آپ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوں گے کہ اسلام نہ خالص عقل پر مبنی ہے اور نہ خالص نقل بر۔ اسلام اصولاً نقل پر مبنی ہونے کے باوجود ایک فطری مذہب ہے یعنی کلی طور پر عقل اور لوجک کے منافی نہیں ہے۔
آپ نے لکھا "مذہبی بنیاد پرستی”ـ یہ مذہبی بنیاد پرستی کیا ہے؟ مذہب تو مذہب ہے اور جس مذہب کی بنیاد نہیں وہ مذہب نہیں کلچر یعنی تہذیب ہے۔
یہ محاورہ ” بنیاد پرست ” اسلام ) Islamic fundamentalism) اسلام اور مسلمانوں کی تصویر مسخ کرنے کے لئے ہے۔ اب آپ براۓ کرم واضح کریں کہ کون سا اسلام بنیاد پرست ہے اور کون سا غیر بنیاد پرست۔ سفارت خانے میں میرے ایک کولیگ روزانہ پیشانی پر تلک لگا کر آتے تھے لیکن جمعہ کو میں نماز کے لئے جاتا تھا تو کہتے تم بھی بنیاد پرست مسلم ہو میرے دوسرے غیر مسلم کولیگ جو مغربی بنگال سے تھے انہوں نے جواب دیا کہ آپ روزانہ تلک لگانے کے باوجود بنیاد پرست ہندو نہیں ہوۓ لیکن یہ جمعہ کی نماز پڑھیں تو یہ بنیاد پرست مسلم ہو گۓ۔!
دراصل یہ مسلم بنیاد پرست اور غیر بنیاد پرست کی تفریق بھی ہمارے بعض آزاد خیال مسلم دانشوروں کی دین ہے جو غیر مسلم محفلوں میں اپنے دین کا مذاق اڑاتے ہوئے غیروں سے مرعوبیت کے نتیجے میں کہتے ہیں کہ یہ نماز روزہ حج زکوٰۃ وغیرہ کم پڑھے لکھے اور بیک ورڈ مسلم کرتے ہیں۔
مذہبی تو مذہبی ہوتا ہے نہ زیادہ مذہبی نہ کم مذہبی۔ ہاں بعض مسلمان، بزعم خود چمپیئن اسلام ، ایسے تصرفات کرتے ہیں اور سرگرمیوں کو انجام دیتے ہیں جو اسلام میں نہیں ہے یہ سب وہ اسلام کے نام پر کرتے ہیں اور اسلام کی حقیقی تصویر کو آلودہ کرتے ہیں۔ اسلام کو کسی شخص کے فعل سے نہ پرکھیۓ اسلام کو اس کے authentic source سے سمجھیۓ۔ اس کے مصدر و مرجع دو ہیں کتاب یعنی قرآن مجید اور سنت یعنی احادیث نبویہ علیہ الصلوٰۃ والتسلیم۔
بنیاد پرست مسلم، fundamentalist، رجعت پسند مسلم radical, شدت پسند مسلم extremist اور اس کے بعد دہشت گرد terrorist ان تمام اصطلاحات سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام صرف اسلام ہے اور یہ ایک امن پسند دین ہے اور مختلف ادیان کے ماننے والوں کے ساتھ باہمی پرامن زندگی peaceful coexistence کا داعی ہے۔
جہاں تک سائنٹسٹوں کے خلاف فتویٰ کی بات ہے تو ہر وہ شخص جو عصری علوم فلسفہ اور سائنس کا موجد و ماہر ہو یا مولوی مولانا ، اگر اپنی انفرادیت قائم کرنے کے چکر میں اسلام کے بنیادی اصولوں سے انحراف کرے گا تو اس کے خلاف فتویٰ جاری ہوگا۔ ہاں سزا دینا ریاست کے دائرہ کار میں آتا ہے اس لئے کسی فرد کو اس کے خلاف قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔
١- جیسا کہ میں نے لکھا اسلام کسی شخص مولانا غیر مولانا کے رہین نہیں ہے۔ اسلام قرآن و احادیث کے مطابق ہے۔ اسلام میں برہمنیت پروھتیت پاپائیت نہیں ہے۔ آپ کے مسلمان ہونے اور جنت میں داخل ہونے کے لئے قرآن و احادیث کے مطابق آپ کا اپنا عمل ہے نہ کہ کسی مولوی مولانا کی سفارش یا کسی پیر بزرگ کی مزار۔
٢- اگر کوئی اسلامی تعلیمات پر عمل کرتا ہے تو وہ مسلمان ہے اور بس۔ مذہبی بنیاد پرست یا آزاد خیال جیسی اصطلاح کے لئے دین میں جگہ نہیں ہے۔ "طالبانی اسلام” جیسی اصطلاحات متعصب میڈیا کی اپج ہے۔
٣- اسلامی اصولوں پر rigid ہونا عین اسلام ہے ۔ اسلام کو rigid سختی سے عمل کرنا اور liberal آزاد من مانی کرنے کے خانوں میں نہیں بانٹ سکتے۔ ہاں سنن نوافل مستحبات پر عمل میں کوتاہی ہو سکتی ہے مگر دل سے ان کی اہمیت سے انکار نہ ہو۔ اسلامی شعائر کا مذاق اڑانا نہ صرف جائز نہیں ہے بلکہ کفر تک لےجاتا ہے۔ آپ سے نماز یا روزہ چھوٹ گیا یہ گناہ ہے مگر یہ کہنا کہ نماز میں کیا رکھا ہے سوائے وقت کی بربادی کے یا یہ کہ اللہ کو ہمیں بھوکا رکھنے سے کیا مل جائے گا یہ کفریہ کلمات ہیں۔
٤- اختلاف رائے کا استقبال ہے ویلکم ہے مگر اختلاف اپنی سوچ اور رائے میں ہو نہ کہ ثابت شدہ اسلامی شعائر و اصول میں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)