گزشتہ 4 ا پریل کی صبح یعنی دو رمضان کو اہلیہ کے ساتھ عازم سفر ہوا۔ 2018 کے بعد عمرہ کیلئے یہ پہلا سفر تھا۔
2018میں ایک رپورٹ کے مطابق رمضان کے دوران 50 لاکھ لوگوں نے عمرہ کیا تھا۔لیکن گزشتہ 14اپریل کی صبح جب ہم نے مکہ کو خیرباد کہا تو ایک اطلاع کے مطابق اس وقت تک 20 لاکھ لوگ عمرہ کرچکے تھے۔ کچھ ہی دن کے بعد سرکاری اطلاع آئی کہ ابتدائی دوعشروں میں40 لاکھ لوگ عمرہ کرچکے ہیں۔
عرب ممالک کے بعض صاحبان ثروت پورا مہینہ ہی حرمین میں گزارتے ہیں۔لیکن بیشتر عرب‘رمضان کے تیسرے عشرہ میں مکہ پہنچ جاتے ہیں اور پھر وہیں طاق راتوں کی دعاء اور ختم قرآن میں شرکت کرتے ہیں۔اس لئے محتاط اندازہ یہ ہے کہ اس مرتبہ کم سے کم 60 لاکھ افراد نے تو عمرہ کیا ہی ہے۔یہ تعداد اس وقت ہے جب سعودی عرب کی وزارت حج وعمرہ نے آخری عشرہ میں ان لوگوں کو عمرہ کی اجازت نہیں دی جو اولین دوعشروں میں عمرہ کرچکے تھے۔
پابندیاں تو اور بھی تھیں لیکن بعض لوگ ان پابندیوں کی زد میں آنے سے بچنے کیلئے مختلف حیلے اختیار کرکے اپنے ’عمروں‘ کی تعداد بھی بڑھارہے تھے۔بحمد اللہ ہم نے ایسا نہیں کیا اور ضابطوں کا احترام کرتے ہوئے ایک پر ہی اکتفا کرلیا۔
دہلی کے انٹرنیشنل ایر پورٹ کا ایرکنڈیشنڈ پلانٹ بہت طاقتور ہے۔ احاطہ میں اچھی خاصی ٹھنڈ تھی۔لہذا اہلیہ کی یہیں طبیعت خراب ہوگئی۔میں نے کہا بھی کہ آپ روزہ قضا کرلیں لیکن خواتین کو جتنا آسان سیدھے راستے پر ڈالنا ہوتا ہے اتناہی مشکل ’سیدھے راستے‘ سے ہٹانا ہوتا ہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ آرام دہ کلاس ہونے کے باوجود ہوائی جہاز کا سفر بھی تکلیف کم نہ کرسکا۔
سعودی عرب میں دوائیں بہت مہنگی ہوتی ہیں اور تھوڑی مقدار میں نہیں ملتیں بلکہ پوری اسٹرپ ہی لینی پڑتی ہے۔اس لئے کھانسی‘ نزلہ‘ بخار اور ٹھنڈ کی معروف دوائیں ساتھ لے جانی چاہئیں۔ ہم نے جدہ سے مدینہ تک کا سفر حرمین ہائی اسپیڈ ٹرین کے ذریعہ طے کیا۔ یہ300 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے اور سامنے ٹیبل پر رکھا چائے کا کپ ہلتا تک نہیں۔
جدہ کے نئے ایرپورٹ پر ایک نئی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ہوائی جہاز سے اتر کر کچھ فاصلہ کے بعد بغیر ڈرائیور کی اور بغیر سیٹ کی دو ڈبوں والی ایک غیر معمولی ٹرین میں سوار ہونا پڑا۔ یہ ٹرین اس قدر سرعت کے ساتھ چلنی شروع ہوتی ہے کہ بے فکر کھڑے مسافر ایک دوسرے کے اوپر گرجائیں۔چند لمحوں میں ہمیں امیگریشن کائونٹرس پر پہنچا دیا گیا۔یعنی اب اندرون ہوائی اڈہ بسوں میں چڑھنے اترنے کی قباحت سے نجات مل گئی۔
جدہ میں قونصلیٹ جنرل کے ایک تجربہ کار پروٹوکول افسر کی مدد سے کچھ خالی کائونٹرس مل گئے۔یہاں بھی ایک نئی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ کوئی کائونٹر ہوگا جس پر برقعہ پوش خاتون افسر نہ ہو۔لیکن حیرت ہے کہ ماڈرن زمانے کی رفتار کا مقابلہ کرنے والی یہ سعودی خواتین انگریزی بالکل نہیں جانتیں۔میری اہلیہ برابر والے کائونٹر پر ہی کھڑی تھیں۔میں نے تو ٹوٹی پھوٹی عربی بول کر اپنا کام چلالیا لیکن وہ امیگریشن افسر سے انگریزی میں بیان فرماتی رہیں اور افسر مجھ سے کہتی رہی: اطلب من السیدہ ابراز تاشیرتہا۔۔ ان سے کہئے کہ وہ اپنا ویزا دکھائیں۔
پورے ملک کے بارے میں مجھے نہیں معلوم لیکن ہم جہاں بھی گئے لوگ انگریزی سے نابلد ملے۔اوپر سے یہ کہ حرمین کے انتظام اور سیکیورٹی پر مامور لوگ یہ جانے اور سمجھے بغیر کہ جس سے وہ ہمکلام ہیں عربی جانتا ہے یا نہیں‘ عربی میں ہی’فرمودات‘ شروع کردیتے ہیں۔میں نے بہت سے لوگوں کو الجھتے دیکھا ہے۔فریقین اپنی اپنی زبانوں میں اپنی اپنی رٹ لگائے رہتے ہیں اور کوئی ایک دوسرے کی نہیں سمجھتا۔
ایک بڑا دلخراش واقعہ مسجد نبوی میں پیش آیا۔ خواتین کیلئے مختص گیٹ نمبر 26 پر سات اپریل کو ایک بنگلہ دیشی نوجوان سرگرداں پھر رہا تھا۔میں بھی تراویح کے بعد اپنی اہلیہ کے انتظار میں اسی گیٹ کے باہر کھڑا تھا۔میں نے اسے پریشان دیکھ کر اس سے ماجرا پوچھا۔اس نے بتایا کہ آج دن میں 11 بجے اس نے اپنی والدہ کو اسی گیٹ کے اندر چھوڑا تھا اور وہ اب تک باہر نہیں آئی ہیں۔باہر بیٹھے ہوئے اہلکار اندر جانے نہیں دیتے۔۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ کم سے کم اتنا ہی کردیجئے کہ اس عورت کی تصویر‘ جو اس کے بیٹے کے موبائل میں تھی‘ اندر موجود اہلکار خواتین تک پہنچادیں۔لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔جس دفتر میں شکایت درج کرانے کو کہا گیا تھا وہاں سے بھی کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔
جو حضرات خواتین کو ساتھ لے جائیں وہ مسجد نبوی میں پہلے جاکر جائزہ لے لیں اور کوئی نشانی طے کرکے اپنی خواتین کو سمجھا دیں کہ اتنے بجے فارغ ہوکر بس یہیں ملنا ہے۔۔ وہاں بڑی آسانیاں بھی ہیں۔مثال کے طور پر اندرونی اور بیرونی دروازوں کے نمبر واضح طورپر لکھے ہوئے ہیں۔یہاں تک کہ مسجد کے اندرونی ستونوں‘ قرآن رکھنے کی الماریوں’ زمزم کی ٹنکیوں اور جوتے چپل رکھنے کے ’باکس‘ پر بھی نمبر پڑے ہوئے ہیں۔۔ مشرق کی طرف خواتین کیلئے گیٹ نمبر 28,26,17,15,13 مختص ہیں۔
بڑی مشکل وہی ہے کہ اکثر غیر عرب زائرین کو عربی نہیں آتی اور عرب عملہ کو انگریزی نہیں آتی۔کیا یہ کوئی بہت مشکل کام ہے؟ آپ جس کا تقرر کریں یا تو اسے پہلے سے تھوڑی بہت انگریزی آتی ہو یا تقرری کے بعد اسے تین مہینہ کی ٹریننگ کرادی جائے۔اس سے بڑی سہولت ہوجائے گی اور خود انتظام کار میں بھی آسانی ہوگی۔
جدہ کے نئے ایرپورٹ پر بے ہنگم مرد افسروں سے نجات مل گئی ہے۔یہاں مامور خواتین کی صرف آنکھیں نظر آتی ہیں۔وہ کام بھی دلجمعی کے ساتھ کرتی ہیں۔وہ مردوں کی طرح خرمستیاں اور شوروغل نہیں کرتیں۔لیکن حرمین میں اور خاص طور پر مسجد نبوی کے بیرونی احاطہ میں مامور بعض اہلکار لوگوں کو بری طرح دھمکاتے ہیں۔اور اس عمل میں بڑا دخل زبان نہ جاننے کا ہوتا ہے۔۔ کچھ لوگ بھی ضابطوں کا خیال نہیں رکھتے اور ممنوع راستے میں مصلی بچھالیتے ہیں۔مسجد نبوی میں اس طرح کے معاملات زیادہ دیکھنے میں آتے ہیں۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق مسجد نبوی میں 24اپریل یعنی 23ویں روزہ تک ایک کروڑ 40لاکھ لوگ حاضری دے چکے تھے۔ اتنی بڑی تعداد کو کوئی گزند نہ پہنچے اور سکون کے ساتھ لوگ نمازوں کی ادائیگی اور روضہ رسولؐ پر حاضری دیدیں‘ اس کیلئے انتظامات بھی غیر معمولی ہی کرنے ہوں گے۔حرمین کی انتظامیہ اس امر کو بلاشبہ یقینی بناتی بھی ہے۔لیکن سیکیورٹی اور دوسرے کاموں پر مامور عملہ کی مزید کچھ تربیت کی سخت ضرورت ہے۔
دوسری طرف برصغیر اور خاص طور پر ہندوستان سے جانے والوں کو بھی پیشگی طور پر کچھ ضابطوں کی معلومات حاصل کرنا ضروری ہے۔اس ضمن میں حج کے زمانے میں تو ہندوستان میں بعض مسجدوں میں تربیت کا انتظام کیا جاتا ہے لیکن باقی ایام میں عمرہ کی ادائیگی کیلئے ایسی تربیت کا نظم شاید منظم طور پر نہیں ہے۔
حرمین میں توسیع کا کام ہمیشہ جاری رہتا ہے۔اس بار بھی کافی کچھ اضافہ نوٹ کیا گیا۔بیت اللہ میں مزید کافی توسیع ہوگئی ہے۔مزید کچھ چھتیں بھی نمازیوں کیلئے کھولی گئی ہیں۔دروازوں کے میناروں کا حجم بڑھاکر انہیں مزید بلند کیا جارہا ہے۔مسجد نبوی میں بھی شمال اور مشرق کی جانب کافی توسیع ہوئی ہے۔کچھ کھانے پینے کے ہوٹل جو 2018 میں موجود تھے اب نہیں ہیں۔البتہ دونوں مقامات پر بہت سے بڑے رہائشی ہوٹل آج بھی بند پڑے ہیں کیونکہ ان میں کام کرنے والا غیر ملکی عملہ ابھی تک لوٹ نہیں سکا ہے۔حکومت سعودی عرب نے غیر ملکی عملہ کیلئے کچھ ضابطے بھی سخت کردئے ہیں۔کہتے ہیں کہ آرام پسند سعودی نوجوانوں کو روزگار دینے اور محنت کی عادت ڈالنے کیلئے ایسا کیا گیا ہے۔مکہ اور مدینہ میں ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے یمن کے پریشان حال شہریوں کو بڑے پیمانے پر کام کرنے کی اجازت دی ہے۔ ان میں برقعہ پوش خواتین بھی ہیں۔
یہاں ہندوستان میں کئی مہینوں سے چست لباس میں ملبوس حرم کی خواتین پولیس کا جو شور سن رہے تھے اس کا کوئی شائبہ تک وہاں نظر نہیں آیا۔بلکہ اس مرتبہ تو خود حرم مکی کے اندر مطوع خواتین بھی برائے نام ہی نظر آئیں۔البتہ یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ عمرہ کے ارکان اور خاص طور پر طواف کعبہ کے دوران اسمارٹ فون سے سیلفی اور ویڈیو بنانے کے کام میں خاتون زائرین بھی پیچھے نہیں رہتیں۔اس سے دوسرے لوگوں کو ارکان کی ادائیگی میں خاصی زحمت ہوتی ہے۔
اس بار حرمین میں تراویح کی کل دس رکعتیں ادا کی گئیں۔دونوں مقامات پر بہت عمدہ قراء حضرات قرآن سناتے ہیں۔خاص طور پر مکہ میں شیخ بلیلہ‘ شیخ جُہانی اور یاسر الدوری اور مدینہ میں شیخ عبدالحمید اور شیخ بعیجان کی تلاوت سن کرلطف دوبالا ہوجاتا ہے۔رمضان میں ہندوستان سے جانے والوں کو یہ بتایا جانا ضروری ہے کہ حرمین کے ائمہ وتر کی تین رکعت کس طرح پڑھاتے ہیں۔ پہلی دو رکعتوں پر سلام کے بعد متصلاً تیسری رکعت کی نیت باندھتے ہیں اور اسی میں دعا ہوتی ہے۔البتہ شیخ بلیلہ نے بارہویں شب میں وتر کی نماز اس طرح پڑھائی کہ دوسری رکعت پوری ہونے کے بعد تشہد میں نہیں بیٹھے اور براہ راست تیسری رکعت کیلئے کھڑے ہوگئے۔جبکہ تیرہویں شب میں شیخ یاسر الدوری دوسری رکعت کی تشہد کے بعد سلام نہ پھیر کرتیسری رکعت کیلئے کھڑے ہوگئے۔علماء کہتے ہیں کہ یہ سب طریقے احادیث سے ثابت ہیں۔ لیکن اس سے عام لوگوں کو کنفیوژن تو ہوا ہی ہوگا۔
اسی طرح سجدہ کی آیات کی تلاوت کے بعد امام سجدہ میں جاتا ہے اور بہت سے لوگوں کو اندازہ ہی نہیں ہوتا۔حالانکہ امام اور موذن ایسے موقع پر منفرد انداز میں اللہ اکبر کہتے ہیں لیکن عام لوگ نہیں سمجھ پاتے۔بر صغیرمیں تو نیت باندھنے سے پہلے قرآن سنانے والا بتادیتا ہے کہ پہلی یا دوسری رکعت میں سجدہ ہے۔بہتر صورت یہ ہے کہ عام نمازیوں کو ائمہ وخطباء سجدہ کی آیات کا استحضار کراتے رہیں تاکہ جب وہ یہ آیات سنیں تو سمجھ جائیں کہ اب سجدہ کرنا ہے۔بمشکل ایک آدھ آیت ہی ایسی ہے کہ جس کے الفاظ سے بظاہر سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سجدہ کی آیت ہے۔۔
بحمداللہ دونوں جگہ متعدد اماموں کے باوجود تراویح میں صرف ایک ایک قرآن پا ک مکمل ہوتا ہے۔چاہیں تو وہ بھی ایک سے زائداور کم سے کم تین قرآن پاک مکمل کرسکتے ہیں۔لیکن وہ جس خشوع وخضوع‘ صحت لفظی اور مخارج کی رعایت کے ساتھ مختصر پڑھتے ہیں دراصل اللہ کو وہی مطلوب ہے۔بعض آیات کی تلاوت کرتے ہوئے ان پر اسی لئے رقت طاری ہوجاتی ہے کہ وہ سمجھ کر پڑھتے ہیں۔گوکہ وہ ان کی اپنی زبان بھی ہے لیکن اللہ کے کلام کو سمجھنے کیلئے صرف زبان دانی کافی نہیں ہے۔وہ اللہ کے کلام کا پورا حق ادا کرتے ہیں۔اسی لئے وہاں کے ہر گوشہ سے نور ہی نورپھوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
بات طویل ہوگئی ہے اور بہت سے نکات کا اب بھی احاطہ نہیں ہوسکا ہے۔میں نے دونوں مقامات پر بار بار دعائیں کی ہیں اور اس روئے زمین پر بسنے والے‘ خاص طور پر ہندوستان اور دوسرے ملکوں میں موجود اپنے تمام قارئین اوراحباب کو ہر موقع پر بطور خاص یاد رکھا ہے کہ میرے پاس دینے کیلئے اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔میں نے اپنے ملک کے امن وامان کیلئے‘ ظالموں کی ہدایت کیلئے اوراہل ایمان کے باہمی اتحاد کیلئے بھی دعا کی ہے۔ اس وقت دعا کے سوا دوسرا کوئی راستہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ آپ بھی دعا کیجئے۔