Home تجزیہ بول یہ تھوڑاوقت بہت ہے! 

بول یہ تھوڑاوقت بہت ہے! 

by قندیل

 

مشرف عالم ذوقی

کب بولیں گے ؟ جب آپ کے بیٹے آپ سے چھین لئے جائیں گے ؟ جب آپ کی ملکیت پر حکومت قبضہ کر لے گی ؟ جب آپ کو در در ٹھوکریں کھانےپر مجبور کر دیا جائے گا ؟ جب آپ سے آپ کا گھر ، آپ کی زمین چھین لی جائے گی ؟ جب آپکے صحیح کاغذات کے باوجود آپکو شہریت کے حقوق سے محروم رکھا جائے گا ؟ کیوں کہ یہ حکومت کچھ بھی کر سکتی ہےـ جب آپکو ڈیٹینشن کیمپ کے بدبودار حجرے میں مردوں کی طرح پھینک دیا جائے گا ؟ جب آپ زہریلی گیس پی رہے ہونگےبیمار بچے پیدا کر رہے ہونگے ؟ جب آپ بے صبری سے موت کا انتظار کر رہے ہوں گےـ

دو آدمی اس ملک کی بساط پر خود کے تحفظ کے لئے ہندوتو کا فرمان لے کر آئے؛کیوں کہ ایک کی جان گجرات سے نوٹ بندی تک الجھی ہوئی تھی اور دوسرے پر قتل کے مقدمے چل رہے تھےـ ٢٠١٤ انتخاب کی آندھی ہندوستان کے لئے موت کا پیغام لے کر آئی،ملک کھوکھلا ہو گیا،آدھا حساب اسی وقت برابر ہو گیا جب گھر واپسی ، لو جہاد ، تین طلاق جیسے کھوکھلے نعرے کے ساتھ کھل کر مسلم نفرت کو ہوا دی گئی، ہجومی تشدد کا کھیل کھیلا گیااور ٢٠١٩ کے چھ مہینوں کے اندر معاشی طور پر جو ملک تباہ ہو چکا تھا ، چار برس کے اندر جہاں پچاس ہزار سے زیادہ کسان خودکشی کر چکے تھے ،عورتوں پر ہونے والی زیادتی نے جہاں ہندوستان کو ریپستان بنا دیا تھا ، جہاں پچھتر کروڑ جوان بے روزگاری کی دھند میں سما چکے تھے ، جہاں ضرورت اس بات کی تھی کہ ملک کے معیار زندگی پر توجہ دی جائے ، وہاں ان سب باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسری تقسیم کا نا جائز بل ایوان میں پیش کیا گیا اور ایک کٹھ پتلی صدر جمہوریہ نے اس بل پر دستخط کر کے مسلمانوں کی ہجرت کو قانون میں تبدیل کر دیاـ بابری مسجد کا ریویو پٹیشن رد کر دیا گیا، جبکہ عدلیہ کے پاس سارے ثبوت مسلمانوں کے حق میں تھےـ اس نا جائز ، لہو لہان دوسری تقسیم پر عدلیہ کا رخ کیا ہوگا ؟ کیا ہم تسلیم کر لیں کہ ہمارے حق میں نہیں ہوگا؟ عدالتیں مسلمان کے نام پر خاموش رہیں گی اور ہم لاش کی طرح سرد اور بے جان بن جاہیں گےـ

تیس کروڑ اور دس کروڑ، یہ آزادی کے وقت کے اعداد و شمار ہیں،جو مسلمان پاکستان نہیں گئے ، اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ تھی کہ ہندوستان کے قیام میں مذہب کی جگہ جمہوری قدروں کو اہمیت دی گئی تھی،تب دونوں طرف سے انسانی لاشوں سے بھری ٹرینیں گزرا کرتی تھیں، قدم قدم پر سرحد کے اس پار اور پار انسانوں کا لہو بہہ رہا تھا، اس وقت فرنگی تھے ـ اب کون ؟ دو مضبوط انسان یا دو سب سے کمزور لوگ ؟ یہ کیسا انتقام ہے مسلمانوں سے ؟ پہلی بار کوئی حکمران کھل کر مسلمانوں کے خلاف بارود اگل رہا ہے، کیا ہم واقف نہیں کہ این آر سی اور شہریت ترمیم بل ایک ہی سکے کے دو روپ ہیں، مارے جائیں گے تو مسلمان، جلائے جائیں گے تو مسلمان ، لہولہان ہونے والے مسلمان ہوں گے،ہلاک ہونے والے مسلمان ہوں گے،جب عدلیہ ، پولیس ، فوج ، بینک ، الیکشن کمیشن ، خفیہ ایجنسیاں سب ان کے پاس ہیں، تو تیس کروڑ مسلمانوں کی آبادی کو چٹکیوں میں مسلنے میں کتنا وقت لگےگا ؟ یہی آپ کی فکر ہے تو یاد رکھئے ، اب اس ملک کا ہندو بھی شانہ بہ شانہ مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہے، شہادت اب اکیلے کی نہیں ہوگی،شہادت کا جام سب مل کر پئیں گے مگر ملک کو نیلام نہیں ہونے دیں گےـ

حیرت ہے اتنی نفرت تو آر ایس ایس کے پاس بھی نہیں تھی، اتنی جرأت کا مظاہرہ تو کبھی آر ایس ایس نے بھی نہیں کیا تھا، دو خوف زدہ لوگ اس ملک کو کہاں لےکر آ گئے ؟ اور تیس کروڑ مسلمان ڈیٹینشن کیمپ میں مردوں کی طرح موت کا انتظار کریں گے ، تو اس سے بڑی بھول دوسری نہیں ہو سکتی، کیا دو ہزار چوبیس تک مسلمانوں کے خون کی گنگا بہادیں گے ؟

یہ خاموشی ٹوٹ چکی ہے، آپ اتنے خوف زدہ ہیں کہ tv پر احتجاج کو دکھانے پر پابندی لگا دی ہے،یہ شعلے اٹھے تو آسمان کی بلندیاں بھی لرز جاییں گی،صبر و تحمل کے خاموش مردوں کو جگا کر آپ نے اچھا نہیں کیا،ایوانوں سے باہر نکل کر دیکھئے،شمال مشرق میں آگ لگی ہے اور اس وقت ہندوستان کے خطے خطے میں احتجاج کے فلک شگاف نعرے گونج رہے ہیں ـ

یہ نعرے سنئے،ہم مرنے کے لئے تیار ہیں؛لیکن کیب کے لئے نہیں، جب جب بات مرنے تک کی آئی ہے ، انقلاب گلی کوچوں تک پہنچا ہے ، جب جب خون کا دریا بہا ہے ، تب تب فسطائی طاقتوں کو شکست نصیب ہوئی ہےـ

یہ مہذب صدی ڈراکیولا کے لئے نہیں ہے اور انسانی لاشوں سے گزرنے والی دوسری تقسیم ملک برداشت نہیں کرے گاـ

You may also like

Leave a Comment