سوال :
ہمارے ملک میں مشترکہ خاندانی نظام عام ہے ۔ باپ کے کئی لڑکے ہوں تو وہ شادی کے بعد بھی ساتھ ہی رہتے ہیں ۔ کبھی ایسا ہوتاہے کہ کسی شخص کا بزنس باپ یا بھائیوں کے ساتھ مشترکہ ہوتا ہے ۔ کبھی بزنس تو الگ ہوتا ہے ، لیکن وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہوتا ہے ، کبھی باپ کا انتقال ہوجاتا ہے اور چھوٹے بھائی بہن زیرِ کفالت ہوتے ہیں ، کبھی کوئی عذر نہیں ہوتا ، لیکن ماں باپ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہنا پسند کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے تمام بیٹے ان کے ساتھ رہیں ۔ ایسے میں اگر کوئی لڑکی شادی کے بعد الگ گھر کا مطالبہ کرے تو اس پر ناگواری ظاہر کی جاتی ہے اوراس کا مطالبہ پورا نہیں کیا جاتا ۔
سوال یہ ہے کہ کیا لڑکی کا الگ گھر کا مطالبہ کرنا شرعی اعتبار سے درست نہیں ہے ؟ کیا بیوی کا یہ مطالبہ پورا نہ کرنا اس کی حق تلفی نہیں ہے؟ اگر کوئی بہو بیٹا الگ گھر کا مطالبہ کرے تو شریعت اس کا کیا حل تجویز کرتی ہے؟
جواب :
نکاح کے بعد بیوی کے جو حقوق شوہر پر عائد ہوتے ہیں ان میں سے ایک ’سُکنیٰ‘ یعنی رہائش کا حق ہے ۔ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیوی کو معقول ، اطمینان بخش اور پُرسکون رہائش فراہم کرے ۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
أَسْکِنُوھُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنتُم مِّن وُجْدِکُمْ وَلَا تُضَارُّوھُنَّ لِتُضَیِّقُوا عَلَیْھِنَّ(الطلاق : 6)
” ان کو (زمانۂ عدّت میں) اُسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو ، جیسی کچھ بھی جگہ تمھیں میسّر ہو اور انھیں تنگ کرنے کے لیے ان کو نہ ستاؤ ۔ “
اس آیت میں ان عورتوں کا ذکر ہے جنھیں طلاق دے دی گئی ہو کہ انھیں زمانۂ عدّت میں بھی رہائش فراہم کی جائے ۔ اس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ نکاح میں رہتے ہوئے عورت بہ درجۂ اولیٰ رہائش کی مستحق ہے ۔
اسی طرح بیویوں کے تعلق سے شوہروں کو حکم دیا گیا ہے :
وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوفِ(النساء : 19)
” اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی گزارو ۔ “
بھلے طریقے سے زندگی گزارنے میں معقول رہائش فراہم کرنا بھی شامل ہے ۔یہ رہائش پورے خاندان کے لیے مشترکہ نہ ہو ، بلکہ شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ بیوی کے لیے علیٰحدہ رہائش کا انتظام کیا جائے ، تاکہ وہ اس میں آزادی سے رہ سکے ، اپنے سامان کی حفاظت کرسکے ، حجاب کے تقاضے پورے ہوں ، شوہر کے لیے زیب و زینت اختیار کرسکے اور زوجین کو خلوت کے پورے مواقع حاصل رہیں ۔
بیوی کے لیے علیٰحدہ رہائش شوہر کے گھروالوں سے دوٗر یا نزدیک کے کسی دوسرے مکان میں فراہم کی جاسکتی ہے ، یا ایک ہی مکان کا کوئی حصہ اس کے لیے خاص کیا جاسکتا ہے ۔ شوہر کی حیثیت و وسعت ، ضرورت اور حالات کے مطابق دونوں میں سے کوئی صورت اختیار کی جاسکتی ہے ۔ اگر شوہر کے لیے معاشی تنگی کی وجہ سے بیوی کو الگ مستقل گھر فراہم کرنا ممکن نہ ہو ، یا ممکن تو ہو ، لیکن ماں باپ ضعیف اور اس کے سہارے کے محتاج ہوں ، یا چھوٹے بھائی بہن اس کے زیرِ کفالت ہوں اور ان سے الگ رہنا اس کے لیے ممکن نہ ہو ، اس بنا پر بیوی کے لیے الگ گھر کا انتظام کرنے کے بجائے وہ والدین کے گھر ہی میں بیوی کو رکھے ، البتہ اس کے لیے گھر کا ایک حصہ خاص کردے ، توبیوی کا حق ادا ہوجاتا ہے ۔ اس صورت میں اس کے لیے الگ گھر کا مطالبہ کرنا درست نہ ہوگا ۔ مشہور فقیہ علامہ کاسانیؒ نے لکھا ہے :
ولو أراد الزوج أن یسکنھا مع ضرّتھا أو مع أحمائھا کأم الزوج واخته و بنته من غیرھا و أقاربه ، فأبت ذلک علیه ، فان علیه أن یسکنها منزلاً منفرداً ، ولکن لو أسکنها فی بیت من الدار ، وجعل لهذا البیت غِلقاً علی حدۃ کفاها ذلک ، ولیس لها أن تطالبه بمسکنٍ آخر ، لأن الضرر بالخوف علی المتاع وعدم التمکّن من الاستمتاع قد زال (بدائع الصنائع ، الکاسانی ، جلد : 4 ،صفحہ : 23)
” اگر شوہر بیوی کو اس کی سوکن یا سسرالی رشتہ داروں ، مثلاً ساس ، نند ، دوسری بیوی سے ہونے والی بیٹی یا اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رکھنا چاہے اور بیوی اس پر تیار نہ ہو تو شوہر کے لیے ضروری ہے کہ اس کے لیے دوسری علیٰحدہ رہائش گاہ فراہم کرے ۔ لیکن اگر وہ اسے گھر کے ایک کمرے میں رکھے اور اس کمرے کے تالے کی کنجی اسے دے دے تو یہ اس کے لیے کفایت کرے گا ۔ اس صورت میں اسے دوسرے گھر کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہوگا ۔ اس لیے کہ ایسا کرنے سے عورت کا سامان ضائع ہونے اور شوہر کے ساتھ آزادانہ خلوت نہ ہوپانے کا اندیشہ ختم ہوجائے گا۔“
ہمارے ملک میں عموماً مشترکہ خاندان کا رواج ہے ۔ ماں باپ کے کئی لڑکے ہوں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ سب یکجا رہیں ۔ نکاح کے بعد بھی انھیں ساتھ رکھنے پر اصرار کیا جاتاہے اور کسی لڑکے کے علیٰحدہ رہائش اختیار کرنے کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے ۔ یہ درست رویّہ نہیں ہے ۔ اس کی وجہ سے بعض معاشرتی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ بسا اوقات ایک دوسرے سے شکایات اور لڑائی جھگڑے کی نوبت آجاتی ہے ۔ اس لیے بلا کسی حقیقی ضرورت کے ، اس طرزِ رہائش پر اصرار نہیں کرنا چاہیے ۔
دوسری طرف آج کل کی لڑکیاں رشتہ داروں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں ۔ وہ ساس سسر کی خدمت کرنے اور نندوں کے کچھ کام کردینے کو اپنے لیے عار سمجھتی ہیں ۔ ساس کی باتیں ، چاہے ان کی تربیت کے لیے ہوں ، انھیں کڑوی لگتی ہیں ۔ بھرے خاندان میں رہنے سے انھیں اپنی آزادی سلب ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ، اس لیے وہ علیٰحدہ مکان حاصل کرنا اپنا شرعی حق سمجھتی ہیں ۔ چنانچہ وہ حالات اور پیچیدگیوں کو بالکل نظر انداز کرکے اس پر اصرار کرتی ہیں اور شوہروں پر دباؤ ڈالتی ہیں کہ وہ ان کے لیے علیٰحدہ رہائش فراہم کریں ۔ کبھی شوہر کی کمائی کم اور اس کا ہاتھ تنگ ہوتا ہے ، اس لیے وہ علیٰحدہ مکان نہیں فراہم کرسکتا ۔ کبھی وہ ماں باپ کا اکلوتا ہوتا ہے اور بڑھاپے میں انھیں ساتھ رکھنا اس کی مجبوری ہوتی ہے ۔ کبھی وہ گھر کا بڑا ہوتا ہے ، باپ کا انتقال ہوچکا ہوتا ہے اور چھوٹے بھائی بہنوں کی کفالت کرنا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ ان صورتوں میں بیوی کو الگ لے کر رہنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا ۔ چنانچہ بیوی کے اصرار کے نتیجے میں ازدواجی زندگی تلخ ہوجاتی ہے اور افرادِ خاندان کے درمیان خوش گوار تعلقات باقی نہیں رہ پاتے ۔
خاندان مشترکہ ہو یا جداگانہ ، اسلامی شریعت میں ان میں سے کوئی صورت متعین نہیں کی گئی ہے ۔ ہر ایک میں کچھ خرابیاں اور مفاسد ہیں اور کچھ فائدے ۔ شریعت چاہتی ہے کہ جو صورت بھی اختیار کی جائے ، اس کی خرابیوں سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے ۔ شریعت میں عورت کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے ۔ ازدواجی زندگی میں خلوت (Privacy) حاصل ہونا بھی اس کا بنیادی حق ہے ۔ کسی بھی صورت میں اسے اس سے محروم نہیں کیا جا سکتا ۔
اسلام میں صلہ رحمی کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی بڑی تاکید کی گئی ہے ۔ نکاح کے نتیجے میں صرف زوجین کے درمیان قریبی رشتے نہیں قائم ہوتے ، بلکہ دو خاندان جڑتے ہیں اور ان کے درمیان روابط مستحکم ہوتے ہیں ۔ اگر شوہر اور بیوی دونوں اپنے سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کا جذبہ اپنے دلوں میں پیدا کریں اور ان کے ساتھ احترام اور محبت کے ساتھ پیش آئیں تو ان کے دل جیتے جاسکتے ہیں اور وہ صورتِ حال ختم ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے علیٰحدہ مکان کے مطالبے سر ابھارنے لگتے ہیں ۔