مدھیہ پردیش کا شہر برہان پور ایک قدیم تاریخی شہر ہے۔ مغلوں سے قبل یہاں عادل شاہ کی حکومت تھی۔ پھر مغلوں نے حکم رانی کی۔ دونوں ادوار کے آثار قدیمہ یہاں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ مغل حکم راں شاہ جہاں نے 1037 ھ میں جب دکن پر فتح پائی تھی تو اُس وقت یہاں جشن منایا تھا اور اسے ‘دار السرور’ کا نام دیا تھا۔
اسلامک فقہ اکیڈمی کے اکتیسویں سمینار کے مصروف اوقاتِ کار (Tight schedule) میں سیر و تفریح کے لیے کچھ وقت نکالنا بہت مشکل معلوم ہورہا تھا ، لیکن اگر ارادہ ہو تو راہیں بھی نکل آتی ہیں۔ تیسرے دن (7 نومبر 2022) کو نماز فجر کے تھوڑی دیر کے بعد نکلنے کا پروگرام بنا۔ مولانا عبد اللہ جولم ناظم جامعہ دار السلام عمر آباد ، برادر عزیز سالم برجیس ندوی اسکالر ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی اور ان کے مقامی دوست مولانا عبد اللطیف صاحب نے مصاحبت کی ۔
شاہی جامع مسجد
سب سے پہلے ہم یہاں کی شاہی جامع مسجد پہنچے۔ اسے صوبہ خاندیش کے خود مختار حکم راں عادل شاہ فاروقی نے بنوایا تھا۔ اس کی تعمیر کا آغاز 997ھ میں ہوا تھا اور یہ پانچ برس مسلسل تعمیر کے بعد 1002 میں پایۂ تکمیل کو پہنچی تھی ۔ یہ مسجد شہر کے بالکل وسط میں واقع ہے ۔یہ سنگ خارا سے تعمیر کی گئی ہے _ بتایا جاتا ہے کہ اس کے لیے مانڈو گڑھ کی پہاڑیوں سے پتھر منگوائے گئے تھے۔
مسجد سے ملا ہوا وسیع صحن ہے ، جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے _ صحن کے دونوں کناروں پر دو بلند و بالا مینار ہیں ، جن کی بلندی 130 فٹ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مینار دہلی کی شاہ جہانی مسجد کے میناروں سے زیادہ بلند ہیں۔
یہ مسجد 15 محرابوں پر مشتمل ہے۔ محرابوں اور ستونوں کے پتھروں کو تراش کر نہایت اعلیٰ قسم کے نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ عمارت کے پتھر اس انداز سے رکھے گئے ہیں کہ جیسے جیسے یہ پتھر اوپر اٹھتے جاتے ہیں ویسے ویسے کمانوں کے ساتھ چھت خود بہ خود بنتی چلی جاتی ہے ۔ یہی کمانیں مسجد کی چھت کا کام دیتی ہیں۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ یہ ایسی مسجد ہے جس میں چھت نہیں ہے ۔ مسجد کے اندرونی حصے میں بہترین چمکیلا پتھر استعمال کیا گیا ہے ۔ ستونوں کے نچلے اور اوپری حصوں میں سورج مکھی کے خوب صورت پھول تراشے گئے ہیں ۔ کاری گروں کی فنکاری کا کمال ہے کہ ہر محراب کی بناوٹ اور ڈیزائن الگ ہے ۔ منبر کے پاس کی محراب ان میں سب سے زیادہ خوب صورت اور منفرد ہے۔ اس محراب کی بناوٹ ایسی ہے کہ آواز میں گونج پیدا ہوتی ہے ، جو پوری مسجد میں پھیلتی ہے۔ اس طرح مسجد میں بیٹھا ہر شخص امام کی آواز سن سکتا ہے۔ ستونوں کو اس طرح منظّم کیا گیا ہے کہ 80 فی صد نمازی امام کو دیکھ سکتے ہیں۔ مسجد کے اندرونی حصے میں 3 ہزار آدمی نماز ادا کرسکتے ہیں۔
مسجد میں کئی کتبے لگے ہوئے ہیں ، جن سے تاریخ تاسیس اور دیگر باتوں کا علم ہوجاتا ہے ۔ منبر والی محراب کے اوپری حصے کا کتبہ عربی زبان میں ہے ، جس میں مسجد کا سنۂ تعمیر درج ہے ۔شمالی کونے کی محراب کے کتبے میں عربی زبان میں سلاطین فاروقی کا شجرہ درج ہے ۔اس کے نیچے سنسکرت زبان اور دیوناگری رسم الخط میں ایک کتبہ ہے ۔ ایک دوسرا کتبہ جنوبی مینار کے نچلے حصے میں فارسی زبان میں ہے۔ ان سب میں فاروقی حکم رانوں کا تذکرہ ہے۔ مسجد کے ملازم نے ہزار دانوں کی ایک تسبیح دکھائی ، جسے زیتون کی لکڑی سے بنایا گیا ہے۔ ہر دانہ ایک چھوٹی گیند کے برابر ہے اور ہر سو دانوں کے بعد ایک بڑا دانہ لگایا گیا ہے۔
شاہی قلعہ
دوسری اہم سیاحت گاہ یہاں کا شاہی قلعہ ہے ، جو فاروقی دور اور مغلیہ دور ، دونوں کی تعمیرات کا خوب صورت نمونہ پیش کرتا ہے۔ شاہی جامع مسجد کی زیارت کے بعد ہم وہاں پہنچے۔
یہ قلعہ دریائے تاپتی کے مغربی ساحل پر واقع ہے۔ اسے عادل شاہ فاروقی نے 907 ھ میں تعمیر کروایا تھا۔ قلعہ کی دیواریں اب خستہ ہوچکی ہیں۔ اس کی فصیل دریا سے 80 فٹ بلندی پر ہے۔ قلعہ کی مشرقی سمت میں محلات کی ٹوٹی ہوئی دیواریں ہیں۔ شمالی سمت میں کبھی 7 منزلہ عالی شان محل تھا ، جس کی اب صرف 3 منزلیں باقی رہ گئی ہیں ۔ ان محلات کا رخ دریا کی طرف ہے ۔ ان میں رہنے والے دریا کے بہتے ہوئے پانی اور سرسبز و شاداب میدانوں سے کتنا محظوظ ہوتے ہوں گے ، اسے بہ خوبی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔
شہر برہان پور فاروقی بادشاہوں کے بعد مغل شہزادوں کا بھی پایۂ تخت رہا ہے۔ شاہ جہاں اپنی شہزادگی کے زمانے میں یہاں کا صوبہ دار تھا۔ اس نے قلعہ میں کئی عمارتیں بنوائیں ، خاص طور پر آگرہ اور دہلی کی طرز پر دیوان عام اور دیوان خاص بنوایا۔ اسی محل کے ایک کمرے میں ملکہ ممتاز محل کا زچگی کے بعد انتقال ہوگیا تھا تو اس کی نعش کو دریا تاپتی کے اُس پار زین آباد کے باغ میں عارضی طور پر سپردِ خاک کردیا گیا تھا ، بعد میں اسے آگرہ کے تاج محل میں منتقل کیا گیا تھا۔
قلعہ کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط دیوار تعمیر کی گئی تھی ، جس کا عرض دس فٹ ہے ۔ اسی لیے اسے ‘نوگزی دیوار’ کہتے ہیں۔ کہیں کہیں اس کے آثار اب بھی باقی ہیں۔ قلعہ کے اندر پہنچنے کے لیے کئی راستے بنائے گئے تھے ، جو بھول بھلیاں کہلاتے ہیں۔اب یہ راستے بند ہیں۔ اس میں ایک ‘چاہِ زنداں’ (کنواں جیسی گہرائی والا قید خانہ) بھی ہے۔ اس میں حکومت کے مجرموں اور باغیوں کو قید کیا جاتا تھا۔ قلعہ کی جنوبی سمت میں سیاہ پتھروں کی بنی ہوئی ایک مسجد ہے۔ اس کا وسیع دالان ہے ، جس کے درمیان میں ایک حوض ہے۔ مسجد کی چھت منہدم ہو گئی ہے اور دیواریں بھی۔ صرف شمالی سمت کی ایک دیوار رہ گئی ہے اور ایک مینار کا کچھ حصہ باقی رہ گیا ہے ۔ جنوبی سمت میں شاہ جہاں کا تعمیر کردہ ترکی طرز کا حمام ہے ، جس کے تین کمرے ہیں۔ ان کمروں کی چھتیں قبّہ نما ہیں ۔ ان کمروں کی دیواریں اور چھتیں بہترین نقش و نگار سے آراستہ ہیں۔ دیواروں میں دونوں جانب سنگ مرمر کی ترچھی سلیں نصب کی گئی ہیں۔ اس پر بہتے ہوئے پانی کا منظر بہت دل کش لگتا ہوگا۔
کالا تاج محل
منتظمینِ سمینار کے برابر فون آنے لگے کہ جلد واپس آئیں ، ناشتہ میں تاخیر ہورہی ہے۔ چنانچہ تشنگی کا احساس لیے ہم واپس لوٹے، لیکن اختتامی اجلاس میں ابھی تاخیر تھی۔ میں نے چپکے سے عزیزی مولانا عبد اللطیف سے کہا :” ناشتہ کے بعد کوئی ایک جگہ اور دکھا دیجیے ۔“ انھوں نے کہا : ” ناشتہ کے بعد میں نظر بچاکر آپ کو موٹر سائیکل سے کالا تاج محل دکھانے لے چلوں گا۔“ میں خوش ہوگیا۔
شہر کی شمالی سمت میں اتاؤلی ندی کے کنارے سنگِ سیاہ سے بنی ہوئی ایک عمارت ہے۔ یہ مغلیہ دور کی بنی ہوئی عمارتوں میں سب سے منفرد ہے اور اب تک اچھی حالت میں ہے ۔ یہ اصلاً مغل حکم راں جہاں گیر کے سپہ سالار شاہ نواز خاں اور ان کی اہلیہ کا مقبرہ ہے۔ جہاں گیر نے جب جنوبی ہند کی طرف پیش قدمی کی تو شاہ نواز خاں اس کے ہم راہ تھا۔ اس کی جنگی مہارت کی وجہ سے جہاں گیر کو فتوحات حاصل کرنے میں بڑی مدد ملی۔ جب اس کا انتقال ہوا تو جہاں گیر نے اس کا شان دار مقبرہ تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔
یہ خوب صورت عمارت ایک وسیع مربّع چبوترے پر واقع ہے ، جو زمین سے پانچ فٹ بلند ہے۔ اس میں زیادہ تر سنگِ سیاہ کا استعمال کیا گیا ہے۔ اسی لیے اسے ‘کالا تاج محل’ بھی کہا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اسی عمارت کے طرزِ تعمیر کو دیکھ کر شاہ جہاں کے دل میں اسی طرح کا اپنی بیگم ‘ممتاز محل’ کا مقبرہ آگرہ میں تعمیر کرنے کا خیال آیا تھا۔
اس عمارت کے چاروں سمت میں خوب صورت کمانیں ہیں اور چاروں کونوں پر مینار بنائے گئے ہیں۔ میناروں کے اندر گول سیڑھیاں ہیں ، جن کے ذریعے چھت پر پہنچا جاسکتا ہے۔ مقبرہ کا گنبد ہشت پہلو ہے ، ہر پہلو پر چھوٹے چھوٹے مینار بنائے گئے ہیں ۔ مقبرہ کے اندرونی حصے میں دیواروں اور چھتوں پر خوب صورت بیل بوٹے بنائے گئے تھے ، جن کے کچھ آثار اب بھی باقی ہیں ۔ اندر نمائشی قبریں ہیں ، اصلی قبریں تہہ خانے میں ہیں ، جس تک پہنچنے کے لیے جنوبی سمت میں چھوٹا سا دروازہ اور زمین دوز راستہ ہے۔ تہہ خانہ میں تین طرف لمبے روشن دان ہیں۔ ہمارا شوق ہمیں تہہ خانے کے اندر لے گیا اور ہم نے اصلی قبروں کے پاس کھڑے ہوکر دعائے مغفرت کی۔ مقبرہ کے چاروں کونوں میں 8 کمرے ہیں ، جن کی دیواریں پتھر کی ہیں۔ مقبرہ کے باہر وسیع لان ہے۔ یہ عمارت آثار قدیمہ کے تحت ہونے کے باوجود انتظامیہ کی غفلت کا شکار ہے۔
برہان پور میں سیاحت کے اور بھی بہت سے مقامات ہیں ، لیکن انہیں دیکھنے کا موقع نہ تھا۔ اس کے لیے کئی دن مطلوب تھے۔ مدرسہ شیخ علی متقی سے قریب ایک نیا مدرسہ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی سے منسوب کرکے ‘معہد علی میاں ‘ کے نام سے قائم کیا گیا ہےم سمینار کے دوسرے دن وہاں شرکاء کا عصرانہ رکھا گیا تھا۔ وہاں حاضری دی اور مدرسے کی سرگرمیاں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ اسے مولانا سلیم گنّوری بہت کام یابی سے چلا رہے ہیں۔ اس کا دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے الحاق ہے۔ عالیہ ثالثہ کے بعد طلبہ مزید تعلیم حاصل کرنے ندوہ جاتے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ مدرسہ شیخ متقی سے قریب ہی سیفیہ حمیدیہ طبیہ کالج ہے ، جو 50 برس سے زیادہ عرصہ سے میدانِ طب میں خدمت انجام دے رہا ہے۔ طب سے بھی اپنی وابستگی کی بنا پر وہاں جانے کی خواہش تھی ، لیکن مصروفیت کی وجہ سے وقت نہ نکل سکا۔
برہان پور میں دیکھنے کی اور بھی بہت چیزیں ہیں _ اللہ تعالیٰ کبھی توفیق دے گا تو اگلے کسی سفر میں تلافی کی جائے گی۔