Home تجزیہ سی اے اے/این آرسی کیخلاف احتجاجات سے بھگوا بریگیڈ بوکھلاہٹ کا شکار کیوں؟

سی اے اے/این آرسی کیخلاف احتجاجات سے بھگوا بریگیڈ بوکھلاہٹ کا شکار کیوں؟

by قندیل

عادل فراز

میرے ہندوستانی بھائیو اور بہنو!! بی جے پی سرکار اور اس کی حامی بھگوا تنظیمیں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور ملک کے نوجوانوں کو ان کے سوالات کا جواب نہ دینے کے لئے جس طرح آئے دن اپنے آئی ٹی سیلز کے ذریعہ افواہیں پھیلاکر ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کا بیج بونے کی کوشش کررہی ہیں ،ان سے ہوشیاررہنے کی ضرورت ہے ۔یہ آئی ٹی سیلز آرایس ایس کے تربیت یافتہ لوگ ہینڈل کررہے ہیں جن کا مقصد اصل مسائل سے توجہ بھٹکاناہے ۔

آپ کو بتادیں کہ تین طلاق ،آرٹیکل ۳۷۰،اور بابری مسجد مسئلے پر مسلمان کیوں خاموش رہا ۔مسلمان کی خاموشی کو بزدلی نہ سمجھا جائے ۔بلکہ مسلمان وقت اور حالات کے تقاضوں کے پیش نظر خاموش تھا ۔تین طلاق ،آرٹیکل ۳۷۰ اور بابری مسجد مسئلہ پر خاموشی اختیار کرنے سے اسکی شہریت کو خطرہ نہیں تھا ۔وہ ان مسائل پر حکومت کے مؤقف کے خلاف تھامگر اس کی خاموشی کو بزدلی تصور کیا گیا ۔تین طلا ق کا قانون اکثر مسلمانوں کے فرقوں میں موجود نہیں تھا اس لئے اس مسئلے پر اکثر مسلمان یا تو خاموش رہے یا پھر انہوں نے مصلحت آمیز رویہ اختیار کیا ۔آرٹیکل ۳۷۰ کا معاملہ عدالت میں زیر غور ہے ۔مسلمان اپنے ملک کی عدلیہ پر اب بھی پورا بھروسہ کرتاہے ،وہ اس بھگوابریگیڈ کی طرح نہیں ہے جو ملک کے آئین پر یقین نہیں رکھتی ۔آرٹیکل ۳۷۰ چونکہ صرف کشمیر کا مسئلہ تھا مگر ایسا نہیں ہے کہ سیکولر ہندوستانی اس قانون کے ہٹائے جانے کا مخالف نہیں تھا ۔حکومت آج بھی اس قانون پر ہندوستانی عوام کو گمراہ کررہی ہے اور کشمیر کو قیدخانے میں بدل دیاگیاہے ۔جس دن اس قانون کے خلاف کشمیری عوام کھڑی ہوگی ہر ہندوستانی خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان ان کے ساتھ ہوگا۔حکومت نے صرف ریاست کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرکے اپنے کمیونل ہونے کا ثبوت دیاہے، ورنہ ہندوستان کی کتنی ایسی ریاستیں ہیں جنہیں خصوصی ریاست کادرجہ دیاگیاہے ،مگر حکومت ان کے اسپیشل اسٹیٹس کو ختم کرنے کی بات نہیں کرتی ۔

بابری مسجد اور رام مندر مسئلے پر عدالت نے اپنے فیصلے میں کہاہے کہ عدالت میں یہ ثابت نہیں ہوسکاکہ مندر توڑ کرمسجد بنائی گئی تھی،جبکہ بھگوا بریگیڈ مسلمانوں پر مندر توڑ کر مسجد بنانے کا الزام لگاتی رہی ہے۔عدالت نے فیصلے میں واضح کیاہے کہ بابری مسجد کو منہدم کرنا غیر قانونی عمل تھا۔عدالت نے مسلم فریق کے تمام ثبوت اور شواہد کو تسلیم کیامگر چونکہ مقدمے میں ’رام للا‘ کو ٹائٹل سوٹ کی حیثیت دیکر زمین کے مالکانہ حقوق بھگوان رام کو دیدیے گئے اور اسی پس منظر میں بابری مسجد کی زمین رام مندر کے لئے دیدی گئی ،یہ مسلمانوں کی ہار نہیں بلکہ مسلمانوں کی ایک طرح سے بڑی جیت ہے کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں مسلمانوں کو مجرم نہیں مانا ہے بلکہ مسجد منہدم کرنے والی ’بھگوابریگیڈ‘ کو مجرم قرار دیاہے ۔دوسرے یہ کہ مسلمان اس سالوں پرانے تنازع کا حل چاہتا تھا ،یہ الگ مسئلہ ہے کہ وہ عدالت سے کے فیصلے سے پوری طرح مطمئن نہیں تھا مگر چونکہ ہندواور مسلمانوں کے درمیان زعفرانی تنظیموں نے اس مسئلے کو لیکر بہت زہر پاشی کی تھی ،اس لئے مسلمان اس تنازع کو ختم کرکے در اصل ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان کی نفرت کو ختم کرنے کی فکر میں تھا۔

یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے کہ شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی پر ہونے والے احتجاجات میں صرف مسلمان شامل ہیں، ایسا نہیں ہے ،بلکہ ان ملک گیر احتجاجات میں ہر مذہب اور ذات پات کے افراد حصہ لے رہے ہیں، کیونکہ ہر باشعور ہندوستانی یہ سمجھ رہاہے کہ سی اے اے اور این آرسی جیسے غیر آئینی قانون لاکربرہمن وادی اور منووادی سوچ کی حامل ’ بھگوابریگیڈ‘ کیا کرنا چاہتی ہے ۔یہ ملک کسی ایک ذات اور مذہب کے لوگوں کا نہیں ہے بلکہ ان تمام ہندوستانیوں کا ہے جنہوں نے اس چمن کی جڑوں کو اپنے خون سے سینچاہے ۔اس لئے ’ہندوراشٹر‘ کا نعرہ دینے والی زعفرانی تنظیمیں یہ سمجھ لیں کہ ہندوستانی کبھی اس ملک کو ’ہندوراشٹر‘ بنتے نہیں دیکھ سکتاکیونکہ یہ ایک سیکولر ملک ہے، جس میں ہندو،سکھ ،مسلمان ،عیسائی ،دلت اور ہر طبقے کے افرادرہتے ہیں جن کے آئین کے لحاظ سے یکساں حقوق ہیں ۔

سی اے اے اور این آرسی پر ہونے والے عوامی احتجاجات کو آئی ایس آئی اور نام نہاد اسلامی جہادی تنظیموں سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے ۔تاکہ عام ہندوئوں کو ان احتجاجات سے دور کردیاجائے ۔بی جے پی حکومت آنے کے بعد جس طرح بی جے پی پر تنقید کرنے والے ہر شخص کو دیش دروہی اور ملک کا غدار کہا جاتارہاہے یہ بھی اسی سوچ کا حصہ ہے ۔کیا حکومت بتاسکتی ہے کہ ان احتجاجات میں مرنے والے کس جہادی تنظیم سے وابستہ تھے ؟ صاحب جھوٹ کی فصل زیادہ دنوں تک پھولتی پھلتی نہیں ہے ۔اب آپ کا سفید جھوٹ عوام کے سامنے آچکاہے ۔اپنے مخالفوں کو دیش دروہی اور غدار کہہ کر انکی زبان بند کرنے کا جوگرومنتر آپ ناگپور کی فیکٹری سے لیکر آئے تھے وہ اب فیل ہوچکاہے ۔اگر روس ،امریکہ اور اقوام متحدہ نے کانگریس کے دوراقتدار میں یہ رپورٹ دی تھی کہ ہندوستان اسلامی جہادیوں کے نشانے پر ہے ،تو اب تک ہمارے ملک کی خفیہ ایجنسیاں کیا کررہی تھیں؟۔کیا وہ جہادی ٹولا سی اے اے اور این آرسی کے خلاف ہندوستانیوں کے حق میں لڑرہاہے ؟ جناب آپ کیسی بات کررہے ہیں ؟۔ آپ ان احتجاجات میں شامل ہندوئوں ،مسلمانوں ،سکھوں اور دلتوں پر اسلامی جہادی ہونے کا الزام لگارہے ہیں ۔یہ جھوٹ ہے اور ہمیشہ کی طرح آپ کی فریب دہی ہے ۔اگر ہندوستان میں موجود کوئی تنظیم اور ادارہ اسلامی جہادیوں کو پناہ دے رہاہے تو پھر حکومت اور ہماری خفیہ ایجنسیوں نے ان پر کاروائی کیوں نہیں کی ؟ کیا آپ کو ہماری خفیہ ایجنسیوں کی صلاحیت پر یقین نہیں ہے ؟۔ یہ جھوٹ عام ہندوستانیوں ،خاص طورپر ان احتجاجات میں شامل غیر مسلموں کو بھڑکانے اور انہیں حکومت کے خلاف بولنے سے بازرکھنے کے لئے بولا جارہاہے تاکہ وہ لوگ حکومت کی ناکامیوں کے خلاف آوازاحتجاج بلند نہ کرسکیں ۔مگر اب عوام بیدار ہے اور ان کے دھوکے میں نہیں آئے گی ۔

سی اے اے اور این آرسی پر ہونے والے ملک گیر احتجاجات کو کچھ لوگ کئی یورپی ممالک کے سربراہان کے ذریعے پھیلائی گئی افواہ جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، کسی بھی معتبر ایجنسی سے ایسی کوئی خبر یا تفصیلات دیکھنے کو نہیں ملی ہے من گھڑت کہانیاں بنا کر ترقی یافتہ ممالک اور کچھ این جی اوز کا نام لیکر ان سے منسوب کرکے یہ کہنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمان ہندوستان میں در اندازی کی کوشش کر رہے ہیں جس کا مقصد بھارت کی اکھنڈتا کو سبوتاژ کرنا ہے۔ ایسی باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ یہ اسلامو فوبیا کا حصہ ہے جسے مغربی ممالک نے اپنے یہاں لوگوں کو ڈرانے اور اسلام کو بد نام کرنے کے لئے گڑھا تھا جس میں اسرائیل سب سے آگے تھا ، آج کچھ لوگ اسی کا سہارا لیکر ہندوستان میں بھی اسی قسم کی باتیں پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ حالانکہ آج تک ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے جس میں مسلمانوں نے ہندوستان میں ایسی کچھ حرکت کی ہو ، بلکہ خود اقتدار میں موجود کئی افراد اس کا شکار ہیں اور انھوں نے ملک میں دہشت گردانہ کاروائیوں کو انجام دیا ہے جس میں ہمارے وزیر اعظم سے لیکر امت شاہ تک سبھی اس میں شامل ہیں جن کے ہاتھ گجرات فساد کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ، سادھوی پرگیا جس نے مالیگاوں میں بم بلاسٹ کرایا تھا اقتدار میں ہے ۔مختلف مصنفین اور ریسرچ اسکالرز نے ہندوستان میں ہوئے بم دھماکوں پر کتابیں تحریر کی ہیں جن میں شواہد اور دلائل کے ذریعہ یہ ثابت کیا گیاہے کہ ان بم دھماکوں میں آرایس ایس کے لوگ شامل تھے ،یہ تمام دھماکے ہندوستان میں مسلمانوں کو ہندوئوں کی نظر میں مشکوک بنانے کے لئے کئے گئے ،بلکہ یوں کہاجائے کہ یہ بھی ’ہندوراشٹر‘ کے قیام کے لئے ایک حکمت عملی تھی ۔

آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ کوئی مسلمان سی اے اے کا مخالف نہیں ہے مگر حکومت پارلیمنٹ میں اور تحریری طورپر یہ اعلان کردے کہ اس ملک میں این آرسی نافذ نہیں ہوگی ۔سی اے اے کو این آرسی سے جوڑ کر دیکھیے تو آپ کو اس خطرناک قانون کا صحیح اندازہ ہوگا۔ہندوستانی مسلمان بلکہ کوئی بھی ہندوستانی پاکستان،افغانستان ،بنگلہ دیش یا دیگر ممالک سے آئے ہوئے کسی بھی درانداز کی حمایت نہیں کرے گا ۔مگرپناہ گزینوں کا مسئلہ جدا ہے ۔پناہ گزین ہر ملک میں موجود ہوتے ہیں اور انہیں شہریت دینا یا نہ دینا حکومت کا مسئلہ ہے مگر مذہب کی بنیاد پر شہریت دینا ہمارے آئین کے خلاف ہے ۔جو لوگ ہندوستان کے آئین میں یقین نہیں رکھتے اور اس ملک میں آرایس ایس کا قانون نافذکرنا چاہتے ہیں وہ اس قانون کی حمایت کررہے ہیں ۔گاندھی اور بابا صاحب امبیڈکر کے دشمن گوڈسے کو پوجنے والے ہندوستان کے آئین کو بدلنا چاہتے ہیں جو ہم ہندوستانی کبھی نہیں ہونے دیں گے ۔

سی اے اے کو پاس کرنے سے پہلے ہماری حکومت نے بنگلہ دیش ،افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں سے اس مسئلے پر بات کیوں نہیں کی ؟۔ کیوں حکومت دراندازوں کی فہرست کو ان کے ممالک کو سونپ کر انہیں واپس بلانے کے لئے دبائو نہیں بناتی ؟ کیوں پناہ گزینوں کو بھی دراندازوں کی فہرست میں شامل کیا گیاہے ؟جن بودھشٹوں کو ہندوستان میں شہریت دی جارہی ہے کیا انہوں نے برما (میانمار) میں مسلمانوں پر ظلم نہیں کئے ؟ کیا روہنگیا مسلمان بودھوں کے مظالم سے تنگ آکراپنے وطن سے دور نہیں ہوئے ؟ کیوں انہیں شہریت دینے کی بات نہیں کی گئی؟ چین میں ایغور مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں رکھا گیاہے ، جہاں ان پر بیحد ظلم ہورہاہے کیا ؟ اگروہ لوگ ہندوستان میں آکر شہریت کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کا مطالبہ غلط ہے ؟ اس قانون میں مظلومیت کوبنیاد بنایا گیا تھا تو پھرہر مذہب و مسلک کے افراد کو اس قانون کے ذریعہ شہریت ملنی چاہئے۔جس طرح حکومت اور بھگوا بریگیڈ کے مطابق مسلمانوں کے پاس رہنے کے لئے بہت سے ملک ہیں اسی طرح عیسائیوں اور بودھشٹوں کے پاس بھی کئی ممالک ہیں جہاں وہ شہریت لے سکتے ہیں ۔مگر ہم ان کمیونل باتوں کے خلاف ہیں کیونکہ ہمارے ملک نے ہمیشہ مظلوموں کی مدد کی ہے ۔افسوس کہ اب ہندوستان اسرائیل اور امریکہ کے نقش قدم پرہے کیونکہ آرایس ایس جیسی تنظیموں کو اسرائیل اور استعمار کی سرپرستی حاصل ہے۔

میرے ہندوستانی بھائیو! ہمارے ملک کے لاکھوں افراد دیگر ممالک میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں ۔ہمارے ملک کی اقتصادیات کا بڑا حصہ دوسرے ملکوں میں کام کررہے ان ہندوستان پر منحصر ہے جو وہاں اپنا خون پسینہ بہارہے ہیں۔اگر وہ ممالک بھی اپنے یہاں سی اے اے اور این آرسی جیسا قانون نافذکرکے ہمارے ہندوستانی بھائیوں کو باہر نکالنے پر آمادہ ہوجائیں تو سوچیے ہمارے حالات کیاہوں گے ؟۔

ہمارے ملک کی جی ڈی پی اب تک کی نچلی سطح پر ہے اور بے روزگاری دن بہ دن بڑھ رہی ہے ایسے حالات میں سی اے اے اور این آرسی جیسے قانون لاکر حکومت ہمیں لائن میں لگانا چاہتی ہے تاکہ اگلے الکشن تک عوام کی نگاہیں ان کی کارگزاری اور ناکامیوں سے ہٹ جائیں ۔ہر ہندوستانی بے روزگاری اور سرکاری افسروں کی بدعنوانی سے پریشان ہے اس لئے ایسے غیر آئینی قانون لاکر عوام کی توجہات بھٹکانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

آپ بیدار رہیے اور ایسا مت ہونے دیجیے !

(نوٹ: یہ ایک جوابی تحریر ہے ، آرایس ایس کے آئی ٹی سیلز نے موجودہ صورتحال کے خلاف ہونے والے احتجاجات سے ہندوبھائیوں کو دورکرنے کے لئے منفی پروپیگنڈہ کا سہارا لیا تھا ،جس کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے )

You may also like

Leave a Comment