ریاست بہار میں پارلیمانی انتخابات کی سیٹوں کی تقسیم کو لے کر گذشتہ کئی مہینوں سے سیاسی گلیاروں میں تذبذب کا ماحول تھا لیکن اب جب کہ قومی جمہوری اتحاد اور ’’انڈیا‘‘ اتحاد کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کا حتمی فیصلہ ہو چکا ہے اور اس تقسیم کے مطابق ریاست کی چالیس سیٹوں پر کون سی سیاسی جماعت کے امیدوار ہوں گے اس کے ناموں کا بھی اعلامیہ ہو چکا ہے تو اب یہ بات بالکل صاف ہوگئی ہے کہ اس بار کے پارلیامانی انتخاب میں قومی جمہوری اتحاد اور انڈیا اتحاد کے درمیان سیدھی سیاسی جنگ کے امکانات روشن ہیں۔واضح ہو کہ قومی جمہوری اتحاد بہار میں جنتا دل متحدہ جس کی قیادت نتیش کمار کر رہے ہیں ، لوک جن شکتی پارٹی رام ولاس جس کے سپریمو چراغ پاسوان ہیں اور ہندوستانی عوام مورچہ جس کی قیادت سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی کے ہاتھوں میں ہے ، ان کے ساتھ ساتھ اوپندر کشواہا کی پارٹی کے درمیان سیٹوں کی تقسیم پہلے ہی ہو چکی ہے کہ ریاست میں سترہ سیٹوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی انتخاب لڑے گی اور سولہ سیٹوں پر جنتا دل متحدہ کے امیدوار ہوں گے ۔جب کہ چراغ پاسوان کو پانچ سیٹیں دی گئی ہیں اور جیتن رام مانجھی و اوپندر کشواہا کو ایک ایک سیٹ دی گئی ہے۔انڈیا اتحاد میں لالو پرساد یادو کی قیادت والی راشٹریہ جنتا دل کو26؍ سیٹیں ملی ہیں اور کانگریس کے حصے میں 9؍ سیٹیں آئی ہیں جب کہ پانچ سیٹیں بایاں محاذ کو دی گئی ہیں۔ لیکن راشٹریہ جنتا دل نے اپنے حصے کی سیٹوں سے تین سیٹیں مکیش سہنی کی قیادت والی وی آئی پی پارٹی کو دی ہے اور ایسا فیصلہ کرکے لالو پرساد یادو نے قومی جمہوری اتحاد کے سامنے ایک بڑا چیلنج کھڑا کیا ہے کہ مکیش سہنی کے ذریعہ ریاست میں ملاّح ذات کے ووٹوں میں سیندھ ماری کرنے کی کوشش کی ہے ۔غرض کہ ان دونوں بڑے اتحاد نے اپنی سیٹوں کی تقسیم کے ساتھ ساتھ امیدواروں کے ناموں کا بھی اعلان کردیا ہے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور جنتا دل متحدہ نے تو ایک ہفتہ پہلے ہی اپنے امیدواروں کے نام کی فہرست جاری کردی تھی دریں اثناء چراغ پاسوان نے بھی اپنے پانچ امیدوارو ں کے نام جاری کردئے ہیں ۔ چراغ پاسوان خود اپنے والد آنجہانی رام ولاس پاسوان کی سیٹ حاجی پور سے انتخاب لڑیں گے جب کہ جموئی ریزرو سیٹ سے انہوں نے اپنے بہنوئی کو امیدوار بنایا ہے۔لوک جن شکتی کے واحد مسلم ممبر پارلیامنٹ چودھری محبوب علی قیصر جو کھگڑیا سے ممبر پارلیامنٹ تھے ان کا ٹکٹ کاٹ دیا گیا ہے ۔ غرض کہ اب تک کے اعلانیہ کے مطابق قومی جمہوری اتحاد میں صرف ایک مسلم امیدوار جنتا دل متحدہ کے ٹکٹ پر کشن گنج سے انتخابی میدان میں ہوں گے۔جہاں تک انڈیا اتحاد کا سوال ہے تو کانگریس کو جو 9؍ سیٹیں ملی ہیں ان میں کشن گنج سے جاویدآزاد اور کٹیہار سے طارق انور مسلم امیدوار کھڑے کیے گئے ہیں۔راشٹریہ جنتا دل چوں کہ مرحلہ وار اپنے امیدواروں کے نام جاری کر رہی ہے اس لیے اب تک جن ناموں کا اعلان ہوا ہے ان میں مدھوبنی پارلیامانی حلقہ سے ریاست بہار کے ایک قد آور مسلم لیڈر سابق مرکزی وزیر علی اشرف فاطمی کو امیدوار بنایا گیاہے۔ واضح ہو کہ فاطمی حال ہی میں جنتا دل متحدہ سے استعفیٰ دے کر پھر راشٹریہ جنتا دل میں شامل ہوئے ہیں۔اگرچہ فاطمی راشٹریہ جنتا دل کے پرانے لیڈر ہیں لیکن گذشتہ پارلیامانی انتخاب میں راشٹریہ جنتا دل کے ذریعہ ٹکٹ نہ دئے جانے کی وجہ سے وہ ناراض ہو کر جنتا دل متحدہ میں شامل ہوئے تھے۔
بہار میں سات مرحلوں میں پارلیامانی انتخابات مکمل ہوں گے اس لیے راشٹریہ جنتا دل مرحلہ وار امیدواروں کے نام کا اعلان کر رہی ہے البتہ ریاست کی دو سیٹوں کو لے کر راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس کے درمیان اب بھی گفت وشنید جاری ہے ۔حال ہی میں سابق ممبر پارلیامنٹ راجیش رنجن عرف پپو یادو نے اپنی پارٹی جن ادھیکار پارٹی کا کانگریس میں انضمام کیا تھا اور وہ پورنیہ پارلیامانی حلقہ سے انتخاب لڑنا چاہتے تھے مگر پورنیہ سیٹ کانگریس کو نہیں دی گئی ہے بلکہ یہاں سے راشٹریہ جنتا دل نے اپنے امیدوار کا نام جاری کردیا ہے ایسی صورت میں پپو یادو نے اس سیٹ سے بطور آزاد امیدوار دوستانہ طورپر میدان میں اترنے کا اعلان کرپرچۂ نامزدگی داخل کردیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو انڈیا اتحاد کے ووٹوں میں انتشار لازمی ہے ۔ اسی طرح کانگریس بہار کے اورنگ آباد سیٹ پر اپنے ایک قد آور لیڈر نکھل کمار سنگھ جو سابق آئی پی ایس آفیسر رہے ہیں اور ممبر پارلیامنٹ کے ساتھ ساتھ یو پی اے حکومت میں کیرل کے گورنر بھی تھے اور سابق وزیر اعلیٰ بہار ستندر نرائن سنگھ کے صاحبزادے ہیں، کو امیدوار بنانا چاہتی تھی لیکن یہ سیٹ بھی راشٹریہ جنتا دل نے اپنے حصے میں لے لیا ہے جس کی وجہ سے اب بھی کانگریس کے سامنے ایک بڑا مسئلہ ہے کہ پورنیہ اور اورنگ آباد میں وہ کس طرح اپنی پوزیشن کو مستحکم رکھے۔
ریاست بہار میں سیمانچل کی چھ پارلیامانی سیٹیں یعنی کشن گنج، کٹیہار ، پورنیہ ، سپول، ارریہ اور مدھے پورہ بایں معنی غیر معمولی سیاسی اہمیت کی حامل ہیں کہ ان سیٹوں کا فیصلہ مسلم اقلیتوں کے ہاتھوں میں ہے کہ یہ علاقہ مسلم اکثریت کا ہے۔مگر افسوسناک صورت یہ ہے کہ گذشتہ پارلیامانی انتخاب میں ان حلقوں میں مسلم اقلیت کے ووٹوں کے انتشا ر کی وجہ سے صرف کشن گنج سیٹ سے ہی مسلم امیدوار کانگریس کی ٹکٹ پر کامیاب ہو سکے تھے۔ظاہر ہے کہ مسلم اقلیت حلقے کی وجہ سے بیشتر سیاسی پارٹیاں مسلم امیدواروں کو ہی کھڑا کرتی ہیں ۔ اس بار بھی اب تک کے اعلانیہ کے مطابق کانگریس اور جنتا دل متحدہ دونوں نے مسلم امیدوار کھڑے کیے ہیں ۔ کٹیہار میں بھی کانگریس نے مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا ہے ۔جب کہ راشٹریہ جنتا دل ارریہ میں بھی مسلم امیدوارکے طورپر مرحوم تسلیم الدین کے صاحبزادہ سرفراز عالم کو کھڑا کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔واضح ہو کہ سیمانچل میں گذشتہ پارلیامانی انتخاب میں اسدالدین اویسی کی پارٹی بھی فعال ہے اور اس پارلیامانی انتخاب میں بھی انہو ں نے اپنے امیدوار کھڑا کرنے کا اعلان کیاہے۔کشن گنج سے انہوں نے اپنی پارٹی کے ریاستی صدر اخترالایمان کو امیدوار بنایا ہے اور بقیہ امیدواروں کی فہرست ابھی جاری نہیں کی ہے۔اس کا مطلب صاف ہے کہ سیمانچل میں قومی جمہوری اتحاد اورانڈیا اتحاد کے درمیان سیدھی جنگ نہیں ہوگی کہ یہاں سہ رخی مقابلے کے امکانات روشن ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ سیمانچل جس پر پورے ملک کی نگاہ ٹکی رہتی ہے کہ ملک میں تقریباً80مسلم اکثریت والے پارلیامانی سیٹوں میں چھ سیٹیں سیمانچل کی بھی شامل ہیں۔دریں اثناء بھارتیہ جنتا پارٹی کے کئی قد آور لیڈر کانگریس میں شامل ہوئے ہیں تو کئی کانگریسی اور راشٹریہ جنتا دل کے لیڈروں نے بھاجپا کا دامن تھاما ہے ۔ لیکن تین مرتبہ بی جے پی کی ٹکٹ پر ایم ایل اے بننے والے انیل کمار اور دو مرتبہ بی جے پی کی ٹکٹ پر ممبر پارلیامنٹ رہے اجئے نشاد نے کانگریس میں شامل ہو کر قومی جمہوری اتحاد کے لیے مشکل کھڑی کردی ہے ۔ وہیں جنتا دل متحدہ کے کابینہ وزیر مہیشور ہزاری کے بیٹے سنی ہزاری بھی کانگریس میں شامل ہوگئے ہیں اور امکان ہے کہ وہ سمستی پور سے ممبر پارلیامنٹ کا انتخاب لڑیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو نتیش کمار کابینہ کے دو وزیر یعنی ڈاکٹر اشوک چودھری کی بیٹی سامبھوی جو لوک جن شکتی پارٹی رام ولاس کے ٹکٹ پر انتخابی میدا ن میں ہے اور مہیشور ہزاری کابینہ وزیر کے بیٹے سنّی ہزاری کانگریس کے امیدوار کے طورپر اسی سیٹ پر آمنے سامنے ہوں گے جس کی وجہ سے یہ سیٹ کانگریس اور جنتا دل متحدہ دونوں کے لیے اہم ہو گئی ہے ۔
مختصر یہ کہ ریاست بہار میں جہاں پہلے مرحلہ میں پولنگ ہونی ہے ان کے امیدواروں نے پرچۂ نامزدگی داخل کردیا ہے اور دوسرے مرحلے کی پرچہ نامزدگی کا آغاز ہو چکا ہے۔اس لیے پارلیامانی انتخابات کی سرگرمیاں شباب پر ہیں ، ہر ایک اتحاد اپنے اپنے امیدواروں کے لیے جمہوری طریقہ کار سے انتخابی مہم چلا رہا ہے ۔4؍اپریل سے بھارتیہ جنتا پارٹی ، کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل کے سیاسی جلسوں کا پروگرام جاری کیا جا چکا ہے-وزیر اعظم نریند ر مودی کا پہلا انتخابی جلسہ جموئی پارلیامانی حلقہ میں ہو چکا ہے اور اب ہر ایک سیاسی جماعت اپنے بڑے لیڈروں کے سیاسی اجلاس میں زیادہ سے زیادہ بھیڑ دکھا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں اس لیے گاؤں دیہات سے لے کر ریاست کی راجدھانی تک سیاسی پارہ اپنے شباب پر ہے۔البتہ اس بار کا پارلیامانی انتخابات گذشتہ انتخابات سے قدرے مختلف ضرور ہے کہ انڈیا اتحاد اورقومی جمہوری اتحاد دونوں کے درمیان سیدھی سیاسی جنگ کے امکانات کی وجہ سے نہ صرف دلچسپ ہوگیاہے بلکہ بہار کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ کہنانہ صرف قبل از وقت ہوگا بلکہ بہت مشکل بھی ہے۔لیکن دونوں اتحاد کے لیے ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ باغی امیدواروں کا ایک دوسرے کا دامن پکڑنے کا سلسلہ جاری ہے اور اندرونی خلفشار کی وجہ سے بھی امیدواروں کے لیے طرح طرح کی دشواریاں کھڑی ہو رہی ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)