Home تجزیہ سی اے اے/این آرسی: دہلی سے باہرکی بھی خبرلیں!

سی اے اے/این آرسی: دہلی سے باہرکی بھی خبرلیں!

by قندیل

شاداب ظفر

جیسے جیسے "این آر سی اور سی اے اے” پر غیر معینہ میعاد کے احتجاجات زور پکڑتے جارہے ہیں، ویسے ویسے ان احتجاجات کو پٹری سے اتارنے کی ہر ممکن کوشش قوم و ملت کے ہی کچھ بہی خواہان کی طرف سے کی جارہی ہے۔لیکن اس سب کے باوجود مسلم نوجوانوں کا شعور الحمدللہ اس وقت اتنا بلند ہے کہ ان بد طینت لوگوں کا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔
احتجاجات کے تحفظ اور ان کو ہائی جیک ہونے سے بچانے کے لئے بہت سے احباب نے مشورے اور آرا دی ہیں اور دے رہے ہیں-تمام کے مشورے اور آرا ہمارے لئے قابلِ احترام اور لائق غور ہیں!
لیکن لکھنے کے لئے فقط شاہین باغ اور جامعہ ہی نہیں ہے؛بلکہ مزید کچھ ظلم اور ناانصافیاں آپ کو آواز دے رہی ہیں،جن سے ہم نے ان احتجاجات کے تحفظ کی آڑ میں قطعی طور پر پہلو تہی اختیار کرلی ہے!
"سی اے اے این آر سی” کے تعلق سے اٹھے ہوئے اس طوفان کو ہم بھول چکے ہیں، جس کو ختم کرنے اور اس کے نام پر ظلم کرنے کاخصوصاًیوپی حکومت اعلان کرچکی ہے،جس کو لوگ شاہین باغ، جامعہ اور ان جیسے احتجاجات کے شور میں گم کر چکے ہیں۔
تمام پڑھنے لکھنے اور تجزیہ و بیان دینے والوں کی ترجیحات کا مرکز دہلی بن چکا ہے؛ لیکن قوم کے اور اترپردیش کے نوجوانوں کی آواز ان کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی ہے!
ہمیں اس بات کا اظہار کرتے ہوئے افسوس ہورہا ہے کہ ہم مجموعی طور پر اترپردیش کے حالات سے بےنیاز اور وہاں کے مسلمانوں کی جانی قربانیوں سے غافل ہوچکے ہیں۔
اس کے لئے لکھنا اور قلم اٹھانا بند کرچکے ہیں، اترپردیش کے اضلاع میں احتجاجات کے دس پندرہ دن بعد تک بھی مسلم نوجوانوں کی گرفتاری زور وشور سےجاری ہے۔
جو لوگ احتجاجات کے فوراً بعد قربانی دینے والوں کے گھر والوں سے ملنے گئے تھے اور بڑے بڑے وعدے کر کے آئے تھے،”جیل بھرو تحریک” کی شکل میں حکومت کو للکارنے کا عزم ظاہر کر رہے تھے،وہ تمام کے تمام چپی سادھ کرمنہ لپیٹ کر بیٹھ چکے ہیں۔کہاں گئے وہ وعدے کرنے والے؟
کہاں گئے نوجوانوں کو گرفتار نہ کرنے کی کال دینے والے؟کہاں گئے وہ لوگ، جو مرنے والوں کے گھر بھی پہنچےتھے اوران پرہونے والےظلم کا ان کو پتہ بھی ہے۔ظالم کو ظالم کہنے کے بجائے وہ اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں۔اب بھی محض شک کی بنیاد پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں ہورہی ہیں ۔ایک ایک گاؤں سے دس بیس پچاس بےقصوروں کو اٹھایا جارہا ہے۔لیکن ہم لوگ شاہین باغ اور جامعہ کے تحفظ کےغم میں نڈھال ہورہے ہیں۔فقط ضرورت وہیں نہیں ہے بلکہ اترپردیش کے اضلاع مظفر نگر، میرٹھ، بجنور وغیرہ میں ہورہی ناانصافی پر بھی اپنے قلم کو حرکت دیجے۔ ورنہ آپ کا یہ قلم بےمروت ہے، آپ کے یہ دعوے کھوکھلےہیں، آپ کے یہ معاملات ڈھونگ سے زیادہ کچھ نہیں ہیں، آپ کی بڑی سے بڑی کانفرنس بےفائدہ ہے اور آپ کی زبان و قیادت بیکار ہے!

You may also like

Leave a Comment