نئی دہلی:شہریت ترمیمی ایکٹ کے حوالے سے ملک بھر میں احتجاج جاری ہے۔ لیکن دہلی کے شاہین باغ علاقے میں اس قانون کے خلاف جاری احتجاج انوکھا ہے۔جب عزم مستحکم اورجواں ہوتونہ سردی کی پرواہوتی ہے اورنہ عمرکی،متنازعہ ایکٹ کے خلاف ایساہی معاملہ دیکھنے کوآرہاہے ـ جہاں عزم وہمت کے پہاڑنوجوان ڈٹے ہوئے ہیں وہیں سردراتوں میں بزرگ خواتین بھی جمی ہوئی ہیں جواس عزم کااظہار کررہی ہیں کہ ہم کاغذنہیں دکھائیں گے،این آرسی ملک کے غریبوں کے خلاف ہے،سی اے اےدستورکے خلاف اورملک کوتقسیم کرنے والاہے۔سترسال سے زائدکی عمرکی خواتین کاکہناہے کہ ایکٹ کی واپسی تک احتجاج جاری رہے گا۔ شاہین باغ کے مظاہروں کی قیادت شاہین باغ اور جامعہ نگر میں رہنے والی خواتین کر رہی ہیں اور سخت سردی کے باوجود پچھلے 15 بیس دنوں سے ڈٹی ہوئی ہیں۔ ان میں تین ایسی بزرگ خواتین بھی شامل ہیں، جواپنی طرف سب کی توجہ مبذول کروا رہی ہیں اورسوشل میڈیاسے لے کرنیشنل میڈیاتک میں ان جے چرچے ہورہےہیں ۔اسماء خاتون 90 سال کی ہیں۔ بلقیس کی عمر 82 سال ہے اور سروری کی عمر 75 سال ہے۔ جب تین بزرگ خواتین سے ان کے مکمل نام پوچھے گئے تو انہوں نے طنزیہ لہجے میں کہاکہ ہم نہیں بتائیں گے کیونکہ ہمارے پاس دستاویزات موجودنہیں ہیں۔ یہ ہمارے خلاف ہوسکتا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ احتجاج میں حصہ لینے والی یہ تینوں بزرگ خواتین ا ب شاہین باغ کی دادی کے نام سے مشہور ہیں۔ این ڈی ٹی وی کے ساتھ خصوصی گفتگو میں،تینوں دادیوں نے بتایا کہ وہ احتجاج میں کیوں حصہ لے رہی ہیں۔تین بزرگوں میں سب سے بڑی اسماء خاتون کاکہناہے کہ مودی سے پوچھیں کہ ہم کیوں احتجاج کر رہے ہیں۔ ہمیں ایسا دن کیوں دیکھنا پڑا۔مجھے مظاہرہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف ہوں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیوں یہ قانون واپس کراناچاہتی ہیں تو اسماء خاتون کا کہنا ہے کہ وہ ہم سے اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے دستاویزات دکھانے کوکہتے ہیں۔اس ملک میں بہت سے لوگ ہیں جن کے پاس کوئی کاغذ نہیں ہے۔ سیلاب اور بارش سے بہت سارے لوگوں کےدستاویزات بہہ گئے۔ وہ کاغذ کہاں سے لائیں گے؟ میں مودی کو چیلنج کرتی ہوں کہ وہ اپنی 7 پشتوں کا نام لیں۔ میں آپ کواپنی نوپشتوں کانام بتاؤں گی۔تاہم، سی اے اے کی حمایت میں مظاہروں کے سوال پر، انہوں نے کہاہے کہ جولوگ اس قانون کو بخوبی نہیں جانتے، وہ اس کی حمایت میں کھڑے ہیں۔صرف مسلمان ہی مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔ 75 سالہ سرووری کا کہنا ہے کہ ہم یہاں پیدا ہوئے اور یہیں مرنا چاہتے ہیں۔میں کوئی کاغذ نہیں دکھاؤں گی۔ یہ قانون ان لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہے جو دستاویزات ظاہر نہیں کرسکتے ہیں۔میں ان کے ساتھ کھڑی ہوں۔جب ان تینوں دادیوں سے پوچھا گیا کہ وہ کب تک یہ کام انجام دیتی رہیں گی تو وہ کہتی ہیں کہ ہمیں سردی محسوس نہیں ہوتی ہے۔ ہمیں سب کا تعاون حاصل ہو رہا ہے اورقانون واپس ہونے تک احتجاج جاری رہےگاـ
https://youtu.be/8_hAAJp-zD0