Home قومی خبریں قومی اردو کونسل میں شیامل گنگوپادھیائے کے ناول ’شہزادہ داراشکوہ‘ کے اردو ترجمے کا اجرا

قومی اردو کونسل میں شیامل گنگوپادھیائے کے ناول ’شہزادہ داراشکوہ‘ کے اردو ترجمے کا اجرا

by قندیل

دارا شکوہ ہندوستان کے ثقافتی تشخص کا حقیقی نمایندہ تھا:شیخ عقیل احمد

نئی دہلی: آج یہاں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے صدر دفتر میں معروف بنگالی ادیب شیامل گنگو پا دھیائے کے ضخیم ناول ’شہزادہ داراشکوہ‘ کے اردو ترجمہ کا ڈائریکٹر پروفیسر شیخ عقیل احمد اور دیگر شخصیات کے ہاتھوں اجرا عمل میں آیا۔ اردو ترجمہ معروف مترجم جناب خورشید عالم نے کیا ہے اور یہ ناول ساہتیہ اکادمی کے زیر اہتمام شائع ہوا ہے۔ اس موقعے پر شیخ عقیل احمد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں داراشکوہ کی اہمیت اس لیے نہیں ہے کہ وہ شہزادہ تھا،بلکہ اس لیے ہے کہ وہ ہندوستان کے ثقافتی تشخص اور انفرادیت کا پروردہ اوراس کا حقیقی نمایندہ تھاـ وہ شہزادہ ہونے کے باوجود ایک صوفی منش انسان تھا، تمام مذاہب کو ایک ساتھ لے کر چلنے اور ان کے اندر پائے جانے والے مشترکہ نکات کو پیش نظر رکھ کر سماجی ہم آہنگی کے قیام میں دلچسپی رکھتا تھا، اسی وجہ سے وہ ہر مذہب کی اہم شخصیات اور کتابوں کا مطالعہ کرتا اور ان کی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ شیخ عقیل نے کہا کہ بعد کے دنوں میں ایک بڑے حلقے میں اس کی شخصیت مجروح قرار دی گئی اور علمی اعتبار سے بھی اس پر کم کام کیا گیا، مگر اب حالات بدل رہے ہیں اور داراشکوہ کی شخصیت و افکار کے مطالعے کا رجحان بڑھ رہا ہےـ اسی سلسلے کا ’شہزادہ داراشکوہ‘ نامی دو جلدوں پر مشتمل یہ ضخیم ناول ہے،جو دراصل بنگلہ زبان میں لکھا گیا ہے،پھر اس کا ہندی ترجمہ ہوا اور اس کا اردو ترجمہ محترم خورشید عالم نے کیا ہے جس کے لیے موصوف لائقِ مبارکباد ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اس ناول کی ورق گردانی کی ہے،مجھے محسوس ہوا کہ خورشید صاحب نے بہت عمدہ ترجمہ کیا ہے۔ان کے ترجمے میں تخلیقیت اور اصل متن کی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ اس ناول کے مطالعے سے نہ صرف داراشکوہ کی زندگی کے مختلف پہلووں کے حوالے سے بہت کچھ جاننے کا موقع ملتا ہے بلکہ پورے ایک عہد کی عکاسی ہوجاتی ہے۔
معروف ادیب و ناقد حقانی القاسمی نے داراشکوہ کی شخصیت،اس کی مظلومیت اور ہندو مسلم اتحاد و و اشتراک کے فروغ کے تئیں اس کی غیر معمولی دلچسپی پر بھرپور روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ داراشکوہ تاریخِ ہند کا ایک بدنصیب کردار ہے، جو ہندوستان کی تقدیر اور تصویر بدلنا چاہتا تھا، مگر اقتداری سیاست کی ستم ظریفی نے اس کی تقدیر و تصویر ہی بگاڑ دی۔ حقانی القاسمی نے کہا کہ دارا شکوہ ہر مذہب و فکر میں موزونیت کا متلاشی تھا،تصوف اور بھکتی سے خاص تعلق رکھتا تھا۔ اپنی معروف کتاب مجمع البحرین میں اس نے اسلام اور ہندومت کے درمیان ہم آہنگی و امتزاج کے نکات پر ہی گفتگو کی ہے، دارا شکوہ کا ذہن تکثیریت پسند تھا اور وہ مذہبی رواداری اور بقائے باہم کا قائل تھا۔ داراشکوہ پر لکھے گئے ناول کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ مغلیہ تاریخ کے المیہ کردار داراشکوہ پر مختلف زبانوں میں بہت کام ہوا ہے،اردو میں بھی متعدد تذکرے،ناول اور ڈرامے لکھے گئے ہیں، شیامل گنگوپادھیائے نے بنگلہ زبان میں ’شہزادہ داراشکوہ‘ کے عنوان سے دو جلدوں میں ناول لکھا تھا،جس کا ہندی سے اردو ترجمہ خورشید عالم نے کیا ہے، اردودنیا میں اس ترجمہ شدہ ناول کا استقبال ہونا چاہیے۔
کتاب کے مترجم جناب خورشید عالم نے تاریخ جیسے خشک موضوع کوتخلیقی شکل میں پیش کرنے کی دشواریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کتاب کا مختصر تعارف کروایا اور بتایا کہ جلد اول میں جہانگیر اور شاہجہان کے دور کا احاطہ کیا گیا ہے اور دوسری جلد میں داراشکوہ ، اورنگزیب اور ان کے دور کے احوال وواقعات کا بیان ہے۔ انھوں نے کتاب کے پلاٹ، کہانی اور کرداروں کی پیش کش کی خوبی کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ مجھے امید ہے کہ قارئین اس کتاب کو ایک بار شروع کرنے کے بعد اختتام تک پڑھے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ اس موقعے پر انھوں نے کونسل کے ڈائریکٹر اور تمام حاضرین کا خصوصی شکریہ بھی ادا کیا۔ پروگرام میں کونسل کا اسٹاف موجود رہا۔

You may also like

Leave a Comment