شمالی ہندمیں جب بھی ہم اردو کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں ایک ایسی ریاست کی بھی یاد آتی ہے جہاں اردو کی فصل لہلارہی ہے۔ اس ریاست کا نام ہے مہاراشٹر،جو اترپردیش کے بعد ملک کی دوسری بڑی ریاست ہے۔ایک طرف جہاں اترپردیش میں اردوبستر مرگ پر پڑی ہوئی ہچکیاں لے رہی ہے تو وہیں مہاراشٹر میں اس زبان کا بول بالا ہے۔مہاراشٹر کی خوبی یہ ہے کہ یہاں بچے خوب اردو پڑھ رہے ہیں اور انھوں نے اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنارکھا ہے۔ اسی مہاراشٹر میں ایک ایسا شہر بھی ہے جہاں ہرطرف اردو کا بول بالا ہے۔ اس شہر کانام ہے مالیگاؤں۔ یہ وہی شہر ہے جہاں قومی اردو کونسل کے کتاب میلے میں اردو والوں نے ڈیڑھ کروڑ روپے کی کتابیں خرید کر ریکارڈ قائم کیا تھا۔ اسی مالیگاؤں سے جس وقت مجھے ’رشک بہاراں‘ میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو میں مقدس شہر مدینہ منورہ میں تھا اور چند روز بعد وطن واپسی تھی۔ سفر کی تھکان ایسی تھی کہ میں فوری کسی دوسرے سفر کے لیے تیار نہیں تھا، مگر مالیگاؤں کی اردو نوازی اور برادرم امتیاز خلیل کی مخلصانہ دعوت میں ایسی کشش تھی کہ میں انکار نہیں کرسکا۔
عمرے سے واپسی کے تیسرے ہی دن مالیگاؤں کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔مالیگاؤں والوں کی اردو نوازی کے قصے تو بہت سن رکھے تھے، لیکن اس کا عملی تجربہ ’رشک بہاراں‘ کے دوران ہوا۔ یہ وہ شہر ہے جہاں ہر پوسٹر، بینر اور سائن بورڈ پر اردو نظر آتی ہے۔ شاید ہی کوئی گلی، محلہ یا سڑک ہوجہاں اردو کا گزر نہ ہو۔یہاں درجنوں اردو لائبریریاں، اردو میڈیم اسکول، کالج اور متحرک ادبی انجمنیں ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر شخص اردو کا شیدائی ہے۔یہاں کی ایک لائبریری تو سواسوسال پرانی ہے۔اردو زبان اور تہذیب کے ساتھ ایسا عشق آپ کو کہیں اور نہیں ملے گا۔ یوں تو پورے مہاراشٹر میں اردو کا چلن ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں اردو تعلیم وتدریس کا نظام بہت مضبوط ہے۔ ہائر سیکنڈری کی سطح تک ہزاروں اسکول ہیں۔ یہاں تک کہ کوکن علاقے میں تین سو سے زائد اردو میڈیم اسکول ہیں۔ سچ پوچھئے تو مہاراشٹر میں اردو تعلیم کا جال بچھاہوا ہے اور یہاں کے طلباء اور اساتذہ پوری تندہی کے ساتھ اردو کی آبیاری کررہے ہیں۔
مالیگاؤں کوئی بڑا شہر نہیں ہے، لیکن عروس البلاد ممبئی سے زیادہ دور بھی نہیں ہے۔یہ بنیادی طورپر مزدوروں کا شہر ہے۔ پاورلوم یہاں کی انڈسٹری ہے اور ہر طرف بنکروں کا بسیرا ہے۔یہاں ترقی اور جدیدسہولتوں کی اس حدتک کمی ہے کہ سیور لائن بچھانے کا کام ابھی شروع ہواہے۔مالیگاؤں کی آبادی بارہ لاکھ کے قریب ہے اور اس میں 75 فیصد مسلمان ہیں۔گھنی آبادیوں پر مقیممسلم علاقوں کے لوگ قناعت پسندبہت ہیں۔ مالیگاؤں کو میناروں کو شہر بھی کہا جاتا ہے۔اگر آپ اس شہر کا فضائی سروے کریں تو آپ کو مینار ہی مینار نظر آئیں گے۔ہر گلی کوچے میں آپ کو کوئی مسجد یامدرسہ ضرور مل جائے گا۔مالیگاؤں میں کم وبیش 400مسجدیں ہیں۔ اس کے علاوہ چھ قبرستان اور سات عیدگاہیں ہیں۔ ایشیاء کا سب سے بڑا قبرستان بھی اسی شہر میں ہے۔اس کے ساتھ ہی یہاں بے شمار مدارس اور مکاتب ہیں جہاں طلباء اور طالبات کے لیے تعلیم کا علاحدہ نظم ہے۔ ادبی اورثقافتی پروگراموں میں بھی مردوخواتین کے بیٹھنے کا علاحدہ نظم ہوتاہے۔ ایک طرف جہاں خواتین برقعوں میں نظر آتی ہیں تو وہیں ہر مردکے سر پر ٹوپی ہوتی ہے اور وہ سراٹھاکر چلتا ہے۔ایسا ماحول آپ کو کسی اور شہر میں نظر نہیں آئے گا۔ اسے آپ ایک مثالی مسلم معاشرہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن صفائی ستھرائی کا فقدان ہے۔ سڑکوں پر تجاوزات نظرآتے ہیں۔ جمعہ کا دن چھٹی کا ہوتا ہے اور اس دن بیاہی بیٹیاں اپنے اپنے گھروں کو ضرور آتی ہیں۔
میں 31/ جنوری کو شرڈی کے راستے مالیگاؤں پہنچا۔ سائیں بابا کا شرڈی ایک مسلمان فقیر کی یادگار ہے۔ مندر کے نیچے سائیں بابا کی قبر ہے اوراوپر بابا کی مورتی۔بابا کے چاہنے والوں کا ایسا تانتا ہے کہ شرڈی کے چھوٹے سے ائیرپورٹ پر کئی فلائٹیں اترتی ہیں۔ ان میں بیشتر جنوبی ہند کے لوگ ہوتے ہیں۔شرڈی کا ایئر پورٹ سائیں بابا کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔ شرڈی میں داخل ہونے کے بعد مجھے سب سے پہلے یہاں کی مسجدوں کے میناروں نے اپنی طرف کھینچا۔ معلوم ہوا کہ چالیس ہزار کی اس چھوٹی سی بستی میں مسلمانوں کی تعداد اچھی خاصی ہے اور یہاں بھی اردو میڈیم اسکول ہیں۔ شرڈی سے مالیگاؤں تک ہماری رہبری عظمت اقبال نے کی جو یہاں کے ایک اردو میڈیم اسکول میں معلم ہونے کے ساتھ افسانہ نگار بھی ہیں۔میں معروف صحافی پنکج پچوری کے ساتھ شرڈی سے مالیگاؤں روانہ ہوا، مگر90کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں کچھ زیادہ ہی وقت لگا، وجہ تھی تنگ سڑک پر ٹرکوں کی بھرمار۔
کچھ کمر سیدھی کرنے کے بعد ہم شام کو اس وسیع وعریض مالیگاؤں ہائی اسکول پہنچے جہاں بیت بازی کا مقابلہ’سیل رواں‘ چل رہا تھا۔ اردو میڈیم اسکولوں کے ذہین طلباء اور طالبات اس میں حصہ لے رہے تھے۔ اس کے بعد کوئز کا پروگرام تھا۔ اردوزبان وادب اور تہذیب سے متعلق اتنی باتیں تھیں کہ انھیں پوری طرح ضابطہ تحریر میں لانا بھی مشکل ہے۔ ’رشک بہاراں‘ کے عنوان سے سجائے گئے اردو کے اس سہ روزہ جشن کا اہتمام’وائس آف اردو‘نے کیا تھا اور اسے مالیگاؤں کے اہم تعلیمی اداروں کی سرپرستی حاصل تھی۔’رشک بہاراں‘ میں ایک اہم پروگرام جدیدتعلیمی وسائل اور اردو میڈیم اسکولوں‘ پر مرکوز تھا جس میں مہاراشٹر کے اردو تعلیمی اداروں کے اساتذہ کومدعو کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے سیرحاصل گفتگو ہوئی اور شرکاء نے تعلیم کے بدلتے ہوئے منظرنامے پر اہم نکات پیش کئے۔
مجھے جس مذاکرے کے لیے مدعو کیا گیا تھا، اس کا عنوان تھا ”میڈیا کا بدلتا منظرنامہ اور اردو صحافت“۔پنکج پچوری مسند صدارت پر تھے۔ شرکاء میں روزنامہ ’سیاست‘(حیدرآباد)کے نیوزایڈیٹر عامر علی خاں، روزنامہ ’انقلاب‘(ممبئی)کے ایڈیٹر شاہد لطیف، روزنامہ ’ممبئی اردو نیوز‘ کے ایڈیٹر شکیل رشید، ماہنامہ ’گل بوٹے‘ (ممبئی)کے مدیر فاروق سیداور’ایشیاء ایکسپریس‘(اورنگ آباد)کے مدیر شارق نقشبندی شامل تھے۔ تقریباً دوگھنٹہ قومی ذرائع ابلا غ اور اردو صحافت پر بحث مباحثے کے بعد نچوڑ یہ نکلا کہ اردو صحافت آج بھی پوری جرات اور بے باکی کے ساتھ اپنے محور پر کھڑی ہوئی ہے تاہم اسے مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس دوران میزبان امتیازخلیل نے مالیگاؤں کی اردو صحافت کا مختصر جائزہ بھی پیش کیا۔
’رشک بہاراں‘ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں دوردراز کے شہروں سے لوگ کھنچے چلے آئے تھے اور یہ سب امتیاز خلیل اور ان کی ٹیم کی شبانہ روز محنت کا ثمر تھا۔ ممبئی سے فلم وادب کی برگزیدہ شخصیت جاوید صدیقی طویلسفر طے کرکے مالیگاؤں پہنچے تھے۔ انھوں نے نہایت کارآمد گفتگو کی۔’کہانیوں کے درمیان‘، ’اردو شاعری کی نئی لفظیات اور نئے رجحانات، جیسے اہم موضوعات پر شرکاء نے سیرحاصل گفتگو کی۔ سہ روزہ ’رشک بہاراں‘ کا اختتام مشاعرے پر ہوا۔اس پروگرام کے اہم شرکاء میں مولانا حذیفہ وستانوی، پروفیسرسید اقبال، قاسم امام، ندیم صدیقی، عزیزنبیل، حافظ کرناٹکی، پروفیسر شہپررسول، عبید اعظم اعظمی وغیرہ شامل تھے۔ اس قسم کے پروگرام جو واقعی اردو زبان اور اس کی تعلیم وتدریس کے نئے درکھولتے ہیں، دوسرے شہروں میں بھی ہونے چاہئیں۔
خاص کالم
پرنسپل ، سی ایم کالج،دربھنگہ،بہار
اپنا وطنِ عزیز دنیا کی سب بڑی جمہوریت ہے اور جمہوریت کی روح ہمارا آئین ہے ۔آج سے 76سال قبل جب ہمارے اکابرین نے آئین کے نفاذ کی تاریخ متعین کی تھی تو ان کے ذہن میں کہیں نہ کہیں جنگِ آزادی کی تاریخ بھی تھی اسی لئے ہمارا آئین تو نومبر 1949میں ہی مکمل ہو چکا تھا لیکن اس کے نفاذ کی تاریخ 26؍جنوری1950اس لئے متعین کی گئی کہ ہماری جنگِ آزادی میں اس تاریخ کو غیر معمولی اہمیت حاصل تھی ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ 26؍ جنوری 1930میں پہلی بار ترنگا لہرایا گیا تھا اور مکمل آزادی کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ اس لئے اس تاریخ کو یادگار بنانے کے لئے ہمارے آئین کا نفاذ 26؍ جنوری 1950کو ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے غلامی سے نجات پانے کے بعد زندگی کے مختلف شعبے میں ترقیاتی منازل طے کئے ہیں لیکن ایک تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ آئین کے تقاضوں کو ہم پورا کرنے میں کہیں نہ کہیں ناکام رہے ہیں ۔ انسانی وسائل کے معاملے میں دنیا کا یہ سب سے بڑا ملک ہے اور قدرت نے ہمارے ملک میں انسانی ترقیات کے وسائل بھی عطا کئے ہیں۔ کہیں ہیرے جواہرات کے کان ہیں توکہیںآبی ذخائر اور کہیں ریگستان ہے تو کہیں جنگلوں کا لا متناہی سلسلہ۔یہ تمام قدرتی عطیات انسان کی فلاح وبہبود کے وسیلے ہیں ۔ مگر افسوس کہ ہماری سیاست نے قدرتی عطیات کی تقسیم میں بھی علاقائی تعصب ، ذہنی تحفظات اور نسلی فرقہ واریت کا شیوہ اختیار کر رکھا ہے ۔ نتیجہ ہے کہ قدرتی عطیات میں بھی بد عنوانی اپنی انتہا پر ہے اور آئین نے جو ہر شہری کو جینے کے مساوی حقوق کا وعدہ کیا ہے اسے پامال کیا جا رہاہے ۔
واضح ہو کہ ہمارا ملک مذہبی، لسانی، ثقافتی،تہذیبی ہر اعتبار سے کثرت میں وحدت کا پیغام دیتا ہے۔ اس لئے ہمارا آئین تمام تر تعصبات سے اوپر اٹھ کر ہر ایک شہری کے مفاد میں کام کرنے کی تلقین کرتا ہے ۔ ہمارے وزراء اور ممبران اسمبلی وپارلیامنٹ اپنی رکنیت کی بحالی اور عہدہ پر فائز ہونے سے پہلے یہ حلف لیتے ہیں کہ ہم بھارت کے شہری اپنی جمہوریت میں مکمل یقین رکھتے ہیں اور اپنے ملک کے آئینی تقاضوں کو پورا کریں گے۔ آزادانہ اور غیر متعصبانہ عمل کے ذریعہ ہر شہری کے ساتھ منصفانہ رویہ اپنائیں گے ۔ مذہب ، ذات ، جماعت اور زبان کسی طرح کے تحفظات سے پاک رہیں گے لیکن عملی صورت کیاہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ ہمارے وزراء ایک مذہب کے خلاف نفرت انگیز تقریریں کرتے ہیں تو دوسرے مذہب کو نشانہ بناتے ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی کے گراف دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک رپورٹ نے یہ حقیقت عیاں کی ہے کہ ہمارے 26فی صد نومولود بچے عدم تغذیہ کے شکار ہیں اور 50فی صد خواتین تغذیہ کی کمی کی وجہ سے انیمیا کی شکار ہیں۔جب کہ عالمی اقتصادی ریکارڈ یہ دکھاتا ہے کہ ملک کی آدھی ملکیت صرف بارہ صنعتی گھرانوں کے پاس ہے ۔ ایک شخص ایسا ہے جس کی آمدنی میں روزانہ دو ہزار فی صد کا اضافہ ہو رہاہے تو دوسری طرف ملک کی 35فی صد آبادی کی روزانہ آمدنی دنوں دن کم ہو رہی ہے ، یعنی وہ فاقہ کشی کے شکار ہو رہے ہیں۔
ہمارا آئین ہر شہری کو یہ آزادی بخشتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق پوشاک اور اپنی روز مرہ زندگی میں خوردونوش اختیار کرے۔ہر ایک شہری کو اپنے فکر ونظر کی آزادی ہوگی ۔ہر شہری اپنی تہذیب وتمدن کے تحفظ کے لئے آزاد ہوگا لیکن عصرِ حاضر میں ان تمام تقاضوں کو نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ قصداً اس کی پامالی کی جا رہی ہے۔ ہمارے ملک میں اظہارِ خیال کی آزادی کو ایک خاص طبقہ کس طرح نشانہ بنا رہاہے ۔ چند برس قبل انگریزی کی عالمی شہرت یافتہ ادیبہ نین تارا سہگل کو ایک گروپ نے مہاراشٹر کے ساہتیہ سمیلن میں اس لئے شامل نہیں ہونے دیا کہ وہ ملک کے موجودہ حالات پر تبصرہ کرنے والی تھیں۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ یومِ جمہوریہ کا جشن ہم اس لئے مناتے ہیں کہ اس کے تقاضوں کو نہ صرف پورا کریں گے بلکہ استحکام بھی بخشیں گے ۔ ہم اپنے آئین کے تمام تقاضوں کی پاسداری کریں گے کہ اسی میں ملک کے تمام شہری کے خوابوں کی تعبیر پوشیدہ ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے ترقیاتی منازل طے کئے ہیں ، خلاء میں ہماری آواز ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ گونجی ہے تو سمندر کی تہوں تک ہم نے اپنے ’’وکرانت‘‘ اتارے ہیں ۔ درجنوں سٹلائٹ کے ذریعہ سائنس او رٹکنالوجی کے شعبے میں پوری دنیا کو اپنی طاقت کااحساس کرایا ہے۔چاند پر اتر کر ہم اپنے ملک کے یقیں محکم اور عمل پیہم کا پرچم لہرایا ہے اور سورج پر کمند ڈالنے والے ہیں۔ لیکن ایک ٹھوس سچائی یہ بھی ہے کہ انسانی زندگی کی سہولیات فراہم کرنے میں ہم اب بھی دنیا کے پسماندہ ملکوں کی قطار میں کھڑے ہیں۔ہم اپنی آزادی کے اتنے دنوں بعدبھی اپنے تمام شہری کو پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کرا پائے ہیں اور آج بھی ناخواندگی کا بد نما داغ ہمارے لئے باعثِ ندامت ہے۔ سماجی برائیوں پر قابو پانے میں ناکام ہیں تو مذہبی فرقہ پرستی اور نسلی امتیازات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں ۔ امن شانتی کا یہ گہوارہ نفرت کے مسکن میں تبدیل ہو رہاہے ۔ بے روزگاری نے ہمارے نوجوانوں کے ذہن وفکر کو مفلوج کر رکھا ہے ۔ کیا ہمارے اکابرین نے آئین کی تفصیل اور پھر اس کے نفاذ کا مقصد یہی سوچا تھا ؟اگر نہیں تو پھر ہم سب اس پر عمل پیرا کیوں نہیں ہیں ؟ہم جانتے ہیں کہ اس کا جواب کوئی بھی شخص نفی میں نہیں دے سکتا۔ لیکن کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں ہے کہ ہم اپنے آئینی تقاضوں کی پاسداری میں ناکام رہے ہیں؟۔ہماری موجودہ حکومت تقریباً 80کروڑ افراد کو مفت راشن دے کر ایک جمہوری فرائض کو انجام دے رہی ہے لیکن آخر کب تک؟اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔جہاں تک اقلیت طبقے کا سوال ہے تو اس طبقے کو بھی اپنے ذہن ودل میں جمہوری تقاضوں کے جو اسباق ہیں اس کو محفوظ کرلینا چاہئے اور اسی کی روشنی میں اپنے عملی اقدام اٹھانے چاہئیں کیوں کہ صرف ہم اپنے حقوق کے مطالبے کرتے رہیں گے اور اپنے فرائض سے غافل ہوں گے تو ہماری آواز ہمیشہ صدا بہ صحرا ثابت ہوتی رہے گی ۔ صرف اور صرف اپنی پستی کے لئے کسی حکومت کو موردِ الزام ٹھہرا کر اپنا دامن نہیں بچا سکتے۔ اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں اور اس تلخ حقیقت سے ہم سب واقف ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کوئی منصوبہ بند نظام قائم نہیں ہے۔ سماجی ، معاشرتی ، تعلیمی اور سیاسی شعبے میں بھی ہماری پستی اگر ہے تو صرف اور صرف اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم نے جمہوری تقاضوں کو مدنظررکھ کر کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار نہیں کیا ہے اور اب تک صرف جذباتی اور اشتعال انگیزی کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے ۔ نتیجہ ہے کہ چہار طرف ہمارے لئے مایوسیوں کا سامان دکھائی دیتا ہے ورنہ مذکورہ شعبوں کے لئے اگر کوئی منصوبہ بند طریقہ کار ہم نے اپنا لیا ہوتا تو شاید آج ہمارے معاشرے کی جس طرح کی تصویر ہے وہ نہیں ہوتی اور نہ ہم اپنی تقدیر کو کوستے رہتے۔
مختصر یہ کہ ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور کسی بھی جمہوری ملک کا آئین اس ملک کی اگر روح ہے تو اس کے ہر ایک شہری کے دلوں کی دھڑکن بھی ہے ۔ اگر ہم سب صدق دل سے اس حقیقت کا اعتراف کرلیں تو شاید دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت سے کسی کو شکایت نہیں ہوگی۔ آئیے ہم سب اپنے آئینی حقوق کے ساتھ ساتھ آئینی فرائض کو انجام دینے کا بھی عہد لیں کہ ہمارے اسی عمل سے ملک کی تصویر وتقدیر بدلنے والی ہے اور ہمارے اکابرین نے جس مقصد سے اس ملک کو آزاد کرانے کے ساتھ ساتھ ایک مثالی آئین دیا اس کی پاسداری ہو سکے اور پوری دنیا میں ہماری شناخت مستحکم ہو سکے۔
اجتماعی امن و ہم آہنگی کے قیام میں دینی اداروں کا رول -محمد رضی الاسلام ندوی
اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) نئی دہلی کے زیر اہتمام 24 ، 25 دسمبر 2024 میں اس کے کانفرنس ہال میں دو روزہ سمینار کا انعقاد ہوا – اس کے کنوینر ڈاکٹر صفدر زبیر ندوی کی دعوت پر مجھے اس میں شرکت کرنے کا موقع ملا –
افتتاحی اجلاس مولانا انیس الرحمٰن قاسمی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل و سابق ناظم امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کی صدارت میں منعقد ہوا – پروفیسر محسن عثمانی ، سابق صدر شعبۂ عربی ، ایفلو ، حیدرآباد ، مولانا محمد مزّمّل الحق حسینی ، کارگزار ناظم عمومی تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبند اور ڈاکٹر محمد نعمت اللہ ندوی ، مرکز الدعوۃ والإرشاد ، ابو ظبی ، متحدہ عرب امارات مہمان خصوصی تھے – اس اجلاس میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مؤقر استاد ڈاکٹر محمد علی شفیق ندوی اور مولانا آفتاب عالم ندوی بانی جامعہ ام سلمہ دھنباد بھی شریک تھے ۔ اکیڈمی کے رکن مفتی احمد نادر قاسمی نے نظامت کی – انھوں نے کہا کہ یہ موضوع اس لائق ہے کہ اس پر بڑے پیمانے کا سمینار منعقد کیا جائے ، جس میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کی کثیر تعداد موجود ہو –
ڈاکٹر صفدر زبیر ندوی نے استقبالیہ کلمات میں اکیڈمی کی خدمات کا تفصیل سے ذکر کیا – پروفیسر محسن عثمانی ندوی نے اپنے خطاب میں ’لسان قوم‘ کی اہمیت پر روشنی ڈالی ، انہوں نے فرمایا کہ اصل پیغمبرانہ مشن غیرمسلموں تک دین کی دعوت پہنچانا ہے – ہندوستان کے پس منظر میں ہندی ، انگریزی اور دیگر مقامی زبانیں ، خاص کر سنسکرت لسان قوم کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ علماء کرام کو یہ زبانیں سیکھنی چاہییں ، تاکہ وہ اسلام کی دعوت ان زبانوں میں پیش کرسکیں – ڈاکٹر محمد نعمت اللہ نے ءہ نکتہ بیان کیا کہ انسانوں کو شعوب و قبائل میں تقسیم کرنے کا مقصد قرآن مجید میں ’تعارف‘ بتایا گیا ہے – اس کا مطلب صرف جان پہچان نہیں ہے ، بلکہ اس میں ساتھ میں گزربسر کرنا اور امن و محبت کے ساتھ زندگی گزارنا بھی شامل ہے ۔ مولانا انیس الرحمٰن قاسمی نے صدارتی خطبے میں ارشاد فرمایا کہ ہندوستان امن و شانتی اور بھائی چارے کا دیس ہے – یہاں ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی اور دوسرے دھرموں کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں ۔ دینی مدارس اور تنظیموں کو چاہیے کہ ملک میں امن و امان اور بھائی چارہ کو باقی رکھنے اور اسے بڑھانے کی کوشش کرتے رہیں ۔
مقالات کی تین نشستیں منعقد ہوئیں ، جن میں 20 سے زائد مقالات پیش کیے گئے – ایک نشست کی صدارت راقم سطور کو تفویض کی گئی – میں نے ‘مسالک کے درمیان راہِ اعتدال اور دینی ادارے’ کے عنوان پر مقالہ بھی لکھا تھا – اختتامی نشست میں تمام مقالہ نگاروں کو سند شرکت تفویض کی گئی –
20 دسمبر 2024 آج لندن میں منعقد ہونے والے ادبی پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا، جہاں متعدد ادبی اور شعری شخصیات سے ملاقات ہوئی۔ ان میں ایک شخصیت ایسی بھی تھیں جنہوں نے اپنی فکری گہرائی اور شائستگی سے مجھے بے حد متاثر کیا۔ یہ تھے سلیم شیرازی، جو نہ صرف ایک معروف شاعر ہیں بلکہ صحافت کی دنیا میں بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں ایک خاص اپنائیت تھی، اور ان کے خیالات میں ایک فلسفیانہ بصیرت تھی جو کسی بھی سامع کو اپنی گرفت میں لے لیتی تھی۔
سلیم شیرازی دہلی کے ان نمایاں ادبی شخصیتوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے کئی شاگردوں کی رہنمائی کی ہے، جو آج اردو صحافت میں اہم ستنوں کا کردارادا کر رہے ہیں۔ ان کی تربیت یافتہ شخصیات صحافتی دنیا میں نہایت کامیابی سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے یہ طے کرنا مشکل ہے کہ انہیں استاد شاعر کے طور پر زیادہ سراہا جائے یا ایک ممتاز صحافی کے طور پر۔ ان کا اثر دونوں شعبوں میں اتنا گہرا ہے کہ ان کی شخصیت ان دونوں میدانوں میں تحریک اور استحکام کا ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔
ان کے زبان و بیان کے منفرد انداز کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ وہ دہلی اور لکھنو دونوں تہذیبوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ لکھنوی ثقافت سے جڑنے کے باوجود، انہوں نے دہلی کے ماحول میں ایسے رچ بس کر اپنی تحریروں کو ایک نئی شناخت دی ہے۔ یہ کہنا شاید زیادہ مناسب ہوگا کہ ان کی شخصیت ان دونوں تہذیبوں کا بہترین امتزاج ہے، جس کی جھلک ان کی تحریروں میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔
ان کی شاعری انسانی جذبات اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کی گہری عکاسی کرتی ہے۔ ان کے اشعار قاری کو نہ صرف متاثر کرتے ہیں بلکہ اس کی روح کو بھی چھو لیتے ہیں۔ ان کی نظموں اور غزلوں میں جذبات کی شدت اور خیالات کی گہرائی نمایاں ہے، جو قاری کو اپنی زندگی کے تجربات سے جوڑ دیتی ہے۔ ان کی شاعری میں ایک سادہ مگر گہرا فلسفہ پوشیدہ ہے، جو ہر پڑھنے والے کو غور و فکر پر آمادہ کرتا ہے۔
سلیم شیرازی کا صحافتی سفر ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی تحریریں ہمیشہ حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں، اور وہ معاشرتی مسائل کو نہایت بے باکی سے اجاگر کرتے ہیں۔ ان کے مضامین انسانی حقوق، سماجی نابرابری، اور آزادی اظہار جیسے موضوعات پر روشنی ڈالتے ہیں، جنہیں وہ سچائی کے ساتھ پیش کرتے ہیں، چاہے ان میں کتنی ہی تلخی کیوں نہ ہو۔ ان کی سب سے متاثر کن بات یہ تھی کہ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ خود کو آج بھی ایک طالب علم سمجھتے ہیں اور ہمیشہ سیکھنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔
یہ ملاقات میرے لیے نہایت قیمتی ثابت ہوئی۔ ان کی شاعری، صحافت، اور شخصیت نے مجھے گہرائی سے متاثر کیا اور یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ الفاظ کے ذریعے دنیا کو کس طرح بدلا جا سکتا ہے۔ ان کی باتوں نے مجھے زندگی کے ہر لمحے میں کچھ نیا سیکھنے اور اپنی صلاحیتوں کو مزید بہتر کرنے کی تحریک دی۔ ان کا یہ قول ہمیشہ میرے ذہن میں رہے گا: "تحریر ایک امانت ہے، اسے ہمیشہ حق اور سچ کے لیے استعمال کریں۔
بزم اردو لندن کی تقریب میں انہوں نے اپنے مبارک ہاتھوں سے میری تخلیقات ’پس دیوار‘ (افسانوی مجموعہ) کا پر خلوص اجرا کا اہتمام بھی کیا ۔
1920ء کے بعد مدراس (چنئی) میں ایک امریکن عیسائی کی کوششوں سے مدراس یونیورسٹی کے طلباء کے سامنے فاضل عیسائی مقرر رین حضرتِ عیسیٰ کی سوانح پر اور مسیحی مذہب کے متعلق لیکچرس دیا کرتے تھے جو ہر سال باقاعدگی کے ساتھ منعقد کیے جاتے رہے اور جنہیں دلچسپی کے ساتھ سنا جاتا رہا۔ یہ دیکھ کر تعلیمی میدان میں سرگرم چند مخلص حضرات کے دلوں میں یہ بات آئی کہ یہاں کے انگریزی مدارس کے مسلمان طالب علموں کے لیے بھی مسلمانوں کی طرف سے اسی قسم کی کوشش کی جائے یعنی کسی مسلمان فاضل مقرر کو مدعو کیا جائے جو اسلام اور پیغمبرِ اسلام پر انگریزی میں اثر انداز لیکچرس دے۔ اِن لیکچرس کو عملی جاما پہنانے کے لیے جمال محمد صاحب نے مدراس مسلم اسوسی ایشن کو متحرک کیا اور اس کی طرف سے یہ طے کیا گیا کہ ہر سال کسی فاضل مقرر کو مدراس مدعو کیا جائے اور خطباتِ اسلامیہ مدراس (مدراس لیکچرس آن اسلام) کے نام سے لیکچرس منعقد کیے جائیں۔
اس سلسلے کا آغاز علامہ سلیمان ندوی صاحب کے لیکچرس سے ہوا۔ آپ نے مدراس کے "لالی ہال” میں اکتوبر 1925ء کے پہلے ہفتہ سے نومبر 1925ء کے اخیر ہفتہ تک آٹھ لیکچرس دیے جس میں سیرت النبیﷺ کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا۔آپ نے یہ لیکچرس اردو میں دیے جس کا سیٹھ حمید حسن صاحب نے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ 1926ء میں یہ لیکچرس کتاب کی شکل میں شائع ہوئے جسے "خطباتِ مدراس” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ لیکچرس عموماً ہفتہ کی شام کو منعقد ہوا کرتے تھے۔ مدراس کے اردو اخبارات کے علاوہ انگریزی اخبارات مثلاً "ہندو” اور "ڈیلی ایکپسرس” میں بھی ہر ہفتہ ان لیکچرس کا خلاصہ شائع ہوا کرتا تھا۔
اگلے سال یعنی 1927ء کے جنوری میں محمد مارماڈیوک پکتھال کو مدعو کیا گیا جنہوں نے بعد میں قرآنِ مجید کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا۔ پکتھال نے اسلامی تہذیب پر آٹھ لیکچرس دیے جسے “The Cultural Side of Islam” کے نام سے شائع کیا گیا۔
اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے 1929ء کے آخر میں جمال محمد صاحب نے علامہ اقبال کو مدعو کیا۔ علامہ اقبال 5 جنوری 1929ء ہفتہ کے دن صبح کے ساڑھے سات بجے بمبئی میل کے ذریعہ مدراس کے سنٹرل اسٹیشن پہنچے۔ مدراس میں آپ چار دن رہے۔ مدراس کے آرمینیئن اسٹریٹ میں واقع گوکھالے ہال (Gokhale Hall)میں آپ نے انگریزی میں تین لیکچرس دیے ۔ لیکچرس کی تفصیلات حسبِ ذیل ہیں۔
5 جنوری – Knowledge and Religious Experience
6 جنوری – The Philosophical Test of the Revelations of Religious Experience
8 جنوری – The Conception of God and the Meaning of Prayer
ان مجالس کی صدارت پی۔ سبّاراین نے کی جو مدراس پریسیڈینسی کے پہلے منسٹر رہ چکے ہیں۔ یہ لیکچرس شام کے سوا چھ بجے سے خصوصاً یونیورسٹی کے طلباء کے لیے منعقد کیے گئے جس میں انڈر گریجویٹس، گریجویٹس اور پوسٹ گریجویٹس شامل تھے ۔ اس کے علاوہ مذہب کے فلسفیانہ پہلو پر دلچسپی رکھنے والےحضرات کے لیے بھی یہ لیکچرس مفید ثابت ہوئے۔ غیر مسلم طلباء کے لیے بھی ان لیکچرس میں شامل ہونے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
ان تین لیکچرس کے علاوہ تین اور لیکچرس جو آپ نے حیدرآباد اور علی گڑھ میں دیے تھے اسے مرتب کرکے 1930ء میں ایک کتاب کی شکل میں شائع کیا گیا جس کا عنوان تھا “Six Lectures on the Reconstruction of Religious Thought in Islam”۔ 1933ء میں اس کتاب میں ایک اور لیکچر جسے آپ نے لندن میں دیا تھا شامل کرلیا گیا اور اس کتاب کے نام سے Six Lectures کو نکال دیا گیا۔تقریباً پچیس سال کے بعد 1956ء میں اس کتاب کو سید نذیر نیازی صاحب نے اردو میں ترجمہ کرکے "تشکیلِ جدید الٰہیات اسلامیہ” کے نام سے شائع کیا۔
7 جنوری کو انجمنِ ترقی اردو مدراس کی طرف سے "دعوتِ اقبال” کے نام سے ایک مجلس منعقد کی گئی جس میں مہمانوں کے لیے ضیافت کا بھی انتظام کیا گیا۔ اس نشست میں علامہ اقبال کے علاوہ سید ابوظفر صاحب ندوی، عبدالحمید حسن صاحب، مولوی محمد عبداللہ صاحب چغتائی لاہوری، حکیم سید مخدوم اشرف صاحب، حکیم محمد سعید صاحب چودہر نے بھی خطاب فرمایا۔یہ مجلس "لالی ہال” میں منعقد ہوئی۔
8 جنوری کی رات کو آپ نے مدراس سے بنگلور کا سفر کیا اور 9 جنوری کی صبح کو سوا چھ بجے کنٹون منٹ ریلوے اسٹیشن پر آپ کا استقبال کیا گیا۔ صبح کے دس بجے بمقام گلوب آپرا ہوز، بریگیڈ روڈ میں مرزا محمد اسمٰعیل سیٹھ صاحب کی صدارت میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں آپ کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کیا گیا۔ اسی شام کو 6 بجے بمقام گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج بنگلورسٹی میں ڈاکٹر سبرائن وزیرِ تعلیم میسور کی زیر صدارت میں ایک اور جلسے میں آپ نے لکچر دیا ۔ بنگلور میں آپ نے مسلم لائبریری کا بھی معائنہ کیا۔
امت کے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے ذیل میں درج پیغام دیا جو ایک پیمفلٹ بعنوان “Message of Iqbal”کی شکل میں آج بھی محفوظ ہے:
"مسلمان نوجوانو! اس آزمائش کی گھڑی میں آج اسلام کو آپ کی ضرورت ہے۔ دنیا کی قومیں پہلے ہی سے اپنے نقطۂ نظر کو تنگ کرچکی ہیں۔ یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ اس موقع پر اٹھیں اور عالمگیر بھائی چارگی کے پرچم کو بلند کریں۔ اسلام نسلی امتیاز اور جغرافیائی حدود کو تسلیم نہیں کرتا۔ یہ اُن حدود سے بالاتر ہے۔ اسلام کے اس پیغام کو جدید دنیا کی متحارب قوموں تک دوبارہ پہنچایا جائے”۔
بنگلور سے 10 جنوری کو میسور اور 14 جنوری کو میسور سے حیدرآباد گئے۔ دونوں جگہ پر آپ کا عظیم الشان استقبال کیا گیا اور آپ کے لیکچرس کے لئے جلسے منعقد کیے گئے۔ دورانِ قیام میسور آپ نے شیرِ میسور حضرت ٹیپو سلطان کی مزار پر بھی حاضری دی۔
سنا ہے دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ ابھی بھی اپنی صد سالہ جشن منا رہی ہے۔ اس سیریز کے تحت یونیورسٹی میں متعدد پروگراموں کا انعقاد ہو رہا ہے۔ مجھے پوچھنا تھا کیا اس کے بانی محمد علی جوہر پر بھی کچھ ہو رہا ہے۔ یقینا جواب نفی میں ہوگا۔ محمد علی جوہر ایسی شخصیت ہی تھے کہ غیر کیا اسے تو اپنے بھی بھلا بیٹھے۔ بہرحال، جامعہ کے یوم تاسیس کے موقع پر میں اپنی تحریر محمد علی جوہر کی نذر کرتا ہوں۔
کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں، جن کا نقش آپ کے ذہن پر کندہ ہوجاتا ہے اور پھر وہ مٹائے نہیں مٹتا۔ اُنھی میں سے ایک مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے مولانا محمد علی جوہر کے بارے میں پہلی مرتبہ کب اور کیا سنا؟ لیکن ان کے بارے میں اتنا زیادہ سنا اور پڑھا کہ ان کی شخصیت کا ایک ہیولا سا میرے ذہن میں بن گیا۔ شیروانی، مخملی دوپلی ٹوپی اور گاندھی نما گول شیشے والی عینک زیب تن کیے ہوئے، ایک با رُعب شخصیت، جو انتہائی مختصر مدت میں بہت سے کام انجام دے کر، اس دُنیا سے رُخصت ہوگئے۔
جب میں عقل و شعور کی منزلیں طے کرتے ہوئے، کچھ بڑا ہوا اور مولانا کے بارے میں مزید جاننے اور پڑھنے کا موقع ملا، تو ان کا اسیر ہو کے رہ گیا؛ ملت کے اس عاشق کے بے لوث عشق اور دیوانے پن نے مجھے اپنا مرید بنالیا۔ ان سے اس محبت اور شیفتگی کا نتیجہ تھا، کہ مولانا کے بارے میں جو کچھ بھی ملا پڑھ ڈالا۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں عربی کے ابتدائی درجات میں تھا، تبھی ’ہمدرد‘ (مولانا محمد علی جوہر ) اور ’زمیندار‘ (مولانا ظفر علی خان) کی فائلیں چاٹ ڈالیں۔
میں اسے اپنی خوش قسمتی سے تعبیر کرتا ہوں کہ مجھے مولانا علی جوہر کے معہد یعنی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں علمی پیاس بجھانے کا موقع ملا۔ یہاں ان کے بارے میں جاننے اور پڑھنے کا خوب مواقع ہاتھ آئے۔ حالیہ دنوں میں مولانا محمدعلی جوہر بہت یاد آئے؛ جوہر کے یاد آنے کی کئی وجوہ ہیں۔ ان میں سے ایک تو یہ کہ محمد علی جوہر آکسفورڈ کے پروردہ تھے، اور ان کو پڑھنے کے بعد ہمیشہ میرے یہ دل میں رہا کہ میں بھی آکسفورڈ سے پڑھوں گا۔ حالانکہ میں آکسفورڈ میں داخلہ نہیں لے سکا، مگر اللہ کا شکر ہے کہ مجھے برطانیہ کی بہترین دانش گاہوں میں سے ایک ، سوانسی یونیورسٹی سے فیضیاب ہونے کا موقع مل گیا۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ جامعہ کی بنیاد کا سال، 1920، وہی سال ہے جب سوانسی یونیورسٹی قائم ہوئی، اور یہ یونیورسٹی بھی اس وقت اپنی صدی تقریبات کے سلسلے میں مختلف پروگرام منعقد کر رہی ہے۔
ہمارے دوست افروز عالم ساحل نے اپنے ایک مضمون میں جامعہ کے قیام اور محمد علی جوہر کی تاریخ کا ایک مختصر خاکہ کچھ یوں پیش کیا ہے:
یہ بات سال 1919 کی ہے۔ انگریزوں نے ترکی پر جارحیت کا مظاہرہ شروع کردیا تھا۔ ترکی کے خلاف یہ کارروائیاں مسلمانان ہند (تب موجودہ پاکستان بھی ہندوستان ہی تھا) کو پریشان کرکے رکھ دیا۔ لوگوں کے دل و دماغ غصے سے بھر گئے۔ ہر فرد یہ سوچنے لگا کہ ترکوں کے خلاف برطانیہ نے نہایت نا انصافی کی ہے۔ نتیجے میں یہاں احتجاجی جلسوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ لکھنؤ کی ’آل انڈیا مسلم کانفرنس‘ میں ’خلافت کمیٹی‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ ادھر محمد علی جوہر نے وائسرائے ہند مسٹر چیمسفورڈ کو 24 اپریل 1919 کو ایک طویل خط لکھ کر آگاہ کیا کہ خلافت کے معاملے میں دست درازی نہ کی جائے اور مقبوضہ علاقے ترکوں کو واپس کر دیے جائیں۔ اس کے ساتھ ہی یہاں ’تحریک خلافت‘ کا دور شروع ہوا۔
علی برادران (مولانا محمد علی اور شوکت علی) گاندھی جی کے ساتھ ملک کے دورے پر نکل پڑے۔ وہ لوگوں سے برطانوی حکومت کے ساتھ عدم تعاون کی اپیل کر رہے تھے۔ ستمبر 1920 میں کلکتہ کانگریس کے خصوصی اجلاس میں گاندھی جی نے یہ تحریک پیش کی کہ ترکی کے زیادتی کی مخالفت اور ملک کی آزادی کے لیے سرکاری تعلیم کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ اپنی مہم کے تحت علی برادران، سوامی ستیہ دیو اور گاندھی جی 11 اکتوبر علی گڑھ پہنچے۔ 12 اکتوبر کو علی گڑھ کے یونین ہال میں ان کی تقریریں ہوئیں اور ’’مسلم نیشنل یونیورسٹی‘‘ کھولے جانے کا خواب پروان چڑھا۔
29 اکتوبر 1920 کو علی گڑھ مسجد میں شیخ الہند مولانا محمود حسن کی تقریر کے ساتھ ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے افتتاح کا اعلان کیا گیا۔ اور اسی وقت شیخ الہند کے ہاتھوں رسم تاسیس ادا ہوئی۔ آج اسی یونیورسٹی کو دنیا ’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘ کے نام سے جانتی ہے اور یہی جامعہ آج اپنی عمر 104 سال مکمل کر چکا ہے۔
محمد علی جوہر کی یاد رکھنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی خبروں میں یروشلم اور القدس توجہ کا مرکز ہے؛ یہی یروشلم اور القدس ہے جہاں مولانا دفن ہیں، اور پچھلے ایک سال سے، یہ زمین خاک و خون میں لپٹی ہے۔
مولانا عبدالماجد دریابادی اپنی کتاب "محمد علی: کچھ صفحات ایک ذاتی ڈائری سے” میں اس مرد مجاہد کے آخری وقت کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”آخری سفر دیکھنے میں لندن کا سفر تھا، گول میز کانفرنس کے لیے؛ اور حقیقت میں سفر آخرت۔ بد بینوں نے کہا کہ اب اس خاک ستر کے ڈھیر میں ہے کیا؟ لیکن جب بولنے کھڑے ہوئے تو انگریز اور ہندی سب پکار اٹھے کہ یہ گوشت پوست کا بنا ہوا آدمی ہے، یا ایک متحرک کوہ آتش فشاں! فاش و برملا کہا (جیسے مستقبل کو دیکھ ہی رہے تھے) کہ ’آزادی لینے آیا ہوں، یا تو آزادی لے کر جاوں گا یا اپنی جان اسی سرزمین پر دے کر‘۔ جنوری 1931ء کی چوتھی تاریخ اور شعبان 1350 ہجری کی پندرہویں شب میں، عین اس وقت جب روئے زمین کے مسلمان اپنے پروردگار سے رزق کی، صحت کی، اقبال کی، زندگی کی، مغفرت کی نعمتیں مانگ رہے تھے، مشیت الٰہی نے یہ نعمت عظمیٰ دنیائے اسلام سے واپس لے لی- (ص-592)“۔
ہندوستانی محمد علی جوہر کو تحریک خلافت کے ایک عظیم قائد کے طور پر جانتے ہیں، گرچہ ہم خلافت کو بچانے میں کامیاب نہ ہو سکے، جس کا صدمہ مولانا محمدعلی جوہر سمیت پورے ہندوستانیوں کو رہا۔ مگر بچانے کی ایک کوشش کا سہرا محمد علی جوہر کو ضرور جاتا ہے۔ جس کا اعتراف ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے بھی کیا ، یہی وجہ ہے کہ 2017 میں جب اردوان ہندوستان آئے تو انھوں نے اس کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔ اس موقع پر محمد علی جوہر کے جامعہ نے اس مناسبت سے یکم مئی 2017ء کو ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کو اعزازی ڈگری سے نوازا۔ جہاں طیب اردوان نے جامعہ، خلافت تحریک اور آزادی کا ذکر کرتے ہوئے، مولانا محمد علی جوہر کو یاد کیا۔
امروز؛ فی الواقع ’احسان فراموشی‘ کا دور ہے؛ لہٰذا آج کی نسل اپنے محسنوں کو فراموش کرتی جا رہی ہے؛ تو ہم نہ اس سے حیران ہیں نہ پریشان۔ اصول پسند احباب کہتے ہیں، کہ ’ضرورت اس بات کی تھی کہ ہم اسلاف کے کارناموں کو یاد کرتے اور انھیں اپنا قومی اثاثہ تصور کرتے ہوئے ان کی خدمات کے اعتراف کویقینی سمجھتے‘۔ لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’قوم پرستی‘ کا جذبہ، جب ’بیمار‘ اور ’تنگ نظر‘ ہوجاتا ہے، تو ملک کا سربراہ بھی دیار غیرمیں، ایک مجاہد آزادی کو بھول جاتا ہے ۔ یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا غیر ضروری نہ ہوگا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اسرائیل کی دعوت پر 4 تا 6 جولائی 2017ء، وہاں کا دورہ کیا تھا، لیکن انھیں اس بات کی توفیق نہیں ہوئی، کہ وہ وہاں ہوتے ہوئے، ہندوستان کے اس عظیم اور جلیل القدر مجاہد آزادی کے مقبرے پر بھی عقیدت کے چند پھول نچھاور کر آتے۔
بد قسمتی سے ہم مسلمانان ہند بھی اس موقع پر، نا تو کوئی کمپین چلاسکے اور نا ہی وزارت خارجہ یا ہندوستانی سفارت کاروں کو اس بات کی توفیق ہوئی، کہ وہ مولانا محمد علی جوہر کو موقع کی مناسبت سے یاد کرلیتے۔ وزیر اعظم خود نہ سہی، کسی وزیر یا ایلچی کے ذریعے گل پوشی کی رسم ادا کروائی ہوتی تو یہ بات یقیناً ایک سو بیس کروڑ ہندوستانیوں کے دلوں کوخوش کرنے کا باعث بن جاتی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ جب اقتدار کا نشہ سر چڑھ جاتا ہے اور عصبیت و خود غرضی کسی کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے، تو پھردیش بھکتی اور راشٹر واد بھی مخصوص نظریہ اور جامہ پہن لیتا ہے،اور جس قوم کا سربراہ ہی ’غریب الوطن مجاہد‘ کو فراموش کردے، اُس قوم سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے محسن کو یاد رکھے گی!
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
جامعہ ملیہ اسلامیہ آج اپنے قیام کی 104 ویں سالگر ہ منا رہی ہے ۔ آج ہی کے دن 29 اکتوبر 1920 ء کو جب علی گڑھ کی جامع مسجد میں جامعہ کی علامتی سنگ بنیاد رکھی جارہی تھی تو اس وقت بہت کم لوگوں کو یہ یقین تھا کہ جامعہ اپنے قیا م کے سو دن بھی مکمل کر پائے گی۔ لیکن جامعہ کا قیام تو جیسے کسی آسمانی منصوبے کا حصہ تھا۔تاریخ کے ہر نازک مرحلے پرجب ایسا محسوس ہوتا کہ بس اب جامعہ کی بساط لپیٹی جانے والی ہے تو غیب سے کوئی مدد آجاتی اور جامعہ کو سنبھالا مل جاتا۔ ان تمام مراحل پر بانیاِن ِجامعہ اور اس کے ہمدردان و بہی خواہان نے ایثار وقربانی کی جو مثالیں پیش کیں اور جس حوصلے اور ثابت قدمی کا مظاہر ہ کیا، تاریخ ایسی کوئی دوسری نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔
جامعہ کا قیام ملک کے دیگر تعلیمی اداروں کی طرح منصوبہ بند طریقے سے کسی تعلیمی ادارے کے قیام کے مہم کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کے قیام کے سیاسی اور اصولی محرکات تھے جو علی گڑھ کالج کے سیاسی اور نظریاتی موقف سے اختلاف کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے ۔ جامعہ تحریک کا سب سے خوبصورت اور اُمید افزا پیغام یہ تھا کہ اختلاف رائے اور روایت شکنی سے نئی مثبت راہیں نکالی جاسکتی ہیں اور اس کے خوشگوار نتائج بھی برآمد ہوسکتے ہیں ۔
یہ انفرادیت بھی محض جامعہ کو ہی حاصل اس کے قیام کے لیے دو یکسر مختلف الخیال اور متضاد نظریات کی حامل فکر گاندھی جی کی ایما ء پر متحد ہوگئی تھیں۔ ایک طرف سامراج مخالف اسلامی قوتیں تھیں جو خلافت تحریک کی قیادت کررہی تھیں تو دوسری جانب مغربی تعلیم یافتہ سیکولر دانشوروں کا وہ طبقہ تھا جو تحریک عدم تعاون کی نمائندگی کرتا تھا۔ ایک نے مسجداور مدرسوں کی چٹائیوں پر ذانوئے تلمذ تہہ کیا تھا تو دوسرے نے مغرب کے جدیدآعلیٰ تعلیمی اداروں سے فراغت حاصل کی تھی۔ اسلامی فکر اور سیکولر نظریات کا اتناحسین امتزاج تاریخ نے اس سے پہلے اور اس کے بعد کبھی نہیں دیکھا۔ ترقی پسندی اور سیکولرزم میں اسلامی فکر کی آمیزش جامعہ کے بنیاد کی أساس تھی ۔
سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین جو جامعہ کے بانیان میں سے تھے، جامعہ کے قیام پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ” جامعہ کے قیام کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ” یہ ہندستانی مسلمانوں کی آئندہ زندگی کا ایک ایسا نقشہ تیار کرے جس کا مذہب اسلام ہو اور اس میں ہندستان کی قومی تہذیب کا وہ رنگ بھرے جو عام انسانی تہذیب کے رنگ میں کھپ جائے "۔
جن مقدس ہستیوں نے جامعہ کے قیام میں نمایاں کر دار ادا کیا اُن میں مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خاں،ڈاکٹر مختار انصاری،ڈاکٹر ذاکر حسین اور عبدالمجید خواجہ کا نام سرفہرست ہے، جنھوں نے برطانوی حکومت کے مالی تعاو ن سے چل رہے تعلیمی ادارے کے بایئکاٹ کے کال پر لبیک کہتے ہوئے علی گڑھ سے اپنا ناتہ توڑ لیا اور جامعہ کی بنیاد ڈالی۔ تقریباَ پانچ سالوں تک کرائے کی کوٹھیوں اورعارضی خیموں میں انتہائی تنگ دستی اور بے سروسامانی کے عالم 1925 میں جامعہ دہلی منتقل کردی گئی۔
جامعہ کی یہ خوش قسمتی تھی کہ تاریخ کے ہر نازک موڑ پر جامعہ کو ایسے جاں نثاروں کی خدمات حاصل ہوتی رہیں جنھوں نے جامعہ کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہوا تھا۔ جن کے بارے میں شیخ الجامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین فرماتے تھے کہ” جامعہ میں اگر کوئی تعریف کا مستحق ہے تو وہ میں بالکل نہیں ہوں، میرے وہ ساتھی ہیں جو اپنا نام کسی کو نہیں بتاتے اور دن رات اس ادارے کی خدمت میں اپنی جانیں کھپاتے ہیں۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ ان جیسے کارکُن مشکل سے کسی ادارے کو نصیب ہونگے۔ یہ قوم کے بچوں کے لیے اپنی جانیں کھپا رہے ہیں اور خود ان کے بچے اچھی غذا اور اچھے لباس کے لیے ترستے ہیں۔۔۔انھیں مہینوں ان کے حقیر معاوضے نہیں ملتے اور پھر کہیں سے روپیہ آجاتا ہے تو یہ پہلے جامعہ کے لیے زمین خریدواتے ہیں اور اپنے مطالبات کو موخر کردیتے ہیں”۔
تاریخ کے پُرآشوب اور صبر آزما دور سے گزرتی ہوئی جامعہ اپنی منزل کی جانب گامزن رہی۔چنانچہ آزادی کے بعد حکومت ہند نے اسے ‘ قومی اہمیت کا حامل ادارہ ‘تسلیم کرلیا اور 1962 میں اسے ‘ڈیمڈ یونیورسٹی’ کا درجہ حاصل ہوگیا۔ 1988 میں پارلیامنٹ میں جامعہ بل پیش کیا گیا جس کی رو سے جامعہ کو مرکزی یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوگیا۔ لیکن جامعہ کی تاریخ میں سب سے اہم اور خوش آئند موڑ اُس وقت آیا جب ۲۲ فروری ۲۰۱۱ کے NCMEI کے ایک تاریخی فیصلے کے نتیجے میں جامعہ کا اقلیتی کردار جو جامعہ ایکٹ کی زد میں آکر معطل ہوگیا تھا، بحال کردیا گیا اوراس طرح جامعہ کو ملک کی پہلی مرکزی اقلیتی یونیورسٹی ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا۔
اب جب کہ جامعہ اپنے قیام کی ایک صدی مکمل کرچکی ہے تو یقیناً جامعہ برادری کے لیے ایک جشن کا موقع ہے ۔ ا س میں کوئی شک نہیں کہ جامعہ کی ترقی تیز رفتا ر رہی ہے ۔ آج جامعہ میں تعلیم کے تمام اہم شعبے موجود ہیں۔ بعض شعبے اپنی کارکردگی اور اعلیٰ معیار کی وجہ سے پورے ملک میں سرفہرست ہیں۔ کیمپس میں درس و تدریس کا ما حول بھی غیر تشفی بخش نہیں کہا جاسکتا گو کہ بہتری کی بہت گُنجائش موجود ہے۔ جامعہ کے ریزیڈنشیل کوچنگ اکیڈمی نےایک مختصر مدت میں جو کارہائے نمایاں انجام دیا ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔جشن کا موقع اس لیے بھی ہے کہ ایک صدی گزرجانے کے بعد بھی جامعہ اپنے بانیان کےاُنھیں نظریات پر قائم ہے۔ ترقی پسندی، سیکولرزم ، رواداری اور اسلامی اقدار کا حسین امتزاج آج بھی جامعہ کا خاصہ ہے۔ یہاں کے طلباء و طالبات میں اب بھی بغاوت کی وہی چنگاری موجود ہے ، وہ اب بھی تعصب اور تنگ نظری کے خلاف سینہ سپر نظر آتے ہیں۔ یہاں کی مٹی آ ج بھی عصبیت ا ور انسانی غلامی کو قبول کر نے کو تیا ر نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ملک میں متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کی آڑ میں ملک کے آئین سے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی گئی تونہ صر ف یہ کہ پوری جامعہ برادری اس کے خلاف سرا پا احتجاج بن گئی بلکہ اس نے پورے ملک میں اس متعصبانہ قانون کے خلاف جمہوری اور پُرامن مزاحمت کی ایسی فضاء قائم کردی جس کو قابو کر پانا مشکل ہوگیا۔ یہ جامعہ کے طلباء کی ہی فہم و فراست تھی کہ حکومت کے خطرناک منصوبے کا ادرا ک سب سے پہلے یہا ں کے طلباء و طالبات کو ہوا۔ تمام خدشات اور تحفظات کے باوجود اگر کسی چیز نے انھیں حکومت وقت کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر نے کا حوصلہ دیا تھا تو وہ جامعہ کی آزاد اور انقلابی فضا ء کا ہی کمال تھا۔ یہ اسی’ مکتب کی کرامت ‘تھی جس نے اپنے طلباء و طالبات کو فکر و نظر کی آزادی فراہم کی تھی۔ جامعہ کے طالب علموں نے جرائت اور سرفروشی کی ایسی تاریخ رقم کی جس نے پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔خصوصاً جامعہ کی طالبات نے جس غیر معمولی شجاعت اور غیر ت کا مظاہرہ کیا اُس میں ملک کی دبی کچلی صنف ناذک کے لیے ایک حوصلہ افزا پیغا م تھا۔ پیغام تھا فرسودہ معاشرے کے لیے بھی جس نےنصف آبادی کو گھر کی چہار دیواریوں میں قید کر بے ضرر بنا کر رکھ دیا ہے۔ ‘ناقص العقل ‘ قرار دی جانے والیوں نے اچھے اچھوں کی عقل ٹھکانے لگا دی اور راتوں رات دنیا بھر میں حقوق نسواں اور ویمن امپاورمنٹ کے شعبے میں کام کرنے والی تنظیموں اور کارکنان کے لیے یہ رول موڈل بن گئیں۔ مظاہروں کی صف اول سے قیادت کرتی ، فلک شگا ف نعرے لگاتی ، پولیس کے جوانوں کو للکارتی اور پولیس کے وحشیانہ حملوں کے شکار طلباء کے ارد گیر گھیرا بنا کر اُن پر شیرنیوں کی طرح جھپٹتی اُ ن کی تصاویر اور وڈیوز جب وائرل ہوئیں تو اُن سےحوصلہ پاکر پورے ملک میں بڑی تعداد میں خواتین سڑکوں پر نکل آئیں۔ شاید یہ قدرت کا ایک اور امتحان ہی تھا کہ جامعہ کو یہ قیامت خیز مناظر تب دیکھنے پڑےجب جامعہ اپنی صدی کے سال میں داخل ہورہی تھی۔ حوصلہ افزا اور خوش آئند بات یہ ہے کہ جامعہ ہمیشہ کی طرح اس امتحان سے بھی سرخرو نکلی۔
لیکن آج جامعہ کی یوم تاسیس کے موقع پر جشن کے ساتھ ساتھ احتساب بھی ضروری ہے کہ جس کے بغیرپایئدار ترقی کی بنیاد نہیں ڈالی جاسکتی۔ بلاشبہ جامعہ نے ترقی کے منازل تیزی سے طئے کیے ہیں اور اس کا شمار آج ملک کے چند بہترین تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے ۔ لیکن بعض مسائل ایسے بھی ہیں جس سے پہلو تہی ادارے کے مشن اور مقاصد کے برخلاف ہوگا۔سب سے اہم مسئلہ جامعہ اسکول اور جامعہ کے زیر انتظام چل رہے اسکولوں کا ہے جس میں وہ معیار آج تک قائم نہیں ہوسکا جو دہلی کے دیگر معیاری اسکولوں کا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے بچے آگے چل کر ملک کے اہم تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرنے کے اہل نہیں ہو پاتے اور مجبوراً انھیں جامعہ کے ہی ڈپلومہ اور سرٹیفیکیٹ کورسز پر اکتفا کرنا پڑتا ہے ۔ یہ مسئلہ ایک طویل عرصہ سے ہماری خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ دوسرا مسئلہ طلباء و طالبات میں ہندی زبان کے بڑھتے اثرات اور اُردو اور انگریزی پر کمزور پڑتی اُنکی گرفت ہے۔آج جامعہ کے طلباء کی اکثریت اُردو اور انگریزی زبان سے نابلد ہے۔ ہندی زبان کو تدریس کا اہم ذریعہ بنانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے طلباء تمام تر علمی لیاقتوں اور اپنے شعبوں میں امتیاز حاصل کرنے کے باوجودعملی زندگی میں اپنے اُن حریفوں کے مقابلے میں پیچھے رہ جاتے ہیں جنھیں ہندی کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پربھی دسترس حاصل ہوتی ہے۔جامعہ کا ایک اہم مسئلہ ایک طویل عرصے سے طلباء یونین کی معطلی بھی ہے۔ یہ طلباء کا جمہوری حق ہے۔ اسے کسی بھی حالت میں دبایا نہیں جاسکتا۔ذاکر صاحب کے زمانے میں طلباء یونین کا اہم کردار ہوا کرتا تھا اور طلباء کی ذہنی نشونما اور جمہوری تربیت طلباء یونین کے زیر سایہ ہو ا کرتی تھی۔ جامعہ کی طلباء یونین کو شاعر مشرق علامہ اقبال کے انتقال کے بعد علامہ اقبال پر پہلا خصوصی مجلہ شائع کرنے کا شرف حاصل ہے۔
ٓآج جامعہ پر فرقہ پرست او رمتعصب عناصر کی میلی نظر ہے۔ جامعہ کی اقلیتی حیثیت اُنھیں قابل قبول نہیں۔ اُن کی یہ دلیل آ ئین کی بنیادی روح سے متصادم ہے کہ پارلیامنٹ کے ایکٹ کے تحت قائم مرکزی یونیورسٹی جس کی مالی معاونت حکومت ہند کرتی ہے وہ اقلیتی ادارہ نہیں ہو سکتا۔ جب کہ آئین میں اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور اُن کا انتظام چلانے کی نہ صرف آزادی ہے بلکہ آئین ہی کی رُ و سے حکومت کو اس بات کا ذمہ دار بنایا گیا ہے کہ وہ اقلیتی تعلیمی اداروں کی مالی ضرورتوں کو پورا کرے۔ اقلیتی تعلیمی اداروں کو حکومت کی جانب سے گرانٹ کوئی امداد نہیں بلکہ یہ اُن کا حق ہے جسے ملک کے ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے ادا کیا جاتا ہے اور ملک کی اقلیتوں کا بھی ملک کے وسائل پر اُتنا ہی حق ہے جتنا ملک کے اکثریتی طبقے کا۔ جامعہ اور علی گڑھ ہندستانی مسلمانوں کی شہہ رگ ہیں اور مسلمانوں کے عزم وا ستقلال سے تعمیر اور خونِ جگر سے سینچی گئی ان دانش گاہوں کے تحفظ کے لیے قوم کو ہر قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
(مضمون نگار انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر، نئی دہلی کی مشرق وسطیٰ شاخ کے سابق کنوینر اور جامعہ طلباء یونین کے سابق نائب صدر ہیں)
وائیناڈ لینڈ سلائیڈنگ، بچاؤ کاری سے باز آبادکاری کی طرف بڑھتےقدم -اسانغنی مشتاق رفیقی
جماعت اسلامی ہند کیرلا اپنے ذیلی تنظیمیں آئیڈیل ریلیف ونگ اور پیوپلس فاؤنڈیشن کے ساتھ اپنا فرض ادا کرنے میں مصروف دکن کے مغربی پہاڑی سلسلے سے گھری سر سبز و شاداب وادی، حد نظر تک ہریالی بکھیرتی پہاڑی ڈھلانیں ، کہیں الائچی کے مہکتے ہوئے باغات تو کہیں ایکڑوں میں پھیلے ہوئے ناریل اور کیلے کے درخت، کہیں چائے اور کافی کی تیار فصلیں تو کہیں کالی مرچ کے باغات جن کی خوشبوؤں سے فضا ہمیشہ معطر رہتی ہے۔ محبوبہ کے ہرے ڈوپٹے سے جھانکتی کالی زلفوں کی طرح وادی کے حسن میں اضافہ کرتی تار کول کی بل کھاتی سڑکیں، پہاڑوں سے راستہ بنا کر نکلتے ہوئی دریا ، چائے کے باغات اورانسانی آبادیوں پر نظریں جمائے پہرہ دیتے ہوئے جنگالات ، پہاڑوں کی اونچی چوٹیوں سے اٹھکلیاں کرتے بادل، آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے خوبصورت مناظر، ریاست کیرلا کے ضلع وائناڈو کے اس حسین وادی میں 29 جولائی تک سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا، دو دن سے بارش زیادہ ہورہی تھی ، 48 گھنٹے میں 570 ملی میٹر ، جس کی وجہ سے ریاستی انتظامیہ نے پنجیریمٹوم ، اٹامالہ اور منڈکئی علاقوں کے رہائشیوں کو 29 جولائی 2024 سے شروع ہوئے ریلیف کیمپوں میں منتقل کر دیا تھا۔ الرٹ جاری ہونے کے باوجود چورل مالئی کے مکین چونکہ ان کا علاقہ لینڈ سلائیڈنگ کا نشان زدہ علاقہ نہیں تھا اپنے اپنے مکانوں میں بند ہوگئے۔ شدید بارش کے چلتے پہلی لینڈ سلائیڈنگ ارونجی پوژا دریا کے پاس رات کے ایک بجے پنجیریمٹوم اور منڈکئی گاؤں کے درمیان ہوئی جس کے نتیجے میں دونوں گاؤں پوری طرح بہہ گئے۔ دوسری لینڈ سلائیڈنگ صبح چار بج کر دس منٹ پر چورل مالئی کے قریب ہوئی جس نے ارونجی پوژا دریا کا رخ اچانک پھیر دیا جس کے نتیجے میں آئے سیلاب میں چورل ملئی ٹاؤن کا بڑا حصہ بہہ گیا۔ بہاؤ اتنا تیز تھا کہ چورل مالئی اور منڈکئی کو ملانے ولا واحد پل بھی اس کی نذر ہوگیا،( دوسرے دن مدراس انجینئر گروپ کی آرمی انجینئر ٹاسک فورس کے 144 فوجی جوانوں نے اس پل کی جگہ 190 فٹ لمبا ایک عارضی پل 31 گھنٹوں میں بنا کر بچاؤ کاری مہم کو تیزی بخشی)، جس کی وجہ سے 400 کے قریب خاندان پھنس کر رہ گئے۔ مجموعی طور پر چھ دیہات، یعنی پنجیریمٹوم، میپڈی، منڈکئی، اٹامالا، چورل مالئی، اور کنہوم ، اس لینڈ سلائیڈنگ سے متاثر ہوئے۔ جیولوجیکل سروے آف انڈیا کے ذریعہ تیار کردہ وایناڈ لینڈ سلائیڈنگ کی پہلی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق ملبے کے بہاؤ کی رفتار 57 میٹر فی سیکنڈ تھی، جو کہ انتہائی تیز رفتار زمرے سے بھی تقریباً پانچ گنا زیادہ ہے۔ بہتے ہوئے ملبے کی اونچائی جو گارا اور چٹانوں پر مشتمل تھی 1544 میٹر تھی، اور تقریبا 86000 میٹر زمین پہاڑی سے کھسک کر نیچے کی طرف چلی گئی۔
صرف چند گھنٹوں کے اندر ایک خوبصورت وادی اپنے تمام تر حسن سمیت قدرت کی ایک ہلکی سی جھرجھری میں خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی۔ اپنے نرم بستروں پر خوابیدہ کئی سو افراد مستقبل کے حسین خواب آنکھوں میں سجائے منوں مٹی کے نیچے زندہ دفن ہوگئے۔ بچے یتیم ہوگئے، عورتوں سے ان کا سہاگ چھن گیا، مرد اپنے خاندان پر رونے کے لئے تنہا رہ گئے۔ بوڑھے ماں باپ کے جوان سہاروں کو سیلاب تنکے کی طرح اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ جو مرگئے انہوں نے کس دردناک عالم میں اپنی جان دی ہوگی کوئی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جو بچ گئے، اپنوں کو اپنے آنکھوں کے سامنے دھنستا، ڈوبتا اور مدد کے لئے چلاتا ہوا دیکھ کر بھی کچھ نہ کر سکنے کے غم میں مبتلا کس اذیت سے گذر رہے ہیں اس کا اندازہ لگا پانا محال ہے۔ کوئی اس ماں کے درد کو کیسے سمجھ سکتا ہے جو پانی کے تیز بہاؤ میں ایک شاخ سے اپنی بچی کے ساتھ لٹکی رہی اور ایک بچے کو بچاتے بچاتے خود اس کی بیٹی کا ہاتھ اس سے چھوٹ گیا اور وہ بہہ گئی۔ زندگی کی ہما ہمی لئے ہمیشہ بیدار ہوتی اس حسین وادی پر جب 30جولائی کا سورج طلوع ہوا تو ہر طرف ٹوٹے مکانات، اکھڑے ہوئے درختوں، الٹی پڑی سواریوں ، کیچڑ اوڑھی سڑکوں، بے ہنگم پھیلے چٹانوں اور گدلے پانی کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ اس پر بین کرتی عورتوں کی چیخ و پکار، ملبوں میں اپنوں کو ڈھونڈتی مایوس آنکھیں، اپنے مکان اور مالکان کو ڈھونڈتے بے زبان جانور ، بچاؤ کاری کے لئے پہنچی انتظامیہ اور سماجی کارکنوں کی آوازیں، ماحول کو اور دردناک بنا رہے تھے۔ وہ سڑکیں جن پر کل تک زندگی دوڑتی پھرتی تھی قطار در قطار ایمبولینسوں کی سائرنوں سے گونجنے لگی تھی۔
یہ حادثہ ریاست کیرلا کی اب تک کی تاریخ کا سب سے بڑا اور بھیانک قدرتی حادثہ باور کیا جارہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سانحے میں تادم تحریر 427 افراد ہلاک ہوچکے ہیں 130 لاپتہ ہیں اور 378 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ 310 ہکٹیر زرعی زمین جس میں 50 ہکٹیر الائچی کی، 100 ہکٹیر کافی کی، 55 ہکٹیر چائے کی، 70 ہکٹیر کالی مرچ کی، 15 ہکٹیر سپاری کی، 10 ہکٹیر ناریل کی اور 10 ہکٹیر کیلے کی ہیں ، اس سیلاب میں بہہ گئیں۔
جماعت اسلامی ہند کیرلا میں ایک مضبوط سماجی نیٹ ورک کی حامل جماعت ہے۔ اس کی ہنگامی بچاؤ کاری کے لئے قائم کردہ شاخ آئیڈیل ریلیف ونگ کی ٹیم کو جیسے ہی اس حادثے کی اطلاع ملی وہ فوراً 30 جولائی کی صبح وہاں پہنچ گئی اور بچاؤ کاری میں جٹ گئی۔ یہ موقع پر پہنچے والی پہلی بچاؤ کاری ٹیموں میں سے ایک تھی۔
دعوت کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو میں آئیڈیل ریلیف ونگ کیرلا کے معتمد برائے رابطہ عامہ حمزہ کنجو نے اس خوفناک حادثے کے تعلق سے بتاتے ہوئے کہا کہ 30 جولائی کو فجر کے ساتھ ان کی ٹیم وہاں پہنچ گئی، ان کے کچھ کارکنان ان سے پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے، 85000 اسکوائیر میٹر زمین ملبے کی شکل میں آٹھ کلو میٹر کے علاقے میں پھیل گئی تھی۔ جس سے لگ بھگ 400 سے زائد گھر یا تو مکمل طور پر بہہ گئے تھے یا رہائش کے قابل نہیں رہے تھے۔ 10000 افراد اس زمین کھسکنے اور سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہوئے ان میں چھ سو سے آٹھ سو افراد بہہ گئے، جن میں 450 افراد کی لاشیں مل چکی ہیں اس کے علاوہ 250 افرد ابھی تک لاپتہ ہیں۔ آئیڈیل ریلیف ونگ کے کارکنان نے بچاؤ کاری کے تمام کاموں میں چاہے وہ لاشیں ڈھونے کا ہو ، ملبہ کھودنے کا ہو، پل بنانے کا ہو،کیچڑ صاف کرنے کا ہو یا لاشوں کی تدفین کا ہو وہاں موجود فوج، ریاستی محکموں اور دوسرے رضارکار ٹیموں کے ساتھ صف اول میں کھڑے ہوکر ساتھ دیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 30 جولائی کو جب وہ پہنچے تو منڈکئی کے مسجد میں اور آس پاس کچھ لوگ پھنسے ہوئے تھے، 12افراد کو ان کی ٹیم نے بحفاظت محفوظ مقام تک پہنچایا اور 13 لاشوں کو انہوں نے اس وقت ملبے سے نکالا ۔ مسجد کے امام جن کا گھر پاس ہی میں تھا اس سیلاب میں بہہ گئے، ان کی لاش وہاں سے تقریباً 20 کلو میٹر کی دوری پر ملی۔ انہوں نے بتایا کہ 180 افراد پر مشتمل ان کی ٹیم جن میں 30 عورتیں بھی شامل ہیں تاحال رات دن بچاؤ کاری میں جٹے ہوئے ہیں۔ اُن کے علاوہ مسلم لیگ کیرلا، سنی یوتھ فیڈریشن، اور کئی مقامی سماجی آرگنائزیشن کے رضاکار بھی بچاؤ کاری مہم میں جٹے ہوئے ہیں۔ ( بچاؤ کاری کے درمیان آئیڈیل ریلیف ونگ کے کارکنان کی ایک ٹیم کی کچی مٹی کی زمین پر باجماعت نماز ادا کرنے کی ایک ویڈیو سوشیل میڈیا پر آج کل بہت وائرل ہورہی ہے)۔ انہوں نے بتایا کہ کئی متاثرین کی لاشیں سوچی پارا آبشار کے پاس ملیں جو جائے حادثہ سے کئی کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔
متاثرین کی باز آباد کاری کے تعلق سے اپنی منصوبہ بندی کی تفصیلات بتاتے ہوئے حمزہ کنجو نے کہا کہ فی الوقت فوری مسئلہ ان متاثرین کے لئے چھت مہیا کرنے کا ہے جو اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں اور راحتی کیمپوں میں مقیم ہیں۔ جن کی تعداد لگ بھگ تین ہزار ہے، ان کے علاوہ بہت سارے جو اپنے رشتہ داروں کے یہاں چلے گئے ہیں وہ اگلے ہفتے اسکول کھلنے کے بعد واپس آئیں گے تو ان کے لئے وقتی رہائش کا مسئلہ در پیش ہے۔ کچھ لوگوں نےخود سے اپنے مسائل حل کر لئے ہیں، لیکن ان کے لئے جن کا سب کچھ اس سیلاب میں بہہ گیا ہے معمولی اور روز مرہ کا گزران بھی بڑامسئلہ ہے۔ ان مسائل کے حل کے لئے جماعت سے منسلک ایک اور تنظیم پیوپلس فاؤنڈیشن جنگی پیمانے پر کام کر رہی ہے۔ متاثرین کی فوری باز آبادکاری کے لئے اور انہیں ہنگامی رہائش مہیا کرنے لئے تمام اقدامات کئے جارہے ہیں۔
حمزہ کنجو نے بتایا کہ متاثرین کی مستقل باز آباد کاری کے لئے جماعت کی جانب سے ایک بڑے منصوبہ پر کام جاری ہے، جس کے لئے سروے کیا جارہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت، گھروں کی تعمیر، معاشی خود کفالت کے لئے سرمایہ مہیا کرنا، تعلیم جاری رکھنے کے لئے اور کچھ عرصے تک ماہانہ راشن کاانتظام۔ ان تمام کاموں کو انجام تک لانے میں تقریبا ایک سال کا عرصہ لگ سکتا ہے، کیونکہ رہائشی مکانات کی تعمیر کے لئے مناسب جگہ تلاش کرنا بھی ایک بڑا وقت لینے والا مسئلہ ہے۔
ان سب کے علاوہ انہوں نے کہا کہ پیوپلس فاؤنڈیشن پہلے درجے میں گورنمنٹ کی جانب سے اعلان کردہ راحت کاری پیکیج کے حصول میں متاثرین کی بھر پور مدد کرےگی کیونکہ ایسا کرنا حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں سے ہے۔ اس کے لئے دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے، جن کے کاغذات سیلاب کی نذر ہوگئے انہیں دوبارہ بنوانے میں بھی جتنی مدد درکار ہوگی وہ ہم مہیا کریں گے۔ چونکہ ایسے معاملات میں سرکاری مدد حاصل کرنے میں بہت سارے ضابطے اور پیچیدگیاں ہوتی ہیں جو ہر کوئی پورا نہیں کرسکتا تو ایسے افراد کی باز آباد کاری کےلئے جماعت اپنی طرف سے پوری کوشش کرے گی۔یہ کام ایک طویل مدتی کام ہے اور اس کے لئے بڑی رقم کی ضرورت ہوگی۔ جماعت کی جانب سے امیر کیرلا پی مجیب الرحمٰن نے ایک اپیل بھی سوشیل میڈیا کے توسط سے جاری کی ہے جس میں منڈکئی اور چورل مالئی بحالی منصوبوں کے لئے جو احباب مالی مدد مہیا کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے ہاؤسنگ پروجیکٹ میں مالی مدد فی حصہ یوں ہے: ایک سینٹ پچاس ہزار روپیہ، پانچ سینٹ دو لاکھ پچاس ہزار روپیہ، ایک گھر سات سو مربع فٹ دس لاکھ پچاس ہزار روپیہ، فی مربع فٹ ایک ہزار پانچ سو روپیہ، گھر اور زمین فی خاندان تیرہ لاکھ روپیہ ہے۔ جو احباب تعلیمی مد میں مدد دینا چاہتے ہیں ان کے لئے تعلیمی امدادی اسکیم کے تحت فی طالب علم فی سال ایک لاکھ سے دو لاکھ روپیہ ہے۔ ان کے علاوہ پینے کے لئے صاف پانی کی اسکیم کے تحت ایک لاکھ روپیہ ہے۔ اور پنشن اسکیم کے تحت فی خاندان ایک ماہ کے راشن کے لئے چھ ہزار ر وپیہ ہے۔ جو درد مند احباب اس نہج پر یا اپنے حساب سے اس کار خیر میں حصہ لینا چاہتے ہیں وہ جماعت اسلامی ہند کیرلا، اکاؤنٹ نمبر:13890200007267، بینک کا نام: فیڈرل بینک، برانچ: ایس ایم اسٹریٹ، آئی آیف سی کوڈ: ایف ڈی آر ایل0001389، میں راست رقم جمع کرسکتے ہیں۔
جماعت اسلامی ہند کیرلا کا ایسے قدرتی حادثات کے موقع پر امدادی کام کرنے کا ایک طویل تجربہ ہے۔ اس سے پہلے ایسے ہی کئی مقامات پر ہوئے قدرتی حادثات میں جماعت نے باز آبادکاری کے کاموں میں اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ منڈکئی اور چورل ملائی میں کئی سو خاندان بےآسرا، چھت سے محروم ہوکر ایسے انسانوں کی راہ دیکھ رہے ہیں جو دکھ درد کے اس موقع پر ان کا غم بانٹ سکیں، ان کے سروں پر محبت اور شفقت کا سایہ دراز کریں ، پھر سے ایک بار باعزت زندگی گذارنے میں ان کی بھر پور مدد کریں ۔ یہ انسان خود آپ کیوں نہیں ہوسکتے ؟ سوچئے،خدارا ضرور سوچیے۔
آج ہم اپنی آزادی کی 78 ویں سالگرہ منارہے ہیں۔آج ہی کے دن 1947میں ہماراملک انگریزسامراج کے ہاتھوں سے آزاد ہوا تھا۔ یہ آزادی ایک طویل اور صبر آزماجدوجہد کا نتیجہ تھی، جس میں تمام فرقوں اور طبقوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، سوائے ان لوگوں کے جو انگریزوں کے ذہنی غلام تھے اور آج بھی ہیں۔ انگریزوں نے ہندوستان کا اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا جو اس ملک میں تقریباً800 سال سے اقتدار میں تھے۔ اپنے دور اقتدار میں مسلم بادشاہوں اور حکمرانوں نے ہندوستان کو ترقی اور کامرانی کی ان منزلوں تک پہنچایا جن کا آج ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس کی زندہ جاوید نشانیوں میں جہاں ایک طرف تاج محل کی خوبصورتی اور دلکشی ہے تو وہیں قطب مینار کی عظمت وبلندی بھی ہے۔ لال قلعہ کا جاہ وجلال ہے تو شاہجہانی جامع مسجد کا تقدس بھی ہے۔ آج سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان یادگاروں کو بے نام ونشان کرنے اور تاریخ کے اوراق سے غائب کرنے کی سازشیں عروج پر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان سورماؤں کا نام ونشان مٹانے کی بھی منظم کوششیں جاری ہیں جنھوں نے ہندوستان کی مانگ اپنے خون سے روشن کی تھی،مگر ان کی قربانیاں اتنی لازوال ہیں کہ انھیں کبھی تاریخ کے صفحات سے مٹایا نہیں جاسکتا۔ان قربانیوں کی داستان ہندوستان کے چپے چپے پر لکھی ہوئی ہے۔ آج ہم یہاں ایسے ہی کچھ سورماؤں کا تذکرہ کریں گے، جنھوں نے اس ملک کی آزادی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اپنے لازوال جذبہ حریت سے دنیا کے بہادر سپوتوں کی فہرست میں اپنا نام سنہری حرفوں سے درج کرایا۔ ان میں پہلا نام شیرمیسور ٹیپوسلطان کا ہے۔
ٹیپو سلطان نے7 مئی 1799کو سرنگا پٹنم کے مقام پر انگریزوں سے لوہا لیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا۔انہوں نے انگریز سپاہ کا مقابلہ اتنی بہادری اور جرأت کے ساتھ کیا کہ ان سے لوہا لینے والی فوج کے کمانڈرنے کہا تھا کہ ”ٹیپو سلطان نے ایک شیر کی طرح جنگ لڑی۔“انگریز سپاہ پر ٹیپوسلطان کا رعب اور دبدبہ اتنا زبردست تھا کہ وہ ان کی لاش کے قریب جاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ کسی طرح ہمت کرکے وہاں پہنچے اور ٹیپو سلطان کی لاش کے اوپر پاؤں رکھ کر کہا کہ ”آج ہندوستان ہمارا ہے۔“ٹیپو سلطان کا یہ قول آج بھی تاریخی کتابوں میں سنہرے لفظوں سے لکھا ہوا ہے کہ ”گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہوتی ہے۔“
مادر وطن کی حفاظت کے لئے غیر معمولی جرأت اور بہادری کی مثال صرف ٹیپو سلطان نے ہی پیش نہیں کی بلکہ ایسے ہزاروں واقعات نقل کئے جاسکتے ہیں جن میں مسلمانوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے بے مثال قربانیاں دیں اور جذبہ حریت کی مثالیں قائم کیں۔1857کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے دہلی میں وحشیانہ قتل عام کیا اور ہر درخت پر حریت پسندوں کی لاشیں لٹکا دیں۔اسی دوران آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو قید کر لیا گیا۔انگریزوں نے ان کے بیٹوں اور پوتوں کے سر قلم کرکے ایک طشتری میں سجا کر انہیں پیش کئے۔اپنے جگر پاروں کے کٹے ہوئے سر دیکھ کر بہادر شاہ ظفر کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے۔انہوں نے اپنا سر فخر سے بلند کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”خاندان تیموریہ کے فرزند ایسے ہی سرخرو ہوکر پیش ہوتے ہیں۔“دنیا میں جدوجہد آزادی کی کوئی تاریخ جذبہ حریت کی ایسی لازوال مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
تحریک خلافت کے رہنما اور عظیم مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر کی قربانیوں سے کون واقف نہیں۔انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے ہمہ وقت جدوجہد کی اور انگریزوں کی غلامی قبول کرنے سے انکار کردیا۔لندن کی گول میز کانفرنس میں انگریز سامراج کو چیلنج کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ”میں اپنے ملک کو اسی حالت میں واپس جا سکتا ہوں جبکہ میرے ہاتھوں میں آزادی کا پروانہ ہوگا۔اگر آپ نے ہندوستان کو آزادی نہیں دی تو پھر آپ کو یہاں مجھے قبر کے لئے جگہ دینی پڑے گی۔“ اپنے اس انقلابی بیان کی لاج مولانا محمد علی نے ایسے رکھی کہ وہ ہندوستان واپس نہیں آئے اور انہوں نے 4 جنوری 1931کو لندن میں اپنی جان جان ِآفریں کے سپرد کردی۔مولانا محمد علی جوہر ہندوستان کی جنگ آزادی کے ایسے سپاہی تھے جن کی مثال مشکل سے ملے گی۔آج بھی بیت المقدس میں مولانا محمد علی کی قبر پر جو کتبہ لگا ہوا ہے، اس پر جلی حرفوں میں لکھا ہے۔’محمد علی الہندی‘۔
پروفیسر خلیق احمد نظامی نے لکھا ہے کہ ”اس میں کوئی مبالغہ نہیں تھا کہ مولانا محمد علی نے ایک سوتی ہوئی قوم کو ابھار کر ایک قوت بنا دیا تھا۔انہوں نے ٹوٹی ہوئی کشتی کے ملاح کی طرح طوفان کا مقابلہ کرتے ہوئے جان دی۔مولانا سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ ”وہ شکست خوردہ قوم کا آخری سپاہی تھا جو اعداء کے نرغے میں تنہا لڑرہا تھا۔آخر کار زخموں سے چور ہوکر ایسا گرا کہ پھر کھڑا نہ ہوسکا۔“
یوں تو ہندوستان کی جنگ آزادی میں ہزاروں متوالوں نے پھانسی کے پھندے کو چوما اور وطن پر اپنی جان نچھاور کردی لیکن ان میں ایک نام ایسا ہے جسے وطن عزیزپر جان قربان کرنے والوں میں بڑی قدر و منزلت حاصل ہے۔یہ تھے شہید وطن اشفاق اللہ خاں جنہوں نے 27 برس کی عمر میں تختہ دار کو بوسہ دینے سے قبل اپنی ماں کو جو آخری خط لکھا تھا‘ وہ وطن کے لئے ان کی بے پناہ محبت کا آئینہ دار ہے۔انہوں نے لکھا تھا کہ
”اگر مجھے ہزار بار پھانسی دی جائے اور میں ایک ہزار دفعہ مرمر کے دوبارہ پیدا ہوں تو بھی وطن کے لئے مر مٹنے کا میرا جذبہ اسی طرح تروتازہ رہے گا۔“
مشہور زمانہ کا کوری کیس میں 6 اپریل 1927کو سیشن جج ہملٹن نے اشفاق اللہ خاں کو پھانسی کی سزا سنائی۔ان پر پانچ دفعات لگائی گئی تھیں جن میں دو دفعات کے تحت تاعمر کالا پانی کی سزا اور تین دفعات کے تحت سزائے موت دی گئی تھی۔پھانسی کا فیصلہ سننے کے باوجود ان کے اطمینان اور سکون میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا۔جیل کے ریکارڈ کے مطابق ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کسی موت کے مہمان کا وزن بڑھ جائے۔جس وقت اشفاق اللہ خاں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی‘ اس وقت ان کا وزن 178پونڈ تھا اور اس کے بعد جب پھانسی دی جانے والی تھی تو ان کا وزن203پونڈ ہوچکا تھا۔وزن میں یہ اضافہ وطن پر قربان ہونے کی خوشی میں ہوا تھا جس کا اظہار انہوں نے اپنی والدہ کے نام خط میں بھی کیا تھا۔
یوں تو انگریز سامراج سے لوہا لینے والوں کی ایک طویل فہرست ہے، لیکن ہم نے یہاں صرف چند ایسے سورماؤں کا تذکرہ کیا ہے جن کے کارنامے لازوال ہیں اور جنھوں نے وطن کی خاطر جام شہادت نوش کیا۔ جن دیگر عظیم مجاہدین آزادی نے اپنی جدوجہد سے ہندوستان کو سرخرو کیا، ان میں نواب سراج الدولہ،شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی،علامہ فضل حق خیرآبادی،مولوی محمدباقر،مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا حسین احمدمدنی،مولانا برکت اللہ بھوپالی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسرت موہانی،حکیم اجمل خاں، ڈاکٹر مختار احمدانصاری، خان عبدالغفار خاں اوررفیع احمد قدوائی جیسے درجنوں نام شامل ہیں۔یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے ہندوستان کی آزادی کی راہیں متعین کیں اور ہمیں ایک آزاد فضا میں سانس لینے کا موقع فراہم کیا۔ آئیے آج ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ان سورماؤں کے کارناموں سے واقف کرانے کا عہد کریں تاکہ وہ اس ملک میں سراٹھا کرجینے کا حوصلہ پیدا کرسکیں۔
ہندوستان کی جنگ آزادی میں اردو صحافت نے جو کردار ادا کیا اسے آبِ زر سے لکھا جانا چاہیے۔ جب ملک میں انگریزوں کے خلاف جنگ میں تیزی آنے لگی تو اردو اخباروں کے زبان وبیان میں بھی حدت بڑھ گئی۔ جنگ آزادی کی آگ کو ہوا دینے اور عوام کے جذبہئ حریت کو پروان چڑھانے میں جن اخباروں نے اہم رول ادا کیا ان میں ایک روزنامہ ’اخبار جمہور‘ بھی ہے جو کلکتہ سے دسمبر 1917 میں قاضی عبد الغفار نے جاری کیا تھا۔ یہ اخبار تقریباً ایک سال نکل کر ستمبر 1918میں بند ہو گیا۔ قاضی عبد الغفار اردو کے نامور ادیب ہیں اور ان کے اخبار میں جو کچھ شائع ہوا وہ1918 کے ہنگاموں کی مستند دستاویز ہے۔ قاضی عبد الغفار نے مولانا محمد علی جوہر کے زیر سایہ تربیت حاصل کی تھی اور ان کے اخبار’ہمدرد‘ میں بھی کچھ دن کام کیا تھا۔ ان کے اداریے انتہائی پرجوش اور مدلل ہوتے تھے۔
پروفیسر عابدہ سمیع الدین اپنی کتاب ’قومی محاذ آزادی اور یوپی کے مسلمان صحافی‘ میں لکھتی ہیں کہ ’بیسویں صدی میں ’جمہور‘ نام کے دوروزنامے نکلے۔ ان میں زیادہ مشہور ومقبول قاضی عبدالغفار کا ’جمہور‘ ہوا۔ برطانوی آمریت واستبداد سے ٹکراؤ اس اخبار کا تعارف ہے جس کی فائل اب ہندوستان کی کسی لائبریری میں دستیاب نہیں۔1918 میں بحکم سرکار ضبط کرلیے جانے کے بعد اس کے سبھی شمارے ضائع کردیے گئے تھے۔ خوش قسمتی سے ایک فائل جوحیدر آباد کے کسی ایک خریدار کے پاس محفوظ رہ گئی تھی، بعد تلاش بسیار اس کے مدیرقاضی عبدالغفار مرحوم نے اسے قیمتاً حاصل کیا۔ اس فائل پر کہیں کہیں مسٹر الیاس قریشی، افضل گنج، حیدرآباد کی دھندلی سی مہر لگی ہوئی ہے۔ یہ فائل مجھے بیگم قاضی عبدالغفار اور ان کی بیٹی فاطمہ عالم علی صاحبہ کی وساطت سے حاصل ہوئی۔ اگرچہ انتہائی خستہ حالت میں ہے، ابتدائی تاریخوں کے چند شمارے فائل میں موجود نہیں ہیں اور یہی صورت آخری چند شماروں کی بھی ہے۔ ’جمہور‘ بنگال آرٹ اسٹوڈیو پریس میں چھپ کر71/1 کولوٹولہ اسٹریٹ، کلکتہ سے شائع ہوا تھا‘۔
’جمہور‘ کی ادارت کے لیے قاضی صاحب کے انتخاب کی معنویت کو سمجھنے کے لیے ان کے خاندانی پس منظر، ذہنی تربیت سازی کے بنیادی عوامل نیز افتاد طبع کو سمجھنا ضروری ہوگا۔ قاضی صاحب بقول سری نواس لا ہوٹی ’ایک ایسی عہد ساز شخصیت کانام ہے جنھوں نے اردو صحافت کو اتنا کچھ دیا کہ کوئی ادبی مورخ اس نام کو نظر انداز نہیں کرسکتا‘۔ برطانوی سامراج کے خلاف ان کی جہدِ مسلسل قومی جنگ آزادی کاایک زرّیں ورق اور ہندو مسلم اتحاد کی خاطر ان کی سعی پیہم کاایک درخشاں باب ہے۔ قاضی صاحب کی پیدائش 1889ء میں مراد آباد کے ایک خوشحال گھرانے میں ہوئی۔ ان کے دادا قاضی حامد علی کو1857 کی بغاوت میں انگریزوں نے سولی پر لٹکا دیا تھا۔ تفصیل ان ہی کی زبانی سنئے:
’جب دہلی میں غدر ہوا تو اس وقت ہمارے دادا (قاضی حامدعلی) مرادآباد کے قاضی تھے اور ہمارے والد کی عمر اس وقت تیرہ سال تھی۔ دہلی کے قلعہ میں کہرام برپا تھا۔ اس قیامت میں ایک شہزادہ قلعہ سے بھاگ کر مراد آباد کی طرف آنکلا۔ نفسانفسی کا عالم تھا۔ کوئی شہزادے کو پناہ دینے کو تیار نہ تھا۔ ہمارے دادا کو جب معلوم ہوا تو انھوں نے شہزادے کو اپنے یہاں چھپالیا۔ انگریزوں کے پٹھو ہر طرف پھیلے ہوئے تھے۔ کسی نے خبر کردی کہ مرادآباد کے قاضی نے شہزادے کو پناہ دے کر غداری کی ہے۔ شہر میں کھلبلی مچ گئی۔ ہمارے دادا کے دوست احباب گھبرائے ہوئے آئے اور کہا قاضی جی آپ نے یہ کیا غضب کیا۔ اب آپ کی خیر نہیں۔ خدا کے لیے روپوش ہوجائیے۔ آپ پر غداری کا الزام لگ چکا ہے۔ مگر قاضی جی نے صاف انکار کردیا اور کہا میں نے غداری نہیں وفاداری کی ہے اب جو ہوگا دیکھاجائے گا۔
چنانچہ ہمارے دادا مسجد میں عصر کی نماز ادا کررہے تھے کہ انگریز ان کو پکڑ کر لے گئے اور آناً فاناً پھانسی دے دی۔ ادھر پھانسی ہوئی ادھر دادی کو مع بچو ں کے گھر سے نکال کر مکان اور جائداد ضبط کرلی گئی۔ انگریزوں کے ظلم وستم سے ہر شخص خائف تھا۔ قاضی جی کی بیوہ کو پناہ دینے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ مگر کسی اللہ کے بندے نے رات گزارنے کے لیے جگہ دے دی۔ آدھی رات کا وقت ہوگا کہ کسی نے دروازے کی کنڈی کھٹکھٹائی۔ سارے گھر کی جیسے جان نکل گئی لیکن مسلسل کنڈی کی آواز پر مرتا کیا نہ کرتا دروازہ کھولا تو معلوم ہوا کہ ایک لالہ آئے ہیں اور قاضی جی کی بیوہ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری دادی نے دروازے کی اوٹ سے آنے کی وجہ پوچھی تو لالہ نے کہا بہن قاضی جی کی لاش بے گور وکفن پڑی ہے، اس کے لیے بھی کچھ سوچا؟ ہماری دادی نے کہا بھلا لالہ آدھی رات وہ بھی قیامت کی۔ میں مجبور عورت ذات کیا کرسکتی ہوں؟ لالہ نے ہمت دلائی اور کہا چلو ان کی لاش تلاش کرکے کچھ انتظام کریں۔ اس زمانے کی عورتیں جنھوں نے زندگی میں کبھی قدم گھر سے باہر نہ نکالا ہو، وقت پڑجانے پر مرد سے زیادہ ہمت کرجاتی تھیں۔ غرض ہماری دادی لالہ کے ساتھ جہاں سولی لٹکائی گئی تھی وہاں پہنچیں اور ہزاروں لاشوں میں سے شوہر کی لاش تلاش کی۔ وہیں پر ایک گڑھا کھودا اور لاش دفن کرکے نشانی کے طورپر ایک لکڑی لگادی اور گھر آگئیں۔ اس کے بعد جب حالات درست ہوئے اور ہمارے دادا بے قصور ثابت ہوئے، جان تو واپس نہ آسکی لیکن انگریزوں نے بڑی عنایت کی کہ مکان اور جائداد واپس کردی بلکہ کچھ انعام بھی دیا۔ پھر اس وقت ہمارے دادا کی قبربھی بنوائی گئی کیونکہ دفن کرتے وقت کسی کو یہ ہوش نہ تھا کہ سر کدھر ہے اور پاؤں کدھر۔چنانچہ اس لکڑی کی مدد سے قبر پہچانی گئی اورچوکور قبر بنادی گئی اور حشر کا میدان ہمارا خاندانی قبرستان بن گیا‘۔
قاضی عبدالغفار کے والد قاضی ابرار احمد نے اپنے والد کی سنت سے انحراف کیا۔ قاضی ابراراحمد کو انگریز سرکار سے خان بہادر کا خطاب عطا ہوا تھا اور پنشن بھی ملی تھی۔ قاضی عبدالغفار کی صاحبزادی فاطمہ علی کے بقول اپنے دادا کے کچھ خطوط جو انگریز کلکٹروں اور کمشنروں نے انھیں لکھے تھے میری نظر سے گزرے جن سے انداز ہ ہوتا ہے کہ قاضی ابرار احمد انگریزوں میں کافی مقبول اور ان کی سرکار میں خاصا عمل دخل رکھتے تھے۔ ایک طرف خان بہادر ابرار احمد کی انگریزی سرکار سے وفاداری اور دوسری طرف قاضی عبدالغفار کا انگریز سرکار کے ساتھ حقارت آمیز رویہ! ایک ہی چھت کے نیچے دو متضاد مزاجوں کا یہ ٹکراؤ سمجھنا ذرا مشکل ہے۔
قاضی صاحب کی صحافتی نگارشات میں غیر ملکی استحصال کے خلاف بلند صدائے احتجاج نیز حاکم ومحکوم کے امتیاز پر شدید غم وغصے کا اظہار خصوصی طور پر نمایاں ہے۔ ان کی اخبار نویسی کی ابتداسولہ سال کی عمر میں ہوئی۔ یہ ہائی اسکول کے طالب علم تھے۔ مرادآباد سے ابن علی صاحب کی ادارت میں ’نیّرعالم‘نکلتا تھا جس میں ان کا تحریر کردہ ایک خبر نامہ شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد یہ متعدد اخباروں میں لکھتے رہے۔ صحیح معنوں میں اخبارنویسی کی ابتدا 1913 میں ہوئی جب مولانا محمد علی جوہرؔ نے دہلی سے ’ہمدرد‘ نکالا۔ 1914 میں مولانا محمد علی کو نظر بند کردیا گیا تو قاضی صاحب نے مولانا محمد علی کے اشارے پر کلکتہ سے ’جمہور‘ نکالا۔قاضی صاحب نے اپنے ایک اداریے میں اس کا اعتراف واضح طور پر کیا ہے۔ لکھتے ہیں ’جمہور‘ ہمدرد مرحوم کا ایک دھندلا سا عکس ہے۔ ایک چراغ جلا کر رکھ دینے سے وہ محفل کیوں کر پیدا ہوسکتی ہے جس میں شمع کا فوری روشن ہوا کرتی تھی۔ تاہم دل میں جو کسک ہے اور جگر میں جو کھٹک ہے وہ اس محفل کی یادگار ہے جو کچھ دن کے لیے جمی تھی۔ اس موسم بہار کا نشان ہے جو گزر چکا ہے۔ہمدرد مرحوم کی یاد دل کو جتنی عزیز ہو کم ہے اس لیے کہ وہ ایڈیٹر ’جمہور‘ کی ز ندگی کا پہلانشان تھا۔
حکومت مغربی بنگال کے محافظ خانے میں موجود سرکاری رپورٹ برائے اخبارات 1917(129/18-1-6)میں ’جمہور‘ کی پالیسی کے متعلق درج ہے کہ اس کے خیالات بالکل وہی ہیں جو شدید انتہا پسند مسلمانوں کے ہیں۔ یہ انڈین نیشنل کانگریس، ہوم ر ول لیگ اور انتہا پسند مسلم سیاست کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔ 1918 کا زمانہ ہندوستانی سیاست کا انتہائی پُرآشوب زمانہ تھا اور اپنے سیاسی بحران کے سبب یہ جنگ آزادی کی تاریخ میں مخصوص حیثیت کا حامل ہے۔’جمہور‘ کا یہ فائل ان تمام ہنگاموں اور واقعات کی ایک مستند دستاویز ہے جو جلیاں والا باغ کے خونی حادثے اور اس کے ردعمل کا پیش خیمہ تھے۔ یہ آنے والے انقلاب کے ارتقاء کی وہ انتہائی اہم منزل تھی جہاں سے نوائے آزادی کی لے تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔ اس اعتبار سے1918 کے اس کے تمام شمارے مکمل تاریخ نہ سہی اس کے اہم مآخذ کی حیثیت ضرور رکھتے ہیں۔
جس دور میں صحافتی قوانین کی تلوار کچے دھاگے میں بندھی صحافیوں کے سرپر لٹکتی ہو، قانون تحفظ ہند کا آہنی پنجہ ہر لمحہ قوم پرستوں کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے مستعد ہو، جیل خانوں کی مہیب تاریکیاں ڈاکخانوں وخفیہ پولیس کے اختیارات کے سبب شمع حریت کے پروانوں کو نگلنے کے لیے ہمہ وقت منتظر ہوں اور دار وگیر کی سخت ترین آزمائشوں نے عوام کی زبانوں پر قفل ڈال رکھے ہوں صحافتی دیانتداری کی اعلیٰ پاکیزہ اقدارکو قائم رکھنا انہی عہد ساز شخصیتوں کا کام تھا جن کایہ ایمان تھا کہ سچا جہاد ظالم حاکم کے سامنے کلمہئ حق کا اعلان ہے اور قاضی صاحب پہلے ’جمہور‘ اور پھر ’پیام‘ کے ذریعہ اس جہاد میں ہمیشہ مصروف رہے۔ لیکن ’جمہور‘ کے متعلق ان کا اپنا کہنا تھا کہ یہ میرا سب سے کامیاب اخبار تھا جس کی تعداد اشاعت 13ہزار تک پہنچ چکی تھی۔
۲۰۲۴ کے یونین پبلک سروس کمیشن کے رزلٹ عام ہو چکے ہیں اور اس میں اس دفعہ مسلمان لڑکے اور لڑکیوں نے پہلے کے مقابلے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے جو کہ تقریباً ۵ فیصد سے زیادہ کا ہی تناسب رکھتی ہے۔ اس میں بھی یہ بات ہم سب کے لیے قابل فخر ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تربیت یافتگان نے تقریباً ۳۱ جگہوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ جامعہ اور جامعہ والوں دونوں کے لیے انتہائی فخر کی بات ہے۔ میں اس کے لیے جامعہ کے قائم مقام وائس چانسلر اقبال حسین اور ان کی سرپرستی میں چل رہی ریزیڈنشیل کوچنگ اکیڈمی کے ذمہ داروں کو مبارک باد دیتا ہوں۔اس کے علاوہ جن جن اداروں اور تنظیموں سے وابستہ لوگوں نے کامیابی حاصل کی ہے، میں ان کو اور ان کے ذمہ داروں کو بھی مبارک باد دیتا ہوں۔
ہم سب کو پچھلے سالوں میں یہ جائز طور پر شکایت رہی ہے کہ مسلمان بچے اس تعداد میں قومی سروسیز کے امتحانات میں وہ کامیابی حاصل نہیں کر رہے ہیں جوکہ انھیں کرنی چاہیے۔ لیکن ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ کتنے لوگوں نے ان امتحانات کے لیے درخواستیں دی تھیں اور ان میں سے کتنے لوگ ابتدائی مرحلے (پریلمس)کو پاس کر کے فائنل کے مرحلے میں پہنچےاور پھر انٹرویو میں کامیابی حاصل کر کے بالآخر انھوں نے کامیابی حاصل کی۔ ہمیں اس بات کی خوشی بھی ہے اور اس پر اطمینان بھی کہ اگر ایک طرف یوجی سی نے مختلف یونیورسٹیوں میں ریزیڈنشیل کوچنگ اکیڈمیوں کا اس مقصد کے لیے قیام کیا کہ کمزور طبقات کے بچے قومی ملازمتوں میں آنے کے لیے ضروری تیاری کریں تو نجی زمرے میں بھی بعض اداروں نے جن میں سب سے پہلےہمدردسوسائٹی اور بعد میں زکوٰۃ فاؤنڈیشن کا نام سر فہرست ہے، ایسی کامیاب کوششیں کیں کہ قومی ملازمتوں کے امتحانات کی تیاری کے لیے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ان کے پروگراموں سے استفادہ کریں، تربیت حاصل کریں اور اپنی جگہ بنائیں۔
یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ جہاں حکومتوں نے یونیورسٹیوں میں اس سلسلے میں ریزیڈنشیل کوچنگ اکیڈمیوں کا قیام کیا تو وہیں کچھ فرقہ پرست او ر فسطائی قوتوں نے اس کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دے کر ملازمتوں کے جہاد کا نام دے دیا۔ وہ تو کہیے خیر سے اس ملک کا جمہوری اور قانونی نظام ایسا ہے کہ وہ اپنی بات کو آگے نہ بڑھا سکے۔ لیکن یہ خوشی کی بات ہے کہ ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے اپنی بے پایاں محنت سے آہستہ آہستہ کامیابی حاصل کرنا شروع کی اور اس دفعہ ماضی کے سارے ریکارڈس توڑ دیے۔
راقم الحروف کو یاد ہے کہ جب وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طالب علم تھا تو سب سے پہلے وہاں پر قانون کے طالب علموں نے یوپی کی جوڈیشیل سروسیز کے امتحانات میں حصہ لینا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کامیابی کے وہ جھنڈے گاڑے کہ الہ آباد میں انٹرویو کے وقت ان کے مقابل آنے والوں میں یہ بات پہلے سے مان لی جاتی تھی کہ علی گڑھ والے جتنے امید وار انٹرویو میں شریک ہوں گے وہ سب تو سلیکٹ ہو ہی جائیں گے اور ان کو چھوڑ کر باقی سیٹوں پر مقابلہ ہونا ہے۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ پروفیسر خلیق احمد نظامی نے علی گڑھ میں سول سروسیز کی کوچنگ کا یونیورسٹی میں جب وہ ڈین اسٹوڈنٹ ویلفیئر تھے تو انھوں نے اہتمام کیا تھا جس کو جلا پروفیسر علی محمد خسرو کے وائس چانسلر ہونے کے بعد ملی،وہ غالباً ۱۹۷۷ کا بیچ تھا جس میں سب سے زیادہ علی گڑھ والے مختلف میدانوں میں کامیاب ہوئے تھے۔ پھر پتہ نہیں علی گڑھ کو کس کی نظر لگ گئی اور اس کی کامیابی کی وہ شرح کبھی سامنے نہ آ سکی۔ لیکن بہر حال خوشی کی بات ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ جو علی گڑھ کے کوکھ سے ہی جنمی ہے نے وہ جگہ حاصل کر لی ہے۔
قومی سروسیز میں مسلمانوں کی اس بڑھتی ہوئی حصے داری کے ساتھ ہی ہمیں یہاں یہ عرض کرنا ہے کہ مسلمان بچے اور بچیوں کو محض سول سروسیز کے بڑے مناصب کے لیے ہی کوشش نہیں کرنی چاہیے ، ہمارے وہ بچے جو مشکل سے گریجوئٹ یابارہویں کلاس ہی پاس کر پاتے ہیں انھیں سب آرڈینیٹ اور پولیس کی ماتحت سروسیز کے لیے بھی تیاریاں کرنی چاہئیں کیوں کہ آپ چاہیں نہ چاہیں یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص آئی اے ایس ، آئی پی ایس، آئی ایف ایس اور دوسری مرکزی ملازمتوں میں بھاگیدار بن سکے۔ اسی طرح سب کا منصف اور مجسٹریٹ بننا بھی آسان نہیں ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ آپ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ان سروسیز کے امتحانات نہ دیں لیکن اگر خدا نخواستہ اس میں کامیاب نہیں ہوتے ہیں تو ریاستی زمرے کی ملازمتوں کے لیے جی جان لگا کر کوشش کریں اور کوئی وجہ نہیں کہ آپ کی علمی لیاقت اور جنرل نالج کے ہوتے ہوئے آپ ان میں کامیاب نہ ہوں۔ ہم یہ بات بخوبی جانتے بھی ہیں اور مانتے بھی کہ سرکاری ملازمتوں میں اوپر سے نیچے تک اپنی جگہ بنانا ہمارا قومی فریضہ بھی ہے اس لیے کہ ہم اپنے مادر وطن اور اس کے بسنے والوں کی خدمت کرسکیں ، ان کے کام آ سکیں اور ساتھ میں مذہبی فریضہ بھی کہ ہم انتہائی دیانت ، صیانت اور امانت کے تصورات کے تحت ان مناصب پر اپنی پہچان بنائیں اور اپنے ملک والوں کے بیچ اپنی اور اپنے ہم مذہبوں کی بہتر تصویر پیش کر سکیں۔ اس لیے ہماری ان تمام اداروں اور تنظیموں سے جو ابھی صرف اعلیٰ زمرے کی سروسیز کے لیے تیاریاں کرا رہے ہیں ان سے بصد ادب یہ گذارش ہے کہ وہ نچلے زمرے کی ملازمتوں کے لیے بھی لڑکے اور لڑکیوں کو تیار کرائیں۔
بات جب نکلی ہے اور جامعہ کی حسن کار کردگی اور سول سروسیز امتحانات میں اس کے تقریباً ۳۱ تربیت یافتگان کی کامیابی کی بات ہو رہی ہےتو ایک ایسے شخص کی صورت میں جس نے تقریباً ۳۷ سال سے زیادہ عرصے تک جامعہ کا نمک کھایا ہے اور جس کا اردو سے کوئی پیشہ ورانہ رشتہ تونہیں بلکہ اردو سے اس کا رشتہ وہی ہے جو اس کا اس کی ماں کے دودھ کے ساتھ ہے اسے ذمہ داران جامعہ کی توجہ ا س امر کی طرف ضرور دلانی چاہیے کہ کس طرح سے مکتبہ جامعہ جس کی عمر کے تقریباً سو سال پورے ہوا چاہتے ہیں اور جس میں ایک پبلک لمیٹیڈ کمپنی کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نوے فیصد شیئر ہیں ، اسے اس کی بدحالی پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ مکتبہ جامعہ کا ایک شاندار ماضی رہا ہے ، اردو زبان و ادب اور علم کی کوئی ایسی شاخ شاید ہی رہی ہو جس پر مکتبہ جامعہ نے معیاری اور سستی کتابیں نہ چھاپی، اس سے جو لوگ جڑے رہے ان میں ڈاکٹر ذاکر حسین ، پروفیسر محمد مجیب، ڈاکٹر عابد حسین، خواجہ غلام السیدین ، کرنل بشیر حسین زیدی، مالک رام اور مہتمم یا مینیجر کے طور پر حامد علی خاں، غلام ربانی تاباں اور شاہد علی خاں کے نام شامل ہیں۔ ’پیام تعلیم‘ اور ’کتاب نما‘ کے ذریعے کتنے ہی ذہنوں کی فکری اور علمی آبیاری ہوئی ہے۔ مکتبہ جامعہ کا ہیڈ کواٹر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں رہا تو بمبئی، دہلی کے اردو بازار اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شمشاد مارکیٹ میں اس کی شاخیں علم و ادب کے شائقین کو سیر یاب کرتی رہیں۔ بمبئی میں جو اب ممبئی ہے جب تک شاہد علی خاں رہے مکتبہ جامعہ بمبئی کی علمی و فلمی کہکشاں کا مرکز رہا اور وہ جب دلی آ گئے تو انھوں نے جامعہ میں مکتبہ جامعہ کو اپنی تمام سادگی ، سادہ لوحی کے ساتھ دنیا بھر کے اردو والوں کا ایک مرکز بنا دیا۔ انھوں نے پرانے جامعہ والوں کی طرح سے اپنے آپ کو افسر نہ جان کر ہمیشہ ایک خدمت گار ہی بنائے رکھا۔ یہی حال ان کا لبرٹی آرٹ پریس کے ساتھ تھا۔خیر مکتبہ جامعہ کے بورڈ آف ڈائریکٹرس نے جو سلوک شاہد علی خاں کے ساتھ کیا اس کا کسی پاس کوئی جواز نہیں، بھلا ہو نجیب جنگ صاحب کا جنھوںنے جامعہ کے وائس چانسلر اورمکتبہ جامعہ کے چیرمین کے طور پر پروفیسر خالد محمود کو مینجنگ ڈائریکٹر بنایا اوراپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے شری کپل سبل کی تائید سے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے مکتبہ جامعہ کی کتابوں کی بڑی تعداد کو مفت میں چھپوا کر ایک دفعہ پھر مکتبہ کو زندگی بخشی۔ لیکن اب جس طرح مکتبہ کے بند ہونے کی نوبت آ گئی ہے، اس کے اسٹاف کو تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں، اس کے ملازمین فاقہ کشی سے بدتر مرحلوں میں داخل ہو چکے ہیں ایسا کسی نے کبھی بھی نہ سوچاتھا۔اردو بازار جو کبھی کتابوں کے لیے جاناجاتا تھا اب اس کی پہچان کبابوں کی دکانوں سے ہوتی ہے۔ اردو کے ساتھ یہ برا سلوک تو سرکاروں نے بھی نہیں کیا تھااور اس کا کوئی تصور ایسا بھی نہ تھا کہ مکتبہ جامعہ کے ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ ایسا کرے گی۔ ہماری موجودہ قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر اقبال حسین جو خود اردو والے ہیں،سے یہ عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ مکتبہ جامعہ کو ایک نئی زندگی دینے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ مکتبہ جامعہ کے پاس اپنی ضرورتوں کی کفالت کے لیے اسباب نہ ہوں ، ضرورت صرف اس کی ہے کہ کوئی پختہ ارادے کے ساتھ اس کی داد رسی کے لیے آگے آئے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
عید ایک اہم مذہبی تہوار ہے جسے دنیا بھر کے مسلمان مناتے ہیں۔ یہ رمضان کے مقدس مہینے کے اختتام کی نشاندہی کرتا ہے، جس کے دوران مسلمان صبح سے غروب آفتاب تک روزہ رکھتے ہیں۔ عید بے پناہ خوشی، شکرگزاری اور روحانی عکاسی کا وقت ہے۔ یہ کمیونٹیز کو اکٹھا کرتا ہے، خاندانی رشتوں کو مضبوط کرتا ہے، اور پوری دنیا کے مسلمانوں میں اتحاد کے احساس کو فروغ دیتا ہے۔
رمضان کی پابندی
رمضان، اسلامی قمری کیلنڈر کا نواں مہینہ، مسلمانوں کے لیے انتہائی عقیدت اور خود نظم و ضبط کا وقت ہے۔ اس مہینے کے دوران، مسلمان صبح سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور دیگر جسمانی ضروریات کو عبادت اور طہارت کے طور پر رکھتے ہیں۔ رمضان کے دوران روزہ اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے، اور یہ ضبط نفس، ہمدردی اور شکرگزاری کو فروغ دینے کا ذریعہ ہے۔
قرآن پاک پڑھنا
رمضان المبارک کو بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ وہ مہینہ ہے جس کے دوران اسلام کا مقدس صحیفہ قرآن مجید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ مسلمان اس مقدس مہینے میں قرآن کی تلاوت اور مطالعہ کے لیے خود کو وقف کرتے ہیں، روحانی روشن خیالی اور رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
خیراتی اعمال: زکوٰۃ اور صدقہ
رمضان مسلمانوں کے لیے خیراتی کاموں میں مشغول ہونے کا وقت بھی ہے۔ مسلمان زکوٰۃ دینے کے پابند ہیں، جو ایک واجب صدقہ ہے، جس میں اپنے مال کا ایک حصہ ضرورت مندوں کو دینا شامل ہے۔ دینے کا یہ عمل کسی کی دولت کو پاک کرنے اور معاشرے کے کم خوش قسمت افراد کو مدد فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ مزید برآں، مسلمان اکثر صدقہ کے نام سے جانے والے رضاکارانہ کاموں میں مشغول ہوتے ہیں، جو مختلف شکلیں لے سکتے ہیں جیسے کہ بھوکے کو کھانا فراہم کرنا، یتیم خانوں کی مدد کرنا، یا تعلیمی اقدامات کی سرپرستی کرنا۔
عید کی تیاری
رمضان المبارک کا اختتام نیا چاند نظر آنے سے ہوتا ہے، جو اسلامی مہینے شوال کے آغاز اور عید منانے کا اشارہ دیتا ہے۔ عید سے پہلے کے دنوں میں، مسلمان گھر کی مکمل صفائی ستھرائی اور تہوار کی تیاری میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ نئے کپڑوں کی خریداری کرتے ہیں، اپنے گھروں کو سجاتے ہیں، اور خاندان، دوستوں، اور کم خوش قسمت لوگوں کے ساتھ اشتراک کرنے کے لیے وسیع دعوتوں کا منصوبہ بناتے ہیں۔
عید الفطر: افطاری کا تہوار
عید الفطر، جسے ”روزہ پورے کرنے کا تہوار” بھی کہا جاتا ہے، اسلام کی دو بڑی عیدوں میں سے پہلی عید ہے۔ یہ بے حد خوشی اور جشن کا دن ہے، کیونکہ مسلمان خصوصی دعائیں کرنے، اظہار تشکر کرنے اور اللہ سے برکت حاصل کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ دن کا آغاز اجتماعی نماز سے ہوتا ہے جسے عید کی نماز کہا جاتا ہے، جو مساجد یا بیرونی نماز کے میدانوں میں باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ مسلمان اپنے بہترین لباس میں ملبوس ہوتے ہیں، اکثر روایتی لباس پہنتے ہیں، اور ایک دوسرے کے ساتھ ”عید مبارک” (مبارک عید) کی گرمجوشی سے مبارکباد کا تبادلہ کرتے ہیں۔
دعوت اور اشتراک
عیدالفطر لذیذ کھانوں اور میٹھے پکوانوں سے لطف اندوز ہونے کا وقت ہے۔ خاندان اور دوست تہوار کے کھانے کے لیے جمع ہوتے ہیں، جس میں روایتی پکوان اور خصوصیات شامل ہوتی ہیں جو مختلف ثقافتوں اور خطوں میں مختلف ہوتی ہیں۔ مسلمانوں کا رشتہ داروں اور دوستوں کے گھر جانا، کھانا بانٹنا اور تحائف کا تبادلہ محبت اور اتحاد کی علامت کے طور پر کرنا بھی عام ہے۔
سخاوت کے اعمال
عید الفطر سخاوت اور ہمدردی کے کاموں کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ مسلمانوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ ضرورت مندوں کے لیے خیرات اور مہربانی کا ہاتھ بڑھائیں۔ بہت سے مسلمان اس مبارک موقع پر خوشی اور مسرت لانے کے لیے بچوں اور کم خوش نصیبوں کو ”عیدی” رقم یا تحائف کا تحفہ بھی دیتے ہیں۔
عید الفطر ایک اہم موقع ہے جو اسلام کے جوہر – ایمان، اتحاد اور ہمدردی کو سمیٹتا ہے۔ یہ رمضان کی تکمیل کا جشن ہے، روحانی عکاسی اور خود پرستی کا مہینہ۔ عید مسلمانوں کو اکٹھا کرتی ہے، برادری کے احساس کو تقویت دیتی ہے اور سب کے درمیان محبت اور ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہے۔ عبادت، خیرات اور اشتراک کے عمل کے ذریعے، مسلمان ان نعمتوں کی یاد مناتے ہیں جو انہیں عطا کی گئی ہیں، جبکہ اس بات کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ معاشرے کے کم خوش نصیب افراد تہوار کی خوشی میں شریک ہوں۔
تعلیمی سفر اکثر ہماری زندگی کے ابتدائی سالوں میں شروع ہوتا ہے؛لیکن اگر اِرد گِرد کا ماحول تعلیمی ہو تو یہ سلسلہ کب شروع ہوتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا، خوش قسمتی سے میری پرورش بھی ایک ایسے ماحول میں ہوئی، جہاں تعلیم ہماری زندگی کا صرف حصہ ہی نہیں تھا؛ بلکہ زندگی جینے کا طریقہ بھی تھا۔ میں نے ایسے لوگوں کے درمیان آنکھیں کھولیں جو علم دوست لوگ تھے، انھوں نے علم کی سرپرستی کی۔ میرا بچپن ایسی دو نسلوں کی یادوں سے معمور ہے جنھوں نے ملک و بیرون ممالک، حکومتی و غیر حکومتی ہر دو سطح پر علم کی خدمت کی ہے، پھر وہ چاہے دینی علوم ہو یا عصری ہر دو سے انھوں نے وافر حصہ پایا اور اس کی اشاعت و آبیاری میں اہم کردار ادا کیا ، تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ میری تعلیم کا آغاز تو بہت پہلے سے ہی ہو گیا تھا لیکن رسمی تعلیم کی ابتدا "جامعۃ الحبیب مولانگر "سے ہوئی، اسی مدرسہ کی علمی گود میں میں نے شعور کی آنکھ کھولی اور وہیں کی پاکیزہ فضاؤں میں علمی سفر کا پہلا پراؤ طے کیا، اور اس تحریر میں اسی ادارے کا ذکر مقصود ہے، جسے میرے خانوادہ کے ہی ایک عالی مقام، بلند ہمت اور دلِ درد مند رکھنے والے جلیل القدر عالم دین نے اپنے خون جگر سے سینچا ہے ۔
جامعۃ الحبیب شمالی بہار کے ضلع سیتامڑھی میں پوپری سب ڈویژن سے چند کلومیٹر فاصلے پر واقع ایک مردم خیز بستی "مولانگر "میں بطور منارہ علم و عرفان قائم ہے، یہ ادارہ اپنے اعلی معیار تعلیم و تربیت، سرسبز و شاداب جائے وقوع، پاکیزہ ماحول اور خوش سلیقگی و نفاست کا مظہر دیدہ زیب عمارت کی وجہ سے ملحقات و مضافات میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے اور حفظ قران کے لیے ترجیحی مدارس میں سر فہرست ہے۔
آج سے 25 سال قبل عم مکرم جناب حضرت مولانا مہتاب عالم صاحب قاسمی حفظہ اللہ کو ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا خیال آیا، جہاں قرآن کی تعلیم، صحت مخارج اور تجوید کی رعایت کے ساتھ دی جا سکے ۔ چنانچہ 1999 میں محترمہ زبیدہ خاتون کے دالان میں ایک مکتب کا آغاز کیا گیا۔ الحمدللہ اس مکتب کے اولین فیض یافتگان میں خاندان کے دیگر بچوں کے ساتھ میرا نام بھی آتا ہے ۔
ہردوئی کے طرز پر قائم یہ ادارہ بنیادی دینی و قرآنی تعلیم کا سب سے معیاری، مؤثر، منفرد اور بامقصد پہلا مکتب تھا ،جس نے قرآن کریم کی درست اور کما حقہ تعلیم کا پوری دیانت داری سے اس وقت اہتمام کیا ،جب اس طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی تھی،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گاؤں میں چل رہے دوسرے مکتب کے طلبہ و طالبات بھی اس مکتب کا رخ کرنے لگے۔
مقامی اور اطراف و اکناف کے طلبہ کی ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے سال ڈیڑھ سال کے اندر ہی دالان سے متصل مشرقی حصے میں ایک جگہ پہ بانس اور پھوس کی مدد سے ایک وسیع ہال بنایا گیا ، پھر غالبا 2001 میں مولانا عبدالمنان صاحب مدظلہ اللہ العالی( مہتمم مدرسہ امدادیہ اشرفیہ راجو پٹی) کے ہاتھوں دو کمرے پر مشتمل ایک پختہ عمارت کی بنیاد رکھی گئی اور اس مکتب کا نام "مدرسہ دارالقران والسنہ ” رکھا گیا۔ قرآن کریم، نورانی قاعدہ کے ساتھ اردو، دینیات، ریاضی انگریزی اور ہندی کے درجات کا بھی اضافہ کیا گیا۔ اور پہلے استاد کے طور پر حافظ ارشد صاحب پھلوریہ پھر حافظ رضوان صاحب پھلوریہ کا تقرر عمل میں آیا اور علوم عصریہ کی تعلیم کے لیے والد محترم سرفراز عالم اور ماسٹر مشہود اعظم گوہر (سابق مدرس مدرسہ عزیزیہ پوپری) کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ وقتا فوقتا حسب ضرورت اساتذہ کی تقرری کا عمل جاری رہا اور یہ غیر اقامتی ادارہ روز بروز تعلیمی اور تعمیری اعتبار سے ترقی کی راہ پر گامزن رہا جو کہ تاہنوز رواں دواں ہے۔
یہ مکتب اپنے روز قیام سے ہی عام روایت اور فرسودگی و پسماندگی سے ہٹ کر ایک نئی اور مؤثر راہ پر گامزن رہا، طلبہ کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے تقسیم انعامات کا سالانہ پروگرام منعقد کیا جاتا تھا، یہاں نظم و نسق اور ذہنی و جسمانی نشو نما پر خاص توجہ دی جاتی۔ درسیات میں اعلی نمبرات حاصل کرنے، صاف ستھرا رہنے، سبق کی پابندی کرنے، اور اسی طرح کھیل کود اور تقریری مقابلے میں بہترین کارکردگی پیش کرنے والے طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں مختلف تشجیعی انعامات سے نوازا جاتا۔ تعلیم و تربیت اور متنوع و مفید سرگرمیوں کی وجہ اس ادارے کو ایسی مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی کہ پورے خطے میں اسی کے تذکرے ہونے لگے۔
بہار آئی،کھلے گل، زیبِ صحنِ بوستاں ہو کر
عنادل نے مچائی دھوم سرگرمِ فغاں ہو کر
بانی مدرسہ حضرت مولانا مہتاب عالم صاحب قاسمی( شیخ الحدیث جامعہ ابوالفضل جوہاپورہ، احمد آباد گجرات) ، وقار العلماء محدث جلیل حضرت مولانا حبیب اللہ صاحب (المتوفی 2003) کے دست گرفتہ تھے اور ان سے اصلاحی تعلق اور قلبی لگاؤ تھا ۔ 2002 میں حضرت فیروز پوری کی طرف منسوب کر کے اس کا نام "جامعۃ الحبیب ” رکھ دیا گیا۔
2004 میں بانی مدرسہ کے شاگرد خاص مولانا محفوظ عالم قاسمی بطور ناظم مدرسہ متعین ہوئے( آپ باصلاحیت عالم دین، سنجیدہ، با اخلاق اور انتظامی صلاحیتوں سے متصف ہونے کے ساتھ ساتھ ادارہ کے تئیں انتہائی مخلص ہیں)۔
اب تک یہ ایک غیر اقامتی ادارہ تھا ؛ لیکن 2005 میں اقامتی طلبہ کا داخلہ شروع ہوا اور اسی سال شعبان 1426 ہجری مطابق 2005 عیسوی میں تحفیظ القرآن کی درسگاہ کا بھی آغاز ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں کے اندر ہی پورے علاقے میں عمدہ لب لہجہ سے قرآن پڑھنے والے حفاظ کی بہار سی آگئی اور انکی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا، اور یہ سلسلہ الحمدللہ آج بھی جاری ہے۔
مستقل مسجد نہ ہونے کی وجہ سے نماز پنجگانہ کے لیے مدرسہ میں موجود ایک ہال کو وقتی مصلی کی شکل دے دی گئی تھی؛ لیکن طلبہ کی بڑھتی تعداد کے مد نظر ایک مسجد کی اشد ضرورت تھی اور پھر اللہ نے اس کے اسباب بھی مہیا کر دیے ۔ 2020 میں علاقے کے علماء کے ہاتھوں ایک وسیع مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا ، جو بعض اہل ثروت کے تعاون اور اہل علاقہ کے جزوی تعاون سے ڈیڑھ سال کے اندر ہی مسجد مکمل طور پر نمازیوں کے لیے تیار ہو گئی، 15 جون 2022 کو الحاج حافظ محمد ادریس( احمد آباد گجرات)، ڈاکٹر ابوالکلام شمسی قاسمی اور دیگر بزرگوں کی موجودگی میں تقریب افتتاحِ مسجد کا انعقاد ہوا اور اسی دن نماز ظہر کی ادائیگی کے ساتھ مسجد کا باضابطہ افتتاح ہو گیا۔
اس مدرسہ میں روز اول سے ہی مقامی بچیوں کے لیے بھی درجہ بندی کے ساتھ دینیات و علوم عصریہ اور فارسی و عربی کی ابتدائی تعلیم کا نظام تھا؛ لیکن گزشتہ چند برسوں سے عوام الناس میں لڑکیوں کو علوم دینیہ سے آراستہ کرنے کے بڑھتے رجحانات کے پیش نظر 2022 میں درس نظامی کے مطابق فضیلت تک معیاری تعلیم کے مستحکم نظام کا بھی الحمدللہ آغاز ہوگیا ۔
جامعۃ الحبیب نے اپنے اعلی معیار تعلیم و تربیت کی وجہ سے جس طرح قلیل مدت میں مقبولیت حاصل کی تھی، آج بھی اسی طرح حضرت مہتمم صاحب اور دیگر مخلص اساتذہ کی نگرانی میں مصروف عمل ہے اور ترقی کے مدارج طے کر رہا ہے۔ ان شاء اللہ مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
زبان برگ گل نے کی دعا رنگین عبارت میں
خدا سرسبز رکھے اس چمن کو مہرباں ہو کر
جامعۃ الفلاح اعظم گڑھ کی مجلس منتظمہ کے اجلاس سے فارغ ہوئے تو پروگرام بنا کہ دہلی واپسی کا سفر بنارس ہوتے ہوئے شروع کیا جائے – وہاں کی جامع مسجد گیان واپی 31 جنوری 2024 کو مقامی عدالت کے ایک فیصلے کی وجہ سے پھر سرخیوں میں آگئی ہے – عدالت نے مسجد کے تہہ خانے میں ہندوؤں کو پوجا کرنے کی اجازت دے دی اور انتظامیہ نے راتوں رات اس کی تعمیل کرتے ہوئے وہاں مورتی نصب کروادی اور اسے پوجا کے لیے کھلوادیا – مناسب سمجھا گیا کہ وہاں کا براہ راست معاینہ کرلیا جائے اور انجمن انتظامیہ مسجد کے ذمے داروں سے ملاقات کرکے کیس کی تفصیلات جان لی جائیں اور انہیں تسلّی دینے کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کروائی جائے –
ہندوستان میں مسلمانوں کی تین مسجدیں شرپسندوں کے نشانے پر رہی ہیں – بابری مسجد ایودھیا کے انہدام اور وہاں رام مندر کی تعمیر کے بعد اب ان کے حوصلے بلند ہیں اور متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد اور وارانسی کی جامع مسجد گیان واپی ان کے نشانے پر ہیں – مشہور ہے کہ جامع مسجد گیان واپی مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر نے سترھویں صدی میں ایک ہندو مندر توڑ کر تعمیر کروائی تھی ، لیکن تاریخی طور پر یہ بات ثابت نہیں ہے ۔ بعض مصادر سے معلوم ہوتا ہے کہ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے عہدِ حکومت میں بھی یہ مسجد موجود تھی –
ہمارا وفد جناب ٹی ، عارف علی ، قیّم جماعت (سربراہِ وفد ) ، جناب محمد شفیع مدنی سکریٹری جماعت ، ڈاکٹر ملک فیصل امیر جماعت اسلامی ہند حلقۂ اترپردیش (مشرق) ، جناب مجتبیٰ فاروق رکن مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اور راقم سطور پر مشتمل تھا – جماعت کے مقامی ذمے داروں ( عزیزی نقیب عالم ، عزیزی عارف وغیرہ) نے انجمن انتظامیہ مسجد کے عہدہ داروں سے وقت لے لیا تھا – ہم مولانا محمد یٰسین جوائنٹ سکریٹری کے دولت کدہ پر حاضر ہوئے – وہیں مسجد کمیٹی کے سکریٹری مفتی عبد الباطن نعمانی آگئے – مولانا محمد یٰسین کی عمر 78 برس ہے ، لیکن وہ ہمّت و حوصلہ سے بھرپور نظر آئے – انھوں نے ہمارے سامنے بہت تفصیل سے مسجد کی تاریخ ، شرپسندوں کی حرکتیں ، اس کے بارے میں دائر کیے جانے والے مقدمات اور ان کی پیش رفت اور حالیہ واقعہ کی جزئیات بتائیں کہ کس طرح مقامی عدالت کے جج نے اپنی ملازمت کے آخری دن مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دے دی اور انتظامیہ کو سات دنوں کے اندر اس کی سہولت فراہم کرنے کو کہا – جب اس سلسلے میں ڈی ایم سے رابطہ کیا گیا تو اس نے تسلّی دی کہ ابھی ایک ہفتے کا وقت ہے ، آپ لوگ پریشان نہ ہوں ، لیکن دوسری طرف چند گھنٹوں میں ہی بیریکیٹس ہٹوادیے اور حفاظتی گھیرے کی سلاخیں کٹواکر تہہ خانے میں مورتی نصب کروادی اور اسے پوجا کے لیے کھول دیا – انھوں نے فرمایا کہ اس غلط اور توہین آمیز فیصلے کے باوجود مسلمان احتیاط سے کام لے رہے ہیں اور نوجوانوں کو سمجھا رہے ہیں کہ کوئی جذباتی اقدام نہ کریں – انھوں نے بتایا کہ ہم قانونی اقدامات کر رہے ہیں اور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے رجوع کررہے ہیں – قیم جماعت نے انتظامیہ کمیٹی کی کوششوں کی ستائش کی اور جماعت کی طرف سے بھرپور تعاون کا وعدہ کیا –
ہم لوگوں نے بعد میں مسجد گیان واپی میں حاضری دی اور وہاں ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کیں – مسجد پہنچے تو وہاں پولیس کی سخت سیکورٹی تھی – ہر آنے والے کی تلاشی لے کر اندر جانے دے رہے تھے – موبائل ساتھ میں لے جانے کی اجازت نہیں تھی ، سو اسے ہم لوگوں نے قریب کی ایک دکان میں رکھ دیا تھا – ہم نے دیکھا کہ مسجد اور مندر کی عمارتیں متصل ہیں – ہمارے ساتھیوں نے بتایا کہ اطراف میں بہت سی دکانیں تھیں ، انہیں خرید کر مندروں کی نئی نئی اونچی عمارتیں تعمیر کرلی گئی ہیں – چنانچہ پورا علاقہ مندر کمپلیکس معلوم ہوتا ہے ، جس کے درمیان میں مسجد آگئی ہے ، جسے چاروں طرف سے لوہے کے پائپس سے گھیر دیا گیا ہے ، جیسے پنجرہ ہوتا ہے۔ مسجد میں مفتی عبد الباطن صاحب اور مسجد کے امام اور مؤذن سے ملاقات ہوئی۔ مسجد اونچائی پر بنی ہوئی ہے۔ اس کے کئی تہہ خانے ہیں۔ مندر سے متّصل تہہ خانے کو مندر کی طرف سے کھول دیا گیا ہے اور اس میں مورتی نصب کردی گئی ہے۔ صحن کے درمیان میں حوض ہے ، کبھی یہ وضوخانہ تھا ، لیکن چند ماہ قبل اس کے فوّارے کو ‘شیو لنگ’ بتاکر اس میں تالا ڈلوادیا گیا ہے اور اس کی نگرانی کے لیے سیکورٹی کے افراد متعین کردیے گئے ہیں۔ نماز مغرب سے کافی پہلے مسجد میں بہت سے نوجوان نظر آئے۔ ان سے گفتگو کرکے اندازہ ہوا کہ وہ مسجد کی حفاظت کے لیے چوکس ہیں ، اسی لیے بڑی تعداد میں ہر وقت وہاں موجود رہتے ہیں۔
تھوڑی دیر مسجد میں وقت گزار کر ہم باہر نکل آئے۔ اس وقت ہماری زبان پر یہ دعائیہ کلمات جاری تھے کہ اللہ تعالیٰ دست غیب سے اس مسجد کی حفاظت کے اسباب پیدا فرمائے اور مسلمانوں کو عزّت و وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ، یا رب العالمین۔
کیا اب اسکولی بچوں اور بچیوں کا ہی فرض رہ گیا ہے کہ وہ اردو زبان کو بچائیں؟ یہ سوال ممبئی کے اردو کتاب میلہ کے تناظر میں ہے ۔ میں میلے میں جب پہنچا اسکولوں کے بچوں اور بچیوں کو مختلف اسٹالوں پر جاتے اور کتابوں کی خریداری کرتے پایا ۔ ان بچوں نے باقاعدہ اپنے جیب خرچ کے پیسے کتابوں کی خریداری کے لیے جمع کیے اور اپنی اپنی پسند کی کتابیں حاصل کیں ۔ کئی بچوں نے بالخصوص بچیوں نے پانچ پانچ سو روپیے کی کتابیں خریدیں، ظاہر ہے کہ یہ اسکول کے بچوں کے لیے ایک بڑی رقم ہے ، لیکن بچوں نے کتابوں پر یہ رقم خوشی خوشی خرچ کی ۔ بی کے سی تک پہنچنا ایک طرح سے آگ کا دریا عبور کرنا ہے کیونکہ ممبئی کے مرکز میں ہوتے ہوئے بھی یہ ممبئی سے کٹا ہوا علاقہ ہے، کتاب میلے کا گراؤنڈ جہاں ہے وہاں تک آٹو رکشہ ہی سے پہنچا جا سکتا ہے، اگر بیسٹ کی سروس کا استعمال کیا جائے تو گراؤنڈ کو تلاش کرکے وہاں تک پہنچنا آسان نہیں ہے، اس دشواری کے باوجود اسکولوں سے بچے آئے ، اور کئی اسکولوں کے منیجمنٹ نے بسیں کرائے پر لے بچوں کو بھیجا ۔ یقیناً یہ اسکولوں کے مینجمنٹ اور طالب علموں کی اپنی زبان سے محبت ہے جو انہیں اپنے ٹھکانوں سے بی کے سی کے دور دراز میلے تک لے آئی ، ان سب کا بہت بہت شکریہ ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف بچوں ہی کے ذمے یہ فرض ہے؟ کیا ٹیچروں، اسکولوں میں تعلیم دینے والوں، ادیبوں اور شاعروں پر، اور بے شک صحافیوں پر ایسی کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟ میں اب تک جب بھی میلے میں گیا تو پایا کہ بہت سے ادیب، شاعر، اساتذہ کرام اور صحافی حضرات این سی پی یو ایل کے پروگرام میں شریک تو ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر وہیں سے واپس، چائے ناشتہ کر کے اور اپنا نذرانہ وصول کر کے، گھر کی جانب منھ کرلیتے ہیں، میلے کی جانب پیٹھ ہوتی ہے اور کتابیں خریدنا تو دور کتابوں کے اسٹالوں کی جانب دیکھتے تک نہیں ہیں ۔ اور جو اسٹالوں کی جانب جاتے بھی ہیں، انہیں کتابیں خریدنے سے زیادہ لوگوں سے ملنے کی چاہ ہوتی ہے، یقیناً یہ طریقہ اردو دشمنی کا ہے ۔ کیوں ہم اپنی ذمہ داری دوسروں پر، وہ بھی بچوں پر تھوپ رہے ہیں، کیوں ہم کتاب دوستی سے دور بھاگ رہے ہیں، کیوں ہم اور ہمارے ادارے بے حس بنے ہوئے ہیں اور کیوں ہم نے کتابیں خریدنا، تحفے میں دینا بند کر دیا ہے؟ کتنے سوال ہیں مگر ہمارے پاس کسی کا کوئی جواب نہیں ہے ۔ آج میلے کا آخری دن ہے، کم از کم آج تو آپ سب اردو زبان سے اپنی چاہت کا اظہار کریں اور کتاب میلے میں پہنچ کر، ان سے جو مہمان بن کر شہر ممبئی کتابیں لے کر پہنچے ہیں، کتابیں خریدیں ۔ کچھ تو اپنی ذمہ داری محسوس کریں، کچھ تو اپنا فرض ادا کریں ۔
شادی بیاہ میں غیر اسلامی رسم و رواج کی اصلاح میں ناکامی کے اسباب – عبدالعلیم بن عبدالعظیم الاعظمی
اس وقت ہندوستان میں مسلم معاشرہ جن مسائل سے دو چار ہے، ان میں سے ایک بڑا مسئلہ شادی میں غیر اسلام رسوم و رواج کا در آنا ہے، اگر یہ چیزیں محض رسوم و رواج تک رہتی تو شرعا اس کی گنجائش بھی نکل سکتی تھی، لیکن ان رسوم و رواج میں بعض ؛ بلکہ اکثر وہ ہیں جو ہندو معاشرہ سے مسلمانوں میں چلی آئیں، مسلمانوں نے ان رسوم و رواج پر اتنی سختی سے عمل کرنا شروع کردیا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دین کا حصہ ہے اور اسلام کا طریقہ ہے۔اسلام ایک فطری مذہب ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ کو اپنے تخلیق کردہ انسانوں کی فطرت کا بخوبی علم ہے، اسلام نے برائی کو مٹانے کے لیے "نکاح” کا حکم دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے نکاح کو آسان قرار دیا ہے؛ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی زندگیوں میں اس بات کا عملی نمونہ ملتا ہے۔ اسلام کے خیر القرون ؛ بلکہ آج بھی اسلامی ممالک کا جائزہ لیں تو نکاح آسان ہی ہے۔ مذہب اسلام نے نکاح کے لیے دو گواہ کو ضروری قرار دیا ہے،البتہ اعلان کا مشورہ دیا ہے؛ تاکہ تمام لوگوں کو علم ہوجائے، مرد پر مہر لازم ہے۔اس کے علاوہ مرد کے لیے ولیمہ کرنا سنت ہے، ضروری بھی نہیں، اسلام نے ہر شخص کو اپنی استطاعت کے مطابق ولیمہ کا حکم دیا ہے حتی کہ رسول اللہ نے فرمایا ولیمہ کرو اگرچہ صرف کھجور سے ہو۔
اسلام نے شادی کو اتنا آسان بنایا ہے؛ لیکن آج مسلم معاشرہ میں شادی سب سے زیادہ مشکل ہوگئی ہے، ایک بیٹی کی شادی کرنے کے لیے باپ دسیوں سال کی پونجی جمع کرنی پڑتی ہے، قرض لینا پڑتا ہے اور پھر پوری زندگی قرض اتارنے میں گذر جاتی ہے، معاشرہ کا ہر دوسرا شخص ان رسوم و رواج کو ختم کرنا چاہتا ہے، ہر شخص کے دل میں تمنا ہے کہ یہ رسوم و رواج ختم ہوں، محنت کمائی یوں پل بھر میں بغیر مقصد کے خرچ کرنا کوئی نہیں چاھتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہمیں اس کی اصلاح میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، معاشرہ میں اصلاح معاشرہ کے طرح طرح کے پروگرامات ہوتے ہیں لیکن اس کا ایک فیصد رزلٹ نہیں نکلتا ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کے اسباب کیا ہیں ؟ کیوں ہم معاشرہ کی اصلاح کرنے میں بری طرح ناکام ہیں ؟ یاد رکھیں شادی وغیرہ میں آسانی ہر شخص چاہتا ہے، کسی معاشرہ کے سو افراد کو آپ جمع کریں اور ایک ساتھ ان سے شادی بیاہ میں آسانی کرنے کا مشورہ لیں، تو ممکن ہیں کہ نوے فیصد افراد مروجہ شادی ہی کی تائید کریں،لیکن انہیں افراد سے جب فردا فردا رائے طلب کی جائے گی تو مروجہ شادی کے سخت مخالف ہوں گے۔ یہ ایک نفسیات مسئلہ ہے،ہر شخص چاہتا ہے کہ سادگی سے شادی ہو،لیکن انا کا مسئلہ آجاتا ہے، غریب شادی کرے گا، تو لوگ مذاق اڑائیں گے،مجبوری باور کرائیں گے،امیر کے دل میں بھی اگر سادگی کی شادی بیٹھ جائی گی تو اس کو غیرت آئے گی کہ محلے پڑوس کی لڑکیوں کی شادیوں میں اس نے بڑھ چڑھ کر کھایا پیا ہے، اب جب کھلانے کی بات آگئی ہے تو سادگی کی شادی کررہا ہے، بعید نہیں ہے کہ لوگ بخیل اور نہ جانے کیا کیا کہیں۔ یاد رکھیں یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے اگر کسی معاشرہ میں سو گھر ہیں اور دس گھر سادگی کے ساتھ شادی کرنے لگے تو باقی میں سے اکثر خود بخود سادگی سے کرنا شروع کردیں گے، لیکن اگر کسی معاشرہ کے 95 فیصد لوگوں کی شادی میں غیر اسلامی رسوم و رواج رہتی ہے تو باقی کے پانچ فیصد لوگ جن کے دل میں سادگی کے ساتھ شادی کا تصور ہے بعید نہیں ہے کہ معاشرہ کے دباؤ کی وجہ سے وہ ابھی اسی طرح شادی کریں۔
بات طویل ہوری ہے،بندہ اپنے اصل پوائنٹ کی طرف واپس آتا ہے، اور ناکامی کے اسباب تلاش کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرہ میں جن لوگوں کی حیثیت رہنما رہبر اور دینی قائد کی ہے، اور جو لوگ معاشرہ کی اصلاح کرتے ہیں، خواہ جلسہ جلوس کے ذریعہ ہو یا مسجد کے ممبر کے ذریعہ ہو۔ یہ عظیم کام علما کا طبقہ انجام دیتا ہے۔ برابر مسجد کے منبر کے ذریعہ، اصلاح معاشرہ کے اسٹیج سے ان رسوم و رواج کے خلاف اوآز اٹھائی جاتی ہے، اسلام کے نظام نکاح سے واقف کرایا جاتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ علماء کی یہ باتیں مؤثر نہیں ہوتی ہے، معاشرہ پر ایک فیصد عمل نہیں ہورہا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ اصل بات یہ کہ انسان قول سے زیادہ عمل سے متاثر ہوتا ہے، کوئی بات آپ دس مرتبہ سمجھائیں، ممکن ہے بات سمجھ میں نہ آئے، لیکن عملی طور پر اسے پہلی مرتبہ میں سمجھ آجائے گی۔ قول اور عمل میں یکسانیت ضروری ہے۔ الفاظ میں تاثیر کے لیے خلوص کے ساتھ ساتھ قول و عمل میں یکسانیت بھی ضروری ہے۔ عوام کے سامنے ان رسوم و رواج کو ترک کرنے پر زور دیا جاتا ہے؛ لیکن جب عوام انہیں مصلحین کو دیکھتی ہے کہ وہ ان رسوم و رواج سے جڑے ہوئے ہیں تو ان کی سنی اَن سنی کردیتی ہے۔ آئیے ہم دیکھتے ہیں علماء ممبر سے جو باتیں کہتے ہیں کیا اس پر عمل کرتے ہیں۔ ان کے قول و عمل میں کتنا تضاد ہے۔
1۔ علماء جہیز وغیرہ کو سماجی ناسور کہتے ہیں؛ لیکن خود جہیز لیتے ہیں(اکثریت کے اعتبار سے ہے،باقی استثناء ہر چیز میں رہتا ہے۔)
2۔علماء میں سے پچاس فیصد یا اس سے زیادہ ایک بڑی تعداد میں بارات لیکر جاتے ہیں۔
3۔ باقی علماء خود کی بارات تو بہت مختصر لے جاتے ہیں، چائے پانی پر صرف نکاح کرتے ہیں، لیکن دوسروں کی بارات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں خواہ تعداد کتنی ہی زیادہ ہو، خواہ کھانے کے نام پر لڑکی والوں پر کتنا ہی ظلم کیا جائے۔
3۔ علماء کی ایک بڑی تعداد لڑکیوں کے نکاح میں بھی دعوت کا اہتمام کرتی ہے، جو کہ سراسر اسراف ہے، اسلام کا نظام یہ ہے کہ لڑکے کے والوں کی طرف سے چند لوگ آئیں اور نکاح کرکے چلے جائیں، باقی ولیمہ لڑکے کے ذمہ ہے۔ لڑکی کی طرف سے جو دعوت دی جاتی ہے اس کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے، یہ ایک ہندوانہ رسم و رواج ہے۔
4۔ بعض متقی علماء جب اپنی گھر کی لڑکیوں کے شادی کرتے ہیں تو بہت ہی سادگی کے ساتھ کرتے ہیں، بالکل اسلامی طریقے پر، لیکن جب اسی معاشرہ میں لڑکیوں کی شادی غیر اسلامی طریقے پر ہوتی ہے تو اس میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، جب ایک چیز غلط ہے تو اس میں حصہ لینا کیسے درست ہے ؟
5۔ شادی بیاہ میں بہت سی ہندوانہ رسم و رواج مثلا ہلدی، مڑوہ وغیرہ کی تقریب ذوق و شوق سے خود عالم و علماء کے گھرانے میں منعقد کی جاتی ہے۔
6۔ ہمارے جو علماء بارات وغیرہ میں نہیں جاتے وہ بھی نکاح کے نام پر اصراف والی شادیوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہیے ؟
اگر ہم واقعی معاشرہ سے غیر اسلامی رسوم و رواج کو ختم کرنا چاہتے ہیں، تو اسلامی طریقہ پر ہمیں شدت سے عمل کرنا چاہیے، اس سلسلے میں ہمارا طرز عمل دو ٹوک ہو، مصلحت کے نام پر ہمیں بالکل غیر اسلامی طرز پر منعقد شادیوں میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں ہمارا لائحہ عمل کچھ ایسا ہونا چاہیے ۔
1۔ جہیز ہم سختی سے نہ لیں۔
2۔ جن لوگوں کے متعلق معلوم ہو کہ وہ جہیز باقاعدہ طلب کررہے ہیں ان کے ولیمہ تک میں شریک نہ ہوں۔
3۔ نکاح کے لیے چند افراد کو ساتھ لیں جائیں، مختصر چائے پانی کے ساتھ نکاح کیا جائے،ممکن ہو تو نکاح مسجد میں کیا جائے۔
4۔ جو لوگ بڑی تعداد میں نکاح کے لیے بارات لے جارتے ہیں، ان کی بارات میں شریک نہ ہوا جائے، اسی طرح جن کے نکاح میں مختلف طرح کے لوازم ہو، کھانے وغیرہ کا انتظام ہو، لمبی چوڑی دعوت ہو ایسی بارات میں بھی شرکت نہ جائے۔
5۔ لڑکی کی طرف سے جو لمبی چوڑی دعوت ہوتی ہے، اس میں بالکل ہی شرکت نہ کی جائے۔
6۔ جس نکاح میں بڑی تعداد میں بارات آئے، یا پھر لڑکی کی طرف سے لمبی چوڑی دعوت کا اہتمام کیا جائے،ایسی جگہ نکاح نہ پڑھایا جائے، اگر تعلقات کی وجہ سے نکاح پڑھایا جائے تو کھانا وغیرہ نہیں کھایا جائے۔ (بعض متقی علماء ایسا ہی کرتے ہیں۔)
7۔ علماء اپنے ماتحت لڑکیوں کا نکاح سادگی کے ساتھ کریں، لمبی چوڑی دعوت کا اہتمام نہ کریں۔
سنیچر کے روز میں بی کے سی گیا تھا ’ اردو کتاب میلہ ‘ میں ۔ کوئی ۱۸۰ کے قریب اسٹال ہیں ! اردو زبان کی کتابوں کے اتنے سارے اسٹال دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی ، اطمینان ہوا کہ اردو زبان زندہ ہے اور زندہ رہے گی ۔ اطمینان کا ایک سبب اور تھا ، پبلشروں کا کتابوں کی پرنٹنگ کے لیے جدید ٹکنیک کا اپنانا ۔ کئی اسٹالوں پر ، جیسے ’ پاریکھ بک ڈپو ‘ اور ’ حرا ‘ پر ( یہ دونوں اُس لکھنئو کے ادارے ہیں اردو زبان جہاں کبھی راج کرتی تھی ) ایسی کتابیں نظر آئیں جو خاص اُن افراد کے لیے جو اچھی ، معیاری اور کمیاب و نایاب کتابوں کے شوقین ہیں ، جدید ٹکنیک کا استعمال کر کے ، خوب صورت انداز میں شائع کی گئی ہیں ، ان کے سرورق جاذب نظر ہیں اور ان کتابوں میں استعمال کیا جانے والا کاغذ مضبوظ اور سفید ہے ، اور وزنی بھی نہیں ہے ۔ یہ کتابیں بہت زیادہ تعداد میں شائع نہیں کی گئی ہیں ، کم تعداد میں ہی شائع کی گئی ہیں ، لیکن اس کے پیش نظر یہ حکمت ہے کہ کتابیں جلد ختم ہوں تو مزید چھاپ لی جائیں ۔ اب پرنٹنگ کا عمل آسان سے آسان ہو گیا ہے ، لہذا اس ٹکنیک کو ، جسے ’ پرنٹ آن ڈیمانڈ ‘ کہا جاتا ہے اپنانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ زیادہ تعداد میں کتابیں چھاپ لی جائیں ، اور کتابوں کا ڈھیر پڑا رہے اس سے بہتر ہے کہ کم تعداد میں کتابیں شائع کی جائیں اور ڈیمانڈ ہونے پر مزید ایڈیشن شائع کیے جائیں ۔ انگریزی زبان کے کئی پبلشر اب اس ٹکنیک کا استعمال کر رہے ہیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب قطئی نہیں ہے کہ ہر کتاب اسی ٹکنیک سے شائع کی جائے ، نہیں اس ٹکنیک کا استعمال کم یاب اور نایاب کتابوں کی یا ایسی کتابوں کی اشاعت کے لیے ہی مناسب ہے ، جن کے کم فروخت ہونے کا امکان ہو ۔ میلے میں بمشکل ایک گھنٹہ رکنا ہوا ، بہت سے کتابیں دیکھیں ، مَن للچایا ، اسے سمجھایا کہ ابھی میلہ کئی دن چلے گا ، آئندہ یہ کتابیں لے لیں گے ۔ لیکن ایک ڈر ہے کہ کہیں مَن پسند کتابیں بِک نہ جائیں ! تورات ، زبور اور انجیل کے اردو ترجمے دیکھے ، تلمود ( پارسیوں کی مذہبی کتاب ) کا اردو ترجمہ نظر آیا ، ٹالسٹائی کے مشہور زمانہ ناول ’ جنگ اور امن ‘ کا مرحوم حمید شاہد صاحب کا کیا ہوا ترجمہ بھی میلے میں دیکھا ، اجمل کمال کے مشہور ادبی پرچے ’ آج ‘ کے تین نئے شمارے ایک ساتھ اس میلے کی مناسبت سے آ گیے ہیں ۔ ناولوں ، شعری مجموعوں ، طرح طرح کے کلیات ، مذہبی کتابوں ، تفاسیر اور احادیث کی مشہور کتابوں ، بچوں کا ادب ، تراجم ، نصاب سے متعلق کتابوں اور نہ جانے کتنے ہی موضوعات پر کتابوں سے اس میلے کے اسٹال پَٹے پڑے ہیں ، اور اپنے خریداروں کے منتظر ہیں ۔ میلے میں ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کا قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ بھی نظر آیا جو ابھی ابھی شائع ہو کر آیا ہے ، اور لوگ اسے پسند کر رہے ہیں ۔ اس میلے میں عبدالسلام خان قاسمی بھی اپنی کم یاب اور نایاب کتابوں کے ساتھ موجود ہیں ۔ بس درخواست یہی ہے کہ لوگ موقعے کا فائدہ اٹھا لیں ۔ میں جب پہنچا تب افتتاحی تقریب ختم ہو چکی تھی ، اکثر لوگ جا چکے تھے ، اسکولی بچے موجود تھے ، لیکن کتابیں خریدنے والے کم تعداد میں تھے ، شاید اتوار کو تعداد میں اضافہ ہو ۔ میلے میں حضرت مولانا عمرین محفوظ رحمانی سے ملاقات ہوئی ، حضرت مالیگاؤں سے صبح ہی صبح آ گیے تھے ، اور کتابیں خرید رہے تھے ۔ مولانا کتابوں کے شوقین ہیں ، اور میں نے کم ہی ایسے شوقین دیکھے ہیں ، ان کے لیے کوئی موضوع ممنوع نہیں ہے ، علم جہاں سے ملے بٹور لیتے ہیں ۔ حضرت نے کتنے روپیے کی کتابیں لیں یہ تو نہیں پتہ لیکن کتابوں کی تعداد دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ کئی ہزار ( یہ ہزار پانچ فیگر والا ہے ) روپیے کی کتابیں لی ہیں ۔ اللہ کرے میلے میں ایسے ہی کتابوں کے شوقین علماء کرام ، دانشوران ، پروفیسر صاحبان ، اساتذہ ، صحافی حضرات آئیں اور اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے کتابیں خریدیں اور مہمان پبلشروں کی میزبانی کا پورا حق ادا کردیں ۔ اور عام افراد بھی آئیں جنہیں کتابوں کا شوق ہے ۔
( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز )
شہر ممبئی کے ان افراد کو ، جنہیں اردو زبان و ادب سے پیار ہے ، اور انہیں جو اردو زبان کی کتابیں پڑھنا پسند کرتے ہیں ، یہ جان کر خوشی ہوگی کہ شہر میں 6 ، جنوری یعنی کل سے ایک کتاب میلہ شروع ہو رہا ہے ، جو نو دنوں تک چلے گا ۔ یہ کتاب میلہ ’ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی ‘ کے اہتمام اور ’ انجمن اسلام ممبئی ‘ کے اشتراک سے ممکن ہو سکا ہے ، ورنہ شہر ممبئی ایک طویل عرصے سے اپنے شایان شان کتاب میلے سے محروم رہا ہے ، یا یوں کہہ لیں کہ اسے محروم رکھا گیا ہے ، ’ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی ‘ کا بھی اور ’ انجمن اسلام ممبئی ‘ کا بھی بہت بہت شکریہ ۔ لوگوں کو خوب یاد ہوگا کہ ممبئی میں جب بھی کوئی کتاب میلہ ہوا ہے ، کتابوں کی فروخت کا ریکارڈ بنا ہے ، اور اس بار بھی امید ہے کہ کتابوں کی فروخت کا ایک ریکارڈ بنے گا بلکہ سارے پچھلے ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے ۔ لیکن اگر لوگ ، کتابوں کے شوقین ، ادباء و شعراء ، اساتذہ کرام اور پروفیسر صاحبان ، طلباء اور علماء کرام گھروں میں بیٹھے رہے تو یہ ممکن نہیں ہوگا ، ممکن اسی صورت میں ہوگا جب لوگ وقت نکال کر کتاب میلے میں پہنچیں گے اور کتابیں خریدیں گے ۔ یقین کریں میلے میں ہر شخص کے پسند کی ، اور ہر موضوع کی ، کتابیں آ رہی ہیں ۔ ملک بھر کے پبلشر اور کتب فروش ایسی کتابیں لے کر پہنچ رہے ہیں ، بلکہ پہنچ چکے ہیں ، جو ممبئی کیا پورے مہاراشٹر میں کہیں ملیں گی نہیں ۔ دو باتیں بہت اہم ہیں ؛ اول یہ کہ جو کتب فروش آ رہے ہیں وہ ممبئی والوں کے مہمان ہیں ، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پورے مہاراشٹر کے مہمان ہیں تو غلط نہیں ہوگا کہ ممبئی پوری ریاست کا صدر مقام ہے ، یہ ملک کی معاشی راجدھانی بھی ہے ، لہذا ان آنے والے کتب فروشوں کا استقبال مہمانوں کی طرح کیا جانا چاہیے ، اور اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اُن سے کتابیں خریدی جائیں ۔ اسکولوں اور اداروں کو ، تنظیموں اور جماعتوں کو بھی آگے آنا ہوگا ، اور کتابیں خریدنی ہوں گی ۔ دوسری بات قدرے افسوس ناک ہے ، نو دنوں کے دوران جو پروگرام ہو رہے ہیں وہ روایتی ہیں ، ان میں نہ کتب بینی پر کوئی پروگرام ہے ، اور نہ کتابوں کے مطالعے کی ترغیب پر ، کتابیں پڑھنے کی اہمیت اور ضرورت پر بھی کوئی پروگرام نہیں رکھا گیا ہے ۔ یہ انتہائی اہم موضوع ہے اس لیے اس موضوع کے کسی ایکسپرٹ کو بلوا کر اس موقع پر بات کروائی جا سکتی تھی ، لیکن نہ جانے کیوں اس پر توجہ نہیں دی گئی ہے ۔ کتابوں کی رونمائی اور ادیبوں سے ملاقات کے پروگرام بھی نہیں ہیں ، یہ بھی افسوس کی بات ہے ۔ کتابوں کی نشر و اشاعت اور فروخت ، اور پبلشروں و نشرانِ کتب و کتب فروشوں کے مسائل کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے ۔ ایک افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ جو پروگرام ہو رہے ہیں ان کے منتظمین اپنی اپنی تشہیر تو خوب کر رہے ہیں ، لیکن کتاب میلے کا جو بنیادی مقصد ہے کتابوں سے عوام کو جوڑنا اُسے جیسے بھول گیے ہیں ۔ قومی کونسل نے تو اداروں کو پروگرام دے دیے ، لیکن جن اداروں کو پروگرام ملے ہیں انہیں ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے تھا ۔ خیر ، جو پروگرام ہوں گے اُن کے منتظمین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے پروگرام کریں ، لیکن کتابوں کی خریداری کی ترغیب بھی دیں ، کیونکہ مشاعرے تو لوگ سنتے ہی رہتے ہیں مگر کتابیں خریدنے اور پڑھنے سے لوگ بہت دور ہو گیے ہیں ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
نئے سال کی آمد پر گزرے سالوں کا احتساب اور آنے والے دنوں کے لیے لائحہ عمل – مسعودجاوید
ملی سطح پر معاشرہ میں بے شمار ایسے مسائل ہیں جو انفرادی اور اجتماعی طور پر بھر پور توجہ کے مستحق تھے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
معاشرہ کی تشکیل افراد سے ہوتی ہے۔ ایک کلچر یعنی مذہب ، زبان ، کھان پان اور لباس جن کے مجموعے کو ایک کلچر یا سوسائٹی کہتے ہیں ۔ بعد میں شمولی معاشرہ inclusive society کے وجود میں آنے کے لیے مذہب کو اس سے خارج کر دیا گیا یعنی ایک زبان ، رسم ورواج کھان پان اور لباس والے، جو گرچہ مختلف المذاہب ہوں، ایک سماجی اکائی کہلائے۔ تاہم مذہب کی چھاپ اتنی گہری تھی اور دینی تشخص اتنا نمایاں تھا کہ ہمیشہ سماجی اکائی پر حاوی رہا اور اس طرح مسلم سماج اور ہندو سماج سے معنون ہوا۔ پھر ہندو سماج میں بھی جین سماج, سکھ سماج، بودھ سماج وغیرہ نے بھی اپنی شناخت بہت حد تک باقی رکھی۔
میں مسلمانوں میں اس طرح کی تفریق اور تشخص کا قائل تو نہیں ہوں لیکن کثرت آبادی کے تناظر میں دیکھتا ہوں کہ چھوٹی چھوٹی اکائیاں بہتر اور منظم طور پر اپنے سے وابستہ افراد کے لئے یعنی اپنے اپنے سماج کے لیے کام کر رہے ہیں ۔ بوہرہ سماج اور سکھ سماج کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے مرکزی ملی تنظیموں نام نہاد ” کل ہند” یا آل انڈیا ” جمعیتوں اور جماعتوں پر مکمل انحصار کیا ہے اور ہر چھوٹے بڑے مسئلے کا حل ان سے چاہتے ہیں۔ ہم نے دانستہ یا غیر دانستہ انہیں اپنا کل ہند قائد تسلیم کیا ہے ان میں بھی دینی طبقہ کو ! لاکھوں روپے ریسرچ پر خرچ کرنے کے بعد ماہرین اس نتیجہ پر پہنچے کہ جس کا جو اختصاص ہو وہ وہی کام کرے۔ اب کسی مولانا سے یہ توقع کرنا کہ عدالتوں کے قانونی پہلوؤں پر ان کی نظر رہے یا عصری تعلیم کے پیچ و خم کو وہ سمجھیں یہ ہماری کوتاہ بینی ہے۔ دوسری طرف یہ ہوا کہ مسلمانوں کے اصحاب اختصاص یعنی دانشوروں کا ملی کاموں میں دلچسپی نہ لینا بھی نام نہاد ملی تنظیموں کے سربراہان کو ہر فن مولا لیڈر بنانے میں معاون ہوا ہے۔
ملی تنظیموں میں ون مین شو کی چلن بہت زیادہ ہے۔ ہیکل اداری administrative pyramid, اور لامرکزیت decentralisation کا فقدان ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ مرکزی قائدین کا صوبائی اور ضلعی ذمہ داروں کے ساتھ رابطہ براۓ نام ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں ملی تنظیموں کے تناظر میں آر ایس ایس کا حوالہ دیا تھا تو بعض احباب اس سے نالاں ہو گئے اور لکھا کہ کیا آر ایس ایس اب ہمارا رول ماڈل ہو گا ! ہاں اگر ہمارے عقیدے سے متصادم نہ ہو تو اسے لینے میں حرج کیا ہے۔ خذ ما صفا ودع الكدر۔ یعنی اچھی باتیں کہیں سے ملے اسے لے لو اور جو ٹھیک نہیں اسے چھوڑ دو۔
اس تنظیم کا ایک بہتریں نظام پنا پرمکھ ہے یعنی ہر محلے میں اتنے گھروں کے ذمہ داروں کے نام لکھے جائیں جو ایک پنا یعنی صفحہ پر آ جائے۔ پھر ان لوگوں میں سے کسی ایک کو ذمہ دار پرمکھ بنا دیا جائے جو اس صفحہ پر مذکور لوگوں سے ہمیشہ رابطہ میں رہے ان کے گھر کے دروازوں پر دستک دے کر ان کے احوال پوچھے اور مضبوط وابستگی کا احساس دلائے۔
ہے کوئی ایسی مسلم تنظیم جس کے محلہ/ بلوک لیول پر ایسا کوئی پنا پرمکھ ہو جو وابستگی کا احساس دلائے جو خبر گیری کرے اور جو دینی و اخلاقی تربیت کرے۔ جو ضرورت مندوں کو دس بیس پچاس ہزار دے کر چھوٹا سا کاروبار کراۓ اور یومیہ سو دو سو وصول کرے ، جن کا اپنا چیریٹیبل کلینک / نرسنگ ہوم ہو ؟
کسی زمانے میں جماعت اسلامی نے طلباء میں وابستگی کا یہ کام شروع کیا تھا جو عرصہ ہوا چھوڑ دیا گیا۔
آج ضرورت ہے چھوٹی چھوٹی اکائیاں بنانے کی۔ آج ہر کالونی کی آبادی ایک چھوٹے شہر کے برابر ہے۔ اگر ہر کالونی کی سطح پر کام کرنے میں دشواری ہو تو اپنے گھر کے دائیں دس گھر ، بائیں دس گھر، آگے دس گھر اور پیچھے دس گھر کے لیے اگر فکر مند ہو جائیں تو مسلم سماج میں تعلیمی اور معاشی طور پر انقلاب آ جائے گا۔
کب تک عالیشان آفس اور ایر کنڈشنڈ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر مرکزی قیادت کی اہمیت اور افادیت پر بیانات دینے والوں کو سنتے اور پڑھتے رہیں گے۔
٢٠٢٤ کو اجتماعی قیادت نہیں انفرادی جدوجہد کا سال کا اعلان کریں۔ مرکزی قیادت اور روایتی بیان بازی کے حصار سے باہر نکلیں ۔
جنوبی ہند میں ڈاکٹر عبدالقدیر کی شاہین ایجوکیشنل اکیڈمی اور اس طرح کی دیگر ایجوکیشنل سوسائٹی کا قیام دہلی میں مقیم ملی قیادت کے ہاتھوں عمل میں نہیں آیا۔
شمالی ہند میں ایسی سوچ رکھنے والے عنقا کیوں ہیں! علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ذکر کر کے” پدرم سلطان بود” سے آگے کیوں نہیں بڑھے!
رواں سال کے اختتام اور نئے سال کے آغاز کے درمیانی مرحلے میں لوگ اپنی اپنی سوچ اور فکر کے اعتبار سے مختلف نفسیاتی کیفیتوں سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ عام طور پر رخصت ہونے والے سال سے لوگ خوش نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن آنے والے سال کی طرف وہ ضرور امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ان کو ایسا لگتا ہے کہ رواں سال ان کے لیے بیکار تھا، اس میں انہوں نے کچھ حاصل نہیں کیا اور نیا سال ان کے لیے ضرور کار آمد ثابت ہوگا، اس میں ان کی ساری خواہشوں کی تکمیل ہو جائے گی۔ اس طرح کے لوگ بہت پرتپاک انداز سے نئے سال کا استقبال کرتے ہیں اور فرط جذبات میں نئے سال کی ایک لمبی چوڑی قرارداد تیار کر لیتے ہیں۔ وہ آنے والے سال میں ہر وہ کام کر لینا چاہتے ہیں جو اب تک نہیں کیا ہوتا ہے۔ وہ اپنی قرارداد میں ساری انسانی کمیاں دور کرکے اپنے آپ کو بالکل فرشتہ صفت بنا دینا چاہتے ہیں۔ گزرنے والے سال میں انہوں نے ایک کتاب بھی نہیں پڑھی ہوتی ہے اور آنے والے سال میں ہر مہینے سو کتاب پڑھنے کا منصوبہ بنا لیتے ہیں۔ کچھ لوگ نئے سال کی دہلیز پر کھڑے ہوکر یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ اب سگریٹ یا کسی نشہ آور چیز کو منہ نہیں لگائیں گے۔ حالانکہ اب تک وہ ایک دن میں سگریٹ کے دو دو پیکٹ پھونک رہے ہوتے تھے۔ کچھ لوگ موبائل اور سوشل میڈیا کی لت سے بچنا چاہتے ہیں۔ وہ نئے سال کی آمد کے جوش میں سوشل میڈیا اور موبائل کی اہمیت سے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ہر سوشل میڈیا سے اپنا رشتہ منقطع کر لیں گے۔ اس طرح کے لوگ حقیقت پسند نہیں ہوتے ہیں اور ان کی قرارداد بھی حقیقت سے پرے ہوتی ہے۔ نئے سال کے آغاز پر نیا جوش اور جذبہ ہوتا ہے اس لیے اپنی ریزولوشن بناتے ہیں اور چند ایام پورے جوش و خروش کے ساتھ اس پر عمل پیرا بھی رہتے ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے ان کا جوش بھی کافور ہوتا جاتا ہے۔ ایک یا دو مہینے کے بعد وہ اپنی ریزولوشن بھول جاتے ہیں اور اصلی حالت پر لوٹ آتے ہیں۔ باقی کے مہینوں میں وہ صرف یہی گنگناتے ہیں:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
کچھ لوگ گزرنے والے سال سے نہ تو خوش ہوتے ہیں اور نہ ہی آنے والے سال میں اپنے لیے کسی بہتری کی امید رکھتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ گزرنے والے سال میں زندگی جس حال میں بسر ہوئی ہے اسی ڈگر پر اگلے سال کی زندگی بھی گزرے گی۔ ان کے لیے ہر سال ایک ہی طرح کا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اپنی طرف سے کسی خاص ایموشن کا اظہار نہیں کرتے ہیں۔ وہ نئے سال کے سارے امکانات اور اس کی چمک دمک کو "اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے” کہہ کر ختم کر دیتے ہیں۔ شاید اسی طرح کے لوگوں کی کیفیت کو بتانے کے لیے استاد محترم پروفیسر کوثر مظہری صاحب نے یہ شعر کہا ہوگا:
رواں سال جانے دو، کیا ہے؟
نیا سال آنے دو، کیا ہے؟
اس طرح کے لوگ در اصل یہ سمجھتے ہیں کہ نئے سال میں بھی وہی گذشتہ سالوں والی باتیں ہوں گی۔ اس میں بھی وہی شب و روز کی جھنجھٹیں ہوں گی۔ وہی زمین ہوگی جس پر انسان اپنے خوابوں کی تعبیر تلاش کرنے کے لیے بھٹک رہا ہوگا۔ وہی آسماں ہوگا جو ان پر مسلسل غموں کی بارش کرتا رہے گا۔ ان کو رواں سال اور نئے سال میں صرف ایک ہندسے کا فرق نظر آتا ہے۔ ان کو نئے سال پر خوش ہونے اور اس کا استقبال کرنے کو کہا جاتا ہے تو وہ پلٹ کر فیض جالندھری کی نظم "اے نئے سال بتا تُجھ میں نیا پن کیا ہے” سنا دیتے ہیں۔
ایسے لوگ بنا کسی قرارداد کے نئے سال میں داخل ہو جاتے ہیں اور نیا سال بھی ان کے کسی پرانے سال کی طرح دن اور مہینے میں گزر کر اسی پرانے سال کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہاں نصرت مہدی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے، آپ بھی ملاحظہ کریں:
ہر نئے سال کو بس ان میں ہی مل جانا ہے
یہ جو ٹھہرے ہیں کئی سال پرانے مجھ میں
ان دو کے علاوہ تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو گزرنے والے سال کو خوشی خوشی الوداع کہتے ہیں اور نئے سال کا گرم جوشی کے ساتھ ویلکم کرتے ہیں۔ گزرے ہوئے سال میں کیا کھویا اور کیا پایا، یہ اس کا حساب لگاتے ہیں، یہ کھوئی ہوئی چیز پر افسوس نہیں کرتے ہیں۔ اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہیں اور انہیں نہیں دہرانے کا عزم مصمم کرتے ہیں۔ جو کچھ پایا ہوتا ہے اس کے لیے خدا کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور خود کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش جاری رکھتے ہیں۔ یہ نئے سال کے آغاز پر بہت واضح اور قابل حصول ریزولوشن بناتے ہیں اور جو بھی ریزولوشن تیار کرتے ہیں اس کے لیے منصوبہ بندی بھی کرتے ہیں۔ یہ اپنے اوپر ایک ساتھ دس پندرہ ٹاسک کا بوجھ نہیں ڈالتے ہیں۔ ان کی ایک یا دو ریزولوشنز ہوتی ہیں اور واضح ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایسے لوگ یہ ریزولوشن نہیں بناتے کہ وہ ہر مہینے پچاس کتابیں پڑھیں گے۔ یہ امر ناممکن تو نہیں ہے لیکن ہر مہینے ممکن بھی معلوم نہیں ہوتا ہے۔ کسی مہینے طبیعت خراب ہو سکتی ہے اور بہت ممکن ہے کہ پورا مہینہ بیماری کی نذر ہو جائے۔ مطالعہ کے ضمن میں ان کی قرارداد یہ ہوتی ہے کہ وہ نئے سال میں کسی خاص موضوع یا صنف مثلاً شاعری، ناول یا افسانہ کا مطالعہ زیادہ کریں گے۔ اب اس ریزولوشن میں یہ گنجائش ہے کہ وہ ایک مہینہ بھی مطالعہ نہ کریں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایک موضوع پر آج نہیں تو کل مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ کتاب کی تعداد متعین کرنے میں ایک دن پھسل جائے تو دوسرے دن ایک کی بجائے دو کتابیں پڑھنا ہوں گی اور اگر دوسرا دن بھی بنا مطالعہ کے نکل جائے تو پھر ریزولوشن کی پابندی ہو ہی نہیں سکتی ہے۔
پرانے اور نئے سال میں صرف ہندسے کا فرق نہیں ہوتا ہے۔ جو سال آپ کے درمیان سے گزر گیا، اس میں آپ کے لیے سبق ہوتا ہے اور جو سال آنے والا ہے، اس میں آپ کے لیے کچھ کرنے کے مواقع ہوتے ہیں۔ نیا سال نیا اس لیے ہوتا ہے کہ اس میں نئے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ مواقع کو استعمال کرتے ہیں یا گنوا دیتے ہیں۔ آپ ملے ہوئے مواقع کو استعمال نہیں کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے لیے مہ و سال میں ہندسے کے فرق کے سوا کچھ نہیں دکھے گا۔ آپ نئے سال کو نئے مواقع کے طور پر دیکھتے ہیں تو آپ نئے عزم اور نئی امید کے ساتھ اس کا استقبال کرتے ہیں۔ آپ اپنی ریزولوشن تیار کرتے ہیں اور اس سال کو اپنے لیے مفید بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نئے سال پر اپنی ریزولوشن تیار کرتے ہوئے آپ کو تین باتوں کا خیال رکھنا ہے؛ آپ کی ریزولوشن واضح، قابل حصول اور آپ کی اپنی پسند و ناپسند پر مبنی ہو۔ آپ اپنی شخصیت اور زندگی پر نظر ڈالیں، جو چیز آپ کے لیے سب سے اہم اور ضروری معلوم ہوتی ہے اسے کرنے کا ارادہ کریں۔ جو چیز آپ کے لیے ضروری اور اہم ہوگی اسے کرنے میں آپ دلچسپی بھی لیں گے اور اس کا فائدہ بھی براہ راست آپ کو ملے گا۔ آپ نئے سال کا استقبال کریں اور اپنی قرارداد تیار کریں۔ سال کے آخر میں آپ دیکھیں گے کہ پرانے اور نئے سال میں صرف ہندسے کا فرق نہیں ہوتا ہے۔
رواں سال یعنی 2023 میں اگر آپ کے اوپر غم کے سایے منڈلاتے رہے ہیں، پھر بھی اسے خوشی خوشی الوداع کریں۔ یہ سال اب اپنے بال و پر سمیٹے ہم سے رخصت ہو رہا ہے۔ نئے سال کی آمد آمد ہے، اس پر اپنی توجہ مرکوز کر لیں۔ آپ نئے سال میں زندہ ہیں تو اس میں ضرور کچھ نا کچھ آپ کے لیے رکھا ہے :
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
عربی عبارتوں کی افہام و تفہیم کے لیے بعض معتمد عربی ڈکشنریاں – فاروق عبد اللہ نراین پوری
کسی بھی عربی کتاب میں بہت سارے ایسے الفاظ اور علمی اصطلاحات ہوتی ہیں جہاں تک بہت سے قارئین کی رسائی نہیں ہوتی، خصوصًا علمائے متقدمین کی کتابوں میں ایسے بے شمار کلمات اور اصطلاحات ہوتی ہیں جن کے صحیح معنی ہمیں معلوم نہیں ہوتے۔ ان مشکل الفاظ کی تفہیم کے لیے ہمیں ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔
اسی طرح جب ہم کوئی علمی مقالہ لکھتے ہیں تو بہت سے الفاظ کے معانی بیان کرنے کے لیے ڈکشنریوں کا حوالہ دینا پڑتا ہے، لیکن منہجیت کے فقدان کی وجہ سے بسا اوقات بعض مقالےاہل علم کے مابین معیوب بلکہ مضحکہ خیز شمار کیے جاتے ہیں۔ بعض مقالہ نگارشروحاتِ حدیث یا کتبِ تفاسیر یا کتب فقہ وغیرہ سے ایسے مشکل الفاظ کا معنی بیان کرتے ہیں جو کہ علمی مقالوں میں ایک معیوب چیز مانی جاتی ہے، الا یہ کہ وہ معنی کتبِ معاجم یا کتبِ غریب میں مقالہ نگار کو کہیں نہ ملے تو ان ثانوی مصادر سے بھی مدد لے سکتا ہے۔ہاں اگر اصل مصادر میں اس کا معنی وضاحت کے ساتھ نہ ہو، اجمال کے ساتھ ہو تو پہلے مصادر اصلیہ سے استفادہ کرنے کے بعد مزید وضاحت کے لیے ان ثانوی مصادر کا حوالہ دے سکتا ہے۔
”ڈکشنری“ کے لیے عربی میں ”معجم“ یا ”قاموس“ کا لفظ مستعمل ہے۔ کسی معجم (ڈکشنری) کا انتخاب کرتے وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ حتی الامکان وہ متقدم ہو۔ متقدم معاجم میں مطلوبہ معلومات موجود ہونے کے باوجود متأخر معاجم کی طرف رجوع کرنا مناسب نہیں۔ بلکہ بسا اوقات دیکھا جاتا ہے کہ متأخر معجم کے مصنف نے کوئی چیز اپنے متقدمین سے نقل کی ہے اور مقالہ نگار اصل مصدر کا حوالہ نہ دے کر متأخر معاجم کا حوالہ پیش کرتا ہے۔عام طلبہ کے مابین گرچہ یہ چل جاتا ہو لیکن علمی مقالوں میں یہ مناسب نہیں۔
اس لیے کسی معجم سے کسی مشکل لفظ کا معنی نقل کرتے وقت یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ یہ چیز انہوں نے اپنے کسی متقدم سے نقل کی ہے یا نہیں، کیونکہ اکثر متأخرین مصنفین نے اپنے سابقین کی کتابوں پر کام کیا ہے یا سابقین کی کتابیں ان کا اہم مصدر رہی ہیں۔
بطور مثال ملاحظہ فرمائیں:
(1) ابن فارس فرماتے ہیں کہ مقاییس اللغہ میں ان کا اعتماد علمائے سابقین کی ان پانچ کتابوں پر ہے: كتاب العين للخليل، إصلاح المنطق لابن السكيت، جمهرة اللغة لابن دريد، غريب الحديث اور الغريب المصنف لأبي عبيد۔ [مقاییس اللغہ: مقدمہ/504]
(2) امام صغانی کی ”العباب“ نے گویا سابقہ معاجم کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے، خصوصًا كتاب العين، جمهرة اللغة، الصحاح، تهذيب اللغة، اور مقاييس اللغة وغیرہ کو۔ [المعاجم اللغویہ لمحمد احمد ابی الفرج: ص28]
(3) ابن منظور نے لسان العرب میں پانچ کتابوں پر اعتماد کیا ہے، وہ ہیں: تهذيب اللغة للأزهري، المحكم لابن سيده، الصحاح للجوهري، حواشي ابن بري على الصحاح، والنهاية لابن الأثير۔ فرماتے ہیں: "میری اس کتاب سے نقل کرنے والا یہ سمجھے کہ گویا وہ انہی پانچ اصولوں (کتابوں ) سے نقل کر رہا ہے”۔ [لسان العرب: 1/8]
(4) فیروز آبادی کی القاموس المحیط کے مراجع میں سے چند اہم مراجع یہ ہیں: العين للخليل، الجمهرة لابن دريد، الصحاح للجوهري، المحكم لابن سيده، تهذيب اللغة للأزهري، العباب للصغاني۔ [المعاجم اللغویہ لمحمد احمد ابی الفرج: ص29]
(5) فیروزآبادی کی القاموس المحیط پر تاج العروس جیسی ضخیم قاموس کی بنیاد ہے۔ زبیدی نے اس میں القاموس المحیط کی شرح کی ہے اور اس پر کافی استدراک کیا ہے۔
لہذا ان جیسی کتابوں سے کوئی چیز نقل کرتے وقت اصل مصادر کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور حتی الامکان اصل مصادر سے ہی اسے نقل کرنا چاہیے۔
کتب المعاجم سے استفادہ سے پہلے ان معاجم میں الفاظ کی ترتیب کا علم ہونا ضروری ہے۔ متأخرین علما کے یہاں حروف معجم (ا ، ب، ت، ث، ج، ح…) پر ترتیب دینا رائج ومعروف ہے لیکن متقدمین علماکے یہاں بعض کتابوں میں یہ ترتیب موجود نہیں ہے۔ بعض نے اسے مخارج الحروف اور مقلوبات الکلمہ پر مرتب کیا ہے تو بعض نے کلمہ کے آخری حرف پر اسے مرتب کیا ہے۔ اس لیے کسی بھی معجم سے استفادہ سے پہلے اس کی ترتیب کا علم ہونا ضروری ہے تاکہ مطلوبہ لفظ تک بآسانی پہنچ سکے۔ ذیل میں بطور نمونہ چند مشہور ومعتبر معاجم کی ترتیب بیان کی جارہی ہے۔
مخارج الحروف اور مقلوبات الکلمہ پر مرتب بعض معاجم یہ ہیں:
(1) كتاب العين للخليل بن أحمد الفراهيدي (ت170هـ ، وقيل: 175هــ)
یہ پہلی ڈکشنری ہے جو ہم تک پہنچی ہے۔ اسے خلیل نے مخارج الحروف پر مرتب کیا ہے، حلق کے سب سے آخری حصے سے ادا ہونے والے حروف سے شروع کیا ہے اور ہونٹوں سے ادا ہونے والے حروف پر اسے ختم کیا ہے۔ اس لیے اس کی ترتیب اس طرح ہے: ع ح ھ خ غ ق ک ج ش ض ص س ز ط ت د ظ ذ ث ر ل ن ف ب م و ی ا ۔
ان میں سے ہر حرف کو کتاب کا نام دیا ہے۔ مثلًا پہلے حرف کا نام کتاب العین ہے۔ اسی سے کتاب کا نام بھی کتاب العین سے مشہور ہے۔
کتاب میں وارد الفاظ کو انہوں نے الٹ پلٹ کرکے ایک لفظ سے متعدد الفاظ تیار کیے ہیں اور ان پر بحث کی ہے، جسے قلب کہا جاتا ہے۔ مثلًا لفظ "رب” کو لیں، اسے قلب (الٹ پلٹ) کر دیا جائے تو یہ "بر” بن جاتا ہے۔ لفظ "حبر” کو قلب کیا جائے تو یہ الفاظ بنتے ہیں: ربح، بحر، رحب، حرب، برح۔ وقس علی ہذا۔
اس سے بعض کلمات ایسے تیار ہو سکتے ہیں جن کا کوئی معنی نہیں ہے۔ اسی لئے بعض الفاظ کے متعلق خلیل نے کہا ہے کہ عرب نے انھیں استعمال نہیں کیا ہے، یہ مہمل ہیں ۔ حالانکہ ان کے بعد آنے والے علما نے ان پر استدراک بھی کیا ہےاور بعض جن الفاظ کو خلیل نے مہمل قرار دیا تھا انھیں دلائل کی روشنی میں مستعمل قرار دیا ہے۔
اس طریقے پر علمائے مقتدمین میں سے اور بھی دوسرے علما نے کتابیں لکھی ہیں۔ مثلًا:
(2) البارع في اللغة لأبي علي القالي (ت356هـ)
کتاب العین سے قالی نے کافی استفادہ کیا ہے۔ اور ان پر کافی اضافہ بھی کیا ہے خصوصًا جن الفاظ کو خلیل نے مہمل کہا تھا ان میں سے بہت سارے الفاظ کے معانی اور کلام عرب سے ان کے شواہد کو ذکر کیا ہے۔ حالانکہ ابو علی القالی پربھی اس حوالے سے ان کے شاگرد ابو بکر الزبیدی نے استدراک کیا ہے اور ”المستدرک من الزیادۃ فی کتاب البارع علی کتاب العین“ نامی کتاب لکھی ہے۔ کتاب البارع کا اکثر حصہ مفقود ہے، صرف ایک ٹکڑا مطبوع ہے۔
(3) تهذيب اللغة لأبي منصور الأزهري (ت370هــ)
یہ ایک ضخیم ڈکشنری ہے۔ اس کا مقدمہ بڑا اہم ہے۔ شرعی نصوص سے شواہد کا خوب اہتمام کیا ہے کیونکہ اس کے مؤلف نہ صرف لغوی بلکہ معروف شافعی فقیہ بھی تھے۔ اکثر متأخرین لغویوں کا یہ ایک اہم مصدر رہا ہے۔ مثلًا مختار الصحاح، العباب اور لسان العرب وغیرہ کا۔
(4) المحكم والمحيط الأعظم لابن سيده الأندلسي (ت458هـ)
اس کا مقدمہ بڑا طویل ہے۔ اس میں بھی بہ کثرت شواہد کا استعمال کیا گیا ہے۔ صرفی ونحوی مسائل پر کافی بحث موجود ہے اور یہ بعد کی ڈکشنریوں کا ایک اہم مصدر ہے۔
ڈکشنریوں میں الفاظ کی ترتیب کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انہیں حروف معجم (ا ب ت ث ج ح ..الخ) پر مرتب کیا جائے۔ اس نہج پر بے شمار ڈکشنریوں کو مرتب کیا گیا ہے۔ بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں:
(1) كتاب الجيم لأبي عمرو الشيباني (ت206هـ)
یہ بہت مختصر لیکن بہترین ڈکشنری ہے، مگر صرف نوادر لغت پر مشتمل ہے۔
(2) جمهرة اللغة لابن دريد (ت321هـ)
یہ حروف معجم پر مرتب ہے لیکن کتاب العین کی طرح مقلوبات الکلمہ کا اس میں استعمال ہے۔ اس کا اکثر حصہ ابن درید نے اپنے حافظہ سے املا کروایا ہے، اس لیے اس میں کچھ جگہوں پر انہیں وہم بھی ہوا ہے۔
(3) مقاييس اللغة لابن فارس (ت395هـ)
اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر مادے کی اصل بیان کی گئی ہے۔ ہر مادے کے مفردات کو بیان کرنے کے ساتھ ابن فارس ایک یا زائد ایسا مشترک معنی بیان کرتے ہیں جس میں اس کے تمام مفردات شامل ہوں۔ چھ جلدوں میں شیخ المحققین عبد السلام محمد ہارون کی تحقیق سے مطبوع ہے۔
(4) مجمل اللغة لابن فارس (395هـ)
یہ کتاب مختصر ہے، مگر بہت ہی محقق انداز میں لکھی گئی ہے۔ غریب القرآن کی خاص رعایت کی ہے۔
دونوں کتابوں میں ابن فارس نے ترتیب میں ہر حرف میں اس کے بعد والے حرف سے ابتدا کی ہے، اور اسی ترتیب سے آگے بڑھے ہیں۔ مثلًا را میں اس کلمہ کو پہلےذکر کیا ہے جو را اور زا سے شروع ہوتا ہے، پھر جو را اور سین سے شروع ہوتا ہے، یہاں تک کہ را اور ذال کی باری آجائے، وقس علی ہذا۔
(5) أساس البلاغة للزمخشري (ت538هـ)
اس میں لفظ کے حقیقی معنی اور پھر اس کے مجازی استعمال کا ذکر ہے۔ اُدَبا کے لئے بہت مفید ہے۔
ڈکشنریوں میں الفاظ کی ترتیب کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ لفظ کے آخری حرف پر انہیں مرتب کیا جائے۔ مثلًا "کتب” کو حرف الباء میں رکھنا، حرف الکاف میں نہیں۔ اس ترتیب کا فائدہ یہ ہے کہ کلمہ کے پہلے حرف میں تصریفات اور قلب کی صورت میں تبدیلی کا ہمیشہ ڈر لاحق ہوتا ہے لیکن آخری حرف میں نہیں۔ اس نہج پر بھی بہت ساری ڈکشنریوں کو مرتب کیا گیا ہے۔ بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں :
(1) الصحاح للجوهري (ت393هـ قريبًا)
یہ ایک ضخیم ڈکشنری ہے جس میں چالیس ہزار لغوی مادے موجود ہیں۔ یہ عمدہ ڈکشنریوں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی دیگر کو کم ہی حاصل ہو سکی۔ اسی لیے علمائے کرام کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس پر متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں جن کی تعداد سو سے زائد ہے۔ کسی نے تعلیق چڑھائی تو کسی نے اس پر تکملہ کا کام کیا، کسی نے استدراک کیا تو کسی نے مقارنہ، کسی نے نقد کیا تو کسی نے دفاع، کسی نے اختصار کیا تو کسی نے اسے منظومہ کی شکل دی۔ ان تمام خدمات کی تفصیلات جاننے کے لیے الصحاح پر استاد عباس محمود العقاد کا مقدمہ (ص157-212) پڑھیں جس میں انہوں نے ایک سو نو (109) کتابوں کا ذکر کیا ہے۔
(2) العباب الزاخر واللباب الفاخر للصغاني (ت650هــ)
اس کتاب کے مؤلف کا تعلق قدیم غیر منقسم ہندوستان سے ہے۔ صحیح بخاری کا ان کا نسخہ "نسخہ بغدادیہ” کے نام سے مشہور ہے جس سے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کافی استفادہ کیا ہے۔ ان کی سوانح حیات اور علمی خدمات پر خاکسار کا ایک مقالہ بعنوان: ”علامہ صغانی: متحدہ ہندوستان کا ایک راویِ صحیح بخاری“ فری لانسر میں شائع ہو چکا ہے۔ یہ ایک محدث اور فقیہ کے ساتھ بہت بڑے لغوی تھے۔ ان کی یہ کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے لیکن افسوس کہ غیر مکمل ہے۔ امام سیوطی اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "أعظمُ كتابٍ أُلِّفَ في اللغة بعد عَصْرِ الصحاح كتابُ المُحْكَم والمحيط الأعظم لأبي الحسن علي بن سِيدَه الأندلسي الضَّرير ثم كتابُ العُباب للرضي الصَّغاني”۔ [المزہر فی علوم اللغہ وانواعہا: 1/76]
(زمانۂ ”الصحاح“ کے بعد لغت میں جو سب سے عظیم کتاب لکھی گئی وہ ابو الحسن علی بن سیدہ الاندلسی الضریر کی کتاب المحکم والمحیط الأعظم ہے ، پھر رضی صغانی کی کتاب العباب ہے۔)
(3) لسان العرب لابن منظور الأفريقي (ت711هــ)
یہ ان کے زمانے تک کی سب سے ضخیم ڈکشنریوں میں سے ایک تھی۔ اس میں اسی ہزار سے زائد لغوی مادے موجود ہیں۔ اس میں نصوص سے شواہد، کلمات پر ضبط، روایات کے مابین ترجیح جیسی سبھی خوبیاں موجود ہیں۔ بہت سارے علما نے اس کی علمی خدمت کی ہے۔
(4) القاموس المحيط للفيروزآبادي (ت817هـ)
یہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے استاد ہیں جن سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کافی استفادہ کیا ہے۔ یہ بھی ایک ضخیم ڈکشنری ہے جس میں ساٹھ ہزار لغوی مادے موجود ہیں۔ انہوں نے پہلے "اللامع المعلم العجاب الجامع بين المحكم والعباب” کے نام سے ایک ڈکشنری تصنیف کرنی شروع کی تھی۔ پانچ جلدوں کے بعد انہیں لگا کہ یہ بہت طویل ہو جائےگی اور سو جلدوں تک پہنچ جائےگی جس کا مراجعہ طلبہ کے لیے مشکل ہوگا، پس سابقہ ارادہ ترک کرکے اس سے مختصر یہ کتاب تصنیف کی جو کہ پھر بھی بہت ضخیم ہے۔
یہ بہت ہی مفید ڈکشنری ہے۔ اسی لیے علمائے کرام کی ایک جماعت نے اس پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں سے سب سے مشہور زبیدی کی ”تاج العروس“ ہے۔
(5) تاج العروس من جواهر القاموس للزبيدي (ت1205هـ)
یہ القاموس للفیروزآبادی کی شرح ہے، اور اس پر کافی استدراک بھی کیا ہے۔ اس کے مؤلف اگرچہ متأخر الوفات ہیں لیکن ان کی یہ کتاب بہت ہی مفید اور ضخیم ہے، بلکہ یہ اب تک کی سب سے بڑی ڈکشنری ہے۔ اس میں ایک لاکھ بیس ہزار لغوی مادے موجود ہیں جنہیں مؤلف نے چودہ سال سے زائد مدت میں چھ سو مصادر سے جمع کیا ہے۔
اب تک جن معاجم کی بات کی گئی ان کا شمار "معاجم الالفاظ” میں ہوتا ہے۔ بہت ساری ایسے معاجم بھی ہیں جن کا تعلق معانی کے ساتھ ہے۔ یعنی ایک معنی اور موضوع سے متعلق الفاظ کو ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے۔ چاہے ایک ہی موضوع پر مستقل کتاب میں ہو یا ایک کتاب میں کئی ایک موضوعات کو جمع کیا گیا ہو۔بطور نمونہ درج ذیل معاجم ملاحظہ فرمائیں:
(1) خلق الإنسان للأصمعي (ت216هـ)
(2) كتاب الإبل للأصمعي
(3) خلق الفرس لمحمد بن زياد الأعرابي (ت231هـ)
(4) كتاب الخيل لمعمر بن المثنى (ت210هـ)
اس کتاب کے مختصر تعارف پر خاکسار کا ایک مضمون فری لانسر میں شائع ہو چکا ہے۔
(5) كتاب الخيل للأصمعي
(6) كتاب الشاء للأصمعي
(7) كتاب الوحوش للأصمعي
(8) كتاب النخل لأبي حاتم السجستاني (ت255هـ)
(9) كتاب السلاح للأصمعي
(10) كتاب البئر لمحمد بن زياد الأعرابي (ت231هـ)
(11) كتاب الريح لابن خالويه (ت370هـ)
ان تمام کتب میں ایک ہی قسم کے معنی کو موضوع بحث بنایا گیا ہےاور اس کے متعلق الفاظ پر بحث کی گئی ہے۔ جب کہ بعض ایسی کتابیں بھی ہیں جن میں مختلف موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
(1) الغريب المصنف لأبي عبيد القاسم بن سلام (ت224هـ)
(2) كتاب الألفاظ لابن السكيت (ت244هـ)
(3) فقه اللغة وسر العربية للثعالبي (ت429هـ)
(4) المخصص لابن سيده (ت458هـ)
(5) تهذيب الألفاظ للخطيب التبريزي (ت502هـ)
مقالہ نگاروں اور مصنفین کو چاہیے کہ مشکل الفاظ کی شرح کے لئے ان مذکورہ معروف ومعتبر متقدم معاجم کی طرف رجوع کریں۔ ان معاجم میں مطلوبہ لفظ موجود ہونے کے باوجود معاصرین کی ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنا صحیح نہیں۔ مثلًا بعض باحثین مذکورہ متقدم ڈکشنریوں کی طرف رجوع نہ کرکے ان درج ذیل ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرتے ہیں:
المعجم الكبير، المعجم الوسيط, المعجم الوجيز (انہیں مجمع اللغہ العربیہ مصر نے شائع کیا ہے)، معجم الفرائد للدكتور إبراهيم السامرائي، القاموس الجديد للجنة من اللغويين في تونس، المنجد للويس معلوف، البستان لعبد الله الميخائيل البستاني، الرائد لجبران مسعود, الشامل لمحمد سعيد إسبر وبلال جنيدي, المعجم العربي الحديث لاروس للدكتور خليل البحر وغیرہ ۔
ان کا یہ عمل قابل تعریف نہیں۔
ہاں اگر متقدم ڈکشنریوں میں مطلوبہ معلومات نہ ملیں تو ان جدید ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
ان معاصر ڈکشنریوں میں سب سے معتمد ”المعجم الوسیط“ ہے۔ شیخ محمد عزیر شمس اس کے متعلق فرماتے ہیں: "جدید ڈکشنریوں میں یہ سب سے زیادہ معتمد ہے۔ اسے ماہرین لغت کی ایک ٹیم نے ترتیب دیا ہے۔ اس لیے قابل اعتماد ہے۔ اس کا حال ”المنجد“ جیسا نہیں”۔
اب تک عام مشکل الفاظ کی بات چل رہی تھی۔ لیکن اگر ان کا تعلق احادیث نبویہ سے ہے تو ان کے لیے غریب الحدیث پر لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ مثلًا:
(1) غريب الحديث لأبي عبيد القاسم بن سلام (ت224هـ)
(2) غريب الحديث لابن قتيبة الدينوري (ت276هـ)
(3) غريب الحديث لإبراهيم بن إسحاق الحربي (ت285هـ)
(4) غريب الحديث للخطابي (ت388هـ)
(5) تفسير غريب ما في الصحيحين للحميدي (ت488هـ)
(6) الفائق في غريب الحديث للزمخشري (ت538هـ)
(7) مشارق الأنوار على صحاح الآثار للقاضي عياض (ت544هـ)
اس میں صحیحین اور موطا امام مالک کی حدیثوں کے غریب الفاظ پر ہی صرف بحث کی گئی ہے۔ اس میں اعلام، انساب اور جگہوں کا بھی ذکر ہے۔ مختلف الفاظ کی روایت میں روات کے اختلافات کا ذکر اور ان کے اوہام کا بھی بیان ہے۔ اس کی ترتیب حروف المعجم پر ہے ، لیکن ہمارے یہاں کے حروف معجم کی معروف ترتیب پر نہیں بلکہ مغاربہ کی ترتیب پر ہے، جو کہ اس طرح ہے: ا ب ت ث ج ح خ د ذ ر ز ط ظ ک ل م ن ص ض ع غ ف ق س ش ھ و ی ۔
اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ امام کتانی کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے: "وهو كتاب لو وزن بالجوهر أو كتب بالذهب كان قليلًا فيه”۔ [الرسالہ المستطرفہ: ص157]
(اگر اس کتاب کو جواہرات سے تولا جاتا یا سونے سے لکھا جاتا پھر بھی کم تھا۔)
(8) غريب الحديث لابن الجوزي (ت597هـ)
(9) النهاية في غريب الحديث والأثر لابن الأثير (ت606هـ)
اس موضوع کی یہ سب سے بہترین اورجامع کتاب ہے۔
(10) مجمع بحار الأنوار في غرائب التنزيل ولطائف الأخبار لمحمد بن طاهر الفتني الغجراتي (ت986هـ)
اس میں غریب القرآن اور غریب الحدیث دونوں ہیں۔ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کی تحفۃ الاحوذی کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتاب ان کے اہم مصادر میں سے ہے۔ اس کتاب سےانھوں نے تحفہ الاحوذی میں کافی استفادہ کیا ہے۔
جہاں تک مشکل اور غیر معروف اصطلاحات کا معاملہ ہے تو اس کے لئے متعلقہ فن کی امہات کتب کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور اس کا معنی ومفہوم بیان کرنا چاہیے۔ نیز اصطلاحات پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کی طرف بھی رجوع کرنا چاہیے۔ اگر ان اصطلاحات کا تعلق فقہ سے ہے تو درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع کرنا مفید ہوگا:
حنفی مذہب کے لیے:
(1) طلبة الطلبة لنجم الدين النسفي (ت537هـ)
(2) المُغرِب في ترتيب المُعْرِب للمطرزي (ت610هـ)
(3) أنيس الفقهاء لقاسم القونوي (ت978هـ)
شافعی مذہب کے لئے:
(4) الزاهر في غريب ألفاظ الشافعي لأبي منصور الأزهري (ت370هـ)
شروع میں بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ بہت بڑے لغوی ہونے کے ساتھ ساتھ علمائے شوافع کے بہت بڑے عالم تھے۔ان کی کتاب تہذیب اللغہ اور الزاہر اس کی بہترین دلیل ہے۔
(5) حلية الفقهاء لابن فارس (ت395هـ)
(6) تهذيب الأسماء واللغات للنووي (ت676هـ)
یہ بہت ہی مفید کتاب ہے۔ اس کا پہلا حصہ شخصیات کے تعارف پر اور دوسرا حصہ مشکل کلمات اور اصطلاحات پر مشتمل ہے۔ اسی کتاب کی وجہ سے امام نووی کو امام جرح وتعدیل بھی کہا جاتا ہے۔
(7) تحرير ألفاظ التنبيه للنووي
(8) النظم المستعذب في شرح غريب المهذب للركبي (ت633هـ)
(9) المصباح المنير في غريب الشرح الكبير للفيومي (ت770هـ)
مالکی مذہب کے لئے:
(10) شرح غريب ألفاظ المدونة للجبي (توفي في القرن الرابع أو الخامس)
(11) الحدود لابن عرفة المالكي (تت803هـ)
اور حنبلی مذہب کے لئے:
(12) المطلع على أبواب المقنع للبعلي (ت709هـ)
اور اگر ان مصطلحات کا تعلق شریعت کے دوسرے فنون مثلًا عقیدہ وغیرہ سے ہے تو ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا مفید ہوگا:
(1) غریب الحدیث لابن قتیبہ کا مقدمہ
(2) الزينة في الكلمات الإسلامية العربية لأحمد بن حمدان الرازي (ت322هـ)
(3) الحدود الأنيقة والتعريفات الدقيقة لزكريا الأنصاري الشافعي (ت926هـ)
ساتھ ہی ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا بھی مفید ہوگا جو کہ تعریفات اور مصطلحات کے پر ہی لکھی گئی ہیں، مثلًا:
(1) التعريفات للجرجاني (816هـ)
(2) التوقيف على مهمات التعاريف للمناوي (ت1031هـ)
(3) الكليات (معجم في الاصطلاحات والفروق اللغوية) لأبي البقاء الكفوي (ت1094هـ)
(4) كشاف اصطلاحات الفنون للتهانوي (ت1158هـ)
ہر خاص کلمہ یا اصطلاح کے لئے متخصص اور مناسب مصدر کی طرف رجوع کرنا اور اس کا حوالہ دینا علمی مقالوں میں جان پھونک دیتا ہے، اور یہ اس مقالے کی ایک بڑی خوبی مانی جاتی ہے۔ اور اس کی رعایت نہ کرنا اہل علم کے نزدیک خلل تصور کیا جاتا ہے، بلکہ معیوب مانا جاتا ہے اور ایسے مقالوں کو وہ خاص اہمیت نہیں دیتے۔ اس لیے ان امور کی طرف مقالہ نگاروں اور مصنفین کو خصوصی توجہ دینا چاہیے۔ اللہ ہمیں نفع بخش علم کی نشر واشاعت کی توفیق عطا فرمائے۔
فیس بک کے دوستو اور قارئین آج ہم آپ کو باٹا پور کی کہانی سنانا چاہتے ہیں۔ دراصل ہم باٹا پور کی کہانی آپ کو اس لیے سنا رہے ہیں کہ ہم خود باٹا پور کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں۔
باٹا کے جوتے آپ سب نے کبھی نہ کبھی ضرور استعمال کیے ہوں گے۔ اور جس طرح ہمارا بچپن باٹا کے شوز پہن کر کھیلتے کودتے گزرا ہے آپ نے بھی
"بچو سیکھو ایک اصول پہلے باٹا پھر اسکول” پر ضرور عمل کیا ہوگا ہے۔
باٹا سے ہماری اس کے علاوہ ایک اور بھی نسبت ہے جس کے بارے میں ہم آپ کو اس مضمون کے آخر میں بتائیں گے۔
باٹا پور کی کہانی کا سلسلہ جوڑتے ہوئے ہم آپ کو اس کمپنی کے اصل ڈانڈے ملاتے ہوئے چیک ریپبلک کے شہر زیلن لیے چلتے ہیں۔
جب تک ہم آپ کو اس شہر کے تمام خوبصورت مقامات سے روشناس کرائیں پہلے آپ کو باٹا کی کہانی سناتے ہیں۔
جوتے کی اس کمپنی کی بنیاد سن 1894 میں ایک تھامس باٹا نامی شخص نے چیک ریپبلک کے گاوں زیلن میں رکھی۔ ان کا خاندان کئی نسلوں سے پاپوش کی تیاری کے ہنر سے نہ صرف بہر آور تھا بلکہ ہنر مندی میں اپنا ایک مقام رکھتا تھا۔
تھامس باٹا نے جوتےکو ہاتھ سے سی کر تیار کرنے والے اس کارخانے کو، اپنے والد کے انتقال کے بعد اپنے ایک بھائی اور بہن کے ساتھ مل کر ایک جدید خطوط پر مشین سے جوتے تیار کرنے کی کمپنی میں بدل ڈالا اور اس کی بنیاد ٹی اینڈ اے باٹا، یعنی تھامس اور اینتھونن باٹا کے نام سے کمپنی کی داغ بیل ڈالی جو اس سے قبل صرف ہاتھ سے جوتے بنانے کا کارخانہ تھا۔ تھامس اور اینتھونن کی بہن انا اس کمپنی کے حساب کتاب کی ذمہ دار تھی۔ اور اس نے اپنی شادی ہونے تک یہ ذمہ داری بخوبی نبھائی۔
تھامس باٹا کی یہ کمپنی یورپ میں اس وقت کی پہلی جدید ترین جوتے بنانے کی کمپنی تھی جو نہایت سے ترقی کرنے لگی۔
کمپنی کی کہانی نہ صرف ایک کمپنی کی تیزی سے ترقی کرنے اور دنیا میں پھیل جانے کی داستان ہے بلکہ اس سے جڑی وہ شعور کی بالیدگی اور سوچ کی اٹھان کا افسانہ بھی ہے، جو معاشی طور پر ترقی کرتے ہوئے انسان کی انسان دوستی اور عام لوگوں کی بھلائی کی کہانی لیے ہوئے ہے۔ تھامس باٹا نے نہ صرف اپنی کمپنی کو ساری دنیا میں پھیلا دیا بلکہ اس نے سب سے پہلے اپنے گاؤں میں ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس سے انسان کی زندگی میں سہولیات اور کام کرنے والے افراد کی بہتر زندگی کا اغاز ہوا۔ اس نے کمپنی کے کارخانے کے قرب و جوار میں رہائشی مکانات کمپنی کی اعلی عمارت اور کارخانے کی دیگر سہولیات پر خصوصی توجہ دی۔
زیلن شہر میں آج بھی اپنے زمانے کی یورپ کی سب سے بلند عمارت ایک یادگار عمارت کے طور پر محفوظ کر دی گئی ہے جو 1939 میں مکمل تعمیر ہوکر باٹا کمپنی کا صدر مقام قرار پائی تھی۔
اس کے علاوہ یہاں ایک باٹا کے جوتوں کا میوزم بھی ہے۔
زلین نامی یہ شہر دارالحکومت پراگ سے صرف 300 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع آج بھی چیک ریبلک کا معاشی مرکز ہے۔
باٹا کمپنی کے اپنے ملازمین کی سہولیات اور ساری دنیا میں پھیلاو کے ساتھ ساتھ اس کی کلکتہ اور لاہور میں آمد پر معلومات کے لیے تیار رہیں !
’جشن ریختہ‘ گزشتہ 10دسمبر کی رات اختتام پذیر ہوگیا۔ یہ تین روزہ جشن جسے اردو زبان و تہذیب کا سب سے بڑا جشن کہا جاتا ہے، گزشتہ آٹھ برسوں سے جاری ہے۔اس مرتبہ ریختہ کا پروگرام خدائے سخن میرتقی میر کے نام وقف تھا، جن کا ہم تین سوسالہ جشن منارہے ہیں۔مجھے اس بار جشن ریختہ میں شریک نہ ہونے کا افسوس ہے۔ دیگر مصروفیات نے اس کی مہلت نہیں دی، مگر اس جشن کے حوالہ سے سوشل میڈیا پر جو بحث ہورہی ہے، اس نے مجھے یہ چند سطریں لکھنے پر مجبور کیا ہے۔
اس مرتبہ جشن ریختہ میں داخلہ کے لیے ٹکٹ لینا ضروری تھا، جبکہ اس سے پہلے ریختہ کے جو بھی جشن یہاں برپا ہوئے ہیں، ان میں داخلہ مفت ہوتا تھا۔ لوگوں کو اندیشہ تھا کہ اس بار ٹکٹ کی لازمیت کی وجہ سے جشن ریختہ کا رنگ پھیکا رہے گا، لیکن تینوں ہی دن اردو زبان و ہندوستانی تہذیب کے شیدائیوں کا ہجوم رہااور لوگ یہ اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکے کہ جو نوجوان اردو زبان اور اس کی تہذیب سے عشق کرتے ہیں، ان کے لیے پانچ سو یا تین سو روپے کوئی معنی نہیں رکھتے۔
آٹھ تا دس دسمبر کو دہلی کے میجردھیان چند اسٹیڈیم میں منعقد ہ ’جشن ریختہ‘پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ وہاں اردو رسم الخط کا گزر نہیں تھا اور سب کچھ رومن یا دیوناگری میں لکھا ہوا تھا۔ اس سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ریختہ اردو رسم الخط کو ختم کرنے کے در پے ہے۔حالانکہ یہ بات پوری طرح درست نہیں ہے،کیونکہ جگہ جگہ ہندی اور انگریزی کے ساتھ اردو بھی لکھی ہوئی تھی۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا اردو رسم الخط چھوئی موئی کا درخت ہے کہ وہ کسی کے ہاتھ لگانے سے مرجھاجائے گا؟ماضی میں بھی ریختہ کے حوالہ سے یہ سوال کئی سطحوں پر اٹھایا گیا ہے، مگر لوگ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ جو نوجوان جشن ریختہ کی رونقوں کو دوبالا کرتے ہیں وہ اردو رسم الخط سے ناواقف ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حسن وعشق کے شیدائی ہیں اور انھیں اردو شعر وشاعری میں لطف آتا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اردو کے نوجوان شیدائیوں کا یہ طبقہ خود ریختہ نے اپنی ویب سائٹ اور دیگر ذرائع سے پیدا کیا ہے۔شاید اسی لیے جشن ریختہ میں جو کچھ لکھا جاتا ہے وہ اردو رسم الخط کے ساتھ ساتھ دیوناگری اور رومن میں بھی لکھ دیا جاتا ہے۔
مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ریختہ نے اپنے وسائل خرچ کرکے اردو کے تمام کلاسیکی لٹریچر کو نئی تکنالوجی کے ذریعہ نہ صرف محفوظ کردیا ہے بلکہ اس تک ہرشخص کی رسائی بھی آسان بنادی ہے۔ بہت سی ایسی کتابیں جو آپ کو لائبریریوں اور کتب خانوں میں نہیں ملیں گی، وہ ریختہ کی ویب سائٹ پر بآسانی دستیاب ہیں۔ان میں وہ رسائل وجرائد بھی شامل ہیں جن کی فائلیں اب کہیں نہیں ملتیں۔ بلاشبہ اردو کے نایاب اور نادر ذخیروں کو نئی تکنیک کے ساتھ محفوظ کرکے ریختہ نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، جس کے لیے سنجیو صراف کو داد دی جانی چاہئے۔جہاں تک اردو کے چاہنے والوں کے لیے اردو کو رومن یا دیوناگری میں لکھنے کا سوال ہے یا پھر اردو شاعروں کے کلام کو رومن یا دیوناگری رسم الخط میں شائع کرنے کا سوال ہے تو یہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔ میں دہلی میں ہندی اور انگریزی کے کئی بڑے پبلشروں کو جانتا ہوں جنھوں نے اردو کے مقبول ومعروف شاعروں کے مجموعے دیوناگری اور رومن میں شائع کئے ہیں اور ان کی تعداد اشاعت اردو رسم الخط میں شائع ہونے والی کتابوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ہندی اور انگریزی رسم الخط میں پڑھے جانے والے شاعروں میں غالب اور ساحر لدھیانوی کی سب سے زیادہ ڈیمانڈ ہے۔ان کے بعد بشیر بدر، منور رانا اور وسیم بریلوی کا کلام بھی بہت پسند کیا جاتا ہے۔ جبکہ اردو میں شائع ہونے والی کتابوں کا حال یہ ہے کہ جو ایڈیشن پہلے ایک ہزار چھپتا تھا، وہ بعد میں پانچ سو ہوا، پھر تین سو اور دوسو سے ہوتا ہوا اب 100کتابوں تک آپہنچا ہے، جو ڈیجیٹل پرنٹنگ کی مدد سے شائع ہورہی ہیں۔ان میں بھی بیشتر کتابیں مفت خوروں کی غذا بنتی ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شمالی ہند میں اردو پڑھنے اور لکھنے والوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس میں کسی اور کا دوش نہیں ہے بلکہ ہم خود اپنے بچوں کو اردو زبان سے نابلد رکھنے کے جرم میں شریک ہیں۔ یہی وجہ ہے لوگ اپنی بات پہنچانے کے لیے دیوناگری اور رومن رسم الخط کا سہارا لے رہے ہیں۔ یہاں تک قبروں کے کتبے تک اب دیوناگری میں لکھے جارہے ہیں۔اسلام کی توسیع وتبلیغ میں مصروف ایک بڑی جماعت نے تقریباً تمام ہی اسلامی لٹریچر ہندی اور انگریزی زبان میں شائع کردیا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرکے انھوں نے اسلام کی روح نکال دی ہے۔ یہ دراصل وقت کا تقاضا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے کے لیے رومن اور ناگری رسم الخط کا سہارا لیا جارہا ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ہم اردو رسم الخط سے غافل ہوجائیں۔رسم الخط کسی بھی زبان کی بنیادی شناخت ہوتا ہے۔ زبان اگر جسم تصور کیا جائے تو رسم الخط اس کی روح ہے، اس لیے ہمیں اس کی بقاء کی فکر ہر وقت لاحق رہنی چاہئے۔
المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے دور کے کئی مقبول شاعر اور شاعرات ایسے ہیں جو مشاعروں میں اپنا کلام دیوناگری میں لکھ کرلاتے ہیں۔ یہ لوگ اردو رسم الخط سے نابلد ہیں، مگر ہم ان کے شعروں پر خوب داد دیتے ہیں۔جہاں تک ریختہ کا سوال ہے تو اردو اس کے کام کاج کا بنیادی حوالہ ہے۔ اس نے سب کچھ اسی سے اخذ کیا ہے۔ جولوگ ریختہ کے ذریعہ اردو زبان اور رسم الخط سیکھنا چاہتے ہیں، ان کے لیے بھی معقول بندوبست ہے۔قابل ذکر ہے کہ ریختہ کے’آموزش‘نامی اردو سیکھئے پروگرام سے تقریباً ایک لاکھ لوگ اردو رسم الخط کو سیکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر اردو اوسی آر پر کام چل رہا ہے۔ ایسے میں جولوگ ریختہ پر اردو رسم الخط کو ختم کرنے کا الزام عائد کررہے ہیں،انھیں اس پر نظرثانی کرنی چاہئے اور ایک اچھے کام میں روڑے نہیں اٹکانے چاہئیں۔درحقیقت ریختہ نے اردو کو عصر حاضر کی اطلاعاتی اور مواصلاتی ٹکنالوجی سے ہم آہنگ کرکے ایک بڑا کارنامہ انجام دیاہے، جس کے لیے اسے داد دی جانی چاہیے۔
ہماری چند لوگوں سے بات چیت میں یہ عجیب سا انکشاف ہوا کہ اردو والے ہوکر بھی اردو زبان جس رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اس کا وہ نام نہیں جانتے۔ ہمیں حیرت ہوئی۔ کچھ لوگوں نے سادہ طور پر یہ ضرور کہا کہ اسے ’’اردو‘‘ میں یا پھر ’’کتابت‘‘ میں لکھا جاتا ہے۔ ہمیں اس عدم توجہی پر رونا بھی آیا۔ اصل میں بہت سے تہذیبی و ثقافتی عوامل کے زیرِ اثر ہم لوگ اتنی دور تک سفر کرچکے ہیں کہ اردو کی اپنی روایات ہم سے میلوں پیچھے چھوٹ گئی ہیں۔ اسی میں خوش خطی بھی شامل ہے۔ جب اس کا رواج تھا تو اکثر لوگ جانتے تھے کہ اردو کے رسم الخط کا نام ’’نستعلیق‘‘ ہے۔
ہم انھی گم گشتہ روایات کے ڈھیر سے خطِ نستعلیق کا تعارف اور تاریخ پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ اپنی زبان کے تئیں ہم یہ حقیر خدمت کر سکیں۔ ہم یہاں یہ بھی ضرور عرض کرنا چاہیں گے کہ دنیا کی اکثر اقوام اپنی زبان اور رسم الخط سے بے پناہ پیار کرتے ہیں جس کی بیشتر مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ جیسے انگریزی والے ’رومن‘، ایرانی ’فارسی نستعلیق‘، سنسکرت یا ہندی و مراٹھی وغیرہ ’ناگری‘، چینی و جاپانی اور روسی و عربی کے علاوہ چھوٹی بڑی ہر زبان کے پاسدار اپنے اپنے رسوم الخط کے تحفظ و بقا کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، وہ انھیں اپنی اپنی شناخت مانتے ہیں، ان کے یہاں کیلی گرافی یا خوشخطی و خوشنویسی کے کورس بھی یونیورسٹیوں میں داخل ہیں مگر افسوس کہ ہم اردو والے اس جانب سے کسی قدر بے اعتنائی برتنے میں مبتلا ہیں۔
رسم الخط، طرزِ تحریر، لکھاوٹ،لیپی اور اسکرپٹ کے ایک ہی معنی ہیں۔ دنیا میں ہر زبان کا رسم الخط بھی ہو یہ ضروری نہیں۔ بہت سی زبانیں محض بولیوں میں شمار ہوتی ہیں؛ لکھی نہیں جاتیں، اور متعدد زبانوں کا رسم الخط معمولی تبدیلیوں کے ساتھ مشترک ہے۔کچھ زبانوں کا رسم الخط تو ایک ہی ہے لیکن ان کا طرز و انداز کئی قسم کا ملتا ہے۔ یہ جدا جدا انداز خط کہلاتے ہیں۔تمام رسوم الخط کے اپنے بنیادی حروفِ تہجی ہوا کرتے ہیں جن کی ترکیب سے لفظ بن جاتا ہے۔الفاظ سے کلمہ بنتا ہے اور کلمات یا جملوں سے شعر و نثر وجود پاتے ہیں۔ اردو کا رسم الخط یقیناً فارسی سے مستعار ’نستعلیق‘ ہے لیکن چند وجوہات کی بنا پر اس باب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں جنم لینے والی زبان اردو کا رسم الخط ایک امتیازی اور جدا شان کا حامل ہے۔ اس پر کوئی گفتگو کرنے سے قبل آئیے کچھ تاریخی و مستند حوالے بھی دیکھیں۔
رام بابو سکسینہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ’’عام طور پر لوگ اردو کو فارسی کی ایک شاخ خیال کرتے ہیں۔اس وجہ سے کہ اس کی ابتدا مسلمان حملہ آوروں کی فوج میں اور مسلمان سلاطین ِ ہند کی دارالسلطنتوں میں پڑتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔اردو کو فارسی نژاد ہونے کی غلطی عام لوگوں کو تو اس وجہ سے بھی محسوس ہوتی ہے کہ اس میں فارسی الفاظ بکثرت ہیں اور اس کی شاعری کی بحریں اور اس کا رسم الخط بھی مثلِ فارسی کے ہے۔اردو کے حروفِ تہجی بالکل وہی ہیں جو فارسی اور عربی کے ہیں۔ البتہ بعض مخصوص حروف جن سے ہندوستانی زبان کی خاص خاص آوازیں ظاہر ہوتی ہیں، جو فارسی اور عربی میں نہیں پائی جاتیںاضافہ کردی گئی ہیں۔ مثلاً ٹ، ٹھ، ڈ، ڈھ، ڑ، ڑھ۔ ان حروف کے لکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ت، د، ر پر یا تو چھوٹی سی (ط) بنا دیتے ہیں یا چار نقطے دے دیتے ہیں‘‘۔ (تاریخِ ادب اردو)
ڈاکٹر سیدہ جعفر بیان کرتی ہیں کہ: ’’بعض ادیبوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ انگریز بنگالی، ہندی اور اردو کو مخصوص جغرافیائی خطوں میں نشوونما کا موقع دے کر رسم الخط کی بنیاد پر ان میں اختلاف پیدا کرنا چاہتے تھے، اردو اور فارسی رسم الخط میں مشابہت کی بنا پر اسے مسلمانوں سے وابستہ کر دیا گیا‘‘۔ (تاریخِ ادب اردو، جلد دوم، ۲۰۰۰، ہاشم لنگر، حیدرآباد)
کسی بھی طرز اور رسمِ خط کی بنیاد میں باقاعدہ اصول موجود ہوتے ہیں جو حرف و لفظ یا اس کے جز کو لکھتے ہوئے برتنا اس کے حسن و صورت کو قائم رکھنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
عتیق احمد صدیقی نے رقم کیا ہے کہ ’’ہندوستان میں اگر رسم الخط یا تحریر (اسکرپٹ) کی تاریخ تلاش کی جائے تو۔۔۔ اس کا باقاعدہ مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وادیِ سندھ کی تہذیب میں پروردہ لوگوں نے بھی ہڑپا اور موہنجو ڈارو جیسے شہروں میں کچھ تحریروں کے نقوش پتھروں پر بنائے تھے، جن کے یقیناً کوئی معنی اور مطلب نکلتے ہوں گے۔ مگر اب تک کی تحقیق اور ریسرچ کے مطابق اس کا قطعی طور پر پتہ نہیں لگایا جاسکا ہے کہ اُن کے معنیٰ کیا تھے یا وہ کس طرح پڑھی جاتی تھی؟‘‘(ہندستانی تاریخ و ثقافت اور فنونِ لطیفہ، صفحہ۲۴۹)
رشید حسن خان نے بیان کیا ہے کہ ’’رسمِ خط کسی زبان کو لکھنے کی معیاری صورت کا نام ہے اور رسمِ خط کے مطابق صحّت سے لکھنے کا نام اِملا ہے۔ بہت سی بحثیں ایسی ہوئیں کہ جو دراصل اِملا کے مسائل سے تعلق رکھتی تھیں، مگر وہ رسمِ خط کے عنوان سے شروع ہوئیں اور اس کے برعکس بھی ہوا۔اس خلطِ مبحث نے بھی املا کے مسائل کی واقعی اہمیت کو نمایاں نہیں ہونے دیا۔ کس لفظ کو کن حروف سے مرکب ہونا چاہیے، یا لفظ میں ان کی ترتیب کیا ہونا چاہیے، یہ مسئلہ رسمِ خط کا نہیں ہے۔ یا یہ کہ کون سے حروفِ تہجی ختم کردیئے جائیں، یا کسی خاص آواز کے لیے کسی نئی علامت کا اضافہ کیا جائے، یہ بھی املا کے متعلقات ہیں۔فرض کر لیجیے کہ آپ نے اردو کے حروفِ تہجی میں سے آٹھ حرف نکال دیئے،یا پانچ نئے حرف یا چار نئی علامتیں بڑھا دیں؛ مگر اس سے رسمِ خط کی صورت تو نہیں بدلی! لفظوں کو لکھنے میں یا پڑھنے میں کبھی کوئی مشکل پیش آئی تو یہ کہا گیا کہ اردو کے رسمِ خط میں اصلاح کی ضرورت ہے، اور اس بنیادی بات کو فراموش کر دیا گیا کہ اصلاح املا میں ہوسکتی ہے، رسمِ خط میں نہیں۔ وہ یا تو رہے گا یا نہیں رہے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ رسمِ خط میں تغیر ہوسکتا ہے، اصلاح نہیں ہوتی۔رسمِ خط میں صورت اور روش کی بنیادی حیثیت ہے، جن ان میں کلیتاً تبدیلی ہوجائے گی، تب یہ کہا جائے گا کہ رسمِ خط بدل گیا۔ اردو کی عبارت کو اس کے معروف رسمِ خط میں لکھنے کے بجائے رومن اسکرپٹ میں لکھیے تو کہا جائے گا کہ اردو ایک دوسرے رسمِ خط میں لکھی گئی ہے۔ ترکی میں (چونکہ) رومن اندازِ تحریر کو اختیار کر لیا گیا ہے؛ تو اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ ترکی زبان کا رسم الخط بدل گیا ہے۔ سندھی زبان عربی رسمِ خط میں لکھی جاتی رہی ہے۔ اُس کو ناگری لیپی میں (اب) لکھیں گے تو کہا جائے گا کہ سندھی کا رسمِ خط بدل گیا۔ اس کے برخلاف، بعض علامتوں یا شکلوں میں کسی طرح کی اصلاح کیجیے تو وہ اس زبان کے املا میں اصلاح مانی جائے گی، نہ کہ رسمِ خط میں۔ ’’( اردو املا، NCPUL، صفحات ۱۲،۱۳)
امیر حسن نورانی اپنے تحقیقی مقالہ میں رقمطراز ہیں کہ ’’قدیم ایران کا رسم الخط جو بھی رہا ہو لیکن فارسی زبان کے لیے عربی رسم الخط استعمال کیا گیا۔دیلمی حکمرانوں کے علمی و فنی ذوق و شوق کی بدولت آذربائیجان کا علاقہ علمی سرگرمیوں کا مرکز بن گی۔ اس علاقے میں پہلے پہل خطِ نسخ نے فنی وضع اختیار کی اور فنِ تحریر نے خطاطی کی حدوں سے آگے بڑھ کر نقاشی کے میدن میں قدم بڑھایا، اور اس خط میں مصورانہ نزاکتیں پیدا ہونے لگیں۔ایرانیوں کے ذوقِ جمال اور ان کی نفاست پسندی نے انھیں اس بات آمادہ کیا کہ عربی کے خط نسخ میں ردّوبدل کرکے کوئی نیا خوبصورت خط ایجاد کیا جائے کیونکہ خط نسخ لکھنے میں قلم ہر لفظ اور حروف میں یکساں رہتا ہے۔ آٹھویں صدی ہجری میں امیر تیمور کے عہد میں میر علی تبریزی نے خط نسخ اور تعلیق کی آمیزش سے آٹھواں خط ایجاد کیا جو حسن و نفاست میںسابقہ خطوں سے زیادہ مقبول ہوا۔ اسی کا نام ’نستعلیق‘ ہے۔ ابوالفضل نے آئینِ اکبری میں اس بات سے اختلاف کیا ہے کہ نستعلیق کی ایجاد میر علی تبریزی نے کی۔ انھوں نے لکھا کہ امیر تیمور سے قبل یہ خط وجود میں آچکا تھا۔ (اس کے لیے ابوالفضل نے کوئی حوالہ بھی دیا ہو اس کا ذکر نہیں ملتا)۔ اگر ابوالفضل کی تحقیق کو درست تسلیم کیا جائے تب بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تبریزی نے خطِ نستعلیق کو ترقی دینے میں بہت کوشش کی اور اس کے شاگردوں نے اس کو ایران، ترکستان اور ہندوستان میں پھیلایا۔ نستعلیق کو خوبصورت اور دلکش بنانے میں میر علی کے بیٹے میر عبداللہ تبریزی نے بہت محنت کی۔ اس کے بعد سلطان علی مشہدی نے اس کو مکمل کرنے کی جدوجہد کی اور وہ اس خط کا استادِ کامل بن گیا۔خطِ نستعلیق کے اصول و ضوابط خواجہ قمرالدین کے شاگرد میر علی ہروی نے مرتب کیے جو مشہور اور ماہر نستعلیق نگار تھے۔ ان کے بعد میر عماد حسین قزوینی نے اس خط کو مزید دلکش بنایا۔‘‘ (منتخبہ اقتباسات، منشی نول کشور؛ ان کے خطاط اور خوشنویس، ترقی اردو بیورو،نئی دہلی ۱۹۹۴ء۔صفحات۳۶،۳۷،۳۸)
امیر حسن نورانی مزید تحریر کرتے ہیں کہ ’’مغلیہ دور میں نسخ اور نستعلیق دونوں خط رائج تھے لیکن نستعلیق اپنی زیبائی اور دلکشی کے باعث مقبولِ عام تھا۔ اس فن کو حکومت کی سرپرستی حاصل تھی۔خطاطی اور خوشنویسی کو عہدِ شاہجہاں میں بہت فروغ حاصل ہوا۔اس کے زمانے میں میر عماد قزوینی کے شاگرد عبدالرشید دیلمی نے خطِ نستعلیق کو نکھارا اور اس میں ایک امتیازی شان پیدا کی‘‘۔ ’(ایضاً، صفحہ ۴۲)
خوشنویسی کی تاریخ شاہد ہے کہ اس کا کمال و زوال اسلامی سلطنتوں کے عروج و انحطاط سے وابستہ رہا ہے۔ چنانچہ ہندوستان و ایران میں جو عروج اس کو حاصل ہوا وہ محتاجِ بیان نہیں ہے۔ یہاں سلطنتِ مغلیہ کا زمانۂ عروج اس کے شباب کا زمانہ تھا۔ خود شاہانِ وقت بڑے پایہ کے خوش نویس و مبصر ہوئے۔ انھوں نے بڑے اہتمام سے اپنی اولاد کو بھی یہ فن سکھلایا۔ چنانچہ شاہزادوں کے علاوہ متعدد بادشاہ زادیاں اور بیگمات تک خوشنویس تھیں۔ مثلاً گلبدن بیگم، جہاں آرا، نورجہاں اور زیب النسا، اورنگ زیب، بہادر شاہ ظفر، داراشکوہ وغیرہ۔ تصویر کی طرح خوشنویسی سے تزئینِ طاق و محراب کا کام لیا جاتا تھا۔ اردو نے ایسے زمانے میںآنکھ کھولی اور ہوش سنبھالا کہ جب خوشنویسی کا دائرہ عالمگیر ہو چکا تھا اور اس کی کشش اہلِ علم و فن اور سلاطینِ زمن کو اپنی جانب کھینچ چکی تھی۔ خوشنویسوں کے قلم اپنی شاہجہانی کے علم گاڑ چکے تھے۔ (صحیفۂ خوشنویسان: مولوی شاغل عثمانی)
یہی وہ دور تھا جب ہندوستان میں نستعلیق کا باقاعدہ داخلہ اور رواج و فروغ ہوتا ہے اور یہی ’امتیازی شان پیدا کی‘ وہ نکتہ ہے جہاں سے ہندوستان میں نستعلیق کی الگ پہچان اور خالص ہندوستانیت کا رچاؤ شروع ہوتا ہے جو ہماری اردو زبان کے لیے اصلی یا اوریجنل بن جاتا ہے۔
رفتہ رفتہ عبدالرشید دیلمی کے (ہادشاہوں، شاہزادوں اور شاہزادیوں سمیت ہزاروں) شاگردوں نے ہندوستانی مزاج کے مطابق بھی قلم اور روش کے انداز تبدیل کردیے۔ اس دور میں فارسی کا رواج تھا لیکن عوامی کھڑی بولی کے روپ میں اردو بھی جنم لینے کے مراحل میں تھی۔ اسی لیے اردو کا رسم الخط گوکہ فارسی سے مستعار ہے مگر اس نے ہندوستان میں اپنا الگ رنگ وروپ اپنایا۔ اس کی زلفوں کی مشاطگی کرنے والوں نے اس کے آہنگ و نقوش میں بدلاؤ داخل کردیا۔ یہی سبب ہے کہ برصغیر میں مروّجہ خطِ نستعلیق میں فارسی زبان میں کچھ تحریر کردیا جائے تو اہلِ فارس اسے ویسی تحسین سے نہیں نوازتے جیسی وہ فارسی (طرزِ ایرانی) نستعلیق میں فارسی کے لکھ دینے سے کیا کرتے ہیں۔
غیرمنقسم ہندوستان میں ہی ہندوستانی نستعلیق کے تین اہم مکاتب وجود پاچکے تھے جو تقسیمِ وطن کے بعد بھی وہی ہیں۔ یہ مکتب یا اسکول خطِ نستعلیق کے دائروں، دامن اور روشوں میں معمولی تغیرات اور خصوصیات و حسن سے معنون ہیں۔ انھیں لکھنوی، دہلوی اور لاہوری اسکول کہا جاتا ہے۔ لکھنوی نستعلیق کے لیے منشی شمس الدین اعجاز رقم صاحب کو بلاشرکتِ غیرے استاد و موجد کہا جاتا ہے۔آپ نے متعدد کتابیں اس کے قواعد کی تحریر کرکے تعلیمِ خط کو عام کیا اور خوب داد پائی۔ دوسرا خط دہلوی اپنے آپ میں بھی بہت متغیر ہے۔ اس کے قواعد کی کوئی بھی کتاب شہروں شہروں تلاشِ بسیار کے باوجود علم میں نہیں آسکی۔ اسی سے یہ نتیجہ نکال کر یہ گستاخانہ رائے دینا پڑ رہی ہے کہ جو خط لکھنوی یا لاہوری اسکول کا نہیں ملتا اسے سب ’دہلوی‘ کہتے ہیں۔تیسرا خطِ نستعلیق لاہوری کہلاتا ہے۔ اس خط کی عمر تینوں میں سب سے کم ہے۔ کوئی ۸۰ برس ہی ہوئے ہوں گے۔ اسے لاہور میں منشی عبدالمجید پرویں رقم نے ایجاد و اختراع کیا۔ ان کے بعد تاج الدین زرّیں رقم اور ان کے بیشتر شاگردوں نے اس میں فن پارے بھی پیش کیے اور معمولی اصلاحات کے ساتھ امتیازی شان بھی پیدا کرتے رہے لیکن اس کا باقاعدہ ایک اسکول قائم ہے جس کے پاس اپنی کتابِ قواعد بھی ہے اور کثیر تعداد میں ہے۔
اردو کا رسم الخط ہی اس کا چہرہ ہے۔ نستعلیق سا نستعلیق۔ آپ نستعلیق کے بغیر اردو کا تصور نہیں کرسکتے۔دوسرے رسمِ خط میں اسے قبول نہیں کیا جاتا۔اسے تبدیل کرنے کی جتنی کوششیں ہوئیں اتنا ہی یہ مستحکم ہوا۔ قبلِ آزادی و بعدِ آزادیٔ ہند کے ادوار کی تبدیلی نے اردو کی وطنی اور ملک گیر حیثیت کو بھی یقیناً متاثر کیا لیکن اس کا چہرہ باقی رہا۔ ہنوز املا اور جملہ صحیح ہونے کے باوجود ہندوستان ہی نہیں عالمگیر سطح پراردو کو نستعلیق کے سوا دوسرے رسم الخط میں اکثریت قبول نہیں کرتی۔
نئے علوم و فنون کی ایجادات و اشاعت کا دور بہت زیادہ پرانا نہیں ہے لیکن کئی گوشوں سے رہ رہ کر یہ آواز بھی اٹھتی رہتی ہے کہ اردو کا رسم الخط تبدیل کردینا چاہیے۔ خصوصاً کمپیوٹر ٹکنالوجی کی آمد اور اس پر اردو کے کاموں میں سہولت پیدا ہونے سے قبل تک یہ بہت سے اُن حیلوں کے ساتھ بھی سامنے آتی تھی کہ جدید علوم کو اس میں منتقل ہونے اور اس کی کلاسیکیت و جدیدیت کو دوسروں میں ترسیل کے لیے اس کا رسمِ خط ہی مانع ہے۔یہ موضوع ایک طویل بحث کے ساتھ ہی دلائلِ کثیرہ کا متقاضی ہے اس لیے ہم اس پر کسی وقت اور باتیں کریں گے۔ سرِ دست ڈاکٹر امیراللہ شاہین سے استفادہ کرتے ہوئے کہنا چاہیں گے کہ ’’رہی ملکی حالات کی بات تو پورے ملک کا ایک رسم الخط محض خوش آئند تصور ہے جس کے ڈانڈے دیوانے کے خواب سے جاملتے ہیں۔ ہندوستان میں زبانوں کے چار بڑے خاندان ہیں ان سب کے اپنے اپنے علاقے بٹے ہوئے ہیں۔ہر تیس میل کے فاصلے پر لب ولہجہ میں فرق آجاتا ہے۔ سیکڑوں بولیوں کو یکجا کرنا قطعاً ناممکن ہے۔اس سلسلے کی ہر کوشش توانائیوں کوضائع کرنے کے سواکچھ نہیں۔ یوں بھی ایسی کوئی روایت کسی دوسرے ملک میں بھی موجود نہیں ہے۔ باوجودیکہ ان میں سے کچھ ممالک کے پاس زبردست عسکری تنظیم اور فکری وحدت موجود ہے۔ اس لیے یہ یہاں اور بھی قابلِ عمل نہیںہے۔ اس قسم کی ہر کوشش سے منافرت اور مغائرت کو ہوا ملے گی۔ اس لیے دانشمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ اس گلستاں میں ہزاروں طرح کے پھولوں کو اپنی اپنی مخصوص بو، باس اور اپنے خاص آب و رنگ کے ساتھ پھلنے، پھولنے اور پھیلنے کے مواقع دیئے جائیں کہ یہی وقت کی آواز ہے اور یہی اس مسئلہ کا بہترین حل ہے۔ فی الواقع یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، ایک سیدھی سادی حقیقت کو مسئلہ بنا دیا گیا ہے‘‘۔ (جدید اردو لسانیات، چغتائی پبلشرز، میرٹھ، ۱۹۸۳ء، صفحہ۱۳۸)
ہندوستان آنے کے بعد دورِ مغلیہ میں ایرانی طرزِ خط کو مقبولیت حاصل رہی البتہ مطابع قائم ہونے کے بعد یہاں کے کاتبوں نے اس میں حسبِ ضرورت کچھ ترمیم کر لی۔ منشی دیبی پرشاد نے ’’ارژنگِ چین‘‘ لکھ کر اوّلین رہنما کتاب پیش کی۔ منشی شمس الدین اعجازؔرقم نے اپنے کمالات کا استعمال کرتے ہوئے ایرانی طرز میں کچھ ترامیم کر کے نئے اصول وضع کیے جسے لکھنوی طرز کہا گیا۔ آپ نے ان اصولوں کی رہنمائی کے لیے نظمِ پروین، مرقعِ نگارین اور اعجاز رقم جیسی کتب مرتب فرمائی۔ اسی کے مقابل دہلی اسکول میں بھی بیشتر تبدیل شدہ اصول اپنانے کی کوشش کی گئی مگر باوجود اختراعات کے باقاعدہ قواعد کی کوئی کتاب دستیاب نہیں ہے جو طلبہ کو اس خط کی تحصیل میں معاون ہو سکے۔ اس طرح فارسی کے بعد لکھنوی و دہلوی خطوط کا اجرا عمل میں آیا جنھیں نستعلیق کی دوسری نسل (جنریشن) کہا جا سکتا ہے۔
غیر منقسم ہندوستان میں لاہور کے منشی عبدالمجید پرویں رقم کی جدت انگیز طبیعت نے ایرانی طرز کو لے کر اس میں ایسی خوبصورت ترامیم کیں کہ۱۹۳۰ء کے آس پاس ’’طرزِ پروینی‘‘ کے سامنے دوسروں کا چراغ جلنا مشکل ہو گیا تھا۔ حتیٰ کہ شاعرِ مشرق علامہ اقبالؔ نے اپنے جملہ کلام کی کتابت خود اپنی نگرانی میں پرویں رقم سے کروائی۔ بعد میں اسی طرزِ پروینیؔ کو ’خطِ لاہوری‘ کہا گیا۔ نستعلیق کی یہ تیسری جنریشن ہے۔
علامہ اقبال طرزِ لاہوری کے ایسے والا و شیدا تھے کہ ان الفاظ میں خراج پیش کیا کہ ’’اگر منشی پرویں رقم خطاطی چھوڑ دیں گے تو میں بھی شاعری ترک کردوں گا۔‘‘
منشی عبدالمجید پرویں رقم کے شاگرد و جانشین تاج الدین زریّں رقم نے اس خط کو اتنا دیدہ زیب کر کے پیش کیا کہ اس کا شہرہ چہاردانگِ عالم میں ہوا۔ فیض مجدّد لاہوری انھیں دونوں اصحاب کے شاگردِرشید تھے اور جواں عمری میں ہی ممبئی آ بسے تھے۔ پھر پوری عمر یہیں بسرکی۔ تاج الدین زرّیں رقم کو پاکستان میں ’خطاط الملک‘ کا مرتبہ حاصل تھا اور یہاں فیض صاحب کو بھی بجا طور سے ’خطاط الہند‘ کا درجہ و مقام ملا ہوا تھا۔
اسی دور میں بعض اصحاب کے یہاں امتزاجی خطوط بھی مشاہدہ میں آتے ہیں جن میں راجستھان کے خلیق ٹونکی نے اپنے حسنِ خط سے ایک پورے دور کو متاثر رکھا اور خوب داد پائی۔ہر مکتب کے خطاطوں اور خوش نویسوں نے ان کی آبیاری و پرورش میں اپنا خونِ جگر صرف کیا ہے، اصول و قواعد مرتب کیے ہیں، انھیں تفصیل سے سمجھنے میں اردو زبان و ادب کے ارتقا کی تاریخ بھی مضمر ہے۔ کیونکہ اردو کی ترقی و مقبولیت کے لیے خوشنویس و کاتب حضرات کا اپنا کرداروکارکردگی بھی اہم ہے۔ جتنے باکمال خوشنویس تھے ان کی تحریروں کو پڑھنے سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کی تعداد بھی ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ جاتی تھی۔
دورِ جدید کمپیوٹر کا دور ہے۔ اردو میں یہ کچھ چالیس برسوں پر محیط ہے۔ ان چالیس برسوں سے قبل اردو کے خوش نویس و قاعدہ دان کاتب حضرات رفتہ رفتہ کم سے کم ہوتے گئے۔جدید تکنیکوں کے ساتھ طباعتی مراحل کی تکمیل اور دیگر زبانوں سے مسابقت کا دور ایک سیلاب کی مانند آیا۔ کاتب حضرات اس کا سامنا نہیں کرسکتے تھے۔ پھر زمانے کے تقاضے اور چھپائی کی تکنیک میں تبدیلیوں کے تقاضے چکی کے دوپاٹ ثابت ہوئے جن کے بیچ قلم و دوات بے حد ناتوانی کے عالم میں پس گئے۔
اردو کے لیے وقت آن پڑا کہ وہ نستعلیق کے اپنے پیکر کو برقیاتی ترقیات کے حوالے کردے اور اپنی بقا کا سامان کرلے۔ اس ضرورت کے پیشِ نظر بیشتر کوششیں ہوئی۔ کئی نستعلیق فونٹ کتابت کے بعد اسکین کرکے Bitmapبنائے گئے یا انھیں True Type فارم میں تبدیل کیا گیا، کچھ بالراست ڈیزائننگ سافٹ ویئر کورل ڈرا (CorelDRAW) میں ڈیجیٹل کتابت کیے گئے۔ جدید کمپیوٹر تکنیک کا تقاضہ ہے کہ فونٹس کو ہر قسم کے پلیٹ فارم پر آسانی کے ساتھ چلایا جاسکے۔ اس لیے انھیں یونیکوڈ unicode زبان میں تیار کیا جائے۔ اس سلسلے میں پیش رفت کرتے ہوئے نوری نستعلیق اور فیض نستعلیق کو بھی یونیکوڈ میں تبدیل کردیا گیا جو اب نئے ورژن ’اِن پیج ۳‘ میں شامل ہیں۔ اس پلیٹ فارم پر پبلشنگ اب مزید آسان اور جدید تکنیک کے مطابق ہوچکی ہے۔
ایجاد و اختراع کی منازل سے گذرتے ہوئے جدید تکنیک سے ہم آہنگی کے لیے یونیکوڈ میں کئی نستعلیق فونٹ لانچ کیے گئے ہیں لیکن طباعتی دنیا کے تقاضے صرف نوری نستعلیق اور فیض نستعلیق ہی پورے کرتے ہیں اور آج بیحد کامیاب ہیں۔ ان کا متبادل نہیں ہے۔ ان کی کامیابیوں نے اب قدیم کلاسک نستعلیق اسکولوں کے فونٹس کے ساتھ ہی جدید تقاضوں کو پورا کرنے والے ضروریاتی نستعلیق فونٹس کی ڈیزائن کے لیے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اردو اب اپنے منفرد چہرہ کے ساتھ برقیاتی ترقی کے ہر دور میں زندہ رہے گی اور فروغ بھی پائے گی۔
محمدیہ طبیہ کالج مالیگاؤں میں 11 – 12 دسمبر 2023 میں طب نبوی پر منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کرکے بہت خوشی ہوئی – کانفرنس کے کنوینر حکیم جاوید احمد خاں کی خواہش تھی کہ میں کانفرنس میں شرکت کرکے اس کی مرکزی تھیم پر اظہارِ خیال کروں – ان کا اصرار میرے عذر پر غالب آیا – آمادگی کا اظہار کرتے ہی انھوں نے فلائٹ کا ٹکٹ بھیج دیا – چنانچہ شریڈی ہوتے ہوئے میں مالیگاؤں پہنچ گیا –
محمدیہ طبیہ کالج حضرت مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کا قائم کیا ہوا ہے – انھوں نے مالیگاؤں میں پورا شہرِ علم بسا دیا تھا – جامعہ محمدیہ ، ٹیکنیکل کیمپس ، فیکلٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ، پولیٹیکنک ، اسلامک اسٹڈیز کالج ، معهد إعداد الأئمة والدعاة ، کلیہ عائشہ صدیقہ للبنات ، معہد عثمان بن عفان لتحفيظ القرآن الكريم ، جونیر کالج ، اردو پرائمری سکول ، اردو ہائی اسکول وغیرہ قائم ہیں – فارمیسی کالج اور بزنس ایڈمنسٹریشن کالج شروع ہونے والے ہیں – یہ سب ادارے ماشاء اللہ خوب ترقی کررہے ہیں – اب ان اداروں کی سرپرستی ان کے فرزندِ ارجمند مولانا ارشد مختار اپنے صاحب زادگان کے ساتھ کررہے ہیں – چند ادارے دوسرے مقامات پر بھی چل رہے ہیں ، مثلاً جامعہ محمدیہ منصورہ بنگلور ، کلیہ فاطمہ الزہراء للبنات مئو ، جامعہ صدیقہ للبنات آواپور پوپری ضلع سیتا مڑھی (بہار) وغیرہ – منصورہ کیمپس مالیگاؤں کی عمارتیں ماشاء اللہ بہت عالی شان اور خوب صورت ہیں –
کانفرس میں پورے ملک کے طبیہ کالجز کے اساتذہ ، ایم ڈی اسکالرس اور طب نبوی سے عملی شغف رکھنے والے دوا سازشوں نے شرکت کی – اس موقع پر شائع ہونے والے سووینیر میں 300 مقالات کے اختصاریے شائع کیے گئے ہیں – افتتاحی تقریب صبح 10 بجے منصورہ کیمپس کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی – آغاز میں جامعہ محمدیہ کے چیئرمن جناب ارشد مختار نے مہمانانِ کرام کا استقبال کیا – انھوں نے کہا کہ طب نبوی پر انٹرنیشنل کانفرنس کا مقصد دورِ حاضر میں طب نبوی کی اہمیت و افادیت کو پیش کرنا اور اس کو فروغ دینا ہے – اس کانفرنس کے ذریعے مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی کہ وہ طب نبوی پر علمی کام کروانے کے بہت خواہش مند تھے – پرنسپل حکیم محمد زبیر اور کنوینر حکیم جاوید احمد خاں نے کالج کی فنّی ، علمی اور عملی سرگرمیوں کا تعارف پیش کیا اور کانفرنس کے اغراض و مقاصد بیان کیے – ڈاکٹر یونس افتخار منشی (ڈائریکٹر NRIUMSحیدرآباد) ، ڈاکٹر فائز بن محمد القثامي (سعودی عرب) اور ڈاکٹر احمد غفار فوزی حجازی(مصر) نے تحقیقی مقالے پیش کیے –
میرے مقالے کا عنوان ‘طب یونانی کی صحیح تفہیم’ تھا – میں نے ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی جن میں اطبا اور مؤلفینِ طبِ یونانی سے اب تک کوتاہی ہوتی رہی اور ان پہلوؤں کا تذکرہ کیا جن پر کام ہونا چاہیے –
میری گفتگو کے نکات درج ذیل تھے :
1 – طب نبوی پر بہت کام ہوا ہے – مختلف زبانوں میں کتابیں لکھی گئی ہیں ، تحقیق کے مراکز قائم ہوئے ہیں ، سنّت نبوی میں اعجاز ثابت کرنے کے لیے انجمنیں بنی ہیں ، سمینار اور کانفرنسیں منعقد ہوئی ہیں ، البتہ ہندوستان میں غالباً یہ پہلی بین الاقوامی کانفرنس ہورہی ہے ، جس پر ذمے دارانِ کالج مبارک باد کے مستحق ہیں –
2 – طبِ نبوی کو محض چند دواؤں ، غذاؤں اور علاجی طریقوں کا مجموعہ سمجھنا درست نہیں ہے – طب نبوی کی اصل اہمیت اور اس کا پیغام یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے طب کو بہ طور فن تسلیم کیا – خود بیمار پڑنے پر آپ نے دوائیں لیں ، اپنے اصحاب کو اس کی تلقین کی ، طبیب سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا ، ناتجربہ کاری کے باوجود علاج کرنے پر مریض کو نقصان پہنچ جانے کی صورت میں طبیب کو ضامن قرار دیا –
3 – طب نبوی کے امتیازات تین پہلوؤں سے ہیں : (1) آپ نے صحت کی اہمیت بیان کی، اسے اللہ کی نعمت قرار دیا اور اس کی حفاظت کی تاکید کی – (2) آپ نے تعدیہ ( Infection) اور قرنطینہ (quarantine) کا تصور اس وقت پیش کیا ، جب دنیا ان سے بالکل جاہل تھی – (3) آپ نے طب کے میدان کی اخلاقیات بیان کی ، چنانچہ حلف نامہ بقراط میں جتنی دفعات پائی جاتی ہیں ان میں سے بیش تر کی تاکیدات احادیث میں پائی جاتی ہے –
4 – طب نبوی کی شرعی حیثیت ایک مہتم بالشان موضوع ہے – بعض علماء نے طب سے متعلق تمام احادیث کو دوسری احادیث کی طرح وحی پر مبنی قرار دیا ہے ، لیکن دوسرے متعدد علماء اس کا انکار کرتے ہیں – وہ کہتے ہیں کہ طب نبوی اصلاً عہدِ نبوی میں سرزمینِ عرب میں طب کے بارے میں انسانی تجربات و معمولات کا عکس ہے – یہی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے –
5 – طب نبوی کی بنیاد احادیث پر ہے – لیکن مؤلفین نے اس معاملے میں مطلوبہ احتیاط نہیں برتی ہے اور لاپروائی اور تن آسانی کا مظاہرہ کیا ہے – انھوں نے بہت سی ضعیف اور ضعیف جدّاً (بہت زیادہ ضعیف) ہی نہیں ، بلکہ موضوع (من گھڑت) احادیث بھی اپنی کتابوں میں شامل کرلی ہیں –
6 – طب نبوی کے معاملے میں اب تک عقیدت اور غلو کے جذبات غالب رہے ہیں – ضرورت ہے کہ طب نبوی پر کام کرنے والے محققین اور معالجین سائنسی بنیادوں کو پیش نظر رکھیں – کسی دوا کے افعال و خواص بیان کریں تو انہیں سائنسی طور پر ثابت کرکے دکھائیں –
7 – طب نبوی اور طب یونانی کے درمیان کافی مشابہتیں پائی جاتی ہیں – دونوں میں نباتی ادویہ پر زور دیا گیا ہے – دونوں کے بعض طریقہ ہائے علاج مشترک ہیں – اس لیے طب نبوی کی خدمت کرنے والے طب یونانی کے بھی خادم قرار پائیں گے –
8 – مناسب ہوگا کہ طب نبوی پر صرف کانفرنس منعقد کرلینے پر اکتفا نہ کیا جائے ، بلکہ ایک تحقیقی مرکز قائم کرنے کی طرف پیش رفت کی جائے –
مقالات کے سیشن کل تک جاری رہیں گے اور کچھ متوازی اجلاس بھی ہوں گے – افسوس کہ سہ پہر ہی میں واپسی کی وجہ سے میں استفادہ سے محروم رہا –
کانفرنس کے منتظمین ، خاص طور سے حکیم جاوید احمد خاں اور حکیم نسیم احمد نے میرے ساتھ مہمانِ خصوصی کا سا بتاؤ کیا – انھوں نے ہر طرح کے آرام کا خیال رکھا – مولانا ارشد مختار نے اپنے گھر پر ضیافت کا اہتمام کیا – اللہ تعالیٰ ان سب کو اچھا بدلہ عطا فرمائے –
کسی سمینار / کانفرنس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہاں بہت سے احباب ، رفقاء ، مدرسہ اور کالج کے ساتھیوں اور دوسرے اہلِ علم سے ملاقات ہوجاتی ہے – یہاں بھی ایسا ہی ہوا – بہت سے طبیہ کالجوں کے اساتذہ ، جن سے غائبانہ شناسائی تھی ، بہت محبت اور تپاک سے ملے اور ان سے تبادلۂ خیال کا موقع ملا – ممبئی سے تشریف لائے طب نبوی کے دواساز جناب عمران صاحب اپنے اسٹال پر لے گئے اور چند دواؤں کا تحفہ دیا –
میں نے جماعت اسلامی ہند کے رفقاء کو مالیگاؤں پہنچنے کی اطلاع دے دی تھی – مولانا عبد العظیم فلاحی سابق امیر مقامی ، جناب شاہد اقبال موجودہ امیر مقامی ، جناب حذیفہ ہدائی اور دیگر احباب مختلف اوقات میں ہوٹل تشریف لائے – ان سے مل کر بہت خوشی ہوئی – حذیفہ صاحب ایک اسکول چلاتے ہیں – ان کی خواہش تھی کہ میں اسکول کا وزٹ کرلوں ، لیکن کانفرنس کا شیڈول مصروف ہونے کی وجہ سے وقت نہ نکل سکا ، جس کا افسوس رہا –
مغربی اترپردیش کا شہر رامپور جہاں اپنے پرسکون طرز زندگی کے لیے مشہور ہے تو وہیں اس کی شہرت کا بنیادی حوالہ یہاں کی رضا لائبریری ہے، جو ایشیاء کے کتب خانوں میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ اس لائبریری کی خصوصیت اتنی ہی نہیں ہے کہ یہاں نادرونایاب کتابیں،قلمی نسخے اور پینٹنگ موجود ہیں بلکہ جس دل آویز عمارت میں آج یہ لائبریری قایم ہے، وہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی لائبریری ہو جو ایک ایسے محل میں چل رہی ہے جس کے ستون وگنبدپر سونے کی ملمع کاری ہے اور جہاں سو سال پہلے آویزاں کئے گئے قمقمے اب بھی ویسے ہی روشن ہیں۔ جی ہاں یہ رضا لائبریری ہے جو اپنے قیام کے ڈھائی سوسال پورے کررہی ہے۔ اس کی ابتدا ایک دیگر عمارت میں ہوئی تھی لیکن جب سے یہ حامدمنزل میں منتقل ہوئی ہے اس میں چار چاند لگ گئے ہیں۔
میں نے گزشتہ ہفتہ اس لائبریری میں کچھ وقت گزارا، اور وہاں سے آپ کے لیے کچھ موتی چن کر لایا ہوں۔سبھی جانتے ہیں کہ آزادی سے قبل ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں جو شخصی حکومتیں قایم تھیں اور جن کی قیادت نوابین کرتے تھے، ان میں کئی ریاستیں ایسی بھی تھیں جنھوں نے اپنے وسائل کا بڑا حصہ علم وفن کی توسیع وتبلیغ پر صرف کیا۔ ان میں اولین ریاست حیدرآباددکن کی تھی جہاں کا سالارجنگ میوزیم اور لائبریری اس کے گواہ ہیں، جبکہ دوسرا نام ریاست رامپور کا ہے، جہاں کی رضا لائبریری اپنے نادر ونایاب مخطوطوں اور نوادرات کی وجہ سے اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔گزشتہ تیس برسوں سے یہاں لائبریرین کی خدمات انجام دے رہے ڈاکٹر ابوسعد اصلاحی نے اس لائبریری کے تعلق سے نہایت کارآمد معلومات فراہم کیں۔ انھیں اگر اس لائبریری کا انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔
درحقیقت کتب خانوں کے قیام اور ان کی ترقی میں مسلمانوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں، انھیں تاریخ فراموش نہیں کرسکتی۔مسلمانوں نے جن جن فنون میں عروج حاصل کیا، علم وکمال کے ساتھ ساتھ علمی ذخیرے بھی وہاں محفوظ کردئیے۔کتابیں جمع کرنے کا یہ ذوق وشوق اتنا عام تھا کہ حکمراں اور والیان ریاست کے علاوہ ہر خوشحال گھرانے کو کتابوں سے شغف اور انھیں جمع کرنے کا جنون تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لائبریریوں کے علاوہ جگہ جگہ شخصی کتب خانے بھی موجود ہیں۔
عہدوسطیٰ کے مسلمان دوسری ہم عصر قوموں سے اس اعتبار سے ممتاز نظر آتے ہیں کہ اس عہد میں یوروپ کے لوگ کتب خانے کے اہتمام سے عام طورپر ناواقف تھے، کتابوں سے عام استفادے پر پابندی تھی اور انھیں زنجیروں سے باندھ کر رکھا جاتا تھا، اس وقت مسلم ریاستوں میں بڑے بڑے کتب خانے قایم تھے، جہاں دنیا بھر کے علوم کے ذخائر گوشے گوشے سے لاکر جمع کئے جاتے تھے اور ان کی شہرت سن سن کر تشنگان علم وادب دوردراز کا سفر کرکے وہاں آتے تھے۔یہ کتب خانے اسلامی علوم وفنون اور مسلمانوں کے علمی کارناموں کی زندہ مثال تھے۔اس میں کسی کو کلام نہیں ہوسکتا کہ مشرق ومغرب نے بغداد اور قرطبہ کے کتب خانوں اورمدرسوں سے جو اکتساب کیا تھا، وہ موجودہ دور کی علمی وتہذیبی ترقیوں کی اساس ہے۔ مشہور مورخ ایچ جی ویلز کے الفاظ میں ”اسلامی تمدن،مشرقی تمدن کا پیش رو ہے۔بصرہ، کوفہ، قاہرہ، بغداد اور قرطبہ وغیرہ یونیورسٹیاں علم وحکمت کا مرکزتھیں اور تمام جہان میں نور پھیلارہی تھیں۔“
رامپور رضا لائبریری کی بنیادریاست کے بانی نواب فیض اللہ خاں(1774تا1794) نے رکھی تھی، جو علم وفن کے سرپرست اور علم دوست انسان تھے، لیکن اس کتب خانے کی ترقی کا اصل دور نواب محمدسعید خاں کی مسند نشینی (1840)سے شروع ہوتا ہے۔ انھوں نے دیگر محکموں کی اصلاح کے ساتھ کتب خانے کی طرف توجہ دی۔قلمی کتابوں کی فراہمی کے ساتھ نادر ونایاب کتابوں کی نقلیں بھی کرائیں۔بعدازاں نواب کلب علی خاں نے 1865میں اپنی مسند نشینی کے بعد اس کتب خانے کو چارچاند لگائے۔نواب حامد علی خاں کی1889میں تخت نشینی کے بعد مسیح الملک حکیم اجمل خاں اس لائبریری کے افسراعلیٰ مقرر ہوئے اور انھوں نے عربی کتب کی طرف خاص توجہ دی۔نواب حامد علی خاں کے انتقال کے بعد 1930نواب رضا علی خاں نے زمام حکومت سنبھالی تو مولوی نجم الغنی خاں (مولف’اخبار الصنادید‘) کو لائبریری کا ناظم مقرر کیا۔1932میں ان کے انتقال کے بعد مولانا امتیازعلی خاں عرشی کو کتب خانہ کا ناظم بنایا گیا، جو رضا لائبریری کے سب سے مشہور ناظم کہے جاتے ہیں۔ عرشی صاحب نہ صرف ماہر غالبیات تھے بلکہ انھوں نے اپنے گراں قدرعلمی وتحقیقی کارناموں کی چھاپ چھوڑی۔
1947میں ملک کی آزادی کے بعد 1949میں ریاست رامپور صوبہ اترپردیش میں ضم ہوگئی تو نواب رضا علی خاں نے یہ کتب خانہ قوم کے نام وقف کردیا اور اس کا نام اسٹیٹ لائبریری سے بدل کر رامپور رضا لائبریری رکھا گیا۔1951میں اس کے انتظام کے لیے ایک ٹرسٹ بناکر تمام مصارف یوپی حکومت نے اپنے ذمہ لے لیے۔1957میں لائبریری قدیم عمارت سے ’حامدمنزل‘ میں منتقل ہوگئی، جسے نواب حامد علی خاں نے 1905میں ایک محل کی طرز پر تعمیر کرایا تھا۔ یہ خوبصورت عمارت انڈو یوروپین طرز کا بہترین نمونہ ہے۔عمارت کے اندر انتہائی حسین گیلری، جس سے متصل کشادہ کمرے میں گیلری کی بلند محرابوں میں سنگ مرمر کے خوبصورت مجسمے ہیں۔کمروں کی چھتیں اور دیواریں رنگ وروغن سے سجی ہوئی ہیں۔ اس عمارت کا سب سے خوبصورت حصہ دربار ہال ہے جس کی چھتیں سونے سے سجائی گئی ہیں۔ہال میں نادر اور بیش قیمت جھاڑفانوس اس کی خوبصورتی کو چارچاند لگاتے ہیں۔یہ بات بھی عجیب ہے کہ گزشتہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے ان جھاڑفانوسوں کے قمقمے اسی آب وتاب کے ساتھ روشن ہیں۔
1975میں سابق وزیرتعلیم پروفیسر نورالحسن کی کوششوں سے مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں ایکٹ پاس کرکے اسے اپنی تحویل میں لے کر قومی ادارہ بنادیا۔اس وقت یہ لائبریری مرکزی وزارت ثقافت کے زیرانتظام ہے اور2024 میں اپنے قیام کے ڈھائی سوسال(1774تا 2024) منارہی ہے۔یہاں ایک لاکھ مطبوعہ کتابوں کے علاوہ اردو، عربی، فارسی، سنسکرت اور ہندی کے ہزاروں نادر ونایاب قلمی نسخے موجود ہیں۔یہ عظیم الشان کتب خانہ نادر مخطوطات، نایاب قلمی تصویروں، نہایت اہم کتابوں اور قیمتی وصیلوں اور نوادرات کی وجہ سے ہندوستان ہی نہیں چہاردانگ عالم میں شہرت رکھتا ہے۔یہاں عربی، فارسی، سنسکرت، اردو،ترکی اور پشتو وغیرہ کے 17ہزار مخطوطات، تاڑ کے پتوں پر تمل، تلگو، کنڑاور سنہالی کے 200 مخطوطات کے ساتھ ساتھ پانچ ہزار قلمی تصویریں اوراسلامی خطاطی کے تین ہزار نمونے محفوظ ہیں۔مخطوطات کے علاوہ ایک لاکھ کے قریب مطبوعہ کتب ہیں جن میں ہزاروں کتابیں نہایت اہم اور نادر ہیں، جن کے نسخے اب ناپید یا کمیاب ہیں۔ 1914 میں علامہ شبلی نعمانی نے اس لائبریری کو دیکھ کر کہا تھا کہ ”میں نے روم اور مصر کے کتب خانے بھی دیکھے ہیں، لیکن کسی کتب خانے کو مجموعی اعتبار سے اس سے افضل نہیں دیکھا۔“اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد نے 1952میں اس لائبریری کی وزیٹر بک میں لکھا تھا کہ ”ہندوستان میں جو گنتی کے قیمتی علمی ذخائر ہیں، ان میں ایک گراں مایہ ذخیرہ یہ ہے۔“
مجموعی اعتبار سے یہ ہندوستان میں اپنی طرز کا واحد کتب خانہ ہے، جہاں عربی اور فارسی کی قلمی کتابیں بڑی حفاظت سے رکھی ہوئی ہیں۔کئی قدیم نسخے خود مصنّفین کے لکھے ہوئے ہیں۔347 عربی اور 523فارسی نسخے ایسے ہیں جو نہایت خوش خط خود مصنّفین اور اور مشہور خطاطوں کے ہاتھوں کے لکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مشہور ومعروف مصوروں کی تصاویر اس کتب خانے میں بکثرت موجود ہیں، جن میں چند پر ان کے دستخط بھی ہیں۔
لائبریری کے ذخیرے میں سب سے قدیم اور قیمتی مخطوطہ پہلی صدی ہجری مطابق ساتویں صدی عیسوی کا قرآن مجید کا وہ نسخہ ہے، جو خط کوفی میں چمڑے پر لکھا ہوا ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دست مبارک کا تحریر کردہ بتایا جاتا ہے۔اسی طرح دوسری صدی ہجری مطابق آٹھویں صدی عیسوی کا ایک قرآن مجید امام جعفر صادق سے منسوب ہے۔اسی طرح بغداد کے وزیراعظم اور خط نسخ کے موجد شہرہ آفاق خطاط ابن مقلہ سے منسوب کاغذ پر لکھا ہوا چوتھی صدی ہجری ایک قرآن مجید بھی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ ابن مقلہ نے اپنی زندگی میں قرآن مجید کی جو دوکاپیاں تیار کی تھیں، ان میں سے ایک رضا لائبریری کی زینت ہے۔قرآن مجید کا ایک اور نسخہ مشہورخطاط یاقوت مستعصمی (متوفی 698 ہجری)کے ہاتھ کا لکھا ہوا بھی یہاں موجود ہے۔قرآن مجید کے اس کے علاوہ بھی کئی نادر ونایاب نسخوں کے علاوہ عربی زبان کی بیش قیمت کتب اس لائبریری میں پائی جاتی ہیں۔
اگرچہ عربی اور فارسی کے مقابلے میں یہاں اردو کی قلمی کتابیں کچھ کم ہیں، لیکن وہ اپنی قدر وقیمت کے اعتبار سے بہت باوزن ہیں۔ان میں ”دیوان زادہ شاہ حاتم“، ”کلیات میر“،”کلیات سودا“اور ”دیوان غالب“وغیرہ کے بڑے اہم مخطوطے یہاں موجود ہیں۔یہاں غالب کا وہ اردو دیوان بھی موجود ہے جسے انھوں نے 1857سے کچھ پہلے مرتب کرکے نواب رامپور کو ہدیہ کیا تھا۔ان کے علاوہ ہندی اور سنسکرت کے اہم مخطوطات بھی اس لائبریری میں موجود ہیں۔لائبریری میں تاڑ کے پتوں پر سنسکرت، تلگو، کنڑ، ملیالم اور سنہالی زبانوں کے دوسو سے زائد آثار ہیں، جن کے پتوں کی مجموعی تعداد بیس ہزار ہے۔لائبریری میں قلمی کتابوں اور مصور نسخوں کے علاوہ ایک ہزار سے زائد نہایت نادر ونایاب قلمی تصویروں کا ذخیرہ ہے، جس کا بڑا حصہ مغل مصوری پر مشتمل ہے۔عہداکبری کا ایک دلچسپ البم”طلسم“ کے نام سے ہے، جس میں تقریباً 150لاجواب تصاویر ہیں، جن میں اس عہد کی سماجی، معاشی وثقافتی زندگی کی بھرپورعکاسی ہوتی ہے۔ایک البم ”مرقع اولیاء اللہ“ کے نام سے ہے جس میں مشہور صوفی سنتوں کی تصاویر ہیں۔اس کے علاوہ جن بادشاہوں، امراء، نوابین، راجہ مہاراجہ اورمشہور سیاسی، مذہبی اور تاریخی شخصیتوں کی تصویریں اس ذخیرے میں موجود ہیں ان میں ہلاکو خاں، امیرتیمور، بابر، ہمایوں،اکبر، گلبدن بیگم، ابوالفضل، فیضی، بیربل، جہانگیر، نورجہاں،اورنگزیب اور بہادر شاہ ظفر وغیرہ کی تصاویر شامل ہیں۔صوفی اور سنتوں میں خواجہ معین الدین چشتی، حضرت نظام الدین، شیخ سلیم چشتی، تلسی داس اور میرانیس وغیرہ کی تصویریں یہاں موجود ہیں۔لائبریری کی یہ قلمی تصویریں فن مصوری کے سبھی اسکولوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔اسی طرح مشہور خطاطوں کی ایک ہزار سے زیادہ وصلیاں یہاں موجود ہیں۔مجموعی طورپر یہ لائبریری نادرونایاب کتابوں، قلمی نسخوں، فن پاروں اور نوادرات کا ایک منفرد مرکزہے۔
آج مؤرخہ 3 دسمبر 2023 بروز اتوار صبح ۱۰ بجے مدرسۃ العلوم الاسلامیہ، علی گڑھ میں مختلف اسکولوں کےطلبہ اور طالبات( کلاس 9th to 12th) کی فکری تربیت کے لیے ایک ورکشاپ
"Youth Tarbiyah Workshop” کے عنوان سے منعقد کیا گیا۔
الحمد للہ تقریبا ۱۰۰ سے زائد طلبہ و طالبات نے اسمیں شرکت کی جس میں خوش آئند بات یہ رہی کہ زیادہ تعداد بچیوں کی تھی۔ اس ورک شاپ میں پہلے سے طے شدہ عناوین کے تحت دو الگ الگ اسپیکرز (جناب ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب(نئی دہلی ) اور حسن عمار ندوی(مدرسہ ہذا) ) نے اپنے اپنے عنوان پر بہت اچھے انداز میں تفصیلی گفتگو کی ۔ پروگرام کا آغاز حسب روایت تلاوت و نعت سے ہوا ۔ پھر مدرسہ ہذا کے پرنسپل جناب ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی صاحب حفظہ اللہ نے ورکشاپ کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمارا مقصد ہے کہ زندگی کے مختلف میدانوں میں ہمارے نوجوان اچھے مسلمان اچھے انسان کیسے بنیں ، ان میں ملی شعور کیسے پیدا ہو ، انھوں نے کہا ناخواندگی ہماری قوم کا ایک بڑا مسئلہ ہے مگر میری نظر میں اس سے بڑا مسئلہ پڑھے لکھے لوگوں کا اچھا سچا مسلمان نہ ہونا اور ملی شعور سے خالی ہونا ہے ، انھوں نے نوجوان طلبہ و طالبات کو یوتھ کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا کہ آپ کے لیے یہ سمجھنا اس لیے بہت ضروری ہے کیونکہ آپ ہی ہماری قوم کا مستقبل اور اسکے نمائندے اور اسکی امید ہیں، انھوں نے غزہ کے نوجوانوں کے شعور کی مثال دی کہ وہ دنیا کی ٹاپ کلاس یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں لیکن واپس آ کر اپنی خدمات اپنے وطن کو دیتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ پتہ نہیں کب دشمن شہید کر دے ، بس اسی شعور کو ڈیویلپ کرنے کی ضرورت ہے ۔
اسکے بعد حسن عمار ندوی نے "Muslim Youth: Abilities and Responsibilities” کے عنوان پر بڑی موثر اور سیر حاصل گفتگو کی ۔ پھر ڈاکٹر غازی صاحب نے "Blessed Life with Imaan” کے عنوان پر اور آخری سیشن میں "Living as One Ummah” کے عنوان پر عصر حاضر کے سوالات کو سامنے رکھتے ہوئے مفید گفتگو کی۔
ہر سیشن کے بعد میں تمام مشارکین کو کھل کے سوال کرنے کا موقع دیا گیا۔ سوال و جواب سے اندازہ ہوا کہ طلبہ اور طالبات نے بہت توجہ اور اطمینان کے ساتھ نہ صرف یہ کہ گفتگو کو سنا بلکہ انتہائ قیمتی سوالات بھی کیے جسکے تشفی بخش جوابات دینے کی کوشش کی گئ۔ ہمیں محسوس ہوا کہ اس طبقہ میں کام کرنے کی اور ان طلبہ کے ساتھ روابط بڑھانے کس قدر ضرورت ہے۔ ان کے اندر طلب ہے سوالات ہیں لیکن انھیں ایسے مواقع نہیں مل رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ ایسے افراد کی بھی ضرورت ہے جو مناسب انداز میں ان طلبہ کے معیار کو سامنے رکھتے ہوئے فکر اسلامی اور تعلیمات اسلام ان کے سامنے پیش کرسکیں۔ دینی اور ملی شعور ان میں اس لیے بھی پیدا کرنا ضروری ہے کہ آگے چل کر یہی طلبہ نظام زندگی کی زمام سنبھالتے ہیں۔ورکشاپ کے اختتام پر ایک طالب علم اور ایک طالبہ سے اپنے تاثرات پیش کرنے کی درخواست کی گئ جس سے محسوس ہوا کہ الحمد للہ ہمارا یہ عمل اور آج کا یہ اجتماع ان شاء اللہ انکی زندگیوں میں کسی نہ کسی درجہ میں تبدیلی کا سبب بنے گا ۔ اسکے بعد سب سے زیادہ سوالات کرنے والے اور اچھے سوالات کرنے والے پانچ طلبہ اور پانچ طالبات کو MOST ACTIVE PARTICIPANT AWARD سے بھی نوازا گیا ، اور جملہ طلبہ و طالبات کو PARTICIPATION CERTIFICATE سے بھی نوازا گیا۔
الحمد للہ جملہ امور بحسن و خوبی مکمل ہوے اور ارادہ ہے کہ ان شاء اللہ آگے بھی اس طرح کے پروگرام ہم جاری رکھیں گے۔ کیا خوب ہوتا کہ مسلم مینیجمنٹ کے مختلف اسکول اور کالج بھی اس جانب توجہ دیتے اور اپنے کو کریکولم میں ایسے ایونٹ بھی شامل کرتے ، اور اپنے اداروں میں ایسے ورکشاپ منعقد کرتے۔ ورنہ کم از کم اس سلسلے کو مفید بنانے اور جاری رکھنے میں ہماری مدد کرتے۔
تمل ناڈو میں اسلامک فقہ اکیڈمی کا 32 واں سمینار – ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کا سہ روزہ 32 واں سمینار تامل ناڈو کے ضلع کرور کے شہر پَلّاپٹّی میں واقع مدرسہ جامعۃ الاسوۃ الحسنۃ میں 18 – 20 نومبر 2023 میں منعقد ہورہا ہے – طویل مسافت کی وجہ سے سفر کی ہمّت نہیں ہوپارہی تھی ، لیکن اکیڈمی کے انچارج امورِ انتظامی برادر مکرّم انیس اسلم کے بار بار توجہ دلانے اور شرکت کے لیے کہنے پر ارادہ کرلیا اور بالآخر سفر ممکن ہوسکا –
جامعہ الاسوۃ الحسنۃ شریعہ کالج کی تاسیس 1991 میں مولانا عبد الرحیم رشادی قاسمی کے ہاتھوں ہوئی تھی – 2021 میں کورونا کے زمانے میں ان کی وفات کے بعد ان کے صاحب زادے مولانا محمد زکریا حسینی اس کا انتظام دیکھ رہے ہیں – یہ تامل ناڈو کا ایک معروف مدرسہ ہے – اب تک 600 علماء یہاں سے فراغت حاصل کرچکے ہیں – اِس وقت 300 طلبہ زیر تعلیم ہیں – فقہ اکیڈمی کا اٹھارہواں سمینار 2009 میں تامل ناڈو کے شہر مَدُرائی میں ہوا تھا – اب یہ دوسرا سمینار اسی ریاست کے شہر پلّاپٹّی میں ہو رہا ہے –
سمینار کا افتتاحی اجلاس آج (18 نومبرکو) دس بجے شروع ہوا – ناظمِ مدرسہ مولانا محمد زکریا حسینی نے استقبالیہ کلمات پیش کیے – انھوں نے تامل ناڈو میں اسلام کی آمد اور مسلم حکم رانی کی تاریخ اور دینی ، دعوتی اور تعلیمی سرگرمیوں کا تفصیل سے تذکرہ کیا – مولانا عبید اللہ اسعدی سکریٹری اکیڈمی نے اجتماعی اجتہاد اور اس سلسلے میں اکیڈمی کی خدمات اور انفرادیت پر روشنی ڈالی – مولانا عتیق احمد بستوی سکریٹری اکیڈمی نے اکیڈمی کی ابتدائی تاریخ کا حوالہ دیا – انھوں نے بار بار مولانا ابو اللیث ندوی اصلاحی امیر جماعت اسلامی ہند کا تذکرہ کیا کہ انھوں نے ڈاکٹر محمد منظور عالم کو ، جو اسلامک فقہ اکیڈمی کے منصوبہ سازوں میں سے تھے ، مشورہ دیا کہ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی سے رابطہ کریں اور انہیں اکیڈمی کی ذمے داری دیں ، ان کی شخصیت کے گرد علماء جمع ہوسکتے ہیں – مولانا محمد فضل الرحیم مجددی نے اپنی گفتگو میں اگلا سمینار جامعۃ الھدایۃ جے پور میں کرنے کی پیش کش کی – مولانا انیس الرحمٰن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ نے فقہ اکیڈمی کے شان دار ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے اس کے حال کو اس سے بہتر ہونے کی جانب توجہ دلائی – مولانا ڈاکٹر عبد اللہ جولم استاذ جامعہ دار السلام عمر آباد ، تامل ناڈو کے معروف عالم دین مولانا سراج الدين رشادی ، کشمیر سے تشریف لائے مہمان مفتی رحمت اللہ کشمیری قاسمی اور بعض دیگر حضرات نے تاثرات پیش کیے –
اس موقع پر سابقہ سمیناروں کے موضوعات پر پیش کیے جانے والے مقالات کے 6 مجموعوں کا اجرا ہوا :
(1) نکاح مسیار کی شرعی حیثیت
(2) ورچُووَل کرنسی کے شرعی احکام
(3) موجودہ حالات میں جمعہ کے لیے ‘مصر’ (شہر) ہونے کی شرعی حیثیت
(4) دار القضاء کی آن لائن بعض کارروائیاں
(5) سدِّ ذریعہ – ایک اہم اصول
(6) باغات میں پھلوں کی خرید و فروخت
ان کے علاوہ بین الاقوامی فقہ اکیڈمی جدہ(سعودی عرب) کے فقہی فیصلوں کے اردو ترجمہ ، فقہی سمیناروں میں پیش کیے گئے خطبہ ہائے صدارت کے مجموعہ بہ عنوان ‘علماء اور خواصِ امت – مقام اور ذمے داریاں’ اور مولانا ثناء الہدی قاسمی کی عربی کتاب بہ عنوان ‘المسائل المستجدۃ فی احکام الشریعۃ الاسلامیۃ’ کا بھی اجرا عمل میں آیا –
آخر میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ و سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی نے کیلدی خطبہ پیش کیا – وہ افتتاحی اجلاس کے صدر بھی تھے – انھوں نے ملک میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کوششوں اور مسلمانوں میں ارتداد کی بڑھتی ہوئی لہر پر تشویش کا اظہار کیا اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے 6 نکاتی پروگرام پیش کیا : (1) بنیادی دینی تعلیم عام کرنے کی تدابیر اختیار کی جائیں – (2) لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے زیادہ سے زیادہ اسلامی اسکول کھولے جائیں – (3) ملازمتوں میں مسلمانوں کی حصہ داری بڑھانے کے لیے کوچنگ سینٹر قائم کیے جائیں – (4) فنّی مہارتوں کو فروغ دینے کے لیے پرائیوٹ ادارے چلائے جائیں – (5) ذرائعِ ابلاغ کا مؤثر اور وسیع پیمانے پر استعمال ہو – (6) مسلمان اپنے اختلاف کو محدود کرنے کی کوشش کریں اور اعتدال کی روش اختیار کریں – افتتاحی اجلاس کی نظامت اکیڈمی کے انچارج علمی امور کنوینر مولانا ڈاکٹر صفدر زبیر ندوی نے کی –
اس اجلاس میں تین موضوعات پر اجتماعی غور و خوض ہونا ہے : (1) سرمایہ کاری کے بعض نئے طریقے
(2)حرام کمائی سے متعلق بعض مسائل
(3) تشبہ سے متعلق احکام و مسائل – آئندہ دو دنوں میں ان موضوعات پر مباحثہ و مذاکرہ کے بعد تجاویز منظور کی جائیں گی –
اردو کے ایک بہترین افسانہ نگار انور قمر ہمارے بیچ اب نہیں رہے ، جمعرات ۹ ، نومبر کی صبح وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے اور اسی دن بعد نمازِ ظہر باندرہ کے قبرستان میں ان کی تدفین ہوگئی ۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ جس افسانہ نگار نے اپنی تقریباً ساری زندگی اردو زبان کو دے دی اس کی تدفین میں اردو والے ( مُراد اردو زبان کے شعراء ، ادبا اور صحافی حضرات ہیں ) شریک نہیں ہو سکے ! اِسی سال ہمارے ایک افسانہ نگار عبدالعزیز خان کا انتقال ہوا تھا ، ان کی تدفین میں اردو زبان کے تین صحافی اور ایک نوجوان افسانہ نگار شامل تھے ، بس ! لیکن اگر کسی اردو والے سے پوچھا جائے کہ ایسا کیوں ہوا ہے ، تو شاید وہ یہی کہے گا کہ قصور اردو والوں کا نہیں ہے ، وہ جواز دے گا کہ عبدالعزیز خان نے لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا ، وہ کہے گا کہ انور قمر مرحوم برسوں سے گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے تھے ، ان کے ٹھکانے کا اکثر لوگوں کو پتہ نہیں تھا ، پھر وہ کہے گا کہ جب کوئی خبر ہی نہ ملے گی تو کیسے تدفین میں جاتے ! یہ خبر کا نہ ہونا اور ایک دوسرے سے کٹ جانا ، آج کی تیز رفتار زندگی کا ایک ایسا بہانہ ہے جو بڑی سے بڑی خطا کو معاف کرنے کا سبب بن جاتا ہے ۔ ہم اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے کہ ہم نے خود رابطے کی کوشش کی یا نہیں کی ۔ مرحوم انور قمر عمر کے ٨٣ ویں سال میں تھے ، اور عبدالعزیز خان کا جب انتقال ہوا تو وہ ٨٤ سال کے ہو چکے تھے ، یہ عمریں بہتوں کے لیے تکلیف دہ بن جاتی ہیں اور اکثر لوگ تنہائی پسند بن جاتے ہیں ، لہذا یہ اُن کا جو عمر میں کم ہیں ایک فرض بن جاتا ہے کہ وہ اپنے بزرگ ساتھیوں کی خبر لیں ، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ہم سکون کی سانس لیتے ہیں کہ جان چھوٹی ! کچھ پہلے تک یہ نہیں تھا ۔ مجھے خوب یاد ہے کہ جب افسانہ نگار انور خان صاحبِ فراش تھے تب ان کی عیادت کے لیے ادیبوں کا اناجانا لگا رہتا تھا ، اور جو کسی سبب جا نہیں پاتے تھے وہ خیر خیریت پوچھتے تھے ۔ مرحومین انور خان ، مقدر حمید ، علی امام نقوی ، ساجد رشید ، افتخار امام صدیقی ، مظہر سلیم ، م ناگ اور مشتاق مومن خوش قسمت رہے کہ ان کی تدفین میں اردو زبان وہ ادب سے تعلق رکھنے والوں کی ، بہت بھاری نہ سہی ، لیکن خاصی تعداد موجود تھی ۔ اب زمانہ بدل گیا ہے ، اب لوگ بھول کر بھی کسی کی خیر خیریت نہیں پوچھتے ہیں ۔ کبھی کبھی زندگی ایسے تجربات سے دوچار کرتی ہے کہ یقین نہیں آتا ! مرحوم انور قمر کو جب میں نے جانا تب وہ ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے اپنی ساکھ بنا چکے تھے اور کسی محفل میں اُنہیں افسانہ پڑھتے ہوئے سُننا ایک خوشگوار تجربہ ہوتا تھا ۔ خوش پوش ، وجیہ اور دراز قد انور قمر کم بولتے تھے ، لیکن کم گو نہیں تھے ، انہیں بولنا بھی خوب آتا تھا ۔ وہ دوستوں کے دوست تھے ، کھلانے پلانے کے شوقین ۔ پڑھنے کا بھی خوب شوق تھا ۔ عالمی ادب پر گہری نگاہ تھی ۔ لیکن ایک دور وہ بھی آیا کہ انہوں نے اپنی جمع کی ہوئی تمام کتابیں ایک کباڑی کو تول دیں ، اور لوگوں سے مُنھ موڑ لیا ۔ کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہوا تھا ! کچھ کہتے ہیں کہ کچھ خانگی اور کاروباری الجھنوں سے ایسا ہوا ، واللہ اعلم ! لیکن کیسا المیہ ہے کہ ان کا کوئی ایسا دوست نہیں تھا جو انہیں الجھنوں سے باہر نکالنے کی کوشش کرتا ۔ وہ دنیا سے کٹ گیے اور ہم سب نے انہیں کٹ جانے دیا ، شاید کسی نے اُنہیں جوڑنے کی کوشش نہیں کی ۔ کیا اب ہم اُنہیں ان کی موت کے بعد یاد ، اور وہ جس پائے کے افسانہ نگار تھے اس کا اعتراف کریں گے ؟ یہ سوال اس لیے ہے کہ عبدالعزیز خان کے انتقال کو سال بیت رہا ہے ، کہیں کسی طرف سے ان کے لیے کوئی تعزیتی نشست نہیں کی گئی ہے ۔ ایسا کئی مرحومین کے ساتھ ہو چکا ہے ، تو کیا ایسا ہی ہوتا رہے گا ؟