بایاں محاذ کے قدآور لیڈر سیتارام یچوری نے مختصر علالت کے بعد گزشتہ 12/ستمبر2024کو آخری سانس لی۔ ان کا انتقال ایک ایسے موقع پر ہوا جب ملک میں بایاں بازو کی سیاست اپنے وجود کی لڑائی لڑرہی ہے۔یچوری نے ملک میں سیکولر جمہوری سیاست کو مضبوط کرنے اور فسطائیت کے خلاف مشترکہ محاذ تشکیل دینے کے لیے جو انتھک کوششیں کیں، اس کے لیے انھیں ہمیشہ یادرکھا جائے گا۔انھوں نے پوری زندگی فرقہ واریت اور فسطائیت کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے گزاری۔سیتا رام یچوری اپنی سیاسی بالغ نظری اور عقیدہ صنفی کی وجہ سے بھی جانے جاتے تھے۔انھوں نے اپنی زندگی میں ہمیشہ اقتدار سے زیادہ اقدار کو ترجیح دی اور کبھی کرسی کا منہ نہیں دیکھا۔ وہ سیاسی دورابتلا میں نظریاتی پختگی کی بہترین مثال تھے۔سیتارام یچوری ہندوستانی سیاست میں ایک بااصول، عوام دوست، سیکولر اور جمہوریت پسند سیاست داں اور بہترین انسان کے طورپر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
بایاں محاذ کی طلباء سیاست سے اپنا کیریر شروع کرنے والے سیتارام یچوری نے کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ انھوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی سوجھ بوجھ سے قومی سیاست میں اپنے لیے جگہ بنائی۔ وہ ایک معاملہ فہم سیاست داں تھے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کے سیاسی اور نظریاتی مخالفین بھی ان کا احترام کرتے تھے۔وہ اپنی معتدل سیاسی فکر کی وجہ سے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں مقبول تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں ان کی موت پران کی ہم خیال سیاسی جماعتوں کے علاوہ ان کے کٹر نظریاتی مخالفین نے بھی انھیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
سیتا رام یچوری نے اپنا کیریر طلباء سیاست سے شروع کیا تھا اور وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے بایاں بازو کی طلباء تحریک میں بہت مقبول تھے۔ بعدازاں جب انھوں نے باقاعدہ سیاست میں قدم رکھا تو سی پی ایم کے ایک مقبول ترین لیڈر بن کر ابھرے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی سیکولر سیاست کے فروغ اور جمہوری قدروں کی مضبوطی کے لیے وقف کردی تھی۔ وہ ایک قابل اعتماد لیڈر تھے اور اپنے نظریات کے معاملے میں بے جوڑ ثابت ہوئے تھے۔ بائیں بازو کے نظریات پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے باوجود ان کے اندر شدت پسندی نہیں تھی۔
سیتارام یچوری کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے انتقال کے بعد انھیں خراج عقیدت پیش کرنے والوں کا تانتا بندھا ہواہے۔ حالیہ تاریخ میں شاید اتنا بڑا تعزیتی جلسہ کسی لیڈر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منعقد ہوا ہو جتنا کہ کامریڈ یچوری کے لیے ہوا۔ یہ تعزیتی جلسہ گزشتہ 28ستمبر کو نئی دہلی کے تال کٹورہ انڈور اسٹیڈیم میں منعقد ہوا جس میں بائیں بازو کے تمام قائدین کے علاوہ کانگریس صدر ملکا ارجن کھڑگے اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے بھی شرکت کی۔حالیہ سیاسی تاریخ میں سیکولر اتحاد کو مضبوط کرنے کی جتنی بھی کوششیں ہوئیں ان میں کامریڈ یچوری ایک محور کے طورپر شامل رہے اور انھوں نے ملک میں ظلمت پسند طاقتوں کے خلاف اپوزیشن کو متحد کرنے کے لیے بے پایاں کوششیں کیں۔ان سے قبل یہ کام سی پی ایم کے رہنما آنجہانی کامریڈ ہرکشن سنگھ سرجیت کیا کرتے تھے جنھوں نے ملک میں پہلی بار تیسرے محاذ کی حکومت تشکیل دینے میں کلیدی کردار اداکیا تھا۔کامریڈ سرجیت کے بعد اگر کسی سیاست داں نے ملک میں سیکولر اتحاد کو مضبوط بنانے میں بنیادی کردار اداکیا، ان میں کامریڈ سیتارام یچوری کا نام سب سے نمایاں ہے۔ وہ اپناکام نہایت خاموشی اور سنجیدگی کے ساتھ انجام دیتے تھے۔
گزشتہ پارلیمانی انتخابات سے قبل ’انڈیا اتحاد‘ کی تشکیل وتعمیرمیں کامریڈ یچوری کاکردار سب سے اہم تھا۔ اس سے قبل مرکزمیں بایاں محاذ کی حمایت سے یوپی اے حکومت تشکیل دینے میں بھی وہ کلیدی حیثیت کے حامل تھے۔ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں اس حکومت نے دس سال کا عرصہ پورا کیا۔ اس دوران جب کانگریس اور بایاں محاذ کے درمیان کشیدگی کی نوبت آئی اور اس نے حمایت واپس لی تو بھی یچوری اس محاذ کو بکھرنے سے بچانے میں مصروف نظر آئے۔ کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان تال میل پیدا کرنے میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔وہ کانگریس اور بایاں محاذ دونوں کے لیے بھروسے مند شخصیت تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تعزیتی اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے کہا کہ ”وہ ان کے ایسے دوست تھے جن پر موجودہ سیاست میں بھروسہ کیا جاسکتا تھا۔ راہل نے کہا کہ یچوری اعتماد کے حامل سیاست داں تھے اور وہ اس معاملے میں سمجھوتہ نہیں کرسکتے تھے۔یچوری نے ہمیشہ انڈیا اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے پس منظر میں رہ کر کام کیا اور وہ اتحادی پارٹیوں اور کانگریس کے درمیان پل کا کام کرتے رہے۔“انھوں نے یہ بھی کہا کہ”یچوری جی میرے لیے ایک ایسے دوست تھے جو سیاسی نظام میں رہتے ہوئے سب کا بھروسہ بن کر اپنا کام کرتے تھے۔لوگوں کے لیے سیاست کے اندرونی انتشار کو دیکھنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ”سیتارام یچوری ایسی شخصیت تھے، جنھوں نے سب کو اکٹھا رکھا۔“
سیتارام یچوری کی بڑی خوبی یہ تھی کہ اتنے اہم کارنامے انجام دینے کے باوجود ان میں کسی قسم کی انا اور غرور نہیں تھا۔ حساسیت سے بھرا یہ دل دوسرے سیاست دانوں کے پاس نہیں ہوتا۔انھوں نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ راقم کو کئی بار وسنت کنج میں واقع ان کے فلیٹ میں جانے کا اتفاق ہوا۔میں نے وہاں کتابوں کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ ان کی اہلیہ معروف انگریزی صحافی سیما چشتی ان کی دانشورانہ طاقت تھیں۔ یچوری کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ بہت طمانیت پسند اور شائستہ انسان تھے۔سیتارام یچوری کی سیاست کا محور اس ملک کے کمزوراو ر مظلوم طبقات تھے جن کی بہتری کے لیے وہ ہمیشہ سوچتے اور سرگرم عمل رہتے تھے۔وہ سب کو ساتھ لے کرچلنے پر یقین رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے انھیں بایاں بازو کی ایک معتدل آواز کے طورپر دیکھا جاتا تھا۔
سیتارام یچوری کی پیدائش12/اگست1952کو مدراس میں ہوئی تھی۔ان کا تعلق ایک تلگو برہمن خاندان سے تھا۔ان کے والد سرویشور سومیا جولا ایک انجینئر تھے جبکہ ان کی والدہ سرکاری افسر تھیں۔وہ ایک ہونہار طالب علم تھے۔انھوں نے نئی دہلی کے پریسڈینٹ اسٹیٹ اسکول سے سی بی ایس ای بورڈکے انٹر میڈیٹ امتحان میں پورے ملک میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور سینٹ اسٹیفن کالج سے اکنامکس میں بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں انھوں نے جے این یو سے اکنامکس میں ایم اے کیا اور یہیں سے طلباء لیڈر کے طورپر ان کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا۔ انہوں نے 1974 میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں طلباء تحریک میں شمولیت اختیار کی اور اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی) کے رہنما کے طور پر ابھرے۔ وہ دو برسوں کے وقفے میں تین بار جے این یو طلباء یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ 1984 سے 1986 کے درمیان کامریڈ سیتارام ایس ایف آئی کے آل انڈیا صدر رہے اور اس کوملک گیر طاقت کے طور پر ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا۔سیتارام یچوری 1975 میں سی پی آئی (مارکسوادی) میں شامل ہوئے۔ ایمرجنسی کے دوران انہیں ان کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے گرفتار کیا گیا۔ وہ 1985 میں بارہویں کانگریس میں سی پی ایم کی مرکزی کمیٹی کے لیے منتخب ہوئے اور تامرگ مرکزی کمیٹی کے رکن رہے۔ وہ 1989 میں مرکزی سیکریٹریٹ اور 1992 میں پارٹی کی 14ویں کانگریس میں پولٹ بیورو میں منتخب ہوئے۔
2015 میں اکیسویں کانگریس میں وہ سی پی ایم کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے، جس عہدے پر وہ آخری وقت تک برقرار تھے۔ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے تک پارٹی کی مرکزی قیادت کے حصے کے طور پرانہوں نے وقتاً فوقتاً سی پی ایم کے سیاسی نظریات کو ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ سی پی ایم نے 14ویں کانگریس میں کچھ نظریاتی مسائل پر ایک قرارداد منظور کی، جس میں سوشلزم کی ناکامیوں کے نتیجے میں پارٹی کی نظریاتی صورتحال کو زیربحث لایا گیا۔ یہ قرارداد کامریڈ سیتارام نے کانگریس کے سامنے پیش کی تھی۔ اس کے بعد، وہ 2012 میں پارٹی کی بیسویں کانگریس میں تسلیم کئے جانے والی مختلف مسائل پر نظریاتی سوجھ بوجھ سے متعلق قرارداد پیش کرنے والے اہم رہنماؤں میں شامل تھے۔مرکزی کمیٹی کے بین الاقوامی شعبے کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے مختلف بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر کمیونسٹ اور ترقی پسند قوتوں کی شرکت اور سوشلسٹ ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنایا اور سامراج مخالف تحریکوں کے ساتھ اتحاد کو فروغ دیا۔
سیتارام یچوری دو دہائیوں سے زیادہ وقت تک پارٹی کے ہفتہ وار اخبار ”پیپلز ڈیموکریسی“کے ایڈیٹر رہے۔ ان کو تحریر پر بڑا ملکہ حاصل تھا۔ نظریاتی میدان میں ان کا بڑاکارنامہ ہندو توپر ان کی تنقید تھی، جو ان کی کتابوں – ”یہ ’ہندو قوم‘کیا ہے؟“اور ”فرقہ واریت بمقابلہ سیکولر ازم“کے عنوان سے شائع ہوئی۔سیتارام یچوری 2005 سے 2017 تک دو بار راجیہ سبھا کے رکن رہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں سی پی ایم کے گروپ کی قیادت کی اور بطور رکن پارلیمنٹ ان کا کردار نمایاں رہا۔وہاں انھوں نے سماج کے کمزورطبقات اور مظلوموں کے لیے ہمیشہ آواز بلند کی۔انہیں 2017 میں بہترین رکن پارلیمنٹ کے اعزاز سے نوازا گیا۔
حال ہی میں، سیتارام یچوری نے اپنا بیشتر وقت اور توانائی سیکولر اپوزیشن جماعتوں کے ایک وسیع اتحاد کی تشکیل پر صرف کی جس کے نتیجے میں نے ’انڈیا اتحاد‘ وجود میں آیا۔ اس سے قبل جب سی پی ایم متحدہ محاذ حکومت اور بعد میں یو پی اے حکومت کی حمایت کررہی تھی تو وہ دونوں کے درمیان تال میل کے کے لیے اہم مذاکرات کاروں میں سے ایک تھے۔ان کے دوستانہ مزاج کی وجہ سے، سیاسی دائرے اور زندگی کے تمام شعبوں میں ان کے دوستوں کا دائرہ وسیع تھا۔ ان کی سیاسی دیانتداری اور وابستگی کی وجہ سے سب ان کا احترام کرتے تھے۔یچوری نے اپنی قیادت میں پارٹی کے نظریہ کو برقراررکھنے اور لوگوں کے ساتھ روابط بڑھانے کی کوشش کی۔ انھوں نے ہمیشہ سوشلزم، مساوات اور سماجی انصاف کے موضوعات پر مسلسل زوردیا۔ ان کے نزدیک سیکولر جمہوری اقدار کو ہمیشہ فوقیت حاصل رہی۔ہماری قومی سیاست کے ایک اہم موڑ پر سیتارام یچوری کا انتقال ایک بڑا دھچکا ہے اور یہ بائیں بازو، جمہوری اور سیکولر قوتوں کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔