دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سابق صدرپروفیسر نجمہ رحمانی کو کل شام اوکھلا کے بٹلہ ہاؤس قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا۔کل صبح ہی سرطان کے موذی مرض میں ان کا انتقال ہوا تھا۔ان کی نماز جنازہ اور تدفین میں اردو برادری کی تمام سرکردہ شخصیات کے ساتھ طلباء بھی بڑی تعداد موجود تھے۔ نجمہ کی تدفین ان کے والد سلیمان سالک مرحوم کے پہلو میں ہوئی ہے جو اردو کے ایک محنت کش صحافی تھے اورانھوں نے مشکل حالات میں اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے سرفراز کیا تھا۔ ڈاکٹرتسلیم رحمانی ان کے بڑے بیٹے ہیں اور سیاسی ،سماجی اور ملی حلقوں کی ایک معروف شخصیت ہیں۔ انھوں نے ہی کل صبح مجھے واٹس ایپ پر نجمہ کے انتقال کی خبردی تھی۔ اس غیر متوقع خبر سے مجھے دھچکا سا لگا۔ مجھے یاد ہے کہ گزشتہ دنوں اردو اکادمی کے ایک تعلیمی مقابلے میں ہم دونوں ایک ساتھ جج کے فرائض انجام دے رہے تھے تونجمہ اردومیڈیم طالبات کی کمزور استعداد پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے باربار مجھ سے یہی کہہ رہی تھیں کہ دراصل یہی طلباء آگے چل کر ہمیں ملتے ہیں تو ان پر بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ بلاشبہ نجمہ ایک محنت کش اور مخلص استاد تھیں اور وہ اپنے طلباء کے ساتھ مشفقانہ سلوک کرتی تھیں۔ مگر انھوں نے خود اپنے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ ان کی زندگی تضادات کا شکار تھی اور انھوں نے اپنی زندگی کامنشور خود ہی ایجاد کیا تھا۔
میرا ان کی فیملی کے تین لوگوں سے تعلق خاطر رہا۔ پہلا نمبر تو ان کی بڑی بہن نیّررحمانی کا ہے، جو کروڑی مل کالج کے شعبہ اردو میں میرے ماموں زاد بھائی ڈاکٹر اصغر کمال کی کلاس فیلو تھیں۔ گاہے بہ گاہے ان سے ملاقات ہوجاتی تھی۔ یہ80 کی دہائی کا آخری دور تھا۔نیّر رحمانی بڑی مہذب اور شائستہ لڑکی تھیں اور ہمیشہ مسکراتی رہتی تھیں۔ بعد کو انھوں نے اپنے ایک ہم جماعت سے شادی کرلی اور اپنا گھر آباد کرلیا۔ اب ان کے بچے جوان ہیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں، لیکن نجمہ کا مسئلہ یہ تھا کہ انھوں نے شادی نہیں کی اور مجرد زندگی گزاری۔ ان کی زندگی میں نشیب وفراز بہت تھے۔ مجھے ان کے اندرون میں ایک بے چین روح تڑپتی نظر آتی تھی۔وہ حساس بھی بہت تھیں اور کسی حدتک نازک مزاج بھی۔ اصولوں اور قرینوں کے معاملے میں کم ہی لوگ ان کا مقابلہ کرسکتے تھے۔
نجمہ رحمانی کی نظریاتی وابستگی بائیں بازو کے ساتھ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تدفین میں کئی کمیونسٹ کارکن شریک ہوئے اور جب ان کے جسد خاکی کو قبر میں اتارا جارہا تھا تو انھوں نے”کامریڈ نجمہ رحمانی کو لال سلام“ بھی پیش کیا۔ نجمہ بنیادی طورپر آزاد ذہن اور روشن خیال خاتون تھیں۔ ان کا انتقال رمضان کے مبارک مہینے میں اکیسویں شب کی صبح کو ہوا تو مجھے ان کے درجات کی بلندی کا علم ہوا۔ برادرم ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے ان کے انتقال کی اطلاع کے ساتھ جو تصویر بھیجی اس میں وہ مجھے روزہ دار معلوم ہورہی ہیں۔اللہ تعالیٰ انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔
نجمہ کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے نظریات اور محسوسات کو کسی سے چھپاتی نہیں تھیں۔ وہ بے باک اور بے لاگ بھی بہت تھیں۔ جو کچھ کہنا ہوتا کہہ گزرتی تھیں۔اپنے اصولوں کے معاملے میں بھی وہ کھری ثابت ہوئی تھیں۔ گزشتہ برس ایک طالب علم کے پی ایچ ڈی داخلے کے لیے میں نے ان سے بالواسطہ سفارش کی تھی۔ انھیں موضوع سے اتفا ق نہیں تھا تو انھوں نے میری سفارش کو درکنار کرکے معذرت کرلی۔ یہ ان کا طریقہ کار تھا، جس کی وجہ سے وہ بعض حلقوں میں مقبول نہیں تھیں۔
جون 2023 میں اترپردیش اردو اکادمی نے اپنی گولڈن جبلی تقریبات کے موقع پرلکھنؤ میں اردو صحافت پر ایک سہ روزہ سیمینار برپا کیا تھا، جس کا موضوع ”اردو صحافت کے دوسوسال“ تھا۔ نجمہ بھی اس میں شریک ہوئیں اور انھوں نے اردو صحافت کے حوالے سے تیکھی باتیں کہیں۔ اس سیمینار میں ان کے بیشتر دوست موجود تھے۔احمدمحفوظ، سراج اجملی اور سہیل وحید وغیرہ۔ ہم سب لوگ لال باغ کے ردا ہوٹل میں مقیم تھے۔ سیمینار کے بعد خوش گپیوں کا دور چلتا۔ یہ تین دن اچھے گزرے۔ اتفاق سے نجمہ اور میں دونوں ایک ہی ٹرین میں سوارہوکر دہلی آئے۔ صبح کو جب وہ نئی دہلی اسٹیشن پر ملیں تو بڑی نڈھال تھیں۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو کہا کہ”میرا ٹکٹ کنفرم نہیں ہوا تھا، اس لیے ساری رات جاگ کر گزاری۔“ان کی طبیعت میں صبرواستقلال بھی بہت تھا۔وہ کئی ماہ سے سرطان جیسے موذی مرض کا مقابلہ کررہی تھیں۔ مجھے اس موذی بیماری کا علم نہیں ہوسکا۔انھوں نے اس بیماری کو ایک راز کی طرح اپنے سینے میں چھپائے رکھا۔ شاید وہ اپنے دوستوں کو کسی اذیت میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی تھیں۔اسپتال آنے جانے کا سلسلہ جاری تھا۔ احمدمحفوظ نے بتایا کہ ایک روز انھوں نے اسپتال سے ہی ایک طالب علم کے وایوا میں آن لائن شرکت کی تھی۔ یہ اپنے پروفیشن سے ان کی عقیدت کا حال تھا۔ قبرستان میں احمد محفوظ کے علاوہ خورشید اکرم اور مظہراحمد بھی کافی نڈھال تھے۔ دولوگوں کی کمی محسوس ہوئی ایک سراج اجملی اور دوسرے سہیل وحید۔ سراج اعتکاف میں تھے اور سہیل لکھنؤ میں اپنے بھائی کی تیمارداری کررہے تھے، جو اسی موذی مرض میں مبتلا ہے۔ نجمہ کے ساتھیوں میں ابوبکر عباد، ارجمند آراء وغیرہ بھی نڈھال تھے۔ ڈاکٹر شمس اقبال،پروفیسر شہپر رسول بھی موجود تھے۔ حقانی اپنی بیماری اور نقاہت کے باوجود کمزور قدموں کے ساتھ جنازے میں شریک ہوئے۔نعمان شوق، کوثر مظہری، شہزاد انجم اور سہیل فاروقی بھی غم زدہ تھے۔سبھی نجمہ کی ناوقت موت کا غم منارہے تھے۔
نجمہ رحمانی کی پیدائش25/ستمبر 1965کو فصیل بند شہر میں ہوئی تھی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم بلی ماران اور زینت محل کے سرکاری اسکولوں میں حاصل کی۔پھر کروڑی مل کالج سے بی اے اور ایم اے کرنے کے بعد پروفیسر عبدالحق کی نگرانی میں دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے پی ایچ ڈی کیا اور اسی شعبہ سے بطوراستاد وابستہ ہوئیں۔ انھیں شعبہ کا صدر اورآرٹ فیکلٹی کا ڈین بنایا گیا۔اردو کی ایک معمولی طالبہ سے لے کر دہلی یونیورسٹی کے باوقار شعبہ اردو کے صدر کی حیثیت تک انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔انھوں نے اپنی سی زندگی بسر کی۔ بعض مواقع پر انھیں شدید ڈپریشن نے بھی اپنی گرفت میں لیا اور ایسی ہر مشکل گھڑی میں بھائی تسلیم رحمانی ان کے کام آئے اور انھیں زندہ رہنے کی ترغیب دیتے رہے۔مجھے یاد ہے کہ جب وہ صدر شعبہ اردو بنی تھیں توڈاکٹر تسلیم رحمانی نے دہلی میں ایک پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا تھا۔ اس میں ان کے سبھی دوست احباب اور متعلقین موجودتھے۔وہ بہت خوش تھیں اور سب کی تہنیت قبول کررہی تھیں۔ان کی تدفین کے وقت میں نے ان تمام چہروں کو دوبارہ ایک ساتھ دیکھا اور یوں محسوس ہوا کہ وہ زبان حال سے کہہ رہی ہوں کہ ”میں تمہاری نظروں سے اوجھل ضرور ہورہی ہوں، لیکن تمہاری یادوں میں ہمیشہ مہکتی رہوں گی۔“
الوداع! نجمہ رحمانی۔