری لے یاجس کے سریہ ذمے داری تھوپ دی جائے؛کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ دنیامیں رونماہونے والے دیگر بہت سے حادثات وواقعات کی مانند تقسیمِ ہندکا واقعہ بھی کئی لوگوں کی کئی ساری غلطیوں اورغلط فیصلوں کانتیجہ تھا،کبھی کبھی انسان ہلاکت و تباہی کے راستے پر چل پڑتا ہے،مگراس کی نیت اچھی ہوتی ہے،کئی بارایسا ہوتا ہے کہ آخرکارتاریخ کی بے رحم لہریں لوگوں کے سامنے بے شمارچونکانے والے حقائق کولااُچھالتی ہیں اور وہ تمام لیڈران و قائدین،جوتاریخ کوفتح کرناچاہتے تھے،سب اُس کے ہاتھوں شکست کھاجاتے ہیں۔
اگرہم واقعی مابعداستعمارایک طاقت بنناچاہتے ہیں،توہمیں1940ء کے اپنے ہیرواورولن کی تلاش کے کھیل سے باہر نکلنا ہوگا،ہندوپاکستان کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ وہ کیسا معاشرہ بننا چاہتے ہیں اوروہ اپنے شہریوں کوکس حد تک آزادی و برابری دے سکتے ہیں،اس سلسلے میں پاکستان توپہلے ہی مایوس کن جواب دے چکاہے،مگرہمارے یہاں کے ہندونیشنلسٹ جناح کی ایک پرانی تصویر کوحربہ بناکر ہندوستان کوبھی اسی راستے پر لے جانا چاہتے ہیں،جناح کی تصویر پر ہنگامہ کھڑاکرکے وہ بالآخران کے نظریے کوصحیح ثابت کررہے ہیں۔
(اصل انگریزی مضمون آج کے روزنامہ انڈین ایکسپریس میں شائع ہواہے)
نایاب حسن
پہلے حیدرآبادیونیورسٹی کولپیٹا، پھرجے این یوکوسبوتاژکرنے کی کوشش کی، ڈی یوکے رامجس کالج میں طوفان اٹھایا، اب سنگھیوں کی نگاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر ہے، وجہ سیم ہے، جوپہلے سانحات میں تھی، وہی ’’اینٹی نیشنل ‘‘والا چونچلا، مگر دوسری جگہوں پراس کاصرف سیاسی اینگل تھا، اے ایم یومیں مذہبی رنگ بھی ہے، فی الحال کرناٹک میں انتخابات ہونے ہیں، اگلے سال اِنہی دنوں میں عام انتخابات ہونے ہیں، سوتیاری توکرنی پڑے گی؛ لہذاساورکرکی ذریت اس کی تیاری میں لگ چکی ہے، اے ایم یوپراشکال واعتراض کے کئی دورگزرچکے ہیں، ایک دورتووہ بھی گزراہے، جب اس کے وجودپرہی سوالیہ نشان لگ گیاتھا، وہ دورمابعدآزادی یاتقسیمِ ہندکے فوراً بعدکادورتھا، اس وقت ابوالکلام آزادنے سینہ سپرہوکراس کے وقارواعتبارکوبرقرارکھنے کی جاں کاہ کوششیں کیں اوربالآخریونیورسٹی کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہے تھے، آزادی کے کچھ دنوں بعدیہ شوشہ بھی چھوڑاگیاتھاکہ یونیورسٹی کے نام سے ’’مسلم ‘‘کالفظ ہٹایاجائے، مگریہ ہنگامہ بھی جلدہی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ابھی تازہ بی جے پی حکومت میں بھی کبھی لائبریری میں لڑکیوں کے عدمِ داخلہ،کبھی بیف کھانے کھلانے ،توکبھی اقلیتی کردار وغیرہ کے حوالے سے یہ ادارہ قومی ڈسکشن کا موضوع رہ چکاہے۔
فی الحال چنددن قبل ایک خبرمیڈیامیں یہ آئی تھی کہ آرایس ایس نے یونیورسٹی انتظامیہ سے ادارے کے کیمپس میں شاکھالگانے کی اجازت مانگی ہے، بات اُتنی گمبھیرتونہیں تھی، مگرمیڈیاکی ’’عنایت‘‘سے یہ گمبھیرترین ہوگئی اورقومی سطح پراس کی چرچاہوئی، اس کے دوچاردن بعدہی یعنی کل پرسوں یہ خبرآئی کہ علی گڑھ سے بی جے پی کے ایم پی ستیش گوتم نے اے ایم یوکے وی سی طارق منصورکوایک خط لکھاہے، جس میں یہ تحریرکیا کہ انھیں بعض ذرائع سے یہ اطلاع ملی ہے کہ اے ایم یو کے سٹوڈینٹس یونین ہال میں مسلم لیگ کے سربراہ اور بانیِ پاکستان محمدعلی جناح کی تصویرلگی ہوئی ہے، خبروں کے مطابق ممبرپارلیمنٹ صاحب نے وی سی سے اس کی وجہ دریافت کی تھی اوراس کے لیے دودن کی مہلت دی گئی تھی، یعنی یہ خط پیرکوبھیجاگیا اوروی سی کوبدھ تک جواب دینے کوکہاگیا، چوں کہ وی سی نے بدھ تک جواب نہیں دیاتھا؛ اس لیے پچیس تیس بھگوائیوں کے ذریعے اے ایم یوپر’’پرہار‘‘کردیاگیا، یہ بھی اتفاق ہی کہاجائے گاکہ بدھ کے دن ہی سابق نائب صدرجمہوریہ حامدانصاری یونیورسٹی میں مدعوتھے اور انھیں اے ایم یوکی تاحیات ممبرشپ پیش کی جانی تھی، حامدانصاری سے توویسے بھی سنگھی ٹولہ بیزارہے، کچھ ہی دنوں قبل ان کے ایک بیان پرقیامت اٹھاچکاہے؛ اسی وجہ سے بعض لوگ تویہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہونہ ہو یہ پوری شرانگیزی حامدانصاری کو ’’لپیٹنے ‘‘کی کسی سازش کاحصہ ہو،جوبالآخرناکام ہوگئی۔ایک لطیفہ یوگی کابینہ کے وزیر سوامی پرساد موریہ کے بیان پربھی رونما ہوچکاہے،جس میں انھوں نے جناح کوایک عظیم مجاہد آزادی کہا تھا،بعدمیں وہ بے چارے صفائی دیتے پھررہے ہیں اور ان کے پیچھے ہندومہاسبھاکے صدرسوامی چکرپانی سمیت بی جے پی کے کئی نیتالٹھ لے کر دوڑرہے ہیں۔
ویسے یہ بات کتنی حیرت ناک؛ بلکہ صحیح لفظوں میں شرم ناک ہے کہ یوپی کے وزیرِ اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی تیارکردہ ٹیم’’ہندویواواہنی‘‘کے پچیس تیس بندوق بردارغنڈے یونیورسٹی کے مرکزی دروازے سے اندرگھسنے میں کامیاب ہوگئے اوران کے ساتھ پولیس بھی تھی، جوگویاانھیں’’پروٹیکشن‘‘فراہم کرنے کے لیے تعینات کی گئی تھی:
تفوبرتواے چرخِ گردوں تفو!
جبکہ یہی پولیس اُس وقت فل فارم میں آگئی، جب اے ایم یوکے طلبہ ان سنگھی غنڈوں کی شرانگیزی کے خلاف احتجاج کرنے لگے اورمارمارکرانھیں لہولہان کردیا، مطلب یوگی کی شیطان صفتی پورے سسٹم اورپولیس نظام میں بھی سرایت کرچکی ہے، سب وہی کریں گے، جو ’’مہاراج‘‘چاہتے ہیں!
جہاں تک سٹوڈینٹ یونین ہال میں محمد علی جناح کی تصویر کا معاملہ ہے،توجاننے والے جانتے ہیں کہ یہ تصویر ۱۹۳۸ء سے لگی ہوئی ہے اوراس کا ایک تاریخی پس منظر ہے،اُس سال جناح کویونیورسٹی کی لائف ٹائم ممبرشپ دی گئی تھی،اس سے پہلے گاندھی جی کو یہ ممبر شپ مل چکی تھی اوراب تک یونین کی جانب سے بھیم راؤ امیڈکر،مولاناابوالکلام آزاد،جواہر لال نہرو،سی وی رمن،جے پرکاش نرائن وغیرہ کوبھی یہ ممبر شپ دی گئی ہے اور اسی ہال میں ان لوگوں کی تصویریں بھی آویزاں ہے؛لہذاجناح کی تصویرکوہٹانے کامطالبہ اوراس پر اصرارکرنا بے جااور تاریخی جہالت پر مبنی ہے،چاہے یہ مطالبہ کسی کی جانب سے بھی ہو۔ معاملہ یہاں یہ نہیں ہے کہ اے ایم یووالے جناح کے سیاسی نظریے کی حمایت کرتے ہیں،معاملہ تاریخ کے تحفظ کاہے اور بی جے پی پلس آرایس ایس تاریخ کی حفاظت نہیں،تاریخ کی’’ری رائٹنگ‘‘میں وشواس رکھتے ہیں؛لہذا انھیں جب پتاچلاکہ اے ایم یومیں جناح کی تصویر لگی ہوئی ہے،توان کا اُچھلنا یقینی تھا۔اس سلسلے میں یونیورسٹی کے ترجمان شافع قدوائی ، تاریخ کے پروفیسرمحمد سجاد اور موجودہ یونین صدرمشکورعثمانی نے ایک دوسری بات کی جانب بھی اشارہ کیا ہے ،وہ یہ کہ اے ایم یوکی سٹوڈینٹ یونین ایک خود مختار باڈی ہے،اس کے فیصلے،اس کی پالیسیاں،اس کے منصوبے وہ خود طے کرتی ہے؛لہذا جس بی جے پی کے بندے نے اس سلسلے میں خط لکھاہے،اسے یونین کے ذمے داروں کوخط لکھنا چاہیے تھااور ان سے جواب مانگنا چاہیے تھا۔
نایاب حسن
یونین پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں کامیاب ہونے والے مسلم امیدواروں کی تعداد اس سال کتنی ہے،اس بارے میں کئی ساری متضاد خبریں سننے کو مل رہی ہیں،مطلب اتناسامیں اتنا کنفیوژن؟! ?چالیس، اکتالیس، پچاس،اکیاون اوراب ایک ہندی نیوزپورٹل پر باون کی تعداد دیکھی ہے،”نیشنل سپیک” نامی پورٹل نے کامیاب ہونے والے تمام مسلم امیدواروں کی مکمل فہرست بھی دی ہے،بہرحال سارے کامیاب امیدواروں کودلی مبارکباداور مسلم ہی نہیں،تمام 990 ؍خوش قسمت امیدواروں کو مبارکباد ،نیک خواہشات پیش ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ آیندہ ملک و قوم کی اعلیٰ سے اعلیٰ خدمات انجام دیں گے اور ملک کی ترقی میں اپنا قابلِ قدرحصہ ڈالیں گے۔
ہرسال جب یوپی ایس سی اگزامس کے نتائج آتے ہیں ،تو مسلم حلقوں میں ایک بحث شروع ہوجاتی ہے کہ یہ تعداد پہلے کے مقابلے میں کم ہے یا زیادہ؟اور کیامسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے یہ تعداد کافی ہے؟ اگر اس سال کے نتائج کے حساب سے ان سوالوں کا جواب تلاش کریں ،توکامیاب مسلم امیدواروں کی گنتی یقیناً گزشتہ سال؛بلکہ گزشتہ کئی سالوں کے مقابلے میں زیادہ ہے؛کیوں کہ 2017میں51،اُ س سے پہلے سال 36دوہزار پندرہ میں اڑتیس،دوہزارچودہ میں 34اور2013میں محض 30مسلم امیدواروں نے یوپی ایس سی امتحانات پاس کیے تھے،البتہ موجودہ تعداد،جوکہ کئی سالوں کے بالمقابل زیادہ ہے،وہ بھی آبادی کے اعتبار سے نہایت معمولی اور دوتین فیصد سے زیادہ کونہیں پہنچتی۔اس کے اسباب کیااور کتنے ہیں،ان پر باقاعدہ بحث ہونی چاہیے،قومی میڈیا اگر ان پر بحث نہیں کرتا؛کیوں کہ اس موضوع سے اسے کوئی ٹی آرپی نہیں ملنی ،تو مسلمانوں کے اندر کے جودانش مند،انٹلکچوئل افراد و طبقات ہیں ،انھیں اس موضوع پر بحث کرنی چاہیے، غوروفکرکرنا چاہیے اور کہاں کہاں کمزوری ہے،اس کی نشان دہی کرکے اسے دورکرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔معروف صحافی محترم زین شمسی نے اپنی ایک مختصر تحریر میں یوپی ایس ایس کے رزلٹ کے حوالے سے دوچیزوں کی جانب اشارہ کیاہے:ایک تو یہ کہ اکثرو بیشتر یہ دیکھاجارہاہے کہ ان امتحانات میں ٹاپ کرنے والے بچے یابچیاں اوبی سی، ایس سی،ایس ٹی سے ہوتے ہیں ،کبھی ایک آدھ مسلمان بھی آجاتا ہے ،جبکہ بقیہ تقریباً سارے ہی ہندوطبقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھنےوالے امیدوار ہوتے ہیں،یعنی بہت ممکن ہے کہ بقیہ طبقات کو دوچاردس لالی پاپ میں ٹرخاکریہاں بھی ہاتھ صاف کرنے کاکھیل جاری ہو،یہ معاملہ جیساکہ انھوں نے لکھاہے ،واقعی تحقیق کا موضوع ہے اور مین سٹریم میڈیاکے سنجیدہ صحافی،ایڈیٹر،اینکر وغیرہ کواس پر دھیان دینا چاہیے۔ایک دوسری بات ان کی تحریر میں آرایس ایس کی سربراہی میں چلنے والے کوچنگ سینٹر’’سنکلپ‘‘سے متعلق تھی،جس کایوپی ایس سی کے نتائج میں ہمیشہ دبدبہ رہتاہے۔2016ء کے نتائج کے تعلق سے’’ سنکلپ ‘‘نے باقاعدہ دعویٰ کیاتھا کہ کامیاب ہونے والے امیدواروں میں سے 60؍فیصد(یعنی اُس سال کے 640کامیاب امیدوار)اس کے راست تربیت یافتہ یا تعاون یافتہ ہیں،حتی کہ اُس سال ٹاپ کرنے والی ٹیناڈابی اور نمبردوکے اطہر عامر خان کے بارے میں بھی اس نے دعویٰ کیاتھا کہ انھیں ہمارا تعاون حاصل رہاہے،اس کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ پہلے سوکامیاب امیدواروں میں سے 76؍سنکلپ کے تربیت یافتہ ہیں۔حالاں کہ ایسا نہیں ہے کہ اس سینٹر میں مخصوص مذہب یا برادری کے امیدوار ہی تربیت حاصل کرتے ہیں،کئی مسلم طلبابھی اس سینٹر سے تربیت پاکر کرکے کامیابی حاصل کرچکے ہیں،مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ’’سنکلپ‘‘اپنے یہاں تربیت پانے والے طلباوطالبات کو موضوع سے متعلق مضامین پڑھانے کے علاوہ ان کے اذہان میں آرایس ایس کے فکر و نظر کوبھی اتارتا ہے ،2001ء میں اس کی باقاعدہ شروعات آر ایس ایس سے وابستہ ریٹائرڈسرکاری افسر سنتوش تنیجانےکی اورتب سے اب تک یہ ادارہ ملک کوپانچ ہزار سے زائد سول سروینٹس دے چکاہے،سابق مرکزی وزیر اور جموں وکشمیر کے سابق گورنرجگموہن،وی ایچ پی سربراہ اشوک سنگھل کے بھائی اور سابق آئی پی ایس بی پی سنگھل وغیرہ مستقل اس سے وابستہ رہ کر اس سنٹرکوفروغ دیتے رہے ہیں،جبکہ اسے آرایس ایس کے کوآرڈی نیٹر( سہہ سرکاریہ واہ) ڈاکٹرکرشن گوپال کی باقاعدہ سرپرستی حاصل ہے اورٹریننگ حاصل کرنے والے طلباوطالبات کے درمیان وقتاً فوقتاً ان کے خطابات بھی کروائے جاتے ہیں۔اس وقت دہلی میں اس کے تین سینٹرزہیں،جبکہ ان کے علاوہ ’’سنکلپ‘‘کے نام سے ہی یوپی میں تین،آسام میں ایک،جھارکھنڈمیں ایک،چھتیس گڑھ میں دو،پنجاب میں تین،اتراکھنڈمیں ایک،مدھیہ پردیش میں ایک،تملناڈمیں ایک اور راجستھان میں ایک سینٹرزچل رہے ہیں،ظاہرہے کہ اس قدرتنظیم و منصوبہ بندی کے ساتھ اگر کوئی جماعت کسی پروجیکٹ پر کام کرے گی،تواسے کامیابی ملنا یقینی ہے۔جاننے والے جانتے ہیں کہ آزاد ہندوستان میں آر ایس ایس کا یہ اہم منصوبہ رہاہے کہ اپنے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سول سروسزکے شعبوں میں اتاراجائے؛تاکہ سیاسی بساط پر چاہے جوکچھ چلتارہے،مگر زمینی سطح پرکام ہماری خواہش وارادے کے مطابق ہواوراپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ مسلسل کوشش بھی کرتارہاہے،اسی کانتیجہ ہے کہ آج کی تاریخ میں ہندوستان اور آرایس ایس تقریباً مترداف لفظ ہیں،جبکہ ایک زمانہ وہ بھی گزرچکاہے،جب اِس ملک میں آرایس ایس اُسی طرح ایک ممنوع و مشتبہ تنظیم تھی،جیسے سیمی،جیسے انڈین مجاہدین،جیسے فلاں اورفلاں۔
کیامسلمانوں کواپنے سماجی وآئینی حقوق حاصل کرنے کے لیے اس ناحیے سے سوچناچاہیے؟میرے خیال میں توبالکل سوچنا چاہیے،پہلے نہیں سوچا،تواب سوچنا چاہیے،اپنے پیسوں کو بے فائدہ کاموں میں بہانے کی بجاے اپنی آنے والی نسل کودینی ومذہبی شعور کے ساتھ ہندوستانی انتظامیہ و پولیس اورسول سروسزکے دیگرشعبوں میں داخل کرنے پرخرچ کرنا چاہیے۔یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اجتماعی طورپرآج تک ہم اپنی ترجیحات ہی طے نہیں کرپائے ،بین الملی کوششوں کا دائرہ کیاہواورہم کن شعبوں میں عملی اقدامات کریں،آج تک ہم نہیں سمجھ سکے یا بعض روایتی سماجی ،سیاسی ومذہبی اشرافیہ نے ہمیں سمجھنے ہی نہیں دیا،ہم نے اپنامزاج بنالیاکہ اپنی ہرسیہ روئی وناکارگی کاٹھیکرادوسروں کے سرپھوڑتے رہیں گے،ہم من حیث القوم آزادہندوستان میں اب تک کسی مثبت اقدام کے بارے میں سوچنے کی بجاے ہمیشہ اپنے دفاع وتحفظ ہی کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوتے رہے ہیں، مابعد1947ء مسلمانوں پر نازل ہونے والی بہت سی مصیبتیں وہ تھیں،جنھیں ہم نے خود اپنے مشکوک رویہ اور بے یقین طرزِفکرکے ذریعے دعوت دی اور نتیجتاً ہمیں نوع بہ نوع نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ اور زکوۃ فاؤنڈیشن آف انڈیادوایسے نمایاں ادارے ہیں ،جہاں مسلم بچوں؍بچیوں کے لیے یوپی ایس سی کے امتحانات کی تیاری کا نظم کیاجاتا ہے اور ان کے نتائج لگاتار حوصلہ بخش آرہے ہیں،اس سال بھی جامعہ سے بیس اور زکوۃ فاؤنڈیشن سے چھبیس امیدوارکامیاب ہوئے ہیں،اسی سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اگر مسلمان تھوڑی اور توجہ صرف کریں اورمعاشرے میں بیداری کی مہم چلائی جائے،تونتائج کیا ہوسکتے ہیں،ڈاکٹرنوازدیوبندی اپنی چیئرمینی کے زمانے میں یوپی اردواکیڈمی کے تحت یوپی ایس سی امتحانات کی مفت کوچنگ کاپروجیکٹ شروع کیاتھا،جویقیناقابلِ تعریف تھا، ابھی تلنگانہ حج کمیٹی نے بھی اسی قسم کے منصوبے کااعلان کیاہے، جوخوش آیندہےـ اس وقت پہلے توہمیں تعلیم کے شعبے میں اپنی نمایندگی کوپوری سنجیدگی کے ساتھ بہتر کرنا ہوگا اور پھراِس حوالے سے بھی سوچناہوگا،سوچناہی نہیں ،عمل کرنا ہوگا،ورنہ سترسال سے تو ہنگامے، جلسے، ریلیاں وغیرہ وغیرہ کرتے آہی رہے ہیں اور ان کے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں ـ
تحریر:لینامشرا
ترجمانی:نایاب حسن
27؍فروری2002ء کو سابرمتی ایکسپریس میں کارسیوکوں کے مارے جانے کا انتقام لینے کے لیے نروداپاٹیامیں 97؍مسلمانوں کومارنے کی خاطرجو آگ کوبھڑکائی گئی تھی،اس سے اٹھنے والے دھوئیں میں خود مایاکوڈنانی کی سانسیں بھی گھٹنے لگی تھیں۔فسادکے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندرمودی نے مختلف اہم فسادزدہ مقامات کا دورہ کیاتھا،ان میں نروداپاٹیابھی تھا اوراس وفد میں پولیس افسران کے ساتھ نروداکی ممبراسمبلی کوڈنانی بھی تھیں۔اس کے چھ سال بعد انھیں مسلمانوں کے خلاف بھیڑ کواکسانے کے جرم میں گرفتار کیاگیا ،پھرانھیں گجرات فسادات کے دوران ہونے والے دوسرے بڑے قتلِ عام کی ماسٹر مائنڈقراردے دیاگیا،اس طرح مایاکوڈنانی کے سیاسی عروج و زوال کی کہانی بڑی برق رفتاری کے ساتھ مختلف روپ اختیار کرتی رہی۔
نوے کی دہائی میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد گجرات میں کوڈنانی کی اٹھان ایک فائربرانڈسیاست داں کے طورپرہوئی،انھوں نے بی جے پی کی کارپوریٹررہتے ہوئے احمد آباد میونسپل کارپوریشن کے ذریعے ایک مندر منہدم کیے جانے کے معاملے کو شدت سے اٹھایا اور سڑکوں پر اتر کراحتجاج درج کروایا،پھر جب وہ احمد آباد شہرکی بی جے پی یونٹ کی صدر تھیں،تو2005میں گجرات فسادات کی وجہ سے امریکہ کی جانب سے مودی کو ویزانہ ملنے پر برپا ہونے والے احتجاجات میں بھرپور حصہ لیا،کوڈنانی پیشے سے ڈاکٹر اور گائناکولوجسٹ تھیں؛چنانچہ مودی کی گجرات حکومت میں انھیں خواتین و اطفال کی ترقی و بہبود کی منسٹری دی گئی۔کوڈنانی ان خواتین میں سے تھیں،جوآرایس ایس اور مودی سے گہری قربت رکھتی تھیں،حتی کہ بی جے پی کے ایک حلقے میں ’’آبھاراما‘‘کی علامتی اصطلاح استعمال ہوتی تھی،جس سے مرادآنندی پٹیل،بھاؤنادیو،رامیلاڈیسائی اور مایاکوڈنانی تھیں۔
آنندی بین تو اب بھی مودی کی قریبی ہیں،مودی کے دہلی منتقل ہونے کے بعد گجرات کی وزیر اعلیٰ رہ چکی ہیں اوراب مدھیہ پردیش کی گورنر ہیں۔ دیو احمدآباد کی پہلی خاتون میئر تھیں اور بعدمیں لوک سبھاایم پی بھی بنیں اور اِس وقت وہ یونیورسٹی گرانڈ نرمان بورڈ،گجرات کی نائب صدر ہیں۔ڈیسائی جواحمدآبادضلع پنچایت کی صدرتھیں اور2002 ء میں اسمبلی الیکشن بھی لڑا تھا،انھیں 2005ء میں پارٹی سے ہی نکال دیاگیا،ان کا جرم یہ تھاکہ انھوں نے مودی پران کو قتل کروانے کی سازش رچنے کا الزام لگایاتھا،کوڈنانی نے بھی پہلی بار اسمبلی الیکشن2002 ء میں ہی لڑا تھا۔ایل کے آڈوانی کی تربیت یافتہ کوڈنانی نے 2002ء کے الیکشن میں گجرات فسادات کے بعد پیدا ہونے والی ہندوتوالہر کی بہ دولت غیر متوقع اکثریت سے جیت حاصل کی،2007میں انھیں مودی حکومت میں بہبودیِ خواتین و اطفال کی وزیر بنایاگیا،پھر ترقی دے کرہائرایجوکیشن منسٹری کا اضافی چارج بھی انھیں سونپ دیاگیا۔ جب انھیں نروداپاٹیاقتلِ عام کے معاملے میں اٹھائیس سال قید کی سزاسنائی گئی،توانھوں نے دفاع میں کہاکہ مجھے سیاسی سازش کا شکاربنایاگیا ہے اورٹرائل کورٹ میں اپیل بھی کی، جسے خارج کردیاگیا تھا۔
دوسری طرف قومی سیاست میں مودی کا قدروز بروز بلند ہوتا جارہاتھا،جب2010ء میں ایس آئی ٹی نے گجرات فسادات میں شمولیت سے متعلق ان سے پوچھ گچھ کی،توان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل پایا،2011ء میں سپریم کورٹ نے مرحوم احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری کے الزام کا جائزہ لے کر فیصلہ سنانے کے لیے گجرات کے مجسٹریٹ کورٹ کو مکلف بنایا،پہلی بار ایسا ہواکہ کسی صوبے کے سٹنگ وزیر اعلیٰ سے فسادات میں ملوث ہونے کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی،اسی زمانے میں مودی نے کمال ہوشیاری سے36دنوں کی ’’سدبھاؤنامشن‘‘چلائی ،جس کا مقصداقلیتوں،بالخصوص مسلمانوں تک پہنچنا تھا، اس میں انھیں کامیابی بھی ملی اور نتیجتاً تمام الزامات میں کلین چٹ مل گئی۔
مودی کے لوک سبھا الیکشن لڑنے اور وزارت عظمیٰ کاامیدواربننے سے ٹھیک سال بھر پہلے گجرات حکومت نروداپاٹیاکیس میں دس لوگوں کو سزاے موت دلانے کی تیاری میں تھی،اس لسٹ میں کوڈنانی کابھی نام تھا،بی جے پی ایسا کرکے دراصل اپنے حق میں رائے عامہ ہموارکرنا چاہتی تھی؛حالاں کہ بعدمیںیہ منصوبہ مثبت قانونی رائے کے حصول کی خواہش میں بدل گیا۔
البتہ اندرونِ پارٹی امیت شاہ اور کوڈنانی کے ستارے موضوعِ بحث رہے،سی بی آئی نے تو امیت شاہ کوسہراب الدین فرضی انکاؤنٹرکا ماسٹر مائنڈ قرار دیا تھا، مگرپھر انھیں کلین چٹ مل گئی اورساتھ ہی بی جے پی کے قومی صدر بھی بنادیے گئے،گویاوہ بالکل دھل دھلاکرباہرآگئے۔
کوڈنانی کانام نروداکیس میں 2002ء میں ہی شامل کیاگیاتھا،2009ء میں سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل کردہ خصوصی تفتیشی ٹیم(ایس آئی ٹی)نے انھیں مفرورقراردے دیا،پھرانھیں اپنی وزارت سے استعفادے کر جیل جانا پڑا،اس طرح ان کے سیاسی اور پیشہ ورانہ؛ہردو کریئرپربریک لگ گیا۔کوڈنانی کو مجرم قراردیے جانے کے بعدان سے صرف آرایس ایس چیف موہن بھاگوت نے احمدآباد میں ایک بار ملاقات کی،جہاں وہ ایک سول ہسپتال میں زیر علاج تھیں۔
جب مودی نے مرکزمیں حکومت سنبھالنے کے بعدگجرات فسادکے اسیروں کے معاملے کوپسِ پشت ڈال دیا، تووی ایچ پی لیڈرپروین توگڑیا، جنھوں نے بڑی سیاسی آرزوئیں پال رکھی تھیں، انھیں مایوسی ہاتھ لگی اورانھوں نے مودی کے طرزِ عمل کو’’ہندووں کی شکست‘‘قراردیا، دوسری طرف پاٹیدارلیڈرہاردک پٹیل نے بھی اس نکتے پر خاص توجہ دی اور اس نے کہاکہ مودی نے گجرات فسادکے بعد ہندووں کوجیل میں ڈلوایا، گزشتہ سال اسمبلی الیکشن کی کمپیننگ کے دوران بھی انھوں نے پٹیلوں کے تعلق سے مودی کوگھیرا؛کیوں کہ آننداورمہسانہ ضلعوں سے فسادات کے کیسزمیں زیادہ ترپٹیل ہی پکڑے گئے تھے، بابوبجرنگی بھی پٹیل ہی ہے، جوکچھ کارہنے والاہے ۔
اس کانتیجہ بھی سامنے آیاکہ 2002میں ہندوتوالہرکی بدولت 127اسمبلی سیٹوں پرکامیابی حاصل کرنے والی بی جے پی اب کی بار 182میں سے محض 99سیٹ حاصل کرسکی، اس میں پاٹیدارفیکٹرنے غیرمعمولی رول اداکیا؛کیوں کہ یہ گجرات میں مؤثرکردار رکھنے والی کسان برادری ہے۔
گزشتہ سال ہی کوڈنانی کوبھی اُس وقت امیدکی کرن نظرآنے لگی، جب امیت شاہ نے نروداگام کیس (جس میں گیارہ مسلمان مارے گئے تھے) میں ان کی طرف سے چشمِ دیدگواہ بننامنظورکرلیا، اس کیس میں کوڈنانی سمیت بابوبجرنگی، وی ایچ پی لیڈرجے دیپ پٹیل بھی کلیدی ملزم ہیں ، کوڈنانی نے شاہ سے درخواست کی تھی کہ وہ ان کے اس عذر /دلیل کادفاع کریں کہ 28فروری 2002کوجب سوسائٹی میں قتلِ عام ہوا، تووہ اس وقت موقع پرموجودنہیں تھیں؛ چنانچہ شاہ نے گزشتہ سال ستمبرمیں کورٹ میں گواہی دیتے ہوئے کہاکہ انھوں نے کوڈنانی کواُس دن گجرات اسمبلی میں سابرمتی سانحہ میں مرنے والوں کے لیے پیش کردہ تعزیتی تجویزکے دوران اسمبلی میں دیکھاتھا، اس کے بعدسولاکے سوِل ہسپتال میں دیکھا(پھراحمدآبادکے علاقے میں دیکھا) جہاں جلی ہوئی لاشیں لائی گئی تھیں، پھروہ (شاہ) اورکوڈنانی ہسپتال سے ساتھ ہی نکلے تھے ۔
ٹرائل کورٹ اس عذر کوقبول کرتاہے یانہیں، اس کاپتاہمیں چل جائے گا، مگرگجرات ہائی کورٹ نے اس پرجوتبصرہ کیاہے، وہ ممکن ہے اس کیس میں سند بن جائے، ٹرائل کورٹ نے کوڈنانی کاجرم ثابت کرنے کے لیے گواہوں کے بیانات کوبنیادبنایاتھا؛لہذاہائی کورٹ کاتبصرہ کوڈنانی کو شبہے کافائدہ دے سکتا ہے، یہ امر بھی قابلِ ذکرہے کہ اِس وقت گجرات فسادکے متاثرین کوانصاف دلانے کے لیے لڑنے والی سماجی کارکن تیستاسیتلواڑخودہی مختلف معاملوں میں مقدمات جھیل رہی ہیں ۔
نروداپاٹیاکی طویل کہانی کایہ اجمال ہے، جہاں رہنے والے چارفیصدمسلمانوں میں سے زیادہ ترکرناٹک سے تعلق رکھتے ہیں، کرناٹک، جہاں آیندہ چند ہفتوں کے اندراسمبلی الیکشن ہوناہے اوربی جے پی کے ایک ممبراسمبلی نے یہ کہہ کرماحول کوگرمادیاہے کہ یہ الیکشن ہندوبنام مسلمان ہے؍ہوگا۔
امیت شاہ اورکوڈنانی دونوں نے اپنے اپنے انتخابی حلقے میں غیرمتوقع اکثریت سے جیت درج کی تھی، دونوں ہی نشستیں آڈوانی کے پارلیمانی حلقہ گاندھی نگرسے تعلق رکھتی تھیں ، بی جے پی کوچوں کہ 2019 کے لیے ہندوتوالہرپیداکرنے کی ضرورت ہوگی اوراس کے لیے یقینی طورپراسے آرایس ایس کاتعاون چاہیے،جوکبھی کبھی مرکزی حکومت کی بعض پالیسیوں پرنقدبھی کرتارہتاہے ، ایسے میں کوڈنانی کی رہائی کو عام انتخابات سے قبل بحالیِ اعتماد کے عمل کے طور پر دیکھاجارہاہے؛بلکہ مکہ مسجددھماکہ کیس میں سوامی اسیمانندکی رہائی اورجج لویاکیس میں ملنے والی کلین چٹ کے ذریعے بھی بی جے پی کانگریس کے سامنے اپنادفاع کررہی ہے، جس نے ان معاملات میں بی جے پی پلس آرایس ایس پرسازش رچنے کاالزام لگایاتھا، یہ دورہائیاں اورایک کلین چٹ ہی 2019کے جنرل الیکشن میں کمپیننگ کی بنیادی تھیم بن سکتی ہیں ۔جبکہ دوسری طرف مؤاخذے اور اسیری کے دنوں میں خاموش رہنے کے عوض کوڈنانی کاسیاسی کریئرازسرِ نوشروع ہوسکتاہے اورسالِ رواں کے اختتام کے ساتھ یقینااگلے عام انتخابات کااسٹیج ہمارے سامنے سج چکاہوگا ۔
(اصل انگریزی مضمون21؍اپریل کوروزنامہ’’انڈین ایکسپریس” میں شائع ہواہے)