ریسرچ اسکالر، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئ دہلی
"بستر پر اگا جسم” نوجوان ناقد اور افسانہ نگار دائم محمد انصاری کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔ اس سے قبل فکشن تنقید سے متعلق تحریروں پر مشتمل ان کی کتاب "دریافت اور بازیافت” بھی منظر عام پر آ چکی ہے۔ افسانوی مجموعے کا عنوان جتنا خوبصورت ہے اتنا ہی پرکشش اس کا ٹائٹل بھی ہے۔ پہلی نظر میں ہی تجسس پیدا ہوتا ہے کہ "بستر پر اگے جسم” کی کیا شکل و صورت ہو سکتی ہے۔ ویسے یہ ٹائٹل مجھے رشید امجد کے شاہکار افسانہ "گملے میں اگا ہوا شہر” کی بھی یاد دلاتا ہے لیکن موضوع اور تخلیقی رویے کے اعتبار سے ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ بستر اور جسم کا تعلق نیا نہیں۔ بستر سے متعلق محاوروں میں بھی کہیں نہ کہیں بستر کا رشتہ جسم کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ مثلاً بستر گرم کرنا، بستر گیلا کرنا، بستر بازی کرنا، بسترباندھنا، بوریا بستر گول کرنا، بستر سے پہلو نہ لگنا وغیرہ۔ لیکن یہاں بستر پر کسی جسم کے اگنے کا پہلی بار انکشاف ہوتا ہے۔ بطور قاری مجھے اس جسم سے واقفیت حاصل کرنے کا تجسس ہوا اور میں نے سب سے پہلے مجموعے کی اسی کہانی کو پڑھنا شروع کیا۔
زبان و بیان کی دلکشی نے خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔ دائم انصاری صاف و شفاف نثر لکھنے پر قادر ہیں اور فکشن کی باریکیوں سے واقف ہیں۔ جزئیات نگاری میں ان کی رسائی اوسط درجے کے تخلیق کاروں سے بلند ہے۔ وہ سامنے کی چیزوں کو بھی بڑی فن کاری اور ٹھہراؤ کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ اس کی عمدہ مثالیں کہانی میں موجود وہ مقامات ہیں جہاں بچی کے دودھ گرم کرنے یا اس کے پیٹ درد کا بیان ہوا ہے۔ زبان و اسلوب کی کشش پوری کہانی میں موجود ہے۔ کہانی مکمل ہوتی ہے اور امید سے جلدی اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہے۔ کہانی کا اسلوب ایمائیت اور ابہام کی باریکیوں سے مزین ہے۔
اس کا آغاز بستر اور جسم کے بیان سے ہوتا ہے اور بستر پر آخری سانس کے ساتھ ہی اس کا اختتام بھی ہو جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں نے اس جسم کو کیسا پایا جو بستر پر اگا ہے؟ میری ہی طرح آپ کے ذہن میں بھی کئی سوال پیدا ہو رہے ہوں گے۔ کیا واقعی کوئی جسم بستر پر اگ سکتا ہے؟ اگر ہاں تو اس کی نوعیت کیا ہوگی؟ بستر کا ذکر ہے تو سیکس کا ذکر ضرور ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ۔ میرے بھی ذہن میں اسی قسم کے سوالات تھے۔ لیکن کہانی کے مطالعہ کے بعد اندازہ ہوا کہ متن ہم سے کچھ اور کہہ رہا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جسم کا بستر سے کوئی تعلق نہیں۔ تعلق ہے مگر مختلف نوعیت کا۔ اس کی کئی جہات ہیں۔ ذہن میں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ اور جوابات اتنے مختلف ہیں کہ کسی سوال کا حتمی اور تشفی بخش جواب نظر نہیں آتا۔ افسانہ نگار نے شعوری یا غیر شعوری طور پر متن کو مختلف جہات کے حوالے کر دیا ہے۔ ممکن ہے تخلیق کار کے ذہن میں اس کی کوئی ایک واضح شکل موجود ہو، لیکن میری نظر میں اس کہانی کی متعدد جہات ہیں، جو ٹھہر کر غور کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔
افسانے کا سب سے واضح اور نسبتاً آسان پہلو یہ ہے کہ اس میں ایک معصوم لڑکی کی کہانی بیان ہوئی ہے، جو اپنی ایک غلطی کے سبب بڑا نقصان اٹھاتی ہے اور کسی سے اس کا اظہار بھی نہیں کر پاتی۔ گویا ایک شرمناک حادثہ کے تناظر میں بچی کی نفسیات کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسے ہم Parental Terrorism کا اثر بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن افسانے میں بچی کی ماں جس طرح ایک آواز پر اس کے پاس دوڑ کر جاتی ہے، یا اس کا باپ اہتمام کے ساتھ دونوں بہنوں کو بائک پر بٹھا کر شادی کے پروگرام میں پہنچتا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا سبب والدین سے حد درجہ خائف ہونا نہیں، بلکہ بچی کی اپنی نفسیات کا دخل ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ بچی کے ساتھ جس قسم کا حادثہ پیش آیا ہے (جسے ہم Brutal Gang Rape کہیں گے) اس کے اظہار کے لیے زبان کھولنا بھی ضروری نہیں۔ لیکن کہانی میں ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور ماں باپ پوری طرح اس حادثے سے غافل رہتے ہیں۔
افسانے میں موجود کہانی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس میں ایک ایسے بے حس اور بے غیرت خاندان کی کہانی بیان ہوئی ہے جس کے والدین اپنی بچی سے پیشہ کراتے ہیں۔ لیکن غور کرنے پر متن سے اس زاویے کے بھی نقوش واضح نہیں ہوتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر والدین اپنی بچی سے پیشہ کراتے ہیں تو ماں اس کے پیٹ درد اور شدید تکلیف کی کیفیت میں یہ ہرگز نہ کہتی کہ نقصان دہ چیزیں کیوں کھا لیتی ہے بیٹی؟ کیوں کہ اسے حقیقت کا علم ہوتا اور وہ پیشہ کی لالچ میں بچی کی جان ہلاکت میں ہرگز نہ ڈالتی۔ معلوم ہوا کہ کہانی سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی غیر تسلی بخش ہے۔
افسانے کا تیسرا رخ یہ ہے کہ یہ کہانی ایک معصوم اور کم عمر بچی کی عصمت دری کی کہانی ہے۔ یہ نقطۂ نظر کہانی کے ٹائٹل سے بھی زیادہ قریب ہے اور افسانے کے ابتدائی جملے "جب آخری مرد نے بھی خود کو اس کے جسم سے اٹھا لیا تب اس نے ایک جھرجھری سی لی اور اطمینان سے اپنی آنکھیں بند کرکے بائیں جانب کروٹ لی” سے بھی ذہن اسی جانب مائل ہوتا ہے۔ لیکن ایسی صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لڑکی کے ساتھ یہ حادثہ کب اور کہاں پیش آیا؟ کہانی کے پلاٹ کے مطابق یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب لڑکی اپنے والد اور بہن کے ساتھ رات کی شادی کے پروگرام میں جاتی ہے اور وہاں سے والد کی نظریں بچا کر پاس کے ایک سنسان اور تالاب والی جگہ پر چلی جاتی ہے۔ جس کے ارد گرد صرف جھاڑیاں اور اندھیری جھوپڑیاں تھیں۔ وہیں اس کے سر پر پیچھے سے ضرب پڑتی ہے اور وہ بے ہوش ہو کر گر جاتی ہے۔ ایسی صورت میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انھیں جھوپڑی میں رہنے والے نشہ خوروں اور جوے بازوں نے، جیسا کہ افسانے میں ذکر ہے، بچی کی عصمت دری کی ہوگی۔ اور اس کام کو انجام دینے کے لیے جھاڑی یا جھوپڑی کی پناہ لی گئی ہوگی۔ لیکن کہانی میں بچی کے ساتھ اس زیادتی کے وقت افسانہ نگار نے کمرہ، بلب، دیوار اور پنکھے کا ذکر کیا ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بچی کی عصمت پکی دیواروں کے بیچ چھت کے نیچے لوٹی گئی۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ تالاب سے اٹھا کر بچی کو پکے مکان میں نہیں لے جایا جا سکتا۔ لیکن پھر کہانی کے دوسرے تار بکھر جائیں گے۔ سوال پیدا ہوگا کہ ‘شادی گھر’ کے باہر جس قسم کی بستی کا ذکر کیا گیا تھا اس کا مقصد کیا تھا؟ اور یہ کہ اگر بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی اور صورت حال یہ ہے کہ کئی لوگوں نے باری باری اپنی ہوس پوری کی تو پھر بچی گھر تک کیسے پہنچی؟ ظاہر سی بات ہے ایسی صورت میں اکیلے بغیر کسی تکلیف کا اظہار کیے گھر پہنچ جانا اور ماں کے کہنے پر دودھ گرم کرنے لگنا غیر حقیقی اور منطقی اعتبار سے تفہیم سے بالاتر ہے۔
افسانے کا چوتھا پہلو یہ ہے کہ اس کہانی کے ذریعہ افسانہ نگار نے ایک کم عمر متوسط (متوسط اس لیے کہ گھر میں گیس، پنکھا، بلب، بائک، صوفہ وغیرہ موجود ہیں۔ اور کم عمر اس لیے کہ وہ بچی گڑیا سے کھیلتی ہے، بہن سے لڑائی کرتی ہے، ضدی ہے اور اپنی مرضی سے بغیر سوچے ادھر ادھر نکل جاتی ہے۔) لڑکی کے خواب کو زندگی کے حقیقی مسائل سے جوڑ کر اس کی نفسیات کی تفہیم کی کوشش کی ہے۔ گویا کہانی میں خواب کو اس طریقے سے پیش کیا گیا ہے کہ وہ زندگی کا واقعہ معلوم ہو رہا ہے جیسا کہ نیر مسعود یا فرانز کافکا کے افسانوں میں نظر آتا ہے۔ اسے ایک زبردست Illusion سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس زاویے سے متن کا مطالعہ کرنے سے کچھ سوالوں کے جواب ضرور مل جاتے ہیں۔ البتہ ایسی صورت میں کہانی کے پہلے صفحہ اور اس سطر سے اخیر تک جہاں بچی قے کرنے کے بعد بد حواس ہو کر بستر پر گر پڑتی ہے اور چھت کو گھورنے لگتی ہے، تک کے حصے کو بچی کے وہم،غورو فکر،خواب یا تخیل سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح یہ کہنا درست ہوگا کہ بچی کی طبیعت آج کچھ ناساز تھی اسی وجہ سے وہ بار بار بستر پر گر جا رہی تھی۔ بعد میں اسے پیٹ میں شدید درد کا احساس ہوا اور قے بھی ہوئی۔ پیٹ درد کو ہم ایام حیض کی ابتدا ہونے کے الارم کے طور پر بھی Interprete کر سکتے ہیں۔ لیکن ایسی صورت میں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ بچی کے فرج (Vagina) میں جلن کیوں ہو رہی تھی؟ یہ تو حیض کی علامتوں میں سے نہیں۔ اور پھر قے کا تعلق بھی حیض سے نہیں ہے۔ فرج میں جلن سے معلوم ہوتا ہے کہ بچی کے ساتھ جلد ہی جنسی زیادتی ہوئی ہے اور یہ کثرت عمل کا نتیجہ ہے۔ ایسی صورت میں قے کے بھی امکانات موجود ہیں۔ گویا کہ بچی کی حقیقی زندگی میں بھی وہ حادثہ پیش آ چکا ہے جسے ہم خواب کی صورت میں سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک لمحہ کے لیے اگر اسے تسلیم بھی کر لیا جائے کہ ممکن ہے کبھی بچی کے ساتھ ایسا ہوا ہوگا، شاید اسی لیے آج قے دیکھ کر اسے وہ حادثہ یاد آ رہا ہے۔ لیکن اس حقیقت کا کیا کہ بچی کے فرج میں تیز جلن ہو رہی ہے اور سہلانے پر اسے تھوڑی راحت کا احساس ہوتا ہے۔ گویا یہ طے ہے کہ جنسی زیادتی اسی دن یا گزشتہ رات میں ہوئ ہے۔ ایسی صورت میں خواب اور حقیقت کے مابین ربط کی کاوشیں بھی ناکام ثابت ہوتی ہیں۔ لیکن ان سوالوں کے جوابات نہ ملنے سے کہانی کا جادوئی بیانیہ بے اثر نہیں ہوتا، بلکہ بعض خلاؤں کے ساتھ ہی ذہن پر ایک تصویر بناتا ہے۔ اسی لیے یہ کہنا ضروری ہے کہ مذکورہ چار جہات کے علاوہ تخلیق کار کے ذہن میں کہانی کی کوئی واضح شکل موجود ہونے کا بھی امکان باقی ہے۔ البتہ متن کے آزادانہ مطالعے نے میرے ذہن میں جو سوالات قائم کیے میں نے انھیں کی منطقی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ نئے قارئین مختلف زاویے سے اس کی تفہیم کریں گے اوربتائیں گے کہ بستر پر اگے ہوئے جسم کی تشکیل کیسے معنی خیز صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔ جس کے لیے میں دائم محمد انصاری کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔