خیرکو عملی زندگی میں اتارنا حضرت مولانا قاضی محمد قاسم مظفر پوری ؒکو سچا خراج :مولانا رحمت اللہ ندوی
مظفرپور (عبدالخالق قاسمی): اپنے علمی وقار سے کئی نسلوں کے شاندار مستقبل کی راہ آسان بنانے اور سماجی مسائل کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ حل کرنے کا ہنر رکھنے والے فقیہ زماں و قاضی شریعت امارت شرعیہ بہار اڑیسہ وجھا رکھنڈ مولانا محمدقاسم مظفر پوریؒ بھلے ہی آج ہمارے درمیان نہیں ہیں اور ہم ان کے دیدار ورفاقت سے محروم ہیں مگر انہوں نے اپنی پوری زندگی امت کو جس راستے پر لانے کی جد وجہد کی اور جس مقصد کے لئے وہ ہر مشکل مرحلے کو اپنے عزم واستقلال سے آسان سے آسان تر بناکر سماج کے ذمہ دار افراد کو اس پر چلنے کا سبق پڑھاتے رہے ،میں سمجھتا ہوں کہ وہ نہ صرف بے حد اہم ہیں بلکہ سچ یہ بھی ہے کہ اگر آج اس مقصد کو سمجھ کر آگے چلنے کا فیصلہ کیاجائے تو سماج میں ایک خوشگوار تبدیلی کے آثار نمایاں ہو سکتے ہیں ۔یہ باتیں معروف اسلامی اسکالر مولانا رحمت اللہ ندوی نے اپنے تعارفی خطاب میں کہیں۔ وہ حضرت مولانا قاسم مظفر پوری علیہ الرحمہ کی خود نوشت سوانح ” زندگی کا سفر ” اور اپنی خوبصورت تالیف ” حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری: حیات افکار اور کارنامے” کے اجرا اور مدرسہ طیبہ منت نگر مادھوپور میں ” اصلاح معاشرہ میں ائمہ وخطباء مساجد کا کردار”کے عنوان سے منعقدہ تربیتی ورکشاپ سے خطاب کر رہے تھے۔
پروگرام کی پہلی نشست کی صدارت حافظ ناظم رحمانی اور دوسری نشست کی صدارت مولانا قاضی محمد عمران قاسمی نے کی۔حافظ ناظم رحمانی نے کہا کہ میں قاضی شریعت کو ان لوگوں میں سے ایک تصور کرتا رہا ہوں جنہوں نے اپنی زندگی کے طویل سفر میں پوری خود اعتمادی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ نسلوں کی تربیت اور انہیں سلیقہ مندی سے سنوارا،ان کی یادیں برسوں تک نہ صرف انسانی دلوں میں پاکیزہ کردار کے ساتھ زندہ ر رہیں گی بلکہ ان کے بنائے اور بتائے ہوئے اصول عملی زندگی میں آئندہ کی کئی نسلوں کے لئے مشعل راہ بنے رہیں گے ۔قاضی محمد عمران قاسمی نے کہا کہ قاضی شریعت ایک با صلاحیت عالم،بے مثال محدث اور صاحب بصیرت فقیہ ہی نہیں تھے بلکہ فقہی میدان میں انہیں قاضی مجاہد الاسلام قاسمی علیہ الرحمہ جیسے جبال علم وفقہ کا اعتبار بھی حاصل تھا اور یہی نہیں ،اس حوالے سے علمی حلقے میں انہوں نے اپنی ایسی پہچان بھی بنائی تھی کہ آج کے وقت میں دور دور تک کوئی ان کا ثانی دکھائی نہیں دیتا ۔ مولانا صفی الرحمان نے کہا کہ وہ افراد سازی کے فن سے بھی اچھی طرح واقف تھے اور کب کس سے کیا کام لینا ہے اس ہنر میں وہ منفرد تھے۔انہوں نےکہا کہ قاضی صاحب جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ان کی جدائی کے غم سے برسوں تک علمی حلقے میں ماتمی سناٹا چھایا رہے گا،لیکن اس سناٹے کو توڑنے کے لئے اگر ہم نے ان کی منتخب کی ہوئی راہوں پر خود کو چلانے کا فیصلہ کرلیا اور سماج کے تئیں وہ جس طرح کا درد رکھتے تھے اگر وہی درد ہم نے بھی اپنے اندر پیدا کرلیا تو سماجی اصلاح کے امکانات کو تقویت مل سکتی ہے۔ پروگرام میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور عرب عالم دین ِشیخ احمد مشعل الغامدی نے بھی آن لائن شرکت کی اور اپنے قیمتی تاثرات پیش کئے۔اس موقعے پر مولانا مظفر احسن رحمانی،مولانا انصار قاسمی،حافظ منت اللہ رحمانی،مولانا تقی احمد قاسمی،مولانا مفتی عامر مظہری ناظم تعلیمات دارالعلوم سبیل الفلاح جالے،مولانا ارشد فیضی قاسمی ڈائریکٹر اسلامک مشن اسکول جالے،مولاناعبدالخالق قاسمی،قاری بلال مظاہری، لطف الرحمن ،مولانا امتیاز احمد قاسمی،مولانا قاضی اخلاق دارالقضا شکرپور بھروارہ سمیت علما ودانشوران کی بڑی جماعت موجود رہی۔