ترجمہ:محمد عبدالمؤمن
چند ماہ قبل بھوپال میں بی جے پی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ان کی پارٹی کی جانب سے غریب مسلمانوں کو فراہم کردہ سیاسی قربت کو اعلی برادری کے مسلمانوں کے ذریعہ غریب و پسماندہ مسلمانوں کے سنگین استحصال اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے ووٹ بینک والی سیاست کے بیانیہ سے تقویت ملے گی۔ وزیر اعظم کی اس تقریر اور بی جے پی کے حالیہ دنوں میں پسماندہ مسلمانوں کو اپنانے کے واقعات نے ہندوستانی مسلمانوں میں ذات پات کی بحث کو جلا بخشا ہے۔ درآں حالیکہ ہندوستانی مسلمانوں میں ذات پات کی موجودگی کی نفی نہیں کی جا سکتی، البتہ ان ذاتوں کے مابین سماجی و معاشی نا برابری کی سنگینی ہندو قوم کے بالمقابل برائے نام ہے۔
ہمارے ملک میں مسلمانوں کی وسیع تر درجہ بندی تین ذاتوں میں کی جاسکتی ہے- اشراف، اجلاف اور ارذال – جن کا تقابل بالترتیب اعلی ذاتوں، دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) اور دلتوں سے کیا جاسکتا ہے۔ بحیثیت مجموعی دلت مسلمان خود کو سروے رپورٹوں میں درج فہرست طبقات (ایس سی) کے طور پر متعارف نہیں کراتے ہیں کیوں کہ انہیں ایس سی رزرویشن سے باہر رکھا گیا ہے۔ ان کی ذاتیں عمومی طور پر او بی سی فہرست میں شمار کی جاتی ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں میں او بی سی ساٹھ فی صد، اعلی ذاتیں 38 فی صد اورایس سی / ایس ٹی 2 فی صد پائے جاتے ہیں۔ یہ ساری برادریاں مختلف غیر مرکوزجغرافیائی علاقوں میں آباد ہیں۔ مثال کے طور پر اتر پردیش اور بہار کے 76 فی صد مسلمان پسماندہ ہیں جن میں او بی سی اور دلت شامل ہیں۔
ہم نے حالیہ دنوں میں جاری کردہ AIDIS (Survey Investment and Debt India All) اور PLFS (Survey Force Labour Periodic )سروے رپورٹس سے حاصل شدہ کثیر جہتی متغیرات (variables multidimensional )جیسے دولت کے تصرف، نوکریوں تک دسترس، اور تعلیم کی حصولیابی کو استعمال کرتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں میں موجود سماجی عدم مساوات کا جائزہ لیا اور اس کا موازنہ ہندو آبادی میں موجود سماجی عدم مساوات کی صورتحال سے کیا۔
2019 میں ہندو اعلی ذاتوں کی فی کس دولت کمانے کی شرح 8,64,984 روپیے تھی جبکہ ہندو اوبی سی میں یہ شرح 4,27,149 روپیے اور دلتوں میں 2,28,437 روپیے تھی۔ مسلمانوں میں اعلی ذاتوں کی فی کس دولت کمانے کی شرح 3,43,014 روپیے اور مسلم او بی سی میں 3,10,922 روپیے تھی۔ معلوم یہ ہوا کہ اوسطا ہندو اعلی ذاتوں کی دولت دلتوں سے تین گنا زیادہ تھی جبکہ یہ شرح او بی سی کی دولت سے دوگنی تھی۔ مسلمانوں میں یہ فرق صرف دس فی صدی کا ہے۔ بہار، جہاں پسماندہ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی رہتی ہے، مسلم ذاتوں کے مابین دولت کی نا برابری کا فرق بالکل معمولی ہے، صرف دو فی صدی، جبکہ مدھیہ پردیش میں پسماندہ مسلمانوں کی دولت کمانے کی صورتحال اشراف سے 14 فی صد بہتر ہے۔ اس کے برعکس اتر پردیش میں (جہاں ابھی بھی زمینداراشرافیہ کے باقیات موجود ہیں)یہ فرق 43 فی صد ہے۔ جبکہ اگر ہم یوپی میں ہندو ذاتوں میں دولت کے فرق کا موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندو اعلی ذاتیں او بی سی سے دوگنی اور دلتوں سے تین گنی زیادہ دولت کی مالک ہیں۔
یہی رجحان اخراجات کے معاملے میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ 22-2021 کے اعداد و شمار کے مطابق مسلم اعلی ذاتوں میں ماہانہ فی کس اخراجات 2,180 روپیے تھے اور اس کے بالمقابل پسماندہ مسلمانوں میں یہ شرح 2,151 روپیے تھی، صرف 1.4 اعشاریہ کا معمولی فرق۔ ہندو ذاتوں میں متعلقہ اعداد و شمار قدرے مختلف تھے: 3,321 روپیے کے ساتھ اعلی ذاتیں، او بی سی ( 2,180 روپیے)کے بالمقابل 40 فی صدی اور دلتوں ( 2,122 روپیے) کے مقابلے میں57 فی صد زیادہ خرچ کررہی تھیں۔ یوپی کے مسلمانوں میں یہ فرق کافی کم تھا، صرف 6.2 فی صد؛ اور بہار میں یہ فرق 10 فی صد کا تھا۔ جبکہ یہ فرق یو پی کی ہندو اعلی ذاتوں اور او بی سی کے درمیان 48 فی صد اور دلتوں کے بیچ 60 فی صد رہا ہے۔ بہار میں یہ فرق بالترتیب 27 اور 48 فی صد تھا۔
تعلیم کی حصولیابی کے اعتبار سے بھی اشراف اور پسماندہ برادریوں کے مابین کوئی قابل ذکر فرق نہیں پایا جاتا ہے۔ سال 22-2021 میں اعلی تعلیم حاصل کررہے اعلی ذات کے مسلم نوجوان )18 – 23 سال ) کا فی صد 19.8 تھا جو کہ پسماندہ نوجوانوں کے برابر تھا۔ اس کے برعکس، ہندو اعلی ذات کے نوجوانوں میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا فی صد 46.5 تھا جبکہ اس کے اعداد و شمار او بی سی میں 36 اور دلتوں میں 26 فی صد تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مدھیہ پردیش اور یو پی میں پسماندہ مسلمان اپنی ہم منصب اعلی برادریوں سے بہتر حالت میں ہیں۔ درحقیقت، یو پی میں مسلمانوں کی اعلی برادریوں کے تعلیمی اندراج میں منفی ترقی دیکھی جارہی ہے۔ نتیجتا، 22-2021 میں ان کا اندراج 12 فی صد تک گرگیا تھا جو کہ 12-2011 میں 14 فی صد تھا۔ ہمارے علم کے مطابق یہ صورتحال ہندوستانی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی کیونکہ اب تک ہر سماجی گروہ کو وقت گزرنے کے ساتھ اعلی تعلیم کے بہتر مواقع حاصل ہوئے ہیں۔
مسلمانوں کی تعلیم تک کم رسائی کا اثر باقاعدہ نوکریوں کے حصول میں ہورہا ہے۔ تنخواہ دار ملازمین کی تعداد مسلمانوں میں 19.3 فی صد ہے جبکہ اس کے مقابلے ہندووں میں 21.5 فی صد ہے۔ حالانکہ مسلم اعلی برادریوں اور پسماندہ آبادی میں اس معاملے میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، ہندو اعلی ذاتوں میں تنخواہ دار ملازمین کی تعداد 33 فی صد ہے، او بی سی میں 19.9 فی صد اور دلتوں میں 21.5 فی صد ہے۔ یوپی، بہار، راجستھان، مہاراشٹر، آندھراپردیش، اور کرناٹکا جیسی ریاستوں میں پسماندہ مسلمانوں کی حالت اعلی برادریوں سے بہتر ہے۔ جب کہ ہندو اعلی ذاتیں آج بھی اچھی نوکریوں میں اپنا دبدبہ رکھتی ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں میں ذات اور برادری کے خطوط پر کوئی قابل ذکر امتیاز نہیں دیکھا جاتا ہے، جب کہ ہندو ایک انتہائی غیر مساوی کمیونیٹی ہیں جن میں صرف ان کی اعلی ذاتیں نفع میں ہیں اور مسلمان اجتماعی محرومی کا شکار ہیں۔ ان سب کے باوجود بی جے پی کے قائدین، پسماندہ مسلمانوں کو قریب کرکے ‘تقسیم کرو اور حکومت کرو’ کی پالیسی پر عمل کرنا چاہتے ہیں، ٹھیک ویسے ہی جیسا کہ انہوں نے شیعہ اور بوہرا سماج کو ساتھ ملاکر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ مسلمانوں کے درمیان موجود ناقابل انکار طبقاتی تفریق(جوگرچہ ہندوؤں کے طبقاتی امتیاز کے مقابلے میں ناقابل ذکر ہے) کا فائدہ اٹھائیں گے۔ یوپی میں حالیہ لوکل باڈی انتخابات میں بی جے پی نے 395 مسلم امیدوار کھڑے کیے تھے،جن میں 61 نے جیت درج کی تھی۔ 395 میں سے تین چوتھائی امیدوار پسماندہ برادریوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے برعکس گزشتہ لوکل باڈی انتخابات میں پارٹی نے صرف 180 امیدوار کھڑے کیے تھے جن میں صرف ایک نے جیت درج کی تھی۔
کلیاسرن، مدراس انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اسٹڈیز، چنئی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، جیفریلوٹ CNRS/Po Sciences-CERI، پیرس میں سینئر ریسرچ فیلو ، ساتھ ہی ساتھ انڈین پالیٹیکس اینڈ سوشیالوجی، کنگس انڈیا انسٹیٹیوٹ، لندن میں پروفیسر ہیں۔
(اصل مضمون ۲۴ اگست ۲۰۲۳ کو روزنا مہ انڈین ایکسپریس میں شائع ہوا ہے)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)