اگر چوروں کا کوئی گروہ آپ کا ووٹر ہو تو کیا اس کی چوری پر آپ مبارک بادی دیں گے؟ زانیوں کے کسی گروہ سے آپ کو ووٹوں کی امید ہو تو کیا اس کے زنا کرنے پر” شاباش” کہیں گے؟ آپ کے حلقہ انتخاب میں اگر ظالموں کی جماعت لوگوں پر ظلم و ستم کی بارش کررہی ہو لیکن آپ کو اپنے حق میں اس سے اچھی امید ہو، تو کیا اس ظلم و ستم پر اعلانیہ ” بدھائی ہو” کہیں گے؟ نہیں،ہر گز نہیں، کیونکہ غلط اور حرام کاموں پر مبارکبادی نہیں دی جاسکتی ـ
اسلام کی نظر میں شرک اور شرکیہ اعمال چوری، زنا اور ظلم و ستم سے زیادہ خطرناک بلکہ ناقابل معافی جرم ہے لیکن ہمارا مسلمان سیاسی طبقہ بڑے زور وشور سے اعلانیہ طور پر بلکہ مورتیوں کی نمائش کے ساتھ کہتاہے” آپ کو درگا پوجا کی بدھائی ہو”ہولی مبارک ہو وغیرہ "،یاد رہے کہ مبارکبادی ہمیشہ اچھے کاموں میں دی جاتی ہے،برے کاموں میں نہیں، شرک آپ کے مذہب میں ناقابل معافی گناہ ہے، پہلا کلمہ ہی شرک سے نفرت سکھاتا ہے، کلمہ شہادت آپ سے غیراللہ کی نفی کا مطالبہ کرتا ہے، اس کی مبارک بادی کامطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ آپ اس کو اچھا سمجھ رہے ہیں ـ بے شک برادران وطن بھی آپ کو عید کی مبارکبادی دیتے ہیں لیکن وہ اس لیے دیتے ہیں کہ ان کے ہاں وہ ناجائز نہیں ہے، ذرا ان کو کہیے کہ گاؤ خوری پر مبارک باد پیش کردیں، قیامت تک وہ نہیں دیں گے،کیونکہ ان کی نظر میں آپ ان کے معبود کی تذلیل کر رہے ہیں، لیکن ایک خدا کو چھوڑ کر ہزاروں معبودان باطلہ کی عبادت کرنے والے خدا کی توہین کررہے ہیں اور آپ ان کو مبارکباد پیش کر رہے ہیں،کیسے مسلمان ہیں آپ،چند سو ووٹوں کی خاطر اپنے ایمان کا سودا کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ہمارے بچپن میں اس کا تصور بھی نہیں تھا، خوش ہی کرنا مقصود ہے تو غیر مسلم بیمار پڑوسیوں کو دوادارو کے ذریعے کیجیے، راہ چلتے ہندو مسافروں کو اپنی گاڑی پر بیٹھا کر کیجیے، دلت ہندووں سے بغل گیر ہوکر کیجیے، مبارک باد پیش کیجیے ان کی تعلیمی ترقی پر، سماجی ترقی میں ان کی حصہ داریوں پر، ظالموں سے مقابلہ آرائی پر، یہ چیزیں دیر پا اثر انگیز ہوں گی نہ کہ انھی چیزوں پر جو ہمارے اور ان کے درمیان حد فاصل کا درجہ رکھتی ہیں ـ قرآن نے صاف کہا ہے: إن الشرک لظلم عظیم، إن اللہ لایغفر ان یشرک بہ.