مسعود جاوید
١- میری ذاتی رائے یہ ہے کہ شہریت ترمیم ایکٹ اور اس کے لاحقے این آر سی اور این پی آر کے خلاف مظاہروں کو مذہبی رنگ نہیں دیا جانا چاہیے۔ نعرہ تکبیر اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں ہے مگر ہمارے احتجاج اور مظاہروں کا اولین مقصد اس وطن عزیز اور اس کے جمہوری نظام کا تحفظ ہے اور اس کے مقدس دستور کی خلاف ورزی کرنے والوں کی مخالفت کرنا ہے۔ ہم اس ملک کے مخالف نہیں ہیں اس ملک کی موجودہ حکومت کی تفریق پر مبنی غلط پالیسیوں کے مخالف ہیں۔
١- ہم جیسے کو تیسا tit for tat کی روش اختیار کرکے جے شری رام کے مقابل نعرۂ تکبیر اللہ اکبر یا لا الہ الا اللہ کہ کر احتجاج کے اصل کاز کو دانستہ یا غیردانستہ طور پر نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
٢- جے شری رام کا نعرہ گرچہ مفہوم کے اعتبار سے غیر مسلموں کے لئے درست ہے مگر اس کا بے جا استعمال نے عوام کے ذہنوں میں اس کا منفی مفہوم سرایت کر دیا ہے۔ ایک ایسا نعرہ جس سے مسلمانوں کو خوفزدہ کیا جا سکے۔ اس لیے اس سے برابری کرنے کی بعض احباب کی کوشش مفید نہیں مضر ہو سکتی ہے۔ اگر کسی نے جے شری رام کے نعرے کے تناظر میں نعرۂ تکبیر اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ پر مذہبی عصبیت اور شدت پسندی کا الزام لگایا تو اس پر مشتعل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
٣- جامعہ اور شاہین باغ میں منتظمین مقررین اور رضا کاروں کی کمی نہیں ہے۔ اس لئے یہاں آکر تقریر کرنے کی بجائے علماء پیشہ ور مقررین مجدی صاحب مدنی صاحب مکی صاحب سعیدی صاحب قاسمی ندوی مظاہری اصلاحی فلاحی حضرات اپنے اپنے حلقہ اثر و نفوذ میں جامعہ اور شاہین باغ کے طرز پر پرامن احتجاج کا نظم کریں۔
٤- اسی طرح سیاسی لیڈران اور سماجی دانشوران یہاں آتے ہیں ان کی آمد سے بلا شبہ ہماری حوصلہ افزائی ہوتی ہے وہ یقین دہانی بھی کراتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں مگر اے کاش وہ بھی اپنے حلقہ اثر ورسوخ میں اس کاز کو لے کر احتجاجی مظاہرہ کرتے۔ اس سے حکومت وقت کو احساس ہوتا کہ دستور کے تحفظ کی لڑائی صرف مسلمان نہیں دیگر مذاھب کے لوگ بھی لڑ رہے ہیں۔ صرف جامعہ اور شاہین باغ نہیں ہندوستان کے کونے کونے میں احتجاج ہو رہا ہے۔ الحمدللہ اب اس کا داءرہ دن بہ دن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔۔۔ کولکتہ ، پٹنہ، گیا ، الہ آباد کانپور اور جنوبی ہند کے مختلف شہریوں میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔