ممبئی :مجھے اس مجموعے (بوئے دوست )میں سب سے اچھی بات یہ لگی کہ اس میں اکثر وہ اشعار ہیں جو شاعر کے اپنے محسوسات ہیں ،اس کی جو انفرادی کیفیت ہے یعنی جو کچھ وہ محسوس کرتا ہے ،دنیا کے بارے میں یا عشق کے بارے میں ،یا باطنی دنیا کے بارے میں اس کے جو تجربات ہیں ،اس کا بیان انھوں نے حتی الامکان بہت عمدہ طریقے سے کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار شعبہ اردو جامعہ ملیہ کے صدر پروفیسر احمد محفوط نے عبداللہ ندیم کے پہلے شعری مجموعے کی رسم اجرا کے موقع پراردو چینل اور شعبہ اردو ممبئی یونی ورسٹی کے زیر اہتمام منعقد جشن اردو میں کیا ۔
پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ عبداللہ ندیم کے بہت سے شعروں کو پڑھ کر آدمی فوراً یہ کہے گا کہ ایسے اشعار وہی شخص کہہ سکتا ہے جس کا مزاج شاعری خاص طور پر غزل گوئی کا ہو ۔غزل کی ہماری روایت میں بھی بہت رنگ ہیں لیکن جو بنیادی اسلوب مانا گیا ہے اور جسے اہمیت دی گئی ہے وہ یہ کہ غزل کے اشعار میں ذاتی اور انفرادی لہجہ یا آہنگ ہوجو ان کے یہاں موجودہے ۔
پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ ان کی غزلوں کو پڑھ کر کہیں سے یہ نہیں لگتا کہ وہ دنیا کے بارے میں کوئی تبصرہ کررہے ہیں یا کوئی رد عمل ظاہر کررہے ہیں ،بلکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل پر جو کچھ گزر رہا ہے اس کابیان ہے ۔ پروفسراحمد محفوظ نے مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اگلا مجموعہ ہمارے لیے اور بھی اہمیت کا حامل ہوگا ۔
ڈاکٹرشاہ عالم (شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ )نے کہا کہ عبداللہ ندیم تازہ کار شاعر ہیں ۔انھوں نے نئے کہنے والوں کے لیے امید پیدا کی ہے ۔ ڈاکٹرشہیم خاں (مانو حیدر اًباد)نے کہا کہ عبداللہ ندیم کے اشعار کی روانی قابل داد ہے،انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’بوے دوست‘ میں زبان کا خلاقانہ استعمال بھی قاری کے لیے توجہ کا باعث ہے ۔ اس موقعے پر ڈاکٹر پرویز احمد نے کہا کہ عبداللہ ندیم کی شاعری کا عشقیہ پہلو کلاسیکی عہد کی یاد دلاتا ہے۔ڈاکٹرعمیر منظر نے کہا کہ عبداللہ ندیم کی غزلیں پرکشش اسلوب کی حامل ہیں۔ان کی اس کشش کا راز ان کی سادگی ہے ۔
اس موقعے پر ڈاکٹر قمر صدیقی ،ڈاکٹر ذاکر خاں ذاکر،حافظ محمد ولی خاں اور دیگر احباب نےمبارک بادپیش کی۔نوجوان شاعر عبید حارث نے عبداللہ ندیم کو ان کی تصویر سے مزین ایک پوٹریٹ نذر کیا ۔ واضح رہے کہ عبداللہ ندیم علامہ شبلی کے مشہور شاگرد اور ممتاز ادیب و شاعر مولانا عبدالسلام ندوی کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔