Home نقدوتبصرہ بدھ مت،اس کا صحیفہ دھَمَّپَد اور اردو- ابوبکرعباد

بدھ مت،اس کا صحیفہ دھَمَّپَد اور اردو- ابوبکرعباد

by قندیل

اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو،دہلی یونیورسٹی،دہلی

قبل مسیح کی چھٹی اور پانچویں صدیاں اس اعتبار سے بے حد اہم ہیں کہ ان میں کئی فلسفوں اور مذہبوں کے بانیان پیدا ہوئے جنھوں نے دنیا کوروشن خیالی، روحانی عرفان اورذہنی آسودگی کے اسباب مہیا کرائے۔چین میں کنفیوشش، ایران میں زرتشت،یونان میں فیثاغورث اور ہندوستان میں گوتم بدھ اور مہابیر کا تعلق انھی دو صدیوںسے ہے۔فی الوقت گفتگو مہاتما بدھ، بدھ مت،اس کے صحیفے ’دھَمَّپد‘ اوران سب کے رشتوںمیں آنے والی اردوزبان کے حوالے سے کی جائے گی۔
عہد عتیق کی چندبے حد برگزیدہ شخصیتوں میں سے ایک اہم اور محترم نام مہاتما گوتم بدھ کا ہے ۔گوتم بدھ کا پیدائشی نام سدھارتھ ہے۔ان کے والد قدیم ہندوستان کی ایک چھوٹی سی ریاست ’کپل وستو‘ کے راجہ تھے(کپل وستو اب نیپال میں ہے)۔ نوجوانی میں گوتم کی شادی یشودھرانام کی دوشیزہ سے ہوئی،دونوں کو ایک لڑکا پیدا ہوا جس کانام راہل رکھا گیا۔اور پھر یوں ہوا کہ گوتم بدھ شاہانہ زندگی اور بیوی بچے کو چھوڑ کر حق کی تلاش میں نکل پڑے۔برسوں کی تپسیا ،ریاضت اور مراقبے کے بعد آخر کار انھیں حق سے آشنائی یعنی معرفت حاصل ہوئی۔اور ان پر یہ اسرار منکشف ہوئے کہ ریاضت، تپسیا اور چلہ کشی سے نہیں بلکہ نیک اور پاکیزہ زندگی ، اعتدال پسندی ،صلہ رحمی اور ترک خواہشات سے حق کو پایا اور معرفت حاصل کی جاسکتی ہے۔
گوتم بدھ نے معرفت حاصل کرنے کے بعد عام لوگوںکوشفقت و محبت، ہمدردی و احترام ، وفاداری، مساوات، حسن سلوک اورادب و تعظیم کی ہدایات دیں۔ انھیںانسان کی بنیادی صفات و خصوصیات سمجھائیں، موت و حیات کافلسفہ بیان کیا، رنج و غم کے اسباب بتائے اور ان سے نجات کے طریقوںکی تعلیم دی ۔ تاہم انھوں نے دوسرے بڑے مذاہب جیسے ہندو،عیسائی، یہودی اور اسلا م کی مانند نہ تو خدا کے وجود پر کوئی بحث کی ہے ، نہ کائنات کی تخلیق کے اسباب پر روشنی ڈالی ،اور نہ ہی زندگی، موت اور روح کی وضاحت کی ہے۔آخرت، قیامت، حشر و نشر اور جنت و جہنم جیسے مسائل پر بھی ان کے فرمودات بہت واضح نہیں ہیں۔ بدھ نے ان کے متعلق غور و فکر، گفتگویا سوالات کو غیر ضروری قرار دیا ہے ۔اُن کے مطابق اِن سب باتوں کا جاننا،یا نہ جاننا انسان کے لیے نہ تو فائدہ مند ہے ، نہ نقصاندہ۔ گویا وہ ایک مذہب کے بانی سے کہیں زیادہ انسانی زندگی کے فلسفی ،مصلح اخلاق اور انسان دوست کے بطور اپنے افکار بیان کرتے ہیں۔مابعد الطبیعاتی پیچیدگیوں کے بجائے ان کا سارا زور دنیاوی زندگی کے فلسفے،حسنِ اخلاق،عمدہ افکار اور اعمالِ صالح پر ہے ۔ البتہ عقیدہ ٔ تناسخ یعنی آواگون (arvagona) کوانھوں نے تسلیم کیا ہے اور اسے کافی اہمیت دی ہے۔
عام خیال ہے کہ بدھ ’ناستک ‘یعنی خدا کے منکرتھے ،مگر بعض عالموں کی رائے یہ ہے کہ انھیں ’ ناستک‘ خدا کے انکار کی وجہ سے نہیں بلکہ مروجہ عقائد کی تردید اور ’ویدوں‘کا انکار کرنے کی بنا پر کہا گیا۔ ان علماء کی جماعت کے مطابق اس بات کے کئی شواہد موجود ہیں کہ گوتم بدھ خدا پر یقین رکھتے تھے ،خاص طور سے Tevigga Suttanamمیں مرقوم اس واقعے کے حوالے سے جب ـ’کوشالہ‘ نامی علاقے کا دورہ کرتے ہوئے Manasakta نام کے گاؤں میں گوتم بدھ کا مقامی برہمنوں کے ساتھ مکالمہ ہوتاہے۔اسی طرح وہ آخرت کے بھی قائل ہیں۔
دنیا کے بیشتر بڑے مذاہب اور عقائد کی اپنی مقدس کتابیں ہیںجن میں ان کے اصول وضوابط، احکام و مسائل اور تاریخ و واقعات محفوظ ہیں۔یہ کتابیں یا تو آسمانی صحائف کی شکل میں ہیں جیسے قران، انجیل، زبور اور تورات یا مذہب یا عقیدے کے بانی یابزرگوںکے اقوال و ملفوظات پر مبنی یاپھر ان کے پیروکارں کے ذریعے لکھی ہوئی کتابیںہیں۔ جیسے سکھوں کی گرو گرنتھ صاحب،زرتشت کی ’ژند وستا‘ہندو دھرم کی وید مقدس ،اپنشد،پُران اور گیتا وغیرہ ۔ لیکن بودھ کی مذہبی کتاب ایک دو یا پانچ سات نہیں ،بلکہ متعدد کتابوں کے مجموعے ہیں،جنھیں تین زمروں میں تقسیم کیا گیاہے ۔
یہ زمرے ’تری پٹک ‘(Tripitaka)یعنی تین پٹاریوںکے نام سے منسوب ہیں ۔ تینوں پٹاریوںمیںمتعدد ابواب پر مشتمل کئی کئی کتابیں شامل ہیں۔متعدد کتابوں پر مشتمل پہلی ٹوکری کانام ’وِنیا پِٹک‘ (Vinaya Pitaka)ہے۔ تیسری پٹک کانام’ ابھی دھم‘ (-Pitaka Abhidhamma)ہے ۔اس میں بھی کئی ایک کتابیں ہیں۔اور دوسری کانام سُتّ پٹک(Sutta Pitaka) ہے ۔سُتّ پِٹک پانچ حصوں میں منقسم ہے۔ اس کے پانچویںحصے’ کُھدّک‘(Khuddak) میں پندرہ گرنتھ ہیں انھی گرنتھوں میں سے دوسرے نمبر کا گرنتھ ’دھَمّپَد‘ (Dhammapada)ہے ۔
چونکہ گوتم بدھ (563ق م ) کے زمانے میں لکھنے پڑھنے کا رواج بہت کم تھا اس لیے ایک عرصے تک ان کی تعلیمات سینہ بہ سینہ یا کہیے زبانی منتقل ہوتی اور دیس بدیس پہنچتی رہیں۔تقریباً تین سو سال کے بعد 252ق م میںاشوک کے عہد میں پہلی مرتبہ انھیں مبسوط شکل میں ’پا لی‘ زبان میں قلمبند کیا گیا ۔دوسری روایت یہ ہے کہ بودھ گرنتھوں کوپہلی بار لنکا کے راجہ’ وَٹّا گامی‘(76-88 ق۔م ) کے حکم سے تحریری شکل میں جمع کیا گیا۔ ’مہاونش‘ نام کے گرنتھ میں اس بات کا ذکر موجود ہے۔ ( دَھمّپد، ہندی،کن چھیدی لال گپت، چوکھمبا ودّیا بھون،وارانسی،2012،ص، 14) ذہن نشیں رہے کہ بھگوان بدھ نے تمام احکامات وتلقینات اورپند وعظ بہار کی زبان ’ماگدھی‘ میں ارشاد فرمائے تھے ،جو اس وقت مگدھ کے عام لوگوں کی بول چال کی زبان تھی(جسے دیسی،یا پراکرت بھی کہا جاتا ہے) ۔ بدھ کی ان تمام باتو اور وعظوں کو تحریری شکل میں لانے کے لیے انھیں’پالی‘ زبان میںمرتب کیا گیا۔ مگر اصل جلدیں مرتب کیے جانے کے بعد کم عرصے میں ہی ناپید ہوگئیں۔حسن اتفاق ان کی ایک نقل راجا اشوک کے بیٹے مہند(Mahend) کے پاس محفوظ تھیں جنھیں وہ اپنے ساتھ سری لنکا لے گئے تھے جہاں ان کا ترجمہ وہاں کی سنگھالی زبان میں ہوا۔ کچھ عرصے بعدراجہ مہند والی وہ نقلیں بھی جو وہ اپنے ساتھ سری لنکا لے گئے تھے، اصل جلدوں کی طرح معدوم ہوگئے، مگر سنگھالی کا ترجمہ رہ گیاتھاجسے صوبۂ بہار کے ضلع ’ گیا‘ کے ایک راہب بدھ گھوش(Budh Gosh)نے اصل تسلیم کرتے ہوئے پھر سے اس کا ترجمہ پالی زبان میں کیا۔اب برصغیر میں یہی تری پٹک ( Tripitaka) مستند اور قدیم سمجھی جاتی ہیں۔
تری پٹک کومذہب ، فلسفہ، منطق، تمثیل،کتھا،تجربات (بشمول انسان اور متعدد جانداروں کے)اور سائنس کا خزانہ کہیے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ان میںعلمیت ،ادبیت ،شعریت ،تجسس،آسودگی اورکنونسنگ پاورغضب کی ہے۔اسی تری پٹک خزانے کا ایک بیش بہا موتی ’دھَمّپَد‘ ہے۔ ’دھَمّپَد‘ دو لفظوں سے بنا ہے۔ایک سنسکرت لفظ’ دھرم ‘ جسے پالی زبان میں ’د َھمّ ‘ کہتے ہیں۔ دوسرا’ پد‘ جس کے معنی راستے کے ہیں ، یوں اس کے معنی ہوئے دھرم کا راستہ۔ ’پد‘ کے معنی ’فرمان ‘یا ’بول ‘کے بھی ہیں۔ اس طرح ’دھَمّپَد‘ کا ترجمہ ’مذہبی فرمان‘ یا’ بھگوان بدھ کی باتیں‘ بھی کرسکتے ہیں۔ ’دھَمّپَد‘ چھبیس ا بواب اور چارسو تئیس گاتھائوں (اقوال؍ باتوں)پر مشتمل صحیفہ ہے ۔ چھبیس ا بواب کے عنوانات درج ذیل ہیں۔عنوانات کے اردو ترجمے پنڈت بشیشور پرشاد منور ؔ لکھنوی کے کیے ہوئے ہیں۔پندرھویں باب کے عنوان کا انھوں نے کوئی ترجمہ نہیں کیا ہے:
پہلی گفتگو:نیک و بد کا مقابلہ ۔2۔عمل کی فضیلت۔3۔دل کی تربیت۔4۔پھولوں کا استعارہ۔5۔پانچویں جہالت کا نتیجہ۔6۔پنڈت (عالم) کا بیان۔7۔تارک کامل کا بیان۔8۔ہزار کا بیان۔9۔گناہ کا ذکر۔10۔سزا کا ذکر۔11 ۔ آگ کی تمثیل۔12۔اپنی ذات کے بارے میں۔13۔دنیا و عقبیٰ کے بارے میں۔14۔عقل مندوں کے باب میں۔ 15۔۔۔۔۔۔۔۔ 16۔محبت کے ذکر میں۔17۔غصے کے ذکر میں۔18۔کثافت کے باب میں۔19۔مضبوط دھرم کے باب میں۔20۔طریق عمل کے باب میں۔21۔بہترین مفاد کے بارے میں۔22۔دوزخ کے بارے میں۔23۔ہاتھی کی مثال۔24۔ترشنا یعنی حرص کے باب میں۔25۔فقیری کے ذکر میں۔26۔برہمن کے بارے میں۔(دھمپد،بشیشور پرشاد، انجمن ترقی اردو،(ہند)علی گڑھ، 1954)
دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے چھ بڑے مذاہب عیسائی،یہودی، اسلام،ہندو،جین اور بودھ میں سے تین یعنی ہندو، جین اور بودھ کا تعلق ہندوستان سے ہے، اور ان میں سے آخرالذکر دو کا صوبۂ بہار سے ہے ۔ گوتم بدھ کو بہار میں ہی معرفت حاصل ہوئی تھی اور انھوں نے بیشتر وعظ و تلقینات اور ہدایات بہار کے مختلف علاقوں میںہی دیے تھے۔’ دھپمد‘ میںبھی شامل بہت سے اپدیشوں کا تعلق بہار کی سرزمین سے ہے۔
دھمپد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ بودھ مت کے مختلف گرنتھوں سے بھگوان بدھ کی باتوں کو منتخب کرکے اسے کتابی شکل دی گئی ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس میں دوسرے دھرموں کے شاستر کی اہم باتوں کو بھی شامل کیاگیا ہے۔ (ایضاً، 13 ) ’دھَمّپَد‘ کے انتخاب و ترتیب کے تعلق سے ایک روایت یہ ہے کہ اس کاانتخاب بھگوان بدھ کے نروان حاصل کرنے یعنی ان کے انتقال سے پہلے ہی کرلیا گیا تھا ، البتہ اسے تحریری شکل یا تو477 ق۔م،یا پھر لنکا کے راجہ وٹا گامی کے عہد (88-77 ق۔م)میں دی گئی۔ ’ دھَمّپَد‘ کی گاتھائیںچونکہ انتہائی اختصار سے بیان کی گئی ہیںاس لیے کن چھیدی لال گپت کا کہنا ہے انھیں اس وقت تک آسانی سے نہیں سمجھا جا سکتا ہے جب تک اس کے ساتھ دوسرا معاون گرنتھ’دَھمّپدَ ٹّھا‘نہ پڑھا جائے،جس میں دھمپد کے اپدیشوں سے متعلق تین سو پانچ کتھائیں (کہانیاں) ہیں۔ ممکن ہے کن چھیدی لال جی کی مراد ’دھَمّپَد‘ کے اقوال کی شان نزول یا سائل کے سوال ،یا تجسس کو سمجھنے ، یا بیان کی باریکیوں تک پہنچنے سے متعلق ہو، جن کے جوابات،یا سیاق میں کہی گئی باتیں ’دھَمّپَد‘ میں منقول ہیں۔ یوں ’دھَمّپَد‘ کے بنیادی اپدیشوں کو بغیر کسی معاون کتاب کے سمجھنا کچھ ایسا مشکل مسئلہ نہیں ہے، یہ کتاب اپنے آپ میں کافی ہے۔
’دھَمّپَد‘ پر مزید گفتگو سے پہلے بدھ مت کے تعلق سے چند بنیادی باتوں کا جان لینا شاید زیادہ بہتر ہوگا ۔مثلاً یہ کہ بدھ مت کا کلیدی فکری نظام چار عظیم سچائیوں پر استوار ہے جن میں بدھ مت کا بنیادی فلسفہ مضمر ہے۔ پہلی عظیم سچائی یہ ہے کہ زندگی دکھوں سے بھری ہوئی ہے۔ دوسری عظیم سچائی یہ ہے کہ دکھ بلا سبب نہیں،بلکہ اِن دکھوں کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔تیسری عظیم سچائی یہ ہے کہ اِن دکھوں سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے ، اورچوتھی عظیم سچائی یہ کہ دکھوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے کچھ طریقے ہیں ۔ پہلی تینوں سچائیاں در اصل بدھ مت کے نظریاتی اصول ہیں، جب کہ چوتھی سچائی آٹھ عملی طریق کارپر منحصر ہے جن کے اختیار کرنے سے دکھ دور ہوجاتے ہیں اور نروان حاصل ہوتا ہے۔ دکھ سے نجات حاصل کرنے کے یہ آٹھوںعملی طریقۂ کار ’اشٹانگک مارگ‘ (ہشت اصولی راستہ) کہلاتے ہیں۔جو حسب ذیل ہیں: صحیح علم۔صحیح ارادہ۔صحیح گفتگو۔صحیح عمل۔ صحیح ذریعہ معاش۔ صحیح کوشش۔ صحیح یادداشت ، اور صحیح غور و فکر (مراقبہ)۔
اب ذرا چار عظیم سچائیوںاور ان سے متعلق آٹھ اصولوں کوقدرے وضاحت سے اس طرح جانیںکہ :
(1)انسانی زندگی پیدائش سے لے کر موت تک دکھوں سے بھری ہوئی ہے ۔جس میں بشمول پیدائش اور موت، ناپسندیدہ چیزوں سے واسطہ پڑنا اور محبوب چیزوں کا بچھڑ جاناہے۔
(2)دکھوں کی وجہیںلاعلمی،امید،لالچ،حرص و ہوس اور خواہشات ہیں۔
(3) سچے علم کے حصول اورنفسانی خواہشات پر کنٹرول کے ذریعے ان دکھوںسے نجات حاصل کی جا سکتی ہے ۔
(4) سچے علم کو حاصل کرنے اوردکھوں سے نجات پانے کے لیے بدھ کے بتائے ہوئے وہ آٹھ طریقے یہ ہیں جنھیں بدھ مت میں اشٹانگک مارگ کہا جاتا ہے:
(1)سمیک درشٹی: (صحیح نقطۂ نظر)۔ چیزوں کو بالکل ویسی ہی دیکھنا جیسی کہ وہ ہیں۔کہہ سکتے ہیں کہ اس اصول کے تحت حقائق کی ماہیت اور ان کے صحیح ادراک پر زور دیا جاتا ہے، فانی اور غیر فانی میں امتیاز کیا جاتا ہے،شکوک اور غلط نظریات سے احتیاط کیاجاتا ہے ، علم اور لا علمی کے فرق کوجاننے کی کوشش کی جاتی ہے ،اورچاروں عظیم سچائیوں پریقین رکھاجاتاہے۔
(2) صحیح سنکلپ:( صحیح ارادہ)۔ اُن خیالات و جذبات سے پرہیز کرنا جو اخلاقی برائیوں کو جنم دیتے ہیں، مثلاً نفرت، غصہ،غرور، حسد،لالچ، شک ،خود غرضی، تعصب ،تشدد،دھوکا اور لذت پرستی وغیرہ۔ساتھ ہی تمام مخلوقات کے لیے ایثار، محبت اور ہمدردی کے رویے اپنانا۔
(3)سمیک واک:( صحیح کلام )۔ برائی اور فساد کو جنم دینے والی باتوں مثلاً جھوٹ، غیبت ، سخت کلامی،خود ستائی، اور یاوہ گوئی سے پرہیز اور حق گوئی، نرم گفتاری،معتدل اور مدلل طرز گفتگو اپنانا۔
(4) سمیک کرمانتا: (صحیح اعمال)۔ ان تمام اعمال سے بچنا جنھیں بدھ نے ممنوع قرار دیا ہے، مثلاً جھوٹ ،چوری، ظلم ،خود غرضی، بد چلنی اور فتنہ و فساد وغیرہ ۔ اسی طرح اس کے بتائے ہوئے اعمال کی پابندی کرنا جیسے حسن سلوک، خوش اخلاقی ، ہمدردی، خدمت خلق ،جانداروں پر رحم اور فیاضی وغیرہ۔
(5) سمیک اجیوا: (صحیح ذریعۂ معاش)۔ حلال رزق کاحصول اور کمانے کے غلط ذرائع سے پرہیز ۔مثلاً بے ایمانی، ظلم، زیادتی، رعب، جبر یا کسی کو نقصان پہنچاکر روزی یا دولت حاصل کرنا۔
(6) سمیک ویایام: ( صحیح کوشش)۔ اپنے اندر پاکیزہ اور پسندیدہ خیالات و جذبات کو فروغ دینا اور غلط اور ناپسندیدہ خیالات و جذبات جیسے نفسانی خواہشات، نفرت ،لالچ،ہوس اور غصہ وغیرہ کو ابھرنے سے روکے رکھنے کی کوشش کرنا۔
(7) سمیک سمرتی:( صحیح یاد داشت) ۔ اچھی اور مناسب باتوںکو یاد رکھنا ،زندگی، موت اور دکھوں کو ذہن نشیں رکھنااورغلط اور بری باتوں کوبھول جانا۔
(8)سمیک سمادھی: (صحیح مراقبہ )۔ صحیح غور وفکرکے ذریعے اصل حقیقت تک پہنچنا۔ یہ آٹھواں اصول بنیادی حیثیت کا حامل اور بدھ مذہب کی اہم ترین عبادت ہے۔کیونکہ بدھ مت کے مطابق صحیح مراقبہ زندگی کے اصل مقصد یعنی باطن کی تطہیر کے لیے لازمی اور نروان کے حصول میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے ۔
بدھ مت میںنروان( ’نجات‘ ) ایک خاص حالت کو کہتے ہیں جس میں انسان رنج و خوشی،دوستی اور دشمنی ،آلام ومصائب آرزوؤں اور خواہشوں سے ماوریٰ ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ وہ زندگی اور موت (جنم اور مرن کے تسلسل؍مرنے اور پھر اعمال کے مطابق نئی نئی جون میں جنم لینے) سے دائمی نجات پاجاتا ہے ۔باربار اپنے کوموں کے پھل کے مطابق جنم لینے اور مرنے کے تسلسل میں آخری جنم اور آخری موت کو نروان کہا جاتاہے۔یہ نروان یعنی جینے اور مرنے کے دکھوں سے نجات ایک یا دو جنموں میں نہیں بلکہ کئی جنموں کے بعد اچھے کرموں اور بالکل پاک صاف زندگی گزارنے بعدحاصل ہوتا ہے۔ بھگوان بدھ بھی کپل وستو میں پیدا ہونے اور شراوستی میںآخری بار مرنے سے پہلے متعدد بار جنم لے چکے تھے۔یہ آخری موت بھگوان بدھ کے نروان کی منزل ہے۔
مذکورہ چار عظیم سچائیوں اور آٹھ اصولوں کے علاوہ مہاتما بدھ نے انسانی معاشرے کو انتشار سے بچانے اور افراد کو مہذب بنانے کے لیے پانچ باتوں پر مشتمل ایک اخلاقی نظام ’پنچ شیلا‘ بھی مرتب کیا، جو اس طرح ہے:
1۔کسی بھی جاندار کی جان نہ لینا
2۔چوری نہ کرنا
3۔جھوٹ نہ بولنا
4۔نشہ اور نشہ آور چیزوں سے پرہیز کرنا
5۔زنا نہ کرنا
آج بھی بدھ مذہب میں داخل ہونے کے لیے ’پنچ شیلا‘کو نبھانے کا عہد اس کے بنیادی ارکان میں سے ایک لازمی رکن ہے۔اس کے علاوہ بدھسٹوں کے لیے شرن کے یہ تین اصول بھی ضروری ہیں: (1) بدھم شرنم کچھامی۔(2) دھمم شرنم گچھامی۔(3) سنگھم شرنم گچھامی۔یعنی میں بدھ کی شرن (پناہ) میں جاتا ہوں۔میں دھرم کی شرن میں جاتا ہوں۔ میں سنگھ(تنظیم)کی شرن میں جاتا ہوں۔
بدھ نے والدین اور اولاد،استاذ اور شاگرد، میاں بیوی ، دوست اور ساتھی اور آقا اور ملازم کے احکام و فرائض بھی متعین کیے ہیں۔ بعض پیشوکی انھوں نے ممانعت کی ہے، مثلاً ہتھیار بیچنے،لونڈی اور غلام کوخرید نے اور بیچنے،شراب بنانے اور بیچنے، گوشت بیچنے اور زہر بیچنے سے۔ بدھ مت میں نسل، ذات، کلاس اورجنسی تفریق کو کو ئی دخل نہیں ہے ۔
شاید اس بات کے اعادے کی ضرورت نہیں ہے کہ پہلے پہل مہاتما بدھ کی تبلیغ کی طرف وہ لوگ راغب ہوئے جو معاشی اعتبارسے کمزور، سماجی لحاظ سے حاشیے پر رہنے والے اور لٹریری طور پر ادبی ذوق سے تقریباً عاری اور اعلیٰ طبقے کی زبان کے بجائے دیسی اور عام بول چال کی زبان بولنے اور سمجھنے والے لوگ تھے۔
بدھ مت کوایک مذہبی انقلاب کہنا چاہیے جو آلام و مصائب ،جسمانی کثافت،روحانی اسراراور اور زندگی اور موت کی پیچیدگیوں کے حل کی تلاش کی صورت شروع ہوا تھااور بالآخر ایک بے حد موثر اور منظم مذہب کے طور پر تشکیل پایا۔ بدھ مت نے لوگوں کو انسانی برابری ،سماجی انصاف،عزت نفس اور زندگی کے منطقی اور روحانی طریقوں سے روشناس کرایااور حسن اخلاق اور نیک اعمال کی ترغیب دی۔ بدھ مت میں عقیدت کے مقابلے منطقیت،عبادات کے مقابلے اعمال اور احساس ِ تفاخر کے مقابلے میں خاکساری پر زور دیا گیاہے ۔ اس نے ذات پات کی تفریق ، عورت اور مرد کی برتری اور کمتری اور مذہبی امور کی اجارہ داری کو بھی ختم کیا۔ بنیادی طور پر اس مذہب کی روح عمدہ خیالات،اچھے اخلاق اور صحیح اعمال میں پوشیدہ ہے۔شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ مہاتما بدھ نے ہندوستان میں انسانی مساوات کا پہلا باضابطہ منشورجاری کیا۔شاید اسی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد کے بعد خواص نے اور پھر بادشاہوں تک نے اس مذہب کو اپنایا، سرکاری حیثیتیں دیں اور اس کی تبلیغ کی۔ تسلیم یہ بھی کرنا چاہیے کہ غالباً تب تک کا یہ پہلا مذہب تھا جو بہار سے شروع ہوکر پورے ہندوستان اور پھرروم و یونان اور دوسرے ممالک تک پہنچا اور دنیا کے بیشتر حصوں میں پھلنے پھولنے لگا۔ لیکن اس کا دوسرا دردناک پہلو یہ بھی ہے کہ بوجوہ یہ ہندوستان میں کم اور پھر ختم ہونے لگا۔ علامہ اقبال نے’بانگ درا‘ کی نظم’نانک‘ میں، اپنی ہی جنم بھومی میں گوتم بدھ اور بدھ مت کے فلسفے کو نظر انداز کیے جانے کے حوالے سے بڑے معنی خیز اشارے کیے ہیں:
قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروا نہ کی
قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی
آہ! بدقسمت رہے آوازِ حق سے بے خبر
غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر
آشکار اس نے کیا جو زندگی کا راز تھا
ہند کو لیکن خیالی فلسفے پر ناز تھا
شمع حق سے جو منور ہو یہ وہ محفل نہ تھی
بارش رحمت ہوئی لیکن زمیں قابل نہ تھی
آہ! شودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے
دردِ انسانی سے اس بستی کا دل بے گانہ ہے
برہمن سرشار ہے اب تک مئے پندار میں
شمع گوتم جل رہی ہے محفل اغیار میں
اس کے علاوہ علامہ اقبال نے اپنی مشہور زمانہ فارسی تخلیق ’جاوید نامہ‘میںبھی گوتم بدھ کا ذکر بڑے ہی سلیقے اور احترم کے ساتھ کیا ہے ۔ جب وہ رومی کے ساتھ فلک قمر پر پہنچتے ہیں تو وہاں ان کی ملاقات زرتشت، حضرت عیسیٰ اور حضرت محمدؐ کے ساتھ ساتھ گوتم بدھ سے بھی ہوتی ہے۔
گوتم بدھ کے حوالے سے اردو میںکئی کتابیںلکھی گئیں،جیسے منشی احمدالدین کی’ مہاتما بدھ‘جو 1903میںکشمیری پریس، لکھنؤسے شائع ہوئی،ڈاکٹر م۔حفیظ سید ایم۔اے کی ’گوتم بدھ: سوانح حیات و تعلیمات‘ جسے انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی نے 1942میں شائع کیا ،ایسے ہی کئی اور کتابیں۔
’دھمپد‘ کا پہلا انگریزی ترجمہ 1840میں ہواتھااور پھر دنیا کی بیشتر زبانوں میں اس کے ترجمے کیے گئے۔ اردو میںبھی دنیا کی بیشتر مذہبی کتابوں کی طرح ’دھمپد‘ کے بھی ترجمے ہوئے۔ فی الوقت جو ترجمہ پیش نظر ہے ،وہ ہے اہم شاعر بشیشور پرشاد منورؔ لکھنوی کا منظوم ترجمہ’’ دھمپد یا سچی راہ ‘‘کے عنوان سے جو 1954میں انجمن ترقی( اردوہند)علی گڑھ سے شائع ہوئی تھی ۔ اسے اردوزبان کا امتیاز اور اس کی رواداری کہنا چاہیے کہ اس زبان نے اپنے اندر نہ صرف عالمی ادب ،تاریح وسیر، منطق وفلسفہ ،سائنس وکیمیااور ہر قسم کے موضوعات کو سمویا بلکہ دنیا کے تمام مذاہب اور بیشتر عقائد کا تعارف کرایا ،مضامین اور کتابیں لکھیںاور ان کے مقدس صحیفوں کے ترجمے بھی عام لوگوں تک پہنچائے ۔ دھمپد کا ترجمہ بھی اردو زبان کی علم دوستی اور مذہبی رواداری کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس ترجمے کی زبان بہت ہی آسان،عام فہم،دلنشیں اور دلچسپ ہے ۔اس کی خوبی یہ ہے کہ مشکل مسائل کو بھی کم سے کم اشعار میںبڑی خوبصورتی کے ساتھ سلیقے سے ڈھالا گیاہے۔ یہاں ’دھمپد‘ کے مختلف ابواب سے مہاتما بدھ کے کچھ منتخب ، فکر انگیز اپدیش منور صاحب کی منظوم شائستہ زبان میں ذہن کی آسودگی اور ذوق کی آبیاری کے لیے پیش کیے جارہے ہیں۔بعض مثالوں میں کچھ مصرعوں کو حذف کردیا گیا ہے:
دل کی تربیت :
بے حدچنچل ہوتا ہے دل
اس کو ٹھہرانا ہے مشکل
ہوتا ہے جو شخص خِرد وَر
آجاتا ہے غالب اس پر
کرلیتا ہے تیر کو سیدھا
جیسے تیر بنانے والا
عالم بے عمل :
دھرم گرنتھوں سے کیا حاصل
ان کا پڑھنا ہے لا حاصل
ان کو عمل میں لائے نہ جب تک
عیش پرستی جائے نہ جب تک
ایسا انساں ہے اک گوالا
گائیں پرائی دوہنے والا
اس کا بیڑا پار نہ ہوگا
وہ پھل کا حقدار نہ ہوگا
بے معنی ہے ایسا پڑھنا
بے مصرف ہے اس کا پڑھنا
محبت کے ذکر میں:
جو ہوں اپنے ساتھ ان کا چھوڑ دو
ہیں جو رشتے نام کے سب توڑ دو
جو ہوں بے گانے رہو اس سے بھی دور
دل نہ ہو لیکن کسی سے بھی نفور
ہے عزیزوں کی جدائی ناگوار
اس سے دل انساں کا رہتا ہے فگار
اور بے گانے کی جب ہوتی ہے دید
دل پہ اس سے چوٹ لگتی ہے شدید
شمع سے الفت، نہ پروانے سے ہو
لوث اپنے سے ، نہ بے گانے سے ہو
ہار جیت:
دشمنی ہوتی ہے پیدا جیت سے
اور بھی بڑھتا ہے جھگڑا جیت سے
ہارنے والے کو ہوتا ہے ملال
شیشہ دل میں پڑا رہتا ہے بال
دل سے بدلے کی ہوس جاتی نہیں
نیند راتوں کو اسے آتی نہیں
ہے نظر میں جس کی یکساں جیت ہار
اس کے دل میں ہے سکون پائیدار
امن میں اس کے خلل آتا نہیں
وہ کسی حالت میں گھبراتا نہیں
جہالت کا نتیجہ:
یہ تو میرا لخت جگر ہے
وہ تو میرا نور نظر ہے
میں ہوں مال و زر کامالک
گھر کامالک ،در کا مالک
دعویٰ جو یہ کیا کرتا ہے
رنج وہ مول لیا کرتا ہے
خود یہ جسم نہیں جب اپنا
پھر بے کا ر یہ دعویٰ کیسا
ہیں یہ سب اسباب مصیبت
کس کا بیٹا ، کس کی دولت
حرص:
حرص سے ہے گرم بازارِ الم
حرص سے رہتا ہے دل پابند ِغم
اس بلائے بد سے جو رہتا ہے دور
اس کے نشّہ سے نہیں رہتا جو چور
اس کے دل میں رنج آسکتا نہیں
وہ کسی سے خوف کھا سکتا نہیں
کثافت کے باب میں:
جس کے مسلک میں تشدد ہو دخیل
اور چوری جس کا پیشہ ہو رذیل
ہر سخن میں جس کے شامل ہو دروغ
نشہ بازی سے جو پاتا ہو فروغ
مشغلہ جس کا ہو عصیاں پروری
غیر عورت سے کرے ہم بستری
زندگی جس کی ہو سر تا پا گناہ
ہوکے رہتا ہے بشر ایسا تباہ
ہر عمل گویا ہے اس کا خود کشی
کھودتا ہے اپنی جڑ وہ آپ ہی
٭
ہے محبت کا نتیجہ رنج و غم
ہے محبت آئینۂ دار الم
فر قت محبوب ہے وجہ عذاب
عشق کیا ہے وہ جو ہوخانہ خراب
جس کو آزار محبت ہی نہیں
جو گرفتار محبت ہی نہیں
اس کو غم کوئی، نہ کوئی فکر ہے
خوف کا دہشت کا پھر کیا ذکر ہے
دل پر قابو:
ہاتھ آ نا ہے اس کامشکل
ہے رفتار میں تیز بہت دل
اس پر قابو پاجانے سے
اس کو راہ پہ لے آنے سے
غم سے فراغت مل جاتی ہے
امن کی دولت مل جاتی ہے
غصے کے ذکر میں:
دوسرا کوئی اگر غصا کرے
ہوش کھو بیٹھے غضب پرپا کرے
اپنا غصہ آدمی خود تھام لے
عقل سے فرزانگی سے کام لے
اس کو ٹھنڈے دل سے قابو میں کرے
جل نہ جائے خود بھی اس کی آگ سے
ہوبرا کوئی ، بھلائی تم کرو
کیوں برے بن کر برائی تم کرو
بخل پر حاوی رہے بخشش کا ہاتھ
راستی سے جنگ ہو باطل کے ساتھ
۳۔جسم۔
بے وقعت ہے جسم خاکی
ہے یہ اک تصویر فنا کی
ہوجائے گا یہ ناکارہ
کرلے گی جب روح کنارہ
کام نہ پھر کچھ بھی آئے گا
فرش زمیں پہ گر جائے گا
پھولوں کااستعارہ:
بھونرے پھول کا رس لیتے ہیں
رس لے لے کر چل دیتے ہیں
پھر بھی پھول کھلا رہتا ہے
دلکش رنگ بنا رہتا ہے
فرق نہیں خوشبو میں آتا
پھول نہیں اس سے مرجھاتا
مُنیوں کا بھی ڈھنگ یہی ہو
ان کی سیرت بھی ایسی ہے
قریہ قریہ جائیں خوشی سے
لاگ مگر رکھیں نہ کسی سے
تارک کامل۔
جمع کچھ اسباب کرتا ہی نہیں
دولت و زر پر جو مرتا ہی نہیں
آئینہ ہے جس پہ اسرار غذا
جس کو ہے معلوم مقدار غذا
آرزوئے ایں و آںجس میں نہیں
اک غرض کابھی نشاںجس میں نہیں
تارک کامل ہے جو آزاد کیش
مخلصی رہتی ہے جس کی پیش پیش
صورت مرغ فلک پرواز ہے
راز ہے اس کا چلن اک راز ہے
ہزار کابیان۔
جس نظم میں سپرد قلم ہوں ہزار شعر
ہر چند جان حسن رقم ہوں ہزار شعر
بے کار ہے جو کام کی بات اس میں کچھ نہ ہو
سرمایۂ مفید حیات اس میں کچھ نہ ہو
کافی ہے ایک شعر جو مطلب کی بات ہو
ہر لفظ جس کا باعث تسکین ذات ہو
اس اپدیش کو پڑھ کر ملا وجہی کا یہ شعر یاد آتا ہے:
جو بے ربط بیتاں تو بولے پچیس
بھلا ہے کہ یک بیت بولے سلیس
نفس پہ قابو:
جیتی ہزار بار لڑائی اگر تو کیا
لاکھوں پہ تو نے فتح بھی پائی اگر تو کیا
تو خود کو ایک بار بھی تسخیر اگر کرے
نفس دنی کو بستۂ زنجیر اگر کرے
یہ جیت واقعی ہو تری باوقار جیت
اس جیت کو کہوں گا میں اک شاندار جیت
بزرگوں کااحترام:
ہر ماہ سوبرس بھی اگر دان دے کوئی
خوش ہو ہَوَن سے، نام کرے یگیہ سے کوئی
اس کے مقابلے میں یہ بہتر ہزار ہے
اعمال انتخاب میں اس کا شمار ہے
عزت کرے بزرگ صفا کیش کی کوئی
پل بھر کے واسطے ہی بنے آدمی کوئی
سو سال کا وہ یگیہ ہَوَن وہ فضول ہے
اک لمحہ کی مگر یہ عبادت قبول ہے
ریاضت:
ہو پنّیہ کی غرض سے عبادت جو سال بھر
ہو یگّیہ کی ،ہوَن کی طریقت جو سال بھر
تعظیم نفس پاک کے آگے وہ گرد ہے
قائل جو اِس کا ہے وہی ممتاز مرد ہے
ہے پاک باطنوں کی سوا سب سے آبرو
بہتر ہزار درجہ ہے تکریم نیک خو
گناہ کا ذکر:
اچھے کام میں دیر ہی کیوں ہو
برپا یہ اندھیر ہی کیوں ہو
دیر جو اس میں ہوجاتی ہے
قسمت گویا سو جاتی ہے
دل بدعت ڈھانے لگتا ہے
سوئے بدی جانے لگتا ہے
سزا کا ذکر:
ہو کلام درشت سے پرہیز
تلخ گوئی سے واجبی ہے گریز
بولنے میں زبان سخت نہ ہو
لہجۂ گفتگو کرخت نہ ہو
بد زبانی خراب ہوتی ہے
اک گنہ، اک عذاب ہوتی ہے
نہ رہوگے جو اس عذاب سے دور
تم کو اس کی سزا ملے گی ضرور
آگ کی تمثیل:
دیکھو تو ذرا یہ جسم کیا ہے
آخر اس کا طلسم کیا ہے
اس میں لاکھوں اذیتیں ہیں
سب بربادی کی صورتیں ہیں
پھولا پھولا بدن یہ سارا
ہے اک امراض کا پٹارا
ہر وقت ہے زور خواہشوں کا
نرغہ ہے غموں، کاہشوں کا
اس کا نہیں اعتبار کوئی
صورت نہیں پائیدار کوئی
برہمن کے باب میں:
جٹائیں رکھ کے برہمن کوئی نہیں ہوتا
بزرگ اس سے کبھی آدمی نہیں ہوتا
نہ گوترسے ، نہ برہمن ہے جنم سے کوئی
فضول کیوں پھر اُسے برہمن کہے کوئی
جو راستی کا صداقت کا ہے علمبردار
نثار دھرم ہے جس پر، جو دھرم پر ہے نثار
شعار نیک ہو، محبوب ہو چلن جس کا
برنگ شعلۂ بے دودہو چلن جس کا
اسی کے وصف گنانے میں تر زباں رہیے
برہمن اصل میں ہے،برہمن اسے کہیے
نروان:
انساں دہر میں پیدا ہوکر
کرموں سے وابستا ہوکر
پاتے ہیں ہر کرم کا ثمرا
اس سے کوئی بچ نہیں سکتا
جو بے عقل بھٹک جاتے ہیں
پاپی بن کر نرک جاتے ہیں
اچھے کرم جنھیں بھاتے ہیں
سورگ میں خاص جگہ پاتے ہیں
بے لوثی میں ہیں جو کامل
کرتے ہیں نروان وہ حاصل
اپنی ذات :
آدمی اپنا آپ سالک ہے
آدمی اپنا آپ مالک ہے
وہ نہیں کسی غیر کا محتاج
ہو ہی سکتا ہے اس پہ کس کا راج
اس کا مالک نہیں خود اس سے جدا
اپنی تقدیر کا ہے خود ہی خدا
خود کو خود ہی جو زیر کرتا ہے
اپنے ہاتھوں سے خود سنورتا ہے
صاف کرتا ہے راستا اپنا
وہی بنتا ہے خود خدا اپنا
دنیا و عقبیٰ کے بارے میں:
جو بخیلی سے کام لیتا ہے
کوڑی کوڑی پہ جان دیتا ہے
کبھی جنت میں جا نہیں سکتا
زیست کا حظ اٹھا نہیں سکتا
جو تجمل شعار ہوتے ہیں
آدمی باوقار ہوتے ہیں
دان کرکے وہ سکھ اٹھاتے ہیں
زندگیٔ دوام پاتے ہیں

 

You may also like

Leave a Comment