Home تجزیہ بی جے پی کے لگژری دفاتر، کوروناکاقہر اورپی ایم کیئرزفنڈ

بی جے پی کے لگژری دفاتر، کوروناکاقہر اورپی ایم کیئرزفنڈ

by قندیل

کرشن کانت جھا
ترجمہ: محمدتوصیف
بی جے پی نے نوٹ بندی کے بعد محض دو سال کے اندر چھ سو سے زائد نئی عالیشان پارٹی آفس کی عمارتیں تعمیر کیں۔ پورے ملک کے ایک سو پینتیس کروڑ لوگوں کے لئے کتنے ہسپتال بنے؟ بچوں کے لئے کتنے اسکول بنے؟ نوجوانوں کے لئے کتنی یونیورسٹیز بنیں؟یہ سوال کرنے والوں کو ‘دیش دروہی’ کی صف میں ڈال دیا گیا تھا۔
آج کوئی بھی یہ صاف صاف نہیں بتا پا رہا ہے کہ ملک میں نہ تو اچھے ہسپتال ہیں، نہ ان ہسپتالوں میں معقول انتظامات۔ دیہی ہندوستان کی تین فیصد آبادی کو بھی اگر ہسپتال میں بستر کی ضرورت پڑ گئی تو وہ دستیاب نہیں ہے۔

بی جے پی کے نئے دفتروں میں دہلی کی وہ عالیشان عمارت بھی شامل ہے جو پارٹی کا نیا ہیڈ کوارٹر ہے۔ تب رویش کمار نے بی جے پی کو ‘بہومنزلہ جنتا پارٹی’ لکھا تھا۔ میڈیا میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔ نہ ہی یہ سوال کرنا مناسب سمجھا گیا کہ ملک بھر میں سیکڑوں عالیشان عمارتیں کیسے بنوائی گئیں؟ اتنی رقم کہاں سے آئی؟ نہ یہ سوال پوچھا گیا کہ اپنے لئے دفتر تو بنوا لیےگئے لیکن ہسپتال کتنے بنے؟
یہ اسی وقت کی بات ہے جب اتر پردیش کے گورکھ پور میں آکسیجن کی کمی کے سبب درجنوں بچے ہلاک ہو گئے تھے۔

رویش کمار نے ۳۰ مارچ ۲۰۱۹ کو لکھا تھا کہ بی جے پی نے ۶؍اپریل کو اتر پردیش میں ۵۱ نئے دفتروں کا افتتاح کیا ہے۔ کل ۷۱ ضلعوں میں نئے دفتر بنائے گئے۔ این ڈی ٹی وی نے پرائم ٹائم میں فیض آباد، متھرا، شراوستی، بلند شہر، میرٹھ، اور فیروز آباد کے نئے دفتروں کی تصویریں بھی دکھائی تھیں ۔ سارے دفتر نئی خریدی گئی زمینوں پر بنائے گئے تھے۔
‘بھویہ رام مندر’ بنانے کے نعروں کے بیچ ‘بھویہ پارٹی آفس’ بنا دیے گئے۔ مندر آئندہ انتخاب کا انتظار کر رہا ہے۔

۲۰۱۵؍ میں ‘لائیو منٹ’ کی ایک رپورٹ میں یہ منکشف ہوا کہ بی جے پی دو سال کے اندر اندر ۶۳۰ ضلعوں میں نئے دفتر بنائےگی۔ اب تک ۲۸۰ ضلعوں میں ہی دفتر تھے۔ باقی کرایے کے کمروں میں چل رہے تھے، یا نہیں تھے۔ محض دو سال میں اس جادوئی ہدف کو حاصل کر لیا گیا۔ اور ۶۳۰ نئے دفتر بن کر تیار ہو گئے۔
۲۰۱۴؍ کے عام انتخاب میں ‘ایمس’ جیسے کئی ہسپتال کا وعدہ تھا، آج تک وہ وعدہ ہی ہے۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ گزشتہ چھ سالوں میں کہیں، کسی قومی سطح کے ہسپتال کی شروعات بھی ہوئی ہو۔

” دہلی میں جب بھاجپا کا صدر دفتر بنا تو کسی کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس پر کتنا پیسہ خرچ کیا گیا۔ دو ایکڑ زمین پر سات منزلہ دفتر بن کر تیار ہو گیا اور اسے اندر سے کسی نے دیکھا تک نہیں۔ مطلب میڈیا نے دفتر کے اندر کی شان و شوکت کو عام لوگوں اور بی جے پی کے ہی کارکنوں کو دکھایا تک نہیں..! دہلی کےاس عالیشان دفتر میں ۳ منزلہ عمارتوں والے مزید دو بلاک ہیں۔ کسی چینل نے اس کی رپورٹنگ نہیں کی۔ اجازت ہی نہیں ملی ہوگی۔”

"مدھیہ پردیش کے ۵۱؍ اضلاع میں نئے دفتر بنے۔ چھتیس گڑھ میں ۲۷ اضلاع میں۔ صرف تین صوبوں میں ہی نئے عالیشان پارٹی آفس کی تعداد سو سے زائد ہے۔ در اصل بی جے پی کے اندر ایک قسم کی ‘ریئل اسٹیٹ کمپنی’ چل رہی ہے۔ اور یہی چیز ہے جو بی جے پی کے کارکنوں اور حامیوں کو جاننا چاہئے۔ نوٹ بندی سے ٹھیک پہلے بی جے پی نے ملک بھر کے لاتعداد اضلاع میں زمینیں خریدی تھیں ۔ بہار میں کئی مقامات پر تو نقد پیسوں پر زمینیں حاصل کی گئیں۔”
کیا یہ جاننے لائق نہیں ہے کہ آخر بی جے پی کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے؟ یہ پارٹی ملک کے مسائل نمٹانے کے لئے کبھی آر بی آئی سے وصول کرتی ہے، تو کبھی عوام سے۔ ملک میں کورونا کی مصیبت آئی ہے تو پردھان منتری نے ‘راشٹریہ راحت کوش’ ہونے کے باوجود ایک نیا کوش یعنی اکاؤنٹ بنا دیا ہے، اور اس میں پیسہ ڈالنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ جبکہ ابتدائی ضروری انتظامات تک نہیں کئے گئے ہیں۔ خود ڈاکٹروں نے بنیادی انتظامات میں کمی کی شکایت کی ہے۔”

اگر سرکار کا خزانہ خالی ہی ہے تو سرکار میں بیٹھی پارٹی نے سیکڑوں دفاتر کیسے تعمیر کر لئے؟ یہ پیسے کہاں سے آئے؟ دفتر بنے تو بنے، پارٹی نے کتنے صوبوں میں ہسپتال بنوایا؟ کتنے اسکول بنے؟ کتنی یونیورسٹیز بنیں؟
جہاں ایک ہسپتال بنانا محال ہے وہاں چھ سو نئے دفاتر کیسے بنے ہونگے؟ آپ کہیں گے کہ کارپوریٹ چندے کا نوے فیصدی حصہ بی جے پی کو ہی ملا، تو آپ کو ہر مہینے ہونے والی درجنوں ریلیوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ پچاس پچاس کروڑ کی ریلیاں موضوع بحث رہی ہیں۔
اس بابت میڈیا میں نہ کے برابر چھپا۔ رویش کمار نے لکھا تھا: ” آپ کسی ایسی پارٹی کو جانتے ہیں جس نےدو سال سے کم کی مدت میں سینکڑوں نئے دفاتر بنا لئے ہوں؟ ہندوستان میں ایک سیاسی جماعت ان دس سالوں میں کئی سو عالیشان پارٹی آفس بنا رہی تھی، اس کی نہ تو کوئی خبر ہے نہ کوئی وضاحت۔ کئی سو دفتروں کی تصاویر ایک جگہ رکھ کر دیکھئے، آپ کو سیاست کا نیا چہرہ نہیں بلکہ وہ چہرہ دکھائی دےگا جس کے متعلق آپ کم جانتے ہیں۔” (کم کیا، جانتے ہی نہیں ہیں۔)

عوام کو ‘سب کا ساتھ سب کا وکاس’ کا نعرہ دیا گیا۔ لیکن یہاں ‘ سب کا ساتھ ہمارا وکاس’ ہو رہا ہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment