صفدرا مام قادری
صدر شعبہ اردو، کا لج آف کا مرس،آرٹس اینڈ سائنس،پٹنہ
شہریت ترمیماتی قانون اور اس طرح کی دوسری عوام مخالف سرگرمیوں کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی کو بے نقاب کرنے کی غرض سے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شروع ہوئی عوامی تحریک قومی سطح پر پھیل چکی ہے اور وہ اپنے دائرہئ کار میں اتنے موضوعات اور موجودہ حکومت کی ناکامیوں کے ابواب شامل کرچکی ہے۔ جسے آسانی سے روکنا اور اس کے رخ کو موڑنا ممکن نظر نہیں آتا۔ ہرچند انتظامیہ اور عدالت کی فرقہ پرست مداخلت اور مفاد پرست عناصر کی رخنہ اندازیوں کے اندیشے بھی برابر نظر آتے ہیں مگر اندازہ یہی ہے کہ یہ تحریک عوامی بیداری کے کام کو اپنے انجام تک پہنچانے میں بہر طور کامیابی حاصل کرے گی۔ مختلف صوبائی حکومتوں اور مرکز کے انتظام کاروں نے آغاز میں جس ظالمانہ انداز سے ان آوازوں کو کچلنے کی کوشش کی، اب عوامی شراکت کی وجہ سے ان کی بھی براہِ راست ایسی ہمت نہیں کہ وہ ان تحریک کاروں کو بہ زورِ بازو ملیامیٹ کر دیں۔
یہ درست ہے کہ ہندستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف سیاسی پارٹیوں میں مقابلے کی طاقت نہیں ہے۔ سب سے بڑی سمجھی جانے والی کانگریس کا حال ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ وہ نریندر مودی اور امت شاہ سے آر پار کی لڑائی کرنے کے موڈ میں ہے۔ سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور اب پرینکا گاندھی؛ ان کے نقلی چہرے اور قومی مسئلوں پر رٹے رٹائے بیانات ڈرائنگ روم سیاست سے کچھ زیادہ اثر نہیں رکھتے۔ ملک کے لیے یہ سب سے افسوس ناک گھڑی ہے کہ کانگریس نہ اپنی قیادت کو موثر بنانے کی کوشش کرتی ہے اور نہ ہی صوبائی سطح پر وہ توجہ دے رہی ہے جس سے عوام کے اس احتجاج کو مزید پھیلنے کے مواقع ملیں حالاں کہ کانگریس بھارتیہ جنتا پارٹی کے مخالفانہ ماحول کا جگہ جگہ فائدہ اٹھاتی رہی ہے او راس کی اپنی یا یو۔پی۔اے۔ کی کئی سرکاریں تحفے میں مل چکی ہیں مگر اس کا اعتماد اب بھی اتنا کمزور ہے جس سے کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے ابھی ہمیں اور انتظار کرنا ہوگا۔
شہری ترمیماتی قانون سے بے شک سب سے پہلے ہندستان کے مسلمانوں کو یہ بات سمجھ میں آئی کہ نشانہ انھی کی طرف ہے جس سے انھیں میدان میں آنا ہی تھا۔ اس سے پہلے جموں وکشمیرمیں تین سو ستر دفعہ کے خاتمے اور وفاقی ڈھانچے میں جس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی نے چھیڑ چھاڑ کی اور پھر بابری مسجد کے سلسلے سے عدالتِ عالیہ کا جو فیصلہ آیا —اس سے ہندستانی مسلمانوں کو یہ سمجھنے کا موقع مل چکا تھا کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارادوں کو سمجھیں اور اپنے وجود کی جنگ کے لیے میدانِ عمل میں آئیں۔ اس لیے اولاً احتجاج تھوڑے سیکولر لوگوں اور مسلم جماعتوں کی طرف سے ہوا۔ آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے اس میں پہل کی اور اپنی تحریک سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے ملک کے مزاج اور مقدر کی تعمیر و تشکیل میں اپنا حصہ اور اپنی قربانیوں کی شمولیت سے دریغ نہیں کریں گے۔ ان کے خون اور ان کے زخم مندمل نہیں ہوئے اور فصیلِ وقت پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہندستان اور دنیا کو وہ ذوقِ عمل کی ترغیب دے رہے ہیں کہ قومی زندگی کے زہر کو امرت بنانے کے لیے جب ہمارے نونہال میدانِ کارزار میں ہوں تو دوسروں کو خوابِ غفلت میں نہیں ہونا چاہیے۔
اس تحریک سے طلبا اور نوجوانوں کی انجمنوں کو پھر سے زندہ اور سرگرم ہونے کا موقع ملا ہے۔ تہذیبی اور ثقافتی حلقوں میں بھی سرگرمیاں پیدا ہوئی ہیں۔ نئے نئے گانے، پرانی نظمیں اور جانی انجانی زبانوں کے نعرے اور شعر فضا میں تیر رہے ہیں مگر ہندستان کی تاریخ میں پہلے جو نہ ہوا تھا، نیا وہ ہوا یعنی مجاز کے لفظوں میں ہماری ماؤں بہنوں بیٹیوں نے اپنے آنچل کا پرچم بنالیا۔ کمال یہ کہ اقلیت آبادی کے گھروں سے سب سے زیادہ لڑکیاں اور عورتیں نکل کر سامنے آئیں۔ انھیں کسی نے امورِ خانہ داری سے باہر قدم بڑھاتے ہوئے بہت کم دیکھا تھا۔ خلافت تحریک کے زمانے میں جب محمد علی اور شوکت علی گرفتار ہوگئے تو ان کی ناخواندہ ماں پردے کی زندگی تیاگ کر عوامی جلسوں میں آگئیں۔ آج بھی ان کو یاد کرتے ہوئے یہ جملے تاریخ کی کتابوں میں جگ مگ جگ مگ کرتے نظر آتے ہیں:
بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
گیا کی کانفرنس میں جب بی اماں نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا کہ محمد علی اور شوکت علی ہی ابھی جیل گئے ہیں۔ لوگوں کو اس کی تیاری کرنی چاہیے کہ کل گاندھی جی کو انگریز جیل میں ڈالیں گے، اس کے بعد بھی جنگِ آزادی کی تحریک کیسے چلے گی؟ ان کا وہ جملہ کون بھول سکتا ہے کہ محمد علی اور شوکت علی میرے دو بیٹے ہیں۔ خدا نے اگر ایسے ہزار بیٹے دیے ہوتے تو انھیں بھی ملک پر نچھاور کردیتی۔ ہندستان کی تاریخ کے بعض روشن ابواب ایسی خواتین سے بھی مکمل ہوئے ہیں جنھوں نے اپنی قربانیوں اور سیاسی سوجھ بوجھ سے تاریخی کام انجام دیے ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بھی چوٹ کھائی ہوئی لڑکیاں اپنے جسمانی اعذار سے بے پروا ہوکر قوم کے دکھوں کے علاج کے لیے عوام کے سامنے آئی تھیں۔ انھیں اس بات سے بھی اب طاقت مل رہی ہوگی کہ جواہر لال نہرو کی یونی ورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کی صدر فرقہ پرستوں کی لاٹھیوں سے زخم کے ٹانکے لگائے ہوئے میدان سے ایک لمحے کے لیے نہیں ہٹیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پڑوس میں جو محلہ آباد ہے، اس کو نہ جانے کس عالم میں شاہین باغ سے موسوم کیا گیا تھا۔ ہم اردو والے اقبال کے شیدائی ہیں تو شاہین کا مطلب ہمیں معلوم ہے۔ پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرتے ہیں اور پلٹنا اور جھپٹنا اس کی فطرت کا حصہ ہے۔ شاعرِ مشرق کو جس نے نہ پڑھا ہو، وہ بھی شاہین باغ محلے کی سڑکوں پر دسمبر اور جنوری کی سرد راتوں اور کپکپاتی ہوئی زندگی میں لہو گرم کرنے کا قومی بہانہ کیا ہوتا ہے، وہ آکر دیکھ سکتا ہے۔ آج ایک اندازے کے مطابق ملک میں سو جگہوں سے زیادہ ایسے مستقل مظاہرے ہو رہے ہیں جہاں ہماری گھریلو عورتیں اور پردہ نشیں خواتین فرقہ پرستی اور جمہوریت کو بچانے کی جنگ میں سڑکوں پر بے خوفی کے ساتھ میدان میں آئی ہوئی ہیں۔ انھیں کسی نے نہ انقلاب کی تربیت دی اور نہ ہی قانون اور حقوق کے اسباق پڑھائے۔ مگر یہ مہینے ڈیڑھ مہینے میں اتنا سیکھ چکی ہیں کہ اب ایوانِ حکومت کو اپنی صاف صاف باتیں کہہ رہی ہیں۔
۷۵۸۱ء کے انقلاب کی اس وقت پسپائی کے جو مختلف اسباب بیان کیے جاتے ہیں، ان میں مستحکم قیادت کا فقدان سرِ فہرست ہے۔ آج یہ سوال سب کے سامنے ہے کہ شہریت ترمیماتی قانون اور اس سے پیدا شدہ مسائل کے خلاف نبردآزمائی میں پورے ملک میں جو تحریک چل رہی ہے، اس کی واضح قیادت نظر نہیں آتی۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اس تحریک میں باوجود کوشش کے سیاسی جماعتوں اور مذہبی طبقوں کو صفِ اول میں جگہ نہیں ملی سکی اور انھیں زیادہ سے زیادہ گیسٹ آرٹسٹ کے طور پر ہی ہم دیکھ رہے ہیں۔ اسے اس تحریک کا بعض افراد سیاہ پہلو قرار دے سکتے ہیں مگر یہ حقیقی طور پر اس تحریک کی طاقت ہے کیوں کہ پیشے ور سیاست دانوں سے اب ہماری قوم کا بھلا ہونے والا نہیں۔ جنوبی افریقہ سے جب گاندھی ہندستان پہنچے تو انھیں تھوڑے لوگ جانتے تھے اور وہ بھی ہندستان کو کچھ زیادہ نہیں سمجھتے تھے۔ مگر چمپارن ستیہ گرہ اور اس کے بعد اچانک ان کی قبولیت میں جو تیزی آئی، اسی سے اس ملک کا سیاسی نقشہ بدلا تھا۔ مطلب واضح ہے کہ قیادت اپنے آپ پیدا ہوجاتی ہے اور وہ پرانی قیادتوں کو بے اثر کرکے منزل تک پہنچ جاتی ہے۔ اس تحریک سے بائیں جماعت کے افراد اور دانش مندانہ فکر رکھنے والے آزاد ذہن کے لوگوں کو بھی اپنی آواز اٹھانے کا موقع مل رہا ہے۔ اس تحریک میں بھارتیہ جنتا پارٹی ہی نہیں اس کی مخالف نام نہاد غیر فرقہ پرست سیاسی جماعتوں کے تضادات اور مفادات بھی طشت از بام ہورہے ہیں۔ یہ سب مستقبل کے ہندستان کے لیے خوش آیند ہے۔ نیا ہندستان نئے لوگوں کے خواب اور ان کی کوششوں سے بنے گا۔
اب اس تحریک کا دائرہئ کار بڑھنا چاہیے۔ بھوک اور غریبی، بے روزگاری اور عدم مساوات کے سوالوں کو جوڑ کر اقلیت آبادی کے مسائل مزید روشن کیے جاسکتے ہیں۔ جمہوری اداروں کو عوامی کنٹرول میں کیسے رکھا جائے، اس کے لیے نئے سوالوں کو غور و فکر کا حصہ بنانا ہوگا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اس تحڑیک کی آڑ میں اپنے ووٹ کو مزید مشتعل کرنے کی مشق بھی کررہی ہے۔ ہمیں اپنی محاذ آرائی سے مخالف کو یکجا نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اس کے لیے نئے ایجنڈے کی تلاش اور تعلیم یا روزگار کے مسائل کو رفتہ رفتہ سرِ فہرست لانا ہوگا۔ اسی میں کوئی نوجوان قیادت اپنے آپ سامنے آجائے گی جسے نہ راہل گاندھی کی ضرورت ہوگی اور نہ مایاوتی یا تیجسوی یادو کی۔ چار برس ابھی وقت ہے اور ہماری یہ بھی حکمتِ عملی ہونی چاہیے کہ آیندہ پارلیمنٹ کے الیکشن تک یہ بساطِ رقص اور بھی بسیط ہو اور صدائے تیشہ کامراں ہو او رکوہ کن کی جیت ہو۔
سی اے اے پر ملک گیر احتجاج:رقصِ مَے تیز کرو، ساز کی لَے تیز کرو
previous post