( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
سب ہی کو خوب یاد ہوگا کہ گجرات حکومت کے ذریعے ، مرکز کی پشت پناہی سے ، بلقیس بانو کے مجرموں کو بچانے کی کتنی کوشش کی گئی تھی ! لیکن سپریم کورٹ نے کسی کی ایک نہ سنی تھی اور انہیں پھر سے جیل بھیجنے کا حکم سنایا تھا ، اور اس حکم کے لیے ملک کے انصاف پسندوں نے سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کیا تھا ۔ حال ہی میں حکومتِ گجرات نے اُسی سپریم کورٹ سے یہ درخواست کی تھی کہ بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی منسوخ کرنے کے معاملہ پر نظرثانی کرے ، یعنی انہیں رہا کر دے ۔ ظاہر ہے کہ یہ درخواست انصاف کے ہر تقاضے کو نظرانداز کرکے کی گئی تھی ، اور درخواست کرتے وقت حکومت گجرات نے یہ تک نہیں سوچا تھا کہ وہ ایسے افراد کو رہا کرنے کی بات کر رہی ہے ، جو ریپ اور قتل کے مجرم ہیں ، اور رہا ہونے کے بعد وہ مظلوم بلقیس بانو کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں ! یہ بے شرمی کی حد تھی ! سپریم کورٹ نے وہی کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا ، اس درخواست کو حکومت گجرات کے منھ پر دے مارا ۔ اس تازہ ترین فیصلے کو بھی اس ملک کے انصاف پسند تحسین کی نظروں سے دیکھ رہے اور اس کے شکر گزار ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ عدالت کا کام انصاف کی فراہمی ہے ، لیکن اس کے باوجود یہ شکریہ ضروری ہے ، کیونکہ عدالتوں نے ادھر ایک عرصے سے کچھ ایسے فیصلے کیے ہیں کہ ان پر سے بہتوں کا بھروسہ اٹھا ہوگا ۔ بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی اور آزادی میں بھی عدالتوں کا ایک بڑا کردار رہا ہے ۔ خیر دیر آید درست آید کے مصداق سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کو انصاف فراہم کیا تھا ، اور اب بھی وہ بلقیس بانو کو فراہم کردہ انصاف کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کو کامیاب ہونے نہیں دے رہا ہے ۔ بلقیس بانو کے مجرموں کی باعزت رہائی مسلمانوں کو ان کی اوقات بتانے کی کوششوں کا ایک حصہ تھا ۔ اس ملک میں ایک عرصے سے کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو ان کی اوقات بتادی جائے ۔ مطلب یہ کہ انہیں یہ بتا دیاجائے کہ سماج میں ان کی حقیقی جگہ کیا ہے ۔ یہ کون ہیں جو اوقات بتانا چاہتے ہیں ؟ یہ وہی ہیں جو بلقیس بانو کا اور نہ جانے کتنی ہی خواتین کا ریپ کرتے ہیں ، اور آرام کے ساتھ معافی پاکر جیل سے باہر آجاتے ہیں ، پھول سے لاد دیئے جاتے ہیں ، مٹھائیاں کھاتے اور کھلاتے ہیں ۔ اور ’سنسکاری‘ کہے جاتے ہیں ۔ ’ سنسکاری‘ کا مطلب ’ بااخلاق ‘ ہوتا ہے ! جی ! یہ جو یرقانی ہیں ، ان کی لغت میں زانی ، قاتل اور لٹیرے بااخلاق کہے جاتے ہیں ۔ وہ جو ’ ماب لنچنگ ‘ کرتے ہیں ، وہ بھی ان کے یہاں ’ بااخلاق ‘ یعنی ’ سنسکاری‘ ہیں ۔ اب یہی دیکھیے کہ دادری میں محمد اخلاق کی ’ ماب لنچنگ ‘ کرنے والے مجرم روی عرف رابن کی موت کے بعد اس کی لاش کو ترنگے سے لپیٹا گیا تھا ! یہ ہر اس شخص کو ، جس نے کسی غیر … مطلب کسی مسلمان یا دلت کی …’ ماب لنچنگ ‘ کی ہو ، ریپ کیا ہو ، اسے ’ قوم پرست ‘ سمجھتے بھی ہیں اور کہتے بھی ہیں ۔ اس ملک میں یہ سب ۲۰۱۴ کے بعد سے ، مودی سرکار کا قیام ہوتے ہی شروع ہو گیا تھا ۔ یہ جو مجرم ہیں ریپ کے، فساد کے اور مآب لنچنگ کے ان کی پذیرائی پہلے نہیں کی جاتی تھی ، لیکن مودی حکومت کے قیام کے بعد پذیرائی کو ایک معمول بنا لیا گیا ۔ لوگ بھولے نہیں ہوں گے جھارکھنڈ میں ’ ماب لنچنگ ‘ کرنے والوں کو ایک بھاجپائی سیاست داں جینت سنہا نے جو یشونت سنہا کے صاحب زادے ہیں ہار پھول پہنائے تھے ، راجستھان میں افرازل کو لائیو زندہ جلانے والے شنبھو یادو کی حمایت میں ترنگا یاترا نکالی گئی تھی ، آصفہ کے ریپسٹ اور قاتل ان کے لیے مہان تھے ! ان کے یہاں ہر وہ شخص جس نے فسادات کے دوران کسی غیر کی جان لی ہو ، اس کو اجاڑا ہو ، اس کے گھر کو دکان کو پھونکا ہو ، وہ سب کے سب ’ سنسکاری‘ ہیں ۔ اور ، وہ جو غیروں کے مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین کریں ، وہ تو ان کے یہاں پوجے جاتے ہیں ۔ نوپور شرما اور مہنت گیری کی مثالیں سامنے ہیں ۔ لیکن یہ حقیقتاً کیا ہیں اس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کر دیا ہے ۔ یہ مجرم ہیں ، یہ زانی ہیں ، یہ قاتل ہیں ، یہ لٹیرے ہیں ، یہ ظالم ہیں ، یہ جمہوریت اور شخصی آزادی کے دشمن ہیں ۔ ان سنسکاریوں پر روک لگنی ہی چاہیے تھی ، انہیں سزا ملنی ہی چاہیے تھی ، ان کی ناک میں نکیل پڑنا ہی چاہیے تھی ، انہوں نے بہت دن تک قانون کی ڈھیل کا فائدہ اٹھایا ہے اب قانون کو سختی سے پیش آنا ہی چاہیے تھا ، اور قانون سختی سے پیش آیا بھی ہے ۔ پہلے بھی بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی کا مقصد یہ جتانا تھا کہ ’ ہم جو چاہیں گے ویسا ہی ہوگا ۔‘ اور یہ درخواست بھی اسی مقصد کے لیے تھی ، لیکن سپریم کورٹ نے یہ جتا دیا ہے کہ تم نہیں کورٹ جیسا چاہے گی ویسا ہوگا ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)