مشہور عربی ناول نگار، نقاد اور دانش ور الیاس خوری طویل اور سرگرم ادبی و فنی زندگی گزارکر آج 76 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔خوری 1948 میں بیروت کے ایک مڈل کلاس عیسائی خانوادے میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے لبنان یونیورسٹی سے تاریخ کی تعلیم حاصل کی اور پیرس یونیورسٹی سے سماجی تاریخ میں پی ایچ ڈی کی۔ انھوں نے اپنا پہلا ناول’لقاء الدائرۃ‘ 1975 میں لکھا اور 1977 میں فلم ’الجبل الصغیر‘ کا اسکرین پلے لکھا، جس میں لبنان کی خانہ جنگی کو موضوع بنایا گیا تھا۔ان کے نمایاں ناولوں میں "رحلۃ غاندي الصغیر” ،’مملکۃ الغرباء‘ ، "یالو” اور مشہور و معروف ناول ’باب الشمس ‘شامل ہیں، آخرالذکر ناول پر مصری ہدایت کار یوسف نصراللہ نے 2002 میں فلم بھی بنائی تھی۔ ویسے ان کے قلم سے درجن بھر سے زائد ناول ،کہانیوں کے مجموعے ،ڈرامے اور غیر افسانوی اصناف پر متعدد کتابیں منظر عام پر آئیں۔ان کی کتابوں ،خصوصاً ناولوں کے انگریزی و عبرانی سمیت دس سے زائد عالمی زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں۔انھوں نے لبنان کے سیاسی و سماجی مسائل کے علاوہ اپنی ادبی تخلیقات میں مسئلۂ فلسطین کے مختلف پہلووں کو بھی موضوع بنایا،ان کا شمار محمود درویش،توفیق زیاد، ناجی العلی،غسان کنفانی،ایمیل حبیبی اور مرید البرغوثی وغیرہ جیسے مزاحمت کار ادیبوں اور دانش وروں کی صف میں ہوتا تھا۔انھوں نے فکشن کے علاوہ اپنے مضامین میں اور پبلک پلیٹ فارمز پر بھی فلسطینی کاز کی پرزور حمایت اور اسرائیلی مظالم پر کھلی تنقیدیں کیں۔
خوری مختلف زمانی وقفوں میں کئی ممتاز رسائل و اخبارات کے شعبۂ ادارت سے وابستہ رہے، جن میں ’شؤن فلسطینیۃ‘، ’الکرمل‘ اور ’السفیر‘ شامل ہیں۔تاہنوز وہ دوسرے ادبی مشاغل کے ساتھ اخباری کالم بھی لکھا کرتے تھے،جو مشہور عربی اخبار ’القدس العربی‘ میں شائع ہوتا تھا۔انھوں نے بیروت تھیٹر کے آرٹسٹک ڈائریکٹر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں اور اسی ماہ ستمبر کے ’معاصر آرٹس فیسٹیول‘ کے شریک ڈائریکٹر تھے۔ الیاس خوری ایک نہایت سرگرم اکیڈمیشین بھی تھے اور انھوں نے دسیوں امریکی،یورپی اور عربی یونیورسٹیز میں درس و تدریس کی خدمات انجام دیں۔